Tuesday, 28 August 2018

پروفیسر سید سلیمان اشرف بہاریؒ اور دو قومی نظریہ ایک انقلاب آفرین تحقیقی کتاب ..................صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی

                               
           پروفیسر سیدمحمد سلیمان ا شرف بہاریؒ اور دو قومی نظریہ

                               محمد احمد ترازی کی انقلاب آفرین تحقیقی کتاب

صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی                                                  
قارئین اکرام اِس قحط الرجال کے دور میں بھی ایسی ہستیاں موجود ہیں جو کہ اسلاف کی خدمات کو اپنے لیے چراغ راہ گردانتی ہیں اور اُن کے مشن کے فروغ کے لیے تگ وتاز جاری رکھے ہوئے ہیں۔ جناب محمد احمد ترازی بھی ایسی ہی ہستی کا نام ہے جنہوں آج کے اِس دور میں بھی اسلاف کے کارناموں سے ہمیں روشناس کروانے کی ذمہ داری اپنے سر لے رکھی ہے اور ایک انقلاب آفریں اور تحقیقی کتاب قوم کو دی ہے۔ یقینی طور پر جناب محمد احمد ترازی قوم کا فخر ہیں۔ جناب محمد احمد ترازی کی تحریروں سے استفادہ کرتا رہتا ہوں اور اِن کی جانب سے لکھے گئے کئی اہم ایشوز پر مقالا جات میرئے لیے ہمیشہ ممدومعاون رہے ہیں۔جناب محمد احمد ترازی نے اُنیسویں صدی میں عالم اسلام اور بالخصوص مسلمانان ہند میں قومی و ملی شعور بیدار کرنے والی عظیم ہستی جناب پروفیسر سید سلیمان اشرف بہاریؒ کی تحریکِ خلافت، ترکِ موالات، ہجرت ،ہندو مسلم اتحاد اور ترکِ گاو کشی کے حوالے سے مسلمانان ہند کی رہنمائی اور گاندھی اور گاندھی کے چیلوں کی منافقانہ سیاست کے پردئے کو چاک کیے جانے کے حوالے سے جناب پروفیسر سید سلیمان اشرف بہاریؒ کے بھرپور کردار پر روشنی ڈالی ہے۔ اِس حوالے سے جناب محمد احمد ترازی نے ایک مکمل تحقیقی دستاویز تیار کی ہے ۔ اِس کتاب کا ہر باب ایک مکمل دستاویز ہے۔پہلا باب جس کا عنوان کتابِ زندگی ہے اِس میں جناب سید سلیمان اشرف بہاریؒ کی شخصیت کے والے سے بھرپور تحقیق کی گئی ہے جو کہ موجودہ نسل کے سکالرز کے لیے ایک بیش بہا قیمتی علمی تحفہ ہے۔اِسی طرح باب دوئم کاعنوان دو قومی نظریہ آغاز و ارتقاء ہے اس باب میں شیخ عبدالحق محدث دہلوی سے محدث بریلوی تک کی تگ وتاز کا ذکر ہے۔اِسی طرح تیسرئے باب میں جناب احمد ترازی نے شعور کی بیداری کے نام سے ترتیب دئے جانے والے باب میں سید سلیمان اشرف اور عالم کفر کی طاغوتی یلغار اور جناب سید سلیمان اشرف کا نظریہ دین و سیاست کا تذکرہ کیا ہے۔ باب چہارم جس کا عنوان جدید علوم اور جذبہ آزادی ہے اِس میں جناب سید سلیمان اشرف بہاریؒ کی اُن کاوشوں کا احاطہ کیا ہے جن میں اُنھوں نے ہندوں کے ساتھ کانگرسی ملاؤں کے گٹھ جوڑ کا توڑ کیا۔باب پنجم تحریک ترکِ گاؤ کشی اور تحفظ شعائر اسلامیہ کے عنوان کے تحت ہے جس میں جناب سید سلیمان اشر ف بہاریؒ کی جانب سے ترک گاؤ کشی کے حوالے سے مسلمانوں کے نقطہ نظر کو بھر پور طریقے سے پیش کیا گیا۔باب ششم کا عنوان ہندو مسلم اتحاد ہے اِس حوالے سے جناب سید سلیمان اشرف بہاری ؒ کے اِس کردار جو اُنھوں نے جناب محدث بریلوی کی سرپرستی میں ہندوں کی اِس سازش کا پردہ چاک کرتے ہوئے مسلمانوں کوگاندھی کے نام نہاد ہندو مسلم اتحادد کے بہروپ سے بچایا۔ باب ہفتم کا عنوان ملی تحریکات اور دو قومی نظریہ ہے اِس میں کافی تفصیل کے ساتھ تاریخ کے گوشوں سے آگاہی کروائی گئی ہے جناب محمد احمد ترازی نے کمال تحقیق کی ہے۔ سب سے بڑی بات اُن کی جانب سے ایک ایک جملے کا حوالہ دیا گیا ہے گویا یہ کتاب تاریخ کا ایک انمنٹ باب ثابت ہوگی۔ جو کہ سکالرز کے لیے چراغ راہ کا کام کرئے گی۔مجھے جناب محمد احمد ترازی کی تحقیق پی ایچ ڈی لیول کے مقالے کی مانند محسوس ہوئی ہے۔ اللہ پاک جناب محمد احمد ترازی کے قلم کو ہمیشہ ملک و قوم کی رہنمائی کے لیے قائم دائم رکھے۔۔ کتاب کے مرکز و محور جناب سید سلیمان اشرف بہاری ؒ کی زندگی کا کچھ خلاصہ قارئین کے سامنے پیش کرتا ہوں۔ پروفیسر علامہ سیّد سلیمان اشرف بہاری جو مصنف محقق اور ماہر تعلیم تھے یہ ا شرف المحققين کے نام سے معروف ہیں۔سید سلیمان اشرف کی ولادت1295ھ/ 1878ء محلہ میر داد، بہار، ضلع نالندہ، بہار میں ہوئی۔آپ کے والد گرامی مولانا حکیم سید عبد اللہ کا تعلق حضرت بی بی صائمہ، خواہر حقیقی مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی المعروف غوث العالم کے خلف و فرزندمخدوم سید درویش، بھیہ شریف، ضلع گیا، بہار سے تعلق تھا۔آپ اپنے استاذ گرامی قاری نور محمد چشتی نظامی فخری اصدقی سے بیعت و ارادت رکھتے تھے۔ سید سلیمان اشرف بہاریؒ کا تعلق خاندان اشرفیہ سے تعلق تھا اور جب سلسلہ اشرفیہ کے عظیم بزرگ سید علی حسین اشرفی میاں جیلانی کچھوچھوی ؒ سے ملاقات ہوئی تو ان سے سلسلہ اشرفیہ میں طالب ہو گئے اور خلافت سلسلہ قادریہ چشتیہ اشرفیہ منوریہ سے نوازے گئے۔ نیز سلسلہ قادریہ برکاتیہ رضویہ میں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا محدث بریلویؒ سے بھی خلافت و اجازت حاصل ہوئی تھی۔1903ء میں نواب صدر یار جنگ مولانا حبیب الرحمٰن شیروانی کی کوشش سے مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ کے شعبہ دینیات میں پروفیسر کی حیثیت سے آپ کی تقرری ہوئی۔ بعد ازاں صدر شعبہ دینیات کے عہدے پر فائز ہوئے۔ آپ علی گڑھ یونیورسٹی کے شعبہ دینیات کے سب سے پہلے صدر تھے۔علی گڑھ مسلم کالج کے خلاف جب مولانا ابو الکلام آزاد، مولوی محمود الحسن دیوبندی اور مولانا محمد علی جوہر نے زبردست تحریک چلائی تو سید سلیمان اشرف بہاری نے مولانا حبیب الرحمٰن شیروانی اور ڈاکٹر سر ضیاء الدین کے ساتھ مل کر اس ادارے کی بھر پور حمایت کی اور مکمل دفاع کیا۔
آئیے جناب سید سلیمان اشرف بہاریؒ کے علمی کام پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں (1) المبین عربی زبان کی فوقیت اور برتری پر ایک مایہ ناز علمی و تحقیقی کتاب۔ نواب صدر یار جنگ مولانا حبیب الرحمٰن شیروانی، شاعر مشرق علامہ اقبال اور مشہور مستشرق پروفیسر براؤن جیسے ماہرین لسانیات نے اس کتاب کی تعریف و توصیف کی ہے۔ کتاب کی اہمیت و افادیت کے پیش نظر بر صغیر کی عظیم درس گاہ جامعہ اشرفیہ، مبارکپور، کے درجہ فضیلت میں داخل نصاب ہے۔ (2) النور: دو قومی نظریہ پر لاجواب کتاب ہے ۔ (3) الرشاد: گائے کی قربانی کے موضوع پر بے مثال کتاب ہے۔ (4) الانھار: حضرت امیر خسرو کی مثنوی ’’ہشت بہشت‘‘ پر ایک فصیح وبلیغ اور محققانہ و فاضلانہ مقدمہ جو 550 صفحات پر مشتمل ہے۔ نواب حبیب الرحمٰن شیروانی نے اس کتاب کو شبلی کی ’’شعرالعجم‘‘ سے بہتر قرار دیا ہے۔ کتاب کا موضوع فارسی شعر و ادب کی تاریخ ہے۔ (5) السّبیل: مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے نصابِ تعلیمات اسلامیہ کے لیے تجاویز۔ (6) الحج: حج و زیارت کے موضوع پر ایک عمدہ تصنیف، جس کا مقدمہ صدر یار جنگ بہادر مولانا حبیب الرحمٰن شیروانی صدر الصدور امور مذہبی ریاست حیدرآباد، دکن نے لکھا اور کہا کہ: حج و زیارت کے موضوع پر سب سے اچھی کتاب ہے۔ (7) نزہۃ المقال فی لحیۃ الرجال: عدمِ جوازِ حلق لحیہ یعنی داڑھی منڈوانے، ترشوانے اور ایک مشت سے کم رکھنے کی حرمت و ممانعت پر علمی اور تحقیقی رسالہ۔ ایک سو پندرہ (115) سال قبل یہ کتاب مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے شائع ہوئی تھی اور اب اشرفیہ اسلامک فاؤنڈیشن، حیدرآباد، دکن سے مولانا طفیل احمد مصباحی کی تحقیق و تخریج کے ساتھ دوبارہ شائع ہو رہی ہے۔ (8) البلاغ: مسلمانوں کے ملّی انحطاط، بے عملی، بدنظمی اور خلافتِ عثمانیہ کے تاریخی واقعات کے تناظر میں ملت اسلامیہ کے لیے ایک جامع اور پر سوز رہنما تحریر ہے (9) الخطاب: تقریر اور لکچرر کا مجموعہ ہے۔سید سلیمان اشرف کا 5? ربیع الاول 1358ھ/ 25 اپریل 1939بعمر 63 سال انتقال ہوا اورمسلم یونیورسٹی، علی گڑھ میں شیروانیوں کے قبرستان میں آپ کی تدفین ہوئی۔آپ نے۱۲۹۱۔173۰۲۹۱ء میں ’’تحریک ترک موالات‘‘ کی پر زور مخالفت کی اور اسی تناظر میں ’’النور‘‘ جیسی بلند پایہ کتاب کی تصنیف کی۔ 1925 میں آل انڈیا سنی کانفرنس میں شرکت کی۔مارچ ۱۲۹۱ء میں جماعت رضائے مصطفیٰ، بریلی شریف کی جانب سے اہل سنت کے دینی و سیاسی افکار کی وضاحت اور معاندین اہل سنت کے نظریات و معمولات کا بھرے مجمع میں پردہ فاش کیا اور مولانا ابو الکلام آزاد جیسے زور آور خطیب کا ناطقہ بند کر دیا۔ اس کانفرنس کی روداد سناتے ہوئے صدر الافاضل علامہ سید نعیم الدین اشرفی مرادآبادی، اعلیٰ حضرت امام احمد رضا محدث بریلوی کو اپنے ایک مکتوب میں لکھتے ہیں۔’’پورا میدان مولانا سلیمان اشرف صاحب کے ہاتھ میں رہا۔‘‘
آپ کے ہم عصر علمائے اہل سنت کے نام یہ ہیں(۱) حجۃ الاسلام حضرت علامہ حامد رضا خان بریلوی۔(۲) حضرت مولانا معین الدین اجمیری۔(۳) حضرت علامہ دیدار علی شاہ نقشبندی الوری۔(۴) صدر الافاضل علامہ سید نعیم الدین اشرفی مرادآبادی۔(۵) صدر الشریعہ حضرت علامہ امجد علی قادری رضوی اعظمی۔(۶) ملک العلما حضرت علامہ سید ظفر الدین قادری رضوی بہاری۔(۷) حضرت مولانا قاضی عبد الوحید صدیقی فردوسی عظم آبادی۔(۸) قطبِ مدینہ حضرت علامہ ضیاء الدین صدیقی قادری رضوی مہاجر مدنی۔(۹) سلطان الواعظین حضرت مولا عبد الاحد قادری پیلی بھیتی۔(۰۱) استاذ العلما حضرت علامہ مفتی نثار احمد چشتی کان پوری۔(۱۱) عالم ربانی حضرت علامہ سید احمد اشرف اشرفی جیلانی کچھوچھوی۔(۲۱) محدث اعظم ہند حضرت علامہ سید محمد اشرفی جیلانی کچھوچھوی۔(۳۱) صاحب الاقتدار حضرت مولانا عبد المقتدر قادری مجیدی بدایونی۔(۴۱) حضرت علامہ سید عبد الرشید قادری عظیم آبادی۔(۵۱) حضرت علامہ رحیم بخش آوری۔ (۶۱)۔ حضرت علامہ سید عبد الرحمٰن قادری بھاگلپوری ہیں۔غرض یہ کہ جناب محمد احمد ترازی نے تحریک پاکستان کی تحریک میں دو قومی نظریہ کے عظیم داعی جناب سید سلیمان اشرف بہاریؒ پر ایک مکمل دستایز تیار کرکے پاکستان اور اُردو جاننے والوں کی بہت بڑی خدمت کی ہے۔                                       

