ہبہ/ گفٹ کے حوالے سے سپریم کورٹ پاکستان کی تشریح
صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ
2017SCMR-1110
کے مطابق سپریم کورٹ آف پاکستان میں عبدلارحمن بنام مجیداں بی بی میں جسٹس اعجاز افضل خان اور جسٹس دوست محمد خان نے ہبہ یعنی گفٹ کرنے کے حوالے سے ایک لینڈ مارک فیصلہ سُنایا ہے۔ہبہ کے قانون میں میں اصل میں تین لازمی شرائط ہیں۔ اگر اِن میں سے کوئی ایک بھی شرط پوری نہ کی گئی ہو تو ہہ کی قانونی حثیت نہ ہوگی۔وہ تین شرائط مندرجہ ذیل ہیں۔1۔ ہبہ دہندہ کی طرف سے جو کہ بالغ،عاقل ہو جائیداد کا مالک ہو۔ اور وہ ہبیہ کرنے کی پیش کش کا کھلا اظہار کرئے2۔ہبہ گریندہ جو کہ عاقل و بالغ ہو کی طرف سے پیش کش کا تحریری یا اعلانیہ طور پر اظہارِ قبولیت کرنا۔3۔ اگر ہبہ دہندہ خود قابضِ جائیداد نہ ہو۔جائیدادِ ہبہ کسی تیسرئے فریق کے قبضے میں ہو جیسے کہ مزارع یا کرایہ دار یا پٹہ دار کے قبضے میں ہو۔ تو ہبہ دہندہ اُس کے سامنے زبانی اعلان کرئے یا تحریری نوٹس دے کہ اس دن سے ہبہ گریندہ کو مالک/ مالکہ تصور کیا جائے اور جائیداد کی آمدن یا کرایہ یا پٹہ داری/ عوضانہ نئے مالک کو ادا کرنا شروع کردے۔موجودہ کیس میں بوقت زبانی ہبہ مبینہ ہبہ گریندہ کم سن، نابالغ تھا لہذا وہ ازروئے قانون کسی قسم کا معائدہ کرنے کا مجاز نہ تھا۔اور نہ ہی مبینہ ہبہ گریندہ کی جانب سے کسی سرپرست نے اِس مبینہ پیش کش کو قبولیت بخشی۔ مزید یہ کہ جس وقت جس دن کافی عرصہ قبل مبینہ ہبہ کا اعلان کیا گیا ۔اراضی متدعوعہ کا قبضہ مبینہ ہبہ گریندہ کو نہیں دلایا گیا یوں پورا عمل ہبہ قانون کی رو سے باطل اور ناقابلِ عمل تھا۔دیہاتی ان پڑھ اور ناسمجھ خواتین سے اگر مصدقہ رجسٹری کے ذریعے بھی جائیداد بطور ہبہ لی گئی ہوپھر بھی قوی بار ثبوت، ہبہ سے فائدہ اُٹھانے والے پر ہے ا ور رجسٹری ہبہ کو اِس صورت میں وہ قانونی حثیت حاصل نہ ہوگی اُس معائدے کے مقابلے میں جو کہ گیرندہ نے کسی اعلیٰ تعلیم یافتہ عاقل بالغ شخص کے ساتھ ہبہ کا معائد ہ کیا ہو۔ پردہ نشین دیہاتی خاتون کے ساتھ اِس قسم کا معائدہ کرنے سے شفافیت اور مکمل احتیاظ برتنے کو لازمی قرار دیا گیا ہے بصورت دیگر اِس قسم کے معائدے کو عمومی طور پر مشکوک تصور کیا جائے گا۔ اِس کیس میں عدالت نے کل سات ایشوز وضع کیے تاہم ایشو نمبر دو کا غلط طور پر خلاف قانون و خلاف ضابطہ بار ثبوت فریقین پہ رکھا گیا حالانکہ واقعات کی رو سے اِس ایشو کا بارِ ثبوت اپیل کندہ مدعاعلیہ پر تھا۔ شاید اس وجہ کی بناء پر عدالتِ ابتدائی سماعت و عدالتِ ضلعی اپیل نے شہادت بر مثل کا غلط تجزیہ کرتے ہوئے غلط اور غیر قانونی نتیجہ اخذ کیا اور مسہول علہیہ کا دعویٰ و اپیل خارج کیے۔ مسول علہیہ نے نگرانی دیوانی نمبری 2007/D 242 ہائی کورٹ میں دائر کی جو کہ فاضل جج صاحب نے دونوں عدالوں کے احکام و ڈگری کو مسترد کرے ہوئے مسول علہیہ منظور کی اور دعوی متعدیہ مسول علہیہ میں ڈگری صادر کی جس سے نالاں ہو کر اپیل کندہ نے براہ راست اپیل ہذا دائر کی۔ اِس مقدمہ میں وقعات کچھ اِس طرح کے ہیں جس سے فریقین کو انکار نہیں جیسا کہ مسول علہیہ کی اراضی میں مطلوبہ ملکیت سے انکار نہیں کیا گیا ہے۔اور یہ کہ ہبہ گریندہ اور ہبی دہندہ دونوں آپس میں بہن بھائی ہیں۔اِس امر سے کوئی بھی انکار نہیں کرتا کہ اپیل کنندہبوقتِ مبینہ ہبہ کمسن و نابلغ تھا۔ اگرچہ مسول علہیہ کی والدہ مرحومہ سے بھی اپیل کنندہ کے حق میں اِسی روز ہی اپنے حصہ ملکیت کو ہبہ کیا تاہم یہامر عیاں ہے کہ اِس وقت اپیل کنندہ کی والد ہ مرحومہ کو قا نونی حثیت مسول علہیہ کے ہو بہو تھی کیونکہ وہ ہبہ دہندہ تھی لہذا وہ کسی صورت میں بیک وقت قانونی ولی یا سرپرست کی حثیت سے عاری تھی۔ہمارے زمانہ میں یہ نرواج عام ہوتا جا رہا ہے کہ زندگی میں اپنی جائیداد تقسیم کر دیتے ہیں لیکن صحابہ رضی اللہ عنھم، تابعین و ائمہ کے دور میں اس کا ثبوت نہیں ملتا ہے کہ کسی نے بھی اپنی زندگی میں جائیداد تقسیم کر دی ہو، بنا بریں صحیح طریقہ یہ ہے کہ شخص کے فوت ہونے کے بعد شرعی طریقہ پر اس کا مال تقسیم کیا جائے۔کوئی شخص مورث نہیں بن سکتا جب تک وہ وفات نہ پا جائے۔ اسی طرح موت کے بغیر اس کے
کسی قریبی کو اس کا وارث قرار دینا بھی صحیح نہیں اور نہ ہی زندگی میں مورث اور وارث کے اعتبار سے ان کے درمیان ورثہ منتقل ہو سکتا ہے۔ اس لیے کہ مورث اور وارث کا اطلاق موت کے بعد ہوتا ہے۔ موت سے پہلے نہیں ہوتا۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے دو نہیں، بلکہ تین آیات اور ایک حدیث بیان کی ہے اور ان سے استدلال کیا ہے کہ موت کے بغیر کوئی شخص مورث نہیں ہو سکتا۔ یہ مفہوم اور معنیٰ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور لغتِ عرب سے منقول ہے۔ لہذا جو شخص زندہ رہتے ہوئے اپنی جائیداد اپنے اقرباء میں بحیثیت ان کے وارث ہونے کے ان کے درمیان تقسیم کرتا ہے وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی مخالفت کرتا ہے۔ اس میں کسی کو اختلاف نہیں ہو سکتا مگر ہبہ کا مسئلہ اس سے مختلف ہے اگر کوئی شخص اپنی زندگی میں اپنے اقرباء کے درمیان جائیداد تقسیم کر دے جو اس کی موت کے بعد وارث ہونے کے اہل ہیں یا اہل نہیں تو شریعت کی طرف سے اس پر کوئی مواخذہ نہیں، بشرطیکہ ہبہ میں اس کی شرائط کو ملحوظ رکھا جائے۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے باب کا اطلاق اس پر نہیں ہوتا۔نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کے والد بشیر نے جب اپنے ایک لڑکے کو غلام دے کر رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو گواہ بنانا چاہا .تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا:
یعنی ''اس طرح باقی اولاد کو بھی عطیہ دیا ہے؟'جواب ملا کہ ''نہیں'' آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جور و ظلم پر گواہ بننے سے انکار کر دیا اور فرمایا: ''اعدلوا بين اولاد?م'' اور ایک روایت میں ''سووا بين اولاد?م'' ہے یعنی ''عطیہ کے وقت اولاد میں عدل اور برابری کرو۔''اس حدیث سے دو باتیں معلوم ہوئیں۔1۔ ہبہ اور وراثت کے احکام الگ الگ ہیں۔ ہبہ کا اطلاق زندگی میں اور وراثت کا اجراء موت کے بعد ہوتا ہے۔ نیز ہبہ اور وراثت کی تقسیم میں بھی جمہور ائمہ نے فرق بیان کیا ہے کہ ہبہ کی صورت میں لڑکی کا حصہ لڑکے کے حصہ کے برابر ہے۔ مگر وراثت کی صورت میں لڑکی کا حصہ لڑکے کے حصہ سے نصف ہے۔2۔ نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کی حدیث سے جو دوسری بات واضح ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ انسان اپنی زندگی میں اولاد وغیرہ کے درمیان بصورتِ ہبہ جائیداد وغیرہ تقسیم کرنے کا مجاز ہے۔ شرط یہ ہے کہ اس کا مقصد کسی پر جور و ستم نہ ہو۔
No comments:
Post a Comment