Thursday, 26 July 2018

پاکستان کی جیت ۔۔۔۔۔۔۔ بھارت نوازوں کی شکست...................... صاحبزادہ اشرف عاصمی

 

پاکستان کی جیت ۔۔۔۔۔۔۔ بھارت نوازوں کی شکست

صاحبزادہ اشرف عاصمی

25 جولائی 2018 کا دن ایسی روشن صبح کا پیغام لے کر آیا کہ قوم نے پاک فوج کے خلاف بیانیے کو یکسر مسترد کردیا۔ یوں پاکستانی قوم نے ثابت کردیا کہ وہ ارض وطن کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے والوں کو کسی صورت برداشت نہیں کرئے گی۔ نواز حکومت نے جس طرح پاک فوج کے خلاف بیانیے کو اپنی الیکشن مہم کا مرکزی نقطہ بنایا ہوا تھا لاکھوں قربانیوں کے بعد ملنے والے اِس ملک کے باسیوں نے اپنی محافظ پاک فوج کے خلاف بدترین مہم جوئی کرنے پر ن لیگ کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان ستر سالوں سے جو محاذآرائی موجود ہے اور جس طرح کشمیر میں مسلمانوں پرظلم وستم ڈھایا جارہا ہے۔ بھارت نے گذشتہ سالوں سے پاکستان کی جانب بہنے والے دریاؤں پر ڈیم بنا کر پاکستان کو بنجر بنانے کی کوشش کی ہے۔ اِس صورتحال میں جبکہ افغانستان اور ایران کی سرزمین کو پاکستان میں دہشت گردی کے لیے استعمال کرنے والوں میں بھارت سر فہرست ہے۔ اِس منظر نامے میں بھارتی موقف کی تائید کرنا کہ بھارت میں ممبئی حملوں میں پاکستان براہ راست ملوث ہے اور یہ بیان بھی چار مرتبہ وزیر اعظم رہنے والے نواز شریف کی جانب سے دینا کسی بھی محب وطن پاکستانی کا ایجنڈا نہیں ہو سکتا۔ ہاں مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں یہ ایجنڈا پاکستان دُشمن امریکہ اسرائیل اور بھارت کا ہی ہے۔ اِس ایجنڈئے کو آگے ببڑھانے کے لے سابق وزیر اعظم نواز شریف نے جو بیان بازی کی اور پاکستاانی فوج کو دباؤ میں لانے کے لیے عالمی اسٹیبلشمنٹ کا جس طرح ساتھ دیا اس سارئے کھیل میں عوام نے نواز شریف کے خلاف اور پاکستان کے حق میں ووٹ دے دیاہے۔
پاکستان کے حوالے سے امریکہ کے بدلتے ہوئے موڈ کی وجہ سے اور امریکہ بھارت گٹھ جوڑ کے سبب پاکستا ن آرمی کو پریشر میں لانے کے لیے پاکستان کے خلاف جو مہم جوئی کی گئی اُس کے لیے نواز شریف کو بطور مُہرہ استعمال کیا گیا۔ نواز شریف نے بھی حق نمک ادا کرتے ہوئے پاکستان دُشمنوں کے ایجنڈئے کو خوب آگے بڑھایا اور بطور حکمران مسلسل پاکستانی فوج کے خلاف ہرزہ سرائی کو اپنے شیوہ بنا لیا تھا۔ موجود الیکشن میں قوم نے ایک طرف تو نواز شریف کو شکست سے دو چار کیا ہے تو دوسری طرف بھارت کے ناپاک ارادوں کو نیست نابود کر دیا ہے۔
پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو موجودہ حالات میں یہ ادراک ہے کہ اس وقت ا یسی سیاسی حکومت ہو جو بیک وقت امریکہ اور بھارت کو آنکھیں دکھا سکے ۔ ایسا نواز شریف جیسے پرانے کھلاڑی سے اب ممکن نہ رہا تھا ۔ پس نواز شریف نے پاک فوج کے خلاف خوب ہرزہ سرائی کی لیکن قوم نے اِس ہرزہ سرائی کو ناکام بنادیا۔ یوں نواز بیانیہ جو پانامہ کرپشن ایون فیلڈ فلیٹس کی وجہ سے عروج پر تھا اُس کا جواب پاکستانی قوم نے دئے دیا ۔ یوں عام الیکشن میں عمران کی جیت کے بعد بھارت اپنے زخم چاٹ رہا ہے۔ بھارت میں صفِ ماتم بچھی ہوئی ہے۔نواز لیگ کے اوپنر بیٹسمین خاقان عباسی، رانا ثاء اللہ عابد شیر علی اینڈ کمپنی کی شکست اِس بات کا اظہار ہے پاکستانی عوام بھارت کی بالادستی قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ایک اور اہم بات جس طرح الیکشن والے دن پاکستانی عوام نے الیکشن ڈیوٹی پر موجود پاک آرمی کے نوجوانوں سے محبت کی۔ آرمی جوانوں کو پھول پیش کیے ۔ آرمی جوانوں کے مُنہ چومے۔ یہ سب کچھ اُسی نظریہ پاکستان کا اظہار ہی تو ہے جس مقصد کے لیے یہ ارضِ پاک حاصل کیا گیا تھا۔
عمران خان کی حالیہ کامیابی کے بعد اِس پر بہت بھاری ذمہ داری آں پڑی ہے۔ پاکستانی روپے کی قدر میں انتہائی کمی، افراطِ زر کی بلند سطع، بجلی کا بحران پینے کے صاف پانی کی کمی، پنجاب میں پولیس کاظلم پر مبنی نظام ۔ عدالتی نظام میں مستعدی لانا۔ یہ ہیں وہ چیلنجز جو کہ اب عمران خان کو درپیش ہیں۔ قوی امید ہے کہ تحریک انصاف نے قوم کو جو نئی اُمنگ دی ہے اُس پر پورا بھی اُترے گی۔ قوم نے یہ ووٹ تحریک انصاف کو نہیں دیا بلکہ پوری قوم نے صرف اور صرف یہ ووٹ پاکستان کو دیا ہے۔
پاکستانی معاشرئے میں یہ ایک مروجہ اصول ہے کہ الیکشن ہارنے والے ہمیشہ دھاندلی دھاندلی کا شور مچاتے ہیں۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ ن لیگ کو پاکستان کی فوج کے خلاف مہم جوئی کی وجہ سے اور ختم نبوت کی قانون میں ترمیم کی وجہ سے اور بھارتی وزیر اعظم مودی کے حوالے سے نرم رویہ کی وجہ سے شکست کھانا پڑی ہے۔ پوری قوم کو اب عمران خان کے ساتھ جو امیدیں بندھ گئی ہیں اُن امیدوں پر پورا اُترنا کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے۔ عوام کو نوکریاں دی جائیں۔ مہنگائی میں کمی کے لیے اقدامات کیے جائیں اور قوم کے اندر نیا جذبہ پیدا کیا جائے۔ عمران خان نے الیکٹیبلز کا جو سہارا لیا تھا وہ ایک ذریعہ تھا حکومت حاصل کرنے کا ۔ اب عمران خان ثابت کرئے کہ وہ واقعی ایک ریفارمر ہے۔ پاک فوج زندہ آباد، قائد اعظم زندہ آباد پاکستان زندہ آباد

Monday, 23 July 2018

تاج الشریعہ حضرت مفتی اختر رضا خان الازہریؒ.............................................. صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی biographic Sketh of great Mufti Hzrat Akhter raza Khan R.A, compiled by Advocate Ashraf asmi......


 

 

