Thursday, 27 April 2017

نواز اور مودی کی جند جان۔ جندال...ARTICLE BY..صاحبزادہ میاں محمدا شرف عاصمی ایڈووکیٹ

                        

نواز اور مودی کی جند جان۔ جندال


صاحبزادہ میاں محمدا شرف عاصمی ایڈووکیٹ

 جس وقت وزیر اعظم بھارتی تاجر جندال جوکہ نواز شریف اور مودی کا مشترکہ دوست ہے سے ملاقات کر رہے تھے۔ اور خفیہ ملاقات تھی اِس کا سرکاری طور پر کوئی اعلان نہ تھا عین اُسی وقت میڈیا میں طالبان کے سابق رہنماء احسان اللہ احسان کی وڈیو دیکھئائی جارہی تھی جس میں وہ بھارت کی جانب سے پاکستان پر ڈھائے جانے والے دہشتگردی کے ظلم کی داستان سُنا رہا تھا۔عین اُسی وقت کشمیر میں ایک طالبعلم کو شھید کردیا گیا تھا اور کشمیری حریت پسند لیدڑ آسیہ اندرابی گرفتار ہو چکی تھیں۔ کلبہوشن یادو کی گرفتاری اور سزائے موت اور مودی کے یار جندال کی نواز شریف سے خفیہ ملاقات۔یہ کیا ہے۔ محب وطن حلقے یہ بات سوچنے میں حق بجانب ہیں کہ کہ نواز شریف کو کاروبار سے غرض ہے وطن سے نہیں۔پاکستانی معاشرے کی بدقسمتی ہے کہ قومی دھارے والی سیاسی جماعتیں اور مذہب کے نام پر سیاست کرنے والے علما ء اکرام نے جانتے بوجھتے آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ اور اِن پارٹیوں کی ترجیحات میں طاقت کا حصول تو ہے لیکن اِس طاقت کے حصول میں وہ یہ بات مجرمانہ حد تک فراموش کیے بیٹھے ہیں کہ ہمارے سماجی ڈھانچے کو کس حد تک کھوکھلا کر دیا گیا ہے۔یہ بات درست ہے کہ طاقت حکومت کے پاس ہوتی ہے اُس کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ معاشرئے کی اصلاح کے لیے اقدامات اُٹھائے۔ لیکن جو ہمارئے سماج کی جو حالت اب کرد گئی ہے اُس میں ایک ایک فرد ایک ایک ادارے کی ذمہ داری بنتی تھی کہ وہ معاشرئے کو اعتدال میں رکھنے کے لیے اپنا کردار ادا کرئے۔جب ایک بات طے ہے کہ ہمارا وجود ہمارئے دُشمن بھارت کے لیے کسی طور بھی قابل قبول نہیں تو پھر ہم اپنی قومی سلامتی کے معاملات میں اگر صرف نظر کر رہے ہیں تو اِس سے بڑی مجرمانہ غفلت اور کیا ہوگی۔نصف صدی قبل پاکستان کے ایک حصے کو جدا کرکے بھارت نے یہ پیغام ہمیں دے دیا تھا کہ اُس کے عزائم کیا ہیں لیکن پھر بھی اقتدار کے ایوانوں کی غلام گردشوں میں موجود کھلاڑی ہوش کے ناخن نہیں لے رہے۔جمہوریت اورمذہب کے نام پر جس طرح نوجوان نسل کو کنفیوز کردیا گیا ہے ۔ اُس کا شاخسانہ وہ لا تعداد واقعات ہیں۔ اور حال ہی میں خود کو پاک فوج کے حوالے کرنے والے تحریک طالبان پاکستان کے رہنماء کا اعترافی بیان پوری قوم کے سامنے ہے کہ کس طرح اسلام کا نام لے کر بھارت کی مدد سے پاکستان میں انتشار پیدا کیا گیا ہے۔پاک فوج نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان(ٹی ٹی پی) کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان کا اعترافی ویڈیو بیان جاری کردیا ہے جس میں انہوں نے ٹی ٹی پی کے بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ اور افغانستان کی ’این ڈی ایس‘ سے روابط کا انکشاف کیا اور بتایا کہ کالعدم تنظیم اسرائیل سے بھی مدد لینے کے لیے تیارتھی۔تحریک طالبان کے لوگ پیسے لے کر بھارت، افغابستان کیلئے کام کرتے ہیں،انہوں نے کہا کہ تحریک طالبان کوبھارت اور افغانستان استعمال کر رہے ہیں۔