Wednesday, 21 November 2018

محبت لازمی کرنا علی احمد کیانی کا شعری محموعہ..................... صاحبزادہ اشرف عاصمی

  محبت لازمی کرنا 

علی احمد کیانی کا شعری محموعہ

صاحبزادہ اشرف عاصمی

انسانی فطرت ہے کہ وہ محبت خلوص اور وفا کی تلاش میں رہتی ہے۔ لیکن خالق نے کچھ ہستیاں اِس جہان میں ایسی بھی پید اکی ہوتی ہیں جو خود سراپا محبت و خلوص ہوتی ہیں۔ایسے لوگ معاشرئے کا وہ حساس طبقہ ہوتے ہیں جن کا وجود معاشرئے کے لیے اس قدر قیمتی ہوتا ہے کہ ان کے دم سے خیر وبرکت کی خوشبوئیں خزاں رتوں میں بھی ہر سو پھیلی ہوتی ہیں یہ وہی لوگ ہوتے ہیں جن کا حساس دل معاشرئے کے ہر ہر فرد کی تکلیف پر دُکھی ہوجاتا ہے حتی کہ کائنات کی ہر شے سے اُنھیں اُنس ہوتا ہے۔ ایسا صرف اِس لیے ہوتا ہے کہ ایسی ہستیاں اِس دُنیا میں فقط محبت کرنے اور محبت کو برہوتری دینے کے لیے پیدا ہوئی ہوتی ہیں۔ گویا اُن کا مقصد صرف ایک ہی ہوتا ہے محبت لازمی کرنا۔
محبت لازمی کرنا جواں جذبوں کے امین، ہر سُو وفا ء کی خوشبو سے معاشرئے کو مہکانے والے جناب علی احمد کیانی کے دوسرے شعری مجموعے کا نام ہے۔ برادرم علی احمد کیانی کی شاعری اپنے اندر خوداری کا لمس سموئے ہوئے ہے۔فن کوئی بھی ہو ۔ زندگی کے کسی بھی شعبے سے تعلق رکھتا ہو وہ انسانی جذبات و خیالات کا عکاس ہوتا ہے۔علی احمدکیانی کا علم وسیع ہے اِس کا اظہار اُن کے مشاہدئے کی قوتِ پرواز ہے۔زندگی کے اُتار چڑھاؤ سے واقفیت اور دُکھی دلوں کی ترجمانی علی احمد کیانی کی شاعری کا وصف ہے۔
رہزنوں سے علی بچ گیا تھا مگر
رہبروں سے لٹا دیکھتے دیکھتے
متزکرہ بالا شعر میں جناب علی احمد کیانی نے جس انداز میں معاشرئے کی بے ثباتیوں کا تذکرہ کیا ہے یقینی طورپر اِنکی یہ غزل جس کے شعر کا ذکر کیا گیا ہے اپنے اندر وسیع معنی سموئے ہوئی ہے۔اُنھوں نے جس انداز میں رہزن اور راہبر کے معاشرتی رویوں کی طرف اشارہ کیا ہے جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ علی احمد کیانی راہبری کے بھیس میں راہزنی کی پہچان رکھتے ہیں اور اُن کے اندر کا حساس انسان معاشرئے کی اِس انداز میں مذمت کرتا ہوا دیکھائی دیتا ہے کہ جہاں سے محبت کی فروانی ہونی چاہیے وہاں نفرتیں پنپ رہی ہیں۔
ملاحظہ فرمائیں علی احمد کا اسلوب کہ
جل گیا تن بدن میرا
غم کہ آتش فشاں سے گزرا ہوں
عشق نے پر لگا دئیے مجھ کو
آج میں آسمان سے گزرا ہوں
