Monday, 20 March 2017

صاحبزادہ حامد سعید کاظمی کی سزا اور رہائی کے پس پردہ حقائق اور سعودی شہزادے کا خط ......  صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ




صاحبزادہ حامد سعید کاظمی کی سزا اور رہائی کے پس پردہ
 حقائق اور سعودی شہزادے کا خط 
صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ

اسلام آباد ہائی کورٹ نے حج انتظامات میں بدعنوانی کے مقدمے میں سزا پانے والے سابق وفاقی وزیر حامد سعید کاظمی کو اس مقدمے میں بری کردیا ہے۔
انسداد بدعنوانی کی عدالت نے حامد سعید کاظمی،ڈائریکٹر جنرل حج راؤ شکیل اور وزارت مذہبی امور کے جوائینٹ سیکرٹری راجہ آفتاب کو جرم ثابت ہونے کی بنا پر اُنھیں 16،16 سال قید کی سزا سنائی تھی۔نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے سنہ 2010 میں سعودی شاہی خاندان کے ایک فرد کی طرف سے لکھے گئے ایک خط اور حاجیوں کی شکایات پر حج انتظامات میں بدعنوانی سے متعلق از خود نوٹس لیا تھا۔عدالت نے اس معاملے کی چھان بین کے لیے ایک اعلی سطحی تحقیقاتی کمیٹی قائم تھی جنہوں نے اپنی تحقیقات میں حامد سعید کاظمی، ڈائریکٹر جنرل حج راؤ شکیل اور جوائنٹ سیکرٹری راجہ آفتاب کو بدعنوانی اور سرکاری خزانے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچانے پر قصوروار قرار دیا تھا۔
انسداد بدعنوانی کی عدالت نے جرم ثابت ہونے پر گذشتہ برس جون میں تینوں مجرموں کو سولہ سولہ سال قید اور جرمانے کی سزا سنائی گئی تھی۔اس سزا کے خلاف مجرمان نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر تھی جس میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ متعلقہ عدالت نے حقائق کو سامنے رکھ کر فیصلہ نہیں کیا اور حقائق کے تقاضے پورے نہیں کیے گئے۔
مجرمان کے وکلا کا کہنا تھا کہ استغاثہ نے اس مقدمے کی عدالتی کارروائی کے دوران ایسے کوئی شواہد عدالت میں پیش نہیں کیے جس کی وجہ سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ اُن کے موکل اس گھناؤنے جرم کے مرتکب ہوئے ہیں۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج محسن اختر کیانی نے مجرمان کی طرف سے دائر کی گئی درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کرلیا اور کچھ دیر کے بعد مجرموں کے موقف کو تسلیم کرتے ہوئے اُنھیں اس مقدمے سے بری کرنے کا حکم دیا۔ ایف آئی اے حکام کا کہنا ہے کہ اُنھوں نے ابھی تک عدالت عالیہ کے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرنے کا فیصلہ نہیں کیا۔
حامد رضا کاظمی، راو شکیل اور راجہ آفتاب ان دنوں راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں قید ہیں۔پیپلز پارٹی کے زرداری دور حکومت میں نظامِ مصطفےٰ پارٹی کے سربراہ صاحبزادہ حامد سعید کاظمی نے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لیا اور قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور بعد ازاں وفاقی وزیر امور مذہبی و امور حج بنے۔ اِس دوران حج سکینڈل سامنے آیا جس میں کرپشن کی ہوش اُڑا دینے والی داستانیں منظر عام پر آئیں۔صاحبزادہ حامد سعید کاظمی گرفتار ہوئے بعد ازاں ضمانت پر رہا ہوئے۔ اُن کا ٹرائل سپیشل سنٹرل کورٹ اسلام آباد میں ہوا اور جون کی تین تاریخ 2016 کو اُنھیں بارہ سال قید اور14 کروڑ اور 85 لاکھ جُرمانے کی سزا سُنائی گئی تھی۔ پاکستان میں عدلیہ کے فیصلوں کو وہ سند حاصل نہیں ہے جس کا تقاضا انصاف کرتا ہے۔ وجہ وہی ہے کہ بڑا آدمی جب جُرم کرتا ہے تو صاف بچ نکلتا ہے اور غریب آدمی کے جُرم پر اُسے ایسی سزا ملتی ہے کہ وہ اور اُس کی آنے والی سات نسلیں بھی یاد رکھتی ہیں۔دنیا بھر کے معاشروں میں انصاف کی صورتحال تسلی بخش نہیں ہے وجہ صاف ظاہر ہے کہ حکمران اشرافیہ نے اپنی مرضی کے افراد کو کرسی انصاف پر نوکری دئے رکھی ہوتی ہے۔ یوں جو کام ملازم کا ہے وہی کام اُس نے سر انجام دینا ہوتا ہے۔لیکن پاکستان میں شاہ و گدا کا انجام بعض اوقات ایک جیسا بھی ہوا ہے جب شاہ ہی گدا بنا دیا گیا ہو۔ جب بڑی طاقتیں امریکہ وغیرہ کسی کو اپنے راستے سے ہٹانا چاہتی ہیں تو تب پھر منتخب وزیر اعظم کو پھانسی پہ لٹکا دیا جاتا ہے۔ وزیر اعظم گیلانی کو نااہل قرار دئے دیا جاتا ہے۔پاکستان جیسے ملک میں جہاں عدالتیں انصاف کے لیے آنے والوں سے ایسا سلوک کرتی ہیں کہ وہ معاشی طور پر نفسیاتی طور پر دیوالیہ ہوجاتا ہے لیکن اُسے انصاف نہیں ملتا۔ ایک کیس میں اگر اُس کے حق میں فیصلہ آتا ہے تو اُس فیصلے کے خلاف اپیل پھر ایک نیا باب کھل جاتا ہے اگر دو تین دہائیاں سخت محنت کے بعد اپیل کا فیصلہ اُس کے حق میں آتا ہے تو پھر ایک اور اپیل۔ یوں ستم کا سلسلہ دراز تر ہوتا چلا جاتا ہے۔پاکستان کے سماجی ڈھانچے میں جا گیر داروں وڈیروں سرمایہ داروں کے علاوہ ایک اور طبقہ بھی اب معاشی اور سماجی طور پر کافی مضبوط ہے اور وہ ہیں۔ گدی نشین، سجادہ نشین اور پیر۔مذہبی جذبات اور روایتی پیر پرستی کی وجہ سے پیروں کی اولادوں نے اپنے حلقہ اثر کے دائرہ کار کو بڑھایا ہے اور خانقاہی نظام کے سرپرستوں کی اولادوں نے ہی اِس نظام کو برباد کر دیا ہے۔سندھ اور پنجاب میں تو بہت بڑئے بڑئے وڈیرئے بھی پیر ہیں اور یوں مذہبی چھاپ کی وجہ سے وٹرووں کے ساتھ اُن کے عقیدت مندوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔یوں یہ پیر جس پارٹی میں ہوتے ہیں مرید بے چارئے اُس پارٹی کا دفاع کرتے ہیں۔صاحبزادہ حامد سعید کاظمی جو کہ نہ تو کسی جاگیر دار وڈیرئے کی اولاد ہیں اُن کے والد محترم تو ایک عظیم علمی وروحانی شخصیت تھے غزالی دوراں کا خطاب کے حامل جناب احمد سعید کاظمی صاحبؒ نے تشنگان علم و روحانیت کو اپنے فیض سے بہرہ مند فرمایا۔اسلام آباد کی خصوصی عدالت نے 5 برس بعد حج کرپشن کیس میں سابق وزیر مذہبی امور حامد سعید کاظمی، سابق جوائنٹ سیکرٹری راجہ آفتاب السلام اور سابق ڈائریکٹر جنرل حج راؤ شکیل کو جرم ثابت ہونے پر سزا کا حکم سنا دیا تھا۔ عدالت نے سابق وزیرمذہبی امور اور سابق جوائنٹ سیکرٹری کو 12، 12 سال قید اور پندرہ پندرہ کروڑ روپے جرمانہ کی سزا سنائی تھی جبکہ مقدمے کے مرکزی ملزم سابق ڈائریکٹر جنرل حج راؤ شکیل کو مجموعی طورپر 40سال قید اور 15کروڑ روپے جرمانے کی سزا کا حکم دیا گیا تھا۔ تینوں ملزموں پر سال 2010 کے حج انتظامات کے دوران مالی بے ضابطگی کے الزامات تھے۔ جن کے مطابق انہوں نے جدہ، مکہ اور مدینہ میں پاکستانی عازمین حج کے لئے عمارتیں کرائے پر لینے کے عمل میں بڑے پیمانے پر بے قاعدگی کی اور اس ضمن میں حجاج کرام سے کروڑوں روپے زائد وصول کئے۔ عدالتی فیصلے کے بعد تینوں ملزموں کو کمرہ عدالت سے گرفتار کر لیا گیا اور ہتھکڑیاں لگا کر اڈیالہ جیل منتقل کر دیا گیا۔ حامد سعید کاظمی اور راجہ آفتاب السلام کو جرمانہ اداکرنے پر بارہ سال قید کی سزا سنائی ہے، عدم ادائیگی پر دونوں کو مزید چار سال قیدکاٹنا ہو گی۔ عدالت نے سابق وزیر برائے مذہبی امور حامد سعید کاظمی اور سابق جوائنٹ سیکرٹری مذہبی امور راجہ آفتاب السلام کو سیکشن 409/34 تعزیرات پاکستان کے تحت چھ سال قید جبکہ دفعہ 420249468249471 تعزیرات پاکستان کے تحت مزید چھ سال کی سزا اور پندرہ پندرہ کروڑ روپے جرمانہ عائد کیا تھا۔ عدالت نے حج کرپشن کیس کے مرکزی ملزم سابق ڈائریکٹر جنرل حج راؤ شکیل کو 409/34 کے تحت چھ سال قید اور 14کروڑ 73لاکھ 97ہزار چھ سو روپے جرمانہ کی سزا عدم ادائیگی پر دو سال مزید قید راوشکیل پر دفعہ 420249468 اور 471کے تحت بالترتیب چھ چھ سال قید اور دس دس لاکھ روپے بالترتیب جرمانہ عائد کیا گیا تھا۔عدم ادائیگی پر دو دو سال بالترتیب مزید قید کی بھی سزا سنائی گئی ہے۔ ملزم کو زیر دفعہ 5(2)47 پی سی اے کے تحت 6سال قید اور دس لاکھ روپے جرمانہ عدم ادائیگی کی صورت میں دو سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ عدالت نے مذکورہ کیس میں اشتہاری قرار دیے جانے والے ملزم احمد فیض کی درخواست ضمانت منسوخ کردی تھی جس پر ملزم کو احاطہ عدالت سے گرفتار کرلیا گیا تھا۔
تینوں ملزموں پر 2010ء کے حج انتظامات کے دوران مالی بے ضابطگیوں کے الزامات تھے، عازمین حج کیلئے مکہ اور مدینہ میں مارکیٹ ریٹ سے زیادہ کرائے پر عمارتیں لی گئی تھیں، اس وقت ایک سعودی شہزادے نے سپریم کورٹ کو معاملے کا نوٹس لینے کیلئے خط لکھا تو سابق چیف جسٹس افتخار چودھری نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے کیس کی تفتیش ایف آئی اے کے سپرد کی، ایف آئی اے نے اس کیس میں سابق وزیراعظم سید یوسف رضاگیلانی کی اہلیہ اور بیٹے عبدالقادر گیلانی کو بھی شامل تفتیش کیا۔ ان پر سابق ڈی جی حج راؤ شکیل سے مبینہ طور پر 5کروڑ روپے کے عوض انہیں ڈی جی حج تعینات کرنے کا الزام تھا تاہم تفتیش کے بعد ان کا نام مقدمے سے خارج کر دیا گیا۔ سابق وفاقی وزیر حامد سعید کاظمی پر مالی بدعنوانی کا کوئی الزام ثابت نہیں ہوا تاہم اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے راؤ شکیل اور فیض احمد نامی شخص کی سعودی عرب میں تعیناتی کے شواہد موجود تھے۔ ملزموں پر الزام تھا کہ انہوں نے مکہ اور مدینہ میں پاکستانی عازمین حج کیلئے عمارتیں کرائے پر لینے کے عمل میں بڑے پیمانے پر بے قاعدگی کی اور اس ضمن میں حجاج کرام سے کروڑوں روپے زائد وصول کئے۔ بی بی سی کے مطابق مجرموں کی سزائیں ایک ساتھ شروع ہوں گی اور اس لحاظ سے یہ 6 سال کا عرصہ جیل میں گزاریں گے۔حامد سعید کاظمی کا مؤقف کیا ہے؟سابق وفاقی وزیر حامد سعید کاظمی کو 16برس قید کی سزا ہوگئی، پاکستان میں کرپشن کے اس دلچسپ کیس میں سعودی حکومت بھی فریق ہےَ ۔ سعودی شہزادے بندر بن خالد بن عبدالعزیزالسعود نے اس وقت کے پاکستان میں چیف جسٹس کو طالبان مخالف علامہ کاظمی کے خلاف خط لکھا اور انہوں نے سوموٹو ایکشن لے لیا۔حامد سعید کاظمی پر الزام ہے کہ انہوں نے 2009 میں دوران حج ناقص 11عمارتیں ایک کروڑ ریال دے کر کرائے پر لیں اور یہ استعمال نہیں کی گئیں۔حامد سعید کاظمی کے مطابق جبل ہندی کی جن عمارتوں کے حوالے سے ان پر الزام لگایا گیا، وہ ہر سال کرائے پر لی جاتی ہیں مگر استعمال کی نوبت نہیں آتی کیونکہ سعودی حکومت کا قانون کے کہ حاجیوں کی کل تعداد سے ایک فیصد زیادہ رہائش کا انتظام رکھا جائے۔اس کیس میں ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ سعودی خط میں کہا گیا ہے کہ حاجیوں کو ان عمارتوں میں بھیج کر زیادہ کرایہ وصول کیا گیا جبکہ علامہ کاظمی کے مطابق یہ عمارتیں سرے سے ہی استعمال نہیں ہوئیں۔دلچسپی کی بات یہ ہے یہ عمارتیں جمعیت علمائے اسلام کے رہنما مولانا مکی کی ملکیت ہیں اور وہی ہر سال ان کا کرایہ بطور نذرانہ لیتے ہیں۔جب ان عمارتوں کو کرائے پر لینے کے حوالے سے کرپشن کے الزامات لگے تو حامد سعید کاظمی نے ایک ہائرریویو کمیٹی خود بنائی تھی اور ایف آئی اے علامہ کاظمی کو تمام الزامات سے بری الذمہ قرار دے چکی تھی۔2009میں حجاج کو 25ہزار روپے کی رقم کی واپس کی گئی تھی۔ مگر سوال ضرور اٹھیں گے کہ کرپشن کے خلاف تحقیقات کے نتیجے میں انتہاپسندی کے مخالف ایک ہی طرز فکر کے لوگ چاہے وہ مذہبی ہی کیوں نہ ہوں۔ آخر کیوں سزاوار ٹہرتے ہیں۔حامد سعید کاظمی کو اِس کیس میں ایک سازش کے تحت پھنسایا گیا اور اُنہیں خبر ہی نہ ہوسکے کہ اُن کے پہلو میں بیٹھے ہوئے لوگ اُن کے دوستوں کے روپ میں دُشمن ہیں۔ اپنی درویش طبع عادت کی وجہ سے اور دین کی محبت کے سبب حامد سعید کاظمی کو اُنکے ارگرد جمع ہونے والے فصلی بٹیروں نے اِس طرح اندھیرئے میں رکھا کہ خانقاہی نظام کا ایک نیک سپوت ایسے معاملات میں پھنسا دیا گیا کہ جس کا اُنہیں اندازہ نہ تھا۔ یوں سیاست میں عام آدمی کے سے انداز میں اُبھرنے والی روحانی خانودائے سے منسلک شخصیت کو بدنما داغ لگا دیا گیا۔ مورخ کا قلم اپنے یا غیر کسی کی تمیز نہیں کرتا تاریخ ثابت کرئے گی کہ کس طرح اپنے لیے سیاسی خطرہ سمجھنے والواں نے کاظمی صاحب کو اِس کیس میں پھنسایا۔ انتہائی محترم ترین مذہبی و روحانی شخصیت جناب احمد سعید کاظمی ؒ کی اولاد کو جس طرح کے کٹھن سفر کا سامنا ہے ۔ شاید قدرت کو اِن کے صبر کا امتحان مقصود ہے۔اِس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اللہ کے اِس نیک بندئے کو کس طرح کی گردش دوراں کی بھٹی میں جھونک دیا گیا۔عدالت نے اِس بات کو تسلیم کیا ہے کہ حامد سعید کاظمی پر مالی بد عنوانی ثابت نہیں ہوئی ہے۔پھر پیپلز پارٹی کی حکومت وہ بھی زرداری صاحب کی قیادت میں، اِن حالات میں اعلیٰ افسران کی تقررریاں تو کہیں اور سے ہوتی رہی ہیں اور ملتان کی سر زمین سے ایک نیک نام روحانی خانوادئے کے چشم و چراغ کو سیاسی مداریوں نے اپنی ہوس کی بھینت چڑھادیا۔آخر قید کی صوبتیں برداشت کرنے کے بعد آزادی کا پروانہ مارچ کی بیس تاریخ کو کاظمی صاحب کو مل گیا۔