Monday, 6 August 2018

لاہور بار ایسوسی ایشن کے وفد کاتحریک منہاج القران کے مرکزی سیکرٹریٹ کا دورہ ..........صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی Visit of Lahore bar to MInhah-ul-Quran Secretariat















لاہور بار ایسوسی ایشن کے وفد کاتحریک منہاج القران کے

 مرکزی سیکرٹریٹ کا دورہ


صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی 


لاہور بار ایسوسی ایشن کا شمار ایشیاء کی سب سے بڑی بار کے طور پر کیا جاتا ہے۔ اِس بار کے ممبران نے نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دُنیا میں قانون کی حاکمیت کے لیے اپنا بھر پور کردار ادا کیا ہے ۔ اِس عہد کی ممتاز شخصیات بھی اِس عظیم بار کی ممبرز ہیں۔ منہاج القران ایک ایسی تحریک ہے جس نے پوری دُنیا میں امن و آشتی کے فروغ اور اتحاد اُمتِ مسلمہ کے لیے قابل قدر خدمات انجام دی ہیں ۔لاہور بار کے ایک وفد نے گزشتہ دنوں تحریک منہاج القران کے مرکزی سیکرٹریٹ کا دورہ کیا۔ وفد لاہور بار ایسوسی ایشن کے لائبریری سیکرٹری رانا عامر فاروق ایڈووکیٹ اور لاہور بار ایسوسی ایشن کی تحفظ ناموس رسالت ﷺ کے چیئرمین صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ پر مشتمل تھا۔ تحریک منہاج القران کے سیکرٹریٹ پہنچنے پر تحریک منہاج ا لقران کے قانونی مشیر اور پاکستان عوامی تحریک وکلاء ونگ کے مرکزی نائب صدر نعیم الدین نے خوش آمدید کہا۔
جناب نعیم الدین نے تحریک منہاج القران کے چیئرمین طاہر القادری کی جانب سے لاہور بار ایسوسی ایشن کی لائبریریوں کے لیے منہاج القران کی شائع کردہ گراں قدر کتب بطور عطیہ پیش کیں۔ جناب نعیم الدین نے وفد کو کالج آف شرعیہ اینڈ سائنس کے مختلف شعبہ جات کا دورہ کروایا۔ پوری دُنیا میں آن لائن اسلامک ایجوکیشن جو منہاج القران مرکزی سیکرٹریٹ سے ممتازسکالرز دے رہے ہیں اِس شعبہ کا بھی وزٹ کیا گیا۔ وفد نے شیخ لا سلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی جانب سے قائم کردہ گوشہ درود ﷺ میں بھی حاضری دی ۔ منہاج القران کے مرکزی شعبہ ابلاغ کا وزٹ بھی کیا ۔ وفد کو ڈاکٹر طاہر القادری کے ذاتی آفس میں بھی دکھایا گیا۔ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب اور ڈاکٹر حسن محی الدین اور ڈاکٹر حسین محی الدین آج کل بیرون ملک دورے پر ہیں اِس لیے اُن سے ملاقات ممکن نہ ہو سکی۔