Thursday, 30 June 2016

لاہور ہائی کورٹ کے نئے چیف جسٹس کا عزم ..........................bY صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ



لاہور ہائی کورٹ کے نئے چیف جسٹس کا عزم

صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ 

چشمِ فلک نے عجب نظارہ دیکھا کہ سٹیٹس کو کے مارئے ہوئے نظام میں بھی جان پیدا ہو سکتی ہے۔پنجاب کے عدلیہ کے نئے سربراہ انتہائی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے حامل جج ہیں اور ماضی قریب میں بھی لاہور ہائی کورٹ کے سنےئر جج ہونے کی حثیت سے اُنہوں نے عالتی نظام کو کمپیوٹرائزڈ کرنے لاہور ہائی کورٹ میں سیکورٹی کے انتظا مات کے حوالے سے انتہائی فعال کردار ادا کیا ہے۔جناب منصور شاہ صاحب کی شہرت ایک انتہائی اچھی شخصیت کی ہے۔ اِس وقت جب قوم دہشت گردی معاشی مسائل کا شکار ہے اور عدالتی نظام انتہائی بوسیدہ ہوچکا ہے۔ لوگ عدالتوں میں انصاف کے لیے جانے سے کتراتے ہیں۔ دیونی مقدمات تیس تیس سال تک چلتے ہیں۔ جرائم کی شرح میں بے انتہاء اضافہ ہونے کی وجہ بھی یہ ہی ہے کہ انصاف کے ایوانوں میں انصاف نہیں ہے۔اچانک سٹیٹس کو میں جو سوراخ جناب جسٹس منصور علی شاہ صاحب نے کردیا ہے۔ اِس سے دیکھائی دیتا ہے کہ کہ یہ کسی دیوانے کی بڑھک نہیں ہے بلکہ یہ انتہائی پسے ہوئے عوام کو انصاف دلانے کی جانب ایک انقلابی قدم ہے۔ماضی قریب میں چھ ماہ کے لیے جناب جسٹس منظور ملک صاحب نے لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی ذمہ داریاں انجام دی تھیں۔ اور یقینی طور پر محسوس ہورا تھا کہ اگر کوشش کی جائے تو کچھ بھی ناممکن نہیں ہے۔ امام عالی مقام حضرت امام حسینؒ کے ساتھ نسبت تو ہر مسلمان کو ہے لیکن شاہ صاحب کیونکہ سید زادئے ہیں اِس لیے اِن کا حسب نسب بھی امام عالی مقام حضرت امام حسینؓ سے جُرا ہوا ہے۔ یوں حلف لیے ہی جناب جسٹس منصور علی شاہ نے جس انداز میں رسم شبیری ادا کی ہے اور جو پیغام اُنہوں نے دیا ہے اُس پر یقینی طور پر عوام کی اُن پر امیدیں بڑھ گئی ہیں۔ماتحت عدلیہ میں ٹاوٹوں کی بھرمار، ماتحت عدلیہ کے عملے کی کرپشن پر یقینی طور پر چیف جسٹس صاحب کی نظر ہو گی اور وہ اِس حوالے سے اپنے عزم کا اظہار کر چکے ہیں۔عدلیہ کے ملازمین چپڑاسی سے لے کر ججز تک تمام عملے کی جائیدادوں کا ریکارڈ تیار کیا جائے۔ اور انتہائی پیشہ ورانہ اور ایماندار جوڈیشل افسران پر مشتمل ایک انتیلی جنس ونگ ہونا چاہیے جو خصوصی طور پر ماتحت عدلیہ کے ماتحت عملے کی جانب سائلین کو جو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اُسکا تدارک کرئے۔ چیف جسٹس صاحب نے جو لب و لہجہ اختیار کیا ہے وہ ایسے قائد کا ہے جسے حالات کا ادراک ہے۔جسٹس سید منصور علی شاہ نے لاہور ہائیکورٹ کے 45 ویں چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالنے کے بعد پنجاب جوڈیشل اکیڈمی کے آڈیٹوریم میں لاہور ہائیکورٹ کے تمام سٹاف سے خطاب کیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ کا تمام سٹاف میرے بچوں کی مانند ہیں۔ وہ باپ کی طرح تمام سٹاف کے ساتھ شفقت سے پیش آئیں گے مگر جو بچہ غلط کام کریگا اسے کان سے پکڑ کر ادارے سے نکال باہر کریں گے۔ تمام سٹاف حقیقی ہائیکورٹ ہے، میں آپ کی محنت کو سراہتا ہوں، انہوں نے کہا کہ وہ عدالتی ملازمین کی مشکلات سے آشنا ہیں اور تمام مشکلات کے ازالے کیلئے ہر ممکن اقدام کرینگے۔ عدالتی ملازمین کے پچاس فیصد ایڈہاک الاؤنس سے متعلق وزیر اعلیٰ پنجاب سے بات کی ہے۔ ہم حکومت کے ساتھ ورکنگ ریلیشن شپ قائم کریں گے اور ہر عوامی مسئلے میں حکومت پنجاب کی معاونت کریں گے، چاہتے ہیں کہ پنجاب کا نظام انصاف باقی تمام صوبوں سے بہتر ہو۔ اداروں کو لڑنا نہیں ہے، ہم سب کو مل کر ملک کیلئے کام کرنا ہے اور عام آدمی کو انصاف فراہم کرنا ہے۔ ہم اس ہائی کورٹ کو پورے پاکستان کیلئے مثال بنائیں گے۔ ہائی کورٹ میں بھرتیوں کے رکے ہوئے عمل کو شروع کر دیا گیا ہے جو اگلے پندرہ روز میں مکمل کر لیا جائے گا۔ لاہور ہائی کورٹ میں بھرتیوں کا عمل سو فیصد شفاف انداز میں مکمل کیا جائے گا۔ کسی سفارش کو نہیں مانا جائے گا اس لئے کوئی ایسی جرات بھی نہ کرے۔ خواتین اور جسمانی معذور افراد کو بھی عدالت عالیہ میں کام کرنے کا برابر موقع دیا جائے گا۔ رمضان کے بعد عدالت عالیہ کے کیفے ٹیریا کو فعال کر دیا جائے گا۔ جہاں سب کو ایک جیسا کھانا ملے گا، ہم سب وہاں ایک وقت میں ساتھ بیٹھ کر کھانا کھائیں گے۔ سٹاف و افسروں کی کارکردگی رپورٹس کا نظام وضع کیا جارہا ہے۔ روائتی نظام کی بجائے بہترین کارکردگی کی بنیاد پر پورا اترنے والے ملازمین کو نیچے سے اوپر لائیں گے۔ صرف ادارے کی ترقی کے بارے میں ہمیں سوچنا ہے، ادارہ ماں کا درجہ رکھتا ہے، اس کی عزت و وقار میں اضافہ کا باعث بنیں۔ اپنی سوچ کو مثبت رکھیں، میں آسمان سے نہیں اترا، میرے چیمبر کے دروازے تمام ملازمین کیلئے کھلے ہیں، آپ اگر اپنے گلے شکوے مجھے نہیں بتائیں گے تو کس کو بتائیں گے۔ ملازمین صرف اللہ تعالیٰ سے ڈریں، افسروں سے ڈرنے کی ضرورت نہیں، اپنا کام پوری ایمانداری سے سرانجام دیں اور اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھیں۔ ہائی کورٹ میں انٹرنل آڈٹ کا نظام نہیں ہے، جس کی اس وقت اشد ضرورت ہے، دنیا میں کوئی ادارہ انٹرنل آڈٹ کے بغیر نہیں چل سکتا ہے۔ اس حوالے سے ہم نے پاکستان کی سب سے بڑی آڈٹ فرم سے درخواست کی ہے کہ اس صوبے کی عوام کیلئے ہماری مدد کریں اور ہمیں خوشی ہوئی ہے کہ انہوں نے ہمارے ساتھ ایک سال بے لوث کام کرنے کی رضا مندی ظاہر کی ہے اور اس دورانیے میں عدالت عالیہ لاہور کا اپنا آڈٹ سیل قائم کر لیا جائے گا۔ ہم عدالت عالیہ کے تمام سسٹم کو کمپیوٹرائزڈ کر رہے ہیں، ہر چیز کو آن بورڈ کر یں گے۔ باپ بیٹے کا رشتہ اعتماد کا رشتہ ہوتا ہے، جس نے بھی اس اعتماد کو ٹھیس پہنچائی وہ اس ادارے کا حصہ نہیں رہے گا۔ ہم ایک نیا ادارہ کھڑا کرنے جارہے ہیں، آپ سب کا تعاون شامل حال رہا تو پاکستان میں اپنا نام بنائیں گے، پورا پاکستان آ کر دیکھے گا کہ کیسے ہائی کورٹ بنتا ہے۔ ہائیکورٹ کے ہر کمرے میں کیمرے لگیں گے۔ نماز اور کھانے کا وقفہ بھی ہو گا۔ عوام کو انصاف کی فراہمی ہم سب کی ذمہ داری ہے اس لئے اب عدالت میں کسی کی کوئی بھی سفارش نہیں چلے گی بلکہ تمام فیصلے آئین و قانون اور انصاف کے مطابق ہوں گے اور انصاف کی راہ میں کسی قسم کی کوئی رکاوٹ برداشت نہیں کی جائیگی اور انصاف کیلئے ہر کسی کیلئے لاہور ہائیکورٹ کے دروازے کھلے ہیں۔ چیف جسٹس سید منصور علی شاہ نے کہا ہے کہ عدلیہ کی بہتری کیلئے کام کرنے والے ملازمین کو بے انتہا پیار کروں گا اگر کسی ملازم نے مان اور اعتماد توڑ ا تو اس کے خلاف سخت ترین ایکشن لیا جائے گا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ باپ کی حیثیت سے تنبیہہ کر رہا ہوں کہ عدلیہ کے ادارے میں غلط کام کرنے والے سب ٹھیک ہو جائیں ورنہ سخت باز پرس ہوگی اور کڑا احتساب کیا جائے گا۔ چیف جسٹس سید منصور علی شاہ نے کہا کہ میں اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہوں کہ اس نے مجھے اس عزت و توقیر سے نوازا ہے اور میری پوری کوشش ہو گی کہ مجھے صوبے میں انصاف کے جس سب سے بڑے منصب پر فائز کیا گیا ہے میں نہ صرف اس کے تقاضوں کو پورا کر سکوں بلکہ حق اور انصاف کی فراہمی کو بھی یقینی بنا سکوں۔چیف جسٹس منصور علی شاہ نے کہا ہے کہ میں پروفیشنل وکلا کی عزت کرتا ہوں ججز اکیلے کچھ نہیں کر سکتے کچھ کرنا ہے تو پہلے اکٹھا ہونا اور مل جل کر کام کرنا ہے، ہمارے پاس آواز پہنچانے کا کوئی سسٹم ہی نہیں ہمارے پاس ٹرانسفر پالیسی بھی نہیں سب سے پہلے ایڈوائزری پالیسی بنائی جائے گی، عدالتوں، چیمبرز اور واش رومز کی حالت بہتر کی جائے گی۔ 25سے 30ججز او ایس ڈی کئے، انکوائری ہو گی دس ججز۔ کسی جج کی کرپشن کی گواہی دے دیں وہ کافی ہے ایماندار افسر کے پیچھے میں پہاڑ کی طرح کھڑا ہوں۔ چیف جسٹس نے وکلا کی ججز کے چیمبرز میں داخلے پر پابندی لگاتے کہا کہ وکلا کو ججز کے چیمبرز میں داخلے کی اجازت نہیں ہو گی آپ کے حقوق کیلئے ڈسپلنری کمیٹی بنائی گئی ہے، بدعنوان ججز اور وکلا کو بالکل برداشت نہیں کیا جائے گا۔ سسٹم کو شفاف بنانے کیلئے ضروری ہے کہ ہمارا کردار بے داغ ہو۔ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس سید منصور علی شاہ کی منظوری سے کرپشن اور دیگر الزامات پر اکیس سول جج اور چھ ایڈیشنل سیشن جج صاحبان کو او ایس ڈی بنانے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا۔ پرنسپل سیکرٹری ٹو چیف جسٹس ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج عرفان احمد سعید، ممبر انسپکشن ٹیم لاہور ہائی کورٹ سیشن جج صفدر سلیم شاہد اور ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج اسٹیبلشمنٹ بہادر علی خان بھی او ایس ڈی بنانے کے احکامات جاری کر دیئے گئے ہیں۔ نوٹیفکیشنز کے مطابق او ایس ڈی بننے والوں میں سول جج درجہ اول نصرت علی صدیقی، ملک شیخ اللہ بخش، حافظ محمد اقبال کلیار، ہدایت اللہ شاہ، مزمل سپرا، محمد طارق، سید احمد اعوان، جواد عالم قریشی، ندیم خضر رانجھا، ندیم عباس ساقی، محمد یوسف ہنجرا، نثار احمد، محمد منصور عطا، ذوالفقار احمد، غلام مصطفی، فیض احمد رانجھا، محمد نوازش خان چودھری، محمد افضل بھٹی، شہزاد اسلم، نور محمد اور سول جج عبدالکریم شامل ہیں، او ایس ڈی بننے والے ایڈیشنل سیشن جج صاحبان میں چودھری جمیل احمد، سید محمد ظفر عباس سبزواری، محمد علی رانا، محمد بخش مسعود ہاشمی، محمد رفعت سلطان شیخ اور سید احسن محبوب بخاری شامل ہیں۔ مزید برآں چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ سید منصور علی شاہ کے پرائیویٹ سیکرٹری سید زاہد حسین شاہ کو گریڈ انیس میں ترقی دیدی گئی ہے۔ نوٹیفکیشن کے مطابق سید زاہد حسین شاہ کو گریڈ انیس میں ترقی دے کر پرائیویٹ سیکرٹری ٹو چیف جسٹس کام کرنے کی ہدایت کی گئی ہے جبکہ اس عہدے پر تعینات پرائیویٹ سیکرٹری عامر خلیل چشتی کو پول میں رپورٹ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ علاوہ ازیں پنجاب کی خواتین ججز کے تحفظ کیلئے کمیٹی قائم کر دی گئی ہے۔ چیف جسٹس ہائی کورٹ نے کمیٹی کے قیام کی منظوری دیدی۔ سربراہی جسٹس کاظم رضا شمسی کرینگے۔ کمیٹی میں جسٹس عالیہ نیلم، عائشہ ملک، محمود مقبول باجوہ ہوں گے۔اللہ پاک جسٹس منصور علی شاہ صاحب کو ہمت عطا فرمائے عوام نے اُن سے بہت سی اُمیدیں باندھ لی ہیں۔ 