Sunday, 12 March 2017

صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ سے سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کے سدباب کے حوالے سے خصوصی گفتگو

ایشیا کی سب سے بڑی بار لاہور بار ایسوسی ایشن کی تحفظ 

ناموس رسالتﷺ کمیٹی کے چےئر مین صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ سے سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کے سدباب کے حوالے سے خصوصی گفتگو

صاحبزادہ اشرف عاصمی ایڈووکیٹ لاہور کے علمی و روحانی خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں۔ درگاہ حضرت میاں محمد اسماعیل المعروف حضرت میاں وڈا صاحبؒ کے خانوادے تعلق ہے اورعظیم صوفی بزرگ جناب حضرت حکیم میاں محمد عنائت خان قادری نوشاہیؒ آستانہ نوشاہیہ سرگودہا کے خلیفہ مجاز ہیں۔
قانون کے پیشے سے منسلک ہیں اور ایشیا کی سب سے بڑی بار لاہور بار ایسوسی ایشن کی تحفظ ناموس رسالتﷺ کمیٹی کے چےئر مین ہیں۔صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ ملکی و غیر ملکی اخبارات و جرائد میں مختلف موضوعات پر آرٹیکلز لکھتے ہیں۔انسانی حقوق فرنٹ انٹرنیشنل کے سربراہ ہیں۔سوشل میڈیا پر نبی پاکﷺ کی شان مبارک پر ہونے والی گستاخیوں کے سدباب کے حوالے سے اُن سے گفتگو کی نشست کا اہتمام کیا گیا جو پیش خدمت ہے۔ اُن سے پہلا سوال یہ تھا کہ آزادی اظہار کے نام پر جو کچھ سوشل میڈیا پر ہورہا ہے اُس کے حوالے سے آپ کے کیا جذبات ہیں۔صاحبزادہ اشرف عاصمی ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ جدید دُنیا میں جہاں دُنیا کو ایک ویلج میں تبدیل کر دیا گیا وہاں اظہار رائے کی آزادی کے نام پر بھی بہت سے فتنے سر اُٹھا رہے ہیں۔ نبی پاکﷺ کی ختم نبوت کے حوالے سے آپﷺ کی عزت و ناموس کے حوالے سے یورپی ممالک اور امریکہ میں رسالت مابﷺ کی شان اقدس میں گستاخانہ اندازاختیار کیا جا رہا ہے۔سو شل میڈیا اِس حوالے سے فساد کی جڑ بنتا جارہا ہے۔ کیا ایسا ممکن ہے کہ جس نبی پاکﷺ کی شان اقدس اور عزت و ناموس کی خالقِ کائنات قسمیں کھاتا ہے ایسی ہستی کے حوالے سے نازیبا الفاط استعمال کیے جائیں۔ جبکہ مسلمانوں کا تو عقیدہ ہی نبی پاکﷺ کی ذات اقدس سے محبت سے شروع ہوتا ہے اور ایمانی جذبے کی تکمیل کامنبع بھی آپﷺ کی ذات پاک ہے۔ مسلمانوں کا ایمان ہی اِس ارشاد پاک پر ہے جو آقا کریم ﷺ کاہے کہ تم میں سے کوئی شخص اُس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اپنی اولاد ، جان مال سے بڑھ کر مجھ محمدﷺ سے محبت نہ کرئے۔ جب ایمان کی کسوٹی ہی عشق رسول ﷺ ہے تو پھر دُنیا اِدھر سے اُدھر ہو جائے۔ سوشل میڈیا کی اربوں کھربوں ڈالر کی سرمایہ کاری مسلمانوں کی جوتی کی نوک پر ۔ نام نہاد سوشل میڈیا کی افادیت کا ستیا ناس ہوجائے۔ہمارا دوسرا سوال اُن سے تھا کہ نبی پاکﷺ کی عزت و ناموس کے حوالے سے مسلمانوں کے جذبات سے کیوں کھلا جارہا ہے۔ صاحبزادہ اشرف عاصمی ایدووکیٹ کا کہنا تھا کہانسانی تخیل کی پرواز جتنا سفر کر سکتی ہے اور کائنات کے وجود سے آنے سے لے کر زمانہ حال تک کی تاریخ کے ہر گوشے پر بھی نظر ڈال لے پھر بھی ہی اُس کے ذہن میں ایک ہی بات سما سکتی ہے اور یہ بات اٹل حقیقت ہے کہ دُنیا میں جتنے بھی رہنماء انسانی معاشرت کی رہنمائی کے لیے آئے وہ خالق کائنات کے کرم سے انسانوں کو ہدایت دیتے رہے۔ ان تمام انسانوں میں سے افضل البشر ہستی صرف اور صرف نبی پاکﷺ کی ہے۔ جو انسانیت کی رہنمائی کے لیے اللہ پاک نے خاص طور پر مبعوث فرمائی۔ اِس عظیم ہستی کی توقیر نے ہی انسانیت کو عزت و احترام بخشا ۔ خالق نے جتنی بھی الہامی کتابیں نازل فرمائیں اُن میں سے سب سے افضل کلام انسانیت کے لیے جو نازل فرمایا گیا وہ بھی دُنیاکی افضل ترین ہستی جناب محمد رسول اللہ ﷺ پر نازل ہوا ۔ اللہ پاک نے نبی پاکﷺ کو اُس وقت نبوت پر سرفراز فرما دیا جب ابھی آدم کا ظہور بھی نہ ہوا تھا۔ گویا نبی پاک ﷺ وجہ تخلیق کائنات ہیں۔ آپﷺ کی عظمت در حقیقت اللہ پاک کی عظمت ہے اور آپﷺ کی عظمت کا ادراک درحقیقت انسانیت کی عظمت کی اساس ہے۔دُنیا بھر میں امن کے دُشمن ادیان کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرکے دُنیا میں فساد برپا کیے ہوئے ہیں۔ ہمارا گلا سوال اُن سے یہ تھاکہ عشق رسول ﷺ کے حوالے ہمارے قارئین کو مستفید فرمائیں۔صاحبزادہ اشرف عاصمی گویا ہوئے۔جب عشقِ مصطفی ﷺ کے حوالے سے کسی بھی دنیا وی تگ وتاز کا تذکرہ ہوتا ہے تو حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمر فاروقؓ، حضرت عثمان غنیؓ حضرت علی حیدر کرار، امامِ عالیٰ مقام حضرت امام حسینؓ وامام حسنؓ صحابہ کرامؓ کی زندگی ہمارئے لیے مشعل راہ بن جاتی ہے۔تابعین تبعہ تابین اولیااکرام شھداء اِ ن تمام عاشقان رسولﷺ کا ایک ہی نصب العین ہمارئے سامنے آتا ہے کہ جو ہو نہ عشق مصطفےﷺ تو زندگی فضول ہے۔غلامیِ رسولﷺ میں موت بھی قبول ہے۔اللہ پاک نے یہ کائنات اپنے محبوب بندئے نبی پاکﷺ کے لیے تخلیق کی اور آپﷺ کی بدولت ہیں سارئے جہانوں کے اندر جان ہے۔ حضرت علامہ اقبالؒ کے بقول ہر مسلمان کے اندر روح محمد ﷺ ہے ۔ اب اگر روح محمد کے حامل انسان عاشقِ رسول نہیں ہوگا تو پھر کیسے ہوگا؟۔ گویا خالص اندازِ توحید کا مطلب ہی یہ ہے کہ اللہ اور اُس کے محبوب نبی ﷺ کی اطاعت کی جائے۔ اِس لیے ادب احترام کا دامن کبھی بھی چھوڑا نہ جائے۔کیونکہ جہاں جبریل جیسے قرب الہی رکھنے والے فرشتے کو بھی ااجازت پیش ہونے کی ہمت نہیں جہاں عالم یہ ہو کہ نبی پاکﷺ اُس وقت بھی نبی تھے جب آدم ابھی آب وگل میں تھے۔ جہاں اللہ پاک خود نبی پاکﷺ کے مقام کے تحفظ کی قسم کھاتا ہو۔ جہاں ابوبکرؓکی لیے صرف خدا کا رسولﷺ ہی سب کچھ ہو۔ جہاں عمر فاروقؓ کی عدالت کافیصلہ صرف اِس بات پر ہو کہ نبیﷺ کا فرمان حتمی ہے اور عمر فاروقؓ نبیﷺ کے فرمان میں تاولیں پیش کرنے والے کی گردن اُڑانے کے بعد کہیں کہ اگر تمھیں نبی پاکﷺ کا فیصلہ پسند نہیں تو پھر میرا فیصلہ تو یہ ہے۔ جہاں عثمان غنیؓ دو انوار کے حامل ہوں جہاں حیدر کرارؓؓ کی تربیت نبیﷺ نے خود فرمائی ہوئی جہاں امام عالیٰ مقام حسن و حسین کو اپنے کاندھوں پر جھولے دئیے گئے ہوں ایسی ہستی کے حوالے یہ گمان کرنا کہ اُس کی حثیت عمومیت کی حامل ہے یا وہ عام انسانوں جیسے ہیں یا اُن کا حلقہِ اثر صرف عرب کی سرزمین ہے۔جو نبی پاکﷺ کی شان کو کم کرکے اللہ کی شان بڑھانے کے لیے اپنی توانائیاں صرف کر رہے ہوں تو ایسے لوگوں کے لیے بہترین راستہ یہ ہی ہے کہ وہ نبی ﷺ کا اُمتی بننے کی بجائے یہودی اور عیسائی بن جائیں کیونکہ اُن کے اور ہمارئے درمیاں فرق صرف مصطفے کریمﷺ کی نبوت کا ہے ورنہ یہود نصاریٰ بھی اللہ کو ایک مانتے ہیں ۔ اِس لیے ایسے لوگوں کو اپنے ایمان کی خیر منانی چاہیے ۔ جب اللہ پاک خود فرماتا ہے کہ ائے میرئے محبوب ﷺاگر میں تجھے پیدا نہ کرتا تو زمین وآسمان پیدا نہ کرتا بلکہ اپنے رب ہونے کا اظہار نہ کرتا۔ تو پھر چوں کہ چنانچہ کی گردانیں پڑھنے کی کوئی حثیت نہیں ہے۔اللہ پاک نبی پاک ﷺ ہمارئے ایمان کی بنیاد ہیں۔ قران کو ماننے کی رٹ لگانے والے صاحب قران نبی ﷺ کی عزت و توقیر کیے بغیر کس طرح قران پر من وعن ایمان رکھنے کی بات کرتے ہیں۔ نبی پاکﷺ پر چوبیس سال تک قران نازل ہوا۔ جس بات کو نبی پاکﷺ کی زبان مبارک نے فرمادیا کہ میرئے صحابہ قران میں اللہ پا ک نے یہ فرمایا ہے تو صحابہ اکرامؓ نے اُسے قران سمجھ کر تحریر کر لیا اور جب نبی پاکﷺ نے فرمادیا کہ میرئے صحابہ اکرامؓ یہ بات جو میں کہہ رہا ہوں یہ حدیث ہے تو اُسے صحابہ اکرامؓ نے حدیث کا درجہ دئے دیا۔ جب تعین ہی نبی پاکﷺ نے کرنا ہے کہ یہ قران ہے اور یہ بات قران نہیں ہے تو قران سے زیادہ فضیلت توصاحب قران نبی پاکﷺ کی ہے ۔ جن پر قران نازل ہوا۔ جن کیوجہ سے خالص توحید سے آشنائی ہوئی ۔ جن کی وجہ سے کائنات کا وجود ظہور پذیر ہوا۔ وجہ صرف یہ ہی ہے کہ جب نبی پاکﷺ کا بولنا چلنا پھرنا ایک ایک عمل رب کے حکم سے ہے تو پھر جو کچھ بھی نبی پاکﷺ کاعمل ہے وہ اللہ کا عمل ہے اور جو بھی محبت اور تکریم نبی پاک ﷺکے لیے ہے وہ درحقیت اللہ پاک سے محبت اور تکریم ہے۔اِس لیے نبی پاکﷺ کے بغیر نہ تو اللہ پاک کو راضی کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی ہم مسلمان ہو سکتے ہیں کیونکہ اللہ کو ماننے والے تو یہودنصاریٰ بھی ہیں۔ جن کے متعلق اللہ پاک کا فرمان ہے کہ وہ کبھی کسی مومن کے دوست نہیں ہوسکتے ۔ نام نہاد آزادی اظہار کے علمبرداروں کو شرم نہیں اور اللہ کے محبوب ﷺ کی ذات اقدس کے حوالے سے گستاخی مرتکب ہو تے ہیں ۔ یاد رکھیں بقول حضرت اقبالﷺ ہر مسلمان کی اند روح محمدﷺ ہے اور اِس روح محمدﷺ کا یہ کمال ہے کہ ہر مسلمان اپنا آقا کریمﷺ سے اپنی جان مال اولاد سے بڑھ کر محبت کرتاہے۔ہمارا سوال یہ تھا کہ قران پاک میں خاص طور پر نبی پاکﷺ کے دُشمن کا ذکر ہے اور اللہ پاک نے خود اُص دُشمن کو بدعائیں دیں اُس حوالے سے ہمارے قارئین کو کچھ بتائیں۔ سورۃ لہب کے مکی ہونے میں تو مفسرین کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے، لیکن ٹھیک ٹھیک یہ متعین کرنا مشکل ہے کہ مکی دور کے کس زمانے میں نازل ہوئی تھی۔ البتہ ابولہب کا جو کردار رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آپﷺ کی دعوتِ حق کے خلاف تھا اُس کو دیکھتے ہوئے یہ اندازا کیا جا سکتا ہے کہ اِس سورت کا نزول اُس زمانے میں ہوا ہوگا جب وہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عداوت میں حد سے گزر گیا تھا اور اُس کا رویہ اسلام کی راہ میں بڑی رکاوٹ بن رہا تھا۔ بعید نہیں کہ اِس کا نزول اُس زمانے میں ہوا ہو جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آپﷺ کے خاندان والوں کا مقاطعہ کر کے قریش کے لوگوں نے اُن کو شِعبِ ابی طالب میں محصور کر دیا تھا اور تنہا ابو لہب ہی ایسا شخص تھا جس نے اپنے خاندان والوں کو چھوڑ کر دشمنوں کا ساتھ دیا تھا۔ اِس قیاس کی بنا یہ ہے کہ ابو لہب محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا چچا تھا، اور بھتیجے کی زبان سے چچا کی کھلم کھلا مذمت کرانا اُس وقت تک مناسب نہ ہو سکتا تھا جب تک چچا کی حد سے گزری ہوئی زیادتیاں علانیہ سب کے سامنے نہ آ گئی ہوں۔ اس سے پہلے اگر ابتدا ہی میں یہ سورت نازل کر دی گئی ہوتی تو لوگ اس کو اخلاقی حیثیت سے معیوب سمجھتے کہ بھتیجا اپنے چچا کی اِس طرح مذمت کرے۔ابو لہب کا اصل نام عبدالعزٰی تھا۔ قرآن مجید میں صرف اسی شخص کا نام لے کر اس کی مذمت کی گئی ہے حالانکہ مکہ میں بھی اور ہجرت کے بعد مدینہ میں بھی بہت سے لوگ ایسے تھے جو اسلام اور پیغمبر اسلام کی عداوت میں ابو لہب سے کسی طو رپر بھی کم نہ تھے۔ یہ شخص مکہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے قریبی ہمسایہ تھا، دونوں گھروں کے
