Sunday, 23 September 2018
Thursday, 20 September 2018
نواز شریف کی رہائی کے پسِ پردہ محرکات....... صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی
نواز شریف کی رہائی کے پسِ پردہ محرکات
صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی
نواز شریف کی رہائی سے ایک بات تو ثابت ہوچکی ہے کہ نہ تو کوئی نیا پاکستان بننے جارہا ہے اور نہ ہی پاکستان تحریک انصاف اقتدار میں عوامی طاقت کے بل بوتے پر آئی ہے۔ معاشیات میں ایک بات کہی جاتی ہے کہ " ایک ملک غریب ہے کیونکہ وہ غریب ہے"۔پاکستان میں اخلاقی دیوالیہ پن کا یہ عالم ہے کہ انصاف صرف اشرافیہ کے لیے ہے ۔ عام آدمی میں سکت ہی نہیں کہ وہ انصاف خرید سکے۔پاکستان میں ازل سے ابد تک حکمرانی اسٹیبلشمنٹ کی ہے اور رہے گی۔ نیا پاکستان اور ایک پاکستان اور سب کا پاکستان سعادت حسن منٹو کے افسانے " نیاقانون" کی مانند ثابت ہوا ۔ یہ علحیدہ بات کہ پاکستان نور ہے اور نور کو زوال نہیں۔جس انداز میں قوم کو نوید سُنائی جارہی تھی کہ اب قوم کھڑی ہوچکی ہے قوم کو ایک باغیرت حکمران میسر آچکا ہے۔ اب سب کے لیے یکساں سماجی و معاشی مواقع ہوں گے۔لیکن یہ سب کچھ تو چہرئے بدلنے کے لیے تھا۔پرانے ملازم سے جو آنکھیں دکھانے لگ گیا تھا اُس سے جان چھُڑا کر نیا ملازم پرانی تنخواہ پر ہی رکھ لیا گیا ہے اور پرانے ملازم کے" باہر " والوں سے تعلقات اتنے مضبوط ہیں اور وہ اُن کے لیے اتنا کارآمد ہے کہ " باہر والوں " نے اپنے خیر خواہ کو تنہا نہیں چھوڑا۔ عدالتِ عالیہ نے ایسا دھوبی پٹکا مارا کہ انصاف کا ترازو ایک طرف جھکا دیا گیا۔ کہاں کا نیا پاکستان کہاں کی ترقی ، کہاں کا انصاف کہاں کا ایک پاکستان۔ پُرانے پاکستان کی خاتون اول کی وفات پر تعزیت کے لیے چین ترکی سعودی عرب اور قطر کے سفیروں نے نئے پاکستان کے معمار کو بتا دیا کہ آٹے اور دال کا بھاؤکیا ہے۔نئے پاکستان کے معمار کو فرما نروا بننے کا اتنا شوق تھا کہ اُس نے ہر بات" اوپر والوں" کی ماننے کی قسم کھاء رکھی ہے۔ نئے پاکستان کے تیس دن مکمل ہونے پر قوم کو سوئی گیس بجلی کی قیمتوں میں اضافے کی وعیدسُنائی جاچکی ہے اور متعلقہ وزیر موصوف جو اقتدار میں آنے سے پہلے پاکستان میں دودھ کی نہریں بہانے کا گلہ پھاڑ پھار کر اعلان کر رہے تھے وہ اب منی بجٹ بھی لاچکے ہیں اور عوام کو نیا پاکستان بنانے کا مزہ چکھا رہے ہیں۔خواب جو ٹوٹے تو ہم نے یہ جانا۔لوگ روتے ہیں کس لیے اتنا۔
سی پیک کے پراجیکٹ کے ڈیزائن میں تبدیلی اور اورنج ٹرین کے منصوبے کا کھٹائی میں پڑ جانا۔وزیر اعلیٰ پنجاب کی جانب سے ڈی پی او کو ٹرانسفر کیے جانے کا عمل۔وزیر اطلاعات پنجاب کی زبان درازیاں ، سانحہ ماڈل ٹاون کے ملزمان کی گرفتاری۔پنجاب کا پولیس کلچر۔ سرکاری دفاترکے ملازمین کا رویہ۔ رشوت اور چور بازاری۔کون کہتا ہے کہ تیس یوم میں ستر سال کے مسائل حل کیے جائیں۔لیکن نواز شریف کی رہائی نے قوم کو صدمہ میں مبتلا کر دیا ہے۔چوروں ڈاکوؤں کو لگام دینے کا نعرہ بلند کرکے اقتدار حاصل کرنے کے بعد ملک کو کس طرف لے جایا جارہا ہے۔ بجلی گیس پٹرو ل اور ڈیزل کی قیمتوں کا رونارونے والوں نے خود بھی وہی کچھ کیا جو سابقہ حکومت کا وطیرہ رہا ہے۔ منی بجٹ، ماہرِ فنانس نے ایسا پیش کیا ہے کہ جن کی چیخیں آج تک نہیں نکلیں تھیں وہ بھی آہ وپکار کر ہے ہیں۔نیا پاکستان اور ایک پاکستان کی شروعات جس انداز میں کی گئی ہیں اللہ پاک رحم کرئے۔نیب زدہ برطانوی شہری لیکن بادشا ہ سلامت کے انویسٹر کو وزارت مرحمت فرمائی جاچکی ہے ۔
