جی سی حسثام حسن چوہان شھید۔ شھیدِ راہ وفا
صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ
سرزمین سرگودہا ایسی زرخیز مٹی کی حامل جگہ ہے کہ اِس سرزمیں کو 1965 کی جنگ میں بہادری کی بدولت ہلال استقلال عطا ہوا۔عظیم ہوا باز جناب امتیا زبھٹی بھی اِسی سرزمین کے فرزند ہیں۔علم و دانش کے حوالے سے جناب صاحبزادہ عبدالرسول، جناب پروفیسر منور مرزاؒ ، پروفیسر مظفر مرزا ؒ ، مرزا ادیبؒ ، اور بہت شمار چمکتے ستارے ہیں۔ دین سے محبت رکھنے والی اِس فیملی پر اللہ پاک کا بہت کرم ہے ۔ جناب امیر چوہان جو کہ امان اللہ چوہان کے بڑے بھائی ہیں اُن سے میرا تعلق ہمیشہ بھائیوں جیسا رہا۔ چونکہ راقم سرگودہا میں مقیم رہا اور آستانہ زاویہ نوشاہی میں جناب ماموں جان حضرت حکیم میاں محمد عنائت خان قادری نوشاہیؒ کے زیر سایہ دو دہائیاں گزاریں۔ یوں جناب امان اللہ چوہان صاحب سے ہمیشہ احترام کا تعلق رہا اور ہمارے مشترکہ دوست جناب ملک وحید اعوان ایڈووکیٹ بھی ہمارے رابطے کا سبب ہیں۔اِسی طرح انصاف فاونڈیشن سرگودہا کے روح رواں جناب حافظ عبد الروف بھی ہمارے مشترکہ دوستوں میں سے ہیں۔اگست میں جناب ملک وحید اعوان ایڈووکیٹ کا مجھے ایس ایم ایس موصول ہوا جس میں جناب امان اللہ چوہان کے جواں سال صاحبزادے جی سی جناب حسثام چوہان کی شہادت کی بابت پیغام تھا۔دل بہت اُداس ہوگیا ۔ طبیعت بوجھل سی ہوگئی۔ہمت کرکے ملک وحید اعوان سے اِس خبر کے حوالے سے دریافت کیا۔ یوں صورتحال کا پتہ چلا کہ حسثام شھید ہوگئے ہیں۔ملک وحید نے مجھے کہا کہ تم امان اللہ چوہان کو فون کر لو۔ لیکن میرے اندر اتنی ہمت نہیں تھی کہ ایسا کر پاتا۔تفصیل پتہ چلی کہ حسثام باکسنگ کھیلتے ہوئے سر پر چوٹ لگنے سے شہید ہو گئے ہیں۔شہادت ہے مطلوب و مقصو دِمومن ہ مال غنیمت نہ کشور کشائی۔جناب حسثام حسن چوہان شھید کا سن پیدائش 6 جنوری 1997 ہے اور سن شہادت8 اگست 2016 ۔ یوں نعرہ تکبیر اللہ ہو اکبر کا نعرہ لگانے والی پاک فوج پی ایم اے137 کا جی سی ، اپنے رب کے حضور عین عالم شباب میں پیش ہوگیا۔انسانی جذبوں میں محبت کاعمل دخل ہی انسان کو جینے کی اُمنگ دئیے رکھتا ہے۔دنیا سے محبت نہ کرنے سے مراد مادییت سے ماورا ہونا ہے۔اِسی لیے خالق کا ابدی ہونا اور بندئے کا اِس جہاں میں فانی ہونا اور عالمِ برزخ میں پھر ہمیشہ کے لیے غیر فانی ہوجانا۔اِس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بندئے کا اس جہاں میں فانی ہونا اور پھر اگلے جہاں میں غیر فانی ہوجانا یقینی طور پر اِس دنیا کی حقیقت کے حوالے سے جس کسوٹی کو سمجھنے کی ضرورت ہے وہ یہ ہی ہے کہ یہاں عارضی قیام اور وہاں ہمیش۔ بندہ مومن کا جب اپنے رب سے ملاقات ہونے کا سبب بننے والی موت سے سامنا ہوتا ہے تو بندہ مومن کے لیے اُس کے رب کی جانب سے وہ موت تحفہ کا درجہ حاصل کر لیتی ہے۔ جتنی مرضی تدبیریں کر لیں آخر رخصت ہونا ہی ہے ۔ اِس لیے اِس دنیا کی محبت کو مردار سے تشبہ دی گئی ہے۔امام عالیٰ مقام حضرت امام حسینؓ کا اپنا سر کٹوانا قبول کر لینا۔اپنے خاندان کو اپنے سامنے شہید ہوتا دیکھنا منطور کر لینا۔حالانکہ جان بچانا تو لازمی امر ہے ۔لیکن جان کے بدلے میں سچائی کا ساتھ چھوڑنا حق نہیں ہے حق وہی ہے جو خالق کی رضا ہے۔ تو گویا اصل حقیقت گوشت پوست کی نہیں بلکہ روح کی ہے۔