درمیا ن صرف ایک دیوار حائل تھی۔ یہ اور اس کے اہل خانہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی چین لینے نہیں دیا تھا۔ آپ کبھی نماز پڑھ رہے ہوتے تو یہ بکر ی کی اوجھڑی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پھینک دیتے۔ ہنڈیا میں غلاظت ڈال دیتے۔ ابو لہب کی بیوی امّ جمیل کا تو روزانہ کا کسب یہی تھا کہ وہ راتوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کے دروازے پر خاردار جھاڑیاں لاکر بچھاد یتی تھی تاکہ صبح سویرے جب آپﷺ یا آپﷺ کے بچے باہر نکلیں تو کوئی کانٹا پاؤں میں چبھ جائے۔اس کے علاوہ بھی یہ شخص ہر اس جگہ پہنچ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرتا جہاں آپﷺ دعوتِ دین کے لیے جاتے اورلوگوں کو آپﷺ کے خلاف اُکساتا۔چنانچہ اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ا س شخض کانام لے کر درج ذیل سورۃ مبارکہ میں اس کی اور اس کی بیوی کی مَذمت فرمائی ترجمہ ،ٹوٹ گئے ابولہب کے ہاتھ اورنامراد ہوگیا وہ۔اُس کا مال اورجو کچھ اس نے کمایا وہ اس کے کسی کام نہ آیا۔ ضرور وہ شعلہ زن آگ میں ڈالا جائے گا اور(اُس کے ساتھ)اُس کی جورو(بیوی)بھی،لگائی بجھائی کرنے والی،اُ س کی گردن میں مونجھ کی رسّی ہوگی۔ اس سورۃ مبارکہ میں بالواسطہ اللہ تعالیٰ نے یہ پیشین گوئی فرمائی تھی کہ ابولہب اور اس کی بیوی کبھی بھی اسلام قبول نہیں کریں گے۔ اور ان کی موت ذلت آمیز ہوگی۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا،حالانکہ یہ سورۃ مبارکہ ابولہب کی موت سے تقریباً10 سال پہلے نازل ہوئی تھی، اگر وہ اسلام قبول کرلیتا تو نعوذباللہ قرآن غلط ثابت ہو سکتا تھامگر ایسانہیں ہوا ۔اہم بات یہ کہ اس کی موت کے بعد اس کی بیٹی درّہ اور اس کے دونوں بیٹوں عُتبہ اور متعب نے اسلام قبول کرلیا۔ تفاسیر میں آتاہے کہ جنگ بدرمیں قریش کی شکست کی جب اسے مکہ میں خبر ملی تو اُ س کو اتنا رنج ہوا کہ وہ سات دن سے
زیادہ زندہ نہ رہ سکا۔ پھر اس کی موت بھی نہا یت عبرتناک تھی۔ اسے عَدَسَہ کی بیماری ہو گئی جس کی وجہ سے اس کے گھر والوں نے اُسے چھوڑدیا،کیونکہ انہیں چھوت لگنے کا ڈر تھا۔ مرنے کے بعد بھی تین روز تک کوئی اس کے پاس نہ آیا یہاں تک کہ اس کی لاش سڑگئی اوراس کی بو پھیلنے لگی۔ آخرکار جب لوگوں نے اس کے بیٹوں کو طعنے دینے شروع کیے تو ایک روایت یہ ہے کہ انہوں نے کچھ حبشیوں کو اجرت دے کر اس کی لاش اٹھوائی اورانہی مزدوروں نے اس کو دفن کیا اوردوسری روایت یہ ہے کہ انہوں نے ایک گڑھا کھدوایا اورلکڑیوں سے اس کی لاشکو دھکیل کر اس میں پھینکا اوراوپر سے مٹی ڈال کر اسے ڈھانک دیا۔چنانچہ اللہ تعالیٰ کا قرآن مجید میں یہ فرمان حرف بحرف سچ ثابت ہوا جو
اس کی سچائی کی ایک اور واضح دلیل ہے۔ہمارا سوال اب یہ تھا کہ نبی پاکﷺ کی شان اقدس میں ہونے والی گستاخیوں کا سدباب کیسے کیا جاسکتا ہے۔ صاحبزادہ اشرف عاصمی فرمانے لگے کہ مسلمانوں کے لیے یہ ایک نہایت ہی حساس مواملہ ہے اور اِص پر کمزور سے کمزور ایمان والا مسلمان بھی کوئی کمپرو مائز نہین کر سکتا۔ اِس حوالے سے ہماری حکومت کو چاہیے کہ بین الاقوامی سطع پر قانون سازی کروائی جائے کہ کسی بھی نبی ؑ کی شان میں گستاخی کو جرم قرار دیا جائے اور اس طرح تمام مذاہب کے لوگ امن و آشتی کے ساتھ زندگی بسر کر سکتے ہیں۔ ہمارا سوال اب یہ ہے کہ بتائیے کہ پاکستان میں تحفظ ناموس رسالتﷺ کے قانون کے نفاذ کی کیا صورتحال ہے۔ صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ 295-C تعزیزات پاکستان کا قانون اِس حوالے سے موجود ہے اور اس کے نفاذ کی صورتحال سب کے سامنے ہے کہ آٹھ سو سے زیادہ کیس اِس وقت زیر التوا ہیں۔ریاست جب اپنی ذمہ داریاں پوری نہ کرئے تو پھر عوام قانون اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں ایسا ہی ممتاز قادری شہیدؒ کے معاملے میں ہوا تھا کہ ریاست نے اپنی ذمہ داریاں پوری نہ کیں تھیں۔ سوشل میڈیا پر گستاخیوں کے سلسلے کو بند کرنے کے لیے حکومت کو چاہیے کہ فیس بۃک اور گوگل جو بھی کمپنیاں اں ص کاوبار میں ہین کہ اُنھیں صاف صاف بتا دینا چاہیے کہ وہ اِس حوالے سے اپنا کردار ادا کریں ورنہ اُن کا پاکستان میں کام بند کردیا جائے ۔سائبر کرائمز کنٹرول کے قانون پر بھی عمل درآمد صرف اُسی صورت میں ہوسکتا ہے جب یہ کمپنیاں تعاون کریں دوسرئے ممالک سے مواد جو اپ لوڈ ہوتا ہے اس کا سدباب تما م سوشل میڈیا کے کاروبار میں جو کمپنیاں ہیں وہی کردار ادا کرسکتی ہیں۔