نواز شریف کو غیر ملکی گارنٹیوں کی بناء پر رہا کیا گیا ہے جو کہ بظاہر ایسا ہی لگتا ہے ورنہ نواز شریف جیسا کُنہ مُشق سیاستدان کبھی ہوائی جہاز سے لاہور نہ آتا بلکہ رہا ئی کے بعد جی ٹی روڈکا راستہ اختیار کیا جاتا اور نواز شریف کاکاٹ دار لہجہ خاموشی اختیار نہ کیے رکھتا۔ وقت نے ثابت کیا ہے کہ ہماری عدلیہ میں جان ہی نہیں ہے۔ انصاف نام کی کوئی شے نہیں ہے۔ماتحت عدلیہ اور عدالتِ عالیہ میں صرف تاریخیں ہی ملتی ہیں مقدمات کے فیصلہ جات نہیں کیے جاتے۔ ایک عام سول کیس تیس سال تک چلتا ہے۔ لیکن ہمارئے چیف جسٹس صاحب انصاف کی فراہمی کی بجائے دیگر کاموں میں مصروف ہیں۔ چیف جسٹس صاحب خود ذرا سول کورٹس میں جائیں دیکھیں کیا حال ہے سائلین کا۔ ایک کمزور شخص کو پنجاب کا وزیر اعلی بنا کر اِس کے گرد چوہدری پرویز الہی ، علیم خان، چوہدری سرور کا حصار قائم کردیا گیا ہے۔ پنجاب حکومت کو فٹ بال بنا دیا گیا ہے۔شہاز شریف دور کے مافیاز دندناتے پھر ر ہے ہیں۔ سعودی عرب سے بھاری سرمایہ کاری اور سعودی عرب کا سی پیک میں پاکستان کا شراکت دار بننے اچھی بات ہے۔
موجودہ حکومت کے اب تک کے تیس بتیس دن بتا رہے ہیں کہ موجودہ حکومت نے حکومت میں آنے سے پہلے کوئی ہوم ورک نہیں کررکھا تھا۔چالاک اور تجربہ کار بیوروکریسی کو لگام دینا اتنا مشکل لگ رہا ہے کہ یوٹرن ہی یوٹرن ہورہا ہے۔اِن حالات کی وجہ سے بادل نخواستہ شریف فیملی کی رہائی عمل میں لئی گئی ہے ۔ ہنوز دہلی دور است۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کالم نگار ہائی کورٹ میں وکالت کرتے ہیں اور کریمنالوجی کے اُستاد ہیں
Saturday, 15 September 2018
سید شاہ تراب الحق قادریؒ ۔ ایک عہد ساز شخصیت صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی syed Terab ul haq qadri r.a
سید شاہ تراب الحق قادریؒ ۔ ایک عہد ساز شخصیت
صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی
عشق رسولﷺ کی عظیم تحریک انجمن طلبہ ء اسلام کے ساتھ وابستگی کی بدولت ایسی
ہستیوں کا بھی ذکر سننے میں ملتا رہا ہے جن کی خدمات نبی پاکﷺ کی محبت کے
فروغ کے لیے بے شمار ہیں۔ کراچی میں کیوں کہ انجمن طلبہ ء اسلام کی بنیا
دپڑی اور کراچی میں شاہ احمد نورانی ، حنیف طیب، افتخار غزالی، ریاض
الدین نوری، مو لا نا جمیل نعیمی،معین نوری ،حافظ تقی ،حبیب صدیقی دیگر بہت
سے احباب عشق رسولﷺ کے مشن سے وابستہ ہونے کی بناء پر دل وجان میں خصوصی
احترام رکھتے ہیں۔ یقینی طور پر کراچی نے عشق رسولﷺ کے فروغ کے لیے ہمیشہ
بہت کام کیا ہے۔جب بھی کراچی کے حوالے عشق رسول ﷺ کی تحریک کے حوالے سے کسی
بزرگ ہستی کا نام ذہن میں آتا تو وہ جناب سید شاہ تراب الحق قادری صاحبؒ
کی ہوتی۔ قبلہ شاہ صاحب نے اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ عشق رسولﷺ کے لیے
رکھا۔ تصنیف و تالیف ، خطابت، دین کی تبلیغ۔ عوام کی فلاح کے لیے
سیاست۔زندگی کے سارئے شعبہ جات میں جناب شاہ صاحبؒ کا کردار انمٹ ہے۔آپ ؒ
کی بیماری کی بابت پتہ چلتا رہتا ۔ آپ کافی عرصہ سے بیمار تھے۔ ایک دفعہ
انجمن طلبہ اسلام کی تاریخ مرتب کرنے والے عظیم عاشق رسولﷺسید شاہ تراب
الحق قادریؒ وہ شخصیت تھے کہ جن کانام ذہن میں آتے ہی عشق رسولﷺ کی
روحانی سرشاری محسوس ہوتی ہے۔ آپؒ کی ولادت 27 ماہ رمضان سن 1946ء کو
ہوئی۔آپؒ قیام پاکستان سے ایک سال قبل 1946ء میں ماہ رمضان کی 27 تاریخ کو
ہندوستان کی اس وقت کی ایک ریاست حیدرآباد دکن کیایک شہر ناندھیڑ کے
مضافات میں موضع کلمبر میں پیدا ہوئے۔آپؒ کے والد ماجد کا نام حضرت سید
شاہ حسین قادری بن سید شاہ محی الدین قادری بن سید شاہ عبداللہ قادری بن
سید شاہ مہراں قادری تھا اور آپ ؒ کی والدہ ماجدہ کا نام اکبر النساء بیگم
تھا اور آپؒ والد ماجد کی طرف سے سید ہیں اور والدہ ماجدہ کی طرف سے
فاروقی ہیں یعنی سلسلہ نسب امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے
ملتا ہے۔ اپنے وقت کے جید عالم، مدیر المہام امور مذہبی حیدرآباد دکن حضرت
علامہ مولانا انوار اللہ خان صاحب فاروقی علیہ الرحمہ سے آپؒ کا ننھیال
ہے۔ حضرت علامہ مولانا انوار ا للہ خان صاحب ایک متبحر عالم دین تھے جن کی
تبحر علمی کا اندازہ ان کی تصانیف ’’کتاب العقل‘‘اور ’’مقاصد الاسلام‘‘ کے
مطالعے سے لگایا جاسکتا ہے۔تقسیم ہند، سقوط حیدرآباد دکن کے بعد 1951ء میں