تاج الشریعہ حضرت مفتی اختر رضا خان الازہریؒ

صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی

نبیرہ اعلیٰ حضرت تاج الشریعہ حضرت مفتی اختر رضا خان الازہری انتقال فرماگئے ہیں،اناللہ و انا الیہ راجعون۔ مولانا اختر رضا خان الازہری صاحب تاج الشریعہ کے نام سے موسوم اور مولانا احمد رضا خان بریلوی مرحوم کے حلقے کے سربراہ شمار ہوتے تھے، ان کا انتقال بھارتی شہر بریلی میں ہوا۔ یقیناعالم کی موت عالم کی موت ہے۔عشق رسولﷺ کے علمبردار جناب حضرت احمد رضا خان ؒ کے پرپوتے کی وفات سے وہ خلا پیدا ہوگیا ہے جس کو پُر نہیں کیا جاسکتا۔ اعلیٰ حضرت کے خانوداے سے تعلق اور اُمت مسلمہ کے لیے انہتائی نرم گوشہ کے حامل اُمت مسلمہ کے اتحاد و اتفاق کے عظیم داعی تھے۔ یوں جولائی کا مہینہ عالم اسلام کے لیے اچھی خبر نہیں لایا۔ ہر انسان نے اِس دُنیا کو خدا حافظ کہنا ہے۔ لیکن اتنی باکمال ہستی کا اُٹھ جانا اِس قحط الرجال کے دور میں بہت بڑا سانحہ ہے۔ اعلیٰ حضرت کے خاندان کے عظیم چشم و چراغ معروف عالم دین حضرت مولانا مفتی محمد اختر رضا خان کو بریلی بھارت میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ اختر رضا خان ؒ عالم اسلام کے ممتاز مفکر اور روحانی شخصیت اعلی حضرت امام احمد رضا بریلویؒ کے پڑپوتے اورجانشین تھے۔ ان کی نماز جنازہ اسلامیہ انٹر کالج بریلی میں ادا کی جانی تھی لیکن جگہ کم پڑ گئی، تدفین ازہری گیسٹ ہاوس میں ہوئی۔ مولانا اختر رضا کی نماز جنازہ ان کے اکلوتے صاحب زادے مولانا اسجد رضا نے پڑھائی۔مولانا مفتی محمد اختر رضا خان بریلوی کی تدفین میں شرکت کے لئے ہندوستان بھر سے لاکھوں افراد شریک ہوئے۔ انہیں ازہری مہمان خانہ میں اعلی حضرت احمد رضا خان ؒ کے برابر میں دفنایا گیا۔مفتی اختر رضا عرف ازہری میاںؒ جمعہ کو دنیا سے رخصت ہو گئے تھے۔ 75 سالہ ازہری میاںؒ کی رحلت کے بعد سے بریلی شہر غم میں ڈوب گیا لاکھوں لوگوں کی آمد کے پیش نظر شہر کے راستے بند کر دئیے گئے۔ ایک اندازے کے مطابق 20 لاکھ سے زیادہ افراد بریلی میں پہنچے تھے۔ بھیڑ کی تعداد کے سبب ایک کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے میں 5 گھنٹوں کا وقت لگا۔
بریلی کی مسجدوں میں جیسے ہی یہ اعلان کیا گیا کہ تاج الشریعہ مفتی اختر رضا خان عرف ازہری میاںؒ اب اس دنیا سے چلے گئے ہیں تبھی سے بریلی شہر رنج و غم کے عالم میں ڈوب گیا۔ اس کے باوجود شہر میں رک رک کر بارش ہو رہی تھی پھر بھی لاکھوں افراد ان کے جسد خاکی کو دیکھنے کے لئے مشتاق تھے۔مولانا مفتی اختر رضا خانؒ کو دنیا بھر کے 50 طاقتور ترین مسلمانوں میں سے ایک مانا گیا تھا اور اس فہرست میں انہیں 22 واں مقام حاصل تھا۔ازہری میاں نے گذشتہ سال پیدل سفر کے دوران بریلی پہنچے راہل گاندھی سے ملنے سے انکار کر دیا تھا۔ وہ سنجے دت اور امر سنگھ کے گھنٹوں انتظار کے باوجود ان سے نہیں ملے تھے، انہوں نے اقتدار کی جانب سے پیش کئی عہدوں کو ٹھکرا دیا تھا۔عالم دین ازہری میاں ؒ نے اپنی پوری زندگی اسلامی شریعت کے مطابق گزاری، انہیں تاحیات سیاست سے دوری بناکر رکھنے کے لئے ہمیشہ یاد کیا جائے گا۔مغرب کی نماز ادا کرنے کے بعد وہ اٹھ نہیں سکے، ان کے داماد نے ان کے دنیا سے چلے جانے کی خبر سنائی۔ بتایا جاتا ہے کہ دنیا بھر میں ان کے کروڑوں شیدائی موجود ہیں۔انہوں نے اپنی ساری زندگی اسلام کے قانون پر عمل کرتے ہوئے گزاری جو ان کی عظمت کی انتہا تھی۔ عالم اسلام میں اعلی حضرت کے بعد انہیں دوسرا سب سے زیادہ علم رکھنے والا شخص مانا جاتا تھا۔ بریلی میں ماتم کا ماحول ہے، ان کی جگہ کوئی نہیں لے پائے گا۔ ازہری میاں پر متعدد کتابیں لکھی گئیں جن میں سے حیات تاج شریعہ، کرامات تاج شریعہ اور نودرات تاج الشریعہ شامل ہیں۔ شریعت پر عمل کرنے کے سبب انہیں تاج الشریعہ کے لقب سے نوازا جاتا ہے۔ 1952 میں جس اسلامیہ انٹر کالج میں داخلہ لے کر انہوں نے ہندی اور انگریزی کی تعلیم حاصل کی تھی، پہلے اسی کالج کے میدان میں نماز جنازہ ادا کی جانے کی اطلاع تھی لیکن وہاں جگہ کم پڑ گئی۔ یہاں سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد آپ 1963 میں مذہبی تعلیم حاصل کرنے کے لئے مصر کے شہر قاہرہ میں موجود اور دنیا بھر میں مشہور الازہر یونیورسٹی چلے گئے۔ازہری میاں کی پیدائش 2 فروری 1943 کو ہوئی تھی جبکہ 20 جولائی 2018 کو انہوں نے رحلت فرمائی۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم مدرسہ دار العلوم منظرالاسلام سے حاصل کی تھی۔ یہاں انہوں نے ارودو کے علاوہ فارسی کی بھی تعلیم حاصل کی۔ ازہری میاں ؒ اسلام کے تمام فرقوں سے نا اتفاقیاں دور کرنے کے لئے سرگرم عمل تھے۔اِس مضمون میں راقم نے جناب مفتی اختر رضا خانؒ کے حوالے سے جو مواد اکھٹا کیا ہے وہ قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔
علامہ مفتی الحاج الشاہ محمد اختر رضا خاں الازہری قادری 25 فروری 1942ء کو محلہ سوداگران بریلی شریف میں پیدا ہوئے۔ ۱۹۶۳ء میں جامعہ ازہر قاہرہ مصر تشریف لے گئے۔ وہاں آپ نے کلیہ اصول الدین میں داخلہ لیا۔ مسلسل تین سال تک جامعہ ازہر مصر کے فن تفسیر وحدیث کے ماہر اساتذہ سے اکتساب علم کیا، دوسرے سال کے سالنہ امتحان میں آپ نے شرکت کی اور پورے جامعہ ازہر قاہرہ میں امتحان میں اعلیٰ کامیابی حاصل کی۔ عربی میں بی۔اے کی سند فراغت نہایت نمایاں اور ممتاز حیثیت سے حاصل کی نہ صرف جامعہ ازہر میں بلکہ پورے مصر میں اول نمبروں سے پاس ہوئے۔مفتی محمد اختر رضا ازہری کو 1967ء میں دارالعلوم منظر اسلام بریلی میں درس دینے کے لیے پیشکش کی گئی۔ آپ نے اس دعوت کو قبول کیا۔ تاج الشریعہ کے برادر اکبر مولانا ریحان رضا رحمانی بریلوی نے 1978ء میں صدر المدرسین کے اعلیٰ عہدہ پر تقرر کیا۔ اور اس عہدے کے ساتھ رضوی دارالافتا کے صدر مفتی بھی رہے۔ درس وتدریس کا سلسلہ مسلسل بارہ سال تک چلتا رہا۔ تاریخ اسلام میں ایسے بے شمار نام محفوظ ہیں جن کے کارہائے نمایاں رہتی دنیا تک یاد رکھے جائیں گے لیکن جب ذکر سیدنا اعلیٰ حضرت امام احمد رضا بریلوی رضی اللہ تعالی عنہ کا آجائے تو تاریخ ڈھونڈتی ہے کہ ان جیسا دوسراکوئی ایک ہی اسے اپنے دامن میں مل جائے۔ کوئی کسی فن کا امام ہے تو کوئی کسی علم کا ماہر لیکن سیدنا اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالی عنہ ہر علم، ہر فن کے آفتاب و جہاں مالک قدیر نے آپ کو،نامور آباؤ اجداد اور معزز و مقدس قبیلہ میں پیدا فرمایا وہیں آپ کی اولاد اورخاندان میں بھی بے شمار بے مثال افراد پیدا فرمائے۔ استاد زمن، حجۃ الاسلام، مفتء اعظم،مفسر اعظم،حکیم الاسلام، ریحان ملت، صدر العلماء، امین شریعت جس کسی کو دیکھ لیجئے ہر ایک اپنی مثال آپ ہے۔انہی میں ایک نام سر سبز وشاداب باغِ رضا کے گل شگفتہ، روشن روشن فلک رضا کے نیر تاباں قاضی القضاۃ فی الہند، جانشین مفتء اعظم،حضور تاج الشریعہ حضرۃ العلام مفتی محمد اختر رضا خاں قادری ازہری دام ظلہ علینا کا بھی ہے۔
حضور تاج الشریعہ دام ظلہ، علینا مفسر اعظم ہند حضرت علامہ مفتی محمد ابراہیم رضا خاں قادری جیلانی کے لخت جگر، سرکار مفتیء اعظم ہند علامہ مفتی مصطفی رضاخاں قادری نوری کے سچے جانشین،حجۃ الاسلام حضرت علامہ مفتی محمد حامد رضا خاں قادری رضوی کے مظہر اور سیدی اعلیٰ حضرت امام اہلسنّت مجدد دین و ملت الشاہ امام احمد رضا خاں قادری برکاتی بریلوی کی برکات و فیوضات کا منبع اور ان کے علوم و روایتوں کے وراث و امین ہیں۔ان عظیم نسبتوں کا فیضان آپ کی شخصیت میں اوصاف حمیدہ اور اخلاق کریمانہ کی صورت میں جھلک رہا ہے۔استاذ الفقہأ حضرت علامہ مفتی عبد الرحیم صاحب بستوی دامت برکاتہم القدسیہ حضورتاج الشریعہ دام ظلہ، علیناپر ان عظیم ہستیوں کے فیضان کی بارشوں کاتذکرہ ان الفاظ میں کرتے ہیں:'' سب ہی حضرات گرامی کے کمالات علمی و عملی سے آپ کو گراں قدر حصہ ملا ہے۔ فہم و ذکا،قوت حافظہ و تقویٰ سیدی اعلیٰ حضرت سے،جودت طبع و مہارت تامہ (عربی ادب) میں حضور حجۃ الاسلام سے،فقہ میں تبحر و اصابت سرکار مفتیء اعظم ہند سے، قوت خطابت و بیان والد ذی وقار مفسر اعظم ہند سے یعنی وہ تمام خوبیاں آپ کووارثتہً حاصل ہیں جن کی رہبر شریعت و طریقت کو ضرورت ہوتی ہے۔ ۔ آپ اخترتخلص استعمال فرماتے ہیں۔ آپ کے القابات میں تاج الشریعہ، سلطان الفقہاء، جانشین مفتء اعظم، شیخ الاسلام و المسلمین زیادہ مشہور ہیں۔اعلیٰ حضرت امام اہلسنّت تک آپ کا شجرہ نصب یوں ہے۔ محمد اختررضا خاں قادری ازہری بن محمد ابرہیم رضا خاں قادری جیلانی بن محمد حامد رضا خاں قادری رضوی بن امام احمد رضا خاں قادری برکاتی بریلویََ جانشین مفتء اعظم حضور تاج الشریعہ دام ظلہ، علینا کی عمر شریف جب4/سال،4/ ماہ اور4/ دن ہوئی توآپ کے والد ماجد مفسر اعظم ہند حضرت ابراہیم رضا خاں جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ نے تقریب بسم اللہ خوانی منعقد کی۔