Sunday, 22 October 2017

RULE OF LAW 24 ARTICLE OF ASHRAF ASMI ..............Dear Friends, It is Research Based Work, definitely it will be asset for Law students.Regards. Ashraf Asmi






نبی پاکﷺ کی ختم نبوت کا قانون




انسانی کے عقلی تقاضے جتنا سفر کر سکتے ہیں وہ کرتے رہے ہیں ایسا پیدائش آدمؑ سے جاری ہے۔ رب پاک نے اپنے وجود کا ادراک بخشنے کے لیے کائنات میں پیغمبرؑ اور رسولؑ بھیجے۔یہ بات کسی طرح بھی جھٹلائی نہیں جا سکتی کہ رب پاک کے یکتا ہونے کے حوالے سے تمام انبیاء اکرام نے اپنے اپنے دور میں کوششیں جاری رکھیں۔ لیکن ختم نبوت کا تاج آقا کریمﷺ کے سر پر سجایا گیا۔ ایسا کوئی حادثاتی طور نہیں ہوا تھا بلکہ نبی پاکﷺ کو آدمیت کی تخلیق سے پہلے ہی اِس رُتبے پر فائز کردیا گیا تھا۔اسلام کی تاریخ اِس بات کی گواہ ہے کہ نبی پاک ﷺ کی شان اقدس میں جب بھی کبھی کوئی گستاخی کی ناپاک کوشش کی گئی تب تب نبی پاک ﷺ کے عاشق اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرنے کے لیے میدانِ عمل میں کوددتے رہے۔ جب بھی کبھی یہ پکار ا گیا کہ نبی پاک ﷺ کی عزت مقام کی خاطر آو۔ تو پھر اسلامی تاریخ نے اویس کرنیؓ، بلال حبشیؓ، نور ادین زنگیؒ ، غازی علم دین شھیدؓ کو اپنا پنا کردار ادار کرتے دیکھا ہے سات ستمبر انیسو چوہتر کو قومی اسمبلی میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینا ایک اہم سنگ میل ہے اور اِس اثرات بھی نمایاں ہیں کیونکہ ختم نبوت ہمارا ایمان کا جزو لاینفک ہے۔ اسلام دُشمن ہمیشہ مسلمانوں کے نبی پاک ﷺُ کی شانِ مبارک پر حملہ کرتے ہیں تاکہ مسلمانوں کی روح کو وہ زخمی کرسکیں اور اندازہ لگاتے ہیں کہ مسلما نوں میں کتنا دم خم ہے۔کبھی خاکے چھاپے جاتے ہیں کبھی آزادی رائے کے نام پر پیغبراسلام ﷺکی ناموس پر رکیک حملے کیے جاتے ہیں درحقیقت نبی پاکﷺنے چونکہ تمام بنی نوح انسان کو شرف انسانیت سے ہمکنارکیا اوربتوں کی پرستش کی بجائے صرف ایک ا? پاک کے آگے جھکنے کا درس دیا۔اس لیے کفارو مشرکین نبی پاکﷺکی اس سعی کو اپنی دکان داری پر شدیدحملہ تصور کرتے ہیں اسی لیے حیلے بہانوں سے نبی پاکﷺ کی نبوت کے حوالے سے مختلف قسم کی شر پسند ی کر تے ہیں مسلیمہ بن کذاب کی شرپسند ی سے شروع ہونے والا فتنہ برصغیر پاک وہند میں مرزا قاریا نی کے روپ میں انگریز کی سرپرستی میں اُبھرا۔ جنگ یمامہ جو اِسی حوالے سے لڑی گئی اُس میں بارہ سو صحابہ اکرامؒ شھید ہوئے۔ پوری اسلامی تاریخ اِس بات کی شاہد ہے کہ جب کبھی کسی بد بخت نے نبوت کا جھوٹا دعوی کیا امت نہ صرف یہ کہ اس کا مقابلہ کیا بلکہ جب تک اُس کا قلع قمع نہیں کردیا چین اور سکون کا سانس نہیں لیا۔اسلامی تاریخ میں ایک واقعہ بھی ایسا نہیں پیش کیا جاسکتا ہے کہ جب کسی نے نبوت کا دعوی کیا ہو اور اُمت نے اُسے خاموشی سے برداشت کرلیا ہو۔ اسی عمل کا تسلسل ہے کہ جب متحدہ ہندوستان میں مرزا غلام احمد قادیانی نے نبوت کا دعوی کیا اور اپنے پیروکاروں کی ایک جماعت بنالی تو اسوہ نبوی اور صحابہ کرامؓ کے عمل کی پیروی کرتے ہوئے علمائے حق اس جھوٹی نبوت کے خاتمے کے لیے میدان عمل میں نکل آئے اور اس کا ہر سطع پر مقابلہ کیا اس وقت کی حکومت برطانیہ کی چونکہ مکمل سرپرستی مرزا غلام احمد کو حاصل تھی اس لیے اس فتنے کا خاتمہ اس طرح تو نہیں کیا جاسکا جس طرح دور نبوی اور دور صحابہ میں ہوا مگر اس فتنے کے مقابلہ اور اور اسے ختم کرنے کے لیے کوئی سستی اور غفلت نہیں برتی گئی بلکہ تحریری،مناظرہ، مباہلہ غرض یہ کہ ہر سطع پر اس کا مقابلہ کیا ان تمام فتنوں میں جو امت کی تاریخ میں رونما ہوئےَ فتنہ قادیانیت سر فہرست ہے۔ اس حولے سے پیر مہر علی شاہ گولڑہ شریف کا انقلابی کردار تاریخ کے سنہری حروف میں جگمگا رہا ہے۔ مرزا قادیانی کا بیٹا مرزا محمود اپنی تقریر میں کہتا ہے کہ ان کا یعنی مسلمانوں کا اسلام اورہے اور ہمارا اور،ان کا خدا اور ہے اور ہمارا خدا اور ان کا حج اور ہے اور ہمارا اور ہے ہمارا ان کے ساتھ ایک ایک چیز پر اختلاف ہے۔ اسلامیان برصغیر پاک وہندنے ختم نبوت کے حوالے سے بھرپور قربانیاں دیں اور بھرپور مزاحمت کی۔1953میں تحر یک ختم نبوت میں گولیا ں چلیں لیکن رسالت کے پروانوں کے استقلال میں کوئی لغزش نہ آئی۔اس تحریک میں دس ہزار کے قریب مسلمانوں نے جامِ شہادت نوش کیا اور بلال حبشیؓ ، اویس قرنیؓ اور غازی علم دین شھید کے راستے کا انتخاب کیا۔ مجاہد ملت عبد الستار خان نیازیؒ کو اسی تحریک کی پاداش میں پھانسی کی سزاسنا دی گئی۔بر ف کی سلوں پر لٹا کر اُن پر تشد کیاگیا۔نبی پاکﷺکے بعدکسی اور رسول یا پیغمبرکاسلسلہ ختم ہونے کا مطلب، رب پاک کا پیغام مکمل، شریعت مکمل، رب پاک کا کلا م قرآن مجید مکمل، قیامت تک نبی پاکﷺ کی لائی ہوئی شریعت ہی حتمی قرار پائی ہے۔شرپسند عناصر نے ہمیشہ شیطان کی ہمنوائی کا دم بھرتے ہوئے دین اسلام کو نشانے پر رکھا ہے اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر تو نبوت کا سلسلہ بند نہ کیا ہو تا تو پھر آخری کتا ب بھی نا مکمل شریعت محمدی بھی نا مکمل قرار پاتی۔ خالق کا ئنات کو کیسے منظور تھا۔ جب رب پاک ایک ہے تو آ خری کتاب ایک اوررب پاک کے رسول ﷺسب رسولوں کے سردار بھی وہی ہیں جو صاحب قرآن ہیں اس لیے ختم نبوت کے حوالے سے قومی اسمبلی میں مولانا شاہ احمد نورانی صدیقیؒ کے دلائل کئی دنو ں تک متواتر ہوئے جس کے نتیجے میں قومی اسمبلی نے یہ قانون پاس کردیا کہ نبی پاک ﷺ کے بعد کسی بھی شخص کو نبی ماننا کُفر ہے اور اسی نتیجے میں قادیانی لاہوری گروپ غیر مسلم قرار پائے۔