ہندوستان سے ہجرت فرما کر پاکستان تشریف لائے۔ سقوط حیدرآباد دکن میں آپؒ
کے تایا محترم سید شاہ امیر ا للہ قادری کو شہید کردیا گیا تھا اور پاکستان
تشریف لاکر آپ ؒ نے کراچی میں قیام فرمایا۔ کچھ عرصہ پی آئی بی کالونی
میں، پی آئی بی کے قریب لیاقت بستی نامی آبادی میں رہے۔ اس کے بعدکورنگی
منتقل ہوگئے۔ابتدائی تعلیم مدرسہ تحتانیہ دودھ بولی بیرون دروازہ نزد جامعہ
نظامیہ حیدرآباد دکن میں حاصل کی۔ پاکستان آنے کے بعد پی آئی بی کالونی
(کراچی) میں قیام کے دوران ’’فیض عام ہائی اسکول‘‘ میں تعلیم حاصل کی۔ اس
کے بعد اپنے رشتے کے خالو اور سسر پیر طریقت رہبر شریعت ولی ا للہ نعمت
قاری مصلح الدین صدیقی علیہ الرحمہ سے گھر پر کتابیں پڑھیں، پھر
’’دارالعلوم امجدیہ‘‘ میں داخلہ لے لیا جہاں زیادہ تر اسباق قاری صاحب علیہ
الرحمہ کے پاس پڑھے اور سند صدر الشریعۃ بدر الطریقہ حضرت علامہ امجد علی
اعظمی (متوفی 1367ھ) علیہ الرحمہ کے صاحبزادے شیخ الحدیث حضرت علامہ
عبدالمصطفی ازہری علیہ الرحمہ سے حاصل کی جو اس وقت ’’دارالعلوم امجدیہ‘‘
کے شیخ الحدیث تھے جبکہ اعزازی سند وقار الملت سرمایہ اہلسنت حضرت علامہ
مفتی محمد وقار الدین قادری رضوی حنفی علیہ الرحمہ سے حاصل کی جو اس وقت
’’دارالعلوم امجدیہ‘‘ کراچی کی مسند افتاء پر فائز تھے۔آپؒ کا نکاح 1966ء
میں پیر طریقت ولی نعمت حضرت علامہ قاری محمد مصلح الدین صدیقی علیہ الرحمہ
کی دختر نیک اختر سے ہوا۔ جس سے ا للہ تعالیٰ نے تین فرزند سید شاہ سراج
الحق، سید شاہ عبدالحق اور سید شاہ فرید الحق اور چھ بیٹیاں عطا ہوئیں جن
میں سے ایک کا تین سال کی عمر میں ہی وصال ہوگیا۔ باقی الحمد ا للہ بقید
حیات ہیں۔آپؒ کے بڑے صاحبزادے سید شاہ سراج الحق نے درس نظامی کی اکثر کتب
کا سبقاً سبقاً مطالعہ کرنے کے بعد موقوف کردیا جبکہ منجھلے صاحبزادے سید
شاہ عبدالحق قادری نے بفضلہ تعالیٰ ’’دارالعلوم امجدیہ‘‘ سے سند فراغت حاصل
کی۔ ان کے بارے میں حضرت سید شاہ تراب الحق قادریؒ فرماتے ہیں ’’جب سید
عبدالحق کی پیدائش ہوئی تو پیر طریقت حضرت علامہ قاری مصلح الدین علیہ
الرحمہ نے فرمایا کہ ان کا نام محقق شاہ عبدالحق محدث دہلوی کی نسبت سے شاہ
عبدالحق رکھو۔ شاید عالم دین بن جائے۔ لہذا قاری صاحب علیہ الرحمہ کے
ارشاد کے مطابق شاہ عبدالحق رکھا گیا۔ خدا کا کرنا دیکھئے یہی بیٹا میرا
عالم دین بنا۔ الحمدا للہ موصوف عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ اچھے مقرر بھی
ہیں اور اپنے والد بزرگوار کی جگہ اکثر آپ ہی وعظ فرمانے تشریف لے جاتے
ہیں۔ حضرت کے قائم کردہ دینی ادارے ’’دارالعلوم مصلح الدین‘‘ کا انتظام بھی
انہی کے سپرد ہے اور ’’آخوند مسجد‘‘ کھارادر میں خطابت کے فرائض بھی انجام
دیتے ہیں۔ چھوٹے صاحبزادے سید شاہ فرید الحق قادری اپنا کاروبار کرتے ہیں۔
شاہزادیوں میں آپ کی چھوٹی لخت جگر بھی عالمہ ہے۔1962ء میں بذریعہ خط اور
1968ء میں بریلی شریف حاضر ہوکر امام اہلسنت امام احمد رضا محدث بریلوی
(متوفی 1340ھ) کے چھوٹے فرزند مفتی اعظم ہند حضرت علامہ مولانا مصطفی رضا
خان صاحب کے دست حق پرست پر بیعت ہوئے۔ اس سفر میں آپ تیرہ روز حضور مفتی
اعظم ہند علیہ الرحمہ کے دولت خانے پر قیام پذیر رہے اور آپ سے تعویذات کی
تربیت اور اجازت بھی حاصل کی۔ اسی دوران ’’مسجد رضا‘‘ میں نمازوں میں امامت
فرماتے اور حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ ان کی اقتداء میں نمازیں ادا
فرماتے، نیز کئی جلسوں میں حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ کی موجودگی میں
تقریر فرمائی اور داد تحسین حاصل کی۔سلسلہ عالیہ قادری، برکاتیہ،اشرفیہ،
شاذلیہ، منوریہ، معمریہ اور دیگر تمام سلاسل میںآپؒ کو اپنے پیر حضور مفتی
اعظم ہند علیہ الرحمہ، اپنے استاد و سسر پیر طریقت حضرت علامہ قاری مصلح
الدین علیہ الرحمہ اور قطب مدینہ شیخ عرب و عجم حضرت علامہ مولانا ضیاء