Saturday, 11 June 2016

پاکستان فلاح پارٹی نے اردو زبان کے نفاذ میں تاخیری حربے استعمال کرنے پر وفاقی حکومت کو قانونی نوٹس بجھوادیا۔ قانونی نوٹس پاکستان فلاح پارٹی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ نے وزیر اعظم پاکستان کے نام بجھوایا ہے۔

پاکستان فلاح پارٹی نے اردو زبان کے نفاذ میں تاخیری 

حربے استعمال کرنے پر وفاقی حکومت کو قانونی نوٹس 

بجھوادیا۔ قانونی نوٹس پاکستان فلاح پارٹی کے مرکزی 

سیکرٹری اطلاعات صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی 

ایڈووکیٹ نے وزیر اعظم پاکستان کے نام بجھوایا ہے۔




Thursday, 9 June 2016

گھر سے بھاگ کر شادی کرنے کا رحجان............................ صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ ہائی کورٹ


آہوں بھرئے سانحہ ماڈل ٹاون کے بیتے ہوئے دو سال ۔ حکمران اشرافیہ نے چینگیز خان کو مات دئے دی...... صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ ہائی کورٹ


آہوں بھرئے سانحہ ماڈل ٹاون کے بیتے ہوئے دو سال ۔ 

حکمران اشرافیہ نے چینگیز خان کو مات دئے دی

صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ ہائی کورٹ 

سانحہ ماڈل ٹاون لاہور کو دو سال بیت گئے۔ جس وقت کمیشن لاہور ہائی کورٹ جسٹس جناب علی باقر نجفی سانحہ ماڈل ٹاون لاہور کے حوالے سے جوڈیشل انکوئری ہوری تھی۔ تو راقم قانون کے ادنی طالب علم ہونے کی حثیت سے اور ہیومن راٹس کا علمبردار ہونے کے ناطے جو ڈیشل انکوئرای میں جاتا رہا ہے ۔ جسٹس علی باقر نجفی کی انکوئری رپورٹ کو شائع کرنے کی بجائے حکمرانوں نے علی باقر نجفی کی رپورٹ پر اتنا بُرا منایا کہ خدا کی پناہ نہ تو جناب علی باقر نجفی کمیشن کی رپورٹ کو حکومت نے جاری کیا اور نہ ہی اِس رپورٹ پر کوئی ایکشن لیا بلکہ حکمرانوں نے طاقت کے نشے میں للکارا کہ علی باقر نجفی صاحب نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا ہے اِن کے متعلق جو ڈیشل کونسل سے رجوع کیا جائے گا۔ ظلم کی رات جب عروج پر ہو۔ حکمران جب طاقت کے نشے میں ہوں تو اُنھیں صرف وہ آواز اچھی لگتی ہے جو اُن کے کانوں کو بھاتی ہو۔ سانحہ ماڈل ٹاون میں مرنے والوں کے نام یہ ہیں۔شازیہ مرتضیٰ زوجہ غلام مرتضیٰ۔ باغبانپورہ لاہور، پاکستان۔ عمر 28 سال۔تنزیلہ امجد زوجہ محمد امجد۔ باغبانپورہ لاہور، پاکستان۔ عمر 30 سال۔محمد عمر صدیق ولد میاں محمد صدیق۔ کوٹ لکھپت لاہور، پاکستان۔ عمر 19 سال۔صفدر حسین ولد علی محمد۔ شیخوپورہ، پاکستان۔ عمر 35 سال۔عاصم حسین ولد معراج دین۔ گاؤں مناواں لاہور، پاکستان۔ عمر 22 سال۔غلام رسول ولد محمد بخش۔ تاج پورہ سکیم لاہور، پاکستان۔ عمر 56 سال۔محمد اقبال ولد خیر دین۔ چونگی امرسدھو لاہور، پاکستان۔ عمر 42 سال۔محمد رضوان خان ولد محمد خان۔ چکوال، پاکستان۔ عمر 20 سال (طالب علم شریعہ کالج، منہاج یونیورسٹی)خاور نوید رانجھا ولد محمد صدیق۔ کوٹ مومن سرگودھا، پاکستان۔ عمر 20 سال (طالب علم شریعہ کالج، منہاج یونیورسٹی)محمد شہباز ولد اظہر حسین۔ مریدکے، پاکستان۔ عمر 17 سال۔ اپنے ملک میں اپنے ملک کی ہی پولیس جس کا ماٹو ہے مدد آپ کی اُس کے ہاتھوں اپنے ہی شہریوں کا قتل۔ دو خواتین بھی انتہائی بے دردی سے قتل کردی گئیں۔یقینی طور پاکستانی سر زمین پر لاہور میں پاکستان بننے کے بعد حکومت کی جانب سے اپنی ہی آبادی کو جتنی بے دردی سے شہید کیا گیا اُس کی مثال نہیں ملتی۔ اِن لوگوں کا قصور اگر صرف اتنا تھا کہ وہ حکومت مخالف جماعت کے حامی تھے تو پھر یقین جانیے پاکستان جن مقاصد کے لیے بنایا گیا تھا اُس سوچ اور نظریے پر اِس سے بڑی کاری ضرب اور کوئی نہیں ہو سکتی۔آپریشن ضرب عضب کے آغاز کے معاً بعد 16 جون کو کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان شاہداللہ شاہد نے اسلام آباد اور لاہور کو آگ لگانے کی دھمکی دی ]5[ اسی رات دو بجے پنجاب حکومت نے خود لاہور میں اس تباہی کا آغاز کر دیا، جس نے جلیانوالہ باغ کی یاد تازہ کردی۔ طالبان نے نون لیگ کو دھمکی دی تھی کہ وہ ان کی مدد سے اقتدار میں آنے کے باوجود اپنا وعدہ پورا کرتے ہوئے فوج کو ان کے خلاف آپریشن سے کیوں نہیں روک پائی؟ پنجاب حکومت نے اسی رات تجاوزات ہٹانے کی آڑ میں لاہور کے درجن بھر تھانوں سے پنجاب پولیس کے تین ہزار اہلکاروں کے ذریعہ آدھی رات کو تحریک منہاج القرآن کے مرکزی سیکرٹریٹ اور ڈاکٹر طاہرالقادری کے گھر پہ حملہ کرواتے ہوئے نہ صرف اپنا غصہ اتارا بلکہ طالبان کو بھی واضح پیغام دے دیا کہ وہ پاک آرمی کو ڈاکٹر طاہرالقادری کی تقریروں اور دلیلوں کی وجہ سے روک نہیں پائی۔ اور اب ان کے گھر کے باہر لاہور ہائی کورٹ کے حکم سے کئی سال قبل لگائی گئی حفاظتی باڑ کو بلڈوز کرکے طالبان کو کھلا موقع اور راستہ دے دیا کہ وہ جب چاہیں ان سے بدلہ لے سکیں۔منہاج القرآن سیکرٹریٹ کے گرد سیکیورٹی بیریئرز چار سال قبل ہائی کورٹ کے حکم سے ماڈل ٹاون پولیس کی نگرانی میں لگائے گئے تھے۔منہاج القرآن سیکرٹریٹ کے گرد سیکیورٹی بیریئرز چار سال قبل ہائی کورٹ کے حکم سے ماڈل ٹاون پولیس کی نگرانی میں لگائے گئے تھے۔17جون 2014ء کی صبح 2 بجے پنجاب پولیس نے لا ہورکے مضافاتی علاقے ماڈل ٹاؤن میں واقع ڈاکٹر طاہرالقادر ی کی رہائش گاہ اور منہاج القرآن انٹرنیشنل کے مرکزی سیکرٹریٹ کے باہرموجودرکاوٹوں کوہٹانے کے لئے ایک آپریشن کاآغازکیا۔پولیس کی ایک بھاری نفری پاکستان عوامی تحریک کے صدر مقام پہنچی، جہاں انہوں نے پاکستان عوامی تحریک کے کارکنان سے رکاوٹیں ہٹانے کو کہا، جو ان کے حساب سے غیرقانونی تھیں۔یہ چھاپہ پولیس کے ان صبح کے معمول کے چھاپوں کے برعکس تھا جن کا انعقاد پولیس اس طرح کے معاملات میں کرتی ہے۔ پاکستان عوامی تحریک کے کارکنان کا موقف تھا کہ یہ رکاوٹیں قانونی ہیں اور یہ چار سال قبل اس وقت ڈاکٹر طاہرالقادری کی رہائش گاہ اور دفاتر کے گرد لگائی گئیں تھی جب ڈاکٹر طاہرالقادری نے طالبان کے خلاف فتوٰی دیا تھا۔ اس کے باوجود پولیس نے بلڈوزرز کی مدد سے رکاوٹوں کو ہٹانے اور تباہ کرنے کا آپریشن جاری رکھا،جس نے عوامی تحریک کے کارکنان کو پولیس کی کاروئی کے خلاف مزاحمت اور احتجاج کرنے پر اکسایا۔پولیس افسران کو ماڈل ٹاؤن پولیس ہی کی جانب سے جاری کردہ وہ سرکلر دکھایا گیا، جس میں دہشت گردی کے ممکنہ خطرات کے پیش نظر عدالتی احکامات کے مطابق سیکورٹی انتظامات کرنے کا کہا گیا تھا۔ انہیں بتایا گیا کہ یہ بیریئرز فیصل ٹاؤن تھانے کے آفیسرز کی مشاورت اور رہنمائی میں ہی لگائے گئے ہیں، مگر انہوں نے اس سرکلر کو ماننے سے انکار کر دیا۔ پاکستان عوامی تحریک کے مرکزی قائدین نے متعدد بار پولیس افسران سے بات چیت کی، مگر پولیس آفیسرز نے عدالتی احکامات کو ماننے کی بجائے مزید جارحانہ رویہ اختیار کر لیا اور مرکزی سیکرٹریٹ کے سٹاف ممبران اور طلباء پر لاٹھی چارج کرنا شروع کر دیا۔ ان تمام معاملات کو دیکھ کر یوں محسوس ہو رہا تھا جیسا کہ پولیس ان رکاوٹوں کو ہٹانے نہیں بلکہ کسی اور منصوبے کے تحت یہ آپریشن کرنے آئی ہے۔ بارہ تھانوں کی پولیس کی مدد سے رات دو بجے سے جاری آپریشن کے دوران کل چار حملے کئے گئے۔ پہلے تین حملوں میں زہریلی آنسو گیس اور لاٹھی چارج کیا گیا، جبکہ آخری حملے کے دوران سو سے زیادہ لوگوں پر سیدھے فائرنگ کی گئی۔وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے حکم پر ماڈل ٹاؤن واقعہ میں ہونے والی ہلاکتوں کی تحقیقات کے لئے جسٹس باقر علی نجفی پر مشتمل یک رکنی عدالتی کمیشن تشکیل دیا گیا، جس کے احکامات لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس امتیاز علی خواجہ نے جاری کئے، جنہوں نے اُسی دن ہی نئے چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کا حلف اٹھایا تھا۔پاکستان عوامی تحریک نے حکومت کی طرف سے تشکیل دیئے گئے جوڈیشنل کمیشن کا بائیکاٹ کرتے ہوئے اس کو مکمل طور پر مسترد کر دیا اور مطالبہ کیا کہ وزیراعلیٰ پنجاب اس قتل و دہشت گردی کے اصل ذمہ دار ہیں، چنانچہ ان کے مسندِ اقتدار پر رہتے ہوئے کسی قسم کی غیرجانبدارانہ تفتیش وشہادتوں کا کوئی امکان ہے نہ ہی عدل و انصاف کے تقاضوں کی بجا آوری ممکن ہے۔ لہٰذا وزیراعلیٰ پنجاب اور اس جرم میں شریک وزراء فی الفور مستعفی ہو کر خود کو قانون کے حوالے کریں۔ اسی طرح سانحہ ماڈل ٹاؤن لاہور میں ملوث جملہ پولیس افسران اور انتظامی عہدیداران بشمول IG، DIG آپریشنز، ہوم سیکرٹری پنجاب، DCO، CCPO، SSPs، SP ماڈل ٹاؤن اور متعلقہ DSPs اور SHOs کو فوری طور پر برطرف کرکے قتل عام، دہشت گردی اور اقدامِ قتل کے جرم میں گرفتار کیا جائے۔اس کے بعد سانحہ ماڈل ٹاؤن لاہور کی آزادانہ، غیرجانبدارانہ تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کے تین ایسے غیر متنازعہ، غیر جانبداراور اچھی شہرت کے حامل ججز جن پر متاثرین کو مکمل اعتماد ہو، پر مشتمل بااختیار جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا جائے۔ کمیشن کو یہ اختیار دیا جائے کہ وہ وزیراعظم، نامزد وفاقی وزراء، وزیراعلیٰ پنجاب سمیت کسی بھی حکومتی و انتظامی شخصیت یا اہلکار کو طلب کرسکے۔ مزید برآں جوڈیشنل کمیشن سانحہ ماڈل ٹاؤن کی تحقیقات کے لئے تحقیقی اداروں کے اچھی شہرت کے حامل اعلیٰ افسران جن پر متاثرین کو مکمل اعتماد ہو، پرمشتمل انکوائری کمیٹی تشکیل دی جائے۔مورخہ 10 جولائی کو ڈاکٹر طاہرالقادری نے پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن پر قائم ٹربیونل یکطرفہ، بے مقصد اور فراڈ پر مبنی ٹربیونل ہے۔ قاتل پولیس قاتل مدعی بن بیٹھی ہے۔ من گھڑت شہادتیں اور جھوٹے ثبوت پیش کئے جا رہے ہیں۔ ٹربیونل کے جج کو چاہیئے تھا کہ اس قتل عام کا حکم دینے والے وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف کو استعفیٰ دینے اور مظلوموں کی مدعیت میں FIR درج کرنے کا حکم دیتا۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعلی کے موبائل فون ریکارڈ کی طلبی پر ٹربیونل کے رجسٹرار جوادالحسن کو ہٹا دیا گیا ہے اور اس ٹربیونل کو سانحہ میں ملوث عناصر اور ذمہ داروں کا تعین کرنے کا کوئی اختیار نہیں دیا گیا اوراس قتل عام میں ملوث چین آف کمانڈ، چیف سیکرٹری، ہوم سیکرٹری، آئی جی پولیس، ڈی آئی جی آپریشنز، ایس پی ماڈل ٹاؤن اور SHOs میں سے کسی کو ان کے عہدوں سے تاحال ہٹایا نہیں گیا۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن جوڈیشل ٹربیونل کو پولیس سے تفتیش کرانے کے اختیارات دینے کی درخواست پر پنجاب حکومت کی خاموشی نے جوڈیشل ٹربیونل کو مزید مشکلات کا شکار کر دیا۔ پنجاب حکومت کی طرف سے سیکشن گیارہ کے اختیارات دینے سے انکار کے بعد ٹریبونل کا کردار صرف انکوائری تک محدود رہ گیا، کسی پر اس اندوہناک سانحہ کی ذمہ داری عائد نہیں کی جا سکے گی۔مورخہ 19 جون کو لاہور ہائی کورٹ کے سینئر جج جسٹس علی باقر نجفی کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن نے تحقیقات کا آغاز کیا تو جوڈیشل تحقیقات کے پہلے روز ہی حکام نے کمیشن سے تعاون نہیں کیا بلکہ ادھوری رپورٹس کے ساتھ پیش ہو کر بحث میں الجھے رہے۔ اس روز آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا، ڈی سی او کیپٹن ریٹائرڈ عثمان اور ڈی جی ایل ڈی اے احد چیمہ کمیشن کے سامنے پیش ہوئے۔مورخہ 6 جولائی کو فرانزک ماہرین نے کرائم سین دیکھے بغیر رپورٹ بنانے سے انکار کردیا۔ مورخہ 9 جولائی کو فرانزک حکام اور جے آئی ٹی نے سا نحہ ماڈل ٹاؤن کے بارے میں شہادتیں ضائع ہونے کی بناء پر رپورٹ دینے سے معذرت کر لی۔مورخہ 9 جولائی کو جوڈیشل کمیشن نے وزیراعلی متعلقہ حکام اور پولیس افسروں کی ٹیلیفونک گفتگو کا ریکارڈ طلب کر لیا۔ علاوہ ازیں کمیشن نے آئی ایس آئی اور آئی بی کے ڈائریکٹرز سے بھی رپورٹ، ریکارڈ اور ٹیکنیکل معاونت مانگ لی۔ دوسری طرف پنجاب حکومت نے جوڈیشل ٹریبونل کے دائرہ کار پہ اعتراض کر دیا۔مورخہ 13 جولائی کو مشترکہ تفتیشی ٹیم نے تحقیقات کے دوران چار ایس پیز اور 20 اہلکاروں کو سانح? ماڈل ٹاؤن کا ذمہ دار قرار دے کر ان کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کر لیا۔ مورخہ 15 جولائی کو مشترکہ تفتیشی ٹیم نے وزیراعلی شہبازشریف اور رانا ثناء اللہ سمیت 18 شخصیات کے ٹیلیفون ریکارڈ یک رکنی ٹریبونل جسٹس علی باقر نجفی کو جمع کروا دیا۔ مورخہ 16 جولائی کو سانحہ کے ایک ماہ بعد جاری ہونے والی فرانزک رپورٹ میں نہ صرف منہاج القرآن کے پانچ سٹوڈنٹس پر فائرنگ کا الزام عائد کیا گیا بلکہ حملہ آور پولیس والوں کی تعداد صرف 15 قرار دی گئی۔ حالانکہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی براہ راست نشریات کے دوران ملک بھر کے میڈیا چینلز نے ہزاروں کی تعداد میں پولیس کو نہتے لوگوں پر بربریت کرتے دکھایا تھا۔ 
مورخہ 16 جولائی کو سانحہ ماڈل ٹاؤن کی تحقیقات کرنے والی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم نے دعوی کیا کہ انہوں نے نہ صرف فائرنگ کرنے والے عوامی تحریک کے پانچ کارکنوں کا سراغ لگا لیا ہے برآمد ہونے والے اسلحے کی تصدیق بھی کر لی ہے۔ مورخہ 27 جولائی کو شہبازشریف نے اپنے بیان حلفی میں اقرار کیا کہ سابق صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ کی زیرصدارت ہونے والے اجلاس میں پولیس آپریشن کا فیصلہ کیا گیا، جس سے وہ مکمل طور پر لاعلم رہے۔مورخہ 12 جولائی کو سانح? ماڈل ٹاؤن کی انکوائری کرنے والے جج جسٹس علی باقر نجفی کو سنگین نتائج کا دھمکی آمیز خط موصول ہوا۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے لیے بنائیگئے یکطرفہ جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کے مطابق وزیراعلیٰ پنجاب کو اس سانحہ کا براہ راست ملزم قرار دیا گیا، رپورٹ کا کچھ حصہ دنیا نیوز کے اینکر پرسن کامران شاہد نے اپنے ایک پروگرام میں ذکر بھی کیا۔اب دہشت گردی کی عدالت میں کیس چل رہا ہے۔حکمران طبقے نے جس طرح کا کردار ماڈل ٹاون میں کیا اور جس طرح کا مکروہ رول گلوبٹوں کا سامنے آیا۔ یقینی طور پر اللہ پاک نے اِس حساب کو بے باق کرنا ہے اور سانحہ ماڈل ٹاون کے شہدا کے خون سے جو ہولی کھیلی گئی۔ مورخ اِس بترین حکومتی دہشت گردی کو کیسے فراموش کر پائے گا۔ اللہ پاک کی لاٹھی بے آواز ہے۔ راقم کو اِس بات سے غراض نہیں کہ کسی کے کیا سایسی مقاصد ہیں لیکن جو حشر سانحہ ماڈل ٹاون میں معصوم نہتے لوگوں پر ہوا۔ آسمان والا اِس کا بدلہ ضرور لے گا۔اِس سارئے واقعہ کے حوالے سے حکومت سے کوئی بھی مطالبہ کرنا عبث ہے۔اللہ پا پاکستان اور پاکستان میں رہنے والوں کا حامی و ناصر ہو۔ 

