Thursday, 9 June 2016

آہوں بھرئے سانحہ ماڈل ٹاون کے بیتے ہوئے دو سال ۔ حکمران اشرافیہ نے چینگیز خان کو مات دئے دی...... صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ ہائی کورٹ


آہوں بھرئے سانحہ ماڈل ٹاون کے بیتے ہوئے دو سال ۔ 

حکمران اشرافیہ نے چینگیز خان کو مات دئے دی

صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ ہائی کورٹ 

سانحہ ماڈل ٹاون لاہور کو دو سال بیت گئے۔ جس وقت کمیشن لاہور ہائی کورٹ جسٹس جناب علی باقر نجفی سانحہ ماڈل ٹاون لاہور کے حوالے سے جوڈیشل انکوئری ہوری تھی۔ تو راقم قانون کے ادنی طالب علم ہونے کی حثیت سے اور ہیومن راٹس کا علمبردار ہونے کے ناطے جو ڈیشل انکوئرای میں جاتا رہا ہے ۔ جسٹس علی باقر نجفی کی انکوئری رپورٹ کو شائع کرنے کی بجائے حکمرانوں نے علی باقر نجفی کی رپورٹ پر اتنا بُرا منایا کہ خدا کی پناہ نہ تو جناب علی باقر نجفی کمیشن کی رپورٹ کو حکومت نے جاری کیا اور نہ ہی اِس رپورٹ پر کوئی ایکشن لیا بلکہ حکمرانوں نے طاقت کے نشے میں للکارا کہ علی باقر نجفی صاحب نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا ہے اِن کے متعلق جو ڈیشل کونسل سے رجوع کیا جائے گا۔ ظلم کی رات جب عروج پر ہو۔ حکمران جب طاقت کے نشے میں ہوں تو اُنھیں صرف وہ آواز اچھی لگتی ہے جو اُن کے کانوں کو بھاتی ہو۔ سانحہ ماڈل ٹاون میں مرنے والوں کے نام یہ ہیں۔شازیہ مرتضیٰ زوجہ غلام مرتضیٰ۔ باغبانپورہ لاہور، پاکستان۔ عمر 28 سال۔تنزیلہ امجد زوجہ محمد امجد۔ باغبانپورہ لاہور، پاکستان۔ عمر 30 سال۔محمد عمر صدیق ولد میاں محمد صدیق۔ کوٹ لکھپت لاہور، پاکستان۔ عمر 19 سال۔صفدر حسین ولد علی محمد۔ شیخوپورہ، پاکستان۔ عمر 35 سال۔عاصم حسین ولد معراج دین۔ گاؤں مناواں لاہور، پاکستان۔ عمر 22 سال۔غلام رسول ولد محمد بخش۔ تاج پورہ سکیم لاہور، پاکستان۔ عمر 56 سال۔محمد اقبال ولد خیر دین۔ چونگی امرسدھو لاہور، پاکستان۔ عمر 42 سال۔محمد رضوان خان ولد محمد خان۔ چکوال، پاکستان۔ عمر 20 سال (طالب علم شریعہ کالج، منہاج یونیورسٹی)خاور نوید رانجھا ولد محمد صدیق۔ کوٹ مومن سرگودھا، پاکستان۔ عمر 20 سال (طالب علم شریعہ کالج، منہاج یونیورسٹی)محمد شہباز ولد اظہر حسین۔ مریدکے، پاکستان۔ عمر 17 سال۔ اپنے ملک میں اپنے ملک کی ہی پولیس جس کا ماٹو ہے مدد آپ کی اُس کے ہاتھوں اپنے ہی شہریوں کا قتل۔ دو خواتین بھی انتہائی بے دردی سے قتل کردی گئیں۔یقینی طور پاکستانی سر زمین پر لاہور میں پاکستان بننے کے بعد حکومت کی جانب سے اپنی ہی آبادی کو جتنی بے دردی سے شہید کیا گیا اُس کی مثال نہیں ملتی۔ اِن لوگوں کا قصور اگر صرف اتنا تھا کہ وہ حکومت مخالف جماعت کے حامی تھے تو پھر یقین جانیے پاکستان جن مقاصد کے لیے بنایا گیا تھا اُس سوچ اور نظریے پر اِس سے بڑی کاری ضرب اور کوئی نہیں ہو سکتی۔