الدین مدنی علیہ الرحمہ کے صاحبزادے زینت العلماء مولانا فضل الرحمن مدنی
علیہ الرحمہ سے خلافت و اجازت حاصل کی۔ ’’ماہنامہ مصلح الدین‘‘ کی اشاعت
خاص ’’مصلح الدین نمبر‘‘ (اگست 2002/ جمادی الاخر 1223ھ) کے صفحہ 65 میں
ہے کہ قبلہ قاری صاحب علیہ الرحمہ نے مورخہ 27 جمادی الثانی 1402ھ بمطابق
22 اپریل 1982ء بروز جمعرات بعد نماز عشاء بمقام میمن مسجد مصلح الدین
گارڈن بتقریب خرقہ خلافت سند اجازت اور محفل نعت بروانگی عمرہ حاضری دربار
مدینہ میں حضرت علامہ سید شاہ تراب الحق قادری ؒ کو سند خلافت اور اجازت
بیعت عطا فرمائی۔اس سے قبل جب آپ 1977ء میں تبلیغی دورے پر نیروبی (کینیا)
تشریف لے گئے۔ واپسی پر فریضہ حج ادا فرمایا۔ اسی سفر حرمین شریفین میں
ضیاء الملت والدین حضرت علامہ مولانا ضیاء الدین مدنی علیہ الرحمہ کی صحبت
میں کئی روز تک رہنے کی سعادت حاصل ہوئی۔1965ء تا 1970ء چھ سال ’’محمدی
مسجد‘‘ کورنگی کراچی میں اور 1970ء تا 1982ء بارہ سال ’’اخوند مسجد‘‘
کھارادر کراچی میں امامت و خطابت فرماتے رہے پھر جب 1983ء میں آپ کے استاد و
سسر قاری مصلح الدین علیہ الرحمہ (جوکہ اپنی نیابت و خلافت آپ کو پہلے ہی
عنایت فرماچکے تھے) نے اپنے وصال سے دو سال قبل ’’میمن مسجد‘‘ مصلح الدین
گارڈن سابقہ کھوڑی گارڈن کراچی کی امامت و خطابت آپ کے سپرد فرمائی۔ اس وقت
سے تا وفات آپؒ قاری صاحب علیہ الرحمہ کی دی ہوئی ذمہ داری کو نبھا تے
رہے۔جس وقت ’’اخوند مسجد‘‘ کھارادر کراچی میں امامت و خطابت کے فرائض انجام
دے رہے تھے۔ اس وقت نوجوانوں کی خاصی تعداد آپؒ کے حلقہ درس میں شامل
ہوئی اور کئی تنظیمیں قائم ہوئیں جن میں سنی باب الاشاعت، تحریک عوام
اہلسنت، انجمن اشاعت الاسلام، جمعیت اشاعت اہلسنت (1)، حقوق اہلسنت اور
دعوت اسلامی (2) وغیرہا معرض وجود میں آئیں۔تقاریر کا سلسلہ آپ نے 1962ء
میں شروع کیا جبکہ آپ ابھی طالب علم تھے، فراغت کے بعد مادر علمی
’’دارالعلوم امجدیہ‘‘ کراچی سے مبلغ کے طور پر خدمات انجام دیں، ہر جلسہ
میں ’’دارالعلوم امجدیہ‘‘ کی جانب سے خطیب کے طور پر جانے جاتے تھے۔ وہ
ایسا دور تھا کہ آپ ایک دن میں بارہ بارہ تقاریر بھی کرتے تھے۔وہ دور جب
مولوی احتشام الحق تھانوی نے سرکاری و نجی دفاتر میں ہونے والے میلاد شریف
کے جلسوں میں اپنا سکہ بٹھا دیا تھا۔ اس وقت حضرت نے اپنی مصروفیات کے
باوجود سرکاری، نیم سرکاری ونجی اداروں، بینکوں اور دیگر دفاتر میں ہونے
والے میلاد شریف کے جلسوں میں جاکر مسلک حق اہلسنت کے فروغ کے لئے تبلیغ
فرمائی اور اس کا سلسلہ اڑتیس سال سے زائد عرصہ تک چلتا رہا پھر آپ نے
طبیعت کی ناسازی اور مصروفیت کی زیادتی کی بناء پر تقاریر کا سلسلہ تقریبا
موقوف کردیا۔۔دین متین کی تبلیغ و اشاعت میں آپ نے بھرپور حصہ لیا۔ اپنی
تقاریر اور مواعظ حسنہ کے ذریعے کونے کونے میں اسلام کی دعوت کو عام کیا۔
یہ سلسلہ 1977ء سے شروع ہوا، جب آپ نے پہلا دورہ نیروبی کینیا کا فرمایا
اور لوگوں کی دعوت پر کئی بار عرب امارات، سری لنک، بھارت، بنگلہ دیش،
برطانیہ، ہالینڈ، جرمنی، بیلجیم، امریکہ، ساؤتھ افریقہ، کینیا، تنزانیہ،
زمبابوے، عراق، زنزیبار، زمبیا، فرانس، اردن اور مصر تشریف لے گئے اور
سرکاری وفد کے رکن کی حیثیت سے آپ نے اس وقت کے وزیراعظم محمد خان جونیجو
مرحوم کے ہمراہ عوامی جمہوریہ چین کا دورہ کیا اور ’’کنزالایمان‘‘ اور
اہلسنت و جماعت کا لٹریچر وہاں کے مسلمانوں تک پہنچایا، نیز سرکاری وفد کے
رکن کی حیثیت سے اردن اور مصر کا بھی دورہ فرمایا۔جن ممالک میں آپ تشریف لے
گئے،قومی اسمبلی کے رکن رہے۔ بے شمار کتب لکھیں۔ہزاروں لاکھوں لوگوں کے
دلوں میں عشق رسولﷺ کی تڑپ پیدا کی۔ عظیم المرتبت جناب سید شاہ تراب الحق
قادریؒ کا فیضان ہمیشہ جاری و اسری رہے گا۔ اللہ پاک جناب شاہ صاحب کو
جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔( آمین)
سید الشہدا ء امام حسین ؑ کے حوالے سے ایک اہم دستاویز۔ انوارِ رضا میگزین کا خصوصی نمبر...... صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمیA column about Imam Hussain R.A