آئی ایس پی آرکی جانب سے جاری کی گئی ویڈیو میں احسان اللہ احسان کا کہنا تھا کہ انہوں نے 2008میں تحریک طالبان میں شمولیت اختیار کی،انہوں نے کہا کہ ’ہم اسلام کا نعرہ لگاتے تھے مگر اس پر عمل نہیں کرتے تھے، طالبان نے خاص طور پر نوجوان طبقے کو گمراہ کرکے اپنے ساتھ ملایا۔ٹی ٹی پی کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ’میں نے ان تنظیموں کے اندر رہ کر بہت کچھ دیکھا، یہ لوگوں کو اسلام کے نام پر ورغلا کر بھرتی کرتے ہیں،جبکہ یہ خود اس تعریف پر پورا نہیں اترتے‘۔ٹی ٹی پی کی قیادت کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ ’چند لوگ امرابنے ہوئے ہیں، معصوم مسلمانوں سے بھتہ لیتے ہیں، ان کا قتل عام کرتے ہیں،عوامی مقامات، اسکولوں اور کالجوں پر حملہ کرتے ہیں‘۔احسان اللہ احسان کا کہنا تھا کہ ٹی ٹی پی کے رہنماؤں میں قیادت کی جستجو تھی اورحکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد تو قیادت کی دوڑ میں مزید تیزی آگئی جس کے بعد انتخابات کی طرز پر مہم چلائی گئی، اس مہم میں مولوی فضل اللہ، خالد سجنا اور عمر خالد خراسانی شامل تھے۔احسان اللہ احسان کے مطابق ہر کوئی ٹی ٹی پی کا اقتدار حاصل کرنا چاہتا تھا جس کے بعد شوریٰ نے قرعہ اندازی کرانے کا فیصلہ کیا جس کے نتیجے میں مولوی فضل اللہ چیف منتخب ہوئے۔ انہوں نے سوال کرتے ہوئے کہا کہ ’ایسی تنظیم سے کیا توقع رکھ سکتے ہیں جن کا امیرقرعہ اندازی سے منتخب ہوا ہو اور اپنے ہی استاد کی بیٹی سے زبردستی شادی کر کے اپنے ساتھ لے گیا ہو، ایسے لوگ اسلام کی خدمت کر رہے ہیں اور نہ ہی کر سکتے ہیں‘۔شمالی وزیرستان میں جاری آپریشن کا ذکر کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جب شمالی وزیرستان میں آپریشن ہوا تو ہم سب افغانستان چلے گئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ’را‘ نے ہر کارروائی کی قیمت ادا کی احسان اللہ احسان نے ٹی ٹی پی کو ملنے والی بھارتی معاونت کا بھی اعتراف کیا، ان کا کہنا تھا کہ ’جب ہم افغانستان پہنچے تو میں نے وہاں دیکھا کہ ٹی ٹی پی کے بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ کے ساتھ تعلقات بڑھنے لگے ہیں،’ر‘ا نے ٹی ٹی پی کو افغانستان میں مالی معاونت فراہم کی اور ٹی ٹی پی کو اہداف دیئے اور پاکستان میں کی جانے والی ہر کاروائی کی قیمت ادا کی‘ جب ٹی ٹی پی نے بھارت سے مدد لینی شروع کی تو میں نے عمر خالد خراسانی کو کہا کہ یہ تو ہم کفار کی مدد کر رہے ہیں، اس سے ہم اپنے لوگوں کو مروائیں گے جو کہ کفار کی خدمت ہوگی، جواب میں عمر خالد خراسانی کا کہنا تھا کہ ’اگر پاکستان میں تخریب کاری کرنے کے لیے مجھے اسرائیل سے بھی مدد لینی پڑی تو میں لوں گا‘۔ ’افغانستان میں موجود ان تنظیموں نے مختلف کمیٹیاں بنائی ہوئی ہیں جو بھارتی خفیہ ایجنسی را سے روابط رکھتے ہیں، بھارت نے ان لوگوں کو ’تذکرہ‘ دیا تھا، یہ تذکرہ افغانستان کے قومی شناختی کارڈ کی طرح استعمال ہوتے ہیں اور ان کے بغیر سفر کرنا مشکل ہوتا ہے‘۔ ’ان لوگوں کی تمام تر نقل و حمل کا علم افغانستان کی خفیہ ایجنسی این ڈی ایس کو بھی ہوا کرتا تھا اور این ڈی ایس ہی ٹی ٹی پی کو پاکستان میں داخل ہونے کا راستہ فراہم کرتی تھی‘۔پاک فوج کے حالیہ آپریشن کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کا تذکرہ کرتے ہوئے احسان اللہ احسان نے کہا کہ