Tuesday, 7 June 2016

............میزائل ٹیکنالوجی کنٹرول رجیم اور نیوکلیئر سپلائرز گروپ میں بھارت کی شمولیت پاکستانی وزارتِ خارجہ سو رہی ہے...صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ




میزائل ٹیکنالوجی کنٹرول رجیم اور نیوکلیئر سپلائرز گروپ 
میں بھارت کی شمولیت
پاکستانی وزارتِ خارجہ سو رہی ہے

صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ



 پاکستان کی حکومت ہوا میں معلق نظر آرہی ہے۔ وزیر اعظم صاحب کو اللہ پاک صحت کاملہ عطا فرمائے وہ لندن میں علاج کروا رہے ہیں۔ اگر جنرل رحیل شریف آئے دن بھارتی اور امریکی جارحیت کے خلاف بیانات جاری نہ کریں تو قوم کے مورال کا حال کیا ہو۔ اِس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔مودی ، افغانستان، ایران، قطر، امریکہ ، سعودی عرب سب کے ساتھ معاشی سماجی منصوبے بناتا جارہا ہے اور ہمارئے ہاں قوم انرجی بحران میں پھنسی ہوئی ہے۔ معاشی اشارئیے ظاہر کر رہے ہیں کہ سب اچھا نہیں ہے۔ اسحاق ڈار جو کہ جمع تفریق کے ماہر ہیں اُن کے نزدیک غربت پاکستان میں ہے ہی نہیں کیونکہ وہ خود کھاتے پیتے گھرانے سے ہیں اُنھیں اندازہ ہے کہ اگر پاکستان کے لوگوں کو روٹی نہیں ملے گے تو یہ لوگ کیک کھا لیں گے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ بھارت اور امریکہ کی پیار کی پینگیں کیا رنگ لا رہی ہیں۔ امریکہ ہمارئے اوپر ڈرون حملے کر رہے ہیں اور بھارت کو نیوکلر سپلائر گروپ میں خوش آمدید کہہ رہا ہے۔پاکستانی فوج کے سربرا نے قوم کا مورال بلند کیے رکھا ہے ۔ لیکن سیاسی حکومت جو کہ وزیر اعظم کی بیماری کیوجہ سے اسحاق ڈار کے ہاتھ میں ہے ۔ اللہ پاک خیر کرئے۔امریکی صدر اوباما سے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے ملاقات کی جس میں دوطرفہ تعلقات کو مزید مضبوط کرنے اور مختلف شعبوں میں تعاون بڑھانے پر اتفاق کیا گیا، امریکی صدر نے میزائل ٹیکنالوجی کنٹرول رجیم اور نیوکلیئر سپلائرز گروپ میں بھارت کی شمولیت کی حمایت کردی۔ اوباما سے وائٹ ہاؤس میں بھارتی وزیراعظم نے ملاقات کی جس میں دوطرفہ تعلقات، ٹیکنالوجی، سائبرسکیورٹی اور سول نیوکلیئر تعاون سمیت دیگر اہم امور پر تبادلہ خیا ل کیا گیا۔ وائٹ ہاؤ س پہنچنے پر مودی کو گارڈ آف انر پیش کیا گیا، دونوں ممالک میں نئے دفاعی معاہدہ اور امریکہ کی بھارت کے جوہری صنعت میں سرمایہ کاری پر بات ہو ئی۔میڈیا کے مطابق ملاقات خوشگوار ماحول میں ہوئی۔ ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے امریکی صدر نے کہاکہ بھارت اور امریکہ کے درمیان مضبوط تعلق ہے، امریکہ اور بھارت دنیا کی دو بڑی جمہوریتیں ہیں۔ بھارت کے ساتھ نیوکلیئر سول تعاون میں پیش رفت ہوئی ہے۔ دونوں ممالک سائبر سکیورٹی کے حوالے سے مل کرکام کرناچاہتے ہیں، دورہ بھارت سے بہت سی یادیں وابستہ ہیں۔ نیوکلیئر سپلائر گروپ میں بھارت کی شمولیت کی حمایت کرتے ہیں۔ اس موقع پر مودی نے کہا کہ نیوکلیئر سول ٹیکنالوجی میں تعاون پر پیشرفت کیلئے اتفاق ہوا ہے۔ سائبر سکیورٹی پر ساتھ کام کرنے پر اتفاق ہوا ہے، اوباما نے میزائل ٹیکنالوجی اور نیوکلیئر سپلائر گروپس میں شمولیت پر حمایت کی ہے جس پر انکا شکر گزار ہوں۔ بھارت ایک نوجوان ملک ہے اور امریکہ بھارت کے ٹیلنٹ سے بخوبی آگاہ ہے ہم مل کر اس طاقت کو دنیا کی بہتری کیلئے استعمال کرنے کیلئے کام کریں گے۔ امریکہ کے ساتھ دوطرفہ تعاون کو بڑھایا جائے گا۔ہم کندھے سے کندھا ملا کر کام کررہے ہیں، امریکی صدر کے ساتھ خطے میں امن وامان کے مسائل سمیت بہت سے ایشوز پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ 2014 میں وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد سے مودی کا یہ امریکہ کا چوتھا دورہ ہے اور صدر اوباما سے ساتویں ملاقات ہے۔ یاد رہے کہ مودی پانچ ممالک کے دورے پر ہیں۔ انہوں نے افغانستان، قطر اور سوئٹزرلینڈ کا دورہ مکمل کر لیا ہے جبکہ امریکہ کے بعد وہ میکسیکو جائیں گے۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے کہا کہ نیوکلیئر سپلائر گروپ میں شمولیت اور میزائل ٹیکنالوجی رجیم میں شمولیت کی حمایت کرنے پر قریبی دوست اوباما کے شکرگزار ہیں۔ مودی نے کہا کہ اوباما کے ساتھ دہشت گردی‘ گلوبل وارمنگ کے حوالے سے بھی بات ہوئی۔ اوباما نے کہا کہ دونوں ملک مستقبل میں بھی مل کر کام کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا وسیع تعاون ترقی پذیر ممالک کیلئے مددگار ہوگا۔ مودی نے کہا کہ دونوں ملک کندھے سے کندھا ملا کر کام کریں گے۔ انہوں نے دورے کی دعوت دینے پر امریکی کانگریس کا بھی شکریہ ادا کیا۔ میزائل ٹیکنالوجی کنٹرول رجیم کے ارکان نے گروپ میں بھارت کو داخل کرنے پر اتفاق کر لیا ہے۔ مودی کی اوباما سے ملاقات کے حوالے سے اسے اہم کامیابی خیال کیا جا رہا ہے۔ معاملے سے آگاہ بھارتی سفیروں نے بتایا کہ میزائل ٹیکنالوجی کے عدم پھیلاؤ کیلئے بنائے گئے 34 ملکوں کے اس گروپ کے ارکان کیلئے بھارت کے داخلے پراعتراض کی مدت پیر کے روز ختم ہو گئی ہے۔ اس مدت کے دوران کسی رکن نے اعتراض نہیں کیا، اب بھارت کے گروپ میں شمولیت خود بخود ہو جائے گی۔ ایم ٹی سی آر میں شمولیت کے بعد بھارت اعلیٰ میزائل ٹیکنالوجی خرید سکے گا اور امریکی پریڈیٹر کی طرز کے سٹیٹ آف دی آرٹ نگران ڈرون بنانے کی اپنی خواہش پر عملدرآمد کے بھی قابل ہوجائے گا۔ بھارت نے روس کے ساتھ ملکر سپرسانک کروز میزائل بھی بنائے ہیں دونوں ملک ان میزائلوں کو تیسرے ملک کو فروخت کرنا چاہتے ہیں۔ گروپ میں شمولیت کے بعد بھارت پہلی مرتبہ اسلحہ کا اہم ایکسپورٹر بن جائے گا۔ ایم ٹی سی آر کی ممبر شپ کے ضوابط کے تحت بھارت کو زیادہ سے زیادہ میزائل رینج 300کلومیٹر کرنا ہوگی۔ خیال رہے اٹلی نے پہلے بھارت کی گروپ میں شمولیت کو مسترد کیا تھا تاہم اس مرتبہ 10 لائن کی دی گئی ڈیڈ لائن میں اس نے اعتراض نہیں کیا۔ اوباما اور مودی کی ملاقات میں ہونے والی پیش رفت کے مطابق دونوں ملک بھارت میں 6 ایٹمی ری ایکٹر بنانے کیلئے ابتدائی خاکہ تیار کرنے پر راضی ہو گئے ہیں۔ دووں ملک اے پی 1000 نیوکلیئر ری ایکٹر کے حوالے سے فوری طورپر کام کا آغاز کریں گے جس میں انجینئرنگ اور دیگر جگہ کا انتخاب ہوگا جبکہ جون 2017ء تک اس کو معاہدے کی شکل دی جائے گی۔ دونوں رہنماؤں نے اس کو خوش آئند قرار دیا ہے۔ مشترکہ پریس کانفرنس میں بتایا گیا کہ بھارت اور امریکہ کے بنک اس منصوبے کیلئے سرمایہ کاری پر کام کریں گے۔ یہ سول ایٹمی معاہدے میں اہم پیش رفت ہے۔ اوباما کاکہنا تھا کہ بھارت کو ترقی کیلئے ٹیکنالوجی کی ضرورت ہے۔ بھارتی ذرائع ابلاغ نے دعویٰ کیا ہے کہ بھارت کو میزائل ٹیکنالوجی کنٹرول رجیم (ایم ٹی سی آر) کی رکنیت دیدی گئی ہے۔ بھارتی دفاعی ماہرین نے دعویٰ کیا ہے کہ بھارت کو (ایم ٹی سی آر) میزائل ٹیکنالوجی کے کنٹرول کے سمجھوتے کا رکن بنانے کی جو 34 ملک مخالفت کررہے تھے، انہوں نے مقررہ مدت کے دوران کوئی اعتراض نہیں کیا اسلئے بھارت کے ایم ٹی سی آر کا رکن بننے میں کوئی رکاوٹ باقی نہیں رہی۔ بھارتی ماہرین نے دعویٰ کیا ہے کہ اس سمجھوتے کا رکن بننے کے بعد بھارت میزائل ٹیکنالوجی آسانی سے حاصل کرسکے گا۔ بھارت جدید ترین جاسوسی ڈورن بنانے کی ٹیکنالوجی بھی حاصل کر یگا۔ 