سید الشہدا ء امام حسین ؑ کے حوالے سے ایک اہم دستاویز۔
انوارِ رضا میگزین کا خصوصی نمبر
صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی
ظلم کسی بھی شکل میں ہو کسی سے بھی ہو حد سے بڑھ جائے تو مٹ جاتا ہے اور
مظلوم کی خاموش آہیں افلاک کو لرزاں کر دیتی ہیں۔ آج یزیدی قوتیں منہ
چھپاتی پھرتی ہیں اور امام عالی مقام کا غم تازہ ہے۔61 ہجری کو پیش آنے
والا واقعہ کرب و بلا آج بھی تاریخ کا نوحہ ہے اور رہتی دُنیا تک غم حسینؓ
رُلاتا رہے گا۔سیدنا حسینؓ ؓ نے خانوادہ رسول ﷺ کے خون کی رنگینی سے حریت
فکر وعمل کی وہ داستان رقم کی کہ قیامت تک دُنیا کے کسی بھی کونے سے آزادی
کی جوبھی آواز اُٹھے گی وہ حسینی آواز کی باز گشت ہوگی۔حضرت عبد اللہ بن
مسعودؓ نے فرمایا کہ اہل بیت کی ایک دن کی محبت ایک سال کی عبادت سے افضل
ہے۔ محرم کا مہینہ اسلامی کیلنڈر کا صرف آغاز ہی نہیں بلکہ اپنے اندر ایک
بڑی تاریخ رکھتا ہے۔ جو ا نبیا ء کی آمد، اُن کی تکالیف اور ازالہ سے
بھرپور پس منظر رکھتی ہے۔اُن تمام تاریخی حوالوں کی اپنی جگہ یقینی طور پر
بڑی اہمیت ہے لیکن جس طرح سے محرم کو محترم بنانے میں امام عالی مقام نے
انمٹ کردار ادا کیا ہے اسلام تو کجا غیر اسلامی تاریخ بھی نہیں بھلا سکے گی
اور پوری انسانیت پر ایک ایسا احسان کیا کہ جب بھی انسانیت زوال پذیر ہو
تو حسینؓ کے سبق کو دہرا دے تو اسے ظلمت سے نور کا راستہ مل سکتا ہے۔
امام عالیٰ مقام حضرت امام حسینؓ کے
حوالے سے عالم اسلام کے عظیم مفکر جناب ملک محبوب الرسول قادری نے انوار
رضا میگزین کا خصوصی نمبر سید الشہدا مام حسین ؑ نمبر شائع کیا ہے۔ بندہ
ناچیز کا ملک محبوب رسول قادری سے تعلق 1985سے ہے جب انجمن طلبہ ء اسلام کے
قافلہ عشق و مستی میں ملک محبوب الرسول قادری بھی میرئے ہمرکاب تھے۔بندہ
ناچیز انجمن طلبہء اسلام کے ساتھ وابشتگی پر جتنا بھی فخر کرئے کم ہے۔جناب
ملک محبوب الرسول نے سید الشہداء امام حسین ؑ خصوصی نمبر کے حوالے سے
کالم تحریر کیے جانے کا حکم صادر فرمایا ہے۔
سید الشہداء امام حسین ؑ خصوصی نمبر درا صل انوار رضا میگزین کی جانب سے ایک انتہائی اہم دستاویز ہے جس میں نہایت محبت اور احترام کے ساتھ سید الشہداء امام حسین ؑ کے حوالے سے مضامین شامل کیے گئے ہیں۔ محرم الحرام: تقدس و تقا ضے یہ مضمون جناب حاجی محمد قاسم ؒ کا تحریر کردہ ہے اِس مضمون میں محرم کے مہینے کی فضیلت کے حوالے سے بھرپور تفصیل موجود ہے۔اِس مضمون میں اللہ پاک کی عنایات۔ یوم عاشورہ، فضیلت و یوم عاشورہ، تخلیق مخلوق کے دس عظیم حوادث، نزول سلامتی کی دس کرامات۔ خداوند تعالیٰ عزو جل کی طرف سے دس عنایات، فضیلت عاشورہ پر احادیث، شہادت امام حسینؑ ،، حضرت اما م حسینؓ پر نزول رحمت، ممنوعاتِ محرم الحرام، انفال عاشورہ کے تحت جناب میجر قاسم ڈھڈی ؒ نے سیر حاصل مضمون لکھا ہے۔ علامہ صاحبزادہ محمد سلیمان قمر قادری کا بتول فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیہا کے عنوان سے مضمون ہے۔اِس عظیم خصوصی نمبر میں علامہ سید حماد علی شاہ کا ایک خصوصی مضمون فضائل حسنین فی لسان رسول الثقلین ﷺ بھی شامل ہے۔جسمیں تفصیل کے ساتھ مختلف موضوعات کا احاطہ کیا گیا ہے۔اِسی طرح مفتی شجاعت حسین قادری کا بہت ہی اعلیٰ مضمون مقام حسینؓ بھی اِس خاص نمبر کی زینت ہے اِس مضمون میں نبی پا ک ﷺ کی محبت، شہات حسینؓ ، معرکہ کربلا میں حضرت امام حسینؓ کی حقانیت، حقانیت حسینؓ پر ابن خلدون کی شہادت جیسے اہم موضوعات کا زبردست علمی انداز میں احاطہ کیا گیا ہے جو کہ جناب مفتی شجاعت حسین قادری کا ہی خاصہ ہے۔اِس کے بعد پیر سید محمد عرفان مشہدی کا لکھا ہو ا مضمون سید الشہداء امام حسینؓ اِس میں شامل ہے۔ سجاد حسین آہیر کا مضمون کلام اقبالؒ کی روشنی میں امام عالی مقام کا کیا مقام ہے۔ اِسی طرح خواجہ سیلمان قمر قادی کا لکھا ہوا مضمون نواسہ رسول ﷺ کی محبت و عقیدت کے حوالے سے ایک بہت اعلی مضمون ہے۔