جماعت الاحرار کے جو کمانڈر اب باقی رہ گئے ہیں ان میں مایوسی پائی جاتی ہے، میں ان کو پیغام دینا چاہتا ہوں کہ بس کرو، امن کا راستہ اختیار کرو اور پر امن زندگی میں واپس آجاؤ۔دہشتگردوں کی اشتہاری مہم کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی فوج کے آپریشن کے بعد جب انہیں میڈیا میں جگہ ملنا کم ہوگئی تو ان لوگوں نے سوشل میڈیا کا سہارا لے کر نوجوان لڑکوں کو پراپیگنڈاکر کے ورغلانا شروع کیا جس میں کئی نوجوان پھنس جایا کرتے تھے۔ احسان اللہ احسان نے سوشل میڈیا استعمال کرنے والے نوجوانوں کو متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ ’میں سوشل میڈیا استعمال کرنے والے نوجوانوں کو یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ یہ لوگ اپنے ذاتی مقاصد حاصل کرنے کے لیے غیروں کے ہاتھوں استعمال ہورہے ہیں‘۔ ’یہ تمام وجوہات تھیں جن کے بعد میں نے خود کو فوج کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا اور رضا کارانہ طور پرخود کو پاک فوج کے حوالے کر دیا‘۔ احسان اللہ احسان نے اعتراف کیا ہے کہ ملک دشمن عناصر کیلئے پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی غرض سے کام کیا ہے، ان کا کہنا
ہے کہ مولوی فضل اللہ جیسے لوگوں نے ہمیں اپنے لوگوں اور ملک کیخلاف غلط طور پر استعمال کیا، اسلام کے نام پر معصوم لوگوں کو ورغلا کر سکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں سمیت عوامی مقامات پر دھماکے کرائے، بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ اور افغان خفیہ ایجنسی این ڈی ایس سے بھاری قیمت کی وصولی کے عوض اہداف فراہم کئے، افغان فورسز باقاعدہ طور پر مولوی فضل اللہ سمیت دیگر انتہائی خطرناک دہشت گردوں کو افغانستان میں داخل ہونے کا راستہ فراہم کرتی ہیں،ان لوگوں کے باقاعدہ افغان شناختی کارڈ بنے ہوئے ہیں۔ میرا تعلق مہمند ایجنسی سے ہے 2008ء کے اوائل میں نے تحریک طالبان میں شمولیت اختیار کی اس وقت میں کالج کا سٹوڈنٹ تھا، میں ٹی ٹی پی مہمند ایجنسی کا ترجمان بھی رہا ہوں،اس کے بعد میں ٹی ٹی پی کے مرکزی ترجمان اور جماعت الاحرار کا ترجمان بھی رہا۔ٹی ٹی پی والوں نے اسلام کے نام پر لوگوں کو گمراہ کرکے بھرتی کیا۔ بالخصوص نوجوان طبقے کو بھرتی کیا گیا یہ ایسا ٹولہ ہے جو امرا بنے بیٹھے ہیں لوگوں سے بھتے لیتے ہیں، لوگوں کا قتل عام کرتے
ہیں، عوامی مقامات پر دھماکے کرتے ہیں ۔ پوری قوم کو کہتا ہوں کہ وہ ایسے لوگوں کے منفی پروپیگنڈا میں ہرگز نہ آئیں یہ لوگ اپنے مفادات کے حصول کے لئے غیروں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں ان تمام چیزوں کو دیکھتے ہوئے میں نے رضا کارانہ طور پر خود کو پاک فوج کے حوالے کردیا۔یاد رہے کہ 17 اپریل کو پاک فوج نے کہا تھا کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان نے خود کو سکیورٹی فورسز کے حوالے کردیا ہے۔ 2014 میں کالعدم تحریک طالبان میں انتشار کے بعد احسان اللہ احسان جماعت الاحرار کے ترجمان بن گئے جو کہ اس وقت ٹی ٹی پی سے علیحدہ ہونے والا چھوٹا گروپ تھا۔اس وقت احسان اللہ احسان کا یہ دعویٰ تھا کہ 70 سے 80 فیصد ٹی ٹی پی کمانڈرز اور جنگجو جماعت الاحرار میں شمولیت اختیار کرچکے ہیں، احسان اللہ احسان نے واہگہ بارڈر اور ملالہ یوسف زئی پر حملے، گلگت بلتستان میں نو غیر ملکی سیاحوں کے قتل، کرنل شجاع خانزادہ پر حملے سمیت دہشت گردی کے دس بڑے واقعات کی ذمہ
