Monday, 24 December 2018

انٹرنیشنل ہیومین رائٹس موومنٹ اور لائیرز سٹرٹیجیک کونسل آف پاکستان کے زیر اہتمام سپریم کورٹ لاہور رجسٹری کے سامنے یو ایس ڈیپارٹمنٹ آف سٹیٹ کی زیر سرپرستی اور امریکی سفارتخانےاسلام آباد کے زیراہتمام پاکستانی میں چلنے والی انٹرنیشنل غیر رجسٹرڈ این پاک یو ایس ایلیومینائی نیٹ ورک کو فوری طور پر بین کرنے کے حوالے سے پرامن احتجاجی مظاہرہ


انٹرنیشنل ہیومین رائٹس موومنٹ اور لائیرز سٹرٹیجیک کونسل آف پاکستان کے زیر اہتمام سپریم کورٹ لاہور رجسٹری کے سامنے یو ایس ڈیپارٹمنٹ آف سٹیٹ کی زیر سرپرستی اور امریکی سفارتخانےاسلام آباد کے زیراہتمام پاکستانی میں چلنے والی انٹرنیشنل غیر رجسٹرڈ این پاک یو ایس ایلیومینائی نیٹ ورک کو فوری طور پر بین کرنے کے حوالے سے پرامن احتجاجی مظاہرہ کیا گیا اور مختلف نعرے لگائے گئے ۔ مظاہرین کی قیادت انٹرنیشنل ہیومین رائٹس مومنٹ کے مرکزی صدر محمد ناصر اقبال خان اور فاونڈر ایل ایس سی پی نیشنل تھنک ٹینک مخدوم وسیم قریشی ایڈوکیٹ نے کررہے تھے۔
مظاہرے سے خطاب کرتے ہوۓ محمد ناصر اقبال خان نے کہاکہ امریکہ پاکستان کا فطری اور بد ترین دشمن ہے جو کئی دہائیوں سے زر اور زور کی بنیاد پر پاکستان کی سالمیت کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ یہ کھبی زور کے بل پر زبردستی پاکستان کو اپنی جنگ میں جھونک دیتا اور افواج پاکستان کی قربانیوں کا مذاق اڑاتے ہوئے الٹا ڈومور کہتا ہے اورکھبی مٹھی بھر بیروزگار گمراہ نوجوانوں کو زر یعنی پیسہ دےکر اپنے مذموم مقاصد کے کیلئے استعمال کرتا ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان فوری تحقیقات کا حکم دیں کہ امریکی آئی این جی اوز کی آڑ میں فنڈنگ کے مقاصد کیا ہیں ، یہ پیسہ کہاں سے آرہا ہے اور کن مقاصد کیلئے استعمال ہورہا ہے۔ مخدوم وسیم قریشی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امریکن آئی این جی او نےملک بھر میں تیرہ چپیٹر تشکیل دیے ہیں اور تقریبا پچیس ہزار نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کے ضمیر کی قمیت لگاتے ہوۓ انہیں سی پیک سمیت پاکستان کے مختلف قومی نوعیت کےمنصوبوں کو بلڈوز کرنے کیلئے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاریا ہے۔ آزاد عدلیہ سمیت حساس ریاستی ادارے امریکی این جی اوکی منفی سرگرمیوں کو مانیٹر کریں اور انکے ذریعہ سے نوجوانوں میں تقیسم کی جانیوالی رقوم کو بذریعہ سٹیٹ بینک اور ایف بی آر تحقیتات کروا کر تقسیم کی گئی رقوم پاکستان ریاست اپنےقبضہ میں لے تاکہ یہ فتنہ اپنی موت آپ مر جاۓ۔ اس موقعہ پر انسانی حقوق کے رہنما میاں محمد اشرف عاصمی ایڈوکیٹ نے کہا کہ پاکستان کےغیور نوجوان ضمیر فروش نہیں ہیں وہ مادر وطن کی حرمت اور سالمیت کیلئے مرنا اور مارنا جانتے ہیں اور وہ چند ٹکوں کے لیے اپنی ریاست کے مفادات پر آنچ نہیں آنے دیں گے۔ مظاہرے میں وکلاء ٗ طلباء ٗ تاجر ٗ سیاست دانوں ٗ اور سماجی رہنماؤں کی کثیر تعداد نےشرکت کی ۔ جبکہ سلمان پرویز ٗ ممتاز اعوان ٗ ناصر چوہان ایڈوکیٹ ٗ محمد شاہد محمود ٗ رئیس امیر اویس شیخ ٗ ایڈوکیٹ آصف شاکر ٗ ایڈوکیٹ قاضی اویس ٗ بیرسٹر سعید ناگرہ ٗ منصف اعوان ٗ ریحان محمود ایڈوکیٹ ٗ امیدوار ہائیکورٹ بار صدر خادم قیصر اور دیگر کی کثیر تعداد نےشرکت کی ۔ شرکاء نے چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار سے فوری طور سوئوموٹو لینےکا مطالبہ کیا۔


مظاہرے سے خطاب کرتے ہوۓ محمد ناصر اقبال خان نے کہاکہ امریکہ پاکستان کا فطری اور بد ترین دشمن ہے جو کئی دہائیوں سے زر اور زور کی بنیاد پر پاکستان کی سالمیت کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ یہ کھبی زور کے بل پر زبردستی پاکستان کو اپنی جنگ میں جھونک دیتا اور افواج پاکستان کی قربانیوں کا مذاق اڑاتے ہوئے الٹا ڈومور کہتا ہے اورکھبی مٹھی بھر بیروزگار گمراہ نوجوانوں کو زر یعنی پیسہ دےکر اپنے مذموم مقاصد کے کیلئے استعمال کرتا ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان فوری تحقیقات کا حکم دیں کہ امریکی آئی این جی اوز کی آڑ میں فنڈنگ کے مقاصد کیا ہیں ، یہ پیسہ کہاں سے آرہا ہے اور کن مقاصد کیلئے استعمال ہورہا ہے۔ مخدوم وسیم قریشی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امریکن آئی این جی او نےملک بھر میں تیرہ چپیٹر تشکیل دیے ہیں اور تقریبا پچیس ہزار نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کے ضمیر کی قمیت لگاتے ہوۓ انہیں سی پیک سمیت پاکستان کے مختلف قومی نوعیت کےمنصوبوں کو بلڈوز کرنے کیلئے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاریا ہے۔ آزاد عدلیہ سمیت حساس ریاستی ادارے امریکی این جی اوکی منفی سرگرمیوں کو مانیٹر کریں اور انکے ذریعہ سے نوجوانوں میں تقیسم کی جانیوالی رقوم کو بذریعہ سٹیٹ بینک اور ایف بی آر تحقیتات کروا کر تقسیم کی گئی رقوم پاکستان ریاست اپنےقبضہ میں لے تاکہ یہ فتنہ اپنی موت آپ مر جاۓ۔ اس موقعہ پر انسانی حقوق کے رہنما میاں محمد اشرف عاصمی ایڈوکیٹ نے کہا کہ پاکستان کےغیور نوجوان ضمیر فروش نہیں ہیں وہ مادر وطن کی حرمت اور سالمیت کیلئے مرنا اور مارنا جانتے ہیں اور وہ چند ٹکوں کے لیے اپنی ریاست کے مفادات پر آنچ نہیں آنے دیں گے۔ مظاہرے میں وکلاء ٗ طلباء ٗ تاجر ٗ سیاست دانوں ٗ اور سماجی رہنماؤں کی کثیر تعداد نےشرکت کی ۔ جبکہ سلمان پرویز ٗ ممتاز اعوان ٗ ناصر چوہان ایڈوکیٹ ٗ محمد شاہد محمود ٗ رئیس امیر اویس شیخ ٗ ایڈوکیٹ آصف شاکر ٗ ایڈوکیٹ قاضی اویس ٗ بیرسٹر سعید ناگرہ ٗ منصف اعوان ٗ ریحان محمود ایڈوکیٹ ٗ امیدوار ہائیکورٹ بار صدر خادم قیصر اور دیگر کی کثیر تعداد نےشرکت کی ۔ شرکاء نے چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار سے فوری طور سوئوموٹو لینےکا مطالبہ کیا۔

Teray ishq ki intiha chahta hon. Kalam e iqbal zaroor sunen.

Teray ishq ki intiha chahta hon. Kalam e iqbal zaroor sunen.

Ashraf Asmi Addressing at Lahore High Court Bar on his Book launching ce...

Six thoughts directed a video, launched on the day of 16 Decemeber 2018...

Six thoughts directed a video, launched on the day of 16 Decemeber 2018...

Six thoughts directed a video, launched on the day of 16 Decemeber 2018...

Six thoughts directed a video, launched on the day of 16 Decemeber 2018...

Almas Jovinda, Advocate addressing at the Launching Ceremony of Book Ash...

Ali Ahmad Kiyani Addressing at the Book launching ceremony of Ashraf Asmi

Ali Ahmad Kiyani Addressing at the Book launching ceremony of Ashraf Asmi

Ali Ahmad Kiyani Addressing at the Book launching ceremony of Ashraf Asmi

Ali Ahmad Kiyani Addressing at the Book launching ceremony of Ashraf Asmi

Renowned Poet, Writer Mansoor Afaq Addressing at the Book Launching Cere...

Sunday, 23 December 2018

Article By Akhter Sardar Ch about Book Launching Ceremony y of Ashraf Asmi


لاہور ہائی کورٹ بار میں اشرف عاصمی ایڈووکیٹ کی کتاب قانون کی حاکمیت کی تقریبِ رونمائی........By پیرزادہ میاں محمد عمر سہروردی نوشاہی

لاہور ہائی کورٹ بار میں اشرف عاصمی ایڈووکیٹ کی کتاب قانون کی حاکمیت کی تقریبِ رونمائی
پیرزادہ میاں محمد عمر سہروردی نوشاہی 


لاہور ہائی کورٹ میں لاہور ہائی کورٹ بار کی ایجوکیشن کمیٹی کے زیر اہتمام قانون دان، محقق، انسانی حقوق کے علمبردار، کالم نگار صاحبزادہ اشرف عاصمی ایڈووکیٹ کی قومی زبان اُردو میں پاکستان کے مروجہ قوانین کی تحقیق کے حوالے سے انتہائی تحقیق پر مبنی اعلی عدلیہ کے فیصلہ جات اور قانونی نظائر کی عام فہم تشریحات کا مجموعہ قانون کی حاکمیت کی تقریب رونمائی منعقد ہوئی۔دسمبر کی ایک من موہنی دوپہر کو لاہور ہائی کورٹ کے کراچی شہدا ہال میں خوبصورت محفل میں چیئرپرسن ایجوکیشن اینڈ کلچرل کمیٹی لاہور ہائی کورٹ بار محترمہ نرگس ناہید صاحبہ کی میزبانی میں منعقد ہ تقریب میں مہمان جوق در جوق تشریف لا رہے تھے۔ استقلالین لاہور چیپٹر کے صدر اور ٹیکس بار ایسوسی ایشن کے ممتاز رہنماء غلام مرتضیٰ ، موٹر رجسٹرنگ اتھارٹی لاہور ملک محمد نعیم،پیر طریقت حکیم میاں محمد یوسف نوشاہی آف زاویہ نوشاہی سرگودہا، ممتاز دانشور ، محقق صاحبزادہ پروفیسر ڈاکٹر احمد ندیم رانجھا، جسٹ ون ٹی وی کے سی او الماس جویندہ ایڈووکیٹ سپریم کورٹ، ممتاز کالم نگار اینکر پرسن مظہر برلاس، ممتاز شاعر، کالم نگار منصور آفاق روزنامہ الشرق انٹرنیشنل کے گروپ ایڈیٹر محمد ناصر اقبال خان الزہرہ گروپ آف کالجز سرگودہا کے ڈائریکٹر جاوید مصطفائی، ممتاز صحافی ممتاز اعوان، ورلڈ کالمسٹ کلب ویمن ونگ کی چیئرپرسن ڈاکٹر نبیلہ طارق ایڈووکیٹ، ممتاز دانشور کامران رفیق، نواب شاہ سٹیزن کونسل کے چیئرمین محمد اسلم نوری، ممتاز کالم نگار راشد علی، ممتاز صحافی نواب ناظم میوء ، کوئٹہ بار ایسوسی ایشن کی رہنماء شبانہ عظیم ایڈووکیٹ سپریم کورٹ، خالد اعوان ڈپٹی اٹارنی جنرل آف پاکستان،میاں محمود قْصوری ایڈووکیٹ سپریم کورٹ، رانا سعید ایڈووکیٹ، رانا جمیل خان ایڈووکیٹ ، قانون دان ناصر چوہان ایڈووکیٹ ،ممتاز صحافی بدرظہور چشتی، سماجی شخصیت راشد صدیق کھوکھر، شیران اسلام کے صوبائی امیر شہزادہ بٹ، انجمن طلبہ اسلام کے سابق مرکزی نائبصدر حافظ محمد اقبال سیالوی، شالیمار کالج کے پروفیسر نعیم گھمن، قانون دان و شاعر علی احمد کیانی، احسان الحق رندھاوا ایڈووکیٹ، جیلانی لاء بپلشرز کے سی ای او، محمد حسن علی، ایم ایچ شاہین ایڈووکیٹ حذیفہ نوشاہی، پیرزادہ عمر نوشاہی، میاں محمد عبداللہ اشرف ودیگر اِس تقریب میں شامل ہوئے۔ تقریب کے آغاز میں محترمہ نرگس ناہید ایڈووکیٹ نے صاحبزادہ اشرف عاصمی ایڈووکیٹ کی کتاب کا تفصیلی تعارف پیش کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی معاشرے میں اِس کے باسیوں کے مابین رہنے سہنے اور ایک دوسرے کے ساتھ اچھے بُرے برتاؤ کے کچھ اصول و ضوبط ہوا کرتے ہیں۔یہ اصول و ضوابط ہر معاشرے کے لیے علیحیدہ علحیدہ ہوتے ہیں۔ گویا ہر معاشرے یا گروہ ایک دوسرے سے الگ الگ زندگی کے اصول و ضوابط پر عمل پیرا ہوتا ہے۔اِسی رہن سہن کے نفاذ کے سبب ہی اِس معاشرے کی پہچان ہو پاتی ہے۔جو لوگ اپنے اپنے معاشرے کی پیروی کرتے ہیں وہی لوگ اِس معاشرے کے پُرامن شہری کہلاتے ہیں۔ پُر امن شہری سے مُراد پُر اُمن ماحول، پُرامن ملک۔ اِس لیے عالمی سطع پر اقوام کے مابین طے پاجانے والے معاہدے عالمی اصول و ضوابظ کی شکل اختیار کر جاتے ہیں۔جنہیں اقوام عالم کے مابین تعلقات کو پُرامن بنانے کے لیے زیر مطالعہ لایا جاتا ہے۔ 

