Tuesday, 23 October 2018

زرداری کے حکومت کے خلاف اعلانِ جنگ کی حقیقت Written By صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی

  

زرداری کے حکومت کے خلاف اعلانِ جنگ کی حقیقت

صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے آتے ہی عوام نے بہت ہی زیادہ امیدیں باندھ لی تھیں۔عمران خان پاکستانی معاشرئے میں ایک امید کا نشان ہیں۔ عمران خان کے ذاتی کردار پر بات کرنے والے وہی لوگ ہیں جنہوں نے باقاعدہ طور پر شیخ رشید کو محترمہ بے نظیر بھٹو کی کردار کُشی کے لیے رکھا ہوا تھااور عورت کی حکمرانی کے خلاف طرح طرح کے فتوئے ن لیگ بے نظیر بھٹو کے خلاف شائع کرواتی پھر رہی تھی۔شیخ رشید جو ایک عوامی آدمی ہیں اِنھوں نے نواز شریف کی حمایت میں وہ زبان محترمہ بے نظیر کے خلاف استعمال کی کہ خد اکی پناہ۔ عورت کی حکمرانی کے خلاف فتوئے شائع کروانے والی ن لیگ اب مستقبل میں مریم نواز کو وزیر اعظم کے لیے بھر پور کو شش میں مصروف عمل ہے۔ اِسی لیے تو شہباز شریف اور حمزہ شہباز کا امیج ن لیگیوں میں اِس طرح کا پینٹ کیا گیا ہے کہ یہ تو اِس اہل ہی نہیں ہیں۔ یہ تو تھیں کالم کے آغاز میں ماضی اور حال سے جڑی ہوئی باتیں۔
عمران خان کی جانب سے ایسا بیان کہ نوکر شاہی تعاون نہیں کر رہی ہے۔کبھی کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف کے پاس نہیں جانا کبھی کہتے ہیں کہ جانا ہے۔ عمران خان کے اوپنر بیٹسمین جناب اسد عمر کی جانب سے جو رویہ سامنے آیا ہے وہ تحریک انصاف کے کارکنوں کے لیے بالخصوص اور عوام الناس کے لیے بالعموم انتہائی عجیب ٹھرا ہے۔ موصوف اپوزیشن میں دئیے گئے اپنے ہی بیانوں کے خلاف اندھا دھند بیان داغ رہے ہیں اور تو اور اسحاق ڈار کے ویژن کو بھی درست قرار دئے چکے ہیں اور نواز شریف کی معاشی ٹیم کے لوگوں کو بھی اپنے گلے کا ہار بنائے ہوئے ہیں۔
پاکستان کی انتہائی بدقسمتی ہوگی کہ عمران خان اگر فیل ہو جاتے ہیں یقینی طور پر کرکٹ کھیلنے اور ملک چلانے میں بہت فرق ہے۔ لیکن عمران خان دیانتدار اور بہادر آدمی ہیں نمل کالج میانوالی اور شوکت خانم ہسپتال کی تعمیر اور اِن ہر دو اداروں کا پاکستان کے عام لوگوں کو خدمات دینا اِس با ت کی دلالت ہے کہ عمران خان کے اندر قائدانہ صلاحیتیں بدرجہ اُتم موجود ہیں۔ اِس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ عمران خان کی نجی زندگی کو بہت زیادہ سکینڈلائز کیا گیا ہے ، یہ ن لیگ کے پاس ایک بہت بڑا ہتھیار رہا ہے کہ وہ خود کو رائٹ ونگ کی جماعت کہتی رہی ہے اور اسلام پسندی کا لیبل لگا کر مخالف سیا ستدانوں پر اخلاقی الزمات لگاتی رہی ہے۔بے نظیر بھٹو کے معاملے میں بھی ن لیگ یہ کر چکی ہے۔عمران خان کے خلاف تو سب کچھ کل کی بات ہے۔