یہ پاکستان پیپلز پارٹی کا دور حکومت تھاذوالفقار علی بھٹو اُس وقت وزیر اعظم تھے۔ اُئین میں جو ترمیم کی گئی وہ درج ذیل ہے۔
CONSTITUTION (SECOND AMENDMENT) ACT, 1974
An Act to amend the Constitution of the Islamic Republic of Pakistan ]Gazette of Pakistan, Extraordinary, Part I, 
21st September, 1974[The following Act of Parliament received the assent of the President on 17th September,1974, and is hereby published for general information:۔Whereas it is expedient further to amend the Constitution of the Islamic Republic of Pakistan for the purposes hereinafter appearing ;It is hereby enacted as follows:۔
1۔ Short title and commencement.
(1) This Act may be called the CONSTITUTION (SECOND AMENDMENT) ACT, 1974
(2) It shall come into force at once.
2۔ Amendment of Article 106 of the Constitution.
In the Constitution of Islamic Republic of Pakistan, hereinafter referred to as the Constitution in Article 106, in clause (3) after the words ''communities'' the words and brackets ''and persons of Quadiani group or the Lahori group (who call themselves 'Ahmadis')'' shall be inserted.
3۔ Amendment of Article 260 of the Constitution.
In the Constitution, in Article 260, after clause (2) the following new clause shall be added, namely۔۔
(3) A person who does not believe in the absolute and unqualified finality of The Prophethood of MUHAMMAD (Peace be upon him), the last of the Prophets or claims to be a Prophet, in any sense of the word or of any description whatsoever, after MUHAMMAD (Peace be upon him), or recognizes such a claimant as a Prophet or religious reformer, is not a Muslim for the purposes of the Constitution or law.'' 