ڈاکٹر طاہر القادری کی تصانیف انسانی زندگی کے تمام گوشوں پر رہنمائی کرتی ہیں۔ ڈاکٹر صاحب خود وکیل رہے ہیں اور پنجاب یونیورسٹی لاء کالج میں پروفیسر رہے۔ ڈاکٹر طاہری القادری کا پی ایچ ڈی مقالہ ہی کریمنل لاء پر تھا۔ ایک اور اہم بات یہ کہ ڈاکٹر طاہر القادری لاہور بار ایسوسی ایشن کے تاحیات ممبر ہیں۔ یوں لاہور بار ایسوسی ایشن کی لائبریریوں کے لیے تحریک منہاج القران کی جانب سے کُتب کا عطیہ دیا جانا لاہور بار کے لیے ایک قیمتی سرمایہ ہے۔ 
یہ بات اظہر من لاشمس ہے کہ تحریک منہاج القران کی جانب سے اُمت مسلمہ کی تعلیم و تربیت کے لیے بھر پور کام کیا جارہا ہے۔ بطور پاکستانی ہمارئے لیے فخر کی بات ہے کہ جناب ڈاکٹر طاہر القادری کی کوششوں سے پوری دُنیا میں اسلامی کا حقیقی چہرہ پوری دُنیا کے سامنے آرہا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ڈاکٹرطاہر القادری نے بھرپوری کام کیا ہے اور دہشت گردی کے سدِ باب کے حوالے سے کتاب بھی تصنیف فرمائی ہے۔ 
منہاج القران کے مرکزی سیکرٹریٹ کا بھرپور دورہ کرنے کے بعد دلوں کو وہ سکون ملا کہ عالم اسلام کی عظیم تحریک کتنے منظم انداز میں کام کر رہی ہے۔ اِس موقع پر لاہور بار کے وفد نے سانحہ ماڈل ٹاون کے شہداء کی یادگار پر بھی حاضری دی۔ 
لاہور بار ایسوسی ایشن کے وفدکو بھر پور رہنمائی فراہم کرنے کا سہرا جناب محمد نعیم الدین کے سر ہے جنہوں نے کمال محبت و شفقت سے نوازا ۔ 

Saturday, 4 August 2018

RULE OF LAW INTERNATIONAL MAGAZINE: صدائے تکبیر۔۔۔پروفیسر مسعود اختر ہزاروی کے کالموں ...

RULE OF LAW INTERNATIONAL MAGAZINE: صدائے تکبیر۔۔۔پروفیسر مسعود اختر ہزاروی کے کالموں ...: صدائے تکبیر۔۔۔پروفیسر مسعود اختر ہزاروی کے کالموں کا مجموعہ صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی برطانیہ میں مقیم جناب ...

RULE OF LAW INTERNATIONAL MAGAZINE: صدائے تکبیر۔۔۔پروفیسر مسعود اختر ہزاروی کے کالموں ...

RULE OF LAW INTERNATIONAL MAGAZINE: صدائے تکبیر۔۔۔پروفیسر مسعود اختر ہزاروی کے کالموں ...: صدائے تکبیر۔۔۔پروفیسر مسعود اختر ہزاروی کے کالموں کا مجموعہ صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی برطانیہ میں مقیم جناب ...

RULE OF LAW INTERNATIONAL MAGAZINE: صدائے تکبیر۔۔۔پروفیسر مسعود اختر ہزاروی کے کالموں ...