گویا آج کا انسانی ذہن اِس بلند ترین سطع تک رسائی حاصل کر چُکا ہے جہاں سے آسانی سے ہر کوئی یہ کہتا نظر آتا ہے کہ قوانین سے عدم آگہی و عدم شناسی ناقابل قبول بہانہ ہے۔ یہ بات نہ صرف انسانی نقطہ نظر کی ترقی بلکہ معاشری ترقی کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے۔ مگر وہ معاشرے جہاں لوگوں میں ناخواندگی کی شرح بہت زیادہ ہو ۔ علم کی کمی ہو۔ سکولوں میں تعلیم ادھورہ چھوڑنے کا رحجان بہت زیادہ ہو۔ بنیادی انسانی حقوق سے محرومی بلکہ ناواقفیت بھی عام ہو۔ وہاں کون قانون طلب و رسد کی بات کرے اگر کوئی کرے بھی تو کس حد تک کرسکتا ہے۔جبکہ تیسری دُنیا کے ممالک نو آبادیاتی نظام کا حصہ رہے ہیں۔اِس لیے اِن ممالک میں ایک بڑا مسئلہ قومی زبان کا بھی ہے۔ ایسے ممالک میں عام طور پر حکمران ممالک کی زبان میں کاروبارِ حکومت چلایا رہا ہوتا ہے۔جس کے سبب اِن ممالک کے عوام علوم وفنون اور خصوصاً قانونی معاملات اور اپنے بنیادی حقوق سے نابلد رہتے ہیں یا انہیں بزور نابلد رکھا جاتا ہے۔ صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ کوگزشتہ تین دہائیوں کی پیشہ ورانہ زندگی میں اپنے ہاں بھی کچھ ایسا ہی ماحول نظر آیا ہے۔ 
ہماری % 70 فیصد آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔کروڑوں افراد صحت و صفائی اور پینے کے صاف پانی تک سے محروم ہیں۔ ناخواندگی کی سطع خطے کے دیگر ممالک کے مقابلہ میں سب سے بلند ہے۔ سکول و کالج کی بنیادی تعلیم سے لاکھوں افراد دور رہنے پر مجبور نظر آتے ہیں۔تو کون کس طرح اپنے حقوق کی حفاظت کر سکتا ہے۔ جبکہ اِسے ا پنے حقوق سے آگہی اور ملکی قوانین کی سوجھ بوجھ ہی نہ ہو۔ تمام قانون کی کتب غیر ملکی زبان میں ہونے کے سبب کوئی پھر کیوں نہ کہے گا کہ مجھے قانونی کُتب تک رسائی نہیں ہوئی یا مجھے ملکی قانونی کا علم نہ تھا۔ 
جی ہاں جب تک ریاست اپنے شہریوں کو ترقی کے یکساں ذرائع و مواقع فراہم نہیں کرتی تو کو ئی کس طرح ایسے امتیازی سلوک والے معاشرہ کو پُرامن معاشرہ یا پُرامن ملک کہ سکتا ہے۔کچھ ایسے ہی خیالات کو سامنے رکھتے ہوئے زیرِ نظر کتاب" قانون کی حاکمیت " خصوصاً قومی زبان اُردو میں تحریر کی گئی ہے۔جس میں خصوصیت کے ساتھ ایسے قانونی موضوعات کو زیرِ بحث لایا گیا ہے جو کہ عوام النا س کی زندگی کے قریب ہیں۔
الجیلانی بلشرز کے سی یع یو صاحبزادہ حسن علی نے صاحبزادہ اشرف عاصمی ایڈووکیٹ کا تعارف پیش کرتے ہوئے بتایا کہ 
صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ ہائی کورٹ کا آبائی شہر لاہورہے۔ کشمیری بازاز دہلی گیٹ میں لاہور کے ممتاز علمی و دینی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ اِن کے والد محترم صاحبزادہ میاں عمردراز ؒ مرحوم اُستاد تھے۔ صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ نے اپنا بچپن اپنے ماموں جان حضرت حکیم عنائت قادری نوشاہیؒ کے زیر سایہ گزارہ۔گورنمنٹ جامعہ ہائی سکول سرگودہا سے میٹرک اور گورنمنٹ کالج آف کامرس سرگودہا سے بی کام کیا۔ معاشیات ، بزنس ایڈمنسٹریشن، ایجوکیشن میں ماسٹرزکیے۔ پنجاب یونیورسٹی سے ایل ایل بی کیااور ایل ایل ایم کریمنالوجی کی ڈگری کے بھی حامل ہیں۔ اسلاملک لاء میں پوسٹ گریجویٹ ڈپلومہ بھی کیا ہے۔ دو دہائیوں سے قانون کی درس و تدریس سے بھی وابستہ ہیں۔عشق رسول ﷺ کی سرخیل تنظیم انجمن طلبہء اسلام سے تعلق رہا ہے۔ برصغیر پاک وہند کے عظیم صوفی بزرگ حضرت حافظ میاں محمد اسماعیل ؒ المعروف حضرت میاں وڈا صاحبؒ لاہوری کے خانوادے سے تعلق ہے۔ صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ کے دادا حافظ میاں محمد اسماعیلؒ اور پرداد حضرت حافظ میاں محمد ابراہیمؒ متحدہ ہندوستان میں پولیس کے محکمہ میں بطور افسر خدمات انجام دیتے رہے ہیں۔ان کا خاندان صدیوں سے لاہور میں رہائش پذیر ہے۔ لاہور میں بھاٹی دروازے کے بائیں جانب مسجد ابراہیمؒ اِن کے پرداد اکے نام سے منسوب ہے جو اُنھوں نے تعمیر کروائی تھی۔ صاحبزادہ اشرف عاصمی ایڈووکیٹ مختلف قومی و بین الا قوامی اخبارات و جرائدمیں سماجی اور قانونی موضوعات پر کالم لکھتے ہیں۔کالم نگاروں کی عالمگیر تنظیم ورلڈکالمسٹ کلب کے سنئیر نائب صدر ہیں۔ انسانی حقوق کے حوالے سے انتہائی فعال کردار ادا کر رہے ہیں۔ ہیومن رائٹس کمیٹی پنجاب لاہور ہائی کورٹ بار کے چےئرمین ہیں اور تحفظ ناموس رسالتﷺ کمیٹی لاہور بار ایسوسی ایشن کے بانی چےئرمین ہیں۔ صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ سلسلہ قادریہ نوشاہیہ میں حضرت حکیم میاں محمد عنائت خان قادری نوشاہی ؒ آف زاویہ نوشاہی سرگودہاکے خلیفہ مجاز ہیں۔ 
اِس موقع پر ممتاز کالم نگار مظہر برلاس نے اپنے خطاب میں ملک میں قانون کی حکمرانی کے حوالے سے مسلمہ اصولوں کے حوالے سے بات کی اور صاحب کتاب اشرف عاصمی کی جانب سے کی گئی کوشش کو سراہا، ممتاز شاعر و کالم نگار منصور آفاق نے اپنے خطاب میں قانون کی حاکمیت کتاب کی اشاعت پر مبارکباد دی اور کہا کہ اشرف عاصمی کا میرئے ساتھ تعلق نبی پاک ﷺ کے عشق کی وجہ سے ہے۔ الشرق انٹرنیشنل کے گروپ ایڈیٹر محمد ناصر اقبال خان نے قانون کی حاکمیت کتاب کو لکھنے پر اشرف عاصمی کو مبارکبادی اور کہا کہ معاشرئے کو مایوسیوں سے نکالنے کے لیے ہر کسی کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ شبانہ عظیم ایڈووکیٹ سپریم کورٹ نے اپنے خطاب میں معاشرئے میں لاقانونیت کے خاتمے پر زور دیا اور قانون کی بالادستی کے لیے حکومتی اداروں کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے تجاویز دیں۔ممتاز دانشور محقق یو نیورسٹی آف گجرات کے پروفیسر ڈاکڑ صاحبزادہ احمد ندیم رانجھا نے اپنے خطاب میں معاشرئے میں ہر سو پھیلی ہوئی امتیازی پالیسیوں کا ذکر کیا ۔ اُنھوں نے کہا کہ قانون کی حاکمیت تو تب ہوگی جب سب کے لیے ایک ہی قانون ہوگا خواہ کوئی کمزورہو یا کوئی طاقتور ہو۔پروفیسر محمد نعیم گھمن نے قانون کی حاکمیت کے لیے وکلاء کے کردار کو سراہا اور اشرف عاصمی کو کتاب تحریر کرنے پر دلی مبارکباد دی ممتاز صحافی نواب ناظم مےؤ نے بھی قانون کی حکمرانی کی ضرورت پر زور دیا اور کتاب کے مندرجات پر روشنی دالی، رانا سعید ایڈووکیٹ نے اشرف عاصمی کی کتاب قانون کی حاکمیت کو وکلاء عام قاری کے لیے موثر کتاب قرار دیا۔ شہزادہ بٹ نے بھی اپنے خطاب میں صاحب کتاب کو مبارکباد ی۔ محترمہ سدرہ ایڈووکیٹ نے بھی کتاب کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔آخر میں صاحبزادہ اشرف عاصمی ایڈووکیٹ نے اپنی کتاب کی بابت اپنے جذبات کا اظہار کیا اور کہاکہ قانون کی بالا دستی کے لیے ہر ہر فرد کو اپنے اپنے حصہ کا کام کرنا ہوگا۔صاحبزادہ اشرف عاصمی ایڈووکیٹ نے تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کیا کہ اُنھوں نے اِس تقریب میں شرکت کی۔ اشرف عاصمی نے پروگرام کی میزبان چیئرپرسن ایجوکیشن اینڈ کلچرل کمیٹی لاہور ہائی کورٹ بار نرگس ناہید ایڈووکیٹ ہائی کورٹ کا دل کی اتھاہ گہرائیوں سے شکریہ ادا کیا جنہوں نے قانون کی حاکمیت کتاب کی تقریب
رونمائی منعقد کروائی۔ 













Wednesday, 21 November 2018

محبت لازمی کرنا علی احمد کیانی کا شعری محموعہ..................... صاحبزادہ اشرف عاصمی

  محبت لازمی کرنا 

علی احمد کیانی کا شعری محموعہ

صاحبزادہ اشرف عاصمی

انسانی فطرت ہے کہ وہ محبت خلوص اور وفا کی تلاش میں رہتی ہے۔ لیکن خالق نے کچھ ہستیاں اِس جہان میں ایسی بھی پید اکی ہوتی ہیں جو خود سراپا محبت و خلوص ہوتی ہیں۔ایسے لوگ معاشرئے کا وہ حساس طبقہ ہوتے ہیں جن کا وجود معاشرئے کے لیے اس قدر قیمتی ہوتا ہے کہ ان کے دم سے خیر وبرکت کی خوشبوئیں خزاں رتوں میں بھی ہر سو پھیلی ہوتی ہیں یہ وہی لوگ ہوتے ہیں جن کا حساس دل معاشرئے کے ہر ہر فرد کی تکلیف پر دُکھی ہوجاتا ہے حتی کہ کائنات کی ہر شے سے اُنھیں اُنس ہوتا ہے۔ ایسا صرف اِس لیے ہوتا ہے کہ ایسی ہستیاں اِس دُنیا میں فقط محبت کرنے اور محبت کو برہوتری دینے کے لیے پیدا ہوئی ہوتی ہیں۔ گویا اُن کا مقصد صرف ایک ہی ہوتا ہے محبت لازمی کرنا۔
محبت لازمی کرنا جواں جذبوں کے امین، ہر سُو وفا ء کی خوشبو سے معاشرئے کو مہکانے والے جناب علی احمد کیانی کے دوسرے شعری مجموعے کا نام ہے۔ برادرم علی احمد کیانی کی شاعری اپنے اندر خوداری کا لمس سموئے ہوئے ہے۔فن کوئی بھی ہو ۔ زندگی کے کسی بھی شعبے سے تعلق رکھتا ہو وہ انسانی جذبات و خیالات کا عکاس ہوتا ہے۔علی احمدکیانی کا علم وسیع ہے اِس کا اظہار اُن کے مشاہدئے کی قوتِ پرواز ہے۔زندگی کے اُتار چڑھاؤ سے واقفیت اور دُکھی دلوں کی ترجمانی علی احمد کیانی کی شاعری کا وصف ہے۔
رہزنوں سے علی بچ گیا تھا مگر
رہبروں سے لٹا دیکھتے دیکھتے
متزکرہ بالا شعر میں جناب علی احمد کیانی نے جس انداز میں معاشرئے کی بے ثباتیوں کا تذکرہ کیا ہے یقینی طورپر اِنکی یہ غزل جس کے شعر کا ذکر کیا گیا ہے اپنے اندر وسیع معنی سموئے ہوئی ہے۔اُنھوں نے جس انداز میں رہزن اور راہبر کے معاشرتی رویوں کی طرف اشارہ کیا ہے جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ علی احمد کیانی راہبری کے بھیس میں راہزنی کی پہچان رکھتے ہیں اور اُن کے اندر کا حساس انسان معاشرئے کی اِس انداز میں مذمت کرتا ہوا دیکھائی دیتا ہے کہ جہاں سے محبت کی فروانی ہونی چاہیے وہاں نفرتیں پنپ رہی ہیں۔
ملاحظہ فرمائیں علی احمد کا اسلوب کہ
جل گیا تن بدن میرا
غم کہ آتش فشاں سے گزرا ہوں
عشق نے پر لگا دئیے مجھ کو
آج میں آسمان سے گزرا ہوں
ایک طرف علی احمد کیانی دکھوں اور یاسیت سے لڑتے ہوئے دیکھائی دیتا ہے اور دوسری جانب اپنے عشق کی پرواز میں اِس قدر بلندیوں پر ہے کہ آسمان بھی اُسے اپنے پاؤں تلے محسوس ہوتا ہے۔ یقینی طور پر علی احمد کیانی نے جس طرح کے الفاط اپنی شاعری میں استعمال کیے ہیں یہ الفاظ بناوٹی نہیں ہیں بلکہ علی احمد کیانی کا ایک حرف ایک ایک لفظ اپنے اندر جذبوں کا طوفان لیے ہوئے ہے۔ علی احمد کیانی کی شاعر ی کا یہ وصف ہے کہ امید کی روشنی سے منور ہے علی احمد کیانی کے ہاں منزل تک رسائی حاصل کرنے کے کے لیے سب کچھ لُٹا دینے کا جذبہ بدرجہ اُتم موجود ہے۔علی احمد کیانی نہایت معیاری اور منفرد غزل کہتے ہیں۔علی احمد کیانی پیشے کے لحاظ سے وکیل ہیں نہایت نفیس انسان ہیں۔علی احمدکیانی نے نبی پاکﷺ کی خدمت اقدس میں نعتیں بھی لکھی ہیں۔
زیر نظر شعری مجموعے میں بہت خوبصور ت نعت شامل ہے۔نبی پاکﷺ سے محبت کے نصا ب کی حلاوتوں سے اویس قرنیؒ ، بلال حبشیؒ امر ہوگئے۔ آپ ﷺ کے عشق کا فیضان ہی انسان کو خالق کے ساتھ تعلق کے استوار کا کرنے کا سبب بنتا ہے۔یہ عشق رسول ﷺ ہی ہے جس نے کربلا کی تپتی ریت پر امام عالی مقام حضرت امام حسینؒ اور اُن کے ساتھیوں کو شہادت کے نا قابل فراموش جذبے کی تمازت سے سرفراز کیا۔عشق رسولﷺکے بغیر ابوجہل کا پیروکار تو بنا جاسکتا ہے لیکن نبی پاکﷺ کی شفاعت کا حقدار نہیں۔عشق رسول ﷺ ابوبکرؓ ، عمرؓ، عثمانؓ ، علیؓ کی زندگیوں میں انقلاب کا سبب بنا۔میلاد مصطفےٰ ﷺ کا مفہوم ہی یہ ہے کہ انسانیت کو شرف انسانیت سے ہمکنار کرنے والے کی آمد پر ربِ کائنات کا شُکربجا لایا جائے۔جس طرح اللہ پاک کو جو مانتا ہے یا نہیں مانتا اللہ پاک اُس کا بھی خالق و مالک ہے۔اِسی طرح نبی پاک ﷺ تمام انسانیت کے لیے رحمت ہیں۔ رحمتوں کے عظیم پیکر نبی پاکﷺ کی آمد کے دن کو اپنے لیے عید شمار نہ کیا جائے تو اور کیا کیا جائے۔عشق رسول ﷺ کی شمع کا فیضان ہے یہ کہ پوری کائنات میں ہرلمحہ اللہ پاک کی ربوبیت کے لیے اعلان اذان کی صورت میں ہورہا ہے کوئی اور دین ایسی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے۔عشق رسول ﷺ ہی خالق اور مخلوق کی تعلق کی بنیاد ہے۔علی احمد نے بھی اپنے نبی پاکﷺ کی شان میں اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے۔
سیرت بھی حسیں ان کی، صورت بھی حسیں ان کی
کردار بلند ان کا ، اطوار حسیں تر ہیں
صدیق ؓ ، عمر ؓ ، عثمان ؓ ، یا شیر خدا ؓ ہیں وہ
سرکار دو عالمﷺ کے، سب یار حسیں تر ہیں
اللہ پاک سے دُعا ہے کہ جناب علی احمد کیانی کو صدا سلامت رکھے۔ (آمین)

