Sunday, 25 June 2017

پروفیسر ڈاکٹر سید محمد قمر علی زیدی کے جواں سال بیٹے کا اچانک وصال........ صاحبزادہ میاں محمدا شرف عاصمی


پروفیسر ڈاکٹر سید محمد قمر علی زیدی 
کے جواں سال بیٹے کا اچانک وصال 


صاحبزادہ میاں محمدا شرف عاصمی

قارئین کرام صبح عید الفطر ہوگی چاند نظر آگیا ہے۔ مال روڈ پر لوگ خوشیاں منا رہے ہیں۔ ہر طرف رش ہی رش ہے لوگ عید کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔میں ابھی ابھی پنجاب یونیورسٹی اولڈ کیمپس کے ہاسٹل خالد بن ولید کی جامعہ مسجد سے لوٹا ہوں۔میں ایک ایسے پیکر استقامت کے ہاتھو ں کو بوسہ دے کر آیا ہوں جس کے صبر پر مجھے رشک آرہا ہے۔ شعبہ عربی پنجاب یونیورسٹی کے پروفیسر جناب محمد قمر علی زیدی کے جواں سال بیٹے کا اعتکاف کے دوران وصال ہوگیا۔ اُنیس سا ل کا نوجوان جو صوم صلوۃ کا پابند اور راہ حق کے مسافر تھا۔ابھی گریجویشن کا طالب علم تھا۔ جناب قمر علی زیدی کے پیر و مرشد سرکار جی جو کہ گو جرانوالا میں مقیم ہیں اُن کی سرپرستی میں ہی وہ نوجوان اعتکاف میں تھا کہ اُسے ومٹنگ ہوئی جو کہ سانس کی نالی میں چلی گئی یوں وہ نوجوان اللہ پاک کو پیارا ہوگیا۔ اتنا بڑا صدمہ۔ اللہ واکبر۔مجھے جب خبر ملی تو میں کانپ کر رہ گیا۔ جناب محمد حسن علی ٹیپو جو کہ میرئے محترم دوست ہیں وہ بھی سرکار جی کے ہاں بیعت ہیں۔اُنھوں جب مجھے یہ بتایا کہ نوجوان مجتبیٰ علی بھی سرکار جی کا مرید تھااور عشق رسول ﷺ اور رب کے عشق نے اِس قدر اُسے گو ہر بنادیا تھا کہ اُس نے حضور داتا علی ہجویریؒ کے مزار مبارک پہ جا کر یہ دُعا کی تھی کہ وہ ا پنے مرشد پاک اور اپنے والد محترم سے پہلے اِس دُنیا سے جائے اور اُس نے اِس پر سب سے آمین بھی کروائی تھی۔اللہ و اکبر۔جب میں جناب قمر علی زیدی سے ملا تو مجھے وہ صبر کے عظیم پیکر دکھائی دئیے اِس طرح خود کو اُنھوں نے سنبھال رکھا تھا کہ ایسا کوئی اللہ کا ولی ہی ہوسکتا ہے کہ عام آدمی کے بس کی بات نہیں تھی۔ اللہ پاک کا خاص کرم جناب زیدی صاحب پر ہے۔وہ سب دوستوں سے انتہائی صبر سے مل رہے تھے اور فرما رہے تھے کہ عاصمی صاحب جانا تو ہے اِس میں جلدی ہو یا دیر۔ اللہ کی رضا ہے۔ پاکستان فلاح پارٹی کے دوست ذیشان راجپوت اور حافظ زاہد رازی بھی تشریف فرماء تھے۔ ڈاکٹر راغب نعیمی و دیگر احباب تشریف رکھتے تھے۔ مرحوم کے ایصال ثواب کے لے قران خوانی کا ہتمام تھا اور اِس موقع پر افطاری بھی کروائی گئی۔ موت کا ذائقہ ہر کسی نے چکھنا ہے۔ جناب ڈاکٹر قمر علی زیدی صاحب کے جواں سال بیٹے کی اچانک وفات اور پھر اُس نوجوان کو اُن کے مرشد پاک کے حکم کے مطابق گو جرانوالا میں ہی سپردِ خاک کردیا گیا۔۔موت انسانی زندگی کے خاتمے کا نام نہیں بلکہ یہ تو انسانی زندگی کے اگلے دور کا نام ہے۔موت کے دروازئے سے گزر کر انسان اگلے دور میں داخل ہو جاتا ہے۔موت کا ذائقہ ہر کسی نے چھکنا ہے۔ذائقہ ایک کیفیت کا نام ہوتا ہے اِس کا وجود مستقل نہیں ہوتا۔