عمران خان کی جانب سے اقتصادی مسائل کے حل کے لیے ٹیم کا نہ ہونا بہت بڑا المیہ ہے۔ کنٹینر کی سیاست کے بعد جب حکومت ملی ہے تو عمران خان کو آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہوا ہے۔ اپوزیشن کرنا بڑا آسان کام ہے پاکستان جسے ترقی پذیر ممالک میں جہاں ہمیشہ سے مخالفین کی عزتوں کا جنازہ نکالا جاتا رہا ہے ا س ماحول میں تحریک انصاف نے بہت زبردست اپوزیشن کی ہے ۔ بلکہ فواد چوہدری اورفیاص الحسن چوہان جیسے لوگ ایسے کاموں کے لیے ہی رکھے جاتے ہیں جو وہ کر رہے ہیں۔ پاکستان میں نیب کاادارہ اپنا امیج بہتر نہیں بنا سکا۔ اعلیٰ عدلیہ بھی نیب سے شاکی رہتی ہے۔ اِن حالات میں جب شہباز شریف کو نیب کی حراست میں کا فی دن گزر چکے ہیں اور ضمنی الیکشن میں تحریک انصاف کی کارکردگی بھی منفی رہی ہے۔ عام تاثر یہی اُبھر رہا ہے کہ عمران خان سے حکومت سنبھالی نہیں جارہی اوپر سے موصوف خود فرما چکے ہیں کہ بیوروکریسی اُن کے قابو میں نہیں۔یہ باتیں عمران خان جیسے رہنماء کے لیے بہتر نہیں ہیں۔ عوامی سوچ میں تبدیلی پیدا ہونا شروع ہوگئی ہے کہ عمران فیل ہو رہا ہے۔پنجاب پاکستان کا ساٹھ فی صد ہے پنجاب حکومت میں ایک کمزور شخص کو وزیر اعلیٰ لگا کر عمران خان نے خود ہی اِس تاثر کو ہوا دی ہے کہ عمران خان حکومت کرنے میں کتنے سنجیدہ ہیں۔ علیم خان کے خلاف بھی نیب میں کیس ہیں لیکن وہ اِس وقت اصلی وزیر اعلیٰ پنجاب ہیں۔سوئی گیس کی قیمت میں اضافہ، میٹرو کے کرائے میں سبسڈی ختم کرنے کا ا علان ، یہ غریبوں کو حکومت کیا پیغام دئے رہی ہے۔
آصف زرداری کی جانب سے حکومت کے خلاف متفقہ قرار داد لانے کی بات کی۔مولانا فضل الرحمان، آصف زرداری، شریف خاندانموجودہ حالات میں ایک پیج پر آچکے ہیں۔ عمراں خان کے خلاف یہ سب لوگ متحد ہو چکے ہیں۔ عمران خان نے سینٹ کے چیئرمین کے لیے آصف زردار ی کے ساتھ مل کر اکثریتی پارٹی ن لیگ کو چِت کر دیا تھا اور اِس بات سے کون انکار کر سکتا ہے کہ آصف علی زردار ی کے پیچھے اسٹبلشمنٹ تھی اور ہے۔ میرئے اِس قیاس کو بس قیاس ہی سمجھیں کہ عمران خان کی جانب سے تین ماہ کے اندر ہی ہاتھ کھڑئے کرنا درحقیقت نادیدہ قوتوں کا ایجنڈا ہو سکتا ہے۔ عمران کی حکومت میں چوہدری پرویز الہی پنجاب میں اہم پوزیشن میں ہیں اُن کے بیٹے اور بھتیجے بھی قومی اسمبلی کے رکن بن چکے ہیں۔ پرویز الہی زرداری کی حکومت میں نائب وزیر اعظم رہ چکے ہیں۔ چوہدری برادران کسی وقت بھی زرداری کے ساتھ مل کر حکومتی بساط اُلٹ سکتے ہیں اور ن لیگ اِن حالات میں چوہدریوں اور زرداری کی ہر بات ماننے کے لیے تیار ہو جائے گی۔ اِس خاکسار کے خیال میں عمران خان کا بہت بڑا کارنامہ اسٹیٹس کو کو توڑنا تھا لیکن اسٹیٹس کو کی قوتیں عمران خان کو ناکام بنانے کے لیے مصروف عمل ہیں۔ زردرای کی جانب سے جس طرح منی لانڈرنگ کی گئی ہے اُِس کے کے گرد اب گھیرا تنگ ہوتا جارہا ہے اِس لیے زرداری حکومت کو کھلی دھمکی دئے رہا ہے ۔سعودی عرب کی جانب سے صحافی کے قتل کے بعد حالات کا نزلہ پاکستان پر بھی گر سکتا ہے کیونکہ ترکی ہمارے بہت قریب ہوچکا ہے۔اِن حالات مین زرداری کی جانب سے حکومت کے خلاف اعلان جنگ بہت بڑا اعلان ہے۔ پاکستان تحریک انصاف اِسے نظر انداز نہ کرئے