داری قبول کی تھی رواں برس فروری میں لاہور کے مال روڈ پر ہونے والے خود کش دھماکے کی ذمہ داری بھی جماعت الاحرار نے قبول کی تھی جس میں 13 افراد جاں بحق اور 100 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔خدارا پاکستانی نوجوان نسل کو درست سمت کی طرف گامز کرنے کے لیے معاشرئے میں موجود ہر فرد ہر ادار اپنا کردار ادا کرئے اور سوشل میڈیا کے مواد پر گہری نظر رکھی جائے تاکہ نوجوان نسل کو گمرا کرکے دہشت گرد جس طرح استعمال کر رہے ہیں اُس کا قلع قمع کیا جاسکے۔خطرئے کی گھنٹی بج رہی ہے ۔بچھے کچھے پاکستان کے وجود کو برقرار رکھنے کے لیے پوری قوم کو مل کر کردار ادا کرنا ہوگا۔

Thursday, 20 April 2017

محفوظ کیا گیا غیر محفوظ فیصلہ۔انصاف کا قتل .................... صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ

محفوظ کیا گیا غیر محفوظ فیصلہ۔انصاف کا قتل


صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ


حا ضر سروس کمانڈر سے تفتیش کے لیے سپاہی کا منتخب کیا جانا اِس حقیقت کا مظہر ہے کہ قوم کے ساتھ بد ترین مذاق کیا گیا۔ کیسی کسیے تاویلیں دی جارہی ہیں کہ جائنٹ انوسٹی گیشن وزیر اعظم کو ناک آوٹ کرے گی۔ کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ۔اشرافیہ پاکستانی قوم کے ساتھ پھر ایک بہت بڑا ہاتھ کر گئی ہے اور اُسے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا ہوا ہے۔سپریم کورٹ کے سنےئر ترین جج جناب جسٹس طارق کھوسہ نے کہ ہے کہ بڑی خوش قسمتی کے پیچھے بڑا جرم ہوتا ہے۔جناب کھوسہ صاحب نے وزیر اعظم گیلانی کو جب ناہل قرار دیا تھا تو تب بھی ایک نظم کا حصہ فیصلے میں لکھا تھا۔ اور بعد ازاں اپنے اِس امر پہ معذرت کی۔پاکستانی اشرافیہ جسمیں اسٹیبلیشمنٹ کے تمام کردار شامل ہیں وہ کیسے اپنی تیار کردہ پراڈکٹ کو ضائع کرے گی۔کچھ دن پہلے سپریم کورٹ کے ایک جج صاحب نے انقلاب آفرین بیان دیا موصوف نے فرمایا کہ پانامہ کیس کا ایسا فیصلہ آئے گا کہ قوم صدیوں یاد رکھے گی۔ اِسی طرح جس بنچ نے اِس کیس کی سماعت کی ہے اُنھوں نے فرمایا کہ ایسا فیصلہ آئے گا کہ تاریخ میں اِس کا مقام ہوگا۔ کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے قوم کو بیس چار کے دریا کے ساتھ ساتھ بیس چار کے سمندر کا بھی سامنا ہے۔متوالوں نے پانامہ کیس فیصلے سے ایک دن پہلے پورئے لاہور میں بینر آویزاں کیے۔ جس میں اُنھوں نے اِس بات کی یقین دہانی کروائی ہے کہ جناب نواز شریف صاحب ہمارا لہو آپکے لیے حاضر ہے۔ انہیں سیاسی بٹیروں کے متعلق یہی قائد محترم فرماچکے ہیں کہ جب میں مشرف دور میں پاکستان آیا تھا تو مجھے زبردستی واپس بھجوادیا گیا تھا اُس وقت میرئے لیے تو کوئی نہیں نکلا۔ اگر آپ لوگ نکلتے تو مجھے یوں رسوائی کا سامنا نہ ہوتا۔