Sunday, 23 October 2016

جی سی حسثام حسن چوہان شھید۔ شھیدِ راہ وفا... written by صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ


جی سی حسثام حسن چوہان شھید۔ شھیدِ راہ وفا

صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ


سرزمین سرگودہا ایسی زرخیز مٹی کی حامل جگہ ہے کہ اِس سرزمیں کو 1965 کی جنگ میں بہادری کی بدولت ہلال استقلال عطا ہوا۔عظیم ہوا باز جناب امتیا زبھٹی بھی اِسی سرزمین کے فرزند ہیں۔علم و دانش کے حوالے سے جناب صاحبزادہ عبدالرسول، جناب پروفیسر منور مرزاؒ ، پروفیسر مظفر مرزا ؒ ، مرزا ادیبؒ ، اور بہت شمار چمکتے ستارے ہیں۔  دین سے محبت رکھنے والی اِس فیملی پر اللہ پاک کا بہت کرم ہے ۔ جناب امیر چوہان جو کہ امان اللہ چوہان کے بڑے بھائی ہیں اُن سے میرا تعلق ہمیشہ بھائیوں جیسا رہا۔ چونکہ راقم سرگودہا میں مقیم رہا اور آستانہ زاویہ نوشاہی میں جناب ماموں جان حضرت حکیم میاں محمد عنائت خان قادری نوشاہیؒ کے زیر سایہ دو دہائیاں گزاریں۔ یوں جناب امان اللہ چوہان صاحب سے ہمیشہ احترام کا تعلق رہا اور ہمارے مشترکہ دوست جناب ملک وحید اعوان ایڈووکیٹ بھی ہمارے رابطے کا سبب ہیں۔اِسی طرح انصاف فاونڈیشن سرگودہا کے روح رواں جناب حافظ عبد الروف بھی ہمارے مشترکہ دوستوں میں سے ہیں۔اگست میں جناب ملک وحید اعوان ایڈووکیٹ کا مجھے ایس ایم ایس موصول ہوا جس میں جناب امان اللہ چوہان کے جواں سال صاحبزادے جی سی جناب حسثام چوہان کی شہادت کی بابت پیغام تھا۔دل بہت اُداس ہوگیا ۔ طبیعت بوجھل سی ہوگئی۔ہمت کرکے ملک وحید اعوان سے اِس خبر کے حوالے سے دریافت کیا۔ یوں صورتحال کا پتہ چلا کہ حسثام شھید ہوگئے ہیں۔ملک وحید نے مجھے کہا کہ تم امان اللہ چوہان کو فون کر لو۔ لیکن میرے اندر اتنی ہمت نہیں تھی کہ ایسا کر پاتا۔تفصیل پتہ چلی کہ حسثام باکسنگ کھیلتے ہوئے سر پر چوٹ لگنے سے شہید ہو گئے ہیں۔شہادت ہے مطلوب و مقصو دِمومن ہ مال غنیمت نہ کشور کشائی۔جناب حسثام حسن چوہان شھید کا سن پیدائش 6 جنوری 1997 ہے اور سن شہادت8 اگست 2016 ۔ یوں نعرہ تکبیر اللہ ہو اکبر کا نعرہ لگانے والی پاک فوج پی ایم اے137 کا جی سی ، اپنے رب کے حضور عین عالم شباب میں پیش ہوگیا۔انسانی جذبوں میں محبت کاعمل دخل ہی انسان کو جینے کی اُمنگ دئیے رکھتا ہے۔دنیا سے محبت نہ کرنے سے مراد مادییت سے ماورا ہونا ہے۔اِسی لیے خالق کا ابدی ہونا اور بندئے کا اِس جہاں میں فانی ہونا اور عالمِ برزخ میں پھر ہمیشہ کے لیے غیر فانی ہوجانا۔اِس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بندئے کا اس جہاں میں فانی ہونا اور پھر اگلے جہاں میں غیر فانی ہوجانا یقینی طور پر اِس دنیا کی حقیقت کے حوالے سے جس کسوٹی کو سمجھنے کی ضرورت ہے وہ یہ ہی ہے کہ یہاں عارضی قیام اور وہاں ہمیش۔ بندہ مومن کا جب اپنے رب سے ملاقات ہونے کا سبب بننے والی موت سے سامنا ہوتا ہے تو بندہ مومن کے لیے اُس کے رب کی جانب سے وہ موت تحفہ کا درجہ حاصل کر لیتی ہے۔ جتنی مرضی تدبیریں کر لیں آخر رخصت ہونا ہی ہے ۔ اِس لیے اِس دنیا کی محبت کو مردار سے تشبہ دی گئی ہے۔امام عالیٰ مقام حضرت امام حسینؓ کا اپنا سر کٹوانا قبول کر لینا۔اپنے خاندان کو اپنے سامنے شہید ہوتا دیکھنا منطور کر لینا۔حالانکہ جان بچانا تو لازمی امر ہے ۔لیکن جان کے بدلے میں سچائی کا ساتھ چھوڑنا حق نہیں ہے حق وہی ہے جو خالق کی رضا ہے۔ تو گویا اصل حقیقت گوشت پوست کی نہیں بلکہ روح کی ہے۔موت انسانی زندگی کے خاتمے کا نام نہیں بلکہ یہ تو انسانی زندگی کے اگلے دور کا نام ہے۔موت کے دروازئے سے گزر کر انسان اگلے دور میں داخل ہو جاتا ہے۔موت کا ذائقہ ہر کسی نے چھکنا ہے۔ذائقہ ایک کیفیت کا نام ہوتا ہے اِس کا وجود مستقل نہیں ہوتا۔جیسے اگر کوئی مشروب پیا جائے تو اُس کا ذائقہ کچھ دیر تک رہتا ہے لیکن اُس کے بعد اُس مشروب کے ذائقے والی کیفیت ختم ہوجاتی ہے ۔ یہی حال موت کا ہے کہ انسان نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے ، مرنا نہیں ہے۔چونکہ ذائقہ ایک بے حقیقت شے ہے ۔ ایک دن میں کئی مرتبہ ذائقہ آتا ہے اور ختم ہوجاتا ہے۔اِس لیے تو موت ذائقہ بن کر آتی ہے اور چلی جاتی ہے۔ اِس ذائقہ موت کی کیا مجال کہ وہ انسان کی حقیقت کو ختم کر سکے۔حضرت عمرؓ کا فرمانَ عالیشان ہے کہ لوگو: تم جب ایک مرتبہ پیدا ہوگئے تو پھر مستقل پیدا ہو گئے اب منتقل ہوتے رہو
گے۔پیدائش زندگی کا آغا ز ہے۔بچہ ماں کے پیٹ میں بھی زندہ ہوتا ہے۔ کھاتا پیتا ہے ۔پیدائش کا مطلب ہی یہ ہے کہ پیدائش سے پہلے بھی زندگی میں تھا۔ماں کے پیٹ سے دنیا میں آتا ہے۔پیدائش سے پہلے زندگی کا مقام اور تھا اور پیدائش کے بعد اور۔ماں کے پیٹ سے پہلے بھی تھا عالم ارواح میں۔جب بچہ ماں کے پیٹ سے آتا ہے تو روتا ہو ا آتا ہے ۔ وہ سمجھتا ہے کہ شائد اُس کی موت ہوگئی ہے۔ کیونکہ اُسکے لیے تو جہان اُس کی ماں کا پیٹ ہوتا ہے۔ وہ سب کچھ اُسی کو سمجھتا ہے اور وہاں سے نکالے جانے پر روتا ہے۔ لیکن جب وہ اس جہاں میں آتا ہے تو اُسے اِس جہاں کی وسعت کا اندازہ ہوتا ہے ۔ اُسے روشنی نظر آتی ہے ۔ وہ پھر ماں کے پیٹ میں جانے کی بجائے اِس دنیا کو اُس دنیا سے زیادہ بہتر خیال کرتا ہے۔اِسی طرح جب انسان اِس دنیا کو چھوڑ کر عالم بررزخ میں جاتا ہے تو اُسے یہ دنیا بھی ماں کے پیٹ کی طرح چھوٹی لگتی ہے اور واپس اِس دنیا میں نہیں آنا چاہتا۔جب وہ جنت کے نظارئے کرتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ دنیا تو ایک قید خانہ تھی۔وہ اپنے وطن کو جارہا ہوتا ہے پھر پردیس میں آنے کو اُس کا جی نہیں چاہتا۔ ساری راحتیں موت پر قربان ہوجاتی ہیں کیونکہ رب پاک سے جو ملنا ہوتا ہے۔نبی پاکﷺ کا فرمانِ عالیشان ہے کہ مردِ مومن کی موت کا جب وقت آتا ہے تو مومن کی روح ملائکہ کے جلوس کے ساتھ جاتی ہے۔ملک الموت کی قیادت میں پانچ سو فرشتوں کا وفد جلوس لے کر مومن کے پاس آتا ہے ۔ ملک الموت مردِ مومن کو سلام کرتا ہے۔ اور کہتا کہ کہ االلہ پانک نے آپ پر سلام بھیجا ہے۔روح قبض کرکے قبر میں نہیں لائی جاتی۔ ایک ایک آسمان کا دروازہ کھلتا چلا جاتا ہے اور ملائکہ اللہ پاک کے حضور روح کو پیش کرتے ہیں۔تمام ملائکہ اللہ کو سجدہ کرتے ہیں۔اور پھر تمام ملائکہ اللہ کے نیک بندئے کو اپنے جھرمٹ میں اللہ کے حضور سجدہ ریز کرواتے ہیں۔حدیث پاک کے الفاط ہیں کہ اللہ پاک حضرت میکائیل ؑ کو کہتے ہیں کہ روح کو واپس اُس جسم میں رکھ دو جہاں سے نکال کر لائے ہو۔روح جسم سے جدا ہونے کے بعد اللہ کے حضور سجدہ ریز ہونے کے بعد اُس کے جسم کو قبر میں رکھا جاتا ہے۔حدیث کے مطابق لوگ بندئے کے جسم کو دفن کر رہے ہوتے ہیں اور فرشتے روح کو اُس بندئے کے جسم میں داخل کردیتے ہیں۔ اللہ پاک حسثام حسن چوہان شھید کے درجات بلند فرماے اور اُن کی فیملی کو صبر عطا فرماے۔ 

Thursday, 6 October 2016

سید شاہ تراب الحق قادریؒ ۔ایک عہد ساز شخصیت WRITTEN BY صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی


سید شاہ تراب الحق قادریؒ ۔ایک عہد ساز شخصیت 

صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی 

میں دوپہر کے وقت لاہور ہائی کورٹ میں اپنے چیمبر میں تھا کہ پاکستان فلاح پارٹی لاہور کے صدر جناب ذیشان احمد راجپوت تشریف لائے اور یہ افسوس ناک خبر سُنائی کہ جناب شاہ تراب الحق قادری صاحبؒ کا وصال ہو گیا ہے ۔ ہرذی روح نے موت کا ذائقہ چھکنا ہے۔عشق رسولﷺ کی عظیم تحریک انجمن طلبہ ء اسلام کے ساتھ وابستگی کی بدولت ایسی ہستیوں کا بھی ذکر سننے میں ملتا رہا ہے جن کی خدمات نبی پاکﷺ کی محبت کے فروغ کے لیے بے شمار ہیں۔ کراچی میں کیوں کہ انجمن طلبہ ء اسلام کی بنیا دپڑی اور کراچی میں شاہ احمد نورانی ، حنیف طیب، افتخار غزالی، ریاض الدین نوری، مو لا نا جمیل نعیمی،معین نوری ، حفظ تقی ،حبیب صدیقی دیگر بہت سے احباب عشق رسولﷺ کے مشن سے وابستہ ہونے کی بناء پر دل وجان میں خصوصی احترام رکھتے ہیں۔ یقینی طور پر کراچی نے عشق رسولﷺ کے فروغ کے لیے ہمیشہ بہت کام کیا ہے۔جب بھی کراچی کے حوالے عشق رسول ﷺ کی تحریک کے حوالے سے کسی بزرگ ہستی کا نام ذہن میں آتا تو وہ جناب سید شاہ تراب الحق قادری صاحبؒ کی ہوتی۔ قبلہ شاہ صاحب نے اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ عشق رسولﷺ کے لیے رکھا۔ تصنیف و تالیف ، خطابت، دین کی تبلیغ۔ عوام کی فلاح کے لیے سیاست۔زندگی کے سارئے شعبہ جات میں جناب شاہ صاحبؒ کا کردار انمٹ ہے۔آپ ؒ کی بیماری کی بابت پتہ چلتا رہتا ۔ آپ کافی عرصہ سے بیمار تھے۔ ایک دفعہ انجمن طلبہ اسلام کی تاریخ مرتب کرنے والے عظیم عاشق رسولﷺسید شاہ تراب الحق قادریؒ وہ شخصیت تھے کہ جن کانام ذہن میں آتے ہی عشق رسولﷺ کی روحانی سرشاری محسوس ہوتی ہے۔ آپؒ کی ولادت 27 ماہ رمضان سن 1946ء کو ہوئی۔آپؒ قیام پاکستان سے ایک سال قبل 1946ء میں ماہ رمضان کی 27 تاریخ کو ہندوستان کی اس وقت کی ایک ریاست حیدرآباد دکن کیایک شہر ناندھیڑ کے مضافات میں موضع کلمبر میں پیدا ہوئے۔