موت انسانی زندگی کے خاتمے کا نام نہیں بلکہ یہ تو انسانی زندگی کے اگلے دور کا نام ہے۔موت کے دروازئے سے گزر کر انسان اگلے دور میں داخل ہو جاتا ہے۔موت کا ذائقہ ہر کسی نے چھکنا ہے۔ذائقہ ایک کیفیت کا نام ہوتا ہے اِس کا وجود مستقل نہیں ہوتا۔جیسے اگر کوئی مشروب پیا جائے تو اُس کا ذائقہ کچھ دیر تک رہتا ہے لیکن اُس کے بعد اُس مشروب کے ذائقے والی کیفیت ختم ہوجاتی ہے ۔ یہی حال موت کا ہے کہ انسان نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے ، مرنا نہیں ہے۔چونکہ ذائقہ ایک بے حقیقت شے ہے ۔ ایک دن میں کئی مرتبہ ذائقہ آتا ہے اور ختم ہوجاتا ہے۔اِس لیے تو موت ذائقہ بن کر آتی ہے اور چلی جاتی ہے۔ اِس ذائقہ موت کی کیا مجال کہ وہ انسان کی حقیقت کو ختم کر سکے۔حضرت عمرؓ کا فرمانَ عالیشان ہے کہ لوگو: تم جب ایک مرتبہ پیدا ہوگئے تو پھر مستقل پیدا ہو گئے اب منتقل ہوتے رہو
گے۔پیدائش زندگی کا آغا ز ہے۔بچہ ماں کے پیٹ میں بھی زندہ ہوتا ہے۔ کھاتا پیتا ہے ۔پیدائش کا مطلب ہی یہ ہے کہ پیدائش سے پہلے بھی زندگی میں تھا۔ماں کے پیٹ سے دنیا میں آتا ہے۔پیدائش سے پہلے زندگی کا مقام اور تھا اور پیدائش کے بعد اور۔ماں کے پیٹ سے پہلے بھی تھا عالم ارواح میں۔جب بچہ ماں کے پیٹ سے آتا ہے تو روتا ہو ا آتا ہے ۔ وہ سمجھتا ہے کہ شائد اُس کی موت ہوگئی ہے۔ کیونکہ اُسکے لیے تو جہان اُس کی ماں کا پیٹ ہوتا ہے۔ وہ سب کچھ اُسی کو سمجھتا ہے اور وہاں سے نکالے جانے پر روتا ہے۔ لیکن جب وہ اس جہاں میں آتا ہے تو اُسے اِس جہاں کی وسعت کا اندازہ ہوتا ہے ۔ اُسے روشنی نظر آتی ہے ۔ وہ پھر ماں کے پیٹ میں جانے کی بجائے اِس دنیا کو اُس دنیا سے زیادہ بہتر خیال کرتا ہے۔اِسی طرح جب انسان اِس دنیا کو چھوڑ کر عالم بررزخ میں جاتا ہے تو اُسے یہ دنیا بھی ماں کے پیٹ کی طرح چھوٹی لگتی ہے اور واپس اِس دنیا میں نہیں آنا چاہتا۔جب وہ جنت کے نظارئے کرتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ دنیا تو ایک قید خانہ تھی۔وہ اپنے وطن کو جارہا ہوتا ہے پھر پردیس میں آنے کو اُس کا جی نہیں چاہتا۔ ساری راحتیں موت پر قربان ہوجاتی ہیں کیونکہ رب پاک سے جو ملنا ہوتا ہے۔نبی پاکﷺ کا فرمانِ عالیشان ہے کہ مردِ مومن کی موت کا جب وقت آتا ہے تو مومن کی روح ملائکہ کے جلوس کے ساتھ جاتی ہے۔ملک الموت کی قیادت میں پانچ سو فرشتوں کا وفد جلوس لے کر مومن کے پاس آتا ہے ۔ ملک الموت مردِ مومن کو سلام کرتا ہے۔ اور کہتا کہ کہ االلہ پانک نے آپ پر سلام بھیجا ہے۔روح قبض کرکے قبر میں نہیں لائی جاتی۔ ایک ایک آسمان کا دروازہ کھلتا چلا جاتا ہے اور ملائکہ اللہ پاک کے حضور روح کو پیش کرتے ہیں۔تمام ملائکہ اللہ کو سجدہ کرتے ہیں۔اور پھر تمام ملائکہ اللہ کے نیک بندئے کو اپنے جھرمٹ میں اللہ کے حضور سجدہ ریز کرواتے ہیں۔حدیث پاک کے الفاط ہیں کہ اللہ پاک حضرت میکائیل ؑ کو کہتے ہیں کہ روح کو واپس اُس جسم میں رکھ دو جہاں سے نکال کر لائے ہو۔روح جسم سے جدا ہونے کے بعد اللہ کے حضور سجدہ ریز ہونے کے بعد اُس کے جسم کو قبر میں رکھا جاتا ہے۔حدیث کے مطابق لوگ بندئے کے جسم کو دفن کر رہے ہوتے ہیں اور فرشتے روح کو اُس بندئے کے جسم میں داخل کردیتے ہیں۔ اللہ پاک حسثام حسن چوہان شھید کے درجات بلند فرماے اور اُن کی فیملی کو صبر عطا فرماے۔