ایک طرف علی احمد کیانی دکھوں اور یاسیت سے لڑتے ہوئے دیکھائی دیتا ہے اور دوسری جانب اپنے عشق کی پرواز میں اِس قدر بلندیوں پر ہے کہ آسمان بھی اُسے اپنے پاؤں تلے محسوس ہوتا ہے۔ یقینی طور پر علی احمد کیانی نے جس طرح کے الفاط اپنی شاعری میں استعمال کیے ہیں یہ الفاظ بناوٹی نہیں ہیں بلکہ علی احمد کیانی کا ایک حرف ایک ایک لفظ اپنے اندر جذبوں کا طوفان لیے ہوئے ہے۔ علی احمد کیانی کی شاعر ی کا یہ وصف ہے کہ امید کی روشنی سے منور ہے علی احمد کیانی کے ہاں منزل تک رسائی حاصل کرنے کے کے لیے سب کچھ لُٹا دینے کا جذبہ بدرجہ اُتم موجود ہے۔علی احمد کیانی نہایت معیاری اور منفرد غزل کہتے ہیں۔علی احمد کیانی پیشے کے لحاظ سے وکیل ہیں نہایت نفیس انسان ہیں۔علی احمدکیانی نے نبی پاکﷺ کی خدمت اقدس میں نعتیں بھی لکھی ہیں۔
زیر نظر شعری مجموعے میں بہت خوبصور ت نعت شامل ہے۔نبی پاکﷺ سے محبت کے نصا ب کی حلاوتوں سے اویس قرنیؒ ، بلال حبشیؒ امر ہوگئے۔ آپ ﷺ کے عشق کا فیضان ہی انسان کو خالق کے ساتھ تعلق کے استوار کا کرنے کا سبب بنتا ہے۔یہ عشق رسول ﷺ ہی ہے جس نے کربلا کی تپتی ریت پر امام عالی مقام حضرت امام حسینؒ اور اُن کے ساتھیوں کو شہادت کے نا قابل فراموش جذبے کی تمازت سے سرفراز کیا۔عشق رسولﷺکے بغیر ابوجہل کا پیروکار تو بنا جاسکتا ہے لیکن نبی پاکﷺ کی شفاعت کا حقدار نہیں۔عشق رسول ﷺ ابوبکرؓ ، عمرؓ، عثمانؓ ، علیؓ کی زندگیوں میں انقلاب کا سبب بنا۔میلاد مصطفےٰ ﷺ کا مفہوم ہی یہ ہے کہ انسانیت کو شرف انسانیت سے ہمکنار کرنے والے کی آمد پر ربِ کائنات کا شُکربجا لایا جائے۔جس طرح اللہ پاک کو جو مانتا ہے یا نہیں مانتا اللہ پاک اُس کا بھی خالق و مالک ہے۔اِسی طرح نبی پاک ﷺ تمام انسانیت کے لیے رحمت ہیں۔ رحمتوں کے عظیم پیکر نبی پاکﷺ کی آمد کے دن کو اپنے لیے عید شمار نہ کیا جائے تو اور کیا کیا جائے۔عشق رسول ﷺ کی شمع کا فیضان ہے یہ کہ پوری کائنات میں ہرلمحہ اللہ پاک کی ربوبیت کے لیے اعلان اذان کی صورت میں ہورہا ہے کوئی اور دین ایسی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے۔عشق رسول ﷺ ہی خالق اور مخلوق کی تعلق کی بنیاد ہے۔علی احمد نے بھی اپنے نبی پاکﷺ کی شان میں اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے۔
سیرت بھی حسیں ان کی، صورت بھی حسیں ان کی
کردار بلند ان کا ، اطوار حسیں تر ہیں
صدیق ؓ ، عمر ؓ ، عثمان ؓ ، یا شیر خدا ؓ ہیں وہ
سرکار دو عالمﷺ کے، سب یار حسیں تر ہیں
اللہ پاک سے دُعا ہے کہ جناب علی احمد کیانی کو صدا سلامت رکھے۔ (آمین)