اس تقریب سعید میں ''یاد گار اعلی حضرت دارالعلوم منظر الاسلام'' کے تمام طلبہ کو دعوت دی گئی۔ رسم بسم اللہ نانا جان تاجدار اہلسنّت سرکار مفتء اعظم ہند محمد مصطفی رضاخاں نور ی نے ادا کرائی۔ حضور تاج الشریعہ دام ظلہ، علینا نے ''ناظرہ قرآن کریم ''اپنی والدہ ماجدہ شہزادیء مفتی اعظم سے گھر پرہی ختم کیا،والدماجد سے ابتدائی اردو کتب پڑھیں۔ اس کے بعد والد بزرگوار نے ''دارالعلوم منظرالاسلام'' میں داخل کرا دیا، درس نظامی کی تکمیل آپ نے منظر الاسلام سے کی۔اس کے بعد حضورتاج الشریعہ دام ظلہ، علینا ''جامعۃ الازہر''قاہرہ،مصرتشریف لے گئے۔وہاں آپ نے ''کلیہ اصول الدین'' میں داخلہ لیااورمسلسل تین سال تک'' جامعہ ازہر، مصر'' کے فن تفسیر و حدیث کے ماہر اساتذہ سے اکتساب علم کیا۔ تاج الشریعہ جامعۃ الازہر سے فارغ ہوئے۔ اپنی جماعت میں اول پوزیشن حاصل کرنے پر آپ کواس وقت کے مصر کے صدر کرنل جمال عبدالناصر نے ''جامعہ ازہر ایوارڈ'' پیش کیا اور ساتھ ہی سند سے بھی نوازے گئے۔آپ کے اساتذہ کرام میں حضور مفتی اعظم الشاہ مصطفےٰ رضاخاں نوری بریلوی، بحر العلوم حضرت مفتی سید محمد افضل حسین رضوی مونگیری،مفسر اعظم ہند حضرت مفتی محمد ابراہیم رضا جیلانی رضوی بریلوی،فضیلت الشیخ علامہ محمد سماحی،شیخ الحدیث و التفسیر جامعہ ازہر قاہرہ، حضرت علامہ مولانا محمود عبدالغفار،استاذالحدیث جامعہ ازہر قاہرہ، ریحان ملت،قائداعظم مولانا محمد ریحان رضا رحمانی رضوی بریلوی، استاذ الاساتذہ مولانا مفتی محمد احمد عرف جہانگیر خاں رضوی اعظمی کے اسمائے گرامی شامل ہیں۔ جانشین مفتی اعظم کا عقد مسنون حکیم الاسلام مولانا حسنین رضا بریلوی رضی اللہ تعالی عنہ کی دختر نیک اخترکے ساتھ کو محلہ کا نکر ٹولہ شہر کہنہ بریلی میں ہوا۔ آپ کے ایک صاحبزادہ مخدوم گرامی مولانا عسجد رضا قادری بریلوی اور پانچ صاحبزادیاں ہیں۔حضور تاج الشریعہ دام ظلہ، علینا نے تدریس کی ابتدادارالعلوم منظر اسلام بریلی سے کی۔ آپ دارالعلوم کے صدر المدرس اور رضوی دارالافتاء کے صدر مفتی کے عہدے پر فائز ہوئے۔ درس و تدریس کا سلسلہ مسلسل بارہ سال جاری رہالیکن حضور تاج الشریعہ دام ظلہ، علینا کی کثیر مصروفیات کے سبب یہ سلسلہ مستقل جاری نہیں رہ سکا۔ لیکن آج بھی آپ مرکزی دارالافتاء بریلی شریف میں ''تخصص فی الفقہ '' کے علمائے کرام کو ''رسم المفتی،اجلی الاعلام'' اور ''بخاری شریف '' کا درس دیتے ہیں۔
حضورتا ج الشریعہ کو بیعت و خلافت کا شرف سرکار مفتی اعظم سے حاصل ہے۔ سرکار مفتی اعظم ہند نے بچپن ہی میں آپ کوبیعت کا شرف عطا فرمادیا تھااور تمام سلاسل کی خلافت و اجازت سے نوازا۔ علاوہ ازیں آپ کو خلیفہ اعلیٰ حضرت برہان ملت حضرت مفتی برہان الحق جبل پوری، سید العلماء حضرت سید شاہ آل مصطفی برکاتی مارہروی،احسن العلماء حضرت سید حیدر حسن میاں برکاتی،والد ماجد مفسر اعظم علامہ مفتی ابراہیم رضا خاں قادری سے بھی جمیع سلاسل کی اجازت و خلافت حاصل ہے۔ روہیلہ حکومت کے خاتمہ،بریلی شریف پرانگریز وں کے قبضہ اور حضرت مفتی محمد عیوض صاحب کے روہیلکھنڈ(بریلی) ٹونک تشریف لے جانے کے بعد بریلی کی مسند افتاء خالی تھی۔ایسے نازک اور پر آشوب دور میں امام العلماء علامہ مفتی رضا علی خاں نقشبندی رضی اللہ تعالی عنہ نے بریلی کی مسند افتاء کورونق بخشی۔ یہیں سے خانوادہ رضویہ میں فتاویٰ نویسی کی عظیم الشان روایت کی ابتداء ہوئی۔۔ یعنی خاندان رضویہ میں فتاویٰ نویسی کی ایمان افروز روایت جاری ہے۔امام الفقہأ،حضرت علامہ مفتی محمد رضا علی خاں قادری بریلوی،امام المتکلمین،حضرت علامہ مولانامحمد نقی علی خاں قادری برکاتی،اعلیٰ حضرت،مجدد دین وملت،حضرت علامہ مولانا مفتی محمد احمد رضا خاں قادری برکاتی،شہزادہء اعلیٰ حضرت،حجۃ الالسلام،جمال الانام حضرت علامہ مولانا مفتی حامد رضا خاں قادری رضوی، شہزادہء اعلیٰ حضرت تاجدار اہل سنت،مفتء اعظم ہند،علامہ مولانا مفتی محمد مصطفی رضا خاں قادری نوری، نبیرہ اعلیٰ حضرت،مفسر اعظم ہند حضرت علامہ مفتی ابراہیم رضا خاں قادری رضوی اوراب ان کے بعد اب قاضی القضاۃ فی الہند،تاج الشریعہ،حضرت علامہ مولانا مفتی اختر رضا خاں قادری ازہری دام ظلہ، علینا اس خدمت کو بحسن و خوبی سرانجام دیتے رہے ۔آپ خود اپنے فتوی نویسی کی ابتداء سے متعلق فرماتے ہیں:''میں بچپن سے ہی حضرت (مفتی اعظم) سے داخل سلسلہ ہو گیا ہوں، جامعہ ازہر سے واپسی کے بعد میں نے اپنی دلچسپی کی بناء پر فتویٰ کا کام شروع کیا۔ شروع شروع میں مفتی سید افضل حسین صاحب علیہ الرحمتہ اور دوسرے مفتیانِ کرام کی نگرانی میں یہ کام کرتا رہا۔ اور کبھی کبھی حضرت کی خدمت میں حاضر ہو کر فتویٰ دکھایا کرتا تھا۔ کچھ دنوں کے بعد اس کام میں میری دلچسپی زیادہ بڑھ گئی اور پھر میں مستقل حضرت کی خدمت میں حاضر ہونے لگا۔ حضرت کی توجہ سے مختصر مدت میں اس کام میں مجھے وہ فیض حاصل ہوا کہ جو کسی کے پاس مدتوں بیٹھنے سے بھی نہ ہوتا۔ حضورتاج الشریعہ دام ظلہ، علینا کے فتاویٰ سے متعلق جگرگوشہ صدرالشریعہ، محدث کبیر حضرت علامہ مفتی ضیاء المصطفیٰ اعظمی دامت برکاتہم العالیہ رقم طراز ہیں: ''تاج الشریعہ کے قلم سے نکلے ہوئے فتاویٰ کے مطالعہ سے ایسا لگتا ہے ہم اعلیٰ حضرت امام احمد رضا رضی اللہ تعالی عنہ کی تحریر پڑھ رہے آپ کی تحریرمیں دلائل اور حوالہ جات کی بھر مار سے یہی ظاہر ہوتاہے۔'' ۔احقاق حق و ابطال باطل،خانوادہء رضویہ کی ان صفات میں سے ہے جس کا اعتراف نہ صرف اپنوں بلکہ بیگانوں کو بھی کرنا پڑا۔یہاں حق کے مقابل نہ اپنے پرائے کا فرق رکھا جاتا ہے نہ امیر و غریب کی تفریق کی جاتی ہے۔ سیدی اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالی عنہ کا دور تو تھا ہی فتنوں کا دور ہر طرف کفرو الحاد کی آندھیاں چل رہی تھیں لیکن علم بردار حق سیدی اعلیٰ حضرت نے کبھی باطل کے سامنے سر نہ جھکایاچاہے ذبحِ گائے کا فتنہ ہویاہندو مسلم اتحاد کا، تحریک ترک موالات ہو یا تحریک خلافت یہ مرد مومن آوازہء حق بلند کرتا ہی رہا۔ سرکارمفتیء اعظم کی حق گوئی وبے باکی بھی تاریخ کا درخشندہ باب ہے شدھی تحریک کا زمانہ ہو یانسبندی کاپر خطر دور ہوآپ نے علم حق کبھی سرنگوں نہ ہونے دیا۔ اللہ رب العزت نے جانشین مفتی اعظم کواپنے اسلاف کا پرتو بنایاہے۔آپ کی حق گوئی اور بے باکی بھی قابل تقلید ہے۔ وقتی مصلحتیں،طعن و تشنیع، مصائب وآلام یہاں تک کہ قید و بند کی صعوبتیں بھی آپ کو راہ حق سے نہ ہٹا سکی۔آپ نے کبھی اہل ثروت کی خوشی یا حکومتی منشاء کے مطابق فتویٰ نہیں تحریر فرمایا، ہمیشہ صداقت و حقانیت کا دامن تھامے رکھا۔اس راہ میں کبھی آپ نے اپنے پرائے، چھوٹے بڑے کافرق ملحوظ خاطر نہیں رکھا۔ ہر معاملہ میں آپ اپنے آباء و اجدادکی روشن اور تابناک روایتوں کی پاسداری فرماتے رہے ہیں۔شیخ عالم حضرت علامہ سیدشاہ فخر الدین اشرف الاشرفی کچھوچھوی دامت برکاتہم القدسیہ زیب سجادہ کچھوچھہ مقدسہ تحریر فرماتے ہیں: ''علامہ (حضورتاج الشریعہ کا)ہر حال میں باد سموم کی تیز و تند،غضبناک آندھیوں کی زد میں بھی استقامت علی الحق کا مظاہر ہ کرنا اور ثابت قدم رہنا یہ وہ عظیم وصف ہے جس نے مجھے کافی متاثر کیا۔
حضورتاج الشریعہ دام ظلہ، علینااخلاق حسنہ اور صفات عالیہ کا مرقع ہیں۔حکمت و دانائی، طہارت و پاکیزگی،بلندیء کردار،خوش مزاجی و ملنساری،حلم و بردباری، خلوص و للّٰہیت،شرم و حیا،صبر و قناعت،صداقت و استقامت بے شمار خوبیاں آپ کی شخصیت میں جمع تھیں،وہیں آپ زہد و تقویٰ کا بھی مجسم پیکرتھے۔آپ کے تقویٰ ایک جھلک ذیل کے واقعات میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔مولانا غلام معین الدین قادری (پرگنہ،مغربی بنگال)لکھتے ہیں:''حضورتاج الشریعہ سے حضرت پیر سید محمد طاہر گیلانی صاحب قبلہ بہت محبت فرمایا کرتے ان کے اصرار پر حضرت پاکستان بھی تشریف لے گئے واہگہ سرحد پر حضرت کا استقبال صدر مملکت کی طرح توپوں کی سلامی دے کر کیا گیا۔حضرت کا قیام ان کے ایک عزیزشوکت حسن صاحب کے یہاں تھا راستے میں ایک جگہ ناشتہ کا کچھ انتظام تھاجس میں انگریزی طرز کے ٹیبل لگے تھے حضرت نے فرمایا:''میں پاؤں پھیلاکر کھانا تناول نہیں کروں گا۔'' پھر پاؤں سمیٹ کر سنت کے مطابق اسی کرسی پر بیٹھ گئے ۔