آپؒ کے والد ماجد کا نام حضرت سید شاہ حسین قادری بن سید شاہ محی الدین قادری بن سید شاہ عبداللہ قادری بن سید شاہ مہراں قادری تھا اور آپ ؒ کی والدہ ماجدہ کا نام اکبر النساء بیگم تھا اور آپؒ والد ماجد کی طرف سے سید ہیں اور والدہ ماجدہ کی طرف سے فاروقی ہیں یعنی سلسلہ نسب امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے۔ اپنے وقت کے جید عالم، مدیر المہام امور مذہبی حیدرآباد دکن حضرت علامہ مولانا انوار اللہ خان صاحب فاروقی علیہ الرحمہ سے آپؒ کا ننھیال ہے۔ حضرت علامہ مولانا انوار ا للہ خان صاحب ایک متبحر عالم دین تھے جن کی تبحر علمی کا اندازہ ان کی تصانیف ’’کتاب العقل‘‘اور ’’مقاصد الاسلام‘‘ کے مطالعے سے لگایا جاسکتا ہے۔تقسیم ہند، سقوط حیدرآباد دکن کے بعد 1951ء میں ہندوستان سے ہجرت فرما کر پاکستان تشریف لائے۔ سقوط حیدرآباد دکن میں آپؒ کے تایا محترم سید شاہ امیر ا للہ قادری کو شہید کردیا گیا تھا اور پاکستان تشریف لاکر آپ ؒ نے کراچی میں قیام فرمایا۔ کچھ عرصہ پی آئی بی کالونی میں، پی آئی بی کے قریب لیاقت بستی نامی آبادی میں رہے۔ اس کے بعدکورنگی منتقل ہوگئے۔ابتدائی تعلیم مدرسہ تحتانیہ دودھ بولی بیرون دروازہ نزد جامعہ نظامیہ حیدرآباد دکن میں حاصل کی۔ پاکستان آنے کے بعد پی آئی بی کالونی (کراچی) میں قیام کے دوران ’’فیض عام ہائی اسکول‘‘ میں تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد اپنے رشتے کے خالو اور سسر پیر طریقت رہبر شریعت ولی ا للہ نعمت قاری مصلح الدین صدیقی علیہ الرحمہ سے گھر پر کتابیں پڑھیں، پھر ’’دارالعلوم امجدیہ‘‘ میں داخلہ لے لیا جہاں زیادہ تر اسباق قاری صاحب علیہ الرحمہ کے پاس پڑھے اور سند صدر الشریعۃ بدر الطریقہ حضرت علامہ امجد علی اعظمی (متوفی 1367ھ) علیہ الرحمہ کے صاحبزادے شیخ الحدیث حضرت علامہ عبدالمصطفی ازہری علیہ الرحمہ سے حاصل کی جو اس وقت ’’دارالعلوم امجدیہ‘‘ کے شیخ الحدیث تھے جبکہ اعزازی سند وقار الملت سرمایہ اہلسنت حضرت علامہ مفتی محمد وقار الدین قادری رضوی حنفی علیہ الرحمہ سے حاصل کی جو اس وقت ’’دارالعلوم امجدیہ‘‘ کراچی کی مسند افتاء پر فائز تھے۔آپؒ کا نکاح 1966ء میں پیر طریقت ولی نعمت حضرت علامہ قاری محمد مصلح الدین صدیقی علیہ الرحمہ کی دختر نیک اختر سے ہوا۔ جس سے ا للہ تعالیٰ نے تین فرزند سید شاہ سراج الحق، سید شاہ عبدالحق اور سید شاہ فرید الحق اور چھ بیٹیاں عطا ہوئیں جن میں سے ایک کا تین سال کی عمر میں ہی وصال ہوگیا۔ باقی الحمد ا للہ بقید حیات ہیں۔آپؒ کے بڑے صاحبزادے سید شاہ سراج الحق نے درس نظامی کی اکثر کتب کا سبقاً سبقاً مطالعہ کرنے کے بعد موقوف کردیا جبکہ منجھلے صاحبزادے سید شاہ عبدالحق قادری نے بفضلہ تعالیٰ ’’دارالعلوم امجدیہ‘‘ سے سند فراغت حاصل کی۔ ان کے بارے میں حضرت سید شاہ تراب الحق قادریؒ فرماتے ہیں ’’جب سید عبدالحق کی پیدائش ہوئی تو پیر طریقت حضرت علامہ قاری مصلح الدین علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ ان کا نام محقق شاہ عبدالحق محدث دہلوی کی نسبت سے شاہ عبدالحق رکھو۔ شاید عالم دین بن جائے۔ لہذا قاری صاحب علیہ الرحمہ کے ارشاد کے مطابق شاہ عبدالحق رکھا گیا۔ خدا کا کرنا دیکھئے یہی بیٹا میرا عالم دین بنا۔ الحمدا للہ موصوف عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ اچھے مقرر بھی ہیں اور اپنے والد بزرگوار کی جگہ اکثر آپ ہی وعظ فرمانے تشریف لے جاتے ہیں۔ حضرت کے قائم کردہ دینی ادارے ’’دارالعلوم مصلح الدین‘‘ کا انتظام بھی انہی کے سپرد ہے اور ’’آخوند مسجد‘‘ کھارادر میں خطابت کے فرائض بھی انجام دیتے ہیں۔ چھوٹے صاحبزادے سید شاہ فرید الحق قادری اپنا کاروبار کرتے ہیں۔ شاہزادیوں میں آپ کی چھوٹی لخت جگر بھی عالمہ ہے۔1962ء میں بذریعہ خط اور 1968ء میں بریلی شریف حاضر ہوکر امام اہلسنت امام احمد رضا محدث بریلوی (متوفی 1340ھ) کے چھوٹے فرزند مفتی اعظم ہند حضرت علامہ مولانا مصطفی رضا خان صاحب کے دست حق پرست پر بیعت ہوئے۔ اس سفر میں آپ تیرہ روز حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ کے دولت خانے پر قیام پذیر رہے اور آپ سے تعویذات کی تربیت اور اجازت بھی حاصل کی۔ اسی دوران ’’مسجد رضا‘‘ میں نمازوں میں امامت فرماتے اور حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ ان کی اقتداء میں نمازیں ادا فرماتے، نیز کئی جلسوں میں حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ کی موجودگی میں تقریر فرمائی اور داد تحسین حاصل کی۔سلسلہ عالیہ قادری، برکاتیہ،اشرفیہ، شاذلیہ، منوریہ، معمریہ اور دیگر تمام سلاسل میںآپؒ کو اپنے پیر حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ، اپنے استاد و سسر پیر طریقت حضرت علامہ قاری مصلح الدین علیہ الرحمہ اور قطب مدینہ شیخ عرب و عجم حضرت علامہ مولانا ضیاء الدین مدنی علیہ الرحمہ کے صاحبزادے زینت العلماء مولانا فضل الرحمن مدنی علیہ الرحمہ سے خلافت و اجازت حاصل کی۔ ’’ماہنامہ مصلح الدین‘‘ کی اشاعت خاص ’’مصلح الدین نمبر‘‘ (اگست 2002/ جمادی الاخر 1223ھ) کے صفحہ 65 میں ہے کہ قبلہ قاری صاحب علیہ الرحمہ نے مورخہ 27 جمادی الثانی 1402ھ بمطابق 22 اپریل 1982ء بروز جمعرات بعد نماز عشاء بمقام میمن مسجد مصلح الدین گارڈن بتقریب خرقہ خلافت سند اجازت اور محفل نعت بروانگی عمرہ حاضری دربار مدینہ میں حضرت علامہ سید شاہ تراب الحق قادری ؒ کو سند خلافت اور اجازت بیعت عطا فرمائی۔اس سے قبل جب آپ 1977ء میں تبلیغی دورے پر نیروبی (کینیا) تشریف لے گئے۔ واپسی پر فریضہ حج ادا فرمایا۔ اسی سفر حرمین شریفین میں ضیاء الملت والدین حضرت علامہ مولانا ضیاء الدین مدنی علیہ الرحمہ کی صحبت میں کئی روز تک رہنے کی سعادت حاصل ہوئی۔