آپریشن ضرب عضب کے آغاز کے معاً بعد 16 جون کو کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان شاہداللہ شاہد نے اسلام آباد اور لاہور کو آگ لگانے کی دھمکی دی ]5[ اسی رات دو بجے پنجاب حکومت نے خود لاہور میں اس تباہی کا آغاز کر دیا، جس نے جلیانوالہ باغ کی یاد تازہ کردی۔ طالبان نے نون لیگ کو دھمکی دی تھی کہ وہ ان کی مدد سے اقتدار میں آنے کے باوجود اپنا وعدہ پورا کرتے ہوئے فوج کو ان کے خلاف آپریشن سے کیوں نہیں روک پائی؟ پنجاب حکومت نے اسی رات تجاوزات ہٹانے کی آڑ میں لاہور کے درجن بھر تھانوں سے پنجاب پولیس کے تین ہزار اہلکاروں کے ذریعہ آدھی رات کو تحریک منہاج القرآن کے مرکزی سیکرٹریٹ اور ڈاکٹر طاہرالقادری کے گھر پہ حملہ کرواتے ہوئے نہ صرف اپنا غصہ اتارا بلکہ طالبان کو بھی واضح پیغام دے دیا کہ وہ پاک آرمی کو ڈاکٹر طاہرالقادری کی تقریروں اور دلیلوں کی وجہ سے روک نہیں پائی۔ اور اب ان کے گھر کے باہر لاہور ہائی کورٹ کے حکم سے کئی سال قبل لگائی گئی حفاظتی باڑ کو بلڈوز کرکے طالبان کو کھلا موقع اور راستہ دے دیا کہ وہ جب چاہیں ان سے بدلہ لے سکیں۔منہاج القرآن سیکرٹریٹ کے گرد سیکیورٹی بیریئرز چار سال قبل ہائی کورٹ کے حکم سے ماڈل ٹاون پولیس کی نگرانی میں لگائے گئے تھے۔منہاج القرآن سیکرٹریٹ کے گرد سیکیورٹی بیریئرز چار سال قبل ہائی کورٹ کے حکم سے ماڈل ٹاون پولیس کی نگرانی میں لگائے گئے تھے۔17جون 2014ء کی صبح 2 بجے پنجاب پولیس نے لا ہورکے مضافاتی علاقے ماڈل ٹاؤن میں واقع ڈاکٹر طاہرالقادر ی کی رہائش گاہ اور منہاج القرآن انٹرنیشنل کے مرکزی سیکرٹریٹ کے باہرموجودرکاوٹوں کوہٹانے کے لئے ایک آپریشن کاآغازکیا۔پولیس کی ایک بھاری نفری پاکستان عوامی تحریک کے صدر مقام پہنچی، جہاں انہوں نے پاکستان عوامی تحریک کے کارکنان سے رکاوٹیں ہٹانے کو کہا، جو ان کے حساب سے غیرقانونی تھیں۔یہ چھاپہ پولیس کے ان صبح کے معمول کے چھاپوں کے برعکس تھا جن کا انعقاد پولیس اس طرح کے معاملات میں کرتی ہے۔ پاکستان عوامی تحریک کے کارکنان کا موقف تھا کہ یہ رکاوٹیں قانونی ہیں اور یہ چار سال قبل اس وقت ڈاکٹر طاہرالقادری کی رہائش گاہ اور دفاتر کے گرد لگائی گئیں تھی جب ڈاکٹر طاہرالقادری نے طالبان کے خلاف فتوٰی دیا تھا۔ اس کے باوجود پولیس نے بلڈوزرز کی مدد سے رکاوٹوں کو ہٹانے اور تباہ کرنے کا آپریشن جاری رکھا،جس نے عوامی تحریک کے کارکنان کو پولیس کی کاروئی کے خلاف مزاحمت اور احتجاج کرنے پر اکسایا۔پولیس افسران کو ماڈل ٹاؤن پولیس ہی کی جانب سے جاری کردہ وہ سرکلر دکھایا گیا، جس میں دہشت گردی کے ممکنہ خطرات کے پیش نظر عدالتی احکامات کے مطابق سیکورٹی انتظامات کرنے کا کہا گیا تھا۔ انہیں بتایا گیا کہ یہ بیریئرز فیصل ٹاؤن تھانے کے آفیسرز کی مشاورت اور رہنمائی میں ہی لگائے گئے ہیں، مگر انہوں نے اس سرکلر کو ماننے سے انکار کر دیا۔ پاکستان عوامی تحریک کے مرکزی قائدین نے متعدد بار پولیس افسران سے بات چیت کی، مگر پولیس آفیسرز نے عدالتی احکامات کو ماننے کی بجائے مزید جارحانہ رویہ اختیار کر لیا اور مرکزی سیکرٹریٹ کے سٹاف ممبران اور طلباء پر لاٹھی چارج کرنا شروع کر دیا۔ ان تمام معاملات کو دیکھ کر یوں محسوس ہو رہا تھا جیسا کہ پولیس ان رکاوٹوں کو ہٹانے نہیں بلکہ کسی اور منصوبے کے تحت یہ آپریشن کرنے آئی ہے۔ بارہ تھانوں کی پولیس کی مدد سے رات دو بجے سے جاری آپریشن کے دوران کل چار حملے کئے گئے۔ پہلے تین حملوں میں زہریلی آنسو گیس اور لاٹھی چارج کیا گیا، جبکہ آخری حملے کے دوران سو سے زیادہ لوگوں پر سیدھے فائرنگ کی گئی۔وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے حکم پر ماڈل ٹاؤن واقعہ میں ہونے والی ہلاکتوں کی تحقیقات کے لئے جسٹس باقر علی نجفی پر مشتمل یک رکنی عدالتی کمیشن تشکیل دیا گیا، جس کے احکامات لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس امتیاز علی خواجہ نے جاری کئے، جنہوں نے اُسی دن ہی نئے چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کا حلف اٹھایا تھا۔پاکستان عوامی تحریک نے حکومت کی طرف سے تشکیل دیئے گئے جوڈیشنل کمیشن کا بائیکاٹ کرتے ہوئے اس کو مکمل طور پر مسترد کر دیا اور مطالبہ کیا کہ وزیراعلیٰ پنجاب اس قتل و دہشت گردی کے اصل ذمہ دار ہیں، چنانچہ ان کے مسندِ اقتدار پر رہتے ہوئے کسی قسم کی غیرجانبدارانہ تفتیش وشہادتوں کا کوئی امکان ہے نہ ہی عدل و انصاف کے تقاضوں کی بجا آوری ممکن ہے۔ لہٰذا وزیراعلیٰ پنجاب اور اس جرم میں شریک وزراء فی الفور مستعفی ہو کر خود کو قانون کے حوالے کریں۔ اسی طرح سانحہ ماڈل ٹاؤن لاہور میں ملوث جملہ پولیس افسران اور انتظامی عہدیداران بشمول IG، DIG آپریشنز، ہوم سیکرٹری پنجاب، DCO، CCPO، SSPs، SP ماڈل ٹاؤن اور متعلقہ DSPs اور SHOs کو فوری طور پر برطرف کرکے قتل عام، دہشت گردی اور اقدامِ قتل کے جرم میں گرفتار کیا جائے۔اس کے بعد سانحہ ماڈل ٹاؤن لاہور کی آزادانہ، غیرجانبدارانہ تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کے تین ایسے غیر متنازعہ، غیر جانبداراور اچھی شہرت کے حامل ججز جن پر متاثرین کو مکمل اعتماد ہو، پر مشتمل بااختیار جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا جائے۔ کمیشن کو یہ اختیار دیا جائے کہ وہ وزیراعظم، نامزد وفاقی وزراء، وزیراعلیٰ پنجاب سمیت کسی بھی حکومتی و انتظامی شخصیت یا اہلکار کو طلب کرسکے۔ مزید برآں جوڈیشنل کمیشن سانحہ ماڈل ٹاؤن کی تحقیقات کے لئے تحقیقی اداروں کے اچھی شہرت کے حامل اعلیٰ افسران جن پر متاثرین کو مکمل اعتماد ہو، پرمشتمل انکوائری کمیٹی تشکیل دی جائے۔مورخہ 10 جولائی کو ڈاکٹر طاہرالقادری نے پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن پر قائم ٹربیونل یکطرفہ، بے مقصد اور فراڈ پر مبنی ٹربیونل ہے۔ قاتل پولیس قاتل مدعی بن بیٹھی ہے۔ من گھڑت شہادتیں اور جھوٹے ثبوت پیش کئے جا رہے ہیں۔ ٹربیونل کے جج کو چاہیئے تھا کہ اس قتل عام کا حکم دینے والے وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف کو استعفیٰ دینے اور مظلوموں کی مدعیت میں FIR درج کرنے کا حکم دیتا۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعلی کے موبائل فون ریکارڈ کی طلبی پر ٹربیونل کے رجسٹرار جوادالحسن کو ہٹا دیا گیا ہے اور اس ٹربیونل کو سانحہ میں ملوث عناصر اور ذمہ داروں کا تعین کرنے کا کوئی اختیار نہیں دیا گیا اوراس قتل عام میں ملوث چین آف کمانڈ، چیف سیکرٹری، ہوم سیکرٹری، آئی جی پولیس، ڈی آئی جی آپریشنز، ایس پی ماڈل ٹاؤن اور SHOs میں سے کسی کو ان کے عہدوں سے تاحال ہٹایا نہیں گیا۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن جوڈیشل ٹربیونل کو پولیس سے تفتیش کرانے کے اختیارات دینے کی درخواست پر پنجاب حکومت کی خاموشی نے جوڈیشل ٹربیونل کو مزید مشکلات کا شکار کر دیا۔ پنجاب حکومت کی طرف سے سیکشن گیارہ کے اختیارات دینے سے انکار کے بعد ٹریبونل کا کردار صرف انکوائری تک محدود رہ گیا، کسی پر اس اندوہناک سانحہ کی ذمہ داری عائد نہیں کی جا سکے گی۔مورخہ 19 جون کو لاہور ہائی کورٹ کے سینئر جج جسٹس علی باقر نجفی کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن نے تحقیقات کا آغاز کیا تو جوڈیشل تحقیقات کے پہلے روز ہی حکام نے کمیشن سے تعاون نہیں کیا بلکہ ادھوری رپورٹس کے ساتھ پیش ہو کر بحث میں الجھے رہے۔ اس روز آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا، ڈی سی او کیپٹن ریٹائرڈ عثمان اور ڈی جی ایل ڈی اے احد چیمہ کمیشن کے سامنے پیش ہوئے۔مورخہ 6 جولائی کو فرانزک ماہرین نے کرائم سین دیکھے بغیر رپورٹ بنانے سے انکار کردیا۔ مورخہ 9 جولائی کو فرانزک حکام اور جے آئی ٹی نے سا نحہ ماڈل ٹاؤن کے بارے میں شہادتیں ضائع ہونے کی بناء پر رپورٹ دینے سے معذرت کر لی۔مورخہ 9 جولائی کو جوڈیشل کمیشن نے وزیراعلی متعلقہ حکام اور پولیس افسروں کی ٹیلیفونک گفتگو کا ریکارڈ طلب کر لیا۔ علاوہ ازیں کمیشن نے آئی ایس آئی اور آئی بی کے ڈائریکٹرز سے بھی رپورٹ، ریکارڈ اور ٹیکنیکل معاونت مانگ لی۔ دوسری طرف پنجاب حکومت نے جوڈیشل ٹریبونل کے دائرہ کار پہ اعتراض کر دیا۔