مولانا منصور فریدی رضوی (بلاسپور،چھتیس گڑھ)حضرت کے ایک سفر کا حال بیان کرتے ہیں:''محب مکرم حضرت حافظ وقاری محمد صادق حسین فرماتے ہیں کہ، حضرت تاج الشریعہ کی خدمت کے لئے میں معمور تھا اور اپنے مقدر پر ناز کررہا تھا کہ ایک ذرہء ناچیز کو فلک کی قدم بوسی کا شرف حاصل ہورہا تھا اچانک میری نگاہ حضوروالا(تاج الشریعہ) کی ہتھیلیوں پر پڑی میں ایک لمحہ کے لئے تھرا گیا آخر یہ کیا ہورہا ہے میری نگاہیں کیا دیکھ رہی ہیں مجھے یقین نہیں ہورہا ہے۔ آپ تو گہری نیند میں ہیں پھر آپ کی انگلیاں حرکت میں کیسے ہیں؟ میں نے مولانا عبد الوحید فتح پوری جو اس وقت موجود تھے اور دیگر افراد کو بھی اس جانب متوجہ کیا تما م کے تما م حیرت و استعجاب میں ڈوب گئے تھے، معاملہ یہ ہے کہ آپ کی انگلیاں اس طرح حرکت کررہی تھیں گویا آپ تسبیح پڑھ رہے ہوں اور یہ منظرمیں اس وقت تک دیکھتا رہا جب تک آپ بیدار نہیں ہوگئے۔ان تمام تر کیفیات کو دیکھنے کے بعد دل پکار اٹھتا ہے کہ ؂ سوئے ہیں یہ بظاہر د ل ان کا جاگتا ہے '' حضور تاج الشریعہ دام ظلہ، علینا اپنے جد امجد مجدد دین ملت سیدنا اعلی حضرت رضی اللہ تعالی عنہ کے مظہر اتم اور پر تو کامل تھے ۔ اعلیٰ حضرت کی تحریری خدمات اور طرز تحریر محتاج تعارف نہیں ہے۔ حضور تاج الشریعہ دام ظلہ، علینا میدان تحریر میں بھی اعلیٰ حضرت کا عکس جمیل نظر آتے ہیں۔ آپ کی تصانیف و تحقیقات مختلف علوم و فنون پر مشتمل ہیں۔تحقیقی انداز،مضبوط طرزا ستدال، کثرت حوالہ جات، سلاست وروانی آپ کی تحریر کو شاہکار بنا دیتی ہے۔ آپ اپنی تصانیف کی روشنی میں یگانہء عصر اور فرید الدہر نظر آتے ہیں۔حضرت محدث کبیر علامہ ضیاء المصطفیٰ اعظمی دامت برکاتہم العالیہ فرماتے ہیں: ''تاج الشریعہ کے قلم سے نکلے ہوئے فتاویٰ کے مطالعہ سے ایسا لگتا ہے کہ ہم اعلیٰ حضرت امام احمد رضاکی تحریر پڑھ رہے ہیں، آپ کی تحریر میں دلائل اور حوالہ جات کی بھر مار سے یہی ظاہر ہوتا ہے۔''
حضور تاج الشریعہ دام ظلہ، علینا افتاء و قضا، کثیر تبلیغی اسفار اوردیگر بے تحاشہ مصرفیات کے باوجود تصنیف و تالیف کا سلسلہ بھی جاری رکھے ہوئے تھے۔آپ کی تصانیف کی فہرست درج ذیل ہے۔اردو۔۔ 1۔ہجرت رسول .2 آثار قیامت.3 ٹائی کا مسئلہ .4حضرت ابراہیم کے والد تارخ یا آزر.5 ٹی وی اور ویڈیوکا آپریشن مع شرعی حکم .6شرح حدیث نیت.7سنو چپ رہو.8دفاع کنز الایمان (2جلد).9 الحق المبین.10تین طلاقوں کا شرعی حکم.11کیا دین کی مہم پوری ہوچکی؟.12 جشن عید میلاد النبی .13 سفینہ بخشش (نعتیہ دیوان).14 فضیلت نسب.15تصویر کا مسئلہ16 .اسمائے سورۃ فاتحہ کی وجہ تسمیہ.17 القول الفائق بحکم الاقتداء بالفاسق.18سعودی مظالم کی کہانی اختر رضا کی زبانی.19 العطایاالرضویہ فی فتاویٰ الازہریہ المعروف ازہرالفتاویٰ ( 5جلد) مفتی صاحب کی عربی تصانیف یہ ہیں۔.1لحق المبین.2 الصحابۃ نجوم الاھتداء. 3شرح حدیث الاخلاص .4نبذۃ حیاۃ الامام احمد رضا .4 سد المشارع 5 .حاشیہ عصیدۃ الشہدہ شرح القصیدۃ البردہ .6علیقاتِ زاہرہ علی صحیح البخاری .7 تحقیق أن أباسیدنا إبراہیم ں (تارح)لا(آزر) .8مراۃ النجدیہ بجواب البریلویہ (2جلد).9 الفردۃ فی شرح قصیدۃ البردۃ۔ آپ نے مندرجہ ذیل تراجم کیے.1 انوار المنان فی توحید القرآن .2 المعتقد والمنتقد مع المعتمد المستمد .3 الزلال النقیٰ من بحر سبقۃ الاتقی ۔علاوہ ازیں چند مضامین مفتی اعظم ہند،علم فن کے بحرذخاراوررویت ہلال کا ثبوت وغیرہ شامل ہیں۔ اور بھی بہت سا تحقیقی کام ہے جو ضبط تحریر میں نہیں لایا جاسکا۔
حضورتاج الشریعہ دام ظلہ، علیناعربی ادب پر بھی کمال مہارت اور مکمل دسترس رکھتے ہیںآپ کی عربی تصانیف بالخصوص تعلیقاتِ زاہرہ (صحیح البخاری پرابتداء تا باب بنیان الکعبہ آپ کی گرانقدر تعلیقات) اور سیدنا اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالی عنہ کی جن کتب کی آپ نے تعریب فرمائی ہے ہمارے دعوے کی بین دلیل ہیں۔حضورتاج الشریعہ دام ظلہ، علینا کی عربی زبان و ادب پر کامل عبور کا اندازہ سیدنا اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالی عنہ کے رسالہ'' شمول الاسلام لاصول الرسول الکرم ''جس کی تعریب آپ نے فرمائی ہے اورآپ کے رسالہ ''أن أباسیدنا ابراہیم ں تارح لاآزر''پر علمائے عرب کی شاندار تقاریظ اور حضورتاج الشریعہ دام ظلہ، علینا کو دیئے گئے القابات و خطابات سے کیا جاسکتاہے۔
حضرت شیخ عبداللہ بن محمد بن حسن بن فدعق ہاشمی (مکہ مکرمہ) فرماتے ہیں: ''ترجمہ: یہ کتاب نہایت مفیدواہم مباحث اور مضامین عالیہ پر حاوی ہے،طلبہ و علماء کو اس کی اشد ضرورت ہے۔'' آپ حضورتاج الشریعہ دام ظلہ، علینا کو ان القاب سے ملقب کرتے ہیں: ''فضیلۃ الامام الشیخ محمد اختر رضا خاں الازہری، المفتی الاعظم فی الہند،سلمکم اللّٰہ وبارک فیکم''ڈاکٹر شیخ عیسیٰ ابن عبداللہ بن محمد بن مانع حمیری(سابق ڈائریکٹر محکمہء اوقاف وامور اسلامیہ،دبئی و پرنسپل امام مالک کالج برائے شریعت و قانون،دبئی) ڈھائی صفحات پر مشتمل اپنے تاثرات کے اظہار کے بعد فرماتے ہیں: ''الشیخ العارف باللّٰہ المحدث محمد اختر رضا الحنفی القادری الازہری'' حضرت شیخ موسیٰ عبدہ یوسف اسحاقی (مدرس فقہ و علوم شرعیہ،نسابۃ الاشراف الاسحاقیہ،صومالیہ) محو تحریرہیں:''استاذالاکبرتاج الشریعہ فضیلۃ الشیخ محمد اختر رضا، نفعنااللہ بعلومہ وبارک فیہ ولاعجب فی ذلک فانہ فی بیت بالعلم معرف وبالارشاد موصوف وفی ھذا الباب قادۃ اعلام'' حضرت شیخ واثق فواد العبیدی (مدیر ثانویۃ الشیخ عبدالقادرالجیلانی) اپنے تاثرات کا اظہار یو ں کرتے ہیں:''ترجمہ:حضرت تاج الشریعہ کی یہ تحقیق جو شیخ احمد شاکر محدث مصر کے رد میں ہے قرآن و سنت کے عین مطابق ہے آپ نے اس تحقیق میں جہد مسلسل اور جانفشانی سے کام لیاہے میں اس کے مصادر و مراجع کامراجعہ کیا تو تمام حوالہ جات قرآن وحدیث کے ادلہ عقلیہ و نقلیہ پر مشتمل پائے، اور مشہور اعلام مثلاً امم سبکی، امام سیوطی، امام رازی اور امام آلوسی وغیرہ کے اقوال نقل کئے ہیں۔'' اور آپ حضورتاج الشریعہ دام ظلہ، علینا کا تذکر ہ ان الفاظ میں کرتے ہیں: ''شیخنا الجلیل،صاحب الرد قاطع، مرشدالسالیکن، المحفوظ برعایۃ رب العالمین،العالم فاضل،محمد اختر رضا خاں الحنفی القادری الازہری،وجزاء خیر مایجازی عبد امین عبادہ'' حضرت مفتی اعظم عراق شیخ جمال عبدالکریم الدبان حضورتاج الشریعہ دام ظلہ، علینا کو ان القابات سے یاد کرتے ہیں:''الامام العلامۃ القدوۃ،صاحب الفضیلۃ الشیخ محمد اختر رضاالحنفی القادری، ادامہ اللّٰہ وحفظہ ونفع المسلمین ببرکۃ''
حضورتاج الشریعہ دام ظلہ، علینا اس میدان کے بھی شہہ سوار ہیں۔ علم حدیث ایک وسیع میدان، متعدد انواع،کثرت علوم اور مختلف فنون سے عبارت ہے جو علم قواعدمصطلحات حدیث،دراستہ الاسانید، علم اسماء الرجال، علم جرح و تعدیل وغیرہم علوم و فنون پر مشتمل ہے۔ علم حدیث میں حضورتاج الشریعہ دام ظلہ، علینا کی قدرت تامہ، لیاقت عامہ،فقاہت کاملہ،عالمانہ شعور،ناقدانہ بصیرت اور محققانہ شان وشوکت علم حدیث سے متعلق آپ کی تصانیف شرح حدیث الاخلاص (عربی،اردو)،اصحابی کالنجوم فایھم اقتدیتم اہتدیتم (الصحابہ نجوم الاھتداء)، تعلیقات زاہرہ، آثار قیامت سے خصوصاً ودیگر کتب سے عموماً آشکار ہے۔مولانا محمد حسن ازہری (جامعۃ الازہر،مصر)رقم طراز ہیں:''اصحابی کالنجوم الخ کے تعلق سے حضورتاج الشریعہ مدظلہ، العالی نے جو تحقیقی مرقع پیش کیاہے اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ اصول حدیث پر حضورتاج الشریعہ کو کس قدر ملکہ حاصل ہے۔''
ترجمہ نگاری انتہائی مشکل فن ہے۔ترجمہ کا مطلب کسی بھی زبان کے مضمون کو اس انداز سے دوسری زبان میں منتقل کرنا ہے کہ قاری کو یہ احساس نہ ہونے پائے کہ عبارت بے ترتیب ہے یا اس میں پیوند کاری کی گئی ہے۔ کماحقہ، ترجمہ کرنا انتہائی مشکل امر ہے۔ اس میں ایک زبان کے معانی اور مطالب کودوسری زبان میں اس طرح منتقل کیا جاتاہے کہ اصل عبارت کی خوبی اور مطلب ومفہوم قاری تک صحیح سلامت پہنچ جائے۔یعنی اس بات کا پورا خیال رکھاجائے اصل عبارت کے نہ صرف پورے خیالات و مفاہیم بلکہ لہجہ و
انداز،چاشنی و مٹھاس، جاذبیت و دلکشی،سختی و درشتگی،بے کیفی و بے رنگی اسی احتیاط کے ساتھ آئے جو محرر کا منشا ء ہے اور پھر زبان و بیان کا میعار بھی نقل بمطابق اصل کامصداق ہو۔
علمی و ادبی ترجمے تو صرف دنیاوی اعتبار سے دیکھے جاتے ہیں لیکن دینی کتب خاص کر قرآن وحدیث کا ترجمہ انتہائی مشکل اور دقت طلب امرہے۔یہاں صرف فن ترجمہ کی سختیاں ہی درپیش نہیں ہوتیں بلکہ شرعی اعتبار سے بھی انتہائی خطرہ لاحق رہتاہے کہ کہیں اصل معنی میں تحریف نہ ہوجائے کہ سارا کیا دھرا برباد اور دنیا و آخرت میں سخت مؤاخذہ بھی ہو۔ اس کا اندازہ وہی کرسکتا ہے جس کاا س سے واسطہ پڑ اہو۔
