Friday, 30 March 2018

Cross examination in Murder case on Crpc 342 statement of accused...سپریم کورٹ کی قتل کیس میں ملزم کی شہادت پر جرح کی تشریح و توضیع صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ ہائی کورٹ



سپریم کورٹ کی قتل کیس میں ملزم کی شہادت پر جرح کی تشریح و توضیع
صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی
ایڈووکیٹ ہائی کورٹ

اِس آرٹیکل میں یہ بات بیان کی گئی ہے کہ "یہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ ایسی کوئی بھی شہادت جو کہ ملزم کی Crpc 342 کے تحت شہادت ریکارڈ کرتے وقت اُس پر اُس شہادت کی بنیاد پر جرح نہ کی جائے تو ایسی شہادت کو ملزم کے خلاف استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ " CRPC 342 کے سیکشن کی بنیاد اِس مقولے پر ہے کہ کسی کو بھی بغیر سُنے سزا نہ دی جائے۔ اِس بات کو دو حصوں میں تقسیم کے جاسکتا ہے۔ پہلا حصہ یہ کہ کہ عدالت کو اختیار حاصل ہے دوسرا حصہ کہ یہ کہ لازم ہے۔ پہلے حصہ کے مطابق عدالت ملزم سے ایسے سوالات کرسکتی ہے جس سے وہ کیس کو حل کرنے کے قریب پہنچ سکے۔دوسرا حصہ یہ ہے کہ ملزم سے لازمی طور پر سوالات پوچھے جائیں یعنی وہ الزمات جو شہادت کے دوران اِس کے خلاف آئے ہیں اُس بابت ملزم سے اُس کی صفائی مانگی جائے۔2002 MLD 1139 کے مطابق سیکشن 342(2) سی آر پی سی میں عدالت یہ بات پیشِ نظر رکھتی ہے کہ اصل سزا دینے سے پہلے ملزم جو سزا کاٹ چکا ہے وہ اُس اصل سزا کے اندر شمار کی جائے کیونکہ اُس قید کے عرصہ کے طویل ہوجانے کا ذمہ دار ملزم نہ ہے۔ 2005SCMR 364 کے مطابق سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ اِس سیکشن کا مقصد یہ ہے کہ عدالت ملزم کو اُس کے خلاف پیش کی جانے والی شہادتوں کے حوالے سے خود کو سچا ثابت کرنے کے لیے ہر ممکن موقع دے۔اِس کا مقصد یہ نہیں ہے کہ عدالت ملزم کو کوئی فائدہ پہنچانا چاہتی ہے بلکہ یہ تو اِس سسٹم کا حصہ ہے کہ عدالت سچائی تک پہنچ سکے۔ اگر ملزم عدالت کو معطمن کر دئے تو یہ اُس کے حق میں بہتر ہوا ورنہ اُس کے خلاف جائے گا۔ 
2018-SCMR-344 کے مطابق سپریم کورٹ کے جناب جسٹس آصف سعید کھوسہ نے فیصلہ لکھا ہے کہ امتیاز وغیرہ جو کہ درخواست گزاران ہیں کی مبینہ فائرنگ سے 16-06-2003 کو صبح ساڑھے پانچ بجے رستم علی کو قتل کردیا گیا یہ وقوعہ گاؤں شرن پولیس اسٹیشن گوجرہ ضلع اوکاڑا میں ہوا۔جو وجوہات قتل کی بیان کی گئی ہیں وہ یہ ہیں کہ مقتول رستم علی قتل کے دو کیسوں کی پیروی کر رہا تھا اُن کیسو ں میں موجودہ کیس کے ملزمان بھی شامل تھے۔ اِس قتل کے الزام کی بناء پر متذکرہ بالا پولیس اسٹیشن میں ایف آئی آر نمبر 273 اُسی صبح درج کر لی گئی اور ریگولر ٹرائل میں چار ملزمان کو رہا کر دیا گیا۔ جبکہ موجودہ درخواست دہندہ امتیاز المعروف تاج اور اُسکے ساتھی امتیاز ولد رمضان کو سزائیں دی گئیں۔پی پی سی سیکشن تین سو دو سب سیکشن بی بمعہ پی پی سی سیکشن چونتیس پر امتیاز المعروف تاج کو سزائے موت کی سزا سُنائی گئی اور جرمانہ بھی کیا گیا۔ جبکہ اِسکے ساتھی ملزم امتیاز ولد رمضان کو عمر قید کی سزا اور جرمانہ کی سزا سُنائی گئی۔