Mohbt Lazmi Kerna....Ali Ahmd keyani Ki poetery ...Column By Ashraf Asmi


Friday, 16 November 2018

فلسفہ یوٹرن۔۔۔۔ عمران خان کی تاویلات..Written By صاحبزادہ اشرف عاصمی

 فلسفہ یوٹرن۔۔۔۔ عمران خان کی تاویلات

صاحبزادہ اشرف عاصمی

پاکستان میرا عشق ہے کیونکہ اِسے ایک عظیم قانون دان دُھن کے پکے انسان حضرتِ قائد اعظم محمد علی جناح ؒ نے نبی پاک ﷺ کے حکم پر قائم کیا۔ حتیٰ کے وفات سے قبل جناب قائد اعظم محمد علی جناح ؒ نے اپنے ڈاکٹر سے کہا تھا کہ اگر نبی پاکﷺ کا فیضان شامل نہ ہوتا تو پاکستان نہیں بن سکتا تھا۔بانی پاکستان فیصلے کرنے سے پہلے نہایت سوچ بچار کرتے اور پھر اِس فیصلے پر عمل کرنے کے لیے ڈٹ جاتے ۔بانی پاکستان ایک سچے اور کھرئے لیڈر تھے۔
بائیس سال کی سیاسی جدوجہد کے بعد حکومت میں آنے والے عمران خان صاحب نے یو ٹرن کو اپنی سیاست کابنیادی جزو قرار ئے دیا ہے۔ اسلام آباد میں کالم نگاروں کے ساتھ ایک خصوصی ملاقات میں جناب وزیر اعظم نے فرمایا کہ ہٹلر او ر نیپولین بھی تو یوٹرن لیتے تھے۔ شاید خان صاحب نے یہ خیال نہیں کیاکہ یوٹرن کا اُنھیں کیا نقصان ہوا تھا۔ خان صاحب نے خیبر پختون خواہ کی پولیس کو درست کرنیکے دعوئے پر الیکشن لڑا اور اِس دعوئے میں پولیس آفیسر ناصر درانی کا ذکر کرتے رہے۔ ناصر دُرانی صاحب کو پنجاب پولیس کو ٹھیک کرنے کا ٹاسک دیا لیکن اب ناصردُرانی صاحب کا کوئی پتہ نہیں کہ کہاں ہیں۔ نیا آئی جی پنجاب پولیس لگایا اُسے بھی فوری طور پر تبدیل کردیا گیا۔خان صاحب نے اپنی بیگم کے سابقہ شوہر کی شکایت پر یک جنبش قلم اپنے فرماں بردار وزیر اعلی جناب عثمان بہزدار کو کہہ کر ڈی پی او پاکپتن کو تبدیل کردیا۔اِسی طرح ایک اے سی کاتبادلہ کئی مرتبہ کیا گیا۔یوں جگ ہنسائی ہے کہ رُکنے کا نام ہی نہیں لے رہی۔
میری دلی خواہش ہے کہ قوم کی حالت بدلے اور مافیاز نے ہمارئے معاشرئے کے ہر شعبے میں جو پنجے گاڑ رکھے ہیں اِس سے نجات ملے۔لیکن مشرف کی ٹیم کے اراکین پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے فارغ التحصیل الیکٹیبلز اور پرویز الہی جیسے سیاستدان جس طرح کی تبدیلی لا سکتے ہیں وہ سب کو پتہ ہے اورعمران نے اِن سب کو اپنے ساتھ ملایا ہوا ہے۔عمران خان کو عوام نے ووٹ کی طاقت سے منتخب کیا ہے اسٹیبلشمنٹ بھی خان صاحب کے ساتھ دیکھائی دیتی ہے۔اِن حالات میں تو عمران کان صاحب کو ڈلیور کرنا چاہیے لیکن فواد چوہدری اور فیاض چوہان جیسے ترجمان ہوتے ہوئے تحریک انصاف کو دُشمنوں کی کیا ضرورت ہے۔
یہ درست ہے کہ تباہ شدہ معیشت خان صاحب کو ورثے میں ملی ہے۔ آپ کچھ کام کرکے دیکھائیں لیکن آئی ایم ایف کا کشکول تھامے قوم نئے پاکستان میں داخل ہوچکی ہے۔پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے آتے ہی عوام نے بہت ہی زیادہ امیدیں باندھ لی تھیں۔عمران خان پاکستانی معاشرئے میں ایک امید کا نشان ہیں۔ عمران خان کے ذاتی کردار پر بات کرنے والے وہی لوگ ہیں جنہوں نے باقاعدہ طور پر شیخ رشید کو محترمہ بے نظیر بھٹو کی کردار کُشی کے لیے رکھا ہوا تھااور عورت کی حکمرانی کے خلاف طرح طرح کے فتوئے ن لیگ بے نظیر بھٹو کے خلاف شائع کرواتی پھر رہی تھی۔شیخ رشید جو ایک عوامی آدمی ہیں اِنھوں نے نواز شریف کی حمایت میں وہ زبان محترمہ بے نظیر کے خلاف استعمال کی کہ خد اکی پناہ۔ عورت کی حکمرانی کے خلاف فتوئے شائع کروانے والی ن لیگ اب مستقبل میں مریم نواز کو وزیر اعظم کے لیے بھر پور کو شش میں مصروف عمل ہے۔ اِسی لیے تو شہباز شریف اور حمزہ شہباز کا امیج ن لیگیوں میں اِس طرح کا پینٹ کیا گیا ہے کہ یہ تو اِس اہل ہی نہیں ہیں۔ عمران خان کے اوپنر بیٹسمین جناب اسد عمر کی جانب سے جو رویہ سامنے آیا ہے وہ تحریک انصاف کے کارکنوں کے لیے بالخصوص اور عوام الناس کے لیے بالعموم انتہائی عجیب ٹھرا ہے۔ موصوف اپوزیشن میں دئیے گئے اپنے ہی بیانوں کے خلاف اندھا دھند بیان داغ رہے ہیں اور تو اور اسحاق ڈار کے ویژن کو بھی درست قرار دئے چکے ہیں اور نواز شریف کی معاشی ٹیم کے لوگوں کو بھی اپنے گلے کا ہار بنائے ہوئے ہیں۔
عمران خان صاحب نے آتے ہی قوم کو بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کا تحفہ دیا ہے۔ گیس کی قیمتیں بھی بڑھا دی گئی ہیں۔ عام آدمی کو تو صرف طفل تسلیاں ہی دی جارہی ہیں۔مہنگائی بے قابو ہو چکی ہے۔
ان حالات میں پی ٹی آئی کا نظریاتی ورکر بے چین ہے۔ گو کہ خان صاحب کو اقتدار میں آئے چند ماہ ہوئے ہیں لیکن دیگ کا ایک دانہ ہی پوری دیگ کا پتہ دیتا ہے۔ اللہ پاک میرئے وطن پر کرم فرمائے اور کان صاحب سے گزارش ہے کہ آپ پاکستان کی تقدیر بدلنے نکلیں ہیں نہ کہ اپنے یوٹرن لینے والے معاملات کا دفاع کرنے ۔ اِس لیے آپ جنوبی پنجاب کوصوبہ بنانے کا وعدہ فوری طور پر پورا کریں۔اور پنجاب کے ہر ڈویژن میں لاہور ہائیکورٹ کا بینچ بنائیں تاکہ عوام کو سُکھ کا سانس لینا پڑئے۔ صر چند سو وکلاء اور اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی خواہشات پر بنچ بناے کے عمل کو نہ روکیں۔ ملتان، بہالپور، راولپنڈی میں لاہور ہائیکورٹ کے بنچ بننے سے کوئی قیامت نہیںآئی بلکہ لوگوں کو اِس سے بے پناہ فائد ہورہا ہے۔ اتنے بڑئے صوبے کے تما م تر اختیارات کو لاہور میں مرتکز کرنا کسی طور پر بھی قومی یک جہتی کے موافق نہیں ہے۔میری رائے میں خان صاحب اِس قوت ذہنی دباؤ کا شکار ہیں ملک چلانے اور کرکٹ کھیلنے میں فرق ہوتا ہے۔خان صاحب نے جو تقریر آسیہ کی رہائی کے بعد کی وہ بھی ثابت کرتی ہے کہ وہ کتنے پختہ سیاستدان ہیں۔

Tuesday, 23 October 2018

زرداری کے حکومت کے خلاف اعلانِ جنگ کی حقیقت Written By صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی

  

زرداری کے حکومت کے خلاف اعلانِ جنگ کی حقیقت

صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے آتے ہی عوام نے بہت ہی زیادہ امیدیں باندھ لی تھیں۔عمران خان پاکستانی معاشرئے میں ایک امید کا نشان ہیں۔ عمران خان کے ذاتی کردار پر بات کرنے والے وہی لوگ ہیں جنہوں نے باقاعدہ طور پر شیخ رشید کو محترمہ بے نظیر بھٹو کی کردار کُشی کے لیے رکھا ہوا تھااور عورت کی حکمرانی کے خلاف طرح طرح کے فتوئے ن لیگ بے نظیر بھٹو کے خلاف شائع کرواتی پھر رہی تھی۔شیخ رشید جو ایک عوامی آدمی ہیں اِنھوں نے نواز شریف کی حمایت میں وہ زبان محترمہ بے نظیر کے خلاف استعمال کی کہ خد اکی پناہ۔ عورت کی حکمرانی کے خلاف فتوئے شائع کروانے والی ن لیگ اب مستقبل میں مریم نواز کو وزیر اعظم کے لیے بھر پور کو شش میں مصروف عمل ہے۔ اِسی لیے تو شہباز شریف اور حمزہ شہباز کا امیج ن لیگیوں میں اِس طرح کا پینٹ کیا گیا ہے کہ یہ تو اِس اہل ہی نہیں ہیں۔ یہ تو تھیں کالم کے آغاز میں ماضی اور حال سے جڑی ہوئی باتیں۔
عمران خان کی جانب سے ایسا بیان کہ نوکر شاہی تعاون نہیں کر رہی ہے۔کبھی کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف کے پاس نہیں جانا کبھی کہتے ہیں کہ جانا ہے۔ عمران خان کے اوپنر بیٹسمین جناب اسد عمر کی جانب سے جو رویہ سامنے آیا ہے وہ تحریک انصاف کے کارکنوں کے لیے بالخصوص اور عوام الناس کے لیے بالعموم انتہائی عجیب ٹھرا ہے۔ موصوف اپوزیشن میں دئیے گئے اپنے ہی بیانوں کے خلاف اندھا دھند بیان داغ رہے ہیں اور تو اور اسحاق ڈار کے ویژن کو بھی درست قرار دئے چکے ہیں اور نواز شریف کی معاشی ٹیم کے لوگوں کو بھی اپنے گلے کا ہار بنائے ہوئے ہیں۔
پاکستان کی انتہائی بدقسمتی ہوگی کہ عمران خان اگر فیل ہو جاتے ہیں یقینی طور پر کرکٹ کھیلنے اور ملک چلانے میں بہت فرق ہے۔ لیکن عمران خان دیانتدار اور بہادر آدمی ہیں نمل کالج میانوالی اور شوکت خانم ہسپتال کی تعمیر اور اِن ہر دو اداروں کا پاکستان کے عام لوگوں کو خدمات دینا اِس با ت کی دلالت ہے کہ عمران خان کے اندر قائدانہ صلاحیتیں بدرجہ اُتم موجود ہیں۔ اِس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ عمران خان کی نجی زندگی کو بہت زیادہ سکینڈلائز کیا گیا ہے ، یہ ن لیگ کے پاس ایک بہت بڑا ہتھیار رہا ہے کہ وہ خود کو رائٹ ونگ کی جماعت کہتی رہی ہے اور اسلام پسندی کا لیبل لگا کر مخالف سیا ستدانوں پر اخلاقی الزمات لگاتی رہی ہے۔بے نظیر بھٹو کے معاملے میں بھی ن لیگ یہ کر چکی ہے۔عمران خان کے خلاف تو سب کچھ کل کی بات ہے۔
عمران خان کی جانب سے اقتصادی مسائل کے حل کے لیے ٹیم کا نہ ہونا بہت بڑا المیہ ہے۔ کنٹینر کی سیاست کے بعد جب حکومت ملی ہے تو عمران خان کو آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہوا ہے۔ اپوزیشن کرنا بڑا آسان کام ہے پاکستان جسے ترقی پذیر ممالک میں جہاں ہمیشہ سے مخالفین کی عزتوں کا جنازہ نکالا جاتا رہا ہے ا س ماحول میں تحریک انصاف نے بہت زبردست اپوزیشن کی ہے ۔ بلکہ فواد چوہدری اورفیاص الحسن چوہان جیسے لوگ ایسے کاموں کے لیے ہی رکھے جاتے ہیں جو وہ کر رہے ہیں۔ پاکستان میں نیب کاادارہ اپنا امیج بہتر نہیں بنا سکا۔ اعلیٰ عدلیہ بھی نیب سے شاکی رہتی ہے۔ اِن حالات میں جب شہباز شریف کو نیب کی حراست میں کا فی دن گزر چکے ہیں اور ضمنی الیکشن میں تحریک انصاف کی کارکردگی بھی منفی رہی ہے۔ عام تاثر یہی اُبھر رہا ہے کہ عمران خان سے حکومت سنبھالی نہیں جارہی اوپر سے موصوف خود فرما چکے ہیں کہ بیوروکریسی اُن کے قابو میں نہیں۔یہ باتیں عمران خان جیسے رہنماء کے لیے بہتر نہیں ہیں۔ عوامی سوچ میں تبدیلی پیدا ہونا شروع ہوگئی ہے کہ عمران فیل ہو رہا ہے۔پنجاب پاکستان کا ساٹھ فی صد ہے پنجاب حکومت میں ایک کمزور شخص کو وزیر اعلیٰ لگا کر عمران خان نے خود ہی اِس تاثر کو ہوا دی ہے کہ عمران خان حکومت کرنے میں کتنے سنجیدہ ہیں۔ علیم خان کے خلاف بھی نیب میں کیس ہیں لیکن وہ اِس وقت اصلی وزیر اعلیٰ پنجاب ہیں۔سوئی گیس کی قیمت میں اضافہ، میٹرو کے کرائے میں سبسڈی ختم کرنے کا ا علان ، یہ غریبوں کو حکومت کیا پیغام دئے رہی ہے۔
آصف زرداری کی جانب سے حکومت کے خلاف متفقہ قرار داد لانے کی بات کی۔مولانا فضل الرحمان، آصف زرداری، شریف خاندانموجودہ حالات میں ایک پیج پر آچکے ہیں۔ عمراں خان کے خلاف یہ سب لوگ متحد ہو چکے ہیں۔ عمران خان نے سینٹ کے چیئرمین کے لیے آصف زردار ی کے ساتھ مل کر اکثریتی پارٹی ن لیگ کو چِت کر دیا تھا اور اِس بات سے کون انکار کر سکتا ہے کہ آصف علی زردار ی کے پیچھے اسٹبلشمنٹ تھی اور ہے۔ میرئے اِس قیاس کو بس قیاس ہی سمجھیں کہ عمران خان کی جانب سے تین ماہ کے اندر ہی ہاتھ کھڑئے کرنا درحقیقت نادیدہ قوتوں کا ایجنڈا ہو سکتا ہے۔ عمران کی حکومت میں چوہدری پرویز الہی پنجاب میں اہم پوزیشن میں ہیں اُن کے بیٹے اور بھتیجے بھی قومی اسمبلی کے رکن بن چکے ہیں۔ پرویز الہی زرداری کی حکومت میں نائب وزیر اعظم رہ چکے ہیں۔ چوہدری برادران کسی وقت بھی زرداری کے ساتھ مل کر حکومتی بساط اُلٹ سکتے ہیں اور ن لیگ اِن حالات میں چوہدریوں اور زرداری کی ہر بات ماننے کے لیے تیار ہو جائے گی۔ اِس خاکسار کے خیال میں عمران خان کا بہت بڑا کارنامہ اسٹیٹس کو کو توڑنا تھا لیکن اسٹیٹس کو کی قوتیں عمران خان کو ناکام بنانے کے لیے مصروف عمل ہیں۔ زردرای کی جانب سے جس طرح منی لانڈرنگ کی گئی ہے اُِس کے کے گرد اب گھیرا تنگ ہوتا جارہا ہے اِس لیے زرداری حکومت کو کھلی دھمکی دئے رہا ہے ۔سعودی عرب کی جانب سے صحافی کے قتل کے بعد حالات کا نزلہ پاکستان پر بھی گر سکتا ہے کیونکہ ترکی ہمارے بہت قریب ہوچکا ہے۔اِن حالات مین زرداری کی جانب سے حکومت کے خلاف اعلان جنگ بہت بڑا اعلان ہے۔ پاکستان تحریک انصاف اِسے نظر انداز نہ کرئے

Sunday, 14 October 2018

ضمنی الیکشن حکومت کی مقبولیت کا ریفرنڈم...Written By صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی

ضمنی الیکشن حکومت کی مقبولیت کا ریفرنڈم

صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی

ضمنی الیکشن کے نتائج حکومت سازی کے حوالے سے تو کوئی خاص اہمیت کے حامل نہیں ہیں یعنی اِن نتائج کی بناء پر حکومت کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اِس کے ساتھ ساتھ ایک بات ظاہری طور پر خوش آئین ہے کہ جیسی بھی لنگڑی لولی جمہوریت پاکستان میں ہے اِس کو استحکام ملا ہے۔ وقت نے یہ ثابت کیا ہے کہ بہرحال آمریت سے جمہوریت بہتر ہی ہے۔پچھلے پچاس دنوں میں پی ٹی آئی کی حکومت کو جن مشکلات کا سامنا ہے اور جن مسائل میں گھری ہوئی ہے اُس کا اندازہ ضمنی الیکشن میں بھی ہوا کہ سعد رفیق اور خاقان عباسی بھی قومی اسمبلی میں پہنچ چکے ہیں۔پاکستان میں جمہوریت کو استحکام دئیے جانے کے حوالے سے تمام سیاسی جماعتوں کا کردار اہم ہے۔ تحریک لبیک پاکستان کے امیدوار نے بھی چوہدری سالک حسین کے مقابلے میں چونتیس ہزار ووٹ لیے۔شاید پاکستانی اسٹبلشمنٹ تحریک لبیک پاکستان کی مقبولیت سے خائف ہے۔ عام انتخابات میں بھی تحریک لبیک نے بائیس لاکھ ووٹ لیے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ ہر طبقہ فکر کو قومی دھارئے میں لایا جائے لیکن تحریک لبیک کے معاملے پر ارباب اختیارکا انداز مختلف ہی ہے۔جماعت اسلامی جے یو پی کی سیاست سب کے سامنے ہے اور اِس وقت اُن کی اسمبلی میں کوئی حیثیت نہیں ہے۔ جے یو آئی پھر بھی فعال ہے۔ اِن حالات میں تحریک لبیک کے ساتھ سوتیلا سلوک نہیں کیا جانا چاہیے۔ شہباز شریف گرفتار ہیں۔ نواز شریف اور مریم نواز بھی زیر عتاب ہیں اِن حالات میں ن لیگ کی کارگردگی بہتر ہے۔
ملک بھر میں قومی اور صوبائی اسمبلی کی 35 نشتوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات کے غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج کے مطابق لاہور میں قومی اور صوبائی اسمبلی کی چاروں نشستوں پر مسلم لیگ ن نے کامیابی حاصل کر لی ہے، لاہور میں ’’شیر کی دھاڑ‘‘ نے کھلاڑیوں کے چھکے چھڑا دیئے ہیں۔ این اے 131 کے بڑے معرکے میں خواجہ سعد رفیق نے ہمایوں اختر خان کودس ہزارووٹوں سے شکست دیدی شکست دے کر حکمران جماعت کو حیرت زدہ کر دیا ہے جبکہ این اے 124 لاہور میں سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے تحریک انصاف کے امیدوار غلام محی الدین دیوان کو واضح اور بھاری اکثریت سے شکست سے دو چار کر دیا ہے،لاہور کی صوبائی اسمبلی کی 2 نشستوں پی پی 164 اور پی پی 156 سے بھی ن لیگ کے امیدوار سہیل شوکت بٹ اور ملک سیف الملوک کھوکھر نے تحریک انصاف کے امیدواروں کو چاروں شانے چت کرتے ہوئے فتح حاصل کر کے پی ٹی آئی کو بڑا جھٹکا دے دیا ہے۔
ضمنی انتخاب میں تحریک انصاف کو بنوں میں بھی بڑا جھٹکا لگا ہے،این اے 35 بنوں سیغیر سرکاری اور غیر حتمی نتائج کے مطابق وزیر اعظم عمران خان کی چھوڑی ہوئی نشست پر متحدہ مجلس عمل کے امیدوار اور سابق وزیر اعلیٰ اکرم خان درانی کے بیٹے زاہد خان درانی نے بڑے مارجن سے تحریک انصاف کے امیدوار مولانا سید نسیم علی شاہ کو شکست سے دو چار کر دیا ہے۔عمران خان کی حکومت کا آغاز بہت سی توقعات سے ہوا ہے۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ عمران نے گذشتہ پانچ سالوں سے اِسی طرح کی سیاست کی ہے کہ بہت زیادہ سنسنی پیدا کی گئی ۔ شائد عمران کی کامیابی کی وجہ بھی یہ ہے کہ وہ عوام کو یہ باور کروانے میں کامیاب ہوگئے کہ اسٹیٹس کو کو ختم کیے بغیر عام پاکستانی کی حالت نہیں سُدھرئے گی۔ عوام کی طاقت، اسٹیبلشمنٹ کی نوازشات اور نواز شریف کی پاک فوج کے خلاف اور ختم نبوت کے قانون کے خلاف محاذآرائی عمران خان کے لیے اقتدار میں آنے کا سبب بنا۔ نواز شریف کا سیاسی زوال اُن کے ذاتی جابرانہ رویے کا نتیجہ ہے کہ اُن کے اندر کی خود پسندی نے اُن کو جس طرح اپنے حصار میں لے رکھا ہے اُس کی وجہ سے کسی بھی دوسرئے ریاستی ادارئے کو خاطر میں نہیں لاتے رہے اور یوں وہ جیل کی ہوا کھانے کے بعد پھر سے جیل یاترہ کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔اور شہباز شریف گرفتار ہو کر نیب کے پاس ہیں۔
واقفانِ حال بتاتے ہیں کہ نواز شریف ایک نئے انداز میں پاکستانی فوج کے خلاف مہم جوئی شروع کرنے والے ہیں اور شہباز شریف کی تمام تر کو ششوں کے باجود نواز شریف کا ذہن فوج اور عدلیہ مخالفت میں اٹکا ہوا ہے ۔یوں نواز شریف کی سیاست کے عنصر کو ن لیگی محور سے کم کرنے کے لیے شہباز شریف کو گرفتار کرکے اُس کو واقعی اپوزیشن لیڈر بنائے جانے کے لیے عوام میں تاثر دیا جا رہا ہے۔
عمران خان کی حکومت کے دو انتہائی رہنماء جناب فواد چوہدری اور فیاض الحسن چوہان کا رویہ ایسا ہے کہ جیسے وہ اپوزیشن میں ہیں اور وہ ہر وقت لڑنے مرنے کے تیار رہتے ہیں۔ ہوسکتا ہے پی ٹی آئی کی حکومت کو اِس بات کا ادراک ہے کہ اسٹیٹس کو کو توڑنے کے لیے اِسی طرح کا جارحانہ رویہ ہی اُن کے لیے کار گر ثابت ہوگا۔دوسری طرف پی ٹی آئی کی حکومت نے جو بیانیہ اپنایا ہے کہ اُن کے پاس جادو کی چھڑی نہیں کہ وہ ستر سال کے مسائل چالیس دنوں میں حل کریں۔ اِس بیانیے میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کا نابالغ پن دیکھائی دیتا ہے اور اِس طرح کا رویہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ پی ٹی آئی نے اقتدار میں آنے کے لیے جس طرح کے بلند بانگ دعوے کیے تھے وہ سارئے کے سارئے جذبات پر مبنی تھے اور عقل سے عاری تھے۔ اِس لیے تحریک انصاف کی حکومت کو اِس انداز کو بدلنا ہوگا کہ ہم اتنی جلدی کچھ نہیں کر سکتے۔ گویا عوام اُن کے اِس بیانیے سے مایوس ہورہے ہیں رہی سہی کسر سوئی گیس اور سی این جی کی قیمتوں میں ہوشروبا اضافہ کرکے نکل گئی ہے۔ عوام کو ریلیف دینے کی بجائے مہنگائی کی چکی میں ڈال دیا گیا ہے۔ عوام یہ سوچنے میں حق بجانب ہیں کہ ن لیگ اور پی ٹی آئی میں کوئی فرق نہیں رہا۔ضمنی الیکشننے ایکبات واضع کردی ہے کہ ن لیگ باجود تمام ہتھکنڈوں کے، میدان میں موجود ہے بلکہ قائم دائم ہے۔ کرپشن کے خلاف تجاوزات کے خلاف عمران خان کو اپنی کوششوں کو جاری رکھنا چاہیے لیکن عوام پر مہنگائی کے پہاڑ توڑنے کی بجائے اشرافیہ سے پیسے نکلوائے جانے چاہیے۔

Monday, 1 October 2018

قران مجید کی منظو م تفسیرنورِ فرقان ڈاکٹر شہناز مزمل کا عظیم علمی کارنامہ ...................................صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی

 

 

قران مجید کی منظو م تفسیرنورِ فرقان ڈاکٹر شہناز مزمل کا عظیم علمی کارنامہ

صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی

اُردو زبان کا شمار دُنیا کی زیادہ بولی اور سمجھی جانے والی زبانوں میں ہوتا۔اُردو فارسی اور عربی کا مرکب ہی تو ہے۔ اِس کے علاوہ اُردو کا دامن اتنا وسیع ہے کہ ہر زبان کا لفظ اِس کے اندر سما جاتا ہے۔ یوں انگریزی ، فرینچ، جرمن زبان کے بہت سے الفاظ اُورد زبان کا حصہ بن چکے ہیں۔برصغیر پاک وہند میں اُردو زبان کو ہمیشہ سے مسلمانوں کی زبان خیال کیا جاتا رہا ہے۔ اِسی لیے ہندو مذہب کے ماننے والے اُردوز بان کو پیار کی نظر سے نہیں دیکھتے لیکن اِس کے باوجود اُردو زبان میں ہونے والی شاعری اور نثر نگاری نے پوری دُنیا میں خوب سکہ جمایا ہے۔قران چونکہ سر زمینِ عرب میں نازل ہوا اور یوں قران کی زبان عربی ٹھری۔ قران کو سمجھنے کے لیے اقوام عالم نے اپنی اپنی زبانوں میں اِس کے تراجم کیے۔ اُردو میں بھی قران مجید کے تراجم اور تفاسیر لکھی جاچکی ہیں۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان ؒ کا لازوال ترجمہ اُردو زبان میں کنزلایمان کے نام سے بہت مشہور ہے۔ لیکن عہد حاضر میں اُردو زبان کے حصے میں ایک اور بہت بڑی سعادت آئی ہے وہ یہ کہ قران مجید کی منظوم تفسیر کی گئی ہے۔دین اسلام کی سربلندی کے لیے ہر دور میں اللہ پاک نے اپنے خاص بندوں کو چُنا اور اِن بندوں کو اسطاعت عطا فرمائی کہ وہ اپنے رب کے احکامات کو دُنیا بھر کے انسانوں تک پہنچائیں۔ ایک ایسی ہستی جو کہ اپنے رب اور اُس کے رسولﷺ کی محبت کے فروغ کے لیے تگ و تاز جاری رکھے ہوئے ہے اُن کی جانب سے اللہ پاک کی آخری کتاب قرانِ مجید کا منظوم ترجمہ تحریر کیا جانا عظیم سعادت ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ کی جانب سے سورۃ القدر کامنظوم ترجمہ ملاحظہ فرمائیں۔ ہے اللہ کے نام سے ابتدا۔ وہ رحمان ہے رحمتِ بے بہا۔شب قدر اُتارا ہے قران کو۔ مگر کیا خبر اس کی انسان کو۔ہزاروں مہینوں سے افضل یہ رات۔جو دیکھیں نظر آئے جلوہ ذات۔ ملائکہ اترتے ہیں شب بھر سبھی۔ تو کتنی ہے رات رحمت بھری۔ اُترتے ہیں اِس شب وہ روح الامیں۔ وہ لاتے ہیں احکام دنیا و دیں۔ سلامتی لے کے بہ اِذنِ خدا۔ تو رہتی ہے تا فجر نوری فضا۔ یہ ہے اندازِ بیاں جو ڈاکٹر صاحبہ نے قران مجید کے منطوم ترجمے کو تحریر کرنے کے لیے اپنایا ہے۔مسلم دُنیا کی یہ پہلی خاتون ہوں جنہوں نے اردو زبان میں قران مجید کا منظوم ترجمہ تحریر کیا۔ محترمہ ڈاکٹر شہناز مزمل صاحبہ ممتاز شاعرہ و نثر نگار ہیں اور ادب سرائے انٹرنیشنل کی سربراہ ہیں۔ہمارئے معاشرئے میں انسانی اقدار جس طرح زوال پزیر ہیں اور مادیت نے ہر شے کو گہنا کر رکھ دیا ہے۔ اِن حالات میں اللہ پاک اور اِس کے عظیم رسولﷺ کے پیغام کو امُت مسلمہ تک پہنچانا ایک بہت بڑا صادقہ جاریہ ہے۔ مادر دبستان لاہور کے لقب کی حامل محترمہ ڈاکٹر شہناز مزمل صاحبہ ایک قادر الکلام شاعرہ ہیں اور اِس کا ثبوت اُن کا عظیم کارنامہ قران مجید کا منظوم ترجمہ ہے۔ مجھے اُن کی خدمت میں حاضری کا شرف ہےَ لیکن آفرین ہے محترمہ ڈاکٹر شہناز مزمل صاحبہ نے انتہائی انتھک محنت اور رب پاک کی خاص مہربانی اور نبی پاکﷺ کی رحمت کے طفیل اتنا بڑا کام کیا ہے۔ قران مجید سے محبت کرنے والوں پر اللہ پاک کا خاص کرم ہوتا ہے۔ قران مجید کا پیغام عام کرنے والے اللہ پاک کے خاص بندے ہوتے ہیں۔دین حق سے آگاہی کا یہ عالم کے قران مجید کا منظوم ترجمہ کیا جائے اور پڑھنے والوں کو یہ شائبہ تک نہ ہو کہ کہیں بات بغیر کسی سیاق وسباق کے کی گئی ہے اتنی بڑی ذمہ داری کا کام کرنا۔ اللہ پاک کے خصوصی کرم کے بغیر کیسے ممکن ہے۔ تیسویں پارئے کی سورتیں جس انداز میں ترجمہ کی گئی ہیں اُس حوالے سے صاف پتہ چلتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے ایک لازوال کام کیا ہے۔ سوشل میڈیا کے بہت زیادہ استعمال اور پرائیوٹ چینلز کی بھرمار نے وقت کی رفتار کو تیز کر دیا ہے۔ دن اِس طرح گزر رہے ہیں جیسے منٹ اور سکینڈ گزرتے ہیں۔ ایسے میں اللہ کے نیک بندوں کی محافل بنی نوح انسان کی تربیت کے لیے اور نفسیاتی طور پر راہ حق کے لیے خود کو وقف کرنے کے لیے بہت ضروری ہیں۔ ڈاکٹر شہناز مزمل صاحبہ کودُنیاوی چیز سے کوئی محبت نہیں وہ تو اپنے رب کے عشق میں مسلسل مسافت اختیار کیے ہوئے ہیں اور عشق مسلسل کا یہ انداز کہ اُنھوں نے قران پاک کا منطوم ترجمہ تحریر فرمایا ہے۔رب پاک کا فرمان ہے کہ اگر کو قران مجید کو پہاڑ پر نازل کیا جاتا تو پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجاتا۔لیکن صاحب قران حضور نبی پاکﷺ پر نازل ہونے والی یہ عظیم کتاب پوری کائنات کے لیے راہ ہدائت ہے۔ اِس کتاب کو منظوم انداز میں تحریر کرنا۔ اللہ پاک کی طرف سے عظیم سعادت ہے عام قاری کے لیے یہ منظوم ترجمہ بہت بڑا تحفہ ہے اور ڈاکٹر صاحبہ کا یہ انقلابی کام صدیوں اُردو پڑھنے والوں کے لیے عظیم سرمایہ ہے۔ جب تک یہ دُنیا قائم ہے اُس وقت تک ڈاکٹر صاحبہ کاکیا ہوا یہ منظوم ترجمہ انسانوں کو اپنے رب کا پیغام منظوم انداز میں پہنچائے گا۔ اللہ پاک کا کلام قرانِ مجید، اُس کلام کو منطوم تحریر کی شکل دینا سعادت کا عظیم مرتبہ ہے۔ ڈاکٹر صاحب کا یہ منظوم ترجمہ درحقیقت قران مجید کی تفسیر بھی ہے۔ڈاکٹر شہناز مزمل ایک ایسی ہستی کا نام ہے۔جب بھی مجھے اِن کا خیال آتا ہے تو اِن کے خیال کے ساتھ ہی مجھے اپنے قلب وجان میں عشق مصطفےﷺ کی شمع فروزاں ہوتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ڈاکٹر شہناز مزمل صرف ایک شاعرہ اور مصنفہ کا نام نہیں ہے بلکہ ڈاکٹر صاحبہ کی عشق مصطفےﷺ کی کیفیات اور اللہ پاک کے ساتھ اُن کا تعلق کا انداز عہد حاضر کے لوگوں کے لیے عظیم سرمایہ ہے۔ مجھے اپنی کم مائیگی کا احساس ہے کہ میری طرف سے محترمہ ڈاکٹر شہناز مزمل صاحبہ کے حوالے سے کچھ لکھنا ایسے ہی ہے جیسے سورج کو چراغ دیکھانا۔ڈاکٹر شہناز مزمل صا حبہ نے جس طرح خالق کی محبت میں ڈوب کر لکھا ہے اور جس راستے کی وہ مسافر ہیں یقینی طور پر راہ حق کے مسافروں کے لیے اُنھوں نے جس طرح رہنمائی کی ہے وہ یقینی طور پر ایک کامل ولی ہی کر سکتا ہے۔ڈاکٹر صاحبہ کی اپنے اردگرد کے لوگوں پر اتنی نوازشات ہیں کہ وہ سب کے لیے ایک ایسا شجر سایہ دار ہیں جس سے ہر کوئی فیض لیتا ہے۔ ڈاکٹر شہناز مزمل صاحبہ کا لکھا ہوا ایک ایک لفظ راہ عشق حقیقی کا آئینہ دار ہے۔اللہ پاک نے ڈاکٹر شہناز مزمل صاحبہ پر اپنے بے پناہ کرم سے نواز ا ہے کہ اُن کی شاعری اور نثر دونوں میں انسانیت سے محبت اور فلاح کا راستہ دیکھائی دیتا ہے۔ڈاکٹر شہناز مزمل صاحب جن راستوں کی راہی ہیں وہ اخلاص محبت اور وفا سے سجا ہوا ہے۔ادب سرائے ماڈل ٹاون لاہور کی چےئرپرسن ڈاکٹر شہناز مزمل گذشتہ تین دہائیوں سے تشنگان علم و ادب کے لیے چراغِ راہ بنی ہوئی ہیں۔ کسی قسم کے تجارتی ہدف سے ماورا محترمہ ڈاکٹر صاحبہ علم و آگہی کے موتی بکھیر رہی ہیں کتاب سے اُن کا تعلق ایسا ہی ہے جیساکہ اپنی اولا د سے ہوتا ہے۔چند برسوں سے سوشل میڈیا کے توسط سے اِن سے رابطہ ہے اور مجھے ہمیشہ اپنا چھوٹا بھائی کہتی ہیں۔اُن کی خصوصی دعوت پر حذیفہ اشرف اور مجھے اِس عظیم خاتون سے ملاقات کا شرف ادب سرائے میں ہوا۔زندگی کو جس انداز میں ڈاکٹر صاحبہ نے سمجھا ہے وہ وہی اسلوب ہے جس طرح کا انداز اللہ پاک کے ولیوں کا ہوتا ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ ایک ممتاز شاعرہ، نثر نگار ہیں اُس کے ساتھ ساتھ فلاحی کاموں میں بھی اپنا کردار ادا کرہی ہیں۔ اِس حوالے سے جب اُن سے گفتگو ہوئی تو اُنھوں نے اپنے آپ کو فلاحی کاموں میں وقف رکھنے کا سبب جو بتایا وہ یہ ہی تھا کہ اِس زندگی کا مقصد دکھی انسانیت کے لیے آسانیاں پیدا کرنا ہے۔ڈاکٹر صاحبہ گذشتہ تیس سالوں سے ادب سرائے میں مختلف تقریبات منعقد کر رہی ہیں۔ فیض گھر میں بھی کافی عرصہ اُنھوں نے مختلف ادبی نشستوں کا انعقاد کیا۔دُنیا کے حرص سے دور اپنے رب کی محبت میں زندگی گزارنے والی ڈاکٹر شہناز مزمل ایک بہت بہادر خاتون ہیں ۔ اِن کی شاعری میں جابجا اپنے رب کے شکر کا اظہار ملتا ہے۔ ایسا وہی شخص کر سکتا ہے جس کے اندر طمع نہ ہو۔مجھے جب بھی ڈاکٹر شہناز مزمل صاحبہ کی شاعری سے استفادہ ہونے کا موقع ملا تو یہ وہ لمحات ہوتے ہیں جب دل اور نگاہیں وضو کرتی ہیں۔ ۔ڈاکٹر صاحبہ کی شاعری کے حوالے سے میرے جانب سے کچھ ضبطِ تحریر میں لانا ایسا ہی جیسے کوئی ناخواندہ کسی عالم کی مدحہ سرائی کر رہا ہو۔ لیکن کیونکہ ڈاکٹر صاحبہ کی الفاظ میں رب پاک، نبی پاکﷺ، اہل بیتؓ وصحابہ اکرامؓ کی عقیدت کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے اِس لیے مجھ جیسا شاعری کے مدو جذر سے نا آشنا بھی خود کو فیض یاب پاتا ہے۔اِنسانی جذبات اور رویوں کو الفاظ کے قالب میں ڈھالناگو ڈاکٹر صاحبہ پر رب پاک کا خاص احسان اور عنائت ہے۔ڈاکٹر صاحبہ کی اپنی زندگی میں جو تنہائی ہے اُس کیفیت نے اِن کو ایسے جذبوں کا ترجمان بنایا ہے جس کو بیان کرنا ناممکن ہوتا ہے اِیسی کیفیات صرف محسوس ہی کی جاسکتی ہیں۔ ڈاکٹر صاحبہ نے ادب سرائے کو جس انداز میں رونق بخشی ہے وہ اُنھی کی ذات کا ہی خاصہ ہے۔بچوں کو کہانی سُنانے کو وہ انداز جو ہم اپنے بچپن میں اپنی ماں یا دادی سے سنا کرتا تھے اُس روایت کو ڈاکٹر صاحبہ نے تقویت بخشی ہے۔شہناز مزمل صاحبہ کی شاعری میں بلا کی دوربینی ہے۔ وہ لکھنے والے ایسے قبیلے سے تعلق رکھتی ہیں جہاں مادیت چھو کر بھی نہیں گزری۔یہ ادب سرائے ہم جیسے دنیا داروں کے لیے امن و محبت کا ایسا گوشہ ہے کہ جس طرح فقیر کی چوکھٹ درد کی دولت عطا کرتی ہے۔ کچھ ایسا ہی ہمارئے لیے ادب سرائے ہے۔ اللہ پاک میری بڑی بہن ڈاکٹر شہناز مزمل صاحبہ کی عمر دراز کرئے اور ملک وملت کی رہنمائی کے لیے اُن کا سایہ ہمارئے سروں پر تا ابد قا ئم رکھے آمین۔