RULE OF LAW INTERNATIONAL MAGAZINE: صدائے تکبیر۔۔۔پروفیسر مسعود اختر ہزاروی کے کالموں ...: صدائے تکبیر۔۔۔پروفیسر مسعود اختر ہزاروی کے کالموں کا مجموعہ صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی برطانیہ میں مقیم جناب ...

صدائے تکبیر۔۔۔پروفیسر مسعود اختر ہزاروی کے کالموں کا مجموعہ................................ صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی









صدائے تکبیر۔۔۔پروفیسر مسعود اختر ہزاروی کے کالموں کا مجموعہ


صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی




برطانیہ میں مقیم جناب پروفیسر مسعود اختر ہزاروی ایک اُستاد، ایک صحافی، ایک عالم دین ہیں۔ برطانیہ جانے سے قبل پنجاب پبلک سروس کمیشن سے لیکچرار سیلیکٹ ہوئے اور ایک عرصہ تک پاکستان میں گورنمنٹ کالجز میں پڑھاتے رہے۔ برطانیہ میں رہ کر پوری دُنیا کے مسلمانوں کی راہنمائی کے لیے تگ و تاز جاری رکھے ہوئے ہیں۔صدائے تکبیر پروفیسر ہزاروی کے روزنامہ جنگ لندن میں شائع ہونے والے کالموں کا مجموعہ ہے۔ 16 جولائی2018 کو لاہور کے فلٹیز ہوٹل میں اِس کتاب کی تقریب رونمائی ہوئی۔ اِس تقریب کا انعقاد ورلڈ کالمسٹ کلب نے کیا تھا۔ ورلڈ کالمسٹ کلب کے چئرمین جناب محمد دلاور چوہدری نے اِس تقریب کی صدارت کی۔ جبکہ مہمانان خصوصی میں مجیب الرحمان شامی، اوریا مقبول جان، سجاد میر ، سلمان غنی ، سلمان عابد، حافظ عامر سعید، انجم سعید بٹ، ذاہد سعید و دیگر شامل تھے۔ تقریب رونمائی میں نظامت کے فرائض ورلڈ کالمسٹ کلب کے مرکزی سیکرٹری جنرل ممتاز کالم نگار محمد ناصر اقبال خان نے انجام دئیے۔ راقم بھی اِس تقریب میں شریک ہوا۔ پروفیسر مسعود اختر ہزاری نے اپنے کالموں میں اُمت مسلمہ کی دینی و سماجی مسائل میں رہنمائی کا فریضہ ادا کرنے کی زبردست سعی کی ہے۔سچی بات ہے کہ اِن کے کالموں کو پڑھنے کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اِن کا ہر ہرکالم خاص موضوع پر ایک مکمل دستاویز ہے۔ اِن کے کالموں میں نہ صر ف مسائل کی نشاندہی کی گئی ہے بلکہ اِن مسائل کا حل بھی پیش کیا گیا ہے۔پروفیسر ہزاروی کو دینی و دنیاوی علوم پر ملکہ حاصل ہے۔ صاحب نظر ہیں اور اولیائےکرام سے نسبت کے حامل ہیں۔"استحکام پاکستان کا منتظر یوم آزادی" کے عنوان سے سب سے پہلا کالم سب محب وطن پاکستانیوں کے دل کی آواز ہے اِس کالم میں پاکستان کے سماجی سیاسی اور معاشی مسائل کا دُکھ واضع نظر آتا ہے ۔آئین پاکستان کے ساتھ جو کھلواڑ ہوتارہاہے اُس کی جانب جناب پروفیسر صاحب نے نشان دہی کی ہے۔ پروفیسر مسعود ہزاروی نے "پروفیسر انٹونی بلیک" کی کتاب مسلم دُنیا کے سیاسی نظریات پر ایک سیر حاصل کالم لکھا ہے ۔ پروفیسر مسعود کے کالموں کی کتاب "صدائے تکبیر" میں خرد کی گتھیاں اور اہل جنوں کے نام سے باکمال تحریر شامل ہے۔اِس کالم میں پروفیسر مسعود صاحب نے پاکستان میں نبی پاک ﷺ کی ختم نبوت کے قانون کو ترمیم کرنے کی کوشش کرنے والوں کو آڑئے ہاتھوں لیا ہے۔ اِس کالم میں پروفیسر صاحب کا عشق رسول ﷺ کی شمع فروزاں کرنے کا مشن حاوی ہے۔ "تصوف اور پیری مریدی کا موجودہ ڈھانچہ" اِس حوالے سے موصوف نے دو کالم لکھے ہیں اور تصوف کے حوالے سے نام نہاد دنشوروں کی جانب سے تصوف کو دین سے کوئی علحیدہ شے ثابت کرنے کی کوشش کا جواب دیا ہے آپ نے بڑے واضع انداز میں لکھا ہے کہ جب زندگی کے ہر شعبے میں زوال آگیا ہے تو پھر تصوف میں بھی ایسے لوگ گھس گئے ہیں جن کا دین سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ماہ رمضان کے متعلق "اے ماہ رمضان ۔۔ مرحبا" کے نام سے کتاب میں شامل ہے۔اِسی طرح عشق رسولﷺ سے بھر پور "باب جبریل میرا پتہ ہے" کے عنوان سے کالم ہے جس میں ذکر ہے کہ پروفیسر صاحب نے باب جبریل سے داخل ہو کر قدمین شریفین کے پاس نماز عصر ادا کی۔اور وہاں بیٹھ کر نبی پاک ﷺ کی خدمت اقدس میں گزارشات کا تزکرہ کیا گیا ہے۔
صدائے تکبیر میں صفحہ نمبر اکتیس پر بلوچستان کی اہمیت اور عالمی سازشیں کے عنوان سے کالم موجود ہے یہ کالم ایک سچے اور پکے پاکستانی کے دل کی آواز ہے ۔ اِس کالم میں پروفیسر صاحب نے بلوچستان کی اہمیت اور اِس کے حوالے سے ہونے والی سازشوں کا پردہ چاک کیا ہے۔ نواز حکومت کی جانب سے حلف نامہ اور اقرار نامہ کے حوالے سے جو لایعنی کوشش کی تھی جو درحقیقت ختم نبوت کے قانون کے خلاف ایک سازش تھی اُس کے حوالے سے زوردار کالم لکھا ہے۔اِسی طرح مسلم معاشرے کے ستون مسجد، مسکن ، مکتب پر ایک کالم ہے معاشرے کی اہمیت اور معاشرے میں بھلائی کے فروغ کے لیے مسجد گھر اور مکتب کو جو کردار ہے اِس پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔جناب پروفیسر مسعود ہزاروی صاحب کے کالموں کا مجموعہ اپنی مثال آپ ہے اِس میں شامل کالم آپ کی زندگی کا نچوڑ ہیں۔
جناب پروفیسر مسعود اختر ہزاروی کی تحریریں بندے اور اُسکے خالق کے تعلق کا مُرقع ہے۔ جب راستے کی رکاوٹیں منزل کو دور کرتی چلی جاتی ہیں تب اللہ کی ربوبیت پر یقین محکم ہوتا چلا جاتا ہے کہ کوئی ایسی ہستی ہے کہ جس کی منشا کے بغیر منزل کا حصول ممکن نہیں۔ مخلوق کی مرضی اور خالق کی مرضی کے ایک ہونے کے عمل کے کچھ تو لوازمات ہیں۔ ورنہ پھر خالق کی ربوبیت کو صدق دل سے کوئی کیونکر مانتا۔ جب ہر کسی کی اپنی اپنی خواہشوں کا خود سے ہی پورا ہوجانا ممکن ہوتا تو پھر تو رب کا رب ہوناکیسے مانا جاتا۔دل و دماغ میں یہ راسخ ہونا کہ بندے کا ایک ایک فعل اُس کے رب کی عطا سے ہی وقوع پذیر ہوتا ہے تو یہ وہ لمحہ ہوتا ہے جب رب کی عطا کا یقین کامل ہوجاتا ہے۔ جب رب کی عطا کا یقین کامل ہوتا ہے تو پھر بندے کی جانب سے اپنے رب سے مانگے جانے کا عمل انتہائی عجز و انکساری لیے اُس شدت تک پہنچ جاتا ہے کہ ربِ کائنات اپنے بندے کی دُعا ر د نہیں فرماتا۔ ربِ کائنات کو اپنے رب ہونے اور اپنے بندے کی جانب سے اُسی سے مانگے جانے کا عمل اتنا پسند آتا ہے کہ رب اپنے بندے کی التجاء کو لوٹانا اپنی شان ربوبیت کے خلاف سمجھتا ہے اور بندے کو نوازتا چلا جاتا ہے ۔ مخلوق اپنے خالق سے اپنی حاجات کو پورا کرنے کے لیے فقط مانگنے کا ڈھنگ سیکھ لے۔رب تو ہر ساعت اپنے بندے کی صدا سننے کے لیے تیار ہے ۔ پروفیسر مسعود ہزاروی کے کالم ہمیں اِس بات کا درس دیتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ رب تو عطا ہی عطا ہے۔ جس رب نے اپنے بندے کی خاطر کائنات تخلیق فرمائی ہو جس رب نے اپنے بندے کو اپنا نائب قرار دیا ہو اُس رب کی رحمتیں بے حساب ہیں ۔ جب بندہ اپنے سارے دکھ ساری تکلیفیں اپنے رب کے حوالے کر دیتا ہے اور اُسے یہ یقینِ کامل ہوتا ہے کہ اُس کے ہر غم کا علاج اُسکے رب کے پاس ہے تو پھر رب اپنے بندے کی اِس امید کو پورا کرتا ہے اور بندے کی تکالیف کو دور کردیتا ہے۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ کامل یقین۔پھر رب پکار اُٹھتا ہے کہ بندہ مومن کی آنکھ میری آنکھ ہے۔بندہ مومن کا ہاتھ میرا ہاتھ ہے۔صدائے تکبیر میں اوریامقبول جان، پیر طریقت خواجہ غلام قطب الدین فریدی مدظلہ العالی، سہیل وڑائچ کی اِن کالموں کے حوالے سے آراء شامل ہیں۔
حقیقت میں پروفیسر مسعود ہزاروی سے ملاقات میں یہ احساس جاگزیں ہوا کہ پروفیسر صاحب مجاہدانہ کردار ادا کر رہے ہیں۔ تقریب رونمائی میں شریک اوریاء مقبول جان، مجیب الرحمان شامی،سلمان غنی، سلمان عابد،سجاد میر، دلاور چوہدری، محمد ناصر اقبال خان،ڈاکٹر نبیلہ طارق، ممتاز اعوان، شہزاد عمران رانا، کامران رفیق، اعظم صابری، راشد علی، برگیڈیر(ر) سید غضنفر علی شاہ،برگیڈیر (ر) حامد سعید اختر، جناب ےٰسین وٹو، ناصف اعوان، ریاض احمد احسان اور دیگر قلم کاروں نے جناب پروفیسر مسعود ہزاروری صاحب کی کتاب کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کیا یقینی طور پر صدائے تکبیر ایک انتہائی قیمتی دستاویز ہے جو کہ ہر گھر میں ہونی چاہیے۔ پروفیسر مسعود اختر ہزاری صاحب کے کالم برائے کالم نہیں ہیں بلکہ کالم برائے تربیت ہیں۔ جناب پروفیسر ہزاروی کی کتاب میں جو کالم ہیں اِن کے حوالے سے میرا سب سے پہلا تاثر یہ ہے کہ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی اولاد کو یہ کالم ضرور پڑھائیں۔درحقیقت زندگی کو موجودہ دور میں کیسے گزارہ جائے یہ سب کچھ تو جناب پروفیسر صاحب نے انتہائی دردمندی کے ساتھ بیان فرما دیا ہے۔ جب صدائے تکبیر لے کر میں اپنے گھر پہنچا تو سب سے پہلے میں نے اپنے بیٹے پیر زادہ محمد عمر کو کہا کہ یہ کتاب پڑ ھو ۔ انشا اللہ تمھیں اپنے گردو پیش کا ادراک ہو جائے گا۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ صدائے تکبیر میں جو کالم شامل ہیں وہ عام انسانوں کے لیے بالعموم اور نوجوانوں کے لیے بالخصوص انتہائی کا رآمد ہیں۔ اجتہادی نقطہ نظر سے لکھے گئے کالم پاکستانیت و اسلامیت سے بھر پور ہیں۔ قوم کے ہر طبقہ کی راہنمائی  کے لیے اللہ پاک پروفیسر مسعود اختر ہزاروی کو عمر خضر عطا فرمائے(آمین)