Wednesday, 24 January 2018

دور حاضر کے ممتاز قلمکار جناب اختر سردار چوہدری کی کتاب پاکستان سے دُنیا تک صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ


دور حاضر کے ممتاز قلمکار جناب اختر سردار چوہدری کی کتاب پاکستان سے دُنیا تک 

صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ 

حال ہی میں ممتاز قلمکار جناب اختر سردار چوہدری کی کتاب پاکستان سے دُنیا تک شائع ہوئی ہے۔ کتاب کے نام سے ہی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ چوہدری صاحب نے دُنیا بھر کے متعلق اہم باتیں اِ س کتاب کی زینت ہیں۔چوہدری صاحب جیسے تخلیق کار ہمارے معاشرئے کے لیے ایک بہت بری نعمت ہیں۔
کچھ شخصیات ایسی ہوتی ہیں جو پہلی ہی نظر میں دل میں گھر کر جاتی ہیں۔ راقم ہمیشہ سے دانشوروں ،قلم کاروں کا مداح ہے۔ اِس لیے جو بھی اُردو زبان میں اس وقت لوگ لکھ رہے ہیں اُن کو راقم اپنے سر کا تاج سمجھتا ہے کیونکہ موجودہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے سیلاب نے لکھنے پڑھنے والے لوگوں کی تعداد کو کم کردیا ہے۔ ایک وقت تھا کہ نہم جماعت کا بچہ نسیم حجازی اشتیاق احمد اسلم راہی کے تاریخی ناولوں کا پرستار تھا اسی طرح ابن صفی ، محی الدین نواب، طارق اسماعیل ساگر، رضیہ بٹ، مظہر کلیم کی لکھی ہوئی کہانیوں اور ناولوں نے نوجوان نسل سمیت ہر عمر کے طبقے کو اپنی گرفت میں لے رکھا تھا۔ یوں نصابی کُتب کے ساتھ ساتھ اُردو ادب سے بھی شناسائی اور اپنی قومی زبان میں لٹریچر پڑھا جانا ایک بہت ہی صحت مندانہ اقدام تھا لیکن انٹرنیٹ، موبائل فون فیس بُک کی بدولت مصروفیت کے اور لوازمات ہونے کی وجہ سے پڑھنے کی عادت کم ہوتی چلی گئی۔امید واثق ہے قوم ایک دن فیس بُک کی مصروفیات کے ساتھ ساتھ ناول ،کہانیوں اور کالموں کی طرف پھر لوٹے گی۔ اِس مضمون کی یہ ساری تمہید میں نے جناب اختر سردار چوہدری صاحب جو کہ ایک معروف قلم کار ہیں کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے باندھی ہے۔ جناب اختر سردار چوہدری نے ایک بہت اچھا ٹرینڈ جو شروع کیا ہے جس سے پوری قوم کو حالات حاضرہ اور اہم واقعات سے آگاہی کے حوالے سے بھرپور مواد پڑھنے کے لیے تازہ ترین وقتاً فوقتاً میسر آتا ہے۔ جناب چوہدری صاحب نے مختلف عالمی و قومی ایام کی مناسبت سے مضامین لکھنے جو سلسلہ شروع کر رکھا ہے اِس سے ایک تو اہم عالمی دنوں کی یاد تازہ ہوتی ہے ساتھ ہی اُس دن کی اہمیت کے حوالے سے بھر پور مواد اختر سردار چوہدری صاحب کے مضامین کی زینت بنتا ہے۔ سچی بات تو یہ ہے مجھے عالمی دنوں کا پتہ بھی جناب اختر سردار صاحب کے مضامین کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اور یوں جناب اختر سردار چودری صاحب نے قومی زبان اُردو میں ایسا مواد پیش کرکے بہت بڑی خدمت کی ہے۔ موثر انداز میں لکھے گئے مضامین یقینی طور پر ہمیشہ کے لیے ایک دستاویز کی حثیت رکھتے ہیں اِس لیے جناب اختر سردار چوہدری صاحب کے قلم سے لکھے ہوئے الفاظ ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوگئے ہیں اور اِن الفاظ کی اہمیت ہرآنے والے دور میں ہر عمر کے قاری کے لیے دو چند ہے۔ راقم کو یہ افتخار حاصل ہے کہ جناب اختر سردار چوہدری سے نیازی مندی کا تعلق قائم ہے اور اِن سے سوشل میڈیا کے ساتھ ساتھ فون پر بھی رابطہ رہتا ہے ۔ یوں اِن کی شخصیت موٹیویشن کا محرک ہے۔ چوہدری صاحب کے لکھے ہوئے مضامین کمال کے ہوتے ہیں اور تحقیقی مواد ہونے کی بنا پر اِن کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ جناب اختر سردار چوہدری کو بہت سے ادبی ایوارڈ سے نوازا جا چکا ہے۔ انتہائی مرنجاں مرنج شخصیت اور نبی پاک ﷺ کے عاشق جناب اختر سردار چوہدری چونکہ ایک بزنس مین ہیں اور لکھنے کا کام اُن کا شوق کی وجہ سے ہے۔ اِس لیے وہ روایتی دباؤ کا شکار نہیں ہیں۔ جس طرح کے ملامت پیشہ صحافیوں کا استحصال اخبار مالکان کرتے ہیں۔ یوں جناب سردار چوہدری کا قلم کلمہ حق کہنے کے حوالے سے آزاد ہے اور کسی طرح کے بھی دُباؤ کے بغیر لکھنا جناب اختر سردار چوہدری کا وصف ہے۔اِن کی تحریروں میں ایک طرف طرف تو علم کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا ہوتا ہے تو دوسری طرف قاری کے ذہن پر سوار ہو کر چوہدری صاحب کا قلم مختلف انداز میں واقعات بیان کر رہا ہوتا ہے۔ انسانی جبلت کو سمجھتے ہوئے اور معاشی و معاشرتی مسائل کے حل کے لیے اِن کے مضامین معاشرئے میں نفوس پزیری کے حامل افراد کے لیے مشعل رہا ہیں ، مجھے اپنی کم مائیگی کا احساس ہے لیکن سچی بات ہے کہ اختر سردار چوہدری کے لکے ہوئے مضامین سے راقم کو بہت فائدہ ہوا ہے۔ اختر سردار چوہدری اپنے عہد شباب میں ہی اتنے زبردست لکھاری بن چکے ہیں کہ اِن کا قلم آئندہ آنے والی نسلوں کے لیے روشنیاں بکھیر رہا ہے۔ اللہ پاک اختر سردار چوہدری کو سدا سلامت رکھے۔آمین 

زینب جیسی بیٹیوں کو درندگی سے پچانے کے لیے قانون سازی وقت کی آواز صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ


زینب جیسی بیٹیوں کو درندگی سے پچانے کے لیے قانون سازی وقت کی آواز


صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ

زینب کے قاتل کی گرفاری کے بعد وزیر اعلیٰ نے جو پریس کانفرنس کی اُس میں خادم اعلیٰ نے جس طرح تالیاں بجاتے رہے۔اور زینب کے والد کو بات مکمل نہ کرنے دی بلکہزینب کا والد ابھی بات کر رہا تھا کہ انتہائی سُرعت کے ساتھ خادم اعلیٰ نے زینب کے والد کا مائیک؂اپنی ہاتھوں سے خود ہی بند کردیا۔خادم اعلیٰ انتہائی سرُعت رفتار ہیں۔ لیکن اُنھوں نے ہمیشہ سولو فلائٹ ہی اُڑائی ہے ۔شریف فیملی پچھلے تیس سالوں سے حکومت میں ہے لیکن کوئی ایک محکمہ بھی ایسا نہیں جسے بطور مثال پیش کیا جاسکے۔ دوسرے صوبوں کی تو بات نہیں کرتے پنجاب جہاں پہ بلاشرکت غیرے حکمرانی اِن کے پاس رہی ہے اور اب بھی مسلسل دس سال سے شہباز شریف ہی حکمران ہیں۔ کسی بھی معاشرے کے لیے صحت تعلیم اور پولیس کا نظام سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ لیکن پنجاب میں سکولوں میں تعلیم کا جو حشر ہے وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔سرکاری سکولوں میں لویر مڈل کلاس طبقہ یا انتہائی ٖریب طبقہ بھی جانا پسند نہین کرتا۔ آجا کے لوگوں کے گھروں میں کام کرنے والی خواتیں یا ایسے مزدور جن کی روزی روٹی بہت ہی مشکل میں ہو یا کسمپرسی کی حالت ہو وہ صرف گورنمنٹ سکولوں میں اپنے بچوں کو بھیج رہے ہیں۔ باقی تھوڑا سا بھی ستیٹس کونشتس شخص پرائیوٹ سکولوں میں اپنے بچوں کو داخل کرواتا ہے۔ پرائیوٹ سکولوں میں بھی انتہائی امتیاز برتا جارہا ہے۔ ہزاروں روپے اور ڈونیشن وصول کرکے پرائیوٹ تعلیمی ادارے لوگوں کی کھال اُتاڑ رہے ہیں۔ اُن کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ٹیوشن مافیا نے الگ عوام کا استحصال کر رکھا ہے۔ خادم اعلیٰ نے کیا کیا ہے اِس شعبے میں ابتلک۔ صرف خالی نعرے۔حکومتی ہسپتالوں میں عوام جس طرح فُٹ بال بنے ہوئے ہیں۔ وہ سب کے سامنے ہے اور اِس کا فائدہ پرائیوٹ ہسپتالوں والے اُتھاتے ہیں۔ یوں ہر طرف سرمایہ داروں کی ہی چاندی ہے۔ حکمران خود سرمایہ دار ہیں اِس لے عوام کی انہتائی محنت سے کمائی گئی کمائی بھی سرمایہ داروں کی جیب میں جارہی ہے۔ حکمران چھوتی سے چھوٹی بیماری کا علاج بھی بیرون ملک کرواتے ہیں اور عوام کو اِن پرائیوٹ ہسپتالوں کے حوالے کر رکھا ہے۔پولیس کا کام ہی سرمایہ داروں اور سیاستدانوں وڈیروں کے مفادات کا تحفظ ہے۔ عوام تھانے کچہری کے نام سے کانپ اُٹھتے ہیں۔ پولیس کی من مانیوں کا عالم یہ ہے کہ اَس کا کام صرف اور صر ف عوام میں دہشت پھیلانا۔ پولیس مجرموں کی ساتھی اور مظلوموں کی دُشمن ہے۔ 
7سالہ زینب اور دیگر 7بچوں کے قاتل عمران علی ولد ارشد کو ڈی این اے میچ ہونے پر پاکپتن سے گرفتار کر لیا گیا ہے۔ ملزم جو مزید تفتیش کیلئے ف فرانزک لیب لاہور منتقل کر دیا گیا ہے،زینب کے ورثاء اور لوگوں نے ملزم کو سرعام پھانسی دینے کا مطالبہ کیا ہے،ملزم کے گھر کے باہر پولیس کاکڑا پہرا لگا دیا گیا، ملزم نے عتراف جرم کرلیا۔ 4جنوری کو روڈ کوٹ کے علاقہ سے اغوا ہونے والی 7سالہ زینب کو 14روز قبل زیادتی کے بعد قتل کر دیا گیا جس کی نعش کشمیر چوک کے قریب کچراکنڈی سے ملی پولیس کے مطابق ملزم عمران ولد ارشد کا ڈی این اے میچ ہونے پر گرفتار کر لیا گیا جو زینب کا پڑوسی ہے۔