Thursday, 20 September 2018

نواز شریف کی رہائی کے پسِ پردہ محرکات....... صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی

 

 

نواز شریف کی رہائی کے پسِ پردہ محرکات

صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی

نواز شریف کی رہائی سے ایک بات تو ثابت ہوچکی ہے کہ نہ تو کوئی نیا پاکستان بننے جارہا ہے اور نہ ہی پاکستان تحریک انصاف اقتدار میں عوامی طاقت کے بل بوتے پر آئی ہے۔ معاشیات میں ایک بات کہی جاتی ہے کہ " ایک ملک غریب ہے کیونکہ وہ غریب ہے"۔پاکستان میں اخلاقی دیوالیہ پن کا یہ عالم ہے کہ انصاف صرف اشرافیہ کے لیے ہے ۔ عام آدمی میں سکت ہی نہیں کہ وہ انصاف خرید سکے۔پاکستان میں ازل سے ابد تک حکمرانی اسٹیبلشمنٹ کی ہے اور رہے گی۔ نیا پاکستان اور ایک پاکستان اور سب کا پاکستان سعادت حسن منٹو کے افسانے " نیاقانون" کی مانند ثابت ہوا ۔ یہ علحیدہ بات کہ پاکستان نور ہے اور نور کو زوال نہیں۔
جس انداز میں قوم کو نوید سُنائی جارہی تھی کہ اب قوم کھڑی ہوچکی ہے قوم کو ایک باغیرت حکمران میسر آچکا ہے۔ اب سب کے لیے یکساں سماجی و معاشی مواقع ہوں گے۔لیکن یہ سب کچھ تو چہرئے بدلنے کے لیے تھا۔پرانے ملازم سے جو آنکھیں دکھانے لگ گیا تھا اُس سے جان چھُڑا کر نیا ملازم پرانی تنخواہ پر ہی رکھ لیا گیا ہے اور پرانے ملازم کے" باہر " والوں سے تعلقات اتنے مضبوط ہیں اور وہ اُن کے لیے اتنا کارآمد ہے کہ " باہر والوں " نے اپنے خیر خواہ کو تنہا نہیں چھوڑا۔ عدالتِ عالیہ نے ایسا دھوبی پٹکا مارا کہ انصاف کا ترازو ایک طرف جھکا دیا گیا۔ کہاں کا نیا پاکستان کہاں کی ترقی ، کہاں کا انصاف کہاں کا ایک پاکستان۔ پُرانے پاکستان کی خاتون اول کی وفات پر تعزیت کے لیے چین ترکی سعودی عرب اور قطر کے سفیروں نے نئے پاکستان کے معمار کو بتا دیا کہ آٹے اور دال کا بھاؤکیا ہے۔نئے پاکستان کے معمار کو فرما نروا بننے کا اتنا شوق تھا کہ اُس نے ہر بات" اوپر والوں" کی ماننے کی قسم کھاء رکھی ہے۔ نئے پاکستان کے تیس دن مکمل ہونے پر قوم کو سوئی گیس بجلی کی قیمتوں میں اضافے کی وعیدسُنائی جاچکی ہے اور متعلقہ وزیر موصوف جو اقتدار میں آنے سے پہلے پاکستان میں دودھ کی نہریں بہانے کا گلہ پھاڑ پھار کر اعلان کر رہے تھے وہ اب منی بجٹ بھی لاچکے ہیں اور عوام کو نیا پاکستان بنانے کا مزہ چکھا رہے ہیں۔خواب جو ٹوٹے تو ہم نے یہ جانا۔لوگ روتے ہیں کس لیے اتنا۔
سی پیک کے پراجیکٹ کے ڈیزائن میں تبدیلی اور اورنج ٹرین کے منصوبے کا کھٹائی میں پڑ جانا۔وزیر اعلیٰ پنجاب کی جانب سے ڈی پی او کو ٹرانسفر کیے جانے کا عمل۔وزیر اطلاعات پنجاب کی زبان درازیاں ، سانحہ ماڈل ٹاون کے ملزمان کی گرفتاری۔پنجاب کا پولیس کلچر۔ سرکاری دفاترکے ملازمین کا رویہ۔ رشوت اور چور بازاری۔کون کہتا ہے کہ تیس یوم میں ستر سال کے مسائل حل کیے جائیں۔لیکن نواز شریف کی رہائی نے قوم کو صدمہ میں مبتلا کر دیا ہے۔چوروں ڈاکوؤں کو لگام دینے کا نعرہ بلند کرکے اقتدار حاصل کرنے کے بعد ملک کو کس طرف لے جایا جارہا ہے۔ بجلی گیس پٹرو ل اور ڈیزل کی قیمتوں کا رونارونے والوں نے خود بھی وہی کچھ کیا جو سابقہ حکومت کا وطیرہ رہا ہے۔ منی بجٹ، ماہرِ فنانس نے ایسا پیش کیا ہے کہ جن کی چیخیں آج تک نہیں نکلیں تھیں وہ بھی آہ وپکار کر ہے ہیں۔نیا پاکستان اور ایک پاکستان کی شروعات جس انداز میں کی گئی ہیں اللہ پاک رحم کرئے۔نیب زدہ برطانوی شہری لیکن بادشا ہ سلامت کے انویسٹر کو وزارت مرحمت فرمائی جاچکی ہے ۔
نواز شریف کو غیر ملکی گارنٹیوں کی بناء پر رہا کیا گیا ہے جو کہ بظاہر ایسا ہی لگتا ہے ورنہ نواز شریف جیسا کُنہ مُشق سیاستدان کبھی ہوائی جہاز سے لاہور نہ آتا بلکہ رہا ئی کے بعد جی ٹی روڈکا راستہ اختیار کیا جاتا اور نواز شریف کاکاٹ دار لہجہ خاموشی اختیار نہ کیے رکھتا۔ وقت نے ثابت کیا ہے کہ ہماری عدلیہ میں جان ہی نہیں ہے۔ انصاف نام کی کوئی شے نہیں ہے۔ماتحت عدلیہ اور عدالتِ عالیہ میں صرف تاریخیں ہی ملتی ہیں مقدمات کے فیصلہ جات نہیں کیے جاتے۔ ایک عام سول کیس تیس سال تک چلتا ہے۔ لیکن ہمارئے چیف جسٹس صاحب انصاف کی فراہمی کی بجائے دیگر کاموں میں مصروف ہیں۔ چیف جسٹس صاحب خود ذرا سول کورٹس میں جائیں دیکھیں کیا حال ہے سائلین کا۔ ایک کمزور شخص کو پنجاب کا وزیر اعلی بنا کر اِس کے گرد چوہدری پرویز الہی ، علیم خان، چوہدری سرور کا حصار قائم کردیا گیا ہے۔ پنجاب حکومت کو فٹ بال بنا دیا گیا ہے۔شہاز شریف دور کے مافیاز دندناتے پھر ر ہے ہیں۔ سعودی عرب سے بھاری سرمایہ کاری اور سعودی عرب کا سی پیک میں پاکستان کا شراکت دار بننے اچھی بات ہے۔
موجودہ حکومت کے اب تک کے تیس بتیس دن بتا رہے ہیں کہ موجودہ حکومت نے حکومت میں آنے سے پہلے کوئی ہوم ورک نہیں کررکھا تھا۔چالاک اور تجربہ کار بیوروکریسی کو لگام دینا اتنا مشکل لگ رہا ہے کہ یوٹرن ہی یوٹرن ہورہا ہے۔اِن حالات کی وجہ سے بادل نخواستہ شریف فیملی کی رہائی عمل میں لئی گئی ہے ۔ ہنوز دہلی دور است۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کالم نگار ہائی کورٹ میں وکالت کرتے ہیں اور کریمنالوجی کے اُستاد ہیں

Saturday, 15 September 2018

سید شاہ تراب الحق قادریؒ ۔ ایک عہد ساز شخصیت صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی syed Terab ul haq qadri r.a

 

 

 

سید شاہ تراب الحق قادریؒ ۔                                                                                ایک عہد ساز شخصیت

صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی

عشق رسولﷺ کی عظیم تحریک انجمن طلبہ ء اسلام کے ساتھ وابستگی کی بدولت ایسی ہستیوں کا بھی ذکر سننے میں ملتا رہا ہے جن کی خدمات نبی پاکﷺ کی محبت کے فروغ کے لیے بے شمار ہیں۔ کراچی میں کیوں کہ انجمن طلبہ ء اسلام کی بنیا دپڑی اور کراچی میں شاہ احمد نورانی ، حنیف طیب، افتخار غزالی، ریاض الدین نوری، مو لا نا جمیل نعیمی،معین نوری ،حافظ تقی ،حبیب صدیقی دیگر بہت سے احباب عشق رسولﷺ کے مشن سے وابستہ ہونے کی بناء پر دل وجان میں خصوصی احترام رکھتے ہیں۔ یقینی طور پر کراچی نے عشق رسولﷺ کے فروغ کے لیے ہمیشہ بہت کام کیا ہے۔جب بھی کراچی کے حوالے عشق رسول ﷺ کی تحریک کے حوالے سے کسی بزرگ ہستی کا نام ذہن میں آتا تو وہ جناب سید شاہ تراب الحق قادری صاحبؒ کی ہوتی۔ قبلہ شاہ صاحب نے اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ عشق رسولﷺ کے لیے رکھا۔ تصنیف و تالیف ، خطابت، دین کی تبلیغ۔ عوام کی فلاح کے لیے سیاست۔زندگی کے سارئے شعبہ جات میں جناب شاہ صاحبؒ کا کردار انمٹ ہے۔آپ ؒ کی بیماری کی بابت پتہ چلتا رہتا ۔ آپ کافی عرصہ سے بیمار تھے۔ ایک دفعہ انجمن طلبہ اسلام کی تاریخ مرتب کرنے والے عظیم عاشق رسولﷺسید شاہ تراب الحق قادریؒ وہ شخصیت تھے کہ جن کانام ذہن میں آتے ہی عشق رسولﷺ کی روحانی سرشاری محسوس ہوتی ہے۔ آپؒ کی ولادت 27 ماہ رمضان سن 1946ء کو ہوئی۔آپؒ قیام پاکستان سے ایک سال قبل 1946ء میں ماہ رمضان کی 27 تاریخ کو ہندوستان کی اس وقت کی ایک ریاست حیدرآباد دکن کیایک شہر ناندھیڑ کے مضافات میں موضع کلمبر میں پیدا ہوئے۔آپؒ کے والد ماجد کا نام حضرت سید شاہ حسین قادری بن سید شاہ محی الدین قادری بن سید شاہ عبداللہ قادری بن سید شاہ مہراں قادری تھا اور آپ ؒ کی والدہ ماجدہ کا نام اکبر النساء بیگم تھا اور آپؒ والد ماجد کی طرف سے سید ہیں اور والدہ ماجدہ کی طرف سے فاروقی ہیں یعنی سلسلہ نسب امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے۔ اپنے وقت کے جید عالم، مدیر المہام امور مذہبی حیدرآباد دکن حضرت علامہ مولانا انوار اللہ خان صاحب فاروقی علیہ الرحمہ سے آپؒ کا ننھیال ہے۔ حضرت علامہ مولانا انوار ا للہ خان صاحب ایک متبحر عالم دین تھے جن کی تبحر علمی کا اندازہ ان کی تصانیف ’’کتاب العقل‘‘اور ’’مقاصد الاسلام‘‘ کے مطالعے سے لگایا جاسکتا ہے۔تقسیم ہند، سقوط حیدرآباد دکن کے بعد 1951ء میں ہندوستان سے ہجرت فرما کر پاکستان تشریف لائے۔ سقوط حیدرآباد دکن میں آپؒ کے تایا محترم سید شاہ امیر ا للہ قادری کو شہید کردیا گیا تھا اور پاکستان تشریف لاکر آپ ؒ نے کراچی میں قیام فرمایا۔ کچھ عرصہ پی آئی بی کالونی میں، پی آئی بی کے قریب لیاقت بستی نامی آبادی میں رہے۔ اس کے بعدکورنگی منتقل ہوگئے۔ابتدائی تعلیم مدرسہ تحتانیہ دودھ بولی بیرون دروازہ نزد جامعہ نظامیہ حیدرآباد دکن میں حاصل کی۔ پاکستان آنے کے بعد پی آئی بی کالونی (کراچی) میں قیام کے دوران ’’فیض عام ہائی اسکول‘‘ میں تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد اپنے رشتے کے خالو اور سسر پیر طریقت رہبر شریعت ولی ا للہ نعمت قاری مصلح الدین صدیقی علیہ الرحمہ سے گھر پر کتابیں پڑھیں، پھر ’’دارالعلوم امجدیہ‘‘ میں داخلہ لے لیا جہاں زیادہ تر اسباق قاری صاحب علیہ الرحمہ کے پاس پڑھے اور سند صدر الشریعۃ بدر الطریقہ حضرت علامہ امجد علی اعظمی (متوفی 1367ھ) علیہ الرحمہ کے صاحبزادے شیخ الحدیث حضرت علامہ عبدالمصطفی ازہری علیہ الرحمہ سے حاصل کی جو اس وقت ’’دارالعلوم امجدیہ‘‘ کے شیخ الحدیث تھے جبکہ اعزازی سند وقار الملت سرمایہ اہلسنت حضرت علامہ مفتی محمد وقار الدین قادری رضوی حنفی علیہ الرحمہ سے حاصل کی جو اس وقت ’’دارالعلوم امجدیہ‘‘ کراچی کی مسند افتاء پر فائز تھے۔آپؒ کا نکاح 1966ء میں پیر طریقت ولی نعمت حضرت علامہ قاری محمد مصلح الدین صدیقی علیہ الرحمہ کی دختر نیک اختر سے ہوا۔ جس سے ا للہ تعالیٰ نے تین فرزند سید شاہ سراج الحق، سید شاہ عبدالحق اور سید شاہ فرید الحق اور چھ بیٹیاں عطا ہوئیں جن میں سے ایک کا تین سال کی عمر میں ہی وصال ہوگیا۔ باقی الحمد ا للہ بقید حیات ہیں۔آپؒ کے بڑے صاحبزادے سید شاہ سراج الحق نے درس نظامی کی اکثر کتب کا سبقاً سبقاً مطالعہ کرنے کے بعد موقوف کردیا جبکہ منجھلے صاحبزادے سید شاہ عبدالحق قادری نے بفضلہ تعالیٰ ’’دارالعلوم امجدیہ‘‘ سے سند فراغت حاصل کی۔ ان کے بارے میں حضرت سید شاہ تراب الحق قادریؒ فرماتے ہیں ’’جب سید عبدالحق کی پیدائش ہوئی تو پیر طریقت حضرت علامہ قاری مصلح الدین علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ ان کا نام محقق شاہ عبدالحق محدث دہلوی کی نسبت سے شاہ عبدالحق رکھو۔ شاید عالم دین بن جائے۔ لہذا قاری صاحب علیہ الرحمہ کے ارشاد کے مطابق شاہ عبدالحق رکھا گیا۔ خدا کا کرنا دیکھئے یہی بیٹا میرا عالم دین بنا۔ الحمدا للہ موصوف عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ اچھے مقرر بھی ہیں اور اپنے والد بزرگوار کی جگہ اکثر آپ ہی وعظ فرمانے تشریف لے جاتے ہیں۔ حضرت کے قائم کردہ دینی ادارے ’’دارالعلوم مصلح الدین‘‘ کا انتظام بھی انہی کے سپرد ہے اور ’’آخوند مسجد‘‘ کھارادر میں خطابت کے فرائض بھی انجام دیتے ہیں۔ چھوٹے صاحبزادے سید شاہ فرید الحق قادری اپنا کاروبار کرتے ہیں۔ شاہزادیوں میں آپ کی چھوٹی لخت جگر بھی عالمہ ہے۔1962ء میں بذریعہ خط اور 1968ء میں بریلی شریف حاضر ہوکر امام اہلسنت امام احمد رضا محدث بریلوی (متوفی 1340ھ) کے چھوٹے فرزند مفتی اعظم ہند حضرت علامہ مولانا مصطفی رضا خان صاحب کے دست حق پرست پر بیعت ہوئے۔ اس سفر میں آپ تیرہ روز حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ کے دولت خانے پر قیام پذیر رہے اور آپ سے تعویذات کی تربیت اور اجازت بھی حاصل کی۔ اسی دوران ’’مسجد رضا‘‘ میں نمازوں میں امامت فرماتے اور حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ ان کی اقتداء میں نمازیں ادا فرماتے، نیز کئی جلسوں میں حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ کی موجودگی میں تقریر فرمائی اور داد تحسین حاصل کی۔سلسلہ عالیہ قادری، برکاتیہ،اشرفیہ، شاذلیہ، منوریہ، معمریہ اور دیگر تمام سلاسل میںآپؒ کو اپنے پیر حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ، اپنے استاد و سسر پیر طریقت حضرت علامہ قاری مصلح الدین علیہ الرحمہ اور قطب مدینہ شیخ عرب و عجم حضرت علامہ مولانا ضیاء الدین مدنی علیہ الرحمہ کے صاحبزادے زینت العلماء مولانا فضل الرحمن مدنی علیہ الرحمہ سے خلافت و اجازت حاصل کی۔ ’’ماہنامہ مصلح الدین‘‘ کی اشاعت خاص ’’مصلح الدین نمبر‘‘ (اگست 2002/ جمادی الاخر 1223ھ) کے صفحہ 65 میں ہے کہ قبلہ قاری صاحب علیہ الرحمہ نے مورخہ 27 جمادی الثانی 1402ھ بمطابق 22 اپریل 1982ء بروز جمعرات بعد نماز عشاء بمقام میمن مسجد مصلح الدین گارڈن بتقریب خرقہ خلافت سند اجازت اور محفل نعت بروانگی عمرہ حاضری دربار مدینہ میں حضرت علامہ سید شاہ تراب الحق قادری ؒ کو سند خلافت اور اجازت بیعت عطا فرمائی۔اس سے قبل جب آپ 1977ء میں تبلیغی دورے پر نیروبی (کینیا) تشریف لے گئے۔ واپسی پر فریضہ حج ادا فرمایا۔ اسی سفر حرمین شریفین میں ضیاء الملت والدین حضرت علامہ مولانا ضیاء الدین مدنی علیہ الرحمہ کی صحبت میں کئی روز تک رہنے کی سعادت حاصل ہوئی۔1965ء تا 1970ء چھ سال ’’محمدی مسجد‘‘ کورنگی کراچی میں اور 1970ء تا 1982ء بارہ سال ’’اخوند مسجد‘‘ کھارادر کراچی میں امامت و خطابت فرماتے رہے پھر جب 1983ء میں آپ کے استاد و سسر قاری مصلح الدین علیہ الرحمہ (جوکہ اپنی نیابت و خلافت آپ کو پہلے ہی عنایت فرماچکے تھے) نے اپنے وصال سے دو سال قبل ’’میمن مسجد‘‘ مصلح الدین گارڈن سابقہ کھوڑی گارڈن کراچی کی امامت و خطابت آپ کے سپرد فرمائی۔ اس وقت سے تا وفات آپؒ قاری صاحب علیہ الرحمہ کی دی ہوئی ذمہ داری کو نبھا تے رہے۔جس وقت ’’اخوند مسجد‘‘ کھارادر کراچی میں امامت و خطابت کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ اس وقت نوجوانوں کی خاصی تعداد آپؒ کے حلقہ درس میں شامل ہوئی اور کئی تنظیمیں قائم ہوئیں جن میں سنی باب الاشاعت، تحریک عوام اہلسنت، انجمن اشاعت الاسلام، جمعیت اشاعت اہلسنت (1)، حقوق اہلسنت اور دعوت اسلامی (2) وغیرہا معرض وجود میں آئیں۔تقاریر کا سلسلہ آپ نے 1962ء میں شروع کیا جبکہ آپ ابھی طالب علم تھے، فراغت کے بعد مادر علمی ’’دارالعلوم امجدیہ‘‘ کراچی سے مبلغ کے طور پر خدمات انجام دیں، ہر جلسہ میں ’’دارالعلوم امجدیہ‘‘ کی جانب سے خطیب کے طور پر جانے جاتے تھے۔ وہ ایسا دور تھا کہ آپ ایک دن میں بارہ بارہ تقاریر بھی کرتے تھے۔وہ دور جب مولوی احتشام الحق تھانوی نے سرکاری و نجی دفاتر میں ہونے والے میلاد شریف کے جلسوں میں اپنا سکہ بٹھا دیا تھا۔ اس وقت حضرت نے اپنی مصروفیات کے باوجود سرکاری، نیم سرکاری ونجی اداروں، بینکوں اور دیگر دفاتر میں ہونے والے میلاد شریف کے جلسوں میں جاکر مسلک حق اہلسنت کے فروغ کے لئے تبلیغ فرمائی اور اس کا سلسلہ اڑتیس سال سے زائد عرصہ تک چلتا رہا پھر آپ نے طبیعت کی ناسازی اور مصروفیت کی زیادتی کی بناء پر تقاریر کا سلسلہ تقریبا موقوف کردیا۔۔دین متین کی تبلیغ و اشاعت میں آپ نے بھرپور حصہ لیا۔ اپنی تقاریر اور مواعظ حسنہ کے ذریعے کونے کونے میں اسلام کی دعوت کو عام کیا۔ یہ سلسلہ 1977ء سے شروع ہوا، جب آپ نے پہلا دورہ نیروبی کینیا کا فرمایا اور لوگوں کی دعوت پر کئی بار عرب امارات، سری لنک، بھارت، بنگلہ دیش، برطانیہ، ہالینڈ، جرمنی، بیلجیم، امریکہ، ساؤتھ افریقہ، کینیا، تنزانیہ، زمبابوے، عراق، زنزیبار، زمبیا، فرانس، اردن اور مصر تشریف لے گئے اور سرکاری وفد کے رکن کی حیثیت سے آپ نے اس وقت کے وزیراعظم محمد خان جونیجو مرحوم کے ہمراہ عوامی جمہوریہ چین کا دورہ کیا اور ’’کنزالایمان‘‘ اور اہلسنت و جماعت کا لٹریچر وہاں کے مسلمانوں تک پہنچایا، نیز سرکاری وفد کے رکن کی حیثیت سے اردن اور مصر کا بھی دورہ فرمایا۔جن ممالک میں آپ تشریف لے گئے،قومی اسمبلی کے رکن رہے۔ بے شمار کتب لکھیں۔ہزاروں لاکھوں لوگوں کے دلوں میں عشق رسولﷺ کی تڑپ پیدا کی۔ عظیم المرتبت جناب سید شاہ تراب الحق قادریؒ کا فیضان ہمیشہ جاری و اسری رہے گا۔ اللہ پاک جناب شاہ صاحب کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔( آمین)

سید الشہدا ء امام حسین ؑ کے حوالے سے ایک اہم دستاویز۔ انوارِ رضا میگزین کا خصوصی نمبر...... صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمیA column about Imam Hussain R.A

 

 