معرکہ کربلا کے عنوان سے جناب آ صف محمود خان کا بہت ہی شاندار مضمون بھی اِس خاص نمبر کو خاص بنائے ہوئے ہے۔ ممتاز دانشور جناب سید محمد انور بخاری قادری کا مضمون بر عنوان میدان کربلا۔۔۔ ذبحِ عظیم کی تعبیر صفحہ نمبر 121 پر موجود ہے۔در معنی حریت اسلامیہ و سرِ حادثہ کربلا کے عنوان سے لکھا گیا مضمون جسے علامہ پیر سید محمد ظفر اللہ شاہ بخاری نے قلمبند کیا ہے۔اِس میں جناب شاہ صاحب حضرت اقبالؒ کہ حوالے سے لکھتے ہیں کہ مومن کا تعلق عشق سے ہے اور عشق کا تعلق مومن سے ہے۔ عشق کے لیے ہمارا ناممکن، ممکن ہے۔مومن اور عشق خد اور رسولﷺ لازم و ملزوم ہیں۔عشق کی بدولت مومن میں وہ قوت پیدا ہوجاتی ہے اور وہ ایسے عظیم جذبوں سے سرشار ہوجاتا ہے جن کی بدولت و مشکل ترین اور ناممکن ترین مرحلے آسانی سے طے کر لیتا ہے۔
اِسی طرح سید الشہدا ء حضرت امام حسینؓ کی ذات بابرکات پر سید حبیب اللہ شاہ چشتی کا سیر حاصل مقالہ بھی اِس میں شامل ہے۔غرض یہ کہ امام عالیٰ مقام حضرت امام حسینؓ کے حوالے سے انوارِ رضا کا خصوصی نمبر ایک اہم دستاویز کی شکل میں چھاپا گیاہے۔ مجھ ناچیز کے لیے اِس اہم دستاویز کا احاطہ کرنا ممکن نہیں ہے۔ بس میں نے تو قبلہ ملک محبوب الرسول قادری کیے حکم کی تعمیل کرکے اِس خصوصی دستاویز کا مختصر سا تعارف لکھنے کی جسارت کی ہے۔ اللہ پاک امام عالی مقام حضرت امام حسینؓ کے شہادت کے طفیل ہم سب پر اپنا خاص کرم فرمائے آمین۔اِ خصوصی دستاویز کی تیاری پر جناب ملک محبوب الرسول قادری مباکباد کے مستحق ہیں کہ اُنھوں نے انتہائی تحقیقی کا کیا ہے۔ اِس دستاویز کی کاپی ہر لائبریری کی زینت بننی چاہیے تاکہ متلاشیان حق اَِس سے استفادہ کر سکیں ۔
سید الشہداء امام حسین ؑ خصوصی نمبر درا صل انوار رضا میگزین کی جانب سے ایک انتہائی اہم دستاویز ہے جس میں نہایت محبت اور احترام کے ساتھ سید الشہداء امام حسین ؑ کے حوالے سے مضامین شامل کیے گئے ہیں۔ محرم الحرام: تقدس و تقا ضے یہ مضمون جناب حاجی محمد قاسم ؒ کا تحریر کردہ ہے اِس مضمون میں محرم کے مہینے کی فضیلت کے حوالے سے بھرپور تفصیل موجود ہے۔اِس مضمون میں اللہ پاک کی عنایات۔ یوم عاشورہ، فضیلت و یوم عاشورہ، تخلیق مخلوق کے دس عظیم حوادث، نزول سلامتی کی دس کرامات۔ خداوند تعالیٰ عزو جل کی طرف سے دس عنایات، فضیلت عاشورہ پر احادیث، شہادت امام حسینؑ ،، حضرت اما م حسینؓ پر نزول رحمت، ممنوعاتِ محرم الحرام، انفال عاشورہ کے تحت جناب میجر قاسم ڈھڈی ؒ نے سیر حاصل مضمون لکھا ہے۔ علامہ صاحبزادہ محمد سلیمان قمر قادری کا بتول فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیہا کے عنوان سے مضمون ہے۔اِس عظیم خصوصی نمبر میں علامہ سید حماد علی شاہ کا ایک خصوصی مضمون فضائل حسنین فی لسان رسول الثقلین ﷺ بھی شامل ہے۔جسمیں تفصیل کے ساتھ مختلف موضوعات کا احاطہ کیا گیا ہے۔اِسی طرح مفتی شجاعت حسین قادری کا بہت ہی اعلیٰ مضمون مقام حسینؓ بھی اِس خاص نمبر کی زینت ہے اِس مضمون میں نبی پا ک ﷺ کی محبت، شہات حسینؓ ، معرکہ کربلا میں حضرت امام حسینؓ کی حقانیت، حقانیت حسینؓ پر ابن خلدون کی شہادت جیسے اہم موضوعات کا زبردست علمی انداز میں احاطہ کیا گیا ہے جو کہ جناب مفتی شجاعت حسین قادری کا ہی خاصہ ہے۔اِس کے بعد پیر سید محمد عرفان مشہدی کا لکھا ہو ا مضمون سید الشہداء امام حسینؓ اِس میں شامل ہے۔ سجاد حسین آہیر کا مضمون کلام اقبالؒ کی روشنی میں امام عالی مقام کا کیا مقام ہے۔ اِسی طرح خواجہ سیلمان قمر قادی کا لکھا ہوا مضمون نواسہ رسول ﷺ کی محبت و عقیدت کے حوالے سے ایک بہت اعلی مضمون ہے۔