اِس کا مطلب یہ نہیں کہ قومی اسمبلی کے قانون منظور کیے جانے سے پہلے جھوٹی نبوت کے دعوے داروں کو مُرتد نہیں کہا جاتا تھا ایسی بات نہیں یہ تو فیصلہ چودہ سو سال پہلے ہی نبی پاک ﷺ کے دور میں کردیا گیا کہ نبی پاک ﷺ ہی آخری نبی ہیں اُن کے کے بعد کوئی نبی نہیں۔ اللہ پاک نے تو کائنات کی تخلیق کے ساتھ ہی جب نورِ محمدﷺ تخلیق کیا گیا تو اُسی وقت فیصلہ فرما دیا تھا کہ میرا محبوب نبیﷺ ہی آخری نبی ہیں۔اِسی حوالے سے نبی پاک ﷺ کا فرمان عالی شان ہے کہ میں اُس وقت بھی نبی تھا جب آدم ابھی آب وگل میں تھے۔نبی پاک کے ذریعے سے اپنا دین مکمل کرنے کے بعد پھر کسی اور رسول یا نبی کی آمد کا مطلب یہ کہ دین مکمل نہیں۔ اِس لیے جتنا اہم کلمہ طیبہ پڑھ کر مسلمان ہونے کا اقرار کرنا ہے اُتنا ہی لازم نبی پاکﷺ کو قطعی طور پر آخری نبی ماننا ہے۔ اِس عقیدے کے حوالے سے چونکہ چنانچے کا مطلب ایمان کا خاتمہ ہونا اور مرتد ہونا ہے۔ آقا کریمﷺ کے بعد کسی بھی بدبخت کا نبوت کا دعوی کرنا ایسے ہی جیسے ایک رب کے ہوتے ہوئے کسی اور کو رب مان لیا جائے یا صاحب قران حضرت محمد ﷺ کی بجائے کسی اور کو صاحب قران کے درجے پر معاذ ا? مان لیا جائے۔ ایسا کرنے والا ایسی سوچ رکھنے والا ایسی سوچ رکھنے والوں کے لیے نرم گوشہ رکھنے والا مسلمان نہیں ہوسکتا موجودہ پاکستانی قانون کے تحت قادیانی مرزائی و لاہوری گروپ کو غیر مسلم قرار دے دیا گیا ہے۔لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ اِس طرح سے اِن شر پسندوں کو کھل کر اپنے عقائد کی تبلیغ کا موقعہ مل گیا ہے اور ٹی وی چینلز کے ذریعے مسلمانوں میں بدگمانیاں پیدا کرہے ہیں اور دنیا میں خود کو مظلوم بنا کر پیش کررہے ہیں کہ جناب دیکھیں پاکستانی کتنے ظالم ہیں ہمارے خلاف قانون بنا لیا ہے اور یہ نام نہاد پروپوگینڈا بھی کرتے ہیں کہ پاکستان میں قادیانیوں پر عرصہ حیات تنگ ہے اِس لیے جرمنی، کینیڈا وغیرہ نے دھڑادھڑقادیانیوں کو شہریت دی ہے اور یوں اسلام مخالف قوتوں نے پاکستانی ریاست اور عوام کے خلاف آزادی رائے کے حوالے سے مہم جوئی شروع کر رکھی ہے۔ اسلام کو زِک پہنچانے کے لیے نام نہاد لبرل فاشسٹ بھی کسی سے پیچھے نہیں اور وہ اِسی ملک میں رہتے ہوئے اِسی ملک کے خلاف بولتے ہیں اور فوج اور اسلام کو بدنام کرنے کے لیے بہانے ڈھونڈتے ہیں سات ستمبر انیسو چو ہتر ہماری تاریخ کا ایک تابناک دن تھا اسلامی جمہوریہ پاکستان کی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں نے اس دن الگ الگ اجلاسوں میں آئین میں ترمیم کا ایک تاریخی بل اتفاق رائے سے منظور کرلیا جس کے تحت پاکستان میں قادیانیوں کے دونوں گروپوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا گیا۔ قادیانیت اپنی ظاہری اور پس پردہ سرگرمیوں کی وجہ سے ابھی تک ملت اسلامیہ کے لیے ایک فتنہ بنا ہوا ہے کیونکہ کوئی فتنہ صرف آئین میں ترامیم سے ختم نہیں ہوسکتا۔آئین کے تمام قانونی و ذیلی تقاضے پورے کیے بغیر قادیانیت مسلمانوں کے لیے زیادہ خطرناک ثابت ہوسکتی ہے کہ اُسے آئینی تحفظ اور غیر مسلم شہریوں کے حقوق کے پردہ میں ملت اسلامیہ کے خلاف اپنی تمام حسرتیں نکالنے کا موقع مل سکتا ہے ۔