Mohbt Lazmi Kerna....Ali Ahmd keyani Ki poetery ...Column By Ashraf Asmi


Friday, 16 November 2018

فلسفہ یوٹرن۔۔۔۔ عمران خان کی تاویلات..Written By صاحبزادہ اشرف عاصمی

 فلسفہ یوٹرن۔۔۔۔ عمران خان کی تاویلات

صاحبزادہ اشرف عاصمی

پاکستان میرا عشق ہے کیونکہ اِسے ایک عظیم قانون دان دُھن کے پکے انسان حضرتِ قائد اعظم محمد علی جناح ؒ نے نبی پاک ﷺ کے حکم پر قائم کیا۔ حتیٰ کے وفات سے قبل جناب قائد اعظم محمد علی جناح ؒ نے اپنے ڈاکٹر سے کہا تھا کہ اگر نبی پاکﷺ کا فیضان شامل نہ ہوتا تو پاکستان نہیں بن سکتا تھا۔بانی پاکستان فیصلے کرنے سے پہلے نہایت سوچ بچار کرتے اور پھر اِس فیصلے پر عمل کرنے کے لیے ڈٹ جاتے ۔بانی پاکستان ایک سچے اور کھرئے لیڈر تھے۔
بائیس سال کی سیاسی جدوجہد کے بعد حکومت میں آنے والے عمران خان صاحب نے یو ٹرن کو اپنی سیاست کابنیادی جزو قرار ئے دیا ہے۔ اسلام آباد میں کالم نگاروں کے ساتھ ایک خصوصی ملاقات میں جناب وزیر اعظم نے فرمایا کہ ہٹلر او ر نیپولین بھی تو یوٹرن لیتے تھے۔ شاید خان صاحب نے یہ خیال نہیں کیاکہ یوٹرن کا اُنھیں کیا نقصان ہوا تھا۔ خان صاحب نے خیبر پختون خواہ کی پولیس کو درست کرنیکے دعوئے پر الیکشن لڑا اور اِس دعوئے میں پولیس آفیسر ناصر درانی کا ذکر کرتے رہے۔ ناصر دُرانی صاحب کو پنجاب پولیس کو ٹھیک کرنے کا ٹاسک دیا لیکن اب ناصردُرانی صاحب کا کوئی پتہ نہیں کہ کہاں ہیں۔ نیا آئی جی پنجاب پولیس لگایا اُسے بھی فوری طور پر تبدیل کردیا گیا۔خان صاحب نے اپنی بیگم کے سابقہ شوہر کی شکایت پر یک جنبش قلم اپنے فرماں بردار وزیر اعلی جناب عثمان بہزدار کو کہہ کر ڈی پی او پاکپتن کو تبدیل کردیا۔اِسی طرح ایک اے سی کاتبادلہ کئی مرتبہ کیا گیا۔یوں جگ ہنسائی ہے کہ رُکنے کا نام ہی نہیں لے رہی۔
میری دلی خواہش ہے کہ قوم کی حالت بدلے اور مافیاز نے ہمارئے معاشرئے کے ہر شعبے میں جو پنجے گاڑ رکھے ہیں اِس سے نجات ملے۔لیکن مشرف کی ٹیم کے اراکین پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے فارغ التحصیل الیکٹیبلز اور پرویز الہی جیسے سیاستدان جس طرح کی تبدیلی لا سکتے ہیں وہ سب کو پتہ ہے اورعمران نے اِن سب کو اپنے ساتھ ملایا ہوا ہے۔عمران خان کو عوام نے ووٹ کی طاقت سے منتخب کیا ہے اسٹیبلشمنٹ بھی خان صاحب کے ساتھ دیکھائی دیتی ہے۔اِن حالات میں تو عمران کان صاحب کو ڈلیور کرنا چاہیے لیکن فواد چوہدری اور فیاض چوہان جیسے ترجمان ہوتے ہوئے تحریک انصاف کو دُشمنوں کی کیا ضرورت ہے۔