معرکہ کربلا کے عنوان سے جناب آ صف محمود خان کا بہت ہی شاندار مضمون بھی اِس خاص نمبر کو خاص بنائے ہوئے ہے۔ ممتاز دانشور جناب سید محمد انور بخاری قادری کا مضمون بر عنوان میدان کربلا۔۔۔ ذبحِ عظیم کی تعبیر صفحہ نمبر 121 پر موجود ہے۔در معنی حریت اسلامیہ و سرِ حادثہ کربلا کے عنوان سے لکھا گیا مضمون جسے علامہ پیر سید محمد ظفر اللہ شاہ بخاری نے قلمبند کیا ہے۔اِس میں جناب شاہ صاحب حضرت اقبالؒ کہ حوالے سے لکھتے ہیں کہ مومن کا تعلق عشق سے ہے اور عشق کا تعلق مومن سے ہے۔ عشق کے لیے ہمارا ناممکن، ممکن ہے۔مومن اور عشق خد اور رسولﷺ لازم و ملزوم ہیں۔عشق کی بدولت مومن میں وہ قوت پیدا ہوجاتی ہے اور وہ ایسے عظیم جذبوں سے سرشار ہوجاتا ہے جن کی بدولت و مشکل ترین اور ناممکن ترین مرحلے آسانی سے طے کر لیتا ہے۔
اِسی طرح سید الشہدا ء حضرت امام حسینؓ کی ذات بابرکات پر سید حبیب اللہ شاہ چشتی کا سیر حاصل مقالہ بھی اِس میں شامل ہے۔غرض یہ کہ امام عالیٰ مقام حضرت امام حسینؓ کے حوالے سے انوارِ رضا کا خصوصی نمبر ایک اہم دستاویز کی شکل میں چھاپا گیاہے۔ مجھ ناچیز کے لیے اِس اہم دستاویز کا احاطہ کرنا ممکن نہیں ہے۔ بس میں نے تو قبلہ ملک محبوب الرسول قادری کیے حکم کی تعمیل کرکے اِس خصوصی دستاویز کا مختصر سا تعارف لکھنے کی جسارت کی ہے۔ اللہ پاک امام عالی مقام حضرت امام حسینؓ کے شہادت کے طفیل ہم سب پر اپنا خاص کرم فرمائے آمین۔اِ خصوصی دستاویز کی تیاری پر جناب ملک محبوب الرسول قادری مباکباد کے مستحق ہیں کہ اُنھوں نے انتہائی تحقیقی کا کیا ہے۔ اِس دستاویز کی کاپی ہر لائبریری کی زینت بننی چاہیے تاکہ متلاشیان حق اَِس سے استفادہ کر سکیں ۔
Friday, 7 September 2018
ایک قومی اخبار اور ختم نبوت ﷺ کے انکاری۔۔۔ ایک پیج پر .Written By صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی
ایک قومی اخبار اور
ختم نبوت ﷺ کے انکاری۔۔۔ ایک پیج پر
صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی
موجودہ حالات میں قادیانی فتنہ خود کو فرنٹ میں لے آیا ہے خود کو مظلوم ثابت کرنے اور روشن خیال طبقے کے سامنے خود کو مسلمان ہونے کا تاثر دینے کے لیے مختلف قسم کی ساز شوں میں مصروف ہے۔ نوائے وقت ہمیشہ سے دینی مزاج رکھنے والے طبقے کا پسندیدہ اخبار رہا ہے۔ جمعرات چھ ستمبر 2018کودن ساڑھے دس بجے میں لاہور ہائی کورٹ بار کی لائبریری میں اخبار پڑھ رہا تھا کہ نوائے وقت اخبار کو دیکھا تو اُس میں انجمن احمدیہ کی جانب سے ایک اشتہار تھا جس میں احمدیہ کے غازیوں اور شہداء کا ذکر کیا گیا تھا۔ اب محترم مجید نظامیؒ کی وفات کے بعد نوائے وقت جیسے اخبار میں اس طرح کا اشتہار شائع ہونا لمحہ فکریہ ہے۔ اور اِس بات کی غمازی ہے کہ حالات درست سمت میں نہیں ہیں آنے والے دنوں میں ختم نبوت کے حوالے سے قوم کو بہت ہوشیار ہونا پڑئے گا۔ نوائے وقت کی جانب سے اتنی بڑی دلیری عام بات نہیں ہے۔ عمران خان کی جانب سے ایک قادیانی کو اپنا مشیر رکھنا اور قوم کے سخت ردعمل کے بعد اُس کو فارغ کرنا۔ قادیانی خود کو اقلیت نہیں مانتے اور آئین پاکستان کی کھلی خلاف ورزی کے مرتکب ہوتے ہیں دوسری طرف خود کو مسلمان ظاہر کر ہے ہیں۔ مسلمانوں کو بہت زیادہ اتحاد کی ضرورت ہے۔ عمران کو بھی یادرکھنا چاہیے نواز شریف کا دھڑن تختہ ہونے کی ایک وجہ ممتاز قادری شہیدؒکو پھانسی اور ختم نبوت کے قانون سے چھیڑ چھاڑ تھی۔ اِس لیے عمران خان کو بہت زیادہ سنبھل کر کام کرنا ہوگا اور ختم نبوتﷺ کی پہرہ داری کے حوالے سے قوم کے جذبات کو سمجھنا ہوگا۔
سوشل میڈیا پر یہ بات شد ومد کے ساتھ بیان کی جارہی ہے کہ نوائے وقت کی مالکہ جو کہ مجید نظامیؒ کی لے پالک بیٹی ہے نے مجید نظامی صاحبؒ کی مرضی کے خلاف ایک قادیانی سے شادی کر لی تھی۔ یہ نوائے وقت کو قادیانیوں کے لیے استعمال کرنا اِسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔قادیانی اگر خود کو اقلیت تسلیم کر لیں اور یہ مان لیں کہ اُن کا اسلام کے ساتھ تعلق نہیں ہے بلکہ وہ اپنے مرزا قادیانی کے پیرو کار ہیں لیکن قادیانی ایسا نہیں کرتے وہ اسلام کا نام بھی استعمال کرتے ہیں اور اسلام کے بانی نبی پاکﷺ کی ہستی کو بھی نبی آخر الزمان نہیں مانتے۔ درحقیقت قادیانی ایک فتنہ ہے جو اسلام کی چادر اوڑ ھ کر اسلام کے خلاف ساشوں میں مصروف ہے ۔