تو جناب نواز شریف صاحب آپ کے اقتددار میں ہوتے ہوئے ہی تو ایسے نعرئے لگ رہے ہیں ورنہ کہاں کہ جمہوریت کہاں کا لہو اور کہاں کا قائد۔ حضرت جی یہ دودھ پینے والے مجنوں ہیں یہ لوگ لہو دینے والے نہیں ہیں۔ویسے پاکستان کی ستر سال کی تاریخ میں کبھی کوئی ایسا فیصلہ نہیں آیا جسے قوم چند سال بھی یاد رکھ سکے ۔ایک حاضر سروس جج صاحب کی یہ تاویل کہ صدیوں یاد رکھنے والا فیصلہ لکھا جارہا ہے۔ نہ جانے یہ فیصلہ سونے کے پانی سے لکھا جاتا رہا ہے کہ اتنی طوالت اختیار کر گیا۔ مجھے سعادت حن منٹو کا افسانہ نیا آئین یاد آرہا ہے جس میں اُس افسانے کے اہم کردار منگو کو جب پتہ چلا کہ نیا آئین ملک میں آرہا ہے تو اُس کی امیدیں آسمان کو چھونے لگیں۔ لیکن جب نیا آئین نافذ ہو گیا تو کچھ بھی نیا نہیں تھا اُس طرح انگریز فرنگی دندناتے پھر رہے تھے۔ یہ ہی حال اُس خواب کا ہے جو پاکستان بنتے وقت دیکھا گیا تھا لیکن پاکستان کو مٹھی بھر اشرافیہ نے یر غمال بنا لیا اور عوام ایسے قیدی بنے کہ آزادی کے مطالب بھول گئے۔اب سنیں وہ فیصلہ جو صدیوں یاد رکھا جائے گا۔فیصلے کی گھڑی آن پہنچی 249 سپریم کورٹ نے پاناما کیس کا تاریخی فیصلہ جاری کر دیا،فیصلہ جسٹس اعجاز افضل نے تحریر کیا،پاناما کیس کا فیصلہ 540 صفحات پر مشتمل ہے،پاناما کیس کا فیصلہ تین دو سے ہوا ہے،2 ججر نے فیصلے سے اختلاف کیا 249جسٹس گلزار احمد اور جسٹس آصف کھوسہ نے فیصلے سے اختلاف کیا 249سپریم کورٹ نے معاملے کی تحقیقات کیلئے جے آئی ٹی بنانے کا حکم دیدیا،نواز شریف، حسن نواز اور حسین نواز جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونگے،جے آئی ٹی ہر دو ہفتے میں بنچ کے سامنے اپنی رپورٹ پیش کریگی،جے آئی ٹی 2 ماہ میں اپنی رپورٹ مکمل کریگی249160 نیب،ایس سی اسی پی اور ملٹری انٹیلی جنس کا نمائندہ ٹیم کا حصہ ہوگا،جے آئی ٹی وزیراعظم کی بے نامی جائیدادوں کی تحقیقات کرے گی۔سپریم کورٹ نے پاناما لیکس کے معاملے پر وزیراعظم نواز شریف کے خلاف دائر درخواستوں پر مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی (جے آئی ٹی)بنائے کا حکم دے دیا،رقم کیسے قطر منتقل کی گئی اس کی تحقیقات ہونی چاہئیں،چیئرمین نیب غیر رضامند پائے گئے اس کی بھی تحقیقات ہونی چاہئیں 249فیصلے کے مطابق جے آئی ٹی ہر 2ہفتے بعد سپریم کورٹ بینچ کے سامنے اپنی رپورٹ پیش کرنے کی پابند ہوگی۔جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے کورٹ روم نمبر 1میں پاناما لیکس کے معاملے پر آئینی درخواستوں کا فیصلہ سنایا،جو رواں برس 23فروری کو محفوظ کیا گیا تھا۔فیصلہ 540صفحات پر مشتمل تھا، جسے جسٹس اعجاز اسلم خان نے تحریر کیا۔فیصلے پر ججز کی رائے تقسیم رہی اور 3 ججز ایک طرف جبکہ 2 ججز جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس گلزار احمد خان نے اختلافی نوٹ لکھا۔فیصلے کے ابتدائی نکات میں کہا گیا کہ رقم کیسے قطر منتقل کی گئی اس کی تحقیقات ہونی چاہئیں249چیئرمین نیب غیر رضامند پائے گئے اس کی بھی تحقیقات ہونی چاہئیں249چیئرمین نیب اپنا کام کرنے میں ناکام رہے اس لئے جے آئی ٹی بنائی گئی۔