Saturday, 14 October 2017

ختم نبوت ﷺ کے قانون کے محافظ ASHRAF ASMI....WRITEEN BY




ختم نبوت ﷺ کے قانون کے محافظ



صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ


ملک کو سیاسی افرا تفری کا سامنا ہے۔لیکن اِس بار سب سے کاری وار عاشقانِ رسولﷺ کے دلوں پر لگا جارہا ہے اور موجودہ حکمرانوں کے مرکزی اور صوبائی وزراء قانون ختم نبوت کے قانون کے حوالے سے ابہام پیدا کرنے کی کو شش میں لگے ہوئے ہیں کسی بھی اقلیت سے کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اُن کا مذہب کیا ہے جیسے عیسائی، ہندو، سکھ بدھ مت سب اپنے اپنے انداز میں اپنے اپنے مذہب کے مطابق اپنی عبادات کرتے ہیں اور آئین پاکستان کے تحت اقلیتوں کے حقوق کی ضمانت دی گئی ہے۔ مرزائی خود کو مسلم قرار دیتے ہیں ا ور ہم مسلمانوں کو غیر مسلم اور وہ آئین پاکستان کی خلاف ورزی کے مرتکب ہورہے ہیں۔وہ شعار اسلام جن سے قانون نے اُنھیں منع کیا ہے وہ اُسے استعمال کرتے ہیں۔ اگر وہ خود کو اقلیت مان لیں تو پھر تو کوئی پرا بلم نہ رہے۔ معاملہ یہ ہے کہ وہ اسلام کا ٹریڈ مارک استعمال کرکے تبلیغ کرتے ہیں اور لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں۔وزیر قانون پنجاب رانا ثنا اللہ نے احمدیوں کے حوالے سے ایسا بیان دیا ہے۔جس سے یہ بات واضع ہوتی ہے کہ راناثنا اللہ نے قادیانیوں کی بھر پور وکالت کی ہے۔جب کہ تمام تر ایشو طے پاء چکے ہیں۔ قومی اسمبلی میں ختم نبوت محمد ﷺ کے حوالے جب قانون بن چکا ہے۔پھر اِس طرح کے بیانات دینے کے پیچھے جو سیاسی مفادات حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے وہ انتہائی تکلیف دہ امر ہے۔قومی اسمبلی میں نبی پاک ﷺ کی ختم نبوت کے حوالے سے حلف نامے کواقرار نامے میں تبدیل کیے جانے اور پھر اِسے ٹائیپنگ کی غلطی قرار دینا۔ وزیر قانون زاہد حامد کا پہلے اِس بات پر مُصر ہونا کہ کوئی تبدیلی نہیں ہوئی پھر بعد ازاں اِس بات کا اقرار ہے کہ یہ سب کچھ ہوا تھااور دوبارہ حلف نامہ بحال کردیا گیا۔بعد ازاں کیپٹن صفدرکی جانب سے قومی اسمبلی کے فلور پر قادیانیوں کے خلاف تقریر اور پاک فوج اور عدلیہ میں مرزائیوں کو ملازمت سے نکال
باہر کرنے کا بیان۔اب اِس سارئے معاملے کے مختلف پہلوؤں پر غور کیا جانے چاہیے کہ یہ اچانک ہو کیا رہا ہے۔ ایک طرف حکومت کے مرکزی وزیر قانون زاہد حامد ختم نبوت کے حلف نامے کو اقرار نامے میں تبدیل کرنے کی سعی لاحاصل کر چکے ہیں اور دوسری طرف پنجاب کے وزیر قانون رانا ثنا اللہ قادیانیوں کو مسلمانوں جیسا قرار دے رہے ہیں۔اور تیسری طرف جناب کیپٹن صفدر قادیانیوں کے خلاف خوب برس رہے ہیں۔اب ذرا جنرل باجوہ کی بطور چیف آف آرمی کی تقرری کا موقع ذہن میں لائیں کہ نواز شریف کے دیرینہ ساتھی جناب سنیٹر ساجد میر صاحب نے عین جنرل باجوہ کی تقرری کے وقت یہ نکتہ اُٹھایا تھا کہ جنرل صاحب قادیانی ہیں اور لیکن جب جنرل صاحب نے عہدہ سنبھال لیا تو جناب ساجد میر صاحب نے بیان دیا کہ نہیں وہ قادیانی نہیں ہیں اُنھیں غلط فہمی ہو گئی تھی۔کیا ن لیگ اِس وقت ختم نبوت ﷺ کے معاملے کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی کو شش تو نہیں کر رہی ہے۔ ایک طرف سے قادیانیوں کی حمایت اور دوسری طرف سے مخالفت اور اِس سار ے کھیل میں پاک فوج کے سربراہ کو بیچ میں لانا پاک فوج میں قادیانیوں کی بھرتی پر کیپٹن صفدر کی مخالفت۔ عوام کے مذہبی جذبات سے کھیل کر جو ملک میں آگ لگانے کی کوشش کی جارہی ہے یہ انتہائی خوفناک منصوبہ ہے۔ چونکہ موجودہ حالات میں ن لیگ کے قائد جناب نواز شریف کی سیاست کا دھڑن تختہ ہوچکا ہے اور عاصمہ جہانگیر جیسے مشیر نواز شریف کے بہت قریب ہیں یوں ایک ایسا کھیل کھیلا جارہا ہے کہ پاک فوج کے خلاف نفرت کا ماحول پیدا کیا جائے۔ اور نواز شریف فیملی کی سیاست اور کاروبار پر جو بُرا وقت آیا ہے اُس سے بچنے کے لیے ایسا ایشو اُٹھایا جائے جس کا وجود ہی نہ ہو۔یا پھر پاک فوج کو دباؤ میں لایا جائے۔ حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں جنرل باجوہ ایک راسخ العقیدہ مسلمان اور عاشق رسول ﷺ ہیں۔ میں اِس موضوع ہر نہیں لکھنا چاہتاتھا لیکن محترم جناب مظہر سلیم حجازی کے زور دینے پر میں اِس حوالے سے کچھ لکھ رہا ہوں۔کیونکہ اِس نازک معاملے پر نون لیگ اور پی ٹی آئی سیاست کر رہی ہیں میرا اِن
میں سے کسی سے تعلق نہیں ہے۔ میں تو نبی پاکﷺ کا ادنی ترین غلام ہوں۔ سیدی مُرشدی یانبیﷺ یانبیﷺ ۔جو ہونہ عشق مصطفےﷺ تو زندگی فضول ہو۔غلامی رسول ﷺ میں موت بھی قبول ہے۔ختم نبوتﷺ کے قانون کے محافظ زندہ ہیں اللہ پاک کا شُکر ہے کہ اُس نے ہمیں اِس عظیم چوکیداری کے لیے چُنا ہے۔

No comments:

Post a Comment