Saturday, 11 March 2017

نبی پاکﷺ کی عزت و ناموس کا تحفظ ہر مسلمان کا فرضِ اولین.........صاحبزاہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ ہائی کورٹ

نبی پاکﷺ کی عزت و ناموس کا تحفظ ہر مسلمان کا فرضِ اولین


صاحبزاہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ ہائی کورٹ
چےئرمین تحفظ ناموس رسالتﷺ کمیٹی لاہور بار


انسانی تخیل کی پرواز جتنا سفر کر سکتی ہے اور کائنات کے وجود سے آنے سے لے کر زمانہ حال تک کی تاریخ کے ہر گوشے پر بھی نظر ڈال لے پھر بھی ہی اُس کے ذہن میں ایک ہی بات سما سکتی ہے اور یہ بات اٹل حقیقت ہے کہ دُنیا میں جتنے بھی رہنماء انسانی معاشرت کی رہنمائی کے لیے آئے وہ خالق کائنات کے کرم سے انسانوں کو ہدایت دیتے رہے۔ ان تمام انسانوں میں سے افضل البشر ہستی صرف اور صرف نبی پاکﷺ کی ہے۔ جو انسانیت کی رہنمائی کے لیے اللہ پاک نے خاص طور پر مبعوث فرمائی۔ اِس عظیم ہستی کی توقیر نے ہی انسانیت کو عزت و احترام بخشا ۔ خالق نے جتنی بھی الہامی کتابیں نازل فرمائیں اُن میں سے سب سے افضل کلام انسانیت کے لیے جو نازل فرمایا گیا وہ بھی دُنیاکی افضل ترین ہستی جناب محمد رسول اللہ ﷺ پر نازل ہوا ۔ اللہ پاک نے نبی پاکﷺ کو اُس وقت نبوت پر سرفراز فرما دیا جب ابھی آدم کا ظہور بھی نہ ہوا تھا۔ گویا نبی پاک ﷺ وجہ تخلیق کائنات ہیں۔ آپﷺ کی عظمت در حقیقت اللہ پاک کی عظمت ہے اور آپﷺ کی عظمت کا ادراک درحقیقت انسانیت کی عظمتوں کا اساس ہے۔دُنیا بھر میں امن کے دُشمن ادیان کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرکے دُنیا میں فساد برپا کیے ہوئے ہیں۔ ساری دُنیا جانتی ہے کہ مسلمانوں نے اسلام کو بزور شمشیر نہیں پھیلایا بلکہ نبی پاکﷺ کی عظمت کو دلوں میں راسخ کیا۔ جدید دُنیا میں جہاں دُنیا کو ایک گلوبل ویلج میں تبدیل کر دیا گیا وہاں اظہار رائے کی آزادی کے نام پر بھی بہت سے فتنے سر اُٹھا رہے ہیں۔ نبی پاکﷺ کی ختم نبوت کے حوالے سے آپﷺ کی عزت و ناموس کے حوالے سے یورپی ممالک اور امریکہ میں رسالت مابﷺ کی شان اقدس میں گستاخانہ اندازاختیار کیا جا رہا ہے۔سو شل میڈیا اِس حوالے سے فساد کی جڑ بنتا جارہا ہے۔ کیا ایسا ممکن ہے کہ جس نبی پاکﷺ کی شان اقدس اور عزت و ناموس کی خالقِ کائنات قسمیں کھاتا ہے ایسی ہستی کے حوالے نازیبا الفاط استعمال کیے جائیں۔ جبکہ مسلمانوں کا تو عقیدہ ہی نبی پاکﷺ کی ذات اقدس سے محبت سے شروع ہوتا ہے اور ایمانی جذبے کی تکمیل کامنبع بھی آپﷺ کی ذات پاک ہے۔ مسلمانوں کا ایمان ہی اِس ارشاد پاک پر ہے جو آقا کریم ﷺ کاہے کہ تم میں سے کوئی شخص اُس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اپنی اولاد ، جان مال سے بڑھ کر مجھ محمدﷺ سے محبت نہ کرئے۔ جب ایمان کی کسوٹی ہی عشق رسول ﷺ ہے تو پھر دُنیا اِدھر سے اُدھر ہو جائے۔ سوشل میڈیا کی اربوں کھربوں ڈالر کی سرمایہ کاری مسلمانوں کی جوتی کی نوک پر ۔ نام نہاد سوشل میڈیا کی افادیت کا ستیا ناس ہوجائے۔ سورۃ لہب کے مکی ہونے میں تو مفسرین کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے، لیکن ٹھیک ٹھیک یہ متعین کرنا مشکل ہے کہ مکی دور کے کس زمانے میں نازل ہوئی تھی۔ البتہ ابولہب کا جو کردار رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آپﷺ کی دعوتِ حق کے خلاف تھا اُس کو دیکھتے ہوئے یہ اندازا کیا جا سکتا ہے کہ اِس سورت کا نزول اُس زمانے میں ہوا ہوگا جب وہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عداوت میں حد سے گزر گیا تھا اور اُس کا رویہ اسلام کی راہ میں بڑی رکاوٹ بن رہا تھا۔ بعید نہیں کہ اِس کا نزول اُس زمانے میں ہوا ہو جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آپﷺ کے خاندان والوں کا مقاطعہ کر کے قریش کے لوگوں نے اُن کو شِعبِ ابی طالب میں محصور کر دیا تھا اور تنہا ابو لہب ہی ایسا شخص تھا جس نے اپنے خاندان والوں کو چھوڑ کر دشمنوں کا ساتھ دیا تھا۔ اِس قیاس کی بنا یہ ہے کہ ابو لہب محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا چچا تھا، اور بھتیجے کی زبان سے چچا کی کھلم کھلا مذمت کرانا اُس وقت تک مناسب نہ ہو سکتا تھا جب تک چچا کی حد سے گزری ہوئی زیادتیاں علانیہ سب کے سامنے نہ آ گئی ہوں۔ اس سے پہلے اگر ابتدا ہی میں یہ سورت نازل کر دی گئی ہوتی تو لوگ اس کو اخلاقی حیثیت سے معیوب سمجھتے کہ بھتیجا اپنے چچا کی اِس طرح مذمت کرے۔ابو لہب کا اصل نام عبدالعزٰی تھا۔ قرآن مجید میں صرف اسی شخص کا نام لے کر اس کی مذمت کی گئی ہے حالانکہ مکہ میں بھی اور ہجرت کے بعد مدینہ میں بھی بہت سے لوگ ایسے تھے جو اسلام اور پیغمبر اسلام کی عداوت میں ابو لہب سے کسی طو رپر بھی کم نہ تھے۔ یہ شخص مکہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے قریبی ہمسایہ تھا، دونوں گھروں کے
درمیا ن صرف ایک دیوار حائل تھی۔ یہ اور اس کے اہل خانہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی چین لینے نہیں دیا تھا۔ آپ کبھی نماز پڑھ رہے ہوتے تو یہ بکر ی کی اوجھڑی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پھینک دیتے۔ ہنڈیا میں غلاظت ڈال دیتے۔ ابو لہب کی بیوی امّ جمیل کا تو روزانہ کا کسب یہی تھا کہ وہ راتوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کے دروازے پر خاردار جھاڑیاں لاکر بچھاد یتی تھی تاکہ صبح سویرے جب آپﷺ یا آپﷺ کے بچے باہر نکلیں تو کوئی کانٹا پاؤں میں چبھ جائے۔اس کے علاوہ بھی یہ شخص ہر اس جگہ پہنچ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرتا جہاں آپﷺ دعوتِ دین کے لیے جاتے اورلوگوں کو آپﷺ کے خلاف اُکساتا۔چنانچہ اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ا س شخض کانام لے کر درج ذیل سورۃ مبارکہ میں اس کی اور اس کی بیوی کی مَذمت فرمائی ترجمہ ،ٹوٹ گئے ابولہب کے ہاتھ اورنامراد ہوگیا وہ۔اُس کا مال اورجو کچھ اس نے کمایا وہ اس کے کسی کام نہ آیا۔ ضرور وہ شعلہ زن آگ میں ڈالا جائے گا اور(اُس کے ساتھ)اُس کی جورو(بیوی)بھی،لگائی بجھائی کرنے والی،اُ س کی گردن میں مونجھ کی رسّی ہوگی۔ اس سورۃ مبارکہ میں بالواسطہ اللہ تعالیٰ نے یہ پیشین گوئی فرمائی تھی کہ ابولہب اور اس کی بیوی کبھی بھی اسلام قبول نہیں کریں گے۔ اور ان کی موت ذلت آمیز ہوگی۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا،حالانکہ یہ سورۃ مبارکہ ابولہب کی موت سے تقریباً10 سال پہلے نازل ہوئی تھی، اگر وہ اسلام قبول کرلیتا تو نعوذباللہ قرآن غلط ثابت ہو سکتا تھامگر ایسانہیں ہوا۔ لطف کی بات یہ کہ اس کی موت کے بعد اس کی بیٹی درّہ اور اس کے دونوں بیٹوں عُتبہ اور متعب نے اسلام قبول کرلیا۔ تفاسیر میں آتاہے کہ جنگ بدرمیں قریش کی شکست کی جب اسے مکہ میں خبر ملی تو اُ س کو اتنا رنج ہوا کہ وہ سات دن سے زیادہ زندہ نہ رہ سکا۔ پھر اس کی موت بھی نہا یت عبرتناک تھی۔ اسے عَدَسَہ (Malignant Pustule)کی بیماری ہو گئی جس کی وجہ سے اس کے گھر والوں نے اُسے چھوڑدیا،کیونکہ انہیں چھوت لگنے کا ڈر تھا۔ مرنے کے بعد بھی تین روز تک کوئی اس کے پاس نہ آیا یہاں تک کہ اس کی لاش سڑگئی اوراس کی بو پھیلنے لگی۔ آخرکار جب لوگوں نے اس کے بیٹوں کو طعنے دینے شروع کیے تو ایک روایت یہ ہے کہ انہوں نے کچھ حبشیوں کو اجرت دے کر اس کی لاش اٹھوائی اورانہی مزدوروں نے اس کو دفن کیا اوردوسری روایت یہ ہے کہ انہوں نے ایک گڑھا کھدوایا اورلکڑیوں سے اس کی لاش کو دھکیل کر اس میں پھینکا اوراوپر سے مٹی ڈال کر اسے ڈھانک دیا۔چنانچہ اللہ تعالیٰ کا قرآن مجید میں یہ فرمان حرف بحرف سچ ثابت ہوا جو
اس کی سچائی کی ایک اور واضح دلیل ہے۔زخموں سے رِستا ہوا لہو اور محبوب کے فراق کے لمحات دونوں میں فرق نہیں دونوں کی حثیت عمومیت کی حامل ہوتی ہے۔نہ تو فراق کوئی اجنبی شے ہوتی ہے عاشق کے لیے اور نہ ہی زخموں سے لہو کا رِسنازخموں کے لیے کوئی انوکھا کام ہوتا ہے۔عاشق کا عشق سلامت ہے تو پھر یہ راہ عشق کے اندازبھی جاری ہیں ۔ورنہ کہاں کے زخم اور کہاں کے فرقت کے لمحات۔جب عشقِ مصطفی ﷺ کے حوالے سے کسی بھی دنیا وی تگ وتاز کا تذکرہ ہوتا ہے تو حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمر فاروقؓ، حضرت عثمان غنیؓ حضرت علی حیدر کرار، امامِ عالیٰ مقام حضرت امام حسینؓ وامام حسنؓ صحابہ کرامؓ کی زندگی ہمارئے لیے مشعل راہ بن جاتی ہے۔تابعین تبعہ تابین اولیااکرام شھداء اِ ن تمام عاشقان رسولﷺ کا ایک ہی نصب العین ہمارئے سامنے آتا ہے کہ جو ہو نہ عشق مصطفےﷺ تو زندگی فضول ہے۔غلامیِ رسولﷺ میں موت بھی قبول ہے۔اللہ پاک نے یہ کائنات اپنے محبوب بندئے نبی پاکﷺ کے لیے تخلیق کی اور آپﷺ کی بدولت ہیں سارئے جہانوں کے اندر جان ہے۔ حضرت علامہ اقبالؒ کے بقول ہر مسلمان کے اندر روح محمد ﷺ ہے ۔ اب اگر روح محمد کے حامل انسان عاشقِ رسول نہیں ہوگا تو پھر کیسے ہوگا؟۔ گویا خالص اندازِ توحید کا مطلب ہی یہ ہے کہ اللہ اور اُس کے محبوب نبی ﷺ کی اطاعت کی جائے۔ اِس لیے ادب احترام کا دامن کبھی بھی چھوڑا نہ جائے۔کیونکہ جہاں جبریل جیسے قرب الہی رکھنے والے فرشتے کو بھی ااجازت پیش ہونے کی ہمت نہیں جہاں عالم یہ ہو کہ نبی پاکﷺ اُس وقت بھی نبی تھے جب آدم ابھی آب وگل میں تھے۔ جہاں اللہ پاک خود نبی پاکﷺ کے مقام کے تحفظ کی قسم کھاتا ہو۔ جہاں ابوبکرؓکی لیے صرف خدا کا رسولﷺ ہی سب کچھ ہو۔ جہاں عمر فاروقؓ کی عدالت کا
فیصلہ صرف اِس بات پر ہو کہ نبیﷺ کا فرمان حتمی ہے اور عمر فاروقؓ نبیﷺ کے فرمان میں تاولیں پیش کرنے والے کی گردن اُڑانے کے بعد کہیں کہ اگر تمھیں نبی پاکﷺ کا فیصلہ پسند نہیں تو پھر میرا فیصلہ تو یہ ہے۔ جہاں عثمان غنیؓ دو انوار کے حامل ہوں جہاں حیدر کرارؓؓ کی تربیت نبیﷺ نے خود فرمائی ہوئی جہاں امام عالیٰ مقام حسن و حسین کو اپنے کاندھوں پر جھولے دئیے گئے ہوں ایسی ہستی کے حوالے یہ گمان کرنا کہ اُس کی حثیت عمومیت کی حامل ہے یا وہ عام انسانوں جیسے ہیں یا اُن کا حلقہِ اثر صرف عرب کی سرزمین ہے۔جو نبی پاکﷺ کی شان کو کم کرکے اللہ کی شان بڑھانے کے لیے اپنی توانائیاں صرف کر رہے ہوں تو ایسے لوگوں کے لیے بہترین راستہ یہ ہی ہے کہ وہ نبی ﷺ کا اُمتی بننے کی بجائے یہودی اور عیسائی بن جائیں کیونکہ اُن کے اور ہمارئے درمیاں فرق صرف مصطفے کریمﷺ کی نبوت کا ہے ورنہ یہود نصاریٰ بھی اللہ کو ایک مانتے ہیں ۔ اِس لیے ایسے لوگوں کو اپنے ایمان کی خیر منانی چاہیے ۔ جب اللہ پاک خود فرماتا ہے کہ ائے میرئے محبوب ﷺاگر میں تجھے پیدا نہ کرتا تو زمین وآسمان پیدا نہ کرتا بلکہ اپنے رب ہونے کا اظہار نہ کرتا۔ تو پھر چوں کہ چنانچہ کی گردانیں پڑھنے کی کوئی حثیت نہیں ہے۔اللہ پاک نبی پاک ﷺ ہمارئے ایمان کی بنیاد ہیں۔ قران کو ماننے کی رٹ لگانے والے صاحب قران نبی ﷺ کی عزت و توقیر کیے بغیر کس طرح قران پر من وعن ایمان رکھنے کی بات کرتے ہیں۔ نبی پاکﷺ پر چوبیس سال تک قران نازل ہوا۔ جس بات کو نبی پاکﷺ کی زبان مبارک نے فرمادیا کہ میرئے صحابہ قران میں اللہ پا ک نے یہ فرمایا ہے تو صحابہ اکرامؓ نے اُسے قران سمجھ کر تحریر کر لیا اور جب نبی پاکﷺ نے فرمادیا کہ میرئے صحابہ اکرامؓ یہ بات جو میں کہہ رہا ہوں یہ حدیث ہے تو اُسے صحابہ اکرامؓ نے حدیث کا درجہ دئے دیا۔ جب تعین ہی نبی پاکﷺ نے کرنا ہے کہ یہ قران ہے اور یہ بات قران نہیں ہے تو قران سے زیادہ فضیلت تو
صاحب قران نبی پاکﷺ کی ہے ۔ جن پر قران نازل ہوا۔ جن کیوجہ سے خالص توحید سے آشنائی ہوئی ۔ جن کی وجہ سے کائنات کا وجود ظہور پذیر ہوا۔ وجہ صرف یہ ہی ہے کہ جب نبی پاکﷺ کا بولنا چلنا پھرنا ایک ایک عمل رب کے حکم سے ہے تو پھر جو کچھ بھی نبی پاکﷺ کاعمل ہے وہ اللہ کا عمل ہے اور جو بھی محبت اور تکریم نبی پاک ﷺکے لیے ہے وہ درحقیت اللہ پاک سے محبت اور تکریم ہے۔اِس لیے نبی پاکﷺ کے بغیر نہ تو اللہ پاک کو راضی کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی ہم مسلمان ہو سکتے ہیں کیونکہ اللہ کو ماننے والے تو یہودنصاریٰ بھی ہیں۔ جن کے متعلق اللہ پاک کا فرمان ہے کہ وہ کبھی کسی مومن کے دوست نہیں ہوسکتے ۔ نام نہاد آزادی اظہار کے علمبرداروں کو شرم نہیں اور اللہ کے محبوب ﷺ کی ذات اقدس کے حوالے سے گستاخی مرتکب ہو تے ہیں ۔ یاد رکھیں بقول حضرت اقبالﷺ ہر مسلمان کی اند روح محمدﷺ ہے اور اِس روح محمدﷺ کا یہ کمال ہے کہ ہر مسلمان اپنا آقا کریمﷺ سے اپنی جان مال اولاد سے بڑھ کر محبت کرتاہے۔