فیصلے میں کہا گیا ہے کہ وزیر اعظم، حسن نواز اور حسین نواز جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوں249جے آئی ٹی ہر دو ہفتے بعد اپنی رپورٹ پیش کرے249ڈی جی ایف آئی اے وائٹ کالر کرائم کی تحقیقات کرنے میں ناکام رہے249جے آئی ٹی میں ایم آئی، ایف آئی اے، آئی ایس آئی کے نمائندے شامل ہونگے،2ججز نے وزیراعظم کو ڈی نوٹیفائی کرنے کا کہا۔جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں 5رکنی لارجر بنچ نے سماعت کی۔ فیصلہ مجموعی طور پر پانچ سو چالیس صفحات پر مشتمل تھا۔کیس کا فیصلہ 5 رکنی لارجر بنچ کیسربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ کورٹ روم نمبر ون میں پڑھ کر سنایا۔اس سے قبل مختلف سیاسی رہنما باری باری سپریم پہنچنے۔ کورٹ کے باہر میڈیا، سیکورٹی اسٹاف اور سیاسی کارکنوں کا رش رہا۔پاناما کیس کا فیصلہ سننے کیلئے آنے والوں سے کمرہ عدالت بھر ہوا تھا۔کمرے میں تل دھرنے تک کی جگہ نہیں تھی۔پاناما کیس کا فیصلہ آنے کے بعد عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ کے رہنماوں نے فیصلے کو اپنی 'جیت' قرار دیتے ہوئے 'گو عمران گو' کے نعرے لگائے۔وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہاکہ اللہ کا جتنا شکر ادا کریں وہ کم ہے، ہم سرخرو ہوئے ہیں، عدالت عظمی نے فیصلہ دیا ہے، مزید تحقیقات کی جائیں جبکہ یہی بات 6 ماہ قبل خود وزیراعظم نواز شریف نے بھی کہی تھی۔انہوں نے کہا کہ مخالفین نے جو شواہد پیش کیے، وہ ناکافی تھے، ان کی مزید تحقیقات کی ضرورت ہے۔ کسی بھی دوسرے ملک میں آف شور بینک اکانٹس اور دیگر مالیاتی لین دین کے نگران اداروں سے یا ٹیکس سے بچنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے249 کمپنیاں یا شخصیات اس کے لیے عموما شیل کمپنیوں کا استعمال کرتی ہیں جس کا مقصد اصل مالکان کے ناموں اور اس میں استعمال فنڈز کو چھپانا ہوتا ہے۔پاناما لیکس کے معاملے نے ملکی سیاست میں اس وقت ہلچل مچائی، جب گذشتہ سال اپریل میں بیرون ملک ٹیکس کے حوالے سے کام کرنے والی پاناما کی مشہور لا فرم موزیک فانسیکا کی افشا ہونے والی انتہائی خفیہ دستاویزات سے پاکستان سمیت دنیا کی کئی طاقت ور اور سیاسی شخصیات کے 'آف شور' مالی معاملات عیاں ہو گئے تھے۔ تو میرئے ہم وطنو یہ ہے پانامہ کا فیصلہ۔ سعادت حسن منٹو کے کردار اُستاد منگو ٹانگے والے کی طرح ہمارا انتظار بھی ایسا ہی ثابت ہوا۔ اللہ پاک مملکت خداد کا مال ہے وہی اِس کی حفاظت فرمائے۔معاشرے میں پھیلی بے حسی اور مادیت سے انتہاء کا لگاؤ اِس بات کا مظہر ہے کہ حضرت انسان موجودہ د ور میں کیسے حالات سے گزر رہا ہے۔زندگی گزارنے کے لیے جہاں روحانی سکون درکا ہوتا ہے اُس کی بجائے اب ہوس نے جگہ لے لی ہے۔حضرت انسان کو اپنے وجود کوآسائشیں بہم پہنچانے کی اتنی فکر ہے کہ وہ خود کو انسانیت کے مقام سے گرا چکاہے۔ زندگی کا واحد مقصد پیسہ کماؤ ۔ اب پیسہ اگر حلال طریقے سے نہیں مل رہا تو یہ انداز کہ جیسے مرضی کماو۔ جب مقصد جیسے مرضی کا ہو تو پھر اچھے اور بُرئے کی تمیز کا جنازہ نکل جاتا ہے۔ انسانی عقل و شعور درندگی کے اندھیرئے میں پناہ لے لیتا ہے۔ طاقت اور مادی وسائل پر زیادہ سے زیادہ کنٹرول کے لیے تمام قانون قائدئے اخلاقی پہلو ؤں کا دھڑن تختہ کردیا جاتا ہے۔ ایک طرف سرمایہ داروں وڈیروں کے اندر یہ گھمنڈ پیدا ہوجاتا ہے کہ وہ بااثر ہیں اور محفوط ہیں۔