جیسے عیسائی ہندو اقلیت پاکستان میں رہ رہی ہے اور وہ آئین پاکستان کو مانتی ہے اور خو دکو وہ غیر مسلم کہتی ہے۔لیکن مرزایت کا معاملہ ہی کچھ اور ہے کہ وہ خود کو احمدی مسلمان گرانتے ہیں۔ عام سیدھے سادھے پاکستانی لوگوں اور بیرون ملک مقیم لوگوں کو دھوکہ دئے کر اپنے ساتھ ملاتے ہیں اسلام کا نام استعمال کرتے ہیں۔ معاملہ یہ ہے کہ وہ اسلام کا ٹریڈ مارک استعمال نہ کریں کیونکہ وہ مسلمان کی تعریف میں نہیں آتے۔ اسلام کے خلاف سازشوں میں مصروف عمل یہودی نصاریٰ کی جانب سے قادیانی فتنہ پیدا ہی اِس لیے کیا گیا کہ مسلمانوں جیسی شکل بنا کر مسلمانوں کی عبادات کا سا انداز اپنا کر مسلمانوں کو نقصان پہنچایا جائے۔ اسلام کی شکل بگاڑدی جائے۔
راقم خود قانون کے پیشے سے وابستہ ہے اور راقم یہ سمجھتا ہے کہ جب قادیانی پاکستان کے آئین کے مطابق غیرمسلم قرار دے دئیے گئے ہیں تو پھر وہ خو دکو اقلیت کہیں۔ لیکن وہ تو نہ اسلام کو مانتے ہیں اور نہ پاکستان کے آئین و قانون کو مانتے ہیں اُنکا مشن تو بس صرف اسلام کے خلاف سازشیں ہیں۔ اگر وہ خود کو اقلیت مان لیں اور وہ اپنے حقوق و فرائض کے مطابق رہیں تو کوئی پرابلم نہیں۔
اب چلتے ہیں موجودہ نام نہاد آزادی رائے کے حوالے سے جو مہم جاری ہے کہ جناب دیکھیں اِن بیچارے قادینیوں کو بولنے نہیں دیا جاتا دبایا جارہا ہے۔ اِس حوالے سے عرض یہ کرنا ہے کہ قادیانی اُن پیرامیٹرز کو نہیں مانتے جو اسلام کی بنیادہیں یوں جب اسلام کی بنیاد سے ہی وہ انحراف کر گئے ہیں تو پھر کیوں وہ مسلمانوں کے انداز اپنا کر عوام کو دھوکا دیتے ہیں۔ اُن کا اپنا قادیانی مذہب مسلمانوں کو کافر کہتا ہے۔ اگر تم لوگ سچے ہو تو اپنے کام سے کام رکھو اورا پنی شناخت سے ہی پہچانے جاؤ۔ لیکن قادیانی تو ایک فتنے کے نام ہے اِن کا دین و مذہب سے کوئی تعلق نہیں قادیانیت تو وہ کام کر رہی ہے جو اسرائیل ، بھارت امریکہ ڈھکے چھپے انداز میں کرتے ہیں۔ اِس لیے اظہار رائے کا یہ مطلب نہیں کہ قادیانی مسلمانوں کے مذہب کے بانی کو تو نہ مانیں لیکن لیبل خود پر اسلام کا لگائیں۔جو بھی مسلمان ختم نبوتﷺ کی بات کرتا ہے تو اُسے دنگی فسادی کہا جاتا ہے۔ اگر تو مرزائی اپنے قائد کو مانتے ہیں تو پھر خود کی علحیدہ شناخت کرواتے ہوئے اُن کو تکلیف کیوں ہوتی ہے۔میری تمام مسلمانوں سے گزارش ہے کہ اِس وقت موجودہ حکومت کے اندر بھی ایسے عناصر ہیں جیسے کہ فواد چوہدری جیسے نامعقول لوگ جن کے لیے عقیدہ اہم نہیں ہے بلکہ اُن کو یہ غرور ہے کہ پی ٹی آئی اتنے کروڑ ووٹ لے کر آئی ہے ووٹ تو نواز شریف نے بھی بہت لیے تھے لیکن ختم نبوت کے قانون کے ساتھ غداری نے اُسے بدنامی کی اتھاہ گہرائیوں میں پھینک دیا ۔ اِس لیے عمران خان صاحب ترقی ضرو ہونی چاہیے لیکن مسلمانوں کے عقیدہ ختم نبوت ﷺ کی قیمت پر نہیں۔تاجدار ختم نبوت ﷺ زندہ آباد
Subscribe to:
Posts (Atom)
انٹرنیشنل ہیومین رائٹس موومنٹ اور لائیرز سٹرٹیجیک کونسل آف پاکستان کے زیر اہتمام سپریم کورٹ لاہور رجسٹری کے سامنے یو ایس ڈیپارٹمنٹ آف سٹیٹ کی زیر سرپرستی اور امریکی سفارتخانےاسلام آباد کے زیراہتمام پاکستانی میں چلنے والی انٹرنیشنل غیر رجسٹرڈ این پاک یو ایس ایلیومینائی نیٹ ورک کو فوری طور پر بین کرنے کے حوالے سے پرامن احتجاجی مظاہرہ
انٹرنیشنل ہیومین رائٹس موومنٹ اور لائیرز سٹرٹیجیک کونسل آف پاکستان کے زیر اہتمام سپریم کورٹ لاہور رجسٹری کے سامنے یو ایس ڈیپارٹمنٹ آف ...
-
ہبہ/ گفٹ کے حوالے سے سپریم کورٹ پاکستان کی تشریح صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ 2017SCMR-1110 کے مطابق سپریم کورٹ آ...
-
قومی زبان اُردو میں پہلی ڈیجیٹل ای بُک جس میں صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ کے تحریر کردہ پچاس سے زائدملکی و بین الاقوامی...