Saturday, 14 October 2017

ختم نبوت ﷺ کے قانون کے محافظ ASHRAF ASMI....WRITEEN BY




ختم نبوت ﷺ کے قانون کے محافظ



صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ


ملک کو سیاسی افرا تفری کا سامنا ہے۔لیکن اِس بار سب سے کاری وار عاشقانِ رسولﷺ کے دلوں پر لگا جارہا ہے اور موجودہ حکمرانوں کے مرکزی اور صوبائی وزراء قانون ختم نبوت کے قانون کے حوالے سے ابہام پیدا کرنے کی کو شش میں لگے ہوئے ہیں کسی بھی اقلیت سے کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اُن کا مذہب کیا ہے جیسے عیسائی، ہندو، سکھ بدھ مت سب اپنے اپنے انداز میں اپنے اپنے مذہب کے مطابق اپنی عبادات کرتے ہیں اور آئین پاکستان کے تحت اقلیتوں کے حقوق کی ضمانت دی گئی ہے۔ مرزائی خود کو مسلم قرار دیتے ہیں ا ور ہم مسلمانوں کو غیر مسلم اور وہ آئین پاکستان کی خلاف ورزی کے مرتکب ہورہے ہیں۔وہ شعار اسلام جن سے قانون نے اُنھیں منع کیا ہے وہ اُسے استعمال کرتے ہیں۔ اگر وہ خود کو اقلیت مان لیں تو پھر تو کوئی پرا بلم نہ رہے۔ معاملہ یہ ہے کہ وہ اسلام کا ٹریڈ مارک استعمال کرکے تبلیغ کرتے ہیں اور لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں۔وزیر قانون پنجاب رانا ثنا اللہ نے احمدیوں کے حوالے سے ایسا بیان دیا ہے۔جس سے یہ بات واضع ہوتی ہے کہ راناثنا اللہ نے قادیانیوں کی بھر پور وکالت کی ہے۔جب کہ تمام تر ایشو طے پاء چکے ہیں۔ قومی اسمبلی میں ختم نبوت محمد ﷺ کے حوالے جب قانون بن چکا ہے۔پھر اِس طرح کے بیانات دینے کے پیچھے جو سیاسی مفادات حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے وہ انتہائی تکلیف دہ امر ہے۔قومی اسمبلی میں نبی پاک ﷺ کی ختم نبوت کے حوالے سے حلف نامے کواقرار نامے میں تبدیل کیے جانے اور پھر اِسے ٹائیپنگ کی غلطی قرار دینا۔ وزیر قانون زاہد حامد کا پہلے اِس بات پر مُصر ہونا کہ کوئی تبدیلی نہیں ہوئی پھر بعد ازاں اِس بات کا اقرار ہے کہ یہ سب کچھ ہوا تھااور دوبارہ حلف نامہ بحال کردیا گیا۔بعد ازاں کیپٹن صفدرکی جانب سے قومی اسمبلی کے فلور پر قادیانیوں کے خلاف تقریر اور پاک فوج اور عدلیہ میں مرزائیوں کو ملازمت سے نکال
باہر کرنے کا بیان۔اب اِس سارئے معاملے کے مختلف پہلوؤں پر غور کیا جانے چاہیے کہ یہ اچانک ہو کیا رہا ہے۔ ایک طرف حکومت کے مرکزی وزیر قانون زاہد حامد ختم نبوت کے حلف نامے کو اقرار نامے میں تبدیل کرنے کی سعی لاحاصل کر چکے ہیں اور دوسری طرف پنجاب کے وزیر قانون رانا ثنا اللہ قادیانیوں کو مسلمانوں جیسا قرار دے رہے ہیں۔اور تیسری طرف جناب کیپٹن صفدر قادیانیوں کے خلاف خوب برس رہے ہیں۔اب ذرا جنرل باجوہ کی بطور چیف آف آرمی کی تقرری کا موقع ذہن میں لائیں کہ نواز شریف کے دیرینہ ساتھی جناب سنیٹر ساجد میر صاحب نے عین جنرل باجوہ کی تقرری کے وقت یہ نکتہ اُٹھایا تھا کہ جنرل صاحب قادیانی ہیں اور لیکن جب جنرل صاحب نے عہدہ سنبھال لیا تو جناب ساجد میر صاحب نے بیان دیا کہ نہیں وہ قادیانی نہیں ہیں اُنھیں غلط فہمی ہو گئی تھی۔کیا ن لیگ اِس وقت ختم نبوت ﷺ کے معاملے کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی کو شش تو نہیں کر رہی ہے۔ ایک طرف سے قادیانیوں کی حمایت اور دوسری طرف سے مخالفت اور اِس سار ے کھیل میں پاک فوج کے سربراہ کو بیچ میں لانا پاک فوج میں قادیانیوں کی بھرتی پر کیپٹن صفدر کی مخالفت۔ عوام کے مذہبی جذبات سے کھیل کر جو ملک میں آگ لگانے کی کوشش کی جارہی ہے یہ انتہائی خوفناک منصوبہ ہے۔ چونکہ موجودہ حالات میں ن لیگ کے قائد جناب نواز شریف کی سیاست کا دھڑن تختہ ہوچکا ہے اور عاصمہ جہانگیر جیسے مشیر نواز شریف کے بہت قریب ہیں یوں ایک ایسا کھیل کھیلا جارہا ہے کہ پاک فوج کے خلاف نفرت کا ماحول پیدا کیا جائے۔ اور نواز شریف فیملی کی سیاست اور کاروبار پر جو بُرا وقت آیا ہے اُس سے بچنے کے لیے ایسا ایشو اُٹھایا جائے جس کا وجود ہی نہ ہو۔یا پھر پاک فوج کو دباؤ میں لایا جائے۔ حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں جنرل باجوہ ایک راسخ العقیدہ مسلمان اور عاشق رسول ﷺ ہیں۔ میں اِس موضوع ہر نہیں لکھنا چاہتاتھا لیکن محترم جناب مظہر سلیم حجازی کے زور دینے پر میں اِس حوالے سے کچھ لکھ رہا ہوں۔کیونکہ اِس نازک معاملے پر نون لیگ اور پی ٹی آئی سیاست کر رہی ہیں میرا اِن
میں سے کسی سے تعلق نہیں ہے۔ میں تو نبی پاکﷺ کا ادنی ترین غلام ہوں۔ سیدی مُرشدی یانبیﷺ یانبیﷺ ۔جو ہونہ عشق مصطفےﷺ تو زندگی فضول ہو۔غلامی رسول ﷺ میں موت بھی قبول ہے۔ختم نبوتﷺ کے قانون کے محافظ زندہ ہیں اللہ پاک کا شُکر ہے کہ اُس نے ہمیں اِس عظیم چوکیداری کے لیے چُنا ہے۔

Tuesday, 3 October 2017

amendmeendts in election billانتخابی اصلاحات کا ترمیمی قانون سپریم کورٹ کی نظر میں .........صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ

ELECTION BILL 2017 AND ITS PRACTICABILITY IN THE EYES OF SUPREME COURT

انتخابی اصلاحات کا ترمیمی قانون سپریم کورٹ کی نظر میں
صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ

آئین میں ترمیم کا بہت زیادہ شور ہے اور اِس ترمیم کا مقصد جناب نواز شریف کو پھر سے مسلم لیگ کا صدر منتخب کیے جانا ہے۔ اِس ترمیم کے مطابق ایسے شخص کو بھی سیاسی جماعت کا سربراہ منتخب کیا جاسکتا ہے جوکے پارلیمنٹ کے ممبر بننے کی اہلیت نہ رکھتا ہو۔ اِس حوالے سے ایک سیر حاصل گفتگو عام قارئین اور قانون کے طالب علموں کی دلچسپی کے لیے پیش کی جارہی ہے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے ایک لینڈ مارک فیصلہ شاہد پرویز بنام اعجاز احمد2017scmr206 میں دیا تھا۔ اِس فیصلے میں جو مسٹرجسٹس عامر ہانی مسلم نے تحریر فرمایا تھا "کہ اگر کوئی قانون ایک مرتبہ سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے کسی بھی وجہ سے غیر آئینی قرار دے دیا جائے اِس کی بدولت جو کچھ بھی فوائد حاصل کیے جاسکتے ہوں وہ بھی رُک جائیں گے۔ اِس لیے ایسا کوئی بھی قانون جو کہ آئین سے متصادم ہو تو کورٹ کو اختیار حاصل ہے کہ وہ اُسکا جائزہ لے اور اُس کے خلاف فیصلہ دے۔اِس لیے سپریم کورٹ کایہ بالکل واضع فیصلہ ہے کہ اگر کوئی ایسا قانون اگر پارلیمنٹ میں اِس مقصد کے لیے بنایا جائے جس سے سپریم کورٹ کی جانب سے غیر قانونی قرادر دیے جانے والے فیصلے کی نفی ہوتی ہو تو ایسا قانون چونکہ اِس نیت کی بنا پر بنایا گیا ہوگا کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے اثر کو ختم کرئے تو پارلیمنٹ کی جانب سے سے بنایا جانا والا ایسا قانون نل اینڈ وائیڈ قرار دے دیا جائیگا۔ کیونکہ ایسے قانون کے بنائے جانے کے پیچھے سب سے بڑا محرک یہ ہوگا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی نفی کی جائے ۔اِسی فیصلے میں سپریم کورٹ نے قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ" کہ قانون ساز قانون سازی کے حوالے سے اہم کردار ہیں اِس لیے یہ بھی ضروری نہیں کہ قانون ساز جو بھی قانون بنائیں وہ آئین کی روح کے مطابق ہو اِس لیے قانون کو آئین کے پیرا میٹرز ر پرکھنا ہوتا ہے کہ آیا کہ قانون آئین کے مطابق ہے یا نہیں" قانون کو آئین کے پیرا میٹز پر پرکھنے کا کام سپریم کورٹ کا ہے ۔ سوموار دو اکتوبر 2017 کو قومی اسمبلی نے جو بل پاس کیا ہے ۔ قومی اسمبلی نے گزشتہ روز انتہائی تلخ اور ہنگامہ آرائی کے ماحول میں انتخابی اصلاحات سے متعلق سینٹ سے منظور کردہ بل کی کثرت رائے سے منظوری دیدی۔ جبکہ جماعت اسلامی کے ممبران قومی اسمبلی صاحبزادہ طارق ا للہ، صاحبزادہ محمد یعقوب، شیر اکبر خان اور محترمہ عائشہ سید کی طرف سے بل میں پیش کردہ 5ترامیم میں سے دو ایوان نے کثرت رائے سے مسترد کردی جبکہ محرک صاحبزادہ طارق اللہ نے باقی تین احتجاجاً پیش نہیں کی اور اپنی نشست پر کھڑے ہوکر ترامیم کا مسودہ پھاڑ دیا جبکہ سپیکر نے انہیں ’’ڈراپ‘‘ قرار دیا۔ واضح رہے کہ سینٹ نے انتخابی اصلاحات کا بل منظور کیا تھا اور اس کی سیکشن 203میں بیرسٹر اعتزاز احسن نے ایک ترمیم پیش کی تھی جس کے تحت ایسا فرد جو اسمبلی کا رکن بننے کا اہل نہ ہو وہ پارٹی کا سربراہ نہیں بن سکتا۔ تاہم سینٹ میں یہ مہم ایک ووٹ کی اکثریت سے مسترد کردی گئی تھی۔ اس کی وجہ سے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف پاکستان مسلم لیگ کی صدارت کا منصب دوبارہ سنبھالنے کے اہل ہوگئے تھے۔ سینٹ سے منظور کردہ بل منظوری کیلئے قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا تو اس کی شق 203میں کہا گیا تھا کہ ہر شخص جو پاکستان کی سروس میں نہ ہو پارٹی کی تشکیل کرسکتا ہے، کسی سیاسی جماعت کا رکن بن سکتا ہے اور سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لے سکتا ہے اور کسی سیاسی جماعت کا عہدیدار بن سکتا ہے جبکہ جماعت اسلامی کے ارکان نے قومی اسمبلی میں اس شق میں ترمیم پیش کی تھی کہ ایسا شخص کسی سیاسی جماعت کا عہدیدار نہیں بن سکتا جو بطور رکن پارلیمنٹ سے نااہل قرار دیدیا گیا ہو یا جو قانون ہذا کے نفاذ سے پہلے کسی دیگر نافذالعمل قانون کے تحت نااہل قرار دیا گیا ہو۔ جماعت اسلامی کے ارکان نے اس کے علاوہ چار دوسری ترامیم بھی پیش کی تھیں جن میں خواتین کے لئے 10فیصد لازمی ووٹ ڈالنے کی پابندی ختم کرکے عورتوں کو ووٹ ڈالنے سے روکنے کو خلاف قانون قرار دینے، امیدوار کے کاغذات میں ختم نبوت پر حلفیہ اقرار نامہ برقرار رکھنے کی ترمیم بھی شامل تھی۔ ایم کیو ایم اور پی پی پی نے بھی بل میں ترامیم دی تھیں جو تاخیر سے جمع کرائی گئیں۔ اس لیئے قواعد کے مطابق زیر غور نہیں آسکتی تھیں۔ سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے کہا کہ ایم کیو ایم نے انہیں آج ترمیم ’’ہاوس بزنس ایڈوائزری کمیٹی‘‘ کے اجلاس میں دی۔ اس سے قبل انتخابی اصلاحات کے بل اور اس میں ترمیم کے حوالے سے پی پی پی کے سید نوید قمر، عوامی مسلم لیگ کے شیخ رشید احمد، پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی، ایم کیو ایم کے ایس اقبال قادری، تحریک انصاف کے شاہ محمود قریشی، شفقت محمود، جماعت اسلامی کے صاحبزادہ طارق اللہ نے خطاب کیا۔ قومی اسمبلی کی طرف سے ’’انتخابی اصلاحات کے بل 2017‘‘ کی منظوری کے بعد صدر مملکت بل پر دستخط کریں گے اور یہ ایکٹ بن جائے گا۔ اور اس سے میاں نواز شریف کے مسلم لیگ ن کے صدر کا منصب سنبھالنے کی راہ ہموار ہوگئی ہے۔ اس سے قبل شاہ محمود قریشی نے کہا کہ سیکشن 203آئین کی روح کے سپرٹ سے متصادم ہے۔ صاحبزادہ طارق اللہ نے کہا کہ ہمیں اعتماد میں نہیں لیا گیا ہے۔ اس بل کو ڈیفر کیا جائے۔ ترمیم کی پرزور مذمت کرتے ہیں۔ سید نوید قمر نے کہا کہ جس طریقہ سے ترمیم لائی گئی ایک شخص کو فائدہ دینے کیلئے جو غیر جمہوری طریقہ کار ہے۔ اتنے دنوں اگر میاں نواز شریف صدر نہیں تھے تو وزیراعظم انہوں نے بنایا اور کابینہ بھی انہوں نے بنائی۔ جسے کورٹ نے نااہل کیا ہے یہ اس کے سامنے چیلنج ہوتا ہے۔ ہم تصادم کی طرف جارہے ہیں۔ شفقت محمود نے کہا کہ ہم نے نیک دلی سے سارے عمل میں حصہ لیا تھا۔ کئی سو اجلاس ہوئے۔ ہم نے خلوص کے ساتھ عمل میں حصہ لیا۔ ہم نے بہت ساری ترامیم دیں۔ ہم آخری دن تک بیٹھے رہے۔ جس طریقہ سے دھوکہ دہی سے یہ کیا گیا ہے اس پر افسوس ہے۔ ایس اقبال قادری نے کہا کہ یہ اہم بل تھا کہ اس پر 100 اجلاس ہوئے تاکہ برائی دور ہو۔ لیکن جو برائی 203 آ رہی ہے اس تاریخ معاف نہیں کرے گی۔ شیخ رشید احمد نے کہا کہ سیاست میں سینئر لوگ ہیں کسی کو شک ہے کہ شاہد خاقان عباسی کا انتخاب میاں نواز شریف نے کیا۔ 55 وزیر نواز شریف نے بنائے۔ حامد سرفراز ہمارے ساتھ تھے اور مشرف کا این آر او لکھا کرتے تھے۔ شہباز شریف ان کو پارٹی لیڈر کے طور پر قبول نہیں ہے۔ آج جمہوریت اور پارلیمنٹ کو خطرہ ہے۔ ایک شخص کے لئے جمہوریت کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ ان کے پاس متبادل قیادت نہیں ہے۔ کل اس پارٹی کا سربراہ اجمل پہاڑی بن جائے گا۔ کیا آپ میں کوئی ایک آدمی بھی قابل نہیں۔ کیا شہباز شریف بھی قابل قبول نہیں ہے۔ سپریم کورٹ میں جاؤں گا۔ آفتاب شیرپاؤ نے کہا کہ ہمارے گمان میں نہیں تھا کہ بہت سے چیزوں کو ختم کر دیا جائے گا۔ انتخابی اصلاحات کو متنازعہ بنا دیا۔ یہ طریقہ اپنایا گیا تو حالات مزید خراب ہوں گے۔ محمود خان اچکزئی نے کہا کہ ایسا نہیں ہے جس طرح بات کو پیش کیا جا رہا ہے۔ دنیا میں جتنے لوگ عدالتوں کے غلط فیصلے سے مرے ہیں میدان جنگ میں اس سے کم مرے ہیں۔ کیا بے نظیر بھٹو اہل تھیں؟ یہاں بار بار کہا گیا کہ ’’مائنس ون‘‘۔ کیا نواز شریف چور تھا؟ جب نواز شریف لندن میں تھا تو کہا گیا کہ شہباز شریف ہمیں قبول ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کو اس لئے پھانسی نہیں دی گئی کہ اس نے نواب پر حملہ کرایا تھا بلکہ وہ آئین کی حکمرانی چاہتا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کو بار بار کہا گیا کہ وہ ملک چھوڑ کر چلے جائیں۔ سقراط کو عدالت نے زہر کا پیالہ پینے پر مجبور کیا تھا۔ نواز شریف اس وقت بھی ناقبول تھا جب وہ باہر تھا۔ بل کے نمایاں نکات کے مطابق کوئی بھی شہری ایک وقت میں ایک سے زیادہ سیاسی جماعتوں کا رکن نہیں بن سکے گا۔ سیاسی جماعت کارکن پارٹی کے ریکارڈنگ تک رسائی کا حق رکھے گا۔ منظور شدہ بل کے تحت مکمل طور پر خود مختار بنا دیا گیا ہے۔ الیکشن کمشن انتخابات سے 6 ماہ قبل ایکشن پلان پیش کرنا ہوگا۔ یہ مردم شماری کے بعد حلقہ بندیاں ہوں گی۔ نادرا سے شناختی کارڈ لینے والوں کے نام ازخود ووٹر لسٹ میں درج ہو جائیں گے۔ بیلٹ پیپرز کی چھپائی فارمولہ کی بنیاد پر ہو گی۔ ممبر کی ویلتھ سٹیٹمنٹ وہی ہو گی جو انکم ٹیکس آرڈیننس کے تحت جمع کرائی جاتی ہے اِسکے علاوہ ختم نبوت پر مکمل ایمان رکھے جانے کے حوالے سے بھی ممبر پارلیمنٹ کے حلف میں تبدیلی کی گئی ہے" قانون کے طالب علم ہونے کی حثیت سے راقم یہ سمجھتا ہے کہ قومی اسمبلی اور سینٹ سے منظور ہو کر قانون بننے والا مجوزہ قانون سپریم کورٹ کی جانب سے غیر قانونی قرار دے دیا جائے گا اِس مقصد کے لیے ہائی کورٹ کے واضع فیصلہ جات موجود ہیں اِس آئینی ترمیم کا مقصد سب پر واضع ہے اور اِس ترمیم کی وجہ سے جو ختم نبوت کے قانون کے حوالے سے ایک سوال اُٹھ گیا ہے وہ بھی کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ راقم کے اِس آرٹیکل کی تیاری میں جناب اعجاز چغتائی اور محمد احسان الحق رندھاوا ایڈووکیٹس کا مشکور ہے کہ اُنھوں نے راقم کی رہنمائی کی۔