Sunday, 14 October 2018

ضمنی الیکشن حکومت کی مقبولیت کا ریفرنڈم...Written By صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی

ضمنی الیکشن حکومت کی مقبولیت کا ریفرنڈم

صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی

ضمنی الیکشن کے نتائج حکومت سازی کے حوالے سے تو کوئی خاص اہمیت کے حامل نہیں ہیں یعنی اِن نتائج کی بناء پر حکومت کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اِس کے ساتھ ساتھ ایک بات ظاہری طور پر خوش آئین ہے کہ جیسی بھی لنگڑی لولی جمہوریت پاکستان میں ہے اِس کو استحکام ملا ہے۔ وقت نے یہ ثابت کیا ہے کہ بہرحال آمریت سے جمہوریت بہتر ہی ہے۔پچھلے پچاس دنوں میں پی ٹی آئی کی حکومت کو جن مشکلات کا سامنا ہے اور جن مسائل میں گھری ہوئی ہے اُس کا اندازہ ضمنی الیکشن میں بھی ہوا کہ سعد رفیق اور خاقان عباسی بھی قومی اسمبلی میں پہنچ چکے ہیں۔پاکستان میں جمہوریت کو استحکام دئیے جانے کے حوالے سے تمام سیاسی جماعتوں کا کردار اہم ہے۔ تحریک لبیک پاکستان کے امیدوار نے بھی چوہدری سالک حسین کے مقابلے میں چونتیس ہزار ووٹ لیے۔شاید پاکستانی اسٹبلشمنٹ تحریک لبیک پاکستان کی مقبولیت سے خائف ہے۔ عام انتخابات میں بھی تحریک لبیک نے بائیس لاکھ ووٹ لیے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ ہر طبقہ فکر کو قومی دھارئے میں لایا جائے لیکن تحریک لبیک کے معاملے پر ارباب اختیارکا انداز مختلف ہی ہے۔جماعت اسلامی جے یو پی کی سیاست سب کے سامنے ہے اور اِس وقت اُن کی اسمبلی میں کوئی حیثیت نہیں ہے۔ جے یو آئی پھر بھی فعال ہے۔ اِن حالات میں تحریک لبیک کے ساتھ سوتیلا سلوک نہیں کیا جانا چاہیے۔ شہباز شریف گرفتار ہیں۔ نواز شریف اور مریم نواز بھی زیر عتاب ہیں اِن حالات میں ن لیگ کی کارگردگی بہتر ہے۔
ملک بھر میں قومی اور صوبائی اسمبلی کی 35 نشتوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات کے غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج کے مطابق لاہور میں قومی اور صوبائی اسمبلی کی چاروں نشستوں پر مسلم لیگ ن نے کامیابی حاصل کر لی ہے، لاہور میں ’’شیر کی دھاڑ‘‘ نے کھلاڑیوں کے چھکے چھڑا دیئے ہیں۔ این اے 131 کے بڑے معرکے میں خواجہ سعد رفیق نے ہمایوں اختر خان کودس ہزارووٹوں سے شکست دیدی شکست دے کر حکمران جماعت کو حیرت زدہ کر دیا ہے جبکہ این اے 124 لاہور میں سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے تحریک انصاف کے امیدوار غلام محی الدین دیوان کو واضح اور بھاری اکثریت سے شکست سے دو چار کر دیا ہے،لاہور کی صوبائی اسمبلی کی 2 نشستوں پی پی 164 اور پی پی 156 سے بھی ن لیگ کے امیدوار سہیل شوکت بٹ اور ملک سیف الملوک کھوکھر نے تحریک انصاف کے امیدواروں کو چاروں شانے چت کرتے ہوئے فتح حاصل کر کے پی ٹی آئی کو بڑا جھٹکا دے دیا ہے۔