حضور تاج الشریعہ دام ظلہ، علینا جہاں دیگر علوم و فنون پر مکمل عبور اور کامل مہارت رکھتے تھے وہیں ترجمہ نگاری کے میدان میں بھی آپ اپنی مثال آپ تھے۔ حضورتاج الشریعہ دام ظلہ، علینا کی ترجمہ نگاری سے متعلق نبیرہء محدث اعظم ہند،شیخ طریقت علامہ سیدمحمد جیلانی اشرف الاشرفی کچھوچھوی دامت برکاتہم العالیہکا یہ تبصرہ ملاحظہ فرمایں۔ ''ارے پیارے! ''المعتقدو المنتقد'' فاضل بدایونی نے اور اس پر حاشیہ '' المعتمد المستند '' فاضل بریلوی نے عربی زبان میں لکھا ہے اور جس مندرجہ بالا اقتباس کو ہم نے پڑھا اسے اہل سنت کی نئی نسل کے لئے تاج الشریعہ،ملک الفقہاء حضرت العلام اختر رضا خاں ازہری صاحب نے ان دونوں اکابر ین کے ادق مباحث کو آسان اور فہم سے قریب اسلوب سے مزین ایسا ترجمہ کیا کہ گویا خود ان کی تصنیف ہے۔ ''المعتمد'' کے ترجمہ میں اگر ایک طرف ثقاہت و صلابت ہے تو دوسری طرف دِقتِ نظر و ہمہ گیریت بھی ہے۔ صحت و قوت کے ساتھ پختگی و مہارت بھی ہے۔ ترجمہ مذکورہ علامہ ازہری میاں کی ارفع صلاحیتوں کا زندہ ثبوت ہے۔ اللّٰھم زد فزد' والد ماجد حضورتاج الشریعہ مفسر اعظم ہند علامہ مفتی ابراہیم رضا خاں جیلانی میاں رضی اللہ تعالی عنہ کو قدرت نے زورِ خطابت وبیان وافر مقدار میں عطا فرمایا تھا اور حضورتاج الشریعہ کو تقریروخطاب کا ملکہ اپنے والد ماجد سے ملا ہے۔آپ کی تقریرانتہائی مؤثر، نہایت جامع، پرمغز،دل پزیر،دلائل سے مزین ہوتی ہے۔ اردو تو ہے ہی آپ کی مادری زبان مگر عربی اور انگریزی میں بھی آپ کی مہارت اہل زبان کے لئے بھی باعث حیرت ہوتی ہے۔ اس کا اندازہ حضرت محدث کبیر علامہ ضیاء المصطفیٰ اعظمی دامت برکاتہم العالیہ کے اس بیان سے باآسانی کیا جاسکتا ہے،آپ فرماتے ہیں:''اللہ تعالیٰ نے آپ کو کئی زبانوں پر ملکہ خاص عطا فرمایا ہے۔زبان اردو تو آپ کی گھریلو زبان ہے اورعربی آپ کی مذہبی زبان ہے۔ ان دونوں زبانوں میں آپ کو خصوصی ملکہ حاصل ہیعربی کے قدیم وجدید اسلوب پر آپ کو ملکہء راسخ حاصل ہے ۔میں نے انگلینڈ، امریکہ،ساؤتھ افریقہ،زمبابوے وغیرہ میں برجستہ انگریزی زبان میں تقریر ووعظ کرتے دیکھاہے اور وہاں کے تعلیم یافتہ لوگوں سے آپ کی تعریفیں بھی سنیں ہیں اور یہ بھی ان سے سنا کہ حضرت کو انگریزی زبان کے کلاسکی اسلوب پرعبور حاصل ہے۔'
بنیادی طور پر نعت گوئی کا محرک عشق رسول ہے اور شاعر کا عشق رسول جس عمق یاپائے کا ہوگا اس کی نعت بھی اتنی ہی پر اثر و پرسوز ہو گی۔سیدنا اعلیٰ حضرت کے عشق رسول نے ان کی شاعری کو جو امتیاز و انفرادیت بخشی اردو شاعری اس کی مثال لانے سے قاصرہے۔ آپ کی نعتیہ شاعر ی کا اعتراف اس سے بڑھ اور کیا ہوگا کے آج آپ دنیا بھر میں ''امام نعت گویاں ''کے لقب سے پہچانے جاتے ہیں۔ امام احمد رضاء کی اس طرز لاجواب کی جھلک آپ کے خلفاء و متعلقین اور خاندان کے شعراء کی شاعری میں نظر آتی ہے۔حضور تاج الشریعہ دام ظلہ، علینا کو خاندان اور خصوصاً اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالی عنہ سے جہاں اور بے شمار کمالات ورثہ میں ملے وہیں موزونیء طبع، خوش کلامی، شعر گوئی اور شاعرانہ ذوق بھی ورثہ میں ملا ۔آپ کی نعتیہ شاعری سیدنا اعلیٰ حضرتص کے کلام کی گہرائی و گیرائی، استادِ زمن کی رنگینی و روانی، حجۃ الاسلام کی فصاحت وبلاغت، مفتی اعظم کی سادگی و خلوص کا عکس جمیل نظر آتی ہے۔ آپ کی شاعری معنویت، پیکر تراشی، سرشاری و شیفتگی، فصاحت و بلاغت، حلاوت و ملاحت، جذب وکیف اورسوز وگدازکا نادر نمونہ ہے۔ علامہ عبد النعیم عزیزی رقم طراز ہیں:''حضرت علامہ اختر رضا خاں صاحب اختر کے ایک ایک شعر کو پڑھنے کے بعد ایسا محسوس ہوتاہے کہ حسن معنی حسن عقیدت میں ضم ہوکر سرمدی نغموں میں ڈھل گیا ہے۔ زبان کی سلاست اور روانی،فصاحت و بلاغت،حسن کلام، طرز ادا کا بانکپن،تشبیہات و استعارات اور صنائع لفظی و معنوی سب کچھ ہے گویا حسن ہی حسن ہے،بہار ہی بہار ہے اور ہر نغمہ وجہ سکون و قرار ہے۔
حضرت علامہ بدر الدین احمد قادری، سیدنا اعلیٰ حضرت کی شاعری سے متعلق تحریرفرماتے ہیں:''آپ عام ارباب سخن کی طرح صبح سے شام تک اشعار کی تیاری میں مصروف نہیں رہتے تھے بلکہ جب پیارے مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی یاد تڑپاتی اور دردِ عشق آپ کو بے تاب کرتا تو از خود زبان پر نعتیہ اشعار جاری ہوجاتے اور یہی اشعار آپ کی سوزش عشق کی تسکین کا سامان بن جاتے۔''
بعینہ یہی حال حضور تا ج الشریعہ کا ہے، جب یاد مصطفی ادل کو بے چین کردیتی ہے توبے قراری کے اظہار کی صورت نعت ہوتی۔آپ نے اپنی شاعری میں جہاں شرعی حدود کا لحاظ رکھا ہے وہیں فنی و عروضی نزاکتوں کی محافظت میں کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہ ہونے دیا اور ادب کو خوب برتا، استعمال کیا، سجایا،نبھایاتاکہ جب یہ کلام تنقید نگاروں کی چمکتی میز پر قدم رنجہ ہو توانہیں یہ سوچنے پر مجبور کردے کہ فکر کی یہ جولانی،خیال کی یہ بلند پرواز،تعبیر کی یہ ندرت،عشق کی یہ حلاوت واقعی ایک کہنہ مشق اور قادر الکلام شاعر کی عظیم صلاحیتوں کی مظہر ہے۔فن شاعری،زبان و بیان اورادب سے واقفیت رکھنے والاہی یہ اندازہ کرسکتاہے کہ حضرت اختر بریلوی کے کلام میں کن کن نکات کی جلوہ سامانیاں ہیں، کیسے کیسے حقائق پوشیدہ ہیں، کلمات کی کتنی رعنائیاں پنہاں ہیں اور خیالات میں کیسی وسعت ہے؟ آپ کا کلام اگرچہ تعداد میں زیادہ نہیں ہے لیکن آپ کے عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مظہر، شرعی قوانین کی پاسداری کی شاندار مثال ہے،آپ کے اسلاف کی عظیم وراثتوں کابہترین نمونہ اور اردو شاعری خصوصاً صنف نعت میں گرانقدر اضافہ بھی ہے آپ کو نئے لب ولہجہ اور فی البدیہہ اشعار کہنے میں زبردست ملکہ حاصل ہے۔ اس کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے جسے خلیفہ مفتی اعظم ہند حضرت مولانا قاری امانت رسول قادری رضوی صاحب مرتب ''سامانِ بخشش'' (نعتیہ دیوان سرکار مفتء اعظم ہند) نے مفتیء اعظم ہند کی مشہور نعت شریف۔تو شمع رسالت ہے عالم تیرا پروانہ۔تو ماہ نبوت ہے اے جلوہ جانانہ۔حضورتاج الشریعہ دام ظلہ، علینا اور علمائے عرب:سیدنااعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالی عنہ کو جو عزت و تکریم اور القاب وخطابات علمائے عرب نے دیئے ہیں شاید ہی کسی دوسرے عجمی عالم دین کو ملے ہوں۔ بعینہ پرتو اعلیٰ حضرت،حضورتاج الشریعہ دام ظلہ، علینا کاجو اعزاز و اکرام علمائے عرب نے کیا شاید ہی فی زمانہ کسی کو نصیب ہوا ہو۔ اس کے چند نمونے'' علم حدیث'' کے عنوان کے تحت گزرے ہیں بعض یہاں ملاحظہ فرمائیں۔
حضورتاج الشریعہ دام ظلہ، علینا کے دورہء مصر کے موقع پرکعبۃ العلم والعلماء جامعۃ الاہر قاہر ہ مصر میں آپ کے اعزاز میں عظیم الشان کانفرنس منعقد کی گئی۔ جس میں جامعہ کے جید اساتذہ اور دنیا بھر سے تعلق رکھنے والے طلباء نے شرکت کی۔ اس کانفرنس کی انفرادیت یہ تھی کہ برصغیر کے کسی عالم دین کے اعزاز میں اپنی نوعیت کی یہ پہلی کانفرنس تھی۔اسی دورہ مصر کے موقع پر جامعۃ الازہر کی جانب سے آپ کو جامعہ کا اعلیٰ ترین اعزاز ''شکر و تقدیر(فخر ازہر ایوارڈ)'' بھی دیا گیا۔جید علمائے مصر خصوصاً شیخ یسریٰ رشدی (مدرس بخاری شریف،جامعۃ الازہر) نے آپ کے دست حق پرست پر بیعت بھی کی اور اجازت حدیث و سلاسل بھی طلب کیں۔حضورتاج الشریعہ دام ظلہ، علینا کے رسائل اصحابی کالنجوم فبایھم اقتدیتم اہتدیتماورأن أباسیدنا ابراہیم ں تارح لاآزرکے مطالعہ کے بعد جامعۃ الازہر، قاہرہ مصر کے شیخ الجامعہ علامہ سید محمد طنطاوی نے اپنے سابقہ موقف سے رجوع کیا اور حضورتاج الشریعہ دام ظلہ، علینا کے موقف کو قبول فرمایا۔قبل ازیں آپ کا موقف اس کے برعکس تھا آپ مذکورہ حدیث کو موضوع خیال کرتے اور''آزر'' جو ابراہیم ؑ کا چچا اور مشرک تھا کو آپکا والد قرار دیتے تھے۔شام کے دوروں کے موقع پر مفتء دمشق شیخ عبدالفتاح البزم،اعلم علمائے شام شیخ عبدالرزاق حلبی،قاضی القضاۃ حمص (شام)اور حمص کی جامع مسجد ''جامع سیدنا خالد بن ولید''کے امام و خطیب شیخ سعید الکحیل،مشہور شامی بزرگ عالم دین شیخ ہشام الدین البرہانی،جلیل القدر عالم دین شیخ عبدالہادی الخرسہ،خطیب دمشق شیخ السید عبد العزیز الخطیب الحسنی،رکن مجلس الشعب (قومی اسمبلی) و مدیر شعبہ تخصص جامعہ ابو النوردکتور عبدالسلام راجع، مشہور شامی عالم و محقق شیخ عبدالہادی الشنار، مشہور حنفی عالم اور محشی کتب کثیرہ شیخ عبدالجلیل عطاء ودیگر کئی علماء نے سلاسل طریقت و سند حدیث طلب کی اور کئی ایک آپ سے بیعت بھی ہوئے۔ راقم نے مختلف ویب سائٹس کی مدد سے جو مواد حضور مفتی اختر رضا خان ؒ صاحب کے حوالے سے دستیاب ہوا ہے وہ قارئین کی خدمت میں پیش کرنے کی کوشش کی۔ ورنہ راقم کی کیا حیثیت ہے۔اللہ پاک مفتی اختر رضا خان ؒ صاحب کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے (آمین)