پولیس کے مطابق زینب کی لاش ملنے پر زینب کے رشتہ داروں روڈ کوٹ،پیرووالا روڈ اور دیگر آس پاس علاقوں کے لوگوں کا تقریباً ایک ہزار افراد کا فوٹیج کے مطابق مشابہت رکھنے والے لوگوں کا ڈ ی این اے کر وایا گیا اسی دوران زینب کے پڑوسی ملزم کو بھی ڈی این اے کیلئے حراست میں لیا گیا جس کو زینب کے خاندان اور محلہ داروں کے کہنے پر ڈی این اے کئے بغیر چھوڑ دیا گیا محلہ داروں کا کہنا تھا کہ یہ ہمارا ملزم نہیں ہے اور یہ درندگی زدہ کام نہیں کرسکتا مگر اس کے باوجود پولیس نے ملزم عمران کو ٹریک کر تی رہی اسی دوران ملزم ضلع سے باہر پاک پتن چلاگیا اور ملزم نے اپنی ڈھاڑی صاف کروا کر کلین شیو کروالی، سپیشل برانچ کی رپورٹ کے مطابق ملزم کو دوبارہ حراست میں لیا گیا اور ڈی این اے کروا کر چھوڑ دیا گیا جس پر ایک بارپھر ملزم شہرسے بار چلا گیا جب ڈی این اے کی رپورٹ آئی تو ڈی این اے ملزم عمران سے میچ کر تا تھا جس پر ڈی پی او قصور نے خود ملزم کو گرفتار کیا۔ ملزم نے تفتیش کے دوران اعتراف جرم کیا جس کی ریکاڈنگ کر لی گئی ہے‘ زینب کے والد کو ڈی پی او قصور اپنے ہمراہ لاہور لے کر گئے ہیں،اس کے علاوہ ملزم عمران کی خبر بریک ہوتے ہی مشتعل شہریوں کی بڑی تعداد نے ملزم کے گھر کی طرف رخ کرلیا اور ملزم کے گھر کو آگ لگانے کی کوشش کی پولیس نے پہلے ہی ملزم کے اہلخانہ کو محفوظ مقام پر پہنچا دیا اور گھر کو تالا لگا کر بھاری نفری کے ساتھ کڑا پہرا دیا جبکہ محلہ داروں سے ملزم کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ملزم عمران ایک نعت خواں تھا ملزم عمران محلے کے بچوں سے کافی گلاملا ہوا تھا اور محلے کے بچوں کو اکثر چاکلیٹ اور ٹافیاں وغیر ہ لیکر دیتا تھا اس کا والد ڈیڑھ ماہ قبل فوت ہوچکا ہے جو مستری تھا اور ملزم کے تین بھائی اور دو بہنیں ہیں ملزم عمران کے پاس لوگ دم درود کیلئے بھی جاتے تھے اور اس میں جن وغیرہ بھی حاضر ہو تے تھے اسکے علاوہ وہ گھر کی بیٹھک میں الیکٹریشن کا کام بھی کرتا تھا اور اس کو مرگی کے دورے بھی پڑتے تھے۔ پولیس عمران علی سے قصور میں مزید بچیوں کے ساتھ ہونے والے زیادتی کے واقعات کے حوالے سے تفتیش کررہی ہے جبکہ پولیس نے ابتدائی رپورٹ بنا کر وزیراعلی پنجاب شہباز شریف کو بھی ارسال کردی ہے۔ اس حوالے سے زینب کے والد حاجی امین انصاری نے نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا وہ تفتیش سے مطمئن ہیں اور کورٹ روڈ کا رہائشی عمران علی ان کا محلہ دار ہے اور ان کے پیچھے گھر میں رہائش پذیر ہے اس کے ساتھ کوئی دوسرا رشتہ داری نہیں۔ ملزم کی متعدد تصاویر بھی جاری کی گئی تھیں۔ ملزم عمران علی کی عمر 24 سال کے قریب ہے۔ ملزم اپنے دو چچا کے ہمراہ ایک ہی گھر میں رہتا تھا۔ ملزم نے بیان دیا ہے کہ اس نے زینب سے کہا آؤ تمہارے والدین عمرے سے واپس آگئے ہیں والدین کا سن کر زینب خوشی خوشی ملزم کے ساتھ چل دی۔ 