یہ درست ہے کہ تباہ شدہ معیشت خان صاحب کو ورثے میں ملی ہے۔ آپ کچھ کام کرکے دیکھائیں لیکن آئی ایم ایف کا کشکول تھامے قوم نئے پاکستان میں داخل ہوچکی ہے۔پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے آتے ہی عوام نے بہت ہی زیادہ امیدیں باندھ لی تھیں۔عمران خان پاکستانی معاشرئے میں ایک امید کا نشان ہیں۔ عمران خان کے ذاتی کردار پر بات کرنے والے وہی لوگ ہیں جنہوں نے باقاعدہ طور پر شیخ رشید کو محترمہ بے نظیر بھٹو کی کردار کُشی کے لیے رکھا ہوا تھااور عورت کی حکمرانی کے خلاف طرح طرح کے فتوئے ن لیگ بے نظیر بھٹو کے خلاف شائع کرواتی پھر رہی تھی۔شیخ رشید جو ایک عوامی آدمی ہیں اِنھوں نے نواز شریف کی حمایت میں وہ زبان محترمہ بے نظیر کے خلاف استعمال کی کہ خد اکی پناہ۔ عورت کی حکمرانی کے خلاف فتوئے شائع کروانے والی ن لیگ اب مستقبل میں مریم نواز کو وزیر اعظم کے لیے بھر پور کو شش میں مصروف عمل ہے۔ اِسی لیے تو شہباز شریف اور حمزہ شہباز کا امیج ن لیگیوں میں اِس طرح کا پینٹ کیا گیا ہے کہ یہ تو اِس اہل ہی نہیں ہیں۔ عمران خان کے اوپنر بیٹسمین جناب اسد عمر کی جانب سے جو رویہ سامنے آیا ہے وہ تحریک انصاف کے کارکنوں کے لیے بالخصوص اور عوام الناس کے لیے بالعموم انتہائی عجیب ٹھرا ہے۔ موصوف اپوزیشن میں دئیے گئے اپنے ہی بیانوں کے خلاف اندھا دھند بیان داغ رہے ہیں اور تو اور اسحاق ڈار کے ویژن کو بھی درست قرار دئے چکے ہیں اور نواز شریف کی معاشی ٹیم کے لوگوں کو بھی اپنے گلے کا ہار بنائے ہوئے ہیں۔
عمران خان صاحب نے آتے ہی قوم کو بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کا تحفہ دیا ہے۔ گیس کی قیمتیں بھی بڑھا دی گئی ہیں۔ عام آدمی کو تو صرف طفل تسلیاں ہی دی جارہی ہیں۔مہنگائی بے قابو ہو چکی ہے۔
ان حالات میں پی ٹی آئی کا نظریاتی ورکر بے چین ہے۔ گو کہ خان صاحب کو اقتدار میں آئے چند ماہ ہوئے ہیں لیکن دیگ کا ایک دانہ ہی پوری دیگ کا پتہ دیتا ہے۔ اللہ پاک میرئے وطن پر کرم فرمائے اور کان صاحب سے گزارش ہے کہ آپ پاکستان کی تقدیر بدلنے نکلیں ہیں نہ کہ اپنے یوٹرن لینے والے معاملات کا دفاع کرنے ۔ اِس لیے آپ جنوبی پنجاب کوصوبہ بنانے کا وعدہ فوری طور پر پورا کریں۔اور پنجاب کے ہر ڈویژن میں لاہور ہائیکورٹ کا بینچ بنائیں تاکہ عوام کو سُکھ کا سانس لینا پڑئے۔ صر چند سو وکلاء اور اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی خواہشات پر بنچ بناے کے عمل کو نہ روکیں۔ ملتان، بہالپور، راولپنڈی میں لاہور ہائیکورٹ کے بنچ بننے سے کوئی قیامت نہیںآئی بلکہ لوگوں کو اِس سے بے پناہ فائد ہورہا ہے۔ اتنے بڑئے صوبے کے تما م تر اختیارات کو لاہور میں مرتکز کرنا کسی طور پر بھی قومی یک جہتی کے موافق نہیں ہے۔میری رائے میں خان صاحب اِس قوت ذہنی دباؤ کا شکار ہیں ملک چلانے اور کرکٹ کھیلنے میں فرق ہوتا ہے۔خان صاحب نے جو تقریر آسیہ کی رہائی کے بعد کی وہ بھی ثابت کرتی ہے کہ وہ کتنے پختہ سیاستدان ہیں۔