Wednesday, 1 March 2017

میں ای سی او وژن 2025ء کی منظوری پاکستان کی ایک بڑی کامیابی   (ECO)     اقتصادی تعاون تنظیم

(ECO)                                   

 میں ای سی او وژن 2025ء کی منظوری پاکستان کی ایک 

    بڑی کامیابی                                  

صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ

ای سی او ایک بین الاقوامی تنظیم ہے جس میں ایشیائی ممالک شامل ہے۔ یہ رکن ممالک کے درمیان تجارت اور سرمایہ کاری کے مواقع ترتیب دے کر انہیں ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرنے کے لئے ایک پلیٹ فارم مہیا کرتی ہے۔ اس کے رکن ممالک میں افغانستان، آذربائیجان، ایران، قازقستان، کرغزستان، پاکستان، تاجکستان، ترکی، ترکمانستان اور ازبکستان شامل ہیں۔ ای سی او کا صدر دفتر ایران کے دارالحکومت تہران میں واقع ہے۔ اس تنظیم کا مقصد یورپی اقتصادی اتحاد کی طرح اشیاء اور خدمات کے لئے واحد مارکیٹ تشکیل دینا ہے۔ یہ تنظیم 1985ء میں ایران، پاکستان اور ترکی نے مل کر قائم کی تھی۔ اس تنظیم نے علاقائی تعاون برائے ترقی (انگریزی:Regional Cooperation for Development) یعنی آر سی ڈی کی جگہ لی جو 1962ء میں قائم ہوئی اور 1979ء میں اس کی سرگرمیاں ختم ہوگئیں۔ 1992ء کے موسم خزاں میں افغانستان سمیت وسط ایشیا کے 7 ممالک آذربائیجان، قازقستان، کرغزستان، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان کو بھی تنظیم کی رکنیت دی گئی۔رکن ممالک کے درمیان 17 جولائی 2003ء کو اسلام آباد میں اقتصادی تعاون تنظیم تجارتی معاہدہ (ECOTA) پر دستخط کئے گئے۔اس تنظیم کے تمام رکن ممالک موتمر عالم اسلامی (او آئی سی) کے بھی رکن ہیں جبکہ 1995ء سے ای سی او کو او آئی سی میں مبصر کا درجہ بھی حاصل ہے۔13ویں اقتصادی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس کے اعلامیہ میں رکن ممالک نے انتہاپسندی، دہشت گردی اور منشیات کی اسمگلنگ کے چیلنجز سے نمٹنے کے لئے مشترکہ عزم کا اظہار کیا ہے تاکہ خطہ میں امن اور خوشحالی کے ویژن کو عملی جامہ پہنایا جا سکے، اعلامیہ میں تنظیم کے رکن ممالک کے درمیان باہمی روابط کو مزید مضبوط بنانے کے عزم کا اظہار کیا گیا ہے۔خطہ کے ممالک کے درمیان توانائی کے شعبہ میں تعاون کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا ہے۔ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ مشترکہ خوشحالی کے لئے روابط کا فروغ ضروری ہے۔ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ تمام گورننگ باڈیز کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ سفارشات پر عملدرآمد یقینی بنائیں۔ وزیراعظم نوازشریف نے ای سی او تنظیم کے سیکرٹری جنرل ابراہیم حلیل آکچا کے ہمراہ 13ویں ای سی او سربراہی کانفرنس کا اعلامیہ پڑھ کر سنایا۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ میں 13ویں ای سی او سربراہی کانفرنس کے خاتمہ کا اعلان کرتے ہوئے بے حد خوشی محسوس کر رہا ہوں۔ میں کانفرنس میں شرکت پر رکن ممالک کے صدور، وزرائے اعظم وفود کے سربراہوں، آبزرورز اور خصوصی مہمانوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ اجلاس کے شرکا ء کی قیمتی آرائنے اجلاس کو کامیاب بنانے میں مدد دی ہے۔اجلاس میں خطہ کے مسائل کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا گیا۔ ای سی او کی توسیع کی 25ویں سالگرہ کے موقع پر سربراہی کانفرنس کی میزبانی پاکستان کے لئے اعزاز کی بات ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ تاریخی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے لئے ای سی او تنظیم کے سربراہوں نے ای سی او گورننگ باڈیز کو ہدایت کی ہے کہ وہ سربراہی اجلاس کے تھیم خطہ کی خوشحالی کے لئے روابط کا قیام کے مطابق خطہ کے ممالک کے درمیان کثیرالجہتی سطح پر روابط کو مزید مضبوط کرنے کے لئے اقدامات کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد اعلامیہ ہمارے مجموعی سیاسی عزم کا اظہار ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ 13ویں ای سی او سربراہی اجلاس میں ویژن 2025ء کی منظوری ایک بڑی کامیابی ہے۔ ویژن 2025ء کے تحت واضح اور قابل عمل اہداف کا تعین کیا گیا ہے۔ اس تنظیم کی ترجیحات کو حقیقت کا روپ دینے میں مدد ملے گی۔ اس سلسلہ میں ہم مشترکہ طور پر سمندری، زمینی، فضائی اور سائبر سپیس کے شعبوں میں روابط کے قیام اور ان کو مزید مضبوط بنانے کے لئے کوششوں کی ضرورت ہے۔ اس سے خطہ کے ممالک کے درمیان تجارت میں اضافہ ہو گا۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ توانائی کی فراہمی کسی بھی معاشی ترقی کے منصوبہ پر عملدرآمد کے لئے ضروری ہے۔ ہم نے خطہ کے ممالک کے درمیان توانائی کے شعبہ میں تعاون پرزور دیا ہے۔ اس سے خطہ کے لوگوں کو سستی توانائی کی فراہمی میں مدد ملے گی۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ای سی او تنظیم کا مرکز لوگ ہیں۔ اس لئے ہم نے لوگوں کے درمیان باہمی روابط میں اضافہ اور سیاحت کے فروغ کے لئے اہم اقدامات کئے ہیں۔ تنظیم کے ممالک فوڈ سکیورٹی اور موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے تعاون کے لئے تیار ہیں۔اس سلسلہ میں اعلیٰ تعلیم اور ریسرچ کے اداروں روابط قائم کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا ہے جبکہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں شراکت داری کو مضبوط بنانے پر بھی زور دیا ہے۔ ہم نے 2030ء کے
ایجنڈا پر موثر عملدرآمد کے لئے تعاون پر اتفاق کیا ہے۔ اس ایجنڈا کا مقصد ہے کہ کوئی بھی پیچھے نہ رہے۔ مختلف شعبوں میں تعاون سے تنظیم کے ممالک کو ایک دوسرے کے قریب آنے میں مدد ملی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم آپس میں مل کر کام کرنے کے لئے پرعزم ہیں تاکہ خطہ کے لوگوں کی زندگی میں تبدیلی لائی جا سکے اور خطہ کو امن، ترقی اور خوشحالی کے مضبوط قلعہ میں تبدیل کیا جا سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم مجموعی طور پر انتہا پسندی، دہشت گردی اور منشیات کی سمگلنگ کے چیلنجز سے نمٹنے کے لئے تیار ہیں تاکہ خطہ میں امن اور خوشحالی کے ویژن کو عملی جامہ پہنایا جا سکے۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ میں ای سی او ایوارڈز جیتنے والوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ ان کا کہنا تھا کہ سربراہی کانفرنس کا کامیابی سے انعقاد پاکستان کے خطہ میں مثبت تبدیلی اور ترقی کے علمبردار ہونے کا اظہار ہے۔وزیراعظم میاں نواز شریف کو اقتصادی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس کیلئے چیئرمین منتخب کرلیا گیا ہے۔وزیراعظم نے 13 ویں اجلاس سے افتتاحی خطاب کرتے ہوئے کہاکہ ای سی او تنظیم بڑے خطے کا احاطہ کرتی ہے،وقت آگیا ہے کہ ہم اپنا تاریخی کردار ادا کریں،ای سی او شمال اور جنوب میں رابطے کا اہم ذریعہ ہے۔ اسلام آباد میں جاری اقتصادی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس میں وزیراعظم میاں نواز شریف نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اجلاس میں تمام مہمانوں کا خیرمقدم کرتے ہیں،علاقائی روابط کو مضبوط بنانے کیلئے ای سی او اہم فورم ہے،سربراہ اجلاس کامیاب بنانے کیلئے سیکرٹری جنرل اور انکی ٹیم کا مشکور ہوں۔انہوں نے کہا کہ ای سی او کا خطہ بے پناہ وسائل اور صلاحیتوں سے مالا مال ہے،دنیا کی 52 فیصد تجارت ای سی او کے خطے سے ہوتی ہے،اجلاس میں چین اور اقوام متحدہ کے نمایندوں کی شرکت پر مشکور ہیں۔وزیراعظم کا کہنا تھا کہ وقت آگیا ہے کہ ہم اپنا تاریخی کردار ادا کریں،مشترکہ خوشحالی کے لیے رابطوں کا فروغ ضروری ہے،سربراہ اجلاس میں رابطوں کو مضبوط بنانے پر توجہ مرکوز ہوگی۔اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے مزید کہا کہ ای سی او کا خطہ تجارتی سرگرمیوں کا مرکز رہاہے،ریلوے،شاہراہیں اورتیل و گیس کی پائپ لائنیں خطے کو قریب لارہی ہیں۔میاں نواز شریف نے کہا کہ مواصلات کے شعبوں میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری ہورہی ہے،2013 سے حکومت سنبھالنے کے بعدپرامن ہمسائیگی کی پالیسی اپنائی ہے۔اقتصادی تعاون تنظیم کا 13 واں سربراہی اجلاس اسلام آباد میں جاری رہا جس کی صدارت اور میزبانی وزیراعظم میاں نواز شریف نے کی۔ اجلاس میں 5 صدور،3 وزرائے اعظم اور ایک نائب وزیراعظم شریک ہوئے۔اس سے قبل 12 واں اجلاس باکو آذربائیجان میں 2012ء میں ہوا تھا جبکہ اجلاس میں ای سی او وژن 2025ء کی منظوری دی جائے گی۔