Sunday, 24 September 2017

زندگی میں زندگی کا احساس .............................HAPPINESS IN LIFE HOWصاحبزادہ میاں محمدا شرف عاصمی


زندگی میں زندگی کا احساس

صاحبزادہ میاں محمدا شرف عاصمی


خوشی کا احساس کیسے ہو سکتاہے اِس حوالے سے سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم خوشی کے ساتھ کتنے روابط قائم رکھے ہوئے ہیں۔خوشی کے ساتھ روابط کا مطلب یہ ہے کہ ہم خوشیاں بکھیرنے کے لیے کتنی سعی کرتے ہیں۔ ظاہر سی بات ہے ہمیں وہی چیز میسر آسکتی ہے جو چیز ہم دوسروں کو دئے رہے ہیں۔میرئے دوست ہیں ڈاکٹر عرفان ایک دفعہ اُنھوں نے مجھے ایک انگریزی جملہ کہا تھا کہ اگر تم کسی کو بغیر مسکراہٹ کے دیکھو تو اُسے اپنی مسکراہٹ دے دو۔ اب جناب خود ہی اندازہ لگا لیجیے کہ کتنا خوش قسمت ہوگا جو دوسروں میں مسکراہٹ تقسیم کرتا ہے۔ کہنے کو تو یہ بہت آسان سی بات لگتی ہے اور ہے بھی آسان اُس کے لیے جو اپنے خالق و مالک کا شکر ادا کرتا ہے۔ اِسی لیے کہا گیا کہ جو اپنے ہم عصر دوستوں کو شکریہ ادا نہیں کرتا وہ اپنے خالق کا بھی شکریہ ادا نہیں کرتا۔ اِسی طرح ایک دوست جو کہ اِس وقت ایک کامیاب ڈاکٹر ہیں اور خود بھی اپنی زندگی سے مطمن ہیں اور اللہ کی مخلوق بھی اُن سے مطمن ہے۔ وہ بچپن آج سے تیس سال قبل جب ہم بیس سال کے تھے مجھے کہا کرتے تھے کہ کاونٹنگ نہ کیا کرو ۔ جو مل گیا وہ ٹھیک ہے شکر کرو۔ مجھے حیرانی ہوتی ہے اُس دوست پہ کہ وہ بیس سال کی عمر میں بھی کتنا میچیور تھا اور واقعی وہ شخص مطمن زندگی بسر کر رہا ہے ۔اِس لیے دوستو: اگر ہم زندگی میں اپنا وطیرہ بنا لیں کہ ہم ہر وقت اللہ پاک کا شکر ادا کریں اور اپنے آس پاس کے لوگوں میں آسانیاں تقسیم کریں۔ اللہ پاک بے نیاز ہے اور وہ جسے چاہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہے ذلت۔ اللہ پاک کا جب قرب حاصل ہوجائے تو پھر اللہ کی دوستی میں تو پھر اللہ عزت سے نوازے گا۔ اِس لیے جب ہم اللہ پاک سے دوستی کا دم بڑھتے ہیں تو اِس کامطلب یہ ہے اللہ پاک کی باتیں بھی مانتے ہیں۔ جب ہم اللہ پاک کی مانتے ہیں تو پھر اللہ پاک بھی
ہماری سُنتا ہے۔ اور اللہ تو ستر ماؤوں سے زیادہ محبت اپنی مخلوق سے کرتا ہے تو پھر اللہ پاک ہمیں کیسے ذلت دے گا۔ اللہ کی دوستی قناعت سے مالا مال کردیتی ہے اور قناعت مومن کے لیے وہ عظیم قدرت کا صلہ ہے کہ موومن پھر دُنیاؤی آقاؤں کیمحتاجی سے بچ جاتا ہے۔ اِک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات۔تو دوستوں پھر بات تو یہ ہی سمجھ میں آتی ہے کہ وہ شخص جو اللہ پاک کی مخلوق سے محبت کرتا ہے اُسے پھر بدلے میں جو روحانی خوشی و سکون میسر آتا ہے اُس کا کوئی بدل نہیں ہوتا۔ یوں جب انسان اِس سٹیٹ آف مائنڈ سے ہم آہنگ ہوجاتا ہے تو پھر اُسکو حقیقی خوشی کا احساس ہوتا ہے۔ اُس کے لیے مادیت کی حقیقت مُردار سے زیادہ اور کچھ نہیں ہوتی۔ دُنیاوی زندگی اُس کے لیے ایسا سفر شمار ہوتا ہے جس نے بہت سرعت کے ساتھ طے ہوجانا ہوتا ہے۔ زندگی میں ابدیت نہیں ہے زندگی لافانی نہیں زندگی ایک ایسی پگڈنڈی ہے جس پر وہی زیادہ پُرسکون ہوسکتاہے جس کے پاس مادیت کے اسباب کم ہوں اور اُخروی زندگی کے اسباب زیادہ ہوں۔ اُخروی زندگی کے لیے راستہ بہت آسان ہے۔ اِس کے لیے کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے۔ جو چیز فطرتی تقاضوں کے خلاف ہے وہ انسان نہ کرئے۔ بھلا کرئے اُس کے ساتھ بھلا ہوگا۔ اگر کسی دوست کے ساتھ ہماری ناراضگی ہے ہمیں ایک دفعہ اُس کو احساس دلا کر اُس سے معذرت کرلینی چاہیے کیونکہ ایسا کرنے سے اُس ناراض دوست کا دل جیتا جاسکتاہے۔ معذرت کر لینے سے یہ نہیں ہوتا کہ ہم چھوٹے ہو گئے ہیں یا اُس کی شان میں اضافہ ہوگیا ہے۔ اِس سے ہمارا ضمیر مطمن ہوجائے گا۔ اور پچھتاوا جو ہمیں اندر ہی اندر سے ملامت کر رہا ہوتا ہے اور وہ پچھتاوا ہمار دُشمن بن جاتاہے اگر اُس کا تریاق نہ کیا جائے۔ اپنے اندر اپنا ہی دُشمن پالنے سے پھر انسان روحانی سکون سے محروم ہوتا چلا جاتا ہے اور وہ پھر ڈیپرشن کا شکار ہوجاتا۔ بات کرلینی چاہیے بات کرنے سے بات بن جاتی ہے کیونکہ بات کرنے سے مزید باتیں کرنے اور سُننے کا موقع ملتا ہے یوں باتیں کرنے سے نفس مطمن ہوجاتا ہے۔ ہمارئے ایک بہت پیارئے دوست ہیں جاوید مصظفائی وہ میرئے سکول کے کلاس فیلو ہیں۔ وہ ہمیشہ خوش رہتے ہیں اللہ پاک نے اُن کو عزت سے نوازا ہوا ہے اور دُنیاوی رفعتیں عطا کی ہیں لیکن جاوید صاحب انتہائی مطمن انسان ہیں۔وہ بے شک دُنیاداروں کے چنگل میں پھنسے ہوں جو ہر وقت انا پرستی کا شکار ہوں وہ مطمن رہتے ہیں اُن کے اندر مال و دولت کی وجہ سے کوئی بے چینی پیدا نہیں ہوتی۔ اُن کے اندر رونا دھونا نہیں ہے ۔ مجھے جب بھی ڈیپریشن ہو، بے چینی ہو میں فوری طور پر جاوید صاحب سے فون پر بات کرلیتا ہوں مجھے سکون مل جاتا ہے۔ ہر کسی کا کوئی ایسا دوست ضرور ہونا چاہیے جس سے دل کی ہر بات کی جاسکے۔ 

No comments:

Post a Comment