مورخہ 13 جولائی کو مشترکہ تفتیشی ٹیم نے تحقیقات کے دوران چار ایس پیز اور 20 اہلکاروں کو سانح? ماڈل ٹاؤن کا ذمہ دار قرار دے کر ان کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کر لیا۔ مورخہ 15 جولائی کو مشترکہ تفتیشی ٹیم نے وزیراعلی شہبازشریف اور رانا ثناء اللہ سمیت 18 شخصیات کے ٹیلیفون ریکارڈ یک رکنی ٹریبونل جسٹس علی باقر نجفی کو جمع کروا دیا۔ مورخہ 16 جولائی کو سانحہ کے ایک ماہ بعد جاری ہونے والی فرانزک رپورٹ میں نہ صرف منہاج القرآن کے پانچ سٹوڈنٹس پر فائرنگ کا الزام عائد کیا گیا بلکہ حملہ آور پولیس والوں کی تعداد صرف 15 قرار دی گئی۔ حالانکہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی براہ راست نشریات کے دوران ملک بھر کے میڈیا چینلز نے ہزاروں کی تعداد میں پولیس کو نہتے لوگوں پر بربریت کرتے دکھایا تھا۔ 
مورخہ 16 جولائی کو سانحہ ماڈل ٹاؤن کی تحقیقات کرنے والی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم نے دعوی کیا کہ انہوں نے نہ صرف فائرنگ کرنے والے عوامی تحریک کے پانچ کارکنوں کا سراغ لگا لیا ہے برآمد ہونے والے اسلحے کی تصدیق بھی کر لی ہے۔ مورخہ 27 جولائی کو شہبازشریف نے اپنے بیان حلفی میں اقرار کیا کہ سابق صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ کی زیرصدارت ہونے والے اجلاس میں پولیس آپریشن کا فیصلہ کیا گیا، جس سے وہ مکمل طور پر لاعلم رہے۔مورخہ 12 جولائی کو سانح? ماڈل ٹاؤن کی انکوائری کرنے والے جج جسٹس علی باقر نجفی کو سنگین نتائج کا دھمکی آمیز خط موصول ہوا۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے لیے بنائیگئے یکطرفہ جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کے مطابق وزیراعلیٰ پنجاب کو اس سانحہ کا براہ راست ملزم قرار دیا گیا، رپورٹ کا کچھ حصہ دنیا نیوز کے اینکر پرسن کامران شاہد نے اپنے ایک پروگرام میں ذکر بھی کیا۔اب دہشت گردی کی عدالت میں کیس چل رہا ہے۔حکمران طبقے نے جس طرح کا کردار ماڈل ٹاون میں کیا اور جس طرح کا مکروہ رول گلوبٹوں کا سامنے آیا۔ یقینی طور پر اللہ پاک نے اِس حساب کو بے باق کرنا ہے اور سانحہ ماڈل ٹاون کے شہدا کے خون سے جو ہولی کھیلی گئی۔ مورخ اِس بترین حکومتی دہشت گردی کو کیسے فراموش کر پائے گا۔ اللہ پاک کی لاٹھی بے آواز ہے۔ راقم کو اِس بات سے غراض نہیں کہ کسی کے کیا سایسی مقاصد ہیں لیکن جو حشر سانحہ ماڈل ٹاون میں معصوم نہتے لوگوں پر ہوا۔ آسمان والا اِس کا بدلہ ضرور لے گا۔اِس سارئے واقعہ کے حوالے سے حکومت سے کوئی بھی مطالبہ کرنا عبث ہے۔اللہ پا پاکستان اور پاکستان میں رہنے والوں کا حامی و ناصر ہو۔ 

No comments:

Post a Comment