سوچ کا مظہر
صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ
انسانی احتیاجات وقت گزرنے کے ساتھ اپنی اہمیت اور سب سے بڑھ کر اپنی حقیقت تبدیل کرتی چلی جاتی ہیں۔کسی بھی شے کا حصول وقت گزرنے کے بعد یہ ثابت کرتا ہے کہ کیا اُس شے کا حصول فائدہ مند تھا یا نہیں یا جس قدر اُس کو اپنے لیے سوہان روح بنایا ہوا تھاُ اتنی اُس کی اہمیت و افادیت تھی بھی یا نہیں۔ انسان کی زندگی کے جو تین ادوار ہیں اُن کی اہمیت بدلتی رہتی ہے۔ذرا تصور فرمائیں جس نوجوان کی عمر بائیس سال ہے۔وہ بیس سال کے بعد کہاں ہوگا۔ کیا سوچ رہا ہوگا۔ اُس کی سوچ کے تانے بانے کیا بُن رہے ہوں گے۔ تصور فرمائیں بیس سال گزر گئے ہیں وہ نوجوان اب بیالس سال کا ہوچکا ہے۔ پیچھے مڑ کا جب وہ دیکھتا ہے تو ہو سکتا ہے کہ دو دہاہیوں قبل وہ جس منزل کو حاصل کرنے کے لیے بے تاب تھا اُسے پانے کے بعد بھی اُس کی تشفی نہیں ہوئی تھی اور وہ فقط راہ گزر ثابت ہوئی تھی وہ منزل نہ تھی۔ انسانی مزاج میں جو تبدیلی پیدا ہوتی ہے وہ اُسے تجربات کی وجہ سے ایسی بھٹی میں جھونکتی ہے جس سے وقت اُس کا اُستاد بن جاتا ہے اور اُسے وہ کچھ سکھاتا ہے جو شائد کسی مکتب کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ ہوسکتا جس ملازمت کو حاصل کرنے کا خواب اُس کا بیس پہلے تھا وہ ملازمت حاصل کرنے کے بعد بیس سال بعد وہ اِس نتیجے پر پہنچے کہ یہ اُس کی منزل نہیں تھی وہ غلطی پر تھا یااُس نے اپنے متعلق درست فیصلہ نہیں کیا تھا۔ ٹائم لائن پر کھڑئے ہو کر اپنی زندگی کے تینوں ادوار کے متعلق آنے والے وقت کے ساتھ ساتھ انسان کا اندازِ سوچ بدل جاتا ہے۔ جیسے ایک شخص نے تہیہ کیا تھا کہ وہ سول سروس میں جائے سول سروس میں جانے کے بیس سال بعد اُسے اگر یہ احساس ہو کہ اُس نے اپنی زندگی کو درست سمت نہیں ڈالا یا جو روحانی سکون اُسے صحافت کے شعبے میں مل سکتا تھا وہ اُسے نہیں ملا۔ یہ بھی وہ رائے رکھ سکتاہے کہ اُس کا فلاں کلاس فیلو جو کہ اُس سے کمتر درجے کا طالبعلم تھا لیکن اُس نے زندگی کو مشین نہیں بننے دیا اور اپنی زندگی جیا اور اُس نے صحافی بن کر حالات کی چکی میں پس کر وہ مقام حاصل کر لیا جو کہ وہ سول سروس والے شخص کے لیے بیس سال گزرنے کے بعد بھی خواب ہے۔ اِس لیے زندگی میں محنت، ذمہ داری کا بہت اہم کردار ہوتا ہے۔ انسانی رویوں کا انداز بدلتا رہتا ہے۔ اللہ پاک نے انسان کو بہت حد تک با اختیار بنایا ہے۔لیکن اِس با اختیار ہونے کا احساس تو تب تقویت پکڑئے گا جب انسان اپنی ذمہ داری کو محنت کے ساتھ نباہے گا۔ کئی مرتبہ ہم یہ سمجھ لیتے ہیں کہ فلاں گاڑی فلاں گھر فلاں ملازمت اگر مل جائے تو ہمارئے وارئے نیارئے ہوجائیں گے لیکن جب سب کچھ مل جاتا ہے تو احساس ہوتا ہے کہ یہ تو منزل ہی نہیں تھی سب کچھ کیا دھرا بے کار گیا اگر وہ فلاں راستے کا راہی بن جاتا تو وہ کچھ مل جاتا جو میرئے لیے اچھا ہے۔ وقت کی کسوٹی بتاتی ہے کہ کیرئیر شروع کرتے وقت جو فیصلہ کیا تھا وہ درست تھا یا غلط۔جب انسان اپنے رب کی مدد مانگتا ہے تو پھر اُس کا رب اُس کی مدد کے لیے اُس کے ساتھ ہوتا ہے پھر اُس سے اپنے مستقبل کے حوالے سے فیصلے بھی اچھے صادر ہوتے ہیں۔یہ نہیں ہوسکتاہے کہ مادیت سے حد سے زیادہ محبت ہمیں روحانی خوشیوں سے بھی سرشار کرئے۔ میرئے ایک بچپن کے دوست ہیں وہ اس وقت بہت کامیاب ڈاکٹر ہیں۔ اُن کا فیملی بیک گراونڈ بھی ایسا ہے کہ اربوں پتی ہیں میں نے زندگی میں کبھی بھی اُن کو روپے پیسے کے پیچھے بھاگتے ہوئے نہیں دیکھا۔ لیکن وہ بہت کا میاب ڈاکٹر ہیں اُن کی پریکٹس بہت اچھی ہے۔ وہ بہت زیادہ کما رہے ہیں۔ بچپن سے لے کر اب تلک میں نے اُن کے اندر یہ خواہش نہیں دیکھی کہ میں نے بہت زیادہ دولت کمانی ہے۔ وہ ایک مطمن زندگی گزار رہا ہے۔ اُس کے مریض اُس سے بہت خوش ہیں۔ اِسی طرح ایک دوست ہے وہ صرف گریجویشن تک تعلیم حاصل کرسکا۔ سات سمندر جا کر پیسے کمانے کی مشین بنا ہوا ہے۔ امریکہ کی نیشنلٹی کا حامل ہے۔ بہت امیر بن چکا ہے لیکن اپنے غریب دوستوں اور غریب رشتے داروں کے لیے اُس کے پاس کچھ نہیں کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ اُس نے یہ ساری دولت اپنی محنت سے کمائی ہے اِس لیے وہ اُس کا خرچ نہیں کرتا۔ دولت ہی اُس کے لیے خدا بن چکی ہے۔ یوں وہ وہ منزل مراد پا چکا ہے جو اُس کا مطمع نظر ہے۔ کیا وہ روحانی طور پر پرسکون ہے۔ اُس کے انداز سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اُس کی زندگی میں وہ سکون نہیں ہے جو کہ اُسے مل جانا چاہیے۔اِس لیے ٹائم لین پر کھڑئے ہو کر اگر ہم حال مین بہتر فیصلہ کر لیتے ہیں کہ مجھے زندگی میں یہ کام کرنا ہے تو پھر آئندہ آنے والے وقت میں اُسے پچھتاوا نہیں ہوگا اُس نے اگر کسی سے رہنمائی لے لی ہوتی تو اُسے اپنے کیر ئیر کے متعلق فیصلہ کرنے میں آسانی رہتی۔ اِس لیے اگر ہم اپنے متعلق فیصلہ سازی کرتے وقت مشورہ کرلیں تو زندگی میں پچھتاوئے کم ہو جائیں گے۔ اللہ پاک کا کرم ساتھ ہوگا۔ روحانی خوشی ملے گی۔ دوستو: دولت تو سب کچھ تب ہو نہ جب اِس نے ہمارئے ساتھ ہمیشہ رہنا ہے ہمیشہ ساتھ تو اعمال نے رہنا ہے۔ اِس لیے اپنے خالق کو خوش کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم وہ راستہ اپنائیں جس سے خالق اور اُس کی مخلوق خوش ہوں۔
No comments:
Post a Comment