ضمنی انتخاب میں تحریک انصاف کو بنوں میں بھی بڑا جھٹکا لگا ہے،این اے 35 بنوں سیغیر سرکاری اور غیر حتمی نتائج کے مطابق وزیر اعظم عمران خان کی چھوڑی ہوئی نشست پر متحدہ مجلس عمل کے امیدوار اور سابق وزیر اعلیٰ اکرم خان درانی کے بیٹے زاہد خان درانی نے بڑے مارجن سے تحریک انصاف کے امیدوار مولانا سید نسیم علی شاہ کو شکست سے دو چار کر دیا ہے۔عمران خان کی حکومت کا آغاز بہت سی توقعات سے ہوا ہے۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ عمران نے گذشتہ پانچ سالوں سے اِسی طرح کی سیاست کی ہے کہ بہت زیادہ سنسنی پیدا کی گئی ۔ شائد عمران کی کامیابی کی وجہ بھی یہ ہے کہ وہ عوام کو یہ باور کروانے میں کامیاب ہوگئے کہ اسٹیٹس کو کو ختم کیے بغیر عام پاکستانی کی حالت نہیں سُدھرئے گی۔ عوام کی طاقت، اسٹیبلشمنٹ کی نوازشات اور نواز شریف کی پاک فوج کے خلاف اور ختم نبوت کے قانون کے خلاف محاذآرائی عمران خان کے لیے اقتدار میں آنے کا سبب بنا۔ نواز شریف کا سیاسی زوال اُن کے ذاتی جابرانہ رویے کا نتیجہ ہے کہ اُن کے اندر کی خود پسندی نے اُن کو جس طرح اپنے حصار میں لے رکھا ہے اُس کی وجہ سے کسی بھی دوسرئے ریاستی ادارئے کو خاطر میں نہیں لاتے رہے اور یوں وہ جیل کی ہوا کھانے کے بعد پھر سے جیل یاترہ کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔اور شہباز شریف گرفتار ہو کر نیب کے پاس ہیں۔
واقفانِ حال بتاتے ہیں کہ نواز شریف ایک نئے انداز میں پاکستانی فوج کے خلاف مہم جوئی شروع کرنے والے ہیں اور شہباز شریف کی تمام تر کو ششوں کے باجود نواز شریف کا ذہن فوج اور عدلیہ مخالفت میں اٹکا ہوا ہے ۔یوں نواز شریف کی سیاست کے عنصر کو ن لیگی محور سے کم کرنے کے لیے شہباز شریف کو گرفتار کرکے اُس کو واقعی اپوزیشن لیڈر بنائے جانے کے لیے عوام میں تاثر دیا جا رہا ہے۔
عمران خان کی حکومت کے دو انتہائی رہنماء جناب فواد چوہدری اور فیاض الحسن چوہان کا رویہ ایسا ہے کہ جیسے وہ اپوزیشن میں ہیں اور وہ ہر وقت لڑنے مرنے کے تیار رہتے ہیں۔ ہوسکتا ہے پی ٹی آئی کی حکومت کو اِس بات کا ادراک ہے کہ اسٹیٹس کو کو توڑنے کے لیے اِسی طرح کا جارحانہ رویہ ہی اُن کے لیے کار گر ثابت ہوگا۔دوسری طرف پی ٹی آئی کی حکومت نے جو بیانیہ اپنایا ہے کہ اُن کے پاس جادو کی چھڑی نہیں کہ وہ ستر سال کے مسائل چالیس دنوں میں حل کریں۔ اِس بیانیے میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کا نابالغ پن دیکھائی دیتا ہے اور اِس طرح کا رویہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ پی ٹی آئی نے اقتدار میں آنے کے لیے جس طرح کے بلند بانگ دعوے کیے تھے وہ سارئے کے سارئے جذبات پر مبنی تھے اور عقل سے عاری تھے۔ اِس لیے تحریک انصاف کی حکومت کو اِس انداز کو بدلنا ہوگا کہ ہم اتنی جلدی کچھ نہیں کر سکتے۔ گویا عوام اُن کے اِس بیانیے سے مایوس ہورہے ہیں رہی سہی کسر سوئی گیس اور سی این جی کی قیمتوں میں ہوشروبا اضافہ کرکے نکل گئی ہے۔ عوام کو ریلیف دینے کی بجائے مہنگائی کی چکی میں ڈال دیا گیا ہے۔ عوام یہ سوچنے میں حق بجانب ہیں کہ ن لیگ اور پی ٹی آئی میں کوئی فرق نہیں رہا۔ضمنی الیکشننے ایکبات واضع کردی ہے کہ ن لیگ باجود تمام ہتھکنڈوں کے، میدان میں موجود ہے بلکہ قائم دائم ہے۔ کرپشن کے خلاف تجاوزات کے خلاف عمران خان کو اپنی کوششوں کو جاری رکھنا چاہیے لیکن عوام پر مہنگائی کے پہاڑ توڑنے کی بجائے اشرافیہ سے پیسے نکلوائے جانے چاہیے۔

