لاہور ہائی کورٹ کے نئے چیف جسٹس کا عزم
صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ
چشمِ فلک نے عجب نظارہ دیکھا کہ سٹیٹس کو کے مارئے ہوئے نظام میں بھی جان پیدا ہو سکتی ہے۔پنجاب کے عدلیہ کے نئے سربراہ انتہائی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے حامل جج ہیں اور ماضی قریب میں بھی لاہور ہائی کورٹ کے سنےئر جج ہونے کی حثیت سے اُنہوں نے عالتی نظام کو کمپیوٹرائزڈ کرنے لاہور ہائی کورٹ میں سیکورٹی کے انتظا مات کے حوالے سے انتہائی فعال کردار ادا کیا ہے۔جناب منصور شاہ صاحب کی شہرت ایک انتہائی اچھی شخصیت کی ہے۔ اِس وقت جب قوم دہشت گردی معاشی مسائل کا شکار ہے اور عدالتی نظام انتہائی بوسیدہ ہوچکا ہے۔ لوگ عدالتوں میں انصاف کے لیے جانے سے کتراتے ہیں۔ دیونی مقدمات تیس تیس سال تک چلتے ہیں۔ جرائم کی شرح میں بے انتہاء اضافہ ہونے کی وجہ بھی یہ ہی ہے کہ انصاف کے ایوانوں میں انصاف نہیں ہے۔اچانک سٹیٹس کو میں جو سوراخ جناب جسٹس منصور علی شاہ صاحب نے کردیا ہے۔ اِس سے دیکھائی دیتا ہے کہ کہ یہ کسی دیوانے کی بڑھک نہیں ہے بلکہ یہ انتہائی پسے ہوئے عوام کو انصاف دلانے کی جانب ایک انقلابی قدم ہے۔ماضی قریب میں چھ ماہ کے لیے جناب جسٹس منظور ملک صاحب نے لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی ذمہ داریاں انجام دی تھیں۔ اور یقینی طور پر محسوس ہورا تھا کہ اگر کوشش کی جائے تو کچھ بھی ناممکن نہیں ہے۔ امام عالی مقام حضرت امام حسینؒ کے ساتھ نسبت تو ہر مسلمان کو ہے لیکن شاہ صاحب کیونکہ سید زادئے ہیں اِس لیے اِن کا حسب نسب بھی امام عالی مقام حضرت امام حسینؓ سے جُرا ہوا ہے۔ یوں حلف لیے ہی جناب جسٹس منصور علی شاہ نے جس انداز میں رسم شبیری ادا کی ہے اور جو پیغام اُنہوں نے دیا ہے اُس پر یقینی طور پر عوام کی اُن پر امیدیں بڑھ گئی ہیں۔ماتحت عدلیہ میں ٹاوٹوں کی بھرمار، ماتحت عدلیہ کے عملے کی کرپشن پر یقینی طور پر چیف جسٹس صاحب کی نظر ہو گی اور وہ اِس حوالے سے اپنے عزم کا اظہار کر چکے ہیں۔عدلیہ کے ملازمین چپڑاسی سے لے کر ججز تک تمام عملے کی جائیدادوں کا ریکارڈ تیار کیا جائے۔ اور انتہائی پیشہ ورانہ اور ایماندار جوڈیشل افسران پر مشتمل ایک انتیلی جنس ونگ ہونا چاہیے جو خصوصی طور پر ماتحت عدلیہ کے ماتحت عملے کی جانب سائلین کو جو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اُسکا تدارک کرئے۔ چیف جسٹس صاحب نے جو لب و لہجہ اختیار کیا ہے وہ ایسے قائد کا ہے جسے حالات کا ادراک ہے۔جسٹس سید منصور علی شاہ نے لاہور ہائیکورٹ کے 45 ویں چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالنے کے بعد پنجاب جوڈیشل اکیڈمی کے آڈیٹوریم میں لاہور ہائیکورٹ کے تمام سٹاف سے خطاب کیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ کا تمام سٹاف میرے بچوں کی مانند ہیں۔ وہ باپ کی طرح تمام سٹاف کے ساتھ شفقت سے پیش آئیں گے مگر جو بچہ غلط کام کریگا اسے کان سے پکڑ کر ادارے سے نکال باہر کریں گے۔ تمام سٹاف حقیقی ہائیکورٹ ہے، میں آپ کی محنت کو سراہتا ہوں، انہوں نے کہا کہ وہ عدالتی ملازمین کی مشکلات سے آشنا ہیں اور تمام مشکلات کے ازالے کیلئے ہر ممکن اقدام کرینگے۔ عدالتی ملازمین کے پچاس فیصد ایڈہاک الاؤنس سے متعلق وزیر اعلیٰ پنجاب سے بات کی ہے۔ ہم حکومت کے ساتھ ورکنگ ریلیشن شپ قائم کریں گے اور ہر عوامی مسئلے میں حکومت پنجاب کی معاونت کریں گے، چاہتے ہیں کہ پنجاب کا نظام انصاف باقی تمام صوبوں سے بہتر ہو۔ اداروں کو لڑنا نہیں ہے، ہم سب کو مل کر ملک کیلئے کام کرنا ہے اور عام آدمی کو انصاف فراہم کرنا ہے۔ ہم اس ہائی کورٹ کو پورے پاکستان کیلئے مثال بنائیں گے۔ ہائی کورٹ میں بھرتیوں کے رکے ہوئے عمل کو شروع کر دیا گیا ہے جو اگلے پندرہ روز میں مکمل کر لیا جائے گا۔ لاہور ہائی کورٹ میں بھرتیوں کا عمل سو فیصد شفاف انداز میں مکمل کیا جائے گا۔ کسی سفارش کو نہیں مانا جائے گا اس لئے کوئی ایسی جرات بھی نہ کرے۔ خواتین اور جسمانی معذور افراد کو بھی عدالت عالیہ میں کام کرنے کا برابر موقع دیا جائے گا۔ رمضان کے بعد عدالت عالیہ کے کیفے ٹیریا کو فعال کر دیا جائے گا۔ جہاں سب کو ایک جیسا کھانا ملے گا، ہم سب وہاں ایک وقت میں ساتھ بیٹھ کر کھانا کھائیں گے۔ سٹاف و افسروں کی کارکردگی رپورٹس کا نظام وضع کیا جارہا ہے۔ روائتی نظام کی بجائے بہترین کارکردگی کی بنیاد پر پورا اترنے والے ملازمین کو نیچے سے اوپر لائیں گے۔ صرف ادارے کی ترقی کے بارے میں ہمیں سوچنا ہے، ادارہ ماں کا درجہ رکھتا ہے، اس کی عزت و وقار میں اضافہ کا باعث بنیں۔ اپنی سوچ کو مثبت رکھیں، میں آسمان سے نہیں اترا، میرے چیمبر کے دروازے تمام ملازمین کیلئے کھلے ہیں، آپ اگر اپنے گلے شکوے مجھے نہیں بتائیں گے تو کس کو بتائیں گے۔ ملازمین صرف اللہ تعالیٰ سے ڈریں، افسروں سے ڈرنے کی ضرورت نہیں، اپنا کام پوری ایمانداری سے سرانجام دیں اور اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھیں۔ ہائی کورٹ میں انٹرنل آڈٹ کا نظام نہیں ہے، جس کی اس وقت اشد ضرورت ہے، دنیا میں کوئی ادارہ انٹرنل آڈٹ کے بغیر نہیں چل سکتا ہے۔ اس حوالے سے ہم نے پاکستان کی سب سے بڑی آڈٹ فرم سے درخواست کی ہے کہ اس صوبے کی عوام کیلئے ہماری مدد کریں اور ہمیں خوشی ہوئی ہے کہ انہوں نے ہمارے ساتھ ایک سال بے لوث کام کرنے کی رضا مندی ظاہر کی ہے اور اس دورانیے میں عدالت عالیہ لاہور کا اپنا آڈٹ سیل قائم کر لیا جائے گا۔ ہم عدالت عالیہ کے تمام سسٹم کو کمپیوٹرائزڈ کر رہے ہیں، ہر چیز کو آن بورڈ کر یں گے۔ باپ بیٹے کا رشتہ اعتماد کا رشتہ ہوتا ہے، جس نے بھی اس اعتماد کو ٹھیس پہنچائی وہ اس ادارے کا حصہ نہیں رہے گا۔ ہم ایک نیا ادارہ کھڑا کرنے جارہے ہیں، آپ سب کا تعاون شامل حال رہا تو پاکستان میں اپنا نام بنائیں گے، پورا پاکستان آ کر دیکھے گا کہ کیسے ہائی کورٹ بنتا ہے۔ ہائیکورٹ کے ہر کمرے میں کیمرے لگیں گے۔ نماز اور کھانے کا وقفہ بھی ہو گا۔ عوام کو انصاف کی فراہمی ہم سب کی ذمہ داری ہے اس لئے اب عدالت میں کسی کی کوئی بھی سفارش نہیں چلے گی بلکہ تمام فیصلے آئین و قانون اور انصاف کے مطابق ہوں گے اور انصاف کی راہ میں کسی قسم کی کوئی رکاوٹ برداشت نہیں کی جائیگی اور انصاف کیلئے ہر کسی کیلئے لاہور ہائیکورٹ کے دروازے کھلے ہیں۔ چیف جسٹس سید منصور علی شاہ نے کہا ہے کہ عدلیہ کی بہتری کیلئے کام کرنے والے ملازمین کو بے انتہا پیار کروں گا اگر کسی ملازم نے مان اور اعتماد توڑ ا تو اس کے خلاف سخت ترین ایکشن لیا جائے گا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ باپ کی حیثیت سے تنبیہہ کر رہا ہوں کہ عدلیہ کے ادارے میں غلط کام کرنے والے سب ٹھیک ہو جائیں ورنہ سخت باز پرس ہوگی اور کڑا احتساب کیا جائے گا۔ چیف جسٹس سید منصور علی شاہ نے کہا کہ میں اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہوں کہ اس نے مجھے اس عزت و توقیر سے نوازا ہے اور میری پوری کوشش ہو گی کہ مجھے صوبے میں انصاف کے جس سب سے بڑے منصب پر فائز کیا گیا ہے میں نہ صرف اس کے تقاضوں کو پورا کر سکوں بلکہ حق اور انصاف کی فراہمی کو بھی یقینی بنا سکوں۔چیف جسٹس منصور علی شاہ نے کہا ہے کہ میں پروفیشنل وکلا کی عزت کرتا ہوں ججز اکیلے کچھ نہیں کر سکتے کچھ کرنا ہے تو پہلے اکٹھا ہونا اور مل جل کر کام کرنا ہے، ہمارے پاس آواز پہنچانے کا کوئی سسٹم ہی نہیں ہمارے پاس ٹرانسفر پالیسی بھی نہیں سب سے پہلے ایڈوائزری پالیسی بنائی جائے گی، عدالتوں، چیمبرز اور واش رومز کی حالت بہتر کی جائے گی۔ 25سے 30ججز او ایس ڈی کئے، انکوائری ہو گی دس ججز۔ کسی جج کی کرپشن کی گواہی دے دیں وہ کافی ہے ایماندار افسر کے پیچھے میں پہاڑ کی طرح کھڑا ہوں۔ چیف جسٹس نے وکلا کی ججز کے چیمبرز میں داخلے پر پابندی لگاتے کہا کہ وکلا کو ججز کے چیمبرز میں داخلے کی اجازت نہیں ہو گی آپ کے حقوق کیلئے ڈسپلنری کمیٹی بنائی گئی ہے، بدعنوان ججز اور وکلا کو بالکل برداشت نہیں کیا جائے گا۔ سسٹم کو شفاف بنانے کیلئے ضروری ہے کہ ہمارا کردار بے داغ ہو۔ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس سید منصور علی شاہ کی منظوری سے کرپشن اور دیگر الزامات پر اکیس سول جج اور چھ ایڈیشنل سیشن جج صاحبان کو او ایس ڈی بنانے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا۔ پرنسپل سیکرٹری ٹو چیف جسٹس ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج عرفان احمد سعید، ممبر انسپکشن ٹیم لاہور ہائی کورٹ سیشن جج صفدر سلیم شاہد اور ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج اسٹیبلشمنٹ بہادر علی خان بھی او ایس ڈی بنانے کے احکامات جاری کر دیئے گئے ہیں۔ نوٹیفکیشنز کے مطابق او ایس ڈی بننے والوں میں سول جج درجہ اول نصرت علی صدیقی، ملک شیخ اللہ بخش، حافظ محمد اقبال کلیار، ہدایت اللہ شاہ، مزمل سپرا، محمد طارق، سید احمد اعوان، جواد عالم قریشی، ندیم خضر رانجھا، ندیم عباس ساقی، محمد یوسف ہنجرا، نثار احمد، محمد منصور عطا، ذوالفقار احمد، غلام مصطفی، فیض احمد رانجھا، محمد نوازش خان چودھری، محمد افضل بھٹی، شہزاد اسلم، نور محمد اور سول جج عبدالکریم شامل ہیں، او ایس ڈی بننے والے ایڈیشنل سیشن جج صاحبان میں چودھری جمیل احمد، سید محمد ظفر عباس سبزواری، محمد علی رانا، محمد بخش مسعود ہاشمی، محمد رفعت سلطان شیخ اور سید احسن محبوب بخاری شامل ہیں۔ مزید برآں چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ سید منصور علی شاہ کے پرائیویٹ سیکرٹری سید زاہد حسین شاہ کو گریڈ انیس میں ترقی دیدی گئی ہے۔ نوٹیفکیشن کے مطابق سید زاہد حسین شاہ کو گریڈ انیس میں ترقی دے کر پرائیویٹ سیکرٹری ٹو چیف جسٹس کام کرنے کی ہدایت کی گئی ہے جبکہ اس عہدے پر تعینات پرائیویٹ سیکرٹری عامر خلیل چشتی کو پول میں رپورٹ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ علاوہ ازیں پنجاب کی خواتین ججز کے تحفظ کیلئے کمیٹی قائم کر دی گئی ہے۔ چیف جسٹس ہائی کورٹ نے کمیٹی کے قیام کی منظوری دیدی۔ سربراہی جسٹس کاظم رضا شمسی کرینگے۔ کمیٹی میں جسٹس عالیہ نیلم، عائشہ ملک، محمود مقبول باجوہ ہوں گے۔اللہ پاک جسٹس منصور علی شاہ صاحب کو ہمت عطا فرمائے عوام نے اُن سے بہت سی اُمیدیں باندھ لی ہیں۔