عمران خان روایتی سیاستدانوں کے چُنگل میں آخر کیوں پھنسے ؟, Written By Ashraf Asmi Advocate


Saturday, 4 June 2016

لاؤں تجھ سا کہاں سے۔ محمد علی کلےؒ........................... صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ









لاؤں تجھ سا کہاں سے۔ محمد علی کلےؒ 

صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ 

آج سے چالیس سال قبل انوکی اور محمد علی کا مقابلہ ہوا تھا۔ انوکی اور محمد علی کے درمیان ہونے والے اِس مقابلے کے نقوش میرئے دل و دماغ انمٹ ہیں۔ راقم اُس وقت آٹھ سال کا تھا اور ٹی وی پر یہ مقابلہ دیکھا تھا۔اُس وقت سے لاشعور میں محمد علی سے محبت سرایت کر گئی۔ یوں اب تک محمد علی سے محبت عشق کی حد تک ہے اور ہمیشہ رہے گی۔محمد علی اُسوقت عالمی اُفق پر چمکا جب ذرائع مواصلات ، ٹی وی چینلزناپید تھے۔ پاکستان میں صرف چند گھنٹے کی نشریات پی ٹی وی کی تھیں۔ پاکستانی عوام نے محمد علی کو پیار اور محبت دی جو کہ ایک عظیم لیڈر کو دی جاتی ہے۔ یقینی طور پر عالم اسلام کے لیے ایک قابل فخر سرمایہ محمد علی تھے۔محمد علی چونکہ ایک سپورٹس مین تھے۔ اِس لیے پوری دنیا کے میڈیا کی نظر اُن پر رہتی تھی۔ پھر عین جوانی میں اِس امریکی نیگرو باکسر نے اسلام قبول کرکے پوری دُنیا کو حیران کر دیا ۔ عالم اسلام کے لیے قابل فخر سرمایہ محمد علیؒ لوگوں کے دلوں میں گھر کر گئے۔ باکسر محمد علی کلے 74 برس کی عمر میں انتقال کرگئےَ ۔محمد علی کو سانس کی تکلیف کے باعث اسپتال منتقل کیا گیاتھا۔امریکی میڈیا کے مطابق 74 سالہ محمد علی امریکی شہر فونیکس کے ایک اسپتال میں کئی روز سے زیر علاج تھے، انہیں سانس کی تکلیف لاحق تھی۔محمد علی کلے امریکی ریاست کنٹکی کے شہر لوئسویل میں ایک عیسائی گھر میں پیدا ہوئے اور اپنے والد کیسیئس مارسیلس کلے سینئر کے نام پر کیسیئس مارسیلس کلے جونیئر کہلائے۔ محمد علی کلے کو اس وقت شہرت حاصل ہوئی جب انہوں نے 1960 میں روم میں ہونے والے اولمپِک مقابلوں میں سونے کا تمغا جیتا لیکن جب وہ اپنے شہر واپس آئے تو انہیں سیاہ فام ہونے کی وجہ سے نوکری نہیں مل سکی، جس سے دلبرداشتہ ہوکر انہوں نے اپنا تمغہ دریا میں پھینک دیا تھا۔ اپنے ساتھ روا رکھے گئے برتاؤ کے باوجود باکسنگ رنگ میں ان کی کامیابیوں کا سلسلہ جاری رہا۔ویت نام کی جنگ کے دوران محمد علی نے امریکی فوج میں شامل ہونے کے عہد نامے پر دستخط کرنے سے انکار کردیا جس کے نتیجے میں انہیں ان کے اعزاز سے محروم کردیا گیا اور 5 سال کی سزا سنائی گئی تاہم عوامی احتجاج کو مدنظر رکھتے ہوئے انہیں سزا سے مستثنٰی قرار دیا گیا۔1974 میں محمد علی کلے نے جارج فورمین کو شکست دے کر ایک بار پھر اپنا کھویا ہوا وقار اور شہرت حاصل کرلی۔ اس وقت محمد علی کی عمر صرف 32 سال تھی اور وہ اس عالمی چیمپئین کا اعزاز پھر سے جیتنے والے دوسرے شخص تھے۔ 1975 میں وہ دائرہ اسلام میں داخل ہوئے اور اپنا نام محمد علی کلے رکھا۔ 1978 میں محمد علی کو اس وقت بڑا دھچکہ لگا جب وہ خود سے 12 برس کم عمر لیون اسپِنکس سے ہار گئے لیکن 8 ماہ بعد محمد علی نے اسپِنکس کو شکست دے کر ایک بار پھر اپنا کھویا ہوا اعزاز دوبارہ حاصل کرلیا تاریخ میں پہلی بار کسی کھلاڑی نے تیسری بار عالمی اعزاز جیتا۔ اس وقت ان کی عمر 36 سال تھی۔1980 میں ان کی صحت کے بارے میں خدشات نے جنم لینا شروع کردیا اور ڈاکٹروں نے انہیں‘‘پارکنسنس سنڈروم’’(رعشہ) کا شکار پایا۔ باکسنگ سے کنارہ کشی اختیار کرتے وقت محمد علی کرہ ارض پر سب سے زیادہ شہرت یافتہ شخص تھے۔ دنیا بھر کے مسلمان اور سیاہ فام آج بھی محمد علی کا انتہائی احترام کرتے ہیں۔ محمد علی نے اپنے 20 سالہ کیرئیر میں 56 مقابلے جیتے اور 37 ناک آؤٹ اسکور کیا لیکن دنیا ہمیشہ انہیں ایک عظیم شخص کے نام سے جانتی رہے گی۔محمد علی کے انتقال پر عالمی سیاسی اور کھیلوں سے تعلقات رکھنے والی شخصیات سمیت دیگر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والوں نے بھی گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔ اپنے خالق کے حضور اب تشریف لے گئے ہیں۔ جن رفعتوں، سعادتوں کو محمد علی ؒ نے اپنی ظاہری حیات میں حاصل کیا۔ یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ شاید ہی کسی کھلاڑی کے لیے یہ جذبات انسانوں کے ہوں۔انھوں نے سنہ 1960 میں روم اولمپکس میں لائٹ ہیوی ویٹ میں طلائی تمغہ حاصل کرکے شہرت حاصل کی تھی۔ان کے نام کے ساتھ ’گریٹیسٹ‘ یعنی عظیم ترین لگایا جاتا ہے۔ انھوں نے 1964 میں سونی لسٹن کو شکست دے کر پہلا عالمی خطاب حاصل کیا تھا اور پھر تین بار یہ خطاب حاصل کرنے والے وہ پہلے باکسر بنے تھے۔انھوں نے 61 مقابلوں میں 56 مقابلے جیت کر بالآخر سنہ 1981 میں ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دیا۔انھیں سپورٹس السٹریٹڈ نے ’سپورٹس مین آف دا سنچری‘ کے خطاب سے نوازا تو بی بی سی نے انھیں ’سپورٹس پرسنالٹی آف دا سنچری‘ کا خطاب دیا۔ محمد علی مقابلے سے قبل اور اس کے بعد دینے جانے جانے والے بیانات کے وجہ سے معروف تھے۔ وہ رنگ میں جس قدر اپنا ہنر دکھاتے اسی قدر رنگ کے باہر اپنے بیانات سے لوگوں کو محظوظ کرتے۔اس کے علاوہ وہ شہری حقوق کے علمبردار اور شاعر بھی تھے۔ان سے ایک بار پوچھا گیا تھا کہ وہ کس طرح یاد کیا جانا چاہیں گے تو انھوں نے کہا تھا: ’ایک ایسے شخص کے طور پر جس نے کبھی اپنے لوگوں کا سودا نہیں کیا۔ اور اگر یہ زیادہ ہے تو پھر ایک اچھے باکسر کے طور پر۔ مجھے اس پر بھی کوئی اعتراض نہیں ہو گا اگر آپ میری خوبصورتی کا ذکر نہ کریں۔لیجنڈری محمد علی نے چار شادیاں کیں، دوسری بیوی سے ان کے چاراورتیسری بیوی سے دو بچے ہیں۔ ان کی ایک بیٹی لیلیٰ علی باکسررہ چکی ہیں۔ان کی پہلی شادی کسی فلم کی کہانی سے کم نہیں۔
جون 1964 کی ایک رات محمد علی سونجی رائے نامی ایک ویٹریس سے ملے اور رات ہی شادی کی پیشکش کردی اور ایک ماہ بعد اگست 1964 میں شادی کرلی۔ شادی کے وقت محمد علی کی عمر 22 اور ان کی اہلیہ موجی رائے کی عمر 23 سال تھی۔ محمد علی اپنی اہلیہ کے ساتھ ڈیڑھ سال تک ساتھ رہے اور جنوری 1966 میں علیحدگی اختیار کرلی۔محمد علی کی پہلی اہلیہ سے کوئی اولاد نہیں ہے۔ پہلی شادی کے ایک سال بعد محمد علی نے اپنے سے 8 سال چھوٹی بلینڈا بوئیڈ نامی خاتون سے شادی کی جو اس وقت صرف 17 سال کی تھی۔ شادی کے بعد ان کی اہلیہ نے اسلام قبول کیا اور اپنا نام خلیلہ علی رکھا۔ خلیلہ سے ان کے چار بچے ہیں مریم، جمیلہ، رشیدہ اور محمد علی جونیئر۔
1974 میں محمد علی کا ایکٹریس ویرونیکا پروش سے افئیر چلا جب ایکٹریس کی عمر صرف 18 سال تھی۔ خلیلہ سے شادی برقرار اور قانونی پیچیدگیوں سے بچنے کے لیے ایکٹریس ویرونیکا پروش سے 1974 میں ہی خفیہ شادی کی جبکہ 1977 میں انھوں نے باضابطہ شادی کی۔ویرونیکا پروش سے ان کی دو بیٹیاں ہانا اور لیلیٰ تھیں۔ محمد علی اور ویرونیکا کی شادی 9 سال بعد ختم ہوئی۔ محمد علی نے چوتھی شادی اپنی پرانی دوست یولنڈا ولیمز سے 1986 میں کی اور محمد علی کی موت تک تیس سال ان کے ساتھ رہیں۔ محمد علی اور یولنڈا نے پانچ ماہ کے بچے کو بھی گود لیا جس کا نام اساد امین ہے۔محمد علی کی بیٹی لیلیٰ علی نے 18 سال کی عمر سے باکسنگ کا آغاز کیا اور اپنی آخری فائٹ 2007 میں کی۔ ۔ محمد علیؒ جیسے لوگ کبھی نہیں مرتے۔ اِن کی یادوں کے چراغ ہمیشہ کروڑوں دلوں میں محبت کی شمع فراوزں کیے رکھیں گے۔اللہ پاک جناب محمد علیؒ کو نبی پاک ﷺ کے طفیل جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔

سابق وفاقی وزیرصاحبزادہ حامد سعید کاظمی کی سزا کے محرکات اور حقائق.................... صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ




سابق وفاقی وزیرصاحبزادہ حامد سعید کاظمی کی سزا کے 
محرکات اور حقائق 
صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ 

پیپلز پارٹی کے زرداری دور حکومت میں نظامِ مصطفےٰ پارٹی کے سربراہ صاحبزادہ حامد سعید کاظمی نے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لیا اور قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور بعد ازاں وفاقی وزیر امور مذہبی و امور حج بنے۔ اِس دوران حج سکینڈل سامنے آیا جس میں کرپشن کی ہوش اُڑا دینے والی داستانیں منظر عام پر آئیں۔صاحبزادہ حامد سعید کاظمی گرفتار ہوئے بعد ازاں ضمانت پر رہا ہوئے۔ اُن کا ٹرائل سپیشل سنٹرل کورٹ اسلام آباد میں ہوا اور جون کی تین تاریخ 2016 کو اُنھیں بارہ سال قید اور14 کروڑ اور 85 لاکھ جُرمانے کی سزا سُنائی گئی۔ پاکستان میں عدلیہ کے فیصلوں کو وہ سند حاصل نہیں ہے جس کا تقاضا انصاف کرتا ہے۔ وجہ وہی ہے کہ بڑا آدمی جب جُرم کرتا ہے تو صاف بچ نکلتا ہے اور غریب آدمی کے جُرم پر اُسے ایسی سزا ملتی ہے کہ وہ اور اُس کی آنے والی سات نسلیں بھی یاد رکھتی ہیں۔دنیا بھر کے معاشروں میں انصاف کی صورتحال تسلی بخش نہیں ہے وجہ صاف ظاہر ہے کہ حکمران اشرافیہ نے اپنی مرضی کے افراد کو کرسی انصاف پر نوکری دئے رکھی ہوتی ہے۔ یوں جو کام ملازم کا ہے وہی کام اُس نے سر انجام دینا ہوتا ہے۔لیکن پاکستان میں شاہ و گدا کا انجام بعض اوقات ایک جیسا بھی ہوا ہے جب شاہ ہی گدا بنا دیا گیا ہو۔ جب بڑی طاقتیں امریکہ وغیرہ کسی کو اپنے راستے سے ہٹانا چاہتی ہیں تو تب پھر منتخب وزیر اعظم کو پھانسی پہ لٹکا دیا جاتا ہے۔ وزیر اعظم گیلانی کو نااہل قرار دئے دیا جاتا ہے۔پاکستان جیسے ملک میں جہاں عدالتیں انصاف کے لیے آنے والوں سے ایسا سلوک کرتی ہیں کہ وہ معاشی طور پر نفسیاتی طور پر دیوالیہ ہوجاتا ہے لیکن اُسے انصاف نہیں ملتا۔ ایک کیس میں اگر اُس کے حق میں فیصلہ آتا ہے تو اُس فیصلے کے خلاف اپیل پھر ایک نیا باب کھل جاتا ہے اگر دو تین دہائیاں سخت محنت کے بعد اپیل کا فیصلہ اُس کے حق میں آتا ہے تو پھر ایک اور اپیل۔ یوں ستم کا سلسلہ دراز تر ہوتا چلا جاتا ہے۔پاکستان کے سماجی ڈھانچے میں جا گیر داروں وڈیروں سرمایہ داروں کے علاوہ ایک اور طبقہ بھی اب معاشی اور سماجی طور پر کافی مضبوط ہے اور وہ ہیں۔ گدی نشین، سجادہ نشین اور پیر۔مذہبی جذبات اور روایتی پیر پرستی کی وجہ سے پیروں کی اولادوں نے اپنے حلقہ اثر کے دائرہ کار کو بڑھایا ہے اور خانقاہی نظام کے سرپرستوں کی اولادوں نے ہی اِس نظام کو برباد کر دیا ہے۔سندھ اور پنجاب میں تو بہت بڑئے بڑئے وڈیرئے بھی پیر ہیں اور یوں مذہبی چھاپ کی وجہ سے وٹرووں کے ساتھ اُن کے عقیدت مندوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔یوں یہ پیر جس پارٹی میں ہوتے ہیں مرید بے چارئے اُس پارٹی کا دفاع کرتے ہیں۔صاحبزادہ حامد سعید کاظمی جو کہ نہ تو کسی جاگیر دار وڈیرئے کی اولاد ہیں اُن کے والد محترم تو ایک عظیم علمی وروحانی شخصیت تھے غزالی دوراں کا خطاب کے حامل جناب احمد سعید کاظمی صاحبؒ نے تشنگان علم و روحانیت کو اپنے فیض سے بہرہ مند فرمایا۔
اسلام آباد کی خصوصی عدالت نے 5 برس بعد حج کرپشن کیس میں سابق وزیر مذہبی امور حامد سعید کاظمی، سابق جوائنٹ سیکرٹری راجہ آفتاب السلام اور سابق ڈائریکٹر جنرل حج راؤ شکیل کو جرم ثابت ہونے پر سزا کا حکم سنا دیا ہے۔ عدالت نے سابق وزیرمذہبی امور اور سابق جوائنٹ سیکرٹری کو 12، 12 سال قید اور پندرہ پندرہ کروڑ روپے جرمانہ کی سزا سنائی ہے جبکہ مقدمے کے مرکزی ملزم سابق ڈائریکٹر جنرل حج راؤ شکیل کو مجموعی طورپر 40سال قید اور 15کروڑ روپے جرمانے کی سزا کا حکم دیا گیا۔ تینوں ملزموں پر سال 2010 کے حج انتظامات کے دوران مالی بے ضابطگی کے الزامات تھے۔ جن کے مطابق انہوں نے جدہ، مکہ اور مدینہ میں پاکستانی 
عازمین حج کے لئے عمارتیں کرائے پر لینے کے عمل میں بڑے پیمانے پر بے قاعدگی کی اور اس ضمن میں حجاج کرام سے کروڑوں روپے زائد وصول کئے۔ عدالتی فیصلے کے بعد تینوں ملزموں کو کمرہ عدالت سے گرفتار کر لیا گیا اور ہتھکڑیاں لگا کر اڈیالہ جیل منتقل کر دیا گیا۔ حامد سعید کاظمی اور راجہ آفتاب السلام کو جرمانہ اداکرنے پر بارہ سال قید کی سزا سنائی ہے، عدم ادائیگی پر دونوں کو مزید چار سال قیدکاٹنا ہو گی۔ عدالت نے سابق وزیر برائے مذہبی امور حامد سعید کاظمی اور سابق جوائنٹ سیکرٹری مذہبی امور راجہ آفتاب السلام کو سیکشن 409/34 تعزیرات پاکستان کے تحت چھ سال قید جبکہ دفعہ 420249468249471 تعزیرات پاکستان کے تحت مزید چھ سال کی سزا اور پندرہ پندرہ کروڑ روپے جرمانہ عائد کیا ہے۔ عدالت نے حج کرپشن کیس کے مرکزی ملزم سابق ڈائریکٹر جنرل حج راؤ شکیل کو 409/34 کے تحت چھ سال قید اور 14کروڑ 73لاکھ 97ہزار چھ سو روپے جرمانہ کی سزا عدم ادائیگی پر دو سال مزید قید راوشکیل پر دفعہ 420249468 اور 471کے تحت بالترتیب چھ چھ سال قید اور دس دس لاکھ روپے بالترتیب جرمانہ عائد کیا گیا ہے۔ عدم ادائیگی پر دو دو سال بالترتیب مزید قید کی بھی سزا سنائی گئی ہے۔ ملزم کو زیر دفعہ 5(2)47 پی سی اے کے تحت 6سال قید اور دس لاکھ روپے جرمانہ عدم ادائیگی کی صورت میں دو سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ عدالت نے مذکورہ کیس میں اشتہاری قرار دیے جانے والے ملزم احمد فیض کی درخواست ضمانت منسوخ کردی تھی جس پر ملزم کو احاطہ عدالت سے گرفتار کرلیا گیا تھا۔ عدالت نے ملزم احمد فیض کا کیس الگ سے چلانے کا بھی حکم دیا ہے۔ ملزم 30 روز کے اندر فیصلہ کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل کر سکتے ہیں۔ سماعت کے بعد میڈیا سے گفتگو میں حامد سعید کاظمی اور راؤ شکیل احمد نے کہا کہ وہ عدالتی فیصلہ سے مطمئن نہیں وہ اس فیصلہ کو ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں چیلنج کریں گے۔ راؤ شکیل کا کہنا تھا کہ اللہ تعالیٰ کی عدالت موجود ہے اور
امید ہے وہ ہمیں انصاف دے گا۔ حامد سعید کاظمی نے کہا ہے الزامات بے بنیاد ہیں، حج کرپشن میں ان کو پھنسایا گیا اور سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا گیا۔ تینوں ملزموں پر 2010ء کے حج انتظامات کے دوران مالی بے ضابطگیوں کے الزامات تھے، عازمین حج کیلئے مکہ اور مدینہ میں مارکیٹ ریٹ سے زیادہ کرائے پر عمارتیں لی گئی تھیں، اس وقت ایک سعودی شہزادے نے سپریم کورٹ کو معاملے کا نوٹس لینے کیلئے خط لکھا تو سابق چیف جسٹس افتخار چودھری نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے کیس کی تفتیش ایف آئی اے کے سپرد کی، ایف آئی اے نے اس کیس میں سابق وزیراعظم سید یوسف رضاگیلانی کی اہلیہ اور بیٹے عبدالقادر گیلانی کو بھی شامل تفتیش کیا۔ ان پر سابق ڈی جی حج راؤ شکیل سے مبینہ طور پر 5کروڑ روپے کے عوض انہیں ڈی جی حج تعینات کرنے کا الزام تھا تاہم تفتیش کے بعد ان کا نام مقدمے سے خارج کر دیا گیا۔ سابق وفاقی وزیر حامد سعید کاظمی پر مالی بدعنوانی کا کوئی الزام ثابت نہیں ہوا تاہم اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے راؤ شکیل اور فیض احمد نامی شخص کی سعودی عرب میں تعیناتی کے شواہد موجود تھے۔ ملزموں پر الزام تھا کہ انہوں نے مکہ اور مدینہ میں پاکستانی عازمین حج کیلئے عمارتیں کرائے پر لینے کے عمل میں بڑے پیمانے پر بے قاعدگی کی اور اس ضمن میں حجاج کرام سے کروڑوں روپے زائد وصول کئے۔ بی بی سی کے مطابق مجرموں کی سزائیں ایک ساتھ شروع ہوں گی اور اس لحاظ سے یہ 6 سال کا عرصہ جیل میں گزاریں گے۔حامد سعید کاظمی کو اِس کیس میں ایک سازش کے تحت پھنسایا گیا اور اُنہیں خبر ہی نہ ہوسکے کہ اُن کے پہلو میں بیٹھے ہوئے لوگ اُن کے دوستوں کے روپ میں دُشمن ہیں۔ اپنی درویش طبع عادت کی وجہ سے اور دین کی محبت کے سبب حامد سعید کاظمی کو اُنکے ارگرد جمع ہونے والے فصلی بٹیروں نے اِس طرح اندھیرئے میں رکھا کہ خانقاہی نظام کا ایک نیک سپوت ایسے معاملات میں پھنسا دیا گیا کہ جس کا اُنہیں اندازہ نہ تھا۔ یوں سیاست میں عام آدمی کے سے انداز میں اُبھرنے والی روحانی خانودائے سے منسلک شخصیت کو بدنما داغ لگا دیا گیا۔ مورخ کا قلم اپنے یا غیر کسی کی تمیز نہیں کرتا تاریخ ثابت کرئے گی کہ کس طرح اپنے لیے سیاسی خطرہ سمجھنے والواں نے کاظمی صاحب کو اِس کیس میں پھنسایا۔ انتہائی محترم ترین مذہبی و روحانی شخصیت جناب احمد سعید کاظمی ؒ کی اولاد کو جس طرح کے کٹھن سفر کا سامنا ہے ۔ شاید قدرت کو اِن کے صبر کا امتحان مقصود ہے۔اِس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اللہ کے اِس نیک بندئے کو کس طرح کی گردش دوراں کی بھٹی میں جھونک دیا گیا۔عدالت نے اِس بات کو تسلیم کیا ہے کہ حامد سعید کاظمی پر مالی بد عنوانی ثابت نہیں ہوئی ہے۔اُن پر اختیارات کے غلط استعمال کے الزامات لگے ہیں۔ بادی النظر میں دیکھا جائے تو حامد سعید کاظمی صاحب سے ایسے لوگوں نے مفادات اُٹھانے کی کوشش کی جس کا اندازہ اِن سے نہ ہوسکا۔ پھر پیپلز پارٹی کی حکومت وہ بھی زرداری صاحب کی قیادت میں، اِن حالات میں اعلیٰ افسران کی تقررریاں تو کہیں اور سے ہوتی رہی ہیں اور ملتان کی سر زمین سے ایک نیک نام روحانی خانوادئے کے چشم و چراغ کو سیاسی مداریوں نے اپنی ہوس کی بھین چڑھادیا۔ امید واثق ہے کہ اعلیٰ عدلیہ اِس حوالے سے حامد سعید کاظمی کی اپیل کو پیش نظر رکھے گی۔