1965ء تا 1970ء چھ سال ’’محمدی مسجد‘‘ کورنگی کراچی میں اور 1970ء تا 1982ء بارہ سال ’’اخوند مسجد‘‘ کھارادر کراچی میں امامت و خطابت فرماتے رہے پھر جب 1983ء میں آپ کے استاد و سسر قاری مصلح الدین علیہ الرحمہ (جوکہ اپنی نیابت و خلافت آپ کو پہلے ہی عنایت فرماچکے تھے) نے اپنے وصال سے دو سال قبل ’’میمن مسجد‘‘ مصلح الدین گارڈن سابقہ کھوڑی گارڈن کراچی کی امامت و خطابت آپ کے سپرد فرمائی۔ اس وقت سے تا وفات آپؒ قاری صاحب علیہ الرحمہ کی دی ہوئی ذمہ داری کو نبھا تے رہے۔جس وقت ’’اخوند مسجد‘‘ کھارادر کراچی میں امامت و خطابت کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ اس وقت نوجوانوں کی خاصی تعداد آپؒ کے حلقہ درس میں شامل ہوئی اور کئی تنظیمیں قائم ہوئیں جن میں سنی باب الاشاعت، تحریک عوام اہلسنت، انجمن اشاعت الاسلام، جمعیت اشاعت اہلسنت (1)، حقوق اہلسنت اور دعوت اسلامی (2) وغیرہا معرض وجود میں آئیں۔تقاریر کا سلسلہ آپ نے 1962ء میں شروع کیا جبکہ آپ ابھی طالب علم تھے، فراغت کے بعد مادر علمی ’’دارالعلوم امجدیہ‘‘ کراچی سے مبلغ کے طور پر خدمات انجام دیں، ہر جلسہ میں ’’دارالعلوم امجدیہ‘‘ کی جانب سے خطیب کے طور پر جانے جاتے تھے۔ وہ ایسا دور تھا کہ آپ ایک دن میں بارہ بارہ تقاریر بھی کرتے تھے۔وہ دور جب مولوی احتشام الحق تھانوی نے سرکاری و نجی دفاتر میں ہونے والے میلاد شریف کے جلسوں میں اپنا سکہ بٹھا دیا تھا۔ اس وقت حضرت نے اپنی مصروفیات کے باوجود سرکاری، نیم سرکاری ونجی اداروں، بینکوں اور دیگر دفاتر میں ہونے والے میلاد شریف کے جلسوں میں جاکر مسلک حق اہلسنت کے فروغ کے لئے تبلیغ فرمائی اور اس کا سلسلہ اڑتیس سال سے زائد عرصہ تک چلتا رہا پھر آپ نے طبیعت کی ناسازی اور مصروفیت کی زیادتی کی بناء پر تقاریر کا سلسلہ تقریبا موقوف کردیا۔۔دین متین کی تبلیغ و اشاعت میں آپ نے بھرپور حصہ لیا۔ اپنی تقاریر اور مواعظ حسنہ کے ذریعے کونے کونے میں اسلام کی دعوت کو عام کیا۔ یہ سلسلہ 1977ء سے شروع ہوا، جب آپ نے پہلا دورہ نیروبی کینیا کا فرمایا اور لوگوں کی دعوت پر کئی بار عرب امارات، سری لنک، بھارت، بنگلہ دیش، برطانیہ، ہالینڈ، جرمنی، بیلجیم، امریکہ، ساؤتھ افریقہ، کینیا، تنزانیہ، زمبابوے، عراق، زنزیبار، زمبیا، فرانس، اردن اور مصر تشریف لے گئے اور سرکاری وفد کے رکن کی حیثیت سے آپ نے اس وقت کے وزیراعظم محمد خان جونیجو مرحوم کے ہمراہ عوامی جمہوریہ چین کا دورہ کیا اور ’’کنزالایمان‘‘ اور اہلسنت و جماعت کا لٹریچر وہاں کے مسلمانوں تک پہنچایا، نیز سرکاری وفد کے رکن کی حیثیت سے اردن اور مصر کا بھی دورہ فرمایا۔جن ممالک میں آپ تشریف لے گئے،قومی اسمبلی کے رکن رہے۔ بے شمار کتب لکھیں۔ہزاروں لاکھوں لوگوں کے دلوں میں عشق رسولﷺ کی تڑپ پیدا کی۔ عظیم المرتبت جناب سید شاہ تراب الحق قادریؒ کا فیضان ہمیشہ جاری و اسری رہے گا۔ اللہ پاک جناب شاہ صاحب کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔( آمین)