Monday, 1 October 2018

قران مجید کی منظو م تفسیرنورِ فرقان ڈاکٹر شہناز مزمل کا عظیم علمی کارنامہ ...................................صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی

 

 

قران مجید کی منظو م تفسیرنورِ فرقان ڈاکٹر شہناز مزمل کا عظیم علمی کارنامہ

صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی

اُردو زبان کا شمار دُنیا کی زیادہ بولی اور سمجھی جانے والی زبانوں میں ہوتا۔اُردو فارسی اور عربی کا مرکب ہی تو ہے۔ اِس کے علاوہ اُردو کا دامن اتنا وسیع ہے کہ ہر زبان کا لفظ اِس کے اندر سما جاتا ہے۔ یوں انگریزی ، فرینچ، جرمن زبان کے بہت سے الفاظ اُورد زبان کا حصہ بن چکے ہیں۔برصغیر پاک وہند میں اُردو زبان کو ہمیشہ سے مسلمانوں کی زبان خیال کیا جاتا رہا ہے۔ اِسی لیے ہندو مذہب کے ماننے والے اُردوز بان کو پیار کی نظر سے نہیں دیکھتے لیکن اِس کے باوجود اُردو زبان میں ہونے والی شاعری اور نثر نگاری نے پوری دُنیا میں خوب سکہ جمایا ہے۔قران چونکہ سر زمینِ عرب میں نازل ہوا اور یوں قران کی زبان عربی ٹھری۔ قران کو سمجھنے کے لیے اقوام عالم نے اپنی اپنی زبانوں میں اِس کے تراجم کیے۔ اُردو میں بھی قران مجید کے تراجم اور تفاسیر لکھی جاچکی ہیں۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان ؒ کا لازوال ترجمہ اُردو زبان میں کنزلایمان کے نام سے بہت مشہور ہے۔ لیکن عہد حاضر میں اُردو زبان کے حصے میں ایک اور بہت بڑی سعادت آئی ہے وہ یہ کہ قران مجید کی منظوم تفسیر کی گئی ہے۔دین اسلام کی سربلندی کے لیے ہر دور میں اللہ پاک نے اپنے خاص بندوں کو چُنا اور اِن بندوں کو اسطاعت عطا فرمائی کہ وہ اپنے رب کے احکامات کو دُنیا بھر کے انسانوں تک پہنچائیں۔ ایک ایسی ہستی جو کہ اپنے رب اور اُس کے رسولﷺ کی محبت کے فروغ کے لیے تگ و تاز جاری رکھے ہوئے ہے اُن کی جانب سے اللہ پاک کی آخری کتاب قرانِ مجید کا منظوم ترجمہ تحریر کیا جانا عظیم سعادت ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ کی جانب سے سورۃ القدر کامنظوم ترجمہ ملاحظہ فرمائیں۔ ہے اللہ کے نام سے ابتدا۔ وہ رحمان ہے رحمتِ بے بہا۔شب قدر اُتارا ہے قران کو۔ مگر کیا خبر اس کی انسان کو۔ہزاروں مہینوں سے افضل یہ رات۔جو دیکھیں نظر آئے جلوہ ذات۔ ملائکہ اترتے ہیں شب بھر سبھی۔ تو کتنی ہے رات رحمت بھری۔ اُترتے ہیں اِس شب وہ روح الامیں۔ وہ لاتے ہیں احکام دنیا و دیں۔ سلامتی لے کے بہ اِذنِ خدا۔ تو رہتی ہے تا فجر نوری فضا۔ یہ ہے اندازِ بیاں جو ڈاکٹر صاحبہ نے قران مجید کے منطوم ترجمے کو تحریر کرنے کے لیے اپنایا ہے۔مسلم دُنیا کی یہ پہلی خاتون ہوں جنہوں نے اردو زبان میں قران مجید کا منظوم ترجمہ تحریر کیا۔ محترمہ ڈاکٹر شہناز مزمل صاحبہ ممتاز شاعرہ و نثر نگار ہیں اور ادب سرائے انٹرنیشنل کی سربراہ ہیں۔ہمارئے معاشرئے میں انسانی اقدار جس طرح زوال پزیر ہیں اور مادیت نے ہر شے کو گہنا کر رکھ دیا ہے۔ اِن حالات میں اللہ پاک اور اِس کے عظیم رسولﷺ کے پیغام کو امُت مسلمہ تک پہنچانا ایک بہت بڑا صادقہ جاریہ ہے۔ مادر دبستان لاہور کے لقب کی حامل محترمہ ڈاکٹر شہناز مزمل صاحبہ ایک قادر الکلام شاعرہ ہیں اور اِس کا ثبوت اُن کا عظیم کارنامہ قران مجید کا منظوم ترجمہ ہے۔ مجھے اُن کی خدمت میں حاضری کا شرف ہےَ لیکن آفرین ہے محترمہ ڈاکٹر شہناز مزمل صاحبہ نے انتہائی انتھک محنت اور رب پاک کی خاص مہربانی اور نبی پاکﷺ کی رحمت کے طفیل اتنا بڑا کام کیا ہے۔ قران مجید سے محبت کرنے والوں پر اللہ پاک کا خاص کرم ہوتا ہے۔ قران مجید کا پیغام عام کرنے والے اللہ پاک کے خاص بندے ہوتے ہیں۔دین حق سے آگاہی کا یہ عالم کے قران مجید کا منظوم ترجمہ کیا جائے اور پڑھنے والوں کو یہ شائبہ تک نہ ہو کہ کہیں بات بغیر کسی سیاق وسباق کے کی گئی ہے اتنی بڑی ذمہ داری کا کام کرنا۔ اللہ پاک کے خصوصی کرم کے بغیر کیسے ممکن ہے۔ تیسویں پارئے کی سورتیں جس انداز میں ترجمہ کی گئی ہیں اُس حوالے سے صاف پتہ چلتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے ایک لازوال کام کیا ہے۔ سوشل میڈیا کے بہت زیادہ استعمال اور پرائیوٹ چینلز کی بھرمار نے وقت کی رفتار کو تیز کر دیا ہے۔ دن اِس طرح گزر رہے ہیں جیسے منٹ اور سکینڈ گزرتے ہیں۔ ایسے میں اللہ کے نیک بندوں کی محافل بنی نوح انسان کی تربیت کے لیے اور نفسیاتی طور پر راہ حق کے لیے خود کو وقف کرنے کے لیے بہت ضروری ہیں۔ ڈاکٹر شہناز مزمل صاحبہ کودُنیاوی چیز سے کوئی محبت نہیں وہ تو اپنے رب کے عشق میں مسلسل مسافت اختیار کیے ہوئے ہیں اور عشق مسلسل کا یہ انداز کہ اُنھوں نے قران پاک کا منطوم ترجمہ تحریر فرمایا ہے۔رب پاک کا فرمان ہے کہ اگر کو قران مجید کو پہاڑ پر نازل کیا جاتا تو پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجاتا۔لیکن صاحب قران حضور نبی پاکﷺ پر نازل ہونے والی یہ عظیم کتاب پوری کائنات کے لیے راہ ہدائت ہے۔ اِس کتاب کو منظوم انداز میں تحریر کرنا۔ اللہ پاک کی طرف سے عظیم سعادت ہے عام قاری کے لیے یہ منظوم ترجمہ بہت بڑا تحفہ ہے اور ڈاکٹر صاحبہ کا یہ انقلابی کام صدیوں اُردو پڑھنے والوں کے لیے عظیم سرمایہ ہے۔ جب تک یہ دُنیا قائم ہے اُس وقت تک ڈاکٹر صاحبہ کاکیا ہوا یہ منظوم ترجمہ انسانوں کو اپنے رب کا پیغام منظوم انداز میں پہنچائے گا۔ اللہ پاک کا کلام قرانِ مجید، اُس کلام کو منطوم تحریر کی شکل دینا سعادت کا عظیم مرتبہ ہے۔ ڈاکٹر صاحب کا یہ منظوم ترجمہ درحقیقت قران مجید کی تفسیر بھی ہے۔ڈاکٹر شہناز مزمل ایک ایسی ہستی کا نام ہے۔جب بھی مجھے اِن کا خیال آتا ہے تو اِن کے خیال کے ساتھ ہی مجھے اپنے قلب وجان میں عشق مصطفےﷺ کی شمع فروزاں ہوتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ڈاکٹر شہناز مزمل صرف ایک شاعرہ اور مصنفہ کا نام نہیں ہے بلکہ ڈاکٹر صاحبہ کی عشق مصطفےﷺ کی کیفیات اور اللہ پاک کے ساتھ اُن کا تعلق کا انداز عہد حاضر کے لوگوں کے لیے عظیم سرمایہ ہے۔ مجھے اپنی کم مائیگی کا احساس ہے کہ میری طرف سے محترمہ ڈاکٹر شہناز مزمل صاحبہ کے حوالے سے کچھ لکھنا ایسے ہی ہے جیسے سورج کو چراغ دیکھانا۔ڈاکٹر شہناز مزمل صا حبہ نے جس طرح خالق کی محبت میں ڈوب کر لکھا ہے اور جس راستے کی وہ مسافر ہیں یقینی طور پر راہ حق کے مسافروں کے لیے اُنھوں نے جس طرح رہنمائی کی ہے وہ یقینی طور پر ایک کامل ولی ہی کر سکتا ہے۔ڈاکٹر صاحبہ کی اپنے اردگرد کے لوگوں پر اتنی نوازشات ہیں کہ وہ سب کے لیے ایک ایسا شجر سایہ دار ہیں جس سے ہر کوئی فیض لیتا ہے۔ ڈاکٹر شہناز مزمل صاحبہ کا لکھا ہوا ایک ایک لفظ راہ عشق حقیقی کا آئینہ دار ہے۔اللہ پاک نے ڈاکٹر شہناز مزمل صاحبہ پر اپنے بے پناہ کرم سے نواز ا ہے کہ اُن کی شاعری اور نثر دونوں میں انسانیت سے محبت اور فلاح کا راستہ دیکھائی دیتا ہے۔ڈاکٹر شہناز مزمل صاحب جن راستوں کی راہی ہیں وہ اخلاص محبت اور وفا سے سجا ہوا ہے۔ادب سرائے ماڈل ٹاون لاہور کی چےئرپرسن ڈاکٹر شہناز مزمل گذشتہ تین دہائیوں سے تشنگان علم و ادب کے لیے چراغِ راہ بنی ہوئی ہیں۔ کسی قسم کے تجارتی ہدف سے ماورا محترمہ ڈاکٹر صاحبہ علم و آگہی کے موتی بکھیر رہی ہیں کتاب سے اُن کا تعلق ایسا ہی ہے جیساکہ اپنی اولا د سے ہوتا ہے۔چند برسوں سے سوشل میڈیا کے توسط سے اِن سے رابطہ ہے اور مجھے ہمیشہ اپنا چھوٹا بھائی کہتی ہیں۔اُن کی خصوصی دعوت پر حذیفہ اشرف اور مجھے اِس عظیم خاتون سے ملاقات کا شرف ادب سرائے میں ہوا۔