دوسری طرف اِسی معاشرئے کی پیداوار جن کے پاس وسائل کی کمی ہوتی ہے اور معاشرے میں اُن کے لیے وہ قد کاٹھ نہیں بن پاتا تو وہ مذہبی طبقے میں گھس کر اِنھی سرمایہ داروں کی کاسہ لیسی کرکے اور اُن کی نوازشات کو اپنا حق سمجھ کر وصول کرتے ہیں اور معاشرئے میں خود کو باعزت بنانے کی تگ و دو میں لگے رہتے ہیں اور مذہب کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہیں۔ مذہبی طبقے کی ایک اور شکل ہمارئے معاشرئے میں پیر ہیں جو کہ خود تو اربوں روپے کی پراپرٹی بنا کر یورپ امریکہ میں مزئے کر رہے ہیں اور اپنے مریدین کو روحانی سکون عطا کرنے کی بجائے اُنھی بھی ہوس پرستی کے راستے پر لگائے ہوئے ہیں۔ ظاہری بات ہے کہ جو اوپر ہوگا وہی نیچے ہوگا۔مذہب کی صورت جس طرح بگاڑ کے رکھ دی گئی ہے اور خانقاہی نظام کا بیڑا غرق کردیا گیا ہے۔ دین حق اسلام مظلوم بن کر رہ گیا ہے۔اچھے علماء اور پیر اب بھی معاشرئے میں موجود ہیں لیکن اُن کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے یہی وجہ ہے ہر طرف اُودھم مچا ہوا ہوا ہے۔ ملک میں معاشی دہشت گردی، مذہبی دہشت گردی نے سماج کا سکون برباد کر ڈالا ہے۔ یہود ہنود نے ایسا کلچر ہمارئے معاشرئے پر لاد دیا ہے کہ لباس طور اطوار دیکھ کر لگتا ہی نہیں کہ یہ ایک غریب اور مقروض قوم کا ملک ہے۔پیر بننے سے آمدنی کے جو ذرائع مل جاتے ہیں اُس کا شاخسانہ ہے ہے کہ کوئی پیر بننے کے لائق ہے یا نہیں پیر بن بیٹھا ہے اور معاشرئے کا استحصال کر رہا ہے۔ یوں ہوس مزید ہوس کا جنم دے رہا ہے۔ اِسی طرح سیاستدان بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں۔نام نہاد جمہوری نظام کو چند ہاتھوں نے مرتکز کیا ہوا ہے اور یوں جمہوریت کے نام پر انتہائی چھوٹی سے اقلیت ملک پر حکمران بنی بیٹھی ہے۔اور یہ ہی اقلیت جو کہ حکمران اشرافیہ ہے شور مچا رہی ہے کہ جمہوریت کو نقصان نہیں پہنچنا چاہیے۔جب سماج میں جنگل کا قانون ہو تو پھر دہشت گردی نے ہی جنم لینا ہے۔تب مولانا فضل الرحمان جیسے لوگ یورپ امریکہ کو باور کرواہے ہیں کہ اُنھین بھی آزمائیں وہ بھی حکمران بن کر اُن کے ایجنڈئے کو اِسی طرح جاری رکھ سکتے ہیں جیسے حکمران اشرافیہ رکھے ہوئے ہے۔پاکستانی سوسائٹی کے اندر اِس وقت جو عجیب طرح کی بے حسی جو پنپ رہی ہے اُس کے محرکات میں ایک اہم عنصر قانون پر عمل پیرا نہ ہونا ہے۔ قانون توڑنے والا خود کو یہ سمجھ بیٹھتا ہے کہ اگر وہ قانون کی پیروی کر لیتا تو گویا اُس کی ہتک ہوجاتی۔ اِس سوچ اور رویے کے جب ہم عمرانی، نفسیاتی اور سماجی پہلووں کا جائزہ لیتے ہیں تو حیرت انگیز طور پر ہماری سو سائٹی میں قانون توڑ کرتفاخر پایا جاتا ہے ۔ انگریز کی حکومت میں اور ہندوں کی عملداری کی وجہ سے اٹھارہ سو ستاون سے لے اُنیسو سینتالیس تک کا نوئے سالا دور برغیر پاک وہند کے مسلمانون کو ایک مختلف سی ذہنی کشمکش میں مبتلا کر گیا۔ جس سوسائٹی میں انصاف کا خون ہوگا وہاں جبر اور لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہوگا، جس معاشرے