سفاک درندے نے پہلا زیادتی کا واقعہ جون 2015ء میں کیا۔ ملزم کی درندگی کا نشانہ بننے والی 3 بچیاں زندہ ہیں۔ 8 جولائی 2013 کو ایک بچی سے زیادتی کے دوران زیرتعمیر مکان میں ایک شخص آگیا۔ ملزم اور وہ شخص اندھیرے میں گتھم گتھا بھی ہوئے۔ ملزم عمران اندھیرے کا فائدہ اٹھا کر فرار ہوگیا۔ قتل میں اے ٹی سی کی دفعہ 7 اے ٹی اے لگانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ملزم زینب کے گھر سے تقریباً 120 فٹ کے فاصلے پر رہتا ہے۔ ملزم واقعہ کے بعد زینب کے اہل خانہ کے ساتھ ساتھ رہا۔ ملزم عمران احتجاج اور ننھی زینب کے جنازے میں بھی شامل تھا۔ ملزم عمران کو 19 اور 20 جنوری کی شام کو حراست میں لیا گیا۔ گرفتاری کے وقت ملزم مقامی ہوٹل میں چائے پی رہا تھا۔ ملزم کے بھائیوں‘ بہنوں اور قریبی رشتہ دار کو بھی حراست میں لے لیا گیا ہے۔ ملزم کا والد نفسیاتی مریض تھا جو انتقال کرچکا ہے۔ ملزم کا پہلا ڈی این اے 14‘ دوسرا 20 جنوری کو کیا گیا۔پوچھ گچھ کے دوران ملزم نے اعتراف کیا کہ میرا پیر مجھ پر دم کرتا ہے جس وجہ سے مجھ میں جن حا ضر ہو جاتے ہیں اور میں یہ گھناؤنا کام کرنے پر مجبور ہو جاتا ہوں۔ پولیس ذرائع کے مطابق ملزم نے زینب کے علاوہ قصور میں سات بچیوں کے ساتھ ساتھ زیادتی کے قتل کے علاوہ وہاڑی اور دیگر علاقوں میں مزید آٹھ سے زائد بچوں کے ساتھ زیادتی کا انکشاف بھی کیا ہے۔ پولیس نے ملزم کے بیان کے بعد اس کے حافظ سہیل نامی پیر کو بھی قصور کے علاقے سے گرفتار کر لیا گیاہے جس کو مزید تفتیش کے لیے سی آئی اے پولیس کے حوالے کردیا گیا ہے۔پولیس کے مطابق ملزم انتہائی شاطر ہے اور کئی بار پولیس کو چکما دینے میں کامیاب ہو چکا ہے۔ ملزم کئی دنوں سے پولیس کی تفتیش اور ڈی این اے کے متعلق لو گوں سے معلومات حاصل کر رہا تھا۔ پولیس نے ملزم کو انتہائی سکیورٹی میں لاہو ر منتقل کر دیا جس کو سپریم کورٹ کے سامنے پیش کیا جائے گا۔صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ نے کہا کہ ملزم جرم کے آدھے گھنٹے بعد قتل کرکے لاش پھینک دیتا۔ واقعہ کے بعد ملزم پہلے دو دن غائب 
رہا۔جے آئی ٹی کے مطابق 5ملزمان کو نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا گیا ہے۔ چار ملزموں نے عمران کو روپوش ہونے میں مدد دی تھی۔ فرانزک لیبارٹری نے رپورٹس جے آئی ٹی کے حوالے کر دیں۔ زینب قتل کیس کا ایک ملزم وعدہ معاف گواہ بن گیا۔ شہباز شریف نے کہا ہے کہ زینب معاملے پر پوری قوم اشکبار ہے۔ زینب کے والد کا بے حد شکر گزار ہوں۔ زینب بیٹی کو درندگی کے ساتھ قتل کیا گیا، جے آئی ٹی نے شبانہ روز محنت سے کیس حل کیا زینب آج دنیا میں نہیں، قوم کے دل رنجیدہ ہیں۔ زینب کے قاتل کو گرفتار کرلیا گیا۔ دل کی گہرائیوں سے کابینہ کمیٹی، آرمی چیف، ڈی جی فرانزک لیب کا شکر گزار ہوں، قاتل کا نام عمران ہے اور یہ سیریل کلر ہے۔ فرانزک لیب میں 1150 ڈی این اے ٹیسٹ ہوئے تب یہ درندہ پکڑا گیا اس کے پولی گرافک ٹیسٹ بھی ہوئے، زینب کے قاتل کی گرفتاری محنت اور اجتماعی کاوشوں کا نتیجہ ہے ٹیم نے یہ سمجھ کر کام کیا کہ اگر ان کی بیٹی ہوتی تو کیا ہوتا۔ یہ لوگ راتوں کو نہیں سوئے، پولی گرافک ٹیسٹ میں درندے نے تمام درندگیوں کا اعتراف کیا ہے۔ ڈی این اے کی 100 فیصد میچنگ کے بعد ملزم کو گرفتار کیا گیا، یہ عظیم کامیابی سائنٹیفک اور ہیومن انٹیلی جنس کی بدولت ملی، پہلا مرحلہ مکمل ہوگیا اب دوسرا مرحلہ ہے۔ میرے بس میں ہو تو اس بھیڑئیے اور درندے کو چوک میں پھانسی دوں لیکن ہم سب قانون کے تابع ہیں۔ میری چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سے درخواست ہے کہ اس کی جلد سماعت کی جائے۔ اگر قانون اجازت دے اور حاجی صاحب کا بھی یہ مطالبہ ہے کہ اسے چوراہے پر پھانسی دی جائے۔ ایسے ظالموں کو قانون نہیں آہنی ہاتھ کے ساتھ کچلنا چاہئے۔ اگر پنجاب فرانزک لیبارٹری نہ ہوتی تو اسے پکڑنا ممکن نہیں تھا۔ ہم لمحہ بہ لمحہ اس کیس کا جائزہ لیتے رہے ہیں مجھے رات کو پتہ چل گیا تھا میں نے فرانزک لیب ڈی جی سے کہا کہ اس کا کسی سے ذکر نہ کرنا۔ میں خود آؤں گا اور دوبارہ ڈی این اے ٹیسٹ ہوگا میں نے اپنے سامنے ڈی این اے ٹیسٹ دوبارہ کرایا اور ثابت ہوگیا کہ یہی درندہ ہے۔ چودہ دن کی محنت سے زینب کیس کا ملزم پکڑا گیا۔ اس درندے کیخلاف کیس انسداد
دہشتگردی عدالت میں جائے گا۔ ایسے کیسز کیلئے قانون میں تبدیلی کرنا پڑے تو کی جائے۔ مردان میں بھی ایک بیٹی اس طرح کی درندگی کا نشانہ بنی ہے۔ پنجاب کی فرانزک لیب ایسے کیسز میں مدد کیلئے حاضر ہے خیبر پی کے حکومت سے گزارش کروں گا پنجاب فرانزک لیب انکی مدد کرے گی۔ زینب کے والد نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ تمام اداروں کا شکریہ ادا کرتا ہوں، اجتماعی کوششوں سے ملزم گرفتار ہوا۔ بیٹی کے قاتل کی گرفتاری پر مطمئن ہوں، ملزم کی گرفتاری پر سکیورٹی اداروں کا شکر گزار ہوں۔ ملزم بچی کو ہم سے ملانے کا کہہ کر لیکر گیا تھا۔ میں نے خود اپنے بچوں کو اس طرح کے واقعات سے بچنے کا بتایا ہوا تھا۔چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس منصور علی شاہ نے زینب قتل کیس کا روزانہ ٹرائل کرنے کا اعلان کر دیا۔ چیف جسٹس منصور علی شاہ نے متعلقہ عدالت کو ہدایات جاری کردیں۔اُنھوں نے کہا ہے کہ ڈسٹرکٹ جج زینب قتل کیس کی سماعت روزانہ کی بنیاد پرکریں گے۔ زینب قتل کیس کی سماعت کرتے ہوئے انصاف کیا جائے گا۔ پتہ چلا ہے کہ وزیراعلی شہباز شریف نے کیس کی جلد سماعت کی درخواست کی ہے۔ وزیراعلی کو یقین دلاتا ہوں زینب کیس کی روزانہ سماعت ہو گی۔قبل ازیں ملتان بنچ میں اپنے اعزاز میں الوداعی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ سید منصورعلی شاہ نے کہا ہے کہ ادارے پیار و محبت سے چلتے ہیں‘ ڈروخوف سے نہیں۔ ٹیم ورک کے تحت کارکردگی میں نکھار آتا ہے۔ مثبت سوچ کئی راستے کھول دیتی ہے اچھا ادارہ وہ ہوتا ہے جو لوگوں کے لئے آسانیاں پیدا کرے۔لوگوں کو انصاف فراہم کرنے والا ادارہ کرپشن فری ہونا چاہئے۔ بدقسمت شخص ہوتا ہے جو کرپشن کرتا ہے اسے حساب یاد رکھنا چاہئے۔ خادم اعلیٰ اپنا وعدہ پورا کریں اور زینب جیسی بیٹیوں کو سرعا م پھانسی دینے کے لیے فوری طور پر قانون سازی کریں