زندگی کو جس انداز میں ڈاکٹر صاحبہ نے سمجھا ہے وہ وہی اسلوب ہے جس طرح کا انداز اللہ پاک کے ولیوں کا ہوتا ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ ایک ممتاز شاعرہ، نثر نگار ہیں اُس کے ساتھ ساتھ فلاحی کاموں میں بھی اپنا کردار ادا کرہی ہیں۔ اِس حوالے سے جب اُن سے گفتگو ہوئی تو اُنھوں نے اپنے آپ کو فلاحی کاموں میں وقف رکھنے کا سبب جو بتایا وہ یہ ہی تھا کہ اِس زندگی کا مقصد دکھی انسانیت کے لیے آسانیاں پیدا کرنا ہے۔ڈاکٹر صاحبہ گذشتہ تیس سالوں سے ادب سرائے میں مختلف تقریبات منعقد کر رہی ہیں۔ فیض گھر میں بھی کافی عرصہ اُنھوں نے مختلف ادبی نشستوں کا انعقاد کیا۔دُنیا کے حرص سے دور اپنے رب کی محبت میں زندگی گزارنے والی ڈاکٹر شہناز مزمل ایک بہت بہادر خاتون ہیں ۔ اِن کی شاعری میں جابجا اپنے رب کے شکر کا اظہار ملتا ہے۔ ایسا وہی شخص کر سکتا ہے جس کے اندر طمع نہ ہو۔مجھے جب بھی ڈاکٹر شہناز مزمل صاحبہ کی شاعری سے استفادہ ہونے کا موقع ملا تو یہ وہ لمحات ہوتے ہیں جب دل اور نگاہیں وضو کرتی ہیں۔ ۔ڈاکٹر صاحبہ کی شاعری کے حوالے سے میرے جانب سے کچھ ضبطِ تحریر میں لانا ایسا ہی جیسے کوئی ناخواندہ کسی عالم کی مدحہ سرائی کر رہا ہو۔ لیکن کیونکہ ڈاکٹر صاحبہ کی الفاظ میں رب پاک، نبی پاکﷺ، اہل بیتؓ وصحابہ اکرامؓ کی عقیدت کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے اِس لیے مجھ جیسا شاعری کے مدو جذر سے نا آشنا بھی خود کو فیض یاب پاتا ہے۔اِنسانی جذبات اور رویوں کو الفاظ کے قالب میں ڈھالناگو ڈاکٹر صاحبہ پر رب پاک کا خاص احسان اور عنائت ہے۔ڈاکٹر صاحبہ کی اپنی زندگی میں جو تنہائی ہے اُس کیفیت نے اِن کو ایسے جذبوں کا ترجمان بنایا ہے جس کو بیان کرنا ناممکن ہوتا ہے اِیسی کیفیات صرف محسوس ہی کی جاسکتی ہیں۔ ڈاکٹر صاحبہ نے ادب سرائے کو جس انداز میں رونق بخشی ہے وہ اُنھی کی ذات کا ہی خاصہ ہے۔بچوں کو کہانی سُنانے کو وہ انداز جو ہم اپنے بچپن میں اپنی ماں یا دادی سے سنا کرتا تھے اُس روایت کو ڈاکٹر صاحبہ نے تقویت بخشی ہے۔شہناز مزمل صاحبہ کی شاعری میں بلا کی دوربینی ہے۔ وہ لکھنے والے ایسے قبیلے سے تعلق رکھتی ہیں جہاں مادیت چھو کر بھی نہیں گزری۔یہ ادب سرائے ہم جیسے دنیا داروں کے لیے امن و محبت کا ایسا گوشہ ہے کہ جس طرح فقیر کی چوکھٹ درد کی دولت عطا کرتی ہے۔ کچھ ایسا ہی ہمارئے لیے ادب سرائے ہے۔ اللہ پاک میری بڑی بہن ڈاکٹر شہناز مزمل صاحبہ کی عمر دراز کرئے اور ملک وملت کی رہنمائی کے لیے اُن کا سایہ ہمارئے سروں پر تا ابد قا ئم رکھے آمین۔