میں قانون کی بالا دستی نہیں ہوگی وہاں ظلمت کا راج پنپے گا۔ دین فطرت اسلام کی تما م تر تعلیمات جو کہ نبی پاک ﷺ کے توسط سے اُمتِ مسلمہ کو نصیب ہوئیں اُن کا تو اول و آخر نچوڑ ہی محبت اخلاص ا،نصاف، رواداری ہے ۔ جو معاشرہ پاکستان میں جنم لے چکا ہے یہاں تو اُس کی بدولت نہ تو کسی عزت محفوظ ہے اور نہ ہی کسی کو انصاف تک رسائی ہے انصاف صرف اُس کو ملتا ہے جس کے پاس پیسے ہیں یا ڈنڈا ، گویا وہ اصول یہاں بھی فروغ پاچکا ہے کہ جس کی لاٹھی اُس کی بھینس ۔زمین اور آسمان کبھی نہیں مل سکتے ۔ نفی اور جمع میں ہمیشہ سے تضاد رہا ہے۔ انسان اپنی فطرت کے ہاتھوں مجبور ہوکر بعض اوقات اس طرح کے قدم اُ ٹھانے لگ جاتا ہے۔ جس سے اْس کی شخصیت کے سارے دم خم سامنے آجاتے ہیں ۔ علم دوستی کا رواج تو بہت ہے لیکن جدید تعلیم کے تقاضوں کو اْس طرح اہمیت نہیں دی جا سکی جس طرح اْس کی اہمیت تھی ۔ انسانی ترقی میں وسائل کی ترقی کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ ایسے معاشرے میں جہاں دنیا کی تمام نعمتیں یعنی چار موسم ہیں ۔ پہاڑ ہیں، معدنیات ہیں، دنیا کا بہترین نہری نظام ہے۔ان کے ہوتے ہوئے بھی پوری دنیا میں کشکول لے کر گھومنے کا مطلب یہ ہے کہ خودی کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے ۔ گورنر جنرل غلام محمد، سکندر مرزا ، ایوب خان ، ذولفقار علی بھٹو ، یحیےٰ خان ، مشرف ، ذرداری ، کس کس کا رونا روئیں۔ کسی نے نام نہاد جمہوریت کے نام پر ا ور کسی نے مذہب کے نام پر عوام کے خون کو چوسا ہے ۔ اب ہم یہ بات ڈنکے کی چوٹ پر کہہ سکتے ہیں کہ بد قسمی سے ہمارے ہاں قیادت کی شدید کمی ہے۔ جو لوگ قوم کی قیادت کے اہل ہیں اْن کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ وہ مروجہ سیاسی نظام میں اسمبلی کے ممبر بن سکیں ۔ موجود تعفن شدہ معاشرے میں انسانی حقوق اور سماجی انقلاب کی دعویدار مذہبی وسیاسی قیادتیں خود ہی سماج کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں ۔ اْن قوتوں نے ہمارے معاشرے کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ زندگی اتنی اجیرن کہ ریاست اپنے شہریوں سے اِس طرح نبرد آزما ہے۔ جیسے بھیڑ بکریوں کو ہانکا جاتا ہے۔ کوئی بھی مذہبی جماعت اْس طرح ڈلیور نہیں کرسکی جس طرح کے اسلامی نظام کا دعویٰ کرتی ہیں ۔ سیاسی قیادتیں مصلحتوں کا شکار ہیں ۔ ایک سے بڑھ کر ایک غنڈہ قاتل ، قبضہ گروپ کا سرغنہ اسمبلی میں بیٹھا ہے۔ سیاست میں قدم رکھنے کے لیے جس کی لاٹھی اْسکی بھینس کا قانون ہے۔ کم وسائل رکھنے والا معاشرے میںُ شودر کی طرح دیکھا جاتا ہے۔ حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی خاطر جان قربان کرنے کا دعویٰٗ کرنے والے اْن کی سیرت پاک کو اپنانے کے معاملے میں صفر ثابت ہورہے ہیں ۔ جو جتنا مرضی تبلیغ دین میں مشغول ہو جائے ہیں ۔ عمرہ و حج کر لے معاشرے میں اْن کی طرف سے کوئی بھی پسندیدہ عمل نظر نہ آئے ، تو پھر یہ کیسا ایمان ہے کہ جو جھوٹ چوری ہیرا پھیری ، ظلم ڈاکے کم ناپ تول سے نہیں روکتا مطلب صاف واضع ہے کہ معاشرے میں نفوذ پزیری کے حامل افراد اپنا کردار ادا نہیں کر رہے ہیں۔ اگر ہمیں اِس طرح کے مسائل کی جانب دھکیل دیا ہے تو پھر یہ بھی ہماری ناکامی و بے بسی ہے کہ ہم اْن کی ساری سازشوں کا مقابلہ نہیں کر پا سکے اْلٹا اغیار کی ساشوں کا مہرہ ثابت ہو رہے ہیں ۔ دین مبین ، اسلