Tuesday, 26 September 2017

The Search.. overview by Ashraf Asmi افضل چوہدری کی تلاش صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ




افضل چوہدری کی تلاش

صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ 

چوبیس ستمبر 2017 لاہورکی ایک دوپہر جس میں گرمی کی شدت نہ تھی اور موسم خوشگوار ہی تھا۔ اتوار ہونے کی وجہ سے مال روڈ کو خاموشی نے اپنے دامن میں سمیٹ رکھا تھا۔ میں اپنے بیٹے حذیفہ اشرف کے ساتھ اپنے محترم دوست صحافی جناب افضل چوہدری کی خصوصی دعوت پر اُنکی کتاب تلاش کی تقریب رونمائی میں شرکت کے لیے کرسٹل ہال پی سی ہوٹل کی جانب رواں دواں تھا۔جبب ہم پی سی ہوٹل پہنچے تو کرسٹل ہا ل میں جناب افضل چوہدری نے بہت ہی خوبصورت محفل سجا رکھی تھی۔ سٹیج پر اوریا مقبول جان، مجیب الرحمن شامی، ڈاکٹر صغریٰ صدف، ناصر ادیب،حافظ حسین احمد، فرید پراچہ، ولید اقبال، ایم این حاجی وحید و دیگر تشریف فرما تھے۔جناب افضل چوہدری دلہا بنے ہر کسی سے انتہائی پُرتپاک انداز میں مل رہے تھے۔جناب افضل چوہدری نے اپنے عزیز اقارب اپنے دوستوں کی بہت بڑی تعداد کو تقریب میں مدعو کر رکھا تھا۔ولید اقبال نے کتاب تلاش جو کہ ادیان کی ایک تاریخ بیان کرتی ہے جس میں الہامی مذاہب اور دُنیاوی طور پر بنائے گئے مذاہب کا ذکر ہے کو بہت اچھے انداز میں پیش کیا۔ولید اقبال نے کتاب کے مندرجات کے حوالے سے انتہائی مختصر اور جامع گفتگو کی اور حاضرین کے دل موہ لیے۔ میاں شہباز صدر پریس کلب لاہور نے بھی اچھا خطاب کیا اور انسانی آزادیوں کی گھمبیر صورحال کے حوالے سے اپنا نقطہ نظر پیش کیا۔ ناصر ادیب جنہوں نے مولاجٹ شیر خان جیسی فلمیں لکھی تھیں اُنھوں نے انہتائی خوبصورت گفتگو کی۔ زندگی کے احساسات کو جس طرح اُنھوں نے الفاظ کا رنگ دیا یہ اُنھی کا ملکہ ہوسکتا ہے۔ ڈاکٹر صغریٰ صدف جو پلاک کی ڈائریکٹر جنرل ہیں انتہائی خوبصورت گفتگو کرتی ہیں۔اُنھوں نے بہت ہی شاندار انداز میں مذاہب کو ماننے والوں کو امن و آشتی کا سبق یاد دلایا۔حافظ حسین احمد جو کہ انتہائی بیمار کے عالم میں تقریب کی صدارت فرما رہے تھے وہ تقریب میں آخر تک تشریف فرما رہے اور اُنھوں نے جناب افضل چوہدری کو تلاش کی اشاعت پر خراج تحسین پیش کیا۔ جناب اسد کھرل نے اپنے خطاب میں تلاش کے موضوع کا بہت اہمیت کا حامل قرار دیا اور کتاب کے مصنف کی جانب سے اُٹھائے گئے نکات پر عصری تقاضوں کے مطابق جواب کی تلاش پر زور دیا۔مجیب الرحمان شامی نے بھی کافی جاندار خطاب کیا اور افضل چوہدری کی کتاب کو بین المذاہب ہم آہنگی کے لیے ایک سنگِ میل قرار دیا۔ اُنھوں نے پاکستان کی موجودہ معاشرتی صورتحال پر بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ اوریا مقبول جان جیسی شخصیت نے تقریب مین جان ڈال دی اور والہانہ انداز میں خطاب کیا اُنھوں نے مسلم دُنیا کے حکمرانوں کی روایتی بے حسی کا تفصیل کے ساتھ ذکر کیا۔ کتاب کے مصنف جناب افضل چوہدری نے کتاب لکھنے کے محرکات اور اِس حوالے سے اپنے تیس سے زائد ممالک کے سفر کے مشاہدات اور مختلف مذاہب کے درمیان ہم آہنگی کے حوالے سے سیر حاصل گفتگو کی۔کتاب کے چار باب ہیں۔ باب اول میں مذہب، قدیم ترین مذاہب ، قدیم مذاہب کے ذرائع جبکہ باب دوم میں ہندو مذہب،جین مت، بدھ مت، سلھ مت، چینی تاو مت، کنیفیوشس مت ،شنتو مت، باب سوم میں پارسی زشت مت، یہودیت، عیسائیت اسلام ،باب چہارم میں کیا مذہب کو ماننا، انسانی تخلیق سائنس کے مطابق، مذہب کا سائنس کو چیلنج ، جی ہاں مذہب کو ماننا چاہیے ، سچا مذہب میری نظر میں۔ متذکرہ بالا عنوانات کے تحت جناب افضل چوہدری نے اپنی کتاب کو لکھا ہے۔ اِس شہرہ آفاق کتاب میں دلچسپی ہر مذہب کو ماننے والے کے لیے ہے۔
جناب افضل چوہدری نے کتاب کے پیش لفظ میں لکھا ہے کہ "
تخیل کی خول کے اندر مقید ہونا اختلاف رائے میں شدت کرتا ہے بعض اوقات یہ شدت کسی تحریک کو جنم دیتی ہے اور بعض اوقات نئے مذہب کو۔ روز ازل سے انسان یہ تخیلیات کھبی زندگی کے دنیاوی فلسفہ سے اخذ کرتا ہے اور کبھی یہ تخلیات آسمانی اور الہامی احکامات کی صورت میں کسی مذہب کا پرچار کرتے ہیں۔تخلیق کار کے تخیل کو جب تک رس ٹپکتے الفاظ کا روپ نہ ملے تب تک شاہکار نہیں بنتا۔انسانی تخیل جب شاہکار بن جائے تو پھر شاہکار کے رموزدھیرے دھیرے دوسروں پر آشکار ہوتے ہیں ۔"آخری بات جناب افضل چوہدری نے دُنیا میں امن وآشتی کے جو اعلیٰ مثال قائم کی ہے ۔اصل میں یہ انسانیت کی بہت بڑی خدمت ہے۔اللہ پاک چوہدری افضل صاحب کو سدا سلامت رکھے۔ 

No comments:

Post a Comment