جیسے اگر کوئی مشروب پیا جائے تو اُس کا ذائقہ کچھ دیر تک رہتا ہے لیکن اُس کے بعد اُس مشروب کے ذائقے والی کیفیت ختم ہوجاتی ہے ۔ یہی حال موت کا ہے کہ انسان نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے ، مرنا نہیں ہے۔چونکہ ذائقہ ایک بے حقیقت شے ہے ۔ ایک دن میں کئی مرتبہ ذائقہ آتا ہے اور ختم ہوجاتا ہے۔اِس لیے تو موت ذائقہ بن کر آتی ہے اور چلی جاتی ہے۔ اِس ذائقہ موت کی کیا مجال کہ وہ انسان کی حقیقت کو ختم کر سکے۔حضرت عمرؓ کا فرمانَ عالیشان ہے کہ لوگو: تم جب ایک مرتبہ پیدا ہوگئے تو پھر مستقل پیدا ہو گئے اب منتقل ہوتے رہو گے۔پیدائش زندگی کا آغا ز ہے۔بچہ ماں کے پیٹ میں بھی زندہ ہوتا ہے۔ کھاتا پیتا ہے ۔پیدائش کا مطلب ہی یہ ہے کہ پیدائش سے پہلے بھی زندگی میں تھا۔ماں کے پیٹ سے دنیا میں آتا ہے۔پیدائش سے پہلے زندگی کا مقام اور تھا اور پیدائش کے بعد اور۔ماں کے پیٹ سے پہلے بھی تھا عالم ارواح میں۔جب بچہ ماں کے پیٹ سے آتا ہے تو روتا ہو ا آتا ہے ۔ وہ سمجھتا ہے کہ شائد اُس کی موت ہوگئی ہے۔ کیونکہ اُسکے لیے تو جہان اُس کی ماں کا پیٹ ہوتا ہے۔ وہ سب کچھ اُسی کو سمجھتا ہے اور وہاں سے نکالے جانے پر روتا ہے۔ لیکن جب وہ اس جہاں میں آتا ہے تو اُسے اِس جہاں کی وسعت کا اندازہ ہوتا ہے ۔ اُسے روشنی نظر آتی ہے ۔ وہ پھر ماں کے پیٹ میں جانے کی بجائے اِس دنیا کو اُس دنیا سے زیادہ بہتر خیال کرتا ہے۔اِسی طرح جب انسان اِس دنیا کو چھوڑ کر عالم بررزخ میں جاتا ہے تو اُسے یہ دنیا بھی ماں کے پیٹ کی طرح چھوٹی لگتی ہے اور واپس اِس دنیا میں نہیں آنا چاہتا۔جب وہ جنت کے نظارئے کرتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ دنیا تو ایک قید خانہ تھی۔وہ اپنے وطن کو جارہا ہوتا ہے پھر پردیس میں آنے کو اُس کا جی نہیں چاہتا۔ ساری راحتیں موت پر قربان ہوجاتی ہیں کیونکہ رب پاک سے جو ملنا ہوتا ہے۔نبی پاکﷺ کا فرمانِ عالیشان ہے کہ مردِ مومن کی موت کا جب وقت آتا ہے تو مومن کی روح ملائکہ کے جلوس کے ساتھ جاتی ہے۔ملک الموت کی قیادت میں پانچ سو فرشتوں کا وفد جلوس لے کر مومن کے پاس آتا ہے ۔ ملک الموت مردِ مومن کو سلام کرتا ہے۔ اور کہتا کہ کہ االلہ پاک نے آپ پر سلام بھیجا ہے۔روح قبض کرکے قبر میں نہیں لائی جاتی۔ ایک ایک آسمان کا دروازہ کھلتا چلا جاتا ہے اور ملائکہ اللہ پاک کے حضور روح کو پیش کرتے ہیں۔تمام ملائکہ اللہ کو سجدہ کرتے ہیں۔اور پھر تمام ملائکہ اللہ کے نیک بندئے کو اپنے جھرمٹ میں اللہ کے حضور سجدہ ریز کرواتے ہیں۔حدیث پاک کے الفاط ہیں کہ اللہ پاک حضرت میکائیل ؑ کو کہتے ہیں کہ روح کو واپس اُس جسم میں رکھ دو جہاں سے نکال کر لائے ہو۔روح جسم سے جدا ہونے کے بعد اللہ کے حضور سجدہ ریز ہونے کے بعد اُس کے جسم کو قبر میں رکھا جاتا ہے۔حدیث کے مطابق لوگ بندئے کے جسم کو دفن کر رہے ہوتے ہیں اور فرشتے روح کو اُس بندئے کے جسم میں داخل کردیتے ہیں۔جناب ڈاکٹر قمر علی زیدی صاحب کو اپنے جواں سال بیٹے کا دُکھ سہنے کے اللہ پاک ہمت عطا فرمائے آمین 

No comments:

Post a Comment