.........................................................
whatever material i got from websites , i presented.... if there is any mistake while writing these lines. inform me .regards.Ashraf Asmi Advocate High Court Lahore

link of video jnaza of mufti sb R.A
https://www.youtube.com/watch?time_continue=4&v=8BQI3iWhJkk

here are some pics of jnaza of Mufti sb




















Wednesday, 18 July 2018

تحریک لبیک پاکستان موثر سیاسی قوت Written By صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی

 
 
 
تحریک لبیک پاکستان موثر سیاسی قوت
 
صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی
پاکستانی کی سیاسی تاریخ میں ممتاز قادریؒ کی شہادت نے انمٹ نقوش قائم کیے ہیں۔ دین پسند طبقے نے اِس ایشو پر علامہ خادم رضوی اور پیر افضل قادری کو اپنا لیڈر تسلیم کیا ہے۔
علامہ اشرف آصف جلالی گذشتہ ڈیڑھ دہائی سے پوری دُنیا میں تبلیغی سرگرمیوں میں مشغول رہے۔ اِس دوران جب ن لیگ کی حکومت نے ختم نبوت ﷺ کے قانون میں ترمیم کی
اِ س حوالے سے عوام الناس نے زبردست کردار ادا کیا اور حکومت کو مجبوراً ترامیم واپس لینا پڑیں۔ ایسا آناً فاناً ہوا۔ سوشل میڈیا کی طاقت نے عوام کو انتہائی باا ثر بنایا اور پوری قوم نے ختم نبوت کے قانون کو چھیڑنے والوں کو پسپائی اختیار کرنے پڑ مجبور کردیا۔پاکستانی قوم کو اِس تحریک میں جن لوگوں نے لیڈ کیا یہ وہی لوگ تھے جنہوں نے ممتاز قادریؒ کی شہادت کے بعد کے حالات میں حکومت کے خلاف بھرپور تحریک چلائی۔ڈاکٹر اشرف آصف جلالی، پیر افضل قادری اور علامہ خادم حسین رضوی، ممتاز قادری شہید کی پھانسی کے خلاف میدان عمل میں رہے۔سلمان تاثیر کے قتل اور ممتاز قادریؒ کی پھانسی تک کے عرصہ نے متزکرہ بالا تین افراد کو خوب پزیرائی دی لیکن بعد ازاں ڈاکٹر اشرف آصف جلالی علحیدہ اور پیر افضل قادری ، خادم رضوی علحیدہ ہوگئے۔ یوں تحریک لبیک پاکستان کے نام سے جو تنظیم معرض و جود میں آچکی ہے اُس کے روح رواں علامہ خادم رضوی اور پیر افضل قادری ہیں۔ اسلام آباد میں ختم نبوت کے حوالے سے بھرپور دھرنے میں تحریک لبیک کے فعال کردار نے اِسے عوام میں مقبول بنا دیا ہے۔
تحریک لبیک پاکستان نے پنجاب میں پاکستان پیپلزپارٹی سے زیادہ امیدوار کھڑ ے کر دیئے ہیں۔ اس کی وجہ پنجاب سے ضمنی انتخابات کے حالیہ نتائج میں ملنے والی حوصلہ افزائی ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے حتمی فہرست میں تجزیہ سامنے آیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ 25 جولائی کے عام انتخابات کے لئے مذہبی جماعتوں اور گروپوں نے پہلی مرتبہ سب سے بڑے صوبے میں صوبائی اسمبلی کے لئے امیدواروں کی بڑی تعداد کھڑی کی ہے جو الاٹ شدہ عمومی نشستوں سے ڈبل سے بھی زیادہ ہے۔ پنجاب اسمبلی کی 297 نشستوں کے لئے 290 امیدواروں کی حتمی فہرست سامنے آئی ہے۔ اعدادو شمار میں انکشاف ہوا ہے کہ 585 امیدوار 4 مذہبی جماعتوں اور گروپوں کا پلیٹ فارم استعمال کر رہے ہیں ان کے علاوہ پاکستان سنی تحریک اور متحدہ علماء و مشائخ کونسل پنجاب کے انتخابی میدان میں ہیں۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ 2013 میں تباہ کن کارکردگی کے بعد صوبے میں پیپلزپارٹی کو منظم کرنے میں ناکامی کے بعد پاکستان تحریک انصاف اور مذہبی جماعتوں نے تقویت پکڑی اور حالیہ انتخابات میں پاکستان پیپلزپارٹی کے امیدوار مذہبی جماعتوں کے امیدواروں سے کافی پیچھے رہے۔ تحریک لبیک پاکستان نے پنجاب اسمبلی کے لیے 265 سندھ اسمبلی کے لیے 72 خیبر پختون خواہ کے لیے 41 بلوچستان اسمبلی کے لیے 10 اور قومی اسمبلی کے لیے 178 امیدوار کھرئے کیے ہیں۔کل 566 امیدوار اِن اتخابات کے میدان میں ہیں۔ پی ٹی آئی مسلم لیگ ن کے بعد تیسری بڑی سیاسی قوت اِس وقت جو میدان میں ہے وہ تحریک لبیک پاکستان ہے۔جبکہ پاکستان پیپلزپارٹی 234 امیدوار میدان عمل میں لائی ہے۔ تحریک لبیک پاکستان ’’کرین‘‘ کے انتخابی نشان پر الیکشن میں حصہ لے رہی ہے۔ قائدین تحریک لبیک کا کہنا ہے کہ2018کے الیکشن میں تحریک لبیک یا رسول اللہ بھرپور انداز میں کامیابی حاصل کرے گی‘اسمبلی میں لبیک یا رسول اللہ ؐ کے نعروں سے گونج اٹھے گی‘تحریک لبیک یا رسول اللہؐ کا 2018میں الیکشن میں حصہ لینا بے حد ضروری تھا پاکستان تحریک لبیک یا رسول اللہؐ کو انتخابی میدان میں منظوری ملنا پہلی کامیابی ہے اور اس تاریخ ساز کامیابی کو حاصل کر نے پر دل کی اتھا گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ علامہ مولانا خادم حسین رضوی کی شب روز محنت سے آج پاکستان کو یہ اعزاز حاصل ہو چکاہے کہ جس مقصد کیلئے پاکستان کا قیام عمل میں لایا گیا اسی مقصد اور مشن کی تکمیل کیلئے تحریک لبیک یا رسول اللہ ؐ عملی میدان میں نکلی ہے انشا اللہ پاکستان کی اسمبلیوں میں اور پاکستان کی گلی کوچوں میں شہر شہر،گاؤں گاؤں تحریک لبیک یا رسول اللہ ؐ کامیابی کے جھنڈے گاڑھتے ہوئے کامیابی حاصل کر ئے گی غازی ممتاز حسین قادری نے جو مشن بتایا اس کی تکمیل کیلئے کارکنان اپنا ووٹ تحریک لبیک یا رسول اللہؐ کے دیں اور تحریک لبیک یا رسول اللہ ؐ کے دیوانوں کو منتخب کر کے اسمبلی میں پہنچایا جائے تا کہ سر کاردوعالم ؐ کا دین تخت پر لایا جا سکے اور انصاف، اخوت، بھائی چارے، اور حقیقی معنوں میں پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنایا جا سکے احمد نے مذید کہا کہ وہ وقت آ چکا ہے جب سرکار دوعالم کا دین عملی طور پر تخت نشین ہوگا۔تحیرک لبیک پاکستان کے انتخابی جلسوں کا اگر جائزہ لے جایا تو یہ بات روزِ وشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے۔کراچی لاہور گجرات، گوجرانوالا، حافظ آباد فیصل آباد میں بہت برئے بڑئے جلسے کیے ہیں۔ تحریک لبیک کی مقبولیت کی وجہ سابقہ حکومت کی طرف سے ممتاز قادری کو پھانسی اور ختم نبوت کے قانون میں ترامیم کی سازشیں ہیں۔ اِس اہم معاملے کی وجہ سے تحریک لبیک کو عوام الناس میں مقبولیت ملی ہے۔اور عام پاکستانی تحریک لبیک کے مشن کو اہم سمجھتا ہے۔ یوں جماعت اسلامی، جے یو آئی، جے یو پی، ایم ایم اے جے ڈی اے ودیگر سیاسی اتحاد تحیرک لبیک کے مقابلے میں کافی پیچھے ہیں۔ اکثر لوگ یہ گلہ کرتے نظر آتے ہیں کہ تحریک لبیک والے شدت پسند ہیں ایسی بات نہیں ہے یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہمیشہ نام نہاد طالبان کے پیٹرواسلام کی مخالفت کی ہے۔ یہ تو عشق رسول ﷺ کا نعرہ مستانہ لگانے والے لوگ ہیں۔ چونکہ اِس جماعت کے کارکنان کی تربیت اُس انداز میں نہیں ہوئی جیسے سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کی ہوتی ہے اِس لیے اِنکے موقف میں سختی پائی جاتی ہے وہ سختی درحقیقت ممتاز قادریؒ کی پھانسی اور ختم نبوت کے قوانین میں ترامیم کے غصے کی وجہ سے ہے۔ ایک بات تو طے ہے کہ تحریک لبیک نہ صر ف مذہبی جماعتوں کے ووٹ بنک کو زبردست متاثر کرئے گی ایسا لاہور کے ضمنی انتخاب میں ہوچکا ہے بلکہ ن لیگ پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی براہ راست متاثر ہوں گے۔ ایوان عدل لاہور میں ہونے والے ایک سیاسی فورم میں احمد رضا، کامران بھٹی ایڈووکیٹس نے کہا ہے کہ تحریک لبیک پاکستان پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر بھر پور کردار ادا کرے گی۔ امید واثق ہے کہ تحریک لبیک پاکستان، پاکستان میں تیسری نمبر پر ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے گی بلکہ درحققیت یہ تیسری قوت بھی بنتی ہوائی نظر آرہی ہے۔

Saturday, 14 July 2018

اڈیالہ جیل کاقیدی نمبر 3421 ...... A column By صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی




اڈیالہ جیل کاقیدی نمبر 3421
صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی

جس دن نوز شریف کو گرفتار کیا جارہا تھا اُس دن بلو چستان اور کے پی کو لہو میں نہلا دیا گیا۔حالیہ دہشت گردی میں نواب سراج رئیسانی ، ہارون بلور سمیت سو سے زائد افرد شہید ہوئے۔آرمی چیف نے نواب سراج رئیسانی کی شہادت کو پاکستان کا بہت بڑا نقصان قرار دیا ہے۔امریکہ، اسرائیل، بھارت ملک کر افغانستان کی سر زمین کو استعمال کر رہے ہیں اور کلبہوشن یادو نامی بدنام زمانہ دہشت گرد ایران میں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف کام کرتا رہا ہے۔اِ ن حالات میں جب کہ پاکستان میں انتخابات کا بگل بج چکا ہے۔ لیکن چند دنوں کے اندر اندر جس طرح کے پی کے اور بلوچستان میں لہو بہاگیا ہے اِس سے اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ پاکستان مخالف قوتیں پاکستان کی سا لمیت کے کس طرح درپے ہیں۔بھارت بلوچستان میں آگ کا کھیل کھیل رہا ہے۔ لیکن آفرین ہے محب وطن بلوچوں پر اُنھوں نے پاک پرچم کو سینے سے لگا رکھا ہے۔بلوچستان کے ضلع مستونگ میں صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی بی 35کے امیدوار نوابزادہ سراج رئیسانی کی انتخابی مہم کے دوران خودکش دھماکہ میں نوابزادہ سراج رئیسانی سمیت 131 افراد شہید گئے۔
نوابزادہ سراج رئیسانی 4 اپریل1963 کو ضلع بولان کے علاقے مہر گڑھ میں پیدا ہوئے اور ان کا تعلق بلوچستان کے رئیسانی قبیلے سے تھا۔نوابزاد سراج رئیسانی نے ابتدائی تعلیم بولان سے حاصل کی اور بعد ازاں زرعی یونیورسٹی ٹنڈو جام سے ایگر و نومی میں بی ایس سی کیا، جس کے بعد نیدرلینڈ سے فلوری کلچر کا کورس کیا۔سراج رئیسانی کے والد مرحوم نواب غوث بخش رئیسانی سابق گورنر بلوچستان اور سابق وفاقی وزیر خوراک و زراعت بھی رہے۔ انہوں نے 1970 میں بلوچستان متحدہ محاذ کی بنیاد رکھی۔سراج رئیسانی سابق وزیر اعلی بلوچستان نواب اسلم رئیسانی اور سابق سینیٹر و بلوچستان نیشنل پارٹی کے رہنما نوابزادہ لشکری رئیسانی کے چھوٹے بھائی تھے۔سراج رئیسانی نے چند سال قبل بلوچستان متحدہ محاذ کے چیئرمین منتخب ہوئے تھے۔ انہوں نے رواں سال تین جون کو اپنی جماعت کو صوبہ میں بننے والی نئی سیاسی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی میں ضم کرنے کا اعلان کیا اور بی اے پی کے ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی کی نشست حلقہ پی بی35 مستونگ سے الیکشن لڑرہے تھے۔اس سے قبل مستونگ میں جولائی2011 میں ایک بم دھماکے میں نوابزادہ سراج رئیسانی کا بیٹا اکمل رئیسانی شہید ہو گیا تھا۔ سوشل میڈیا پر نواب سراج رئیسانی شہید کی جو تصاویر اِس وقت وائرل ہوئی ہیں اُس میں جناب نواب سراج رئیسانی شہید پاکستانی پرچم کے ساتھ لازوال محبت کا اظہار کر رہے ہیں۔اللہ پاک پاکستان پر رحم کرئے۔
نواز شریف اور اُن کی بیٹی اڈیالہ جیل میں قید ہوچکی ہیں ۔ پاکستان کی احتساب عدالت نے لندن میں موجود فلیٹس کی منی ٹریل نہ دینے پر نوز، مریم اور صفدر کو سزا سنائی گئی تھی۔ مریم کو قیدی نمبر 3422 اور نواز شریف کو قیدی نمبر 3421 الاٹ کردیا گیا ہے قیدی نمبر 3421نواز شریف جب پاکستان گرفتاری کے لیے آئے اُس دن لاہور مین موبائل فون سروس انٹرنیٹ سروس بند کردی گئی۔ ٹی وی چینلز کو بھی ن لیگ کی ریلیوں کی کوریج سے منع کیا گیا۔امید ہے کہ قیدی نمبر 3421 راولپندی کی اڈیالہ جیل میں سکون سے بیٹھ کر سوچیں گے کہ صرف پانچ سال پہلے زبردست جیت کے بعد تیسری دفعہ وزیر اعظم بننے کے باوجود چند سالوں میں کیا سے کیاہوگیا۔ قدرت کا اپنا قانون ہے۔ جن لاکھوں افراد نے ممتاز قادری کی نماز جنازہ پڑھی تھی اور پھر ہاتھ اُٹھا کر نواز کے خلاف جو دُعائیں مانگی گئیں تھی وہ رائیگاں تو نہیں جانی تھیں۔ختم نبوت کے قانون میں رد وبدل کرنے کا جُرم بھی بہت بڑا تھا جسے حقیقت میں پاکستانی عوام نے ناکام بنایا۔ امید ہے کہ قیدی نمبر3421 نواز شریف اِس طرف بھی توجہ دیں گے کہ اُنھوں کو پاکستان کو توڑنے والے شیخ مجیب کو اپنا آئیڈیل بنا ڈالا۔ قیدی نمبر3421 کو اڈیالہ جیل میں میسر خاموش لمحات میں یہ بھی سوچنا ہوگا کہ پوری قوم کی مخالفت کے باوجود وہ مودی کی یاری کا دم کیوں بھرتے رہے۔۔ قیدی نمبر3421 کو رات سونے سے پہلے سانحہ مال ٹاون لاہورکے نہتے شہدا کی بابت بھی توجہ دینا ہوگی۔ قیدی نمبر3421 خود کے گریبان مین ضرور جھانکیں اور اسِ بات کاجواب اپنے ضمیر سے لیں کہ اُنھوں نے اچکزئی نظریہ کیوں اپنایا؟۔ پاک فوج کو گالیاں کیوں دیں۔ خود کو لبرل بنانے کے شوق میں پاکستان اور بھارت کے درمیان لائن کو کراس کیوں کیا۔قیدی نمبر 3421 کو اِن سوالات کا جواب خود سے لینا ہوگا۔یہ درست ہے کہ نواز شریف نے اپنی بیٹی کو اپنا سیاسی جانشین بنادیا ہے لیکن پاکستانیوں کے بیٹوں اور بیٹیوں کے مستبقل کے لیے اُس نے کیا کیا۔
آخر میں ایک اہم بات وہ یہ کہ قید کے اگلے دن ہی جس شاہا نہ انداز میں نواز شریف کے ساتھ اُن کے اہل خانہ کی ملاقت کروئی گئی ہے وہ ملاحظہ فرمائیں۔ شہباز شریف اپنی والدہ اور بچوں کے ہمراہ نواز شریف اور مریم نواز سے ملاقات کیلئے خصوصی طیارے سے راولپنڈی پہنچے۔کیا معاملات طے پاگئے،شہباز شریف کو پاک فضائیہ کی ائیربیس استعمال کرنے کی اجازت دینے پر سیاسی جماعتوں نے سوالات اٹھا دیے، صدر ن لیگ شہباز شریف اپنی والدہ اور بچوں کے ہمراہ نواز شریف اور مریم نواز سے ملاقات کیلئے خصوصی طیارے سے راولپنڈی پہنچے۔ شہباز شریف اپنی والدہ اور بچوں کے ہمراہ ہفتے کی شب کو قائد مسلم لیگ نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز سے ملاقات کیلئے اڈیالہ جیل پہنچے۔شہباز شریف اپنے اہل خانہ کے ہمراہ لاہور سے خصوصی طیارے کے ذریعے پاک فضائیہ کی نور خان ائیربیس پہنچے۔ کیا ایک عام پاکستانی قیدی کے ساتھ اِس طرح سلوک کیا جاتا ہے کہاں ہے قانون کی حاکمیت۔

Thursday, 12 July 2018

ڈاکٹر ظفر نوری کی مہم ۔۔۔۔۔۔ شجر کاری آئندہ نسلو ں کی شادابی....................... صاحبزادہ اشرف عاصمی

 
ڈاکٹر ظفر نوری کی مہم ۔۔۔۔۔۔ شجر کاری آئندہ نسلو ں کی شادابی
 
صاحبزادہ اشرف عاصمی
ڈاکٹر ظفر اقبال نوری ایک ایک ہستی کا نام ہے جنہوں نے پاکستان میں موجود لاکھوں انسانوں تک نبی پاک ﷺ کے عشق کا پیغام پہنچایا۔یوں میری عمر کے لوگ اِن کی بدولت قافلہ عشق و مستی انجمن طلبہء اسلام میں شامل ہوئے۔ مصطفائی تحریک پاکستان بھی سابقین انجمن طلبہ السلام پر مشتمل دوستوں کی سماجی تحریک ہے۔ جناب ڈاکٹر ظفر اقبال نوری گذشتہ دو دہائیوں سے امریکہ میں مقیم ہیں لیکن وطن عزیز کے ساتھ اُن کی محبت لازوال ہے۔ حالیہ دنوں میں ملک میں درختوں کی کمی کو جس بُری طرح محسوس کیا گیا ہے اُس حوالے سے جناب ڈاکٹر ظفر اقبال نوری نے مصطفائی تحریک پاکستان کے دوستوں کو پاکستان میں درخت لگانے کا ٹاسک دیا ہے یوں جناب ڈاکٹر ظفر اقبال نوری اور مصطفائی تحریک کے مرکزی امیر جناب ڈاکٹر غلام مرتضیٰ سعیدی نے وطن کی شادابی کے لیے شجرکاری کا مشن شروع کیا ہے۔ انجمن طلبہء اسلام کے سابقین بالخصوص اِس مشن میں جناب ظفر اقبال نوری اور جناب غلام مرتضیٰ سعیدی کے دست و بازو بن گئے ہیں۔ شجرکاری مہم کو نعرہ یہ ہے کہ ہر پاکستانی اِس یوم آزادی پر ایک درخت لگائے۔ یوں انشا اللہ یہ مہم جاری و ساری ہے۔ پوری قوم سے امید ہے کہ اپنے حال اور مستقبل کو بہتر بننے کے لیے درخت لگانے کی اِس قومی مہم میں اپنا حصہ ضرور ڈالیں۔
پاکستان میں آنے والی حالیہ موسمیاتی تبدیلی ہم سب کے لئے ہی باعث تشویش ہے گرمیوں کا طویل ہونا سردی کا ایک دو ماہ تک محدود ہو جانا، کبھی خشک سالی تو کبھی بے وقت بارشوں کا ہونا ایسے عوامل ہیں جو نہایت توجہ طلب ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ آئندہ جنگیں پانی کے مسئلے پر ہوں گی مگر ہم نے مستقبل میں ایسی صورتحال سے مقابلہ کرنے کے لئے کوئی حل نہیں سوچا اور نہ ہی پانی کے ذخیرے بنائے ہیں جس کی وجہ سے ہمارے ملک میں پانی کی قلت اور بجلی کا مہنگا اور نایاب ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ مگر ایسا بھی نہیں ہونا چاہیئے کہ ہم تمام تر ذمہ داری حکومتی ایوانوں پر ڈال کر خود بری الذمہ ہو جائیں۔ مہذب معاشروں میں کچھ ذمہ داریاں اس کے شہریوں پر بھی عائد ہوتی ہیں۔ مگر بد قسمتی سے ہمارے ہاں تو اپنا گھر صاف کر کے کوڑا کرکٹ گلی میں پھینکنے کا رواج عام ہے‘ اور پھر ہم ہر وقت اپنے ملک و حکومت سے مطالبہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ اگر حکومت اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کر رہی تو پھر کیا ہے ہم ہیں تو۔
کچھ اقدامات ایسے ہیں جو ہم سب بحیثیت شہری باآسانی کر سکتے ہیں۔ملک میں بڑھتی آلودگی سے کوئی بھی خوش نہیں ہو گا مگر اس پر قابو پانے کے لئے ہم سب انفرادی سطح پر ایسے اقدامات ضرور لے سکتے ہیں جس سے نہ صرف ماحولیاتی آلودگی کم ہوگی بلکہ ہم بارش کی نعمت سے مستفید ہو سکیں گے۔ اس میں شجر کاری اور پودوں کی نگہداشت سر فہرست ہے۔ درختوں کی روز بروز بڑھتی کٹا ئی ایک لمحہ فکریہ ہے کیونکہ جس رفتار سے کٹائی ہو رہی ہے اس رفتار سے پیداوار بالکل نہ ہونے کے برابر ہے۔ اور ہم تو ان چند خوش نصیب ترین ممالک میں سے ہیں جن کے ہاں شجر کاری کا سیزن ہر سال دو بار آتا ہے‘ پہلا جنوری کے وسط سے مارچ کے وسط تک، اور دوسرا جولائی سے ستمبر کے وسط تک۔ مگر اس کے باجود ہمارے ہاں اس سے کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھایا جاتا۔ اور اگر پودے لگائے بھی جاتے ہیں تو ان کی نگہبانی اور حفاظت کی جانب بالکل توجہ نہیں دی جاتی جس کی وجہ سے وہ تناور درخت نہیں بن پاتے۔
ہم بھی اپنے اپنے گھروں میں، گملوں میں باغیچوں میں، دالانوں میں، چھتوں پر، اسکولوں، درسگاہوں، سڑک کنارے پودے لگا کر سکتے ہیں۔ کیونکہ یہی واحد علاج ہے گلوبل وارمنگ، گرین ہاؤس افیکٹ سمیت سیلابوں جیسے متعدد امراض کا۔ کیونکہ پودے کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرتے ہیں جس کا فضا میں بڑھتا ہوا تناسب گرین ہاؤس ایفکٹ کی بنیاد سمجھا جاتا ہے اور جس سے بتدریج گلوبل وارمنگ ہو رہی ہے۔ یقین جانئیے صرف پودے لگا کر ہم بہت سے ماحولیاتی مسائل سے جان چھڑوا سکتے ہیں۔ پودوں اور درختوں کی وجہ سے بارشیں بھی بر وقت اور اچھے تناسب میں ہوتی ہیں۔
جہاں ہمیں اس وقت شجر کاری سے متعلق آگاہی پیدا کرنے کی ضرورت ہے ۔ وہاں اص طرف بھی سوچنا ہے کہ سڑکوں کی مبینہ کشادگی کا بہانہ بنا کر درختوں کو بے دری سے کاٹنا ۔ بچے کچے درخت واپڈا حکام کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں جو بجلی کی تاروں میں رکاوٹ کا بہانہ بنا کر کاٹ دیتے ہیں۔ اور جو واپڈا سے بھی بچ جائیں وہ ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے نذر ہوجاتے ہیں۔ ہمیں اپنے ارد گرد کا علاقہ سرسبزو شاداب بنائیں اپنے اور اپنی آنے والی نسلوں کے لئے مناسب آکسیجن اور خوراک کا انتظام کریں ورنہ تیزی سے گھٹتے ہوئے درختوں اور ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے قدرتی نظام بالکل برہم برہم ہو جائے گا ۔امیدِ واثق ہے کہ پاکستانی قوم ڈاکٹر ظفر اقبال نوری اور مصطفائی تحریک کی اِس شجر کاری مہم میں بھر پور حصہ لے گی۔ یوں ہم اپنے ملک میں کم ازکم سانس لینے کے قابل تو ہو سکیں گے۔ اللہ پاک پاکستان کو خشحال بنائے۔ (آمین)

Saturday, 7 July 2018

شریفوں کے بعد۔۔۔۔۔ اب زرداری اور مشرف..Column By صاحبزادہ اشرف عاصمی

شریفوں کے بعد۔۔۔۔۔ اب زرداری اور مشرف

صاحبزادہ اشرف عاصمی

پاکستان میں ہمیشہ قانون کی عملداری صرف غریبوں کے لیے رہی ہے۔ پاکستانی معاشرے میں غریب پر قانون لاگو ہوتا ہے اور امیر قانون کی عملداری ہونے کی نوبت ہی نہیں آنے دیتا۔ عوام کے خون کو چوس کر جائیدادیں بنا کر خود کو سیاسی جماعت سے منسلک کرکے خود کو بچاؤ کا ڈھونگ رچالیتے ہیں۔سیاست کے اندر پناہ لینے والے یہ لُٹیرے پچھلے ستر سالوں سے عوام کا استحصال کر رہے ہیں۔سیاست میں کاروباری افراد اور جاگیر دار وڈیرے بطور مشن کے وابستہ ہیں کہ اپنے کاروبار اپنی زمینوں جائیدادوں کو تحفظ دیں اور قانون اُن کا بال بیکا نہ کر سکے۔
بدقسمتی سے فوج کے سابق جرنیل اور سابق بیوکرویٹ بھی اِس دھندے میں ملوث ہیں۔ پاکستان میں موجود جائیدادیں اور پاکستان سے باہر کے ممالک میں موجود پاکستانیوں کی جائیدادوں کا اگر سروے ہو تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ سیاستدان ، سابق فوجی، سابق بیوروکریٹ قوم کا
ا استحصال کرنے میں پیش پیش ہیں۔جس کی لاٹھی اُس کی بھینس کے مقولے کی عمل داری کے تحت کرپشن میں ملوث سابق فوجی جرینل اور سابق بیوکریٹ قانون کے شکنجے میں نہیں آتے ۔وجہ صاف ظاہر ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا۔ یوں پاکستان میں قانون کی عمملداری کے بخیے اُدھیڑنے میں سیاستدانوں، سابق فوجیوں اور بیوروکریٹوں کا مکمل ہاتھ ہے۔ سارے فوجی اور سارئے سیاستدان اور سارئے بیوروکریٹ کرپٹ نہیں ہیں ۔ لیکن یہ ٹرائیکا طاقتور ہے اِس لیے ملک کی دولت لوٹنے والوں میں اِس ٹرائیکا کا ہی کردار ہے۔ ایوب ، ضیاء کا مارشل لاء اور مشرف کی حکومت ، ان ادوار میں نوکر شاہی اور سابق فوجیوں کو خوب نوازا گیا حتی کہ مارشل لاء کو دوام بخشنے کی خاطر نام نہاد سیاستدانوں کو رام کرنے کے لیے قومی خزانے کو لٹایا گیا۔ یوں ایوب کو بھٹو، جنرل ضیاء کو جونیجو اور نواز شریف اور مشرف کو گجرات کے چوہدری میسر آتے چلے گئے۔
یہ بات اطہر من الشمس ہے کہ قانون کی عملداری کا رونا بھی وہی طبقہ روتا ہے جو کہ خود استحصال کرنے کا براہ راست ذمہ دار ہے۔بھٹو کی پھانسی اور نواز شریف کو سزا اُن معروضی حالات کی وجہ سے ہے جو عالمی سطع پر اسِ وقت ہیں۔
ورنہ ماڈل ٹاون کے دو درجن سے زائد بے گناہوں کا قتل، ختم نبوت کے قانون پر ڈاکہ، غازی ممتاز قادری شھید کو پھانسی، بھارتی وزیر اعطم مودی کے ساتھ دوستی کا بھرم اور تین دہائیوں سے ملک میں مسلط سکھا شاہی کافی تھی کہ شریف خاندان کا بے لاگ احتساب کیا جاتا۔ چونکہ عالمی قوتیں پاکستان کو خوشحال ہوتا نہیں دیکھنا پسند کرتیں اِس لیے نواز شریف کو پورا پورا موقع دیا گیا ہے کہ وہ خود پر لگنے والے الزامات اور سزاؤں کو بھر پور طریقے سے سیاسی رنگ دے سکے۔یوں اب جب نواز شریف مریم نواز اور کیپٹن صفدر کو سزائیں سُنائی گئی ہیں اُس سے اِس خاندان کی سیاست کو مزید آکسیجن ملے گی۔ یہ سب کچھ پاکستان کو غیر محفوظ کرنے کی سازش ہے۔
ایون فیلڈ ریفرن س کے فیصلے کے مطابق عدالت نے ملزمان کو فرد جرم میں نیب آرڈیننس کی شق 9 اے(4) کے تحت لگائے گئے کرپشن کے الزام سے بری کر دیا،نواز شریف کو آمدن سے زائد اور بے نامی دار کے نام سے جائیداد بنانے پر نیب آرڈی نینس کی سیکشن 9A۔5 کے تحت 10 ?سال قید اور 8 ملین پاؤنڈ جرمانہ جبکہ والد کے اثاثے چھپانے میں معاونت کے الزام میں مریم نواز کو 7 ?سال قید اور 2 ملین پاؤنڈ جرمانہ کیاگیا ہے۔ نیب آرڈیننس کی سیکشن 9 اے فائیو زیرکفالت افراد یا بے نامی دار کے نام جائیداد بنانے سے متعلق ہے۔نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن(ر) صفدر کو مریم نواز کی جعلی ٹرسٹ ڈیڈ بنانے اور معاونت میں تینوں کو ایک ایک سال قید ا کی سزا سنائی ہے، دونوں سزائیں اکھٹی شروع ہونگی۔ تحریری فیصلے کے مطابق حسین نواز نے خود تسلیم کیا کہ وہ لندن فلیٹس کے مالک ہیں۔ فیصلے میں جے آئی ٹی رپورٹ، سپریم کورٹ کے فیصلوں، حسین نوازکے ٹی وی انٹرویو،سابق وزیراعظم نواز شریف کے قومی اسمبلی اور قوم سے خطاب کا حوالہ بھی دیا گیا۔ تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ مریم نواز اپنے والد نواز
شریف کی جائیداد چھپانے کیلئے آلہ کار بنیں، مریم نواز کی جانب سے جمع کرائی گئی ٹرسٹ ڈیڈ جعلی ثابت ہوئی ہے اور مریم نواز والد کے جرم میں معاون ثابت ہوئی ہیں، مریم نواز نے جرم کے ارتکاب میں اپنے والد کی معاونت کی۔ تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ملزمان نے قطری خطوط کے ذریعے لندن جائیداد کا کبھی پہلے ذکر نہیں کیا۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ قطری خطوط سنی سنائی بات سے زیادہ کچھ نہیں جبکہ اپارٹمنٹس سے متعلق کوئی معاون دستاویز یا براہ راست ثبوت نہیں دیا گیا۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ 1993ء میں مریم نواز کی عمر 20 سال، حسین نواز 17سال اور حسن نواز 15 سال کے تھے،اس وقت تینوں ملزمان کم عمر تھے اور اپارٹمنٹس خریدنے کے وسائل انکے پاس نہیں تھے۔ تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ عام طور پر بچے والدین کے ہی زیر کفالت ہوتے ہیں۔ سابق وزیراعظم نواز شریف یہ نہیں کہہ سکتے کہ انہوں نے بچوں کو رقم نہیں دی۔ تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ حسن نواز کے انٹرویو کے مطابق بھی ایون فیلڈ اپارٹمنٹس انکے زیر استعمال رہے۔ فیصلے کے مطابق کیپٹن صفدر نے بھی جرم کے ارتکاب میں معاونت کی، فیصلے میں نواز شریف کو شیڈول 2 کے تحت مزید ایک سال قید کی سزا دی گئی۔ اس طرح نواز شریف کو مجموعی طور پر 11 سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی۔ مریم نواز کی سات سال اور ایک سال اضافی سزائیں جبکہ نواز شریف کی دس سال اور ایک سال اضافی سزائیں ایک ساتھ شروع ہونگی۔عدالتی فیصلے کے مطابق نواز شریف اور مریم نواز کو تفتیشی ایجنسی سے تعاون نہ کرنے پر ایک ایک سال قید کی سزا سنائی گئی۔ عدالت نے قرار دیا کہ استغاثہ ملزمان پر کرپشن کا الزام ثابت نہیں کر سکا تاہم بے نامی دار اور آمدن سے زائد اثاثے بنانے کا الزام ثابت ہو ا ہے۔فیصلے میں کہاگیاہے کہ ملزمان 10سال تک کوئی عوامی عہدہ نہیں رکھ سکتے۔ تمام مجرمان کو اپیل میں جانے سے پہلے سرنڈر کرنا ہو گا۔
معزز قارئین یقینی طور پر عدالتوں نے فعال کردار ادا کرنا شروع کردیا ہے اور ایسے خاندان کو گرفت میں لے لیا ہے جس نے اِس قوم سے قیمتی 35 سال چھین لیے ہیں۔اب ضرورت اِس امر کی ہے کہ سابق جرنیلوں اور سابق بیوروکریٹوں سے بھی قومی دولت نکلوائی جا ئے اور زردار کو بھی انصاف کے کٹرے میں لایا جائے۔ ظاہر سی بات ہے زردار اور زشریف نے حکومت کی ہے اور اُنھوں نے وسائل کو لوٹا ہے عمران خان چونکہ ابھی تک اِس حوالے سے اقتدار میں نہیں۔
اِس لیے اُس پر ابھی کرپشن کا الزام نہیں ہے۔ دیگر لٹیروں کو بھی پکڑا جانا چاہیے۔موجودہ جمہوری نظام بدترین آمریت ہے۔ قوم کی نظریں اب عد التوں پر ہیں کہ کب مشرف کی جائیداد کا بھی حساب کتاب ہوتا ہے۔پنڈ کا چوہدری بدمعاش پالاتا ہے اُس سے سارے پنڈ کو ڈرا کر رکھتا ہے ۔ چوہدری کو جب محسوس ہوتا ہے کہ یہ میرئے ہاتھ سے نکلتا جارہا ہے تو چوہدری اُس بدمعاش کر مروا دیتا ہے یا کسی کیس میں اندر کروادیتا ہے ۔بدمعاش کو یہ بات ہضم نہیں ہوتی کہ چوہدری اُس کے ساتھ کیسا سلوک کر رہا ہے۔ ہم ستر سالوں میں چوہدری اور بدمعاش کے درمیان پھنسی ہوئی مخلوق ہیں۔اب بدمعاش پالنے والا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