سید الشہدا ء امام حسین ؑ کے حوالے سے ایک اہم دستاویز۔

 انوارِ رضا میگزین کا خصوصی نمبر

صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی                               
 ظلم کسی بھی شکل میں ہو کسی سے بھی ہو حد سے بڑھ جائے تو مٹ جاتا ہے اور مظلوم کی خاموش آہیں افلاک کو لرزاں کر دیتی ہیں۔ آج یزیدی قوتیں منہ چھپاتی پھرتی ہیں اور امام عالی مقام کا غم تازہ ہے۔61 ہجری کو پیش آنے والا واقعہ کرب و بلا آج بھی تاریخ کا نوحہ ہے اور رہتی دُنیا تک غم حسینؓ رُلاتا رہے گا۔سیدنا حسینؓ ؓ نے خانوادہ رسول ﷺ کے خون کی رنگینی سے حریت فکر وعمل کی وہ داستان رقم کی کہ قیامت تک دُنیا کے کسی بھی کونے سے آزادی کی جوبھی آواز اُٹھے گی وہ حسینی آواز کی باز گشت ہوگی۔حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے فرمایا کہ اہل بیت کی ایک دن کی محبت ایک سال کی عبادت سے افضل ہے۔ محرم کا مہینہ اسلامی کیلنڈر کا صرف آغاز ہی نہیں بلکہ اپنے اندر ایک بڑی تاریخ رکھتا ہے۔ جو ا نبیا ء کی آمد، اُن کی تکالیف اور ازالہ سے بھرپور پس منظر رکھتی ہے۔اُن تمام تاریخی حوالوں کی اپنی جگہ یقینی طور پر بڑی اہمیت ہے لیکن جس طرح سے محرم کو محترم بنانے میں امام عالی مقام نے انمٹ کردار ادا کیا ہے اسلام تو کجا غیر اسلامی تاریخ بھی نہیں بھلا سکے گی اور پوری انسانیت پر ایک ایسا احسان کیا کہ جب بھی انسانیت زوال پذیر ہو تو حسینؓ کے سبق کو دہرا دے تو اسے ظلمت سے نور کا راستہ مل سکتا ہے۔ امام عالیٰ مقام حضرت امام حسینؓ کے حوالے سے عالم اسلام کے عظیم مفکر جناب ملک محبوب الرسول قادری نے انوار رضا میگزین کا خصوصی نمبر سید الشہدا مام حسین ؑ نمبر شائع کیا ہے۔ بندہ ناچیز کا ملک محبوب رسول قادری سے تعلق 1985سے ہے جب انجمن طلبہ ء اسلام کے قافلہ عشق و مستی میں ملک محبوب الرسول قادری بھی میرئے ہمرکاب تھے۔بندہ ناچیز انجمن طلبہء اسلام کے ساتھ وابشتگی پر جتنا بھی فخر کرئے کم ہے۔جناب ملک محبوب الرسول نے سید الشہداء امام حسین ؑ خصوصی نمبر کے حوالے سے کالم تحریر کیے جانے کا حکم صادر فرمایا ہے۔
سید الشہداء امام حسین ؑ خصوصی نمبر درا صل انوار رضا میگزین کی جانب سے ایک انتہائی اہم دستاویز ہے جس میں نہایت محبت اور احترام کے ساتھ سید الشہداء امام حسین ؑ کے حوالے سے مضامین شامل کیے گئے ہیں۔ محرم الحرام: تقدس و تقا ضے یہ مضمون جناب حاجی محمد قاسم ؒ کا تحریر کردہ ہے اِس مضمون میں محرم کے مہینے کی فضیلت کے حوالے سے بھرپور تفصیل موجود ہے۔اِس مضمون میں اللہ پاک کی عنایات۔ یوم عاشورہ، فضیلت و یوم عاشورہ، تخلیق مخلوق کے دس عظیم حوادث، نزول سلامتی کی دس کرامات۔ خداوند تعالیٰ عزو جل کی طرف سے دس عنایات، فضیلت عاشورہ پر احادیث، شہادت امام حسینؑ ،، حضرت اما م حسینؓ پر نزول رحمت، ممنوعاتِ محرم الحرام، انفال عاشورہ کے تحت جناب میجر قاسم ڈھڈی ؒ نے سیر حاصل مضمون لکھا ہے۔ علامہ صاحبزادہ محمد سلیمان قمر قادری کا بتول فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیہا کے عنوان سے مضمون ہے۔اِس عظیم خصوصی نمبر میں علامہ سید حماد علی شاہ کا ایک خصوصی مضمون فضائل حسنین فی لسان رسول الثقلین ﷺ بھی شامل ہے۔جسمیں تفصیل کے ساتھ مختلف موضوعات کا احاطہ کیا گیا ہے۔اِسی طرح مفتی شجاعت حسین قادری کا بہت ہی اعلیٰ مضمون مقام حسینؓ بھی اِس خاص نمبر کی زینت ہے اِس مضمون میں نبی پا ک ﷺ کی محبت، شہات حسینؓ ، معرکہ کربلا میں حضرت امام حسینؓ کی حقانیت، حقانیت حسینؓ پر ابن خلدون کی شہادت جیسے اہم موضوعات کا زبردست علمی انداز میں احاطہ کیا گیا ہے جو کہ جناب مفتی شجاعت حسین قادری کا ہی خاصہ ہے۔اِس کے بعد پیر سید محمد عرفان مشہدی کا لکھا ہو ا مضمون سید الشہداء امام حسینؓ اِس میں شامل ہے۔ سجاد حسین آہیر کا مضمون کلام اقبالؒ کی روشنی میں امام عالی مقام کا کیا مقام ہے۔ اِسی طرح خواجہ سیلمان قمر قادی کا لکھا ہوا مضمون نواسہ رسول ﷺ کی محبت و عقیدت کے حوالے سے ایک بہت اعلی مضمون ہے۔
معرکہ کربلا کے عنوان سے جناب آ صف محمود خان کا بہت ہی شاندار مضمون بھی اِس خاص نمبر کو خاص بنائے ہوئے ہے۔ ممتاز دانشور جناب سید محمد انور بخاری قادری کا مضمون بر عنوان میدان کربلا۔۔۔ ذبحِ عظیم کی تعبیر صفحہ نمبر 121 پر موجود ہے۔در معنی حریت اسلامیہ و سرِ حادثہ کربلا کے عنوان سے لکھا گیا مضمون جسے علامہ پیر سید محمد ظفر اللہ شاہ بخاری نے قلمبند کیا ہے۔اِس میں جناب شاہ صاحب حضرت اقبالؒ کہ حوالے سے لکھتے ہیں کہ مومن کا تعلق عشق سے ہے اور عشق کا تعلق مومن سے ہے۔ عشق کے لیے ہمارا ناممکن، ممکن ہے۔مومن اور عشق خد اور رسولﷺ لازم و ملزوم ہیں۔عشق کی بدولت مومن میں وہ قوت پیدا ہوجاتی ہے اور وہ ایسے عظیم جذبوں سے سرشار ہوجاتا ہے جن کی بدولت و مشکل ترین اور ناممکن ترین مرحلے آسانی سے طے کر لیتا ہے۔
اِسی طرح سید الشہدا ء حضرت امام حسینؓ کی ذات بابرکات پر سید حبیب اللہ شاہ چشتی کا سیر حاصل مقالہ بھی اِس میں شامل ہے۔غرض یہ کہ امام عالیٰ مقام حضرت امام حسینؓ کے حوالے سے انوارِ رضا کا خصوصی نمبر ایک اہم دستاویز کی شکل میں چھاپا گیاہے۔ مجھ ناچیز کے لیے اِس اہم دستاویز کا احاطہ کرنا ممکن نہیں ہے۔ بس میں نے تو قبلہ ملک محبوب الرسول قادری کیے حکم کی تعمیل کرکے اِس خصوصی دستاویز کا مختصر سا تعارف لکھنے کی جسارت کی ہے۔ اللہ پاک امام عالی مقام حضرت امام حسینؓ کے شہادت کے طفیل ہم سب پر اپنا خاص کرم فرمائے آمین۔اِ خصوصی دستاویز کی تیاری پر جناب ملک محبوب الرسول قادری مباکباد کے مستحق ہیں کہ اُنھوں نے انتہائی تحقیقی کا کیا ہے۔ اِس دستاویز کی کاپی ہر لائبریری کی زینت بننی چاہیے تاکہ متلاشیان حق اَِس سے استفادہ کر سکیں ۔

Friday, 7 September 2018

ایک قومی اخبار اور ختم نبوت ﷺ کے انکاری۔۔۔ ایک پیج پر .Written By صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی

 

 

ایک قومی اخبار اور

 ختم نبوت ﷺ کے انکاری۔۔۔ ایک پیج پر

صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی

موجودہ حالات میں قادیانی فتنہ خود کو فرنٹ میں لے آیا ہے خود کو مظلوم ثابت کرنے اور روشن خیال طبقے کے سامنے خود کو مسلمان ہونے کا تاثر دینے کے لیے مختلف قسم کی ساز شوں میں مصروف ہے۔ نوائے وقت ہمیشہ سے دینی مزاج رکھنے والے طبقے کا پسندیدہ اخبار رہا ہے۔ جمعرات چھ ستمبر 2018کودن ساڑھے دس بجے میں لاہور ہائی کورٹ بار کی لائبریری میں اخبار پڑھ رہا تھا کہ نوائے وقت اخبار کو دیکھا تو اُس میں انجمن احمدیہ کی جانب سے ایک اشتہار تھا جس میں احمدیہ کے غازیوں اور شہداء کا ذکر کیا گیا تھا۔ اب محترم مجید نظامیؒ کی وفات کے بعد نوائے وقت جیسے اخبار میں اس طرح کا اشتہار شائع ہونا لمحہ فکریہ ہے۔ اور اِس بات کی غمازی ہے کہ حالات درست سمت میں نہیں ہیں آنے والے دنوں میں ختم نبوت کے حوالے سے قوم کو بہت ہوشیار ہونا پڑئے گا۔ نوائے وقت کی جانب سے اتنی بڑی دلیری عام بات نہیں ہے۔ عمران خان کی جانب سے ایک قادیانی کو اپنا مشیر رکھنا اور قوم کے سخت ردعمل کے بعد اُس کو فارغ کرنا۔ قادیانی خود کو اقلیت نہیں مانتے اور آئین پاکستان کی کھلی خلاف ورزی کے مرتکب ہوتے ہیں دوسری طرف خود کو مسلمان ظاہر کر ہے ہیں۔ مسلمانوں کو بہت زیادہ اتحاد کی ضرورت ہے۔ عمران کو بھی یادرکھنا چاہیے نواز شریف کا دھڑن تختہ ہونے کی ایک وجہ ممتاز قادری شہیدؒ
کو پھانسی اور ختم نبوت کے قانون سے چھیڑ چھاڑ تھی۔ اِس لیے عمران خان کو بہت زیادہ سنبھل کر کام کرنا ہوگا اور ختم نبوتﷺ کی پہرہ داری کے حوالے سے قوم کے جذبات کو سمجھنا ہوگا۔
سوشل میڈیا پر یہ بات شد ومد کے ساتھ بیان کی جارہی ہے کہ نوائے وقت کی مالکہ جو کہ مجید نظامیؒ کی لے پالک بیٹی ہے نے مجید نظامی صاحبؒ کی مرضی کے خلاف ایک قادیانی سے شادی کر لی تھی۔ یہ نوائے وقت کو قادیانیوں کے لیے استعمال کرنا اِسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔قادیانی اگر خود کو اقلیت تسلیم کر لیں اور یہ مان لیں کہ اُن کا اسلام کے ساتھ تعلق نہیں ہے بلکہ وہ اپنے مرزا قادیانی کے پیرو کار ہیں لیکن قادیانی ایسا نہیں کرتے وہ اسلام کا نام بھی استعمال کرتے ہیں اور اسلام کے بانی نبی پاکﷺ کی ہستی کو بھی نبی آخر الزمان نہیں مانتے۔ درحقیقت قادیانی ایک فتنہ ہے جو اسلام کی چادر اوڑ ھ کر اسلام کے خلاف ساشوں میں مصروف ہے ۔
جیسے عیسائی ہندو اقلیت پاکستان میں رہ رہی ہے اور وہ آئین پاکستان کو مانتی ہے اور خو دکو وہ غیر مسلم کہتی ہے۔لیکن مرزایت کا معاملہ ہی کچھ اور ہے کہ وہ خود کو احمدی مسلمان گرانتے ہیں۔ عام سیدھے سادھے پاکستانی لوگوں اور بیرون ملک مقیم لوگوں کو دھوکہ دئے کر اپنے ساتھ ملاتے ہیں اسلام کا نام استعمال کرتے ہیں۔ معاملہ یہ ہے کہ وہ اسلام کا ٹریڈ مارک استعمال نہ کریں کیونکہ وہ مسلمان کی تعریف میں نہیں آتے۔ اسلام کے خلاف سازشوں میں مصروف عمل یہودی نصاریٰ کی جانب سے قادیانی فتنہ پیدا ہی اِس لیے کیا گیا کہ مسلمانوں جیسی شکل بنا کر مسلمانوں کی عبادات کا سا انداز اپنا کر مسلمانوں کو نقصان پہنچایا جائے۔ اسلام کی شکل بگاڑدی جائے۔
راقم خود قانون کے پیشے سے وابستہ ہے اور راقم یہ سمجھتا ہے کہ جب قادیانی پاکستان کے آئین کے مطابق غیرمسلم قرار دے دئیے گئے ہیں تو پھر وہ خو دکو اقلیت کہیں۔ لیکن وہ تو نہ اسلام کو مانتے ہیں اور نہ پاکستان کے آئین و قانون کو مانتے ہیں اُنکا مشن تو بس صرف اسلام کے خلاف سازشیں ہیں۔ اگر وہ خود کو اقلیت مان لیں اور وہ اپنے حقوق و فرائض کے مطابق رہیں تو کوئی پرابلم نہیں۔
اب چلتے ہیں موجودہ نام نہاد آزادی رائے کے حوالے سے جو مہم جاری ہے کہ جناب دیکھیں اِن بیچارے قادینیوں کو بولنے نہیں دیا جاتا دبایا جارہا ہے۔ اِس حوالے سے عرض یہ کرنا ہے کہ قادیانی اُن پیرامیٹرز کو نہیں مانتے جو اسلام کی بنیادہیں یوں جب اسلام کی بنیاد سے ہی وہ انحراف کر گئے ہیں تو پھر کیوں وہ مسلمانوں کے انداز اپنا کر عوام کو دھوکا دیتے ہیں۔ اُن کا اپنا قادیانی مذہب مسلمانوں کو کافر کہتا ہے۔ اگر تم لوگ سچے ہو تو اپنے کام سے کام رکھو اورا پنی شناخت سے ہی پہچانے جاؤ۔ لیکن قادیانی تو ایک فتنے کے نام ہے اِن کا دین و مذہب سے کوئی تعلق نہیں قادیانیت تو وہ کام کر رہی ہے جو اسرائیل ، بھارت امریکہ ڈھکے چھپے انداز میں کرتے ہیں۔ اِس لیے اظہار رائے کا یہ مطلب نہیں کہ قادیانی مسلمانوں کے مذہب کے بانی کو تو نہ مانیں لیکن لیبل خود پر اسلام کا لگائیں۔جو بھی مسلمان ختم نبوتﷺ کی بات کرتا ہے تو اُسے دنگی فسادی کہا جاتا ہے۔ اگر تو مرزائی اپنے قائد کو مانتے ہیں تو پھر خود کی علحیدہ شناخت کرواتے ہوئے اُن کو تکلیف کیوں ہوتی ہے۔میری تمام مسلمانوں سے گزارش ہے کہ اِس وقت موجودہ حکومت کے اندر بھی ایسے عناصر ہیں جیسے کہ فواد چوہدری جیسے نامعقول لوگ جن کے لیے عقیدہ اہم نہیں ہے بلکہ اُن کو یہ غرور ہے کہ پی ٹی آئی اتنے کروڑ ووٹ لے کر آئی ہے ووٹ تو نواز شریف نے بھی بہت لیے تھے لیکن ختم نبوت کے قانون کے ساتھ غداری نے اُسے بدنامی کی اتھاہ گہرائیوں میں پھینک دیا ۔ اِس لیے عمران خان صاحب ترقی ضرو ہونی چاہیے لیکن مسلمانوں کے عقیدہ ختم نبوت ﷺ کی قیمت پر نہیں۔تاجدار ختم نبوت ﷺ زندہ آباد

Tuesday, 28 August 2018

پروفیسر سید سلیمان اشرف بہاریؒ اور دو قومی نظریہ ایک انقلاب آفرین تحقیقی کتاب ..................صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی

                               
           پروفیسر سیدمحمد سلیمان ا شرف بہاریؒ اور دو قومی نظریہ

                               محمد احمد ترازی کی انقلاب آفرین تحقیقی کتاب

صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی                                                  
قارئین اکرام اِس قحط الرجال کے دور میں بھی ایسی ہستیاں موجود ہیں جو کہ اسلاف کی خدمات کو اپنے لیے چراغ راہ گردانتی ہیں اور اُن کے مشن کے فروغ کے لیے تگ وتاز جاری رکھے ہوئے ہیں۔ جناب محمد احمد ترازی بھی ایسی ہی ہستی کا نام ہے جنہوں آج کے اِس دور میں بھی اسلاف کے کارناموں سے ہمیں روشناس کروانے کی ذمہ داری اپنے سر لے رکھی ہے اور ایک انقلاب آفریں اور تحقیقی کتاب قوم کو دی ہے۔ یقینی طور پر جناب محمد احمد ترازی قوم کا فخر ہیں۔ جناب محمد احمد ترازی کی تحریروں سے استفادہ کرتا رہتا ہوں اور اِن کی جانب سے لکھے گئے کئی اہم ایشوز پر مقالا جات میرئے لیے ہمیشہ ممدومعاون رہے ہیں۔جناب محمد احمد ترازی نے اُنیسویں صدی میں عالم اسلام اور بالخصوص مسلمانان ہند میں قومی و ملی شعور بیدار کرنے والی عظیم ہستی جناب پروفیسر سید سلیمان اشرف بہاریؒ کی تحریکِ خلافت، ترکِ موالات، ہجرت ،ہندو مسلم اتحاد اور ترکِ گاو کشی کے حوالے سے مسلمانان ہند کی رہنمائی اور گاندھی اور گاندھی کے چیلوں کی منافقانہ سیاست کے پردئے کو چاک کیے جانے کے حوالے سے جناب پروفیسر سید سلیمان اشرف بہاریؒ کے بھرپور کردار پر روشنی ڈالی ہے۔ اِس حوالے سے جناب محمد احمد ترازی نے ایک مکمل تحقیقی دستاویز تیار کی ہے ۔ اِس کتاب کا ہر باب ایک مکمل دستاویز ہے۔پہلا باب جس کا عنوان کتابِ زندگی ہے اِس میں جناب سید سلیمان اشرف بہاریؒ کی شخصیت کے والے سے بھرپور تحقیق کی گئی ہے جو کہ موجودہ نسل کے سکالرز کے لیے ایک بیش بہا قیمتی علمی تحفہ ہے۔اِسی طرح باب دوئم کاعنوان دو قومی نظریہ آغاز و ارتقاء ہے اس باب میں شیخ عبدالحق محدث دہلوی سے محدث بریلوی تک کی تگ وتاز کا ذکر ہے۔اِسی طرح تیسرئے باب میں جناب احمد ترازی نے شعور کی بیداری کے نام سے ترتیب دئے جانے والے باب میں سید سلیمان اشرف اور عالم کفر کی طاغوتی یلغار اور جناب سید سلیمان اشرف کا نظریہ دین و سیاست کا تذکرہ کیا ہے۔ باب چہارم جس کا عنوان جدید علوم اور جذبہ آزادی ہے اِس میں جناب سید سلیمان اشرف بہاریؒ کی اُن کاوشوں کا احاطہ کیا ہے جن میں اُنھوں نے ہندوں کے ساتھ کانگرسی ملاؤں کے گٹھ جوڑ کا توڑ کیا۔باب پنجم تحریک ترکِ گاؤ کشی اور تحفظ شعائر اسلامیہ کے عنوان کے تحت ہے جس میں جناب سید سلیمان اشر ف بہاریؒ کی جانب سے ترک گاؤ کشی کے حوالے سے مسلمانوں کے نقطہ نظر کو بھر پور طریقے سے پیش کیا گیا۔باب ششم کا عنوان ہندو مسلم اتحاد ہے اِس حوالے سے جناب سید سلیمان اشرف بہاری ؒ کے اِس کردار جو اُنھوں نے جناب محدث بریلوی کی سرپرستی میں ہندوں کی اِس سازش کا پردہ چاک کرتے ہوئے مسلمانوں کوگاندھی کے نام نہاد ہندو مسلم اتحادد کے بہروپ سے بچایا۔ باب ہفتم کا عنوان ملی تحریکات اور دو قومی نظریہ ہے اِس میں کافی تفصیل کے ساتھ تاریخ کے گوشوں سے آگاہی کروائی گئی ہے جناب محمد احمد ترازی نے کمال تحقیق کی ہے۔ سب سے بڑی بات اُن کی جانب سے ایک ایک جملے کا حوالہ دیا گیا ہے گویا یہ کتاب تاریخ کا ایک انمنٹ باب ثابت ہوگی۔ جو کہ سکالرز کے لیے چراغ راہ کا کام کرئے گی۔مجھے جناب محمد احمد ترازی کی تحقیق پی ایچ ڈی لیول کے مقالے کی مانند محسوس ہوئی ہے۔ اللہ پاک جناب محمد احمد ترازی کے قلم کو ہمیشہ ملک و قوم کی رہنمائی کے لیے قائم دائم رکھے۔۔ کتاب کے مرکز و محور جناب سید سلیمان اشرف بہاری ؒ کی زندگی کا کچھ خلاصہ قارئین کے سامنے پیش کرتا ہوں۔ پروفیسر علامہ سیّد سلیمان اشرف بہاری جو مصنف محقق اور ماہر تعلیم تھے یہ ا شرف المحققين کے نام سے معروف ہیں۔سید سلیمان اشرف کی ولادت1295ھ/ 1878ء محلہ میر داد، بہار، ضلع نالندہ، بہار میں ہوئی۔آپ کے والد گرامی مولانا حکیم سید عبد اللہ کا تعلق حضرت بی بی صائمہ، خواہر حقیقی مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی المعروف غوث العالم کے خلف و فرزندمخدوم سید درویش، بھیہ شریف، ضلع گیا، بہار سے تعلق تھا۔آپ اپنے استاذ گرامی قاری نور محمد چشتی نظامی فخری اصدقی سے بیعت و ارادت رکھتے تھے۔ سید سلیمان اشرف بہاریؒ کا تعلق خاندان اشرفیہ سے تعلق تھا اور جب سلسلہ اشرفیہ کے عظیم بزرگ سید علی حسین اشرفی میاں جیلانی کچھوچھوی ؒ سے ملاقات ہوئی تو ان سے سلسلہ اشرفیہ میں طالب ہو گئے اور خلافت سلسلہ قادریہ چشتیہ اشرفیہ منوریہ سے نوازے گئے۔ نیز سلسلہ قادریہ برکاتیہ رضویہ میں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا محدث بریلویؒ سے بھی خلافت و اجازت حاصل ہوئی تھی۔1903ء میں نواب صدر یار جنگ مولانا حبیب الرحمٰن شیروانی کی کوشش سے مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ کے شعبہ دینیات میں پروفیسر کی حیثیت سے آپ کی تقرری ہوئی۔ بعد ازاں صدر شعبہ دینیات کے عہدے پر فائز ہوئے۔ آپ علی گڑھ یونیورسٹی کے شعبہ دینیات کے سب سے پہلے صدر تھے۔علی گڑھ مسلم کالج کے خلاف جب مولانا ابو الکلام آزاد، مولوی محمود الحسن دیوبندی اور مولانا محمد علی جوہر نے زبردست تحریک چلائی تو سید سلیمان اشرف بہاری نے مولانا حبیب الرحمٰن شیروانی اور ڈاکٹر سر ضیاء الدین کے ساتھ مل کر اس ادارے کی بھر پور حمایت کی اور مکمل دفاع کیا۔
آئیے جناب سید سلیمان اشرف بہاریؒ کے علمی کام پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں (1) المبین عربی زبان کی فوقیت اور برتری پر ایک مایہ ناز علمی و تحقیقی کتاب۔ نواب صدر یار جنگ مولانا حبیب الرحمٰن شیروانی، شاعر مشرق علامہ اقبال اور مشہور مستشرق پروفیسر براؤن جیسے ماہرین لسانیات نے اس کتاب کی تعریف و توصیف کی ہے۔ کتاب کی اہمیت و افادیت کے پیش نظر بر صغیر کی عظیم درس گاہ جامعہ اشرفیہ، مبارکپور، کے درجہ فضیلت میں داخل نصاب ہے۔ (2) النور: دو قومی نظریہ پر لاجواب کتاب ہے ۔ (3) الرشاد: گائے کی قربانی کے موضوع پر بے مثال کتاب ہے۔ (4) الانھار: حضرت امیر خسرو کی مثنوی ’’ہشت بہشت‘‘ پر ایک فصیح وبلیغ اور محققانہ و فاضلانہ مقدمہ جو 550 صفحات پر مشتمل ہے۔ نواب حبیب الرحمٰن شیروانی نے اس کتاب کو شبلی کی ’’شعرالعجم‘‘ سے بہتر قرار دیا ہے۔ کتاب کا موضوع فارسی شعر و ادب کی تاریخ ہے۔ (5) السّبیل: مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے نصابِ تعلیمات اسلامیہ کے لیے تجاویز۔ (6) الحج: حج و زیارت کے موضوع پر ایک عمدہ تصنیف، جس کا مقدمہ صدر یار جنگ بہادر مولانا حبیب الرحمٰن شیروانی صدر الصدور امور مذہبی ریاست حیدرآباد، دکن نے لکھا اور کہا کہ: حج و زیارت کے موضوع پر سب سے اچھی کتاب ہے۔ (7) نزہۃ المقال فی لحیۃ الرجال: عدمِ جوازِ حلق لحیہ یعنی داڑھی منڈوانے، ترشوانے اور ایک مشت سے کم رکھنے کی حرمت و ممانعت پر علمی اور تحقیقی رسالہ۔ ایک سو پندرہ (115) سال قبل یہ کتاب مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے شائع ہوئی تھی اور اب اشرفیہ اسلامک فاؤنڈیشن، حیدرآباد، دکن سے مولانا طفیل احمد مصباحی کی تحقیق و تخریج کے ساتھ دوبارہ شائع ہو رہی ہے۔ (8) البلاغ: مسلمانوں کے ملّی انحطاط، بے عملی، بدنظمی اور خلافتِ عثمانیہ کے تاریخی واقعات کے تناظر میں ملت اسلامیہ کے لیے ایک جامع اور پر سوز رہنما تحریر ہے (9) الخطاب: تقریر اور لکچرر کا مجموعہ ہے۔سید سلیمان اشرف کا 5? ربیع الاول 1358ھ/ 25 اپریل 1939بعمر 63 سال انتقال ہوا اورمسلم یونیورسٹی، علی گڑھ میں شیروانیوں کے قبرستان میں آپ کی تدفین ہوئی۔آپ نے۱۲۹۱۔173۰۲۹۱ء میں ’’تحریک ترک موالات‘‘ کی پر زور مخالفت کی اور اسی تناظر میں ’’النور‘‘ جیسی بلند پایہ کتاب کی تصنیف کی۔ 1925 میں آل انڈیا سنی کانفرنس میں شرکت کی۔مارچ ۱۲۹۱ء میں جماعت رضائے مصطفیٰ، بریلی شریف کی جانب سے اہل سنت کے دینی و سیاسی افکار کی وضاحت اور معاندین اہل سنت کے نظریات و معمولات کا بھرے مجمع میں پردہ فاش کیا اور مولانا ابو الکلام آزاد جیسے زور آور خطیب کا ناطقہ بند کر دیا۔ اس کانفرنس کی روداد سناتے ہوئے صدر الافاضل علامہ سید نعیم الدین اشرفی مرادآبادی، اعلیٰ حضرت امام احمد رضا محدث بریلوی کو اپنے ایک مکتوب میں لکھتے ہیں۔’’پورا میدان مولانا سلیمان اشرف صاحب کے ہاتھ میں رہا۔‘‘
آپ کے ہم عصر علمائے اہل سنت کے نام یہ ہیں(۱) حجۃ الاسلام حضرت علامہ حامد رضا خان بریلوی۔(۲) حضرت مولانا معین الدین اجمیری۔(۳) حضرت علامہ دیدار علی شاہ نقشبندی الوری۔(۴) صدر الافاضل علامہ سید نعیم الدین اشرفی مرادآبادی۔(۵) صدر الشریعہ حضرت علامہ امجد علی قادری رضوی اعظمی۔(۶) ملک العلما حضرت علامہ سید ظفر الدین قادری رضوی بہاری۔(۷) حضرت مولانا قاضی عبد الوحید صدیقی فردوسی عظم آبادی۔(۸) قطبِ مدینہ حضرت علامہ ضیاء الدین صدیقی قادری رضوی مہاجر مدنی۔(۹) سلطان الواعظین حضرت مولا عبد الاحد قادری پیلی بھیتی۔(۰۱) استاذ العلما حضرت علامہ مفتی نثار احمد چشتی کان پوری۔(۱۱) عالم ربانی حضرت علامہ سید احمد اشرف اشرفی جیلانی کچھوچھوی۔(۲۱) محدث اعظم ہند حضرت علامہ سید محمد اشرفی جیلانی کچھوچھوی۔(۳۱) صاحب الاقتدار حضرت مولانا عبد المقتدر قادری مجیدی بدایونی۔(۴۱) حضرت علامہ سید عبد الرشید قادری عظیم آبادی۔(۵۱) حضرت علامہ رحیم بخش آوری۔ (۶۱)۔ حضرت علامہ سید عبد الرحمٰن قادری بھاگلپوری ہیں۔غرض یہ کہ جناب محمد احمد ترازی نے تحریک پاکستان کی تحریک میں دو قومی نظریہ کے عظیم داعی جناب سید سلیمان اشرف بہاریؒ پر ایک مکمل دستایز تیار کرکے پاکستان اور اُردو جاننے والوں کی بہت بڑی خدمت کی ہے۔                                       

Monday, 6 August 2018

لاہور بار ایسوسی ایشن کے وفد کاتحریک منہاج القران کے مرکزی سیکرٹریٹ کا دورہ ..........صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی Visit of Lahore bar to MInhah-ul-Quran Secretariat















لاہور بار ایسوسی ایشن کے وفد کاتحریک منہاج القران کے

 مرکزی سیکرٹریٹ کا دورہ


صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی 


لاہور بار ایسوسی ایشن کا شمار ایشیاء کی سب سے بڑی بار کے طور پر کیا جاتا ہے۔ اِس بار کے ممبران نے نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دُنیا میں قانون کی حاکمیت کے لیے اپنا بھر پور کردار ادا کیا ہے ۔ اِس عہد کی ممتاز شخصیات بھی اِس عظیم بار کی ممبرز ہیں۔ منہاج القران ایک ایسی تحریک ہے جس نے پوری دُنیا میں امن و آشتی کے فروغ اور اتحاد اُمتِ مسلمہ کے لیے قابل قدر خدمات انجام دی ہیں ۔لاہور بار کے ایک وفد نے گزشتہ دنوں تحریک منہاج القران کے مرکزی سیکرٹریٹ کا دورہ کیا۔ وفد لاہور بار ایسوسی ایشن کے لائبریری سیکرٹری رانا عامر فاروق ایڈووکیٹ اور لاہور بار ایسوسی ایشن کی تحفظ ناموس رسالت ﷺ کے چیئرمین صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ پر مشتمل تھا۔ تحریک منہاج القران کے سیکرٹریٹ پہنچنے پر تحریک منہاج ا لقران کے قانونی مشیر اور پاکستان عوامی تحریک وکلاء ونگ کے مرکزی نائب صدر نعیم الدین نے خوش آمدید کہا۔
جناب نعیم الدین نے تحریک منہاج القران کے چیئرمین طاہر القادری کی جانب سے لاہور بار ایسوسی ایشن کی لائبریریوں کے لیے منہاج القران کی شائع کردہ گراں قدر کتب بطور عطیہ پیش کیں۔ جناب نعیم الدین نے وفد کو کالج آف شرعیہ اینڈ سائنس کے مختلف شعبہ جات کا دورہ کروایا۔ پوری دُنیا میں آن لائن اسلامک ایجوکیشن جو منہاج القران مرکزی سیکرٹریٹ سے ممتازسکالرز دے رہے ہیں اِس شعبہ کا بھی وزٹ کیا گیا۔ وفد نے شیخ لا سلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی جانب سے قائم کردہ گوشہ درود ﷺ میں بھی حاضری دی ۔ منہاج القران کے مرکزی شعبہ ابلاغ کا وزٹ بھی کیا ۔ وفد کو ڈاکٹر طاہر القادری کے ذاتی آفس میں بھی دکھایا گیا۔ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب اور ڈاکٹر حسن محی الدین اور ڈاکٹر حسین محی الدین آج کل بیرون ملک دورے پر ہیں اِس لیے اُن سے ملاقات ممکن نہ ہو سکی۔ڈاکٹر طاہر القادری کی تصانیف انسانی زندگی کے تمام گوشوں پر رہنمائی کرتی ہیں۔ ڈاکٹر صاحب خود وکیل رہے ہیں اور پنجاب یونیورسٹی لاء کالج میں پروفیسر رہے۔ ڈاکٹر طاہری القادری کا پی ایچ ڈی مقالہ ہی کریمنل لاء پر تھا۔ ایک اور اہم بات یہ کہ ڈاکٹر طاہر القادری لاہور بار ایسوسی ایشن کے تاحیات ممبر ہیں۔ یوں لاہور بار ایسوسی ایشن کی لائبریریوں کے لیے تحریک منہاج القران کی جانب سے کُتب کا عطیہ دیا جانا لاہور بار کے لیے ایک قیمتی سرمایہ ہے۔ 
یہ بات اظہر من لاشمس ہے کہ تحریک منہاج القران کی جانب سے اُمت مسلمہ کی تعلیم و تربیت کے لیے بھر پور کام کیا جارہا ہے۔ بطور پاکستانی ہمارئے لیے فخر کی بات ہے کہ جناب ڈاکٹر طاہر القادری کی کوششوں سے پوری دُنیا میں اسلامی کا حقیقی چہرہ پوری دُنیا کے سامنے آرہا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ڈاکٹرطاہر القادری نے بھرپوری کام کیا ہے اور دہشت گردی کے سدِ باب کے حوالے سے کتاب بھی تصنیف فرمائی ہے۔ 
منہاج القران کے مرکزی سیکرٹریٹ کا بھرپور دورہ کرنے کے بعد دلوں کو وہ سکون ملا کہ عالم اسلام کی عظیم تحریک کتنے منظم انداز میں کام کر رہی ہے۔ اِس موقع پر لاہور بار کے وفد نے سانحہ ماڈل ٹاون کے شہداء کی یادگار پر بھی حاضری دی۔ 
لاہور بار ایسوسی ایشن کے وفدکو بھر پور رہنمائی فراہم کرنے کا سہرا جناب محمد نعیم الدین کے سر ہے جنہوں نے کمال محبت و شفقت سے نوازا ۔