موجودہ درخواست دہندہ اور اُس کے ساتھی ملزم نے ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی جو کہ ہائی کورٹ نے مسترد کر دی گئی۔ ہائی کورٹ نے موجودہ درخواست دہندہ کی سزائے موت کو کنفرم کر دیا گیا۔عدالت کو یہ بتایا گیا ہے کہ درخواست گزار کے ساتھی ملزم امتیاز ولد رمضان نے بار بار جیل سپرئیڈنٹ سے التجاء کی کہ سپریم کورٹ میں اسِ سزا کے خلاف پٹیشن دائر کی جائے لیکن پٹیشن دائر نہ کی گئی۔تاہم درخواست گزار نے کریمنل پٹیشن نمبر 162-L/2009 اِس سزا کے خلاف اِس عدالت میں دائر کی۔2009 کو اِس سزا کے خلاف سماعت کیے جانے کی بابت منظوری دئے دی گئی۔اِس درخواست کی سماعت کی اجازت اِس بناء پر دی گئی کہ عدالت اِس کیس کی شہادتوں کا جائزہ لے سکے اور فریقین وکلاء کا نقطہ نظر سن سکے۔اِس بات پر کوئی جھگڑا نہ ہے کہ رستم علی پر حملے کے چار ملزمان کو ٹرائل میں بری کر دیا گیا ہے۔یہ ایک طے شدہ اصول ہے کہ موقع پر موجود چشم دید گواہ اگر کچھ ملزمان کو موردِ الزام نہیں مانتا تب وہی چشم دے گواہ کسی اور ملزم کو موردِ الزام نہیں ٹھرا سکتا جب تک اُس ملزم کے رول کے حوالے سے چشم دید گواہ پر علیحیدہ سے جرح نہ کر لی جائے۔ جیسا کہ غلام محمد بنام ممتا زخان PLD1985SC-11 کیس میں ہوچکا ہے۔ اِس کیس میں پراسکیوشن کی جانب سے پیش کردہ دو چشم دید گواہوں پر علیحیدہ سے جرح نہیں کی گئی۔ جہاں پر وقوعہ ہوا وہ ایک کھلا علاقہ ہے۔ جہاں آبادی نہ ہے۔ ایف آئی آر کے مطابق صبح ساڑھے پانچ بجے وقوعہ ہوا۔ لیکن میڈیکل رپورٹ کے مطابق آدھی رات کے وقت ہوا تھا۔ دونوں چشم دید گواہان محمود خان اور محمد اکرم مقتول رستم علی کے نہ صر ف سگے بھائی تھے بلکہ موقع پر موجود گواہ بھی تھے۔ دونوں چشم دید یہ بات ثابت کرنے میں ناکام رہے کہ جس وقت وقوعہ ہوا وہ دونوں اُس وقت اپنے بھائی کے پاس کیا کر رہے تھے۔ اِس مقدمہ قتل کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ مقتول رستم علی وقوعہ کے بعد خود رول ہیلتھ سنٹر پہنچا۔رول ہیلتھ سنٹر وقوعہ سے سترہ کلو میٹر فاصلہ پر ہے ۔ ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹر اور میڈیکل رپورٹ یہ ثابت کرتی ہے کہ مقتول خود اپنے طبی معائنے کے لیے پیش ہوا۔ لیکن میڈیکل رپورٹ یہ بات ظاہر نہیں کرتی ہے کہ مقتول کے دو بھائی بھی اُس کے ساتھ طبی معائنے کے وقت موجود تھے۔ گولی مقتول کے پیچھے سے نکلی اِس انداز میں گولی لگنے سے انسان اِس قابل نہیں ہوتا کہ وہ سترہ کلو میٹر کا فاصلہ پیدل چل کر اپنا طبی معائنہ خود کروائے۔ پوسٹ مارٹم کی رپورٹ اور قتل اور پوسٹ مارٹم کا درمیانی وقت ،جو کہ ساڑھے پانچ بجے صبح کے بجائے آدھی رات کو نظر انداز نہیں کرسکتا۔ پراسیکیوشین کے مطابق ملزم کے قبضہ سے آتشیں اسلحہ برآمد کیا گیا۔ لیکن اِس بات کو جھٹلایا نہیں جاسکتا کہ درخواست گزار کا بیان جو 342 Crpc کے تحت لیا گیا اُس وقت یہ سوال نہ کیے گئے۔ 
یہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ ایسی کوئی بھی شہادت جو کہ ملزم کی Crpc 42 کے وقت جو statement ریکارڈ کرتے وقت اُس پر اُس شہادت کی بنیاد پر جرح نہ کی جائے تو ایسی شہادت کو ملزم کے خلاف استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ پراسکیوشن کی جانب سے جو Motive بیان کیا گیا کہ وہ ٹرائل کورٹ کی جانب سے سے درست طور پر نہیں سمجھا گیا ہے۔ اور ہائی کورٹ بھی اِس بات کو نہ سمجھ سکا کہ جو Motive پراسیکیوشن نے بیان کیا ہے وہ درست نہ ہے۔ایف آئی آر جو اِس وقوعہ کی درج ہے وہ یہ ثابت نہیں کرتی کہ درخواست گزار کا براہ راست اِس قتل سے تعلق ہے۔پس درخواست گزار کے خلاف Motive ثابت نہیں ہوتا۔عدالت نے یہ بھی نوٹ کیا ہے کہ میڈیکل کی شہادت کے محرکات پراسیکیوشن کے گواہان کے الزامات کی تائید نہیں کرتے۔ درخواست دہندہ سے منسوب زخم8 جو مقتول کو لگایا گیابقول ڈاکٹر مہلک نہ ہے۔ 
مندرجہ بالا جو بحث کی گئی ہے اِس کا حاصل یہ ہے کہ پراسیکیوشن امتیاز عرف تاج پر کیس ثابت نہ کر سکا ہے۔ اِس لیے عدالت اپیل منظور کرتے ہوئے درخواست گزار کو دی جانے والی سزا معطل کرتی ہے اور ملزم کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری ہونے کا حکم دیتی ہے۔ اگر یہ کسی اور مقدمے میں مطلوب نہ ہے تو اِسے رہا کردیا جائے۔ عدالت کو یہ بتایا گیا ہے کہ ساتھی مجرم امتیاز ولد رمضان جسکا 342 (b)بمعہ 34PPC لئے تحت ٹرائل ہوااور اِسے عمر قید کی سزا ہوئی اور ہائیکورٹ نے اِس کی سزا برقرار رکھی۔ عدالت کو یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ امتیاز ولد رمضان کی جانب سے جیل سپرئیڈنٹ کو مسلسل یہ کہا جاتا رہا ہے کہ اِس عدالت میں اِس کے لیے پٹیشن دائر کی جائے۔ عدالت یہ سمجھتی ہے کہ فرانزک رپورٹ یہ بات ثابت کرتی ہے کہ ا متیاز ولد رمضان کا اسِ قتل سے کوئی تعلق نہ ہے۔ امتیاز ولد رمضان کا کیس تو بری ہونے کا بنتا تھا۔ ٹرائل کورٹ نے یہ بیان کیا ہے کہ یہ ملزم تو موقعہ پر موجود تھا اور اِس نے کوئی فائر نہ کیا تھا اور اِس نے مقتول کوکوئی زخم نہ لگایا تھا۔اِس عدالت کے فیصلے 2011SCMR 1142 کے مطابق درخواست دہندہ کو دیا جانے والا شک کا فائدہ اُسکے ساتھی ملزم تک بھی بڑھایا جا سکتا ہے۔ یہ عدالت یہ سمجھتی ہے کہ امتیاز ولد رمضان کو عدالت سے دی جانے والی سزا ختم کی جاتی ہے اور اُس کو بھی شک کا فائدہ دے کر بری کیا جاتا ہے اِسے بھی جیل سے رہا کردیا جائے اگر یہ کسی اور کیس میں مطلوب نہ ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کالم نگار وکالت کے پیشے سے منسلک ہیں۔ اور اپنی نوعیت کی اُردو زبان میں قانون کی واحد کتاب قانون کی حاکمیت کے مصنف ہیں۔

Thursday, 1 March 2018

,International Award for Ashraf Asmiادب سرائے انٹرنیشنل کی جانب سے 2018 کے ایوارڈ ،علی مزمل، وقارالسلام اور اشرف عاصمی کے نا


ادب سرائے انٹرنیشنل کی جانب سے 2018 کے ایوارڈ ،علی زمل، وقارالسلام اور اشرف عاصمی کے نام

گولڈ میڈل حاصل کرنے والے میں امین اڈیرائی،قمر ہمدانی، مہر خان،عجب خان،دعا علی،صائمہ جبین مہکاور نقاش شبیر شامل ہیں
ایوارڈ کی تقریب کی صدارت معروف دانشور، شاعر،ادیب اور مصور جناب اسلم کمال نے کی۔جبکہ میزبان ادب سرائے انٹرنیشنل کی چےئرپرسن ڈاکٹر شہناز مزمل تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(لاہور ) ادب سرائے انٹرنیشنل گزشتہ تیس سال سے فروغِ ادب کے لیے بے لوث کام کرنے والوں میں اسناد،میڈلز اور شہناز مزمل ادبی ایوارڈز تقسیم کرتا ہے۔اور یہ ایوارڈز پوری دنیا میں جہاں تک ہماری پہنچ ہوتی ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ کوئی شخص یا کوئی گروپ فروغِ ادب کے لیے کام کر رہا ہے تو ہم اُن کی حوصلہ افزائی کے لیے یہ ایوارڈز تقسیم کرتے ہیں۔اور نوجوان نسل کی ہم بہت زیادہ حوصلہ افزائی کرتے ہیں کیونکہ یہی کل کے معمار ہیں اور اس میں بھرپور کردار بھی ادا کر رہے ہیں۔گزشتہ سال ہم نے سوئٹزرلینڈ، امریکہ، انگلینڈ،سعودی عرب اور بحرین میں فروغِ ادب کے لیے کام کرنے والوں اور شعراء کرام کو مختلف اسناد، میڈلز اور شہناز مزمل ادبی ایوارڈ سے نوازا۔اور ہم یہ میڈلز،اسناد کافی عرصے سے فروغِ ادب میں حوصلہ افزائی کے لیے تقسیم کر رہے ہیں۔اوراس سال بھی پاکستان کے مختلف علاقوں سے فروغِ ادب کے لیے کام کرنے والوں کو ایوارڈز اور میڈلز سے نوازا گیا۔شہناز مزمل ادبی ایوارڈ علی مزمل کی خدمت میں پیش کیا گیا۔علی مزمل ایک بہت بڑے دانشور، نقاد اور شاعر ہیں۔اور وہ فروغِ ادب میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔سوشل میڈیا پر چلنے والی بہت سی ادبی تنظیموں میں ان کا بہت اہم کردار ہے۔ علی مزمل اپنی بیماری کے باوجود بے پناہ ادبی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ہمیں فخر ہے کہ ہمیں ان سے ملنے کا موقع ملا اور ان کی بے پناہ صلاحیتوں کی بدولت ان کو یہ ایوارڈ دیا گیا۔ 
اور دسرا ایوارڈ میاں وقارالاسلام کو پیش دیا گیا جو گزشتہ بیس سالوں سے ادب سرائے انٹرنیشنل سے منسلک ہیں۔تین شعری مجموعوں کے خالق ہیں اور ان کی ایک سیریز بیسٹ نوٹس آف لائف کے نام سے چل رہی ہے۔جس کی بیس سے زیادہ جلدیں منظرِعام پر آچکی ہیں۔اور ان میں سے کلیات کو آپ نے ترتیب دیا ہے اور مشہور شاعرات کے حوالے سے بھی کام کر رہے ہیں مارول سسٹم اور بہت سی دیگر تنظیموں میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ان کی ادبی خدمات کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے ان کو شہنازمزمل ادبی ایوارڈ سے نوازا گیا۔اورمیاں اشرف عاصمی کو بھی شہناز مزمل ادبی ایوارڈ پیش کیا گیا۔ میاں اشرف عاصمی صاحب ہائیکورٹ میں ایک وکیل ہیں اور بہت عرصے سے کالم نگاری بھی کر رہے ہیں۔سوشل میڈیا پر ان کئی کتابیں منظرِعام پر آچکی ہیں اور آپ مختلف شخصیات کے بارے میں بھی مضامین لکھتے رہتے ہیں۔ ان کا پیشہ بھی بہت مصروف ترین پیشہ ہے لیکن اس کے باوجو آپ فروغِ ادب کے لیے بے پناہ خدمات سرانجام دے رہے ہیں ان کی ایک موجودہ کتاب قانون کی حاکمیت ایک زبردست تخلیق ہے۔ ایوارڈز کے ساتھ پاکستان کے مختلف علاقوں میں ادبی خدمات سرانجام دینے والوں میں گولڈ میڈل بھی تقسیم کیے گئے۔ جن میں سے پہلا گولڈ میڈل امین اڈیرائی جن کا تعلق سندھ سے ہے ان کو دیا گیا۔یہ ادب کے لیے بہت سی خدمات انجام دے رہیہیں اور مختلف کتابوں کے تراجم پیش کیے ہیں۔دوسرا گولڈ میڈل قمر ہمدانی صاحب کو جن کا تعلق جھنگ سے ہے ان کو پیش کیا گیا۔اور قمر ہمدانی صاحب گزشتہ پچیس سال سے دریچہ ادب کے نام سے ایک ادبی تنظیم چلا رہے۔ 
تیسرا گولڈ میڈل مہرخان کو پیش کیا گیا جن کا تعلق دادو سندھ سے ہے۔ وہ بھی ادبی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔دو عالمی شہرت یافتہ اداریادارہ عالمی اردو محفل ادارہ اردو ادب پاکستان کا بانی و چیر مین ہیں۔آپ کے انتخابات کلام مختلف اخبارات کی زینت بن چکے ہیں اور یہ سلسلہ تا حال جاری ہے۔چوتھا گولڈ میڈل عجب خان جن کا تعلق ڈیرہ اسماعیل خان سے ہے ان کو پیش کیا گیا۔عجب خان صاحب ایک آرٹسٹ ہیں اور شاعری سے بھی ان کا تعلق ہے اس کے ساتھ تدریس کے شعبہ سے وابستہ ہیں۔پانچواں گولڈ میڈل دعاعلی جن کا تعلق حیدرآباد سے ہے ان کو پیش کیا گیا۔ دعاعلی کی اردو ادب کے لیے بہت سی خدمات منظرعام پر ہیں۔خواتین میں سے سوشل میڈیا پر ادبی فروغ کے لیے ان کی خدمات قابل تعریف ہیں۔چھٹا گولڈ میڈل صائمہ جبین مہکؔ کو دیا گیا۔ جن کا تعلق تلہ گنگ ضلع چکوال سے ہے۔ صائمہ جبین مہکؔ اردو ادب کے لیے مختلف میگزین اور اخبارات میں خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔تدریس کے شعبہ سے وابستہ ہیں۔ان کی نثری اور آزاد نظموں نے مختصر عرصہ میں بے پناہ مقبولیت حاصل کی۔ اور ان کی نظموں کا پہلا شعری مجموعہ بہت جلد منظرعام پر آنے والا ہے۔ ادب سرائے انٹرنیشنل میں بھی ان کی بہت سی خدمات پیش پیش ہیں۔ ساتواں گولڈ میڈل نقاش شبیر جنہوں نے ابھی ادب کی دنیا میں قدم رکھا ہے۔ہم نوجوانوں کی بہت زیادہ حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔اور یہ ادب سرائے انٹرنیشنل کے لیے بھی بہت سی خدمات سرانجام دے رہے ہیں اور ان کا ایک شعری مجموعہ بھی بہت جلد منظرعام پر آنے والا ہے۔اور مختلف رسائل و جرائد میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔اور آج ہم نے یہاں پہ خالد یزدانی جنہیں نیشنل ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔ ان کو مبارکباد دینے کیلیے بھی اس تقریب کا اہتمام کیا گیا۔اس کی صدارت اسلم کمال نے کی جو معروف دانشور، شاعر،ادیب اور مصور ہیں اور ہم ان کے بہت شکرگزار ہیں کہ انہوں نے اس تقریب کی صدارت کر کے ہمیں اعزاز بخشا۔
اورمہمانِ خصوصی معروف سماجی کارکن زاہد شریف صاحب سعودی عرب سے تشریف لائے تھے۔ناصر رضوی،تنویر صادق،روبیعہ جیلانی،زاہد شریف،خالد نصر،افتخار شوکت اور دیگر شعراء نے شرکت کی۔
اسلم کمال نے اپنے صدارتی کلمات میں ڈاکٹر شہنازمزمل کی ادبی خدمات کو سراہا اور ان سے کہا کہ ان کو مادر دبستان کا جو خطاب ملا ہے وہ واقعی اس کی حقدار ہیں۔وہ ایک ماں ہیں اور وہی بے لوث محبت و خلوص کا جذبہ ان میں نظر آتا ہے اور میں ہمیشہ ان کے لیے کہتا ہوں کہ یہ شہناز مزمل کسی ایک ہستی کا نام نہیں ہے بلکہ یہ ہماری پاکستانی اور اسلامی تہذیب کا ایک مکمل پیکر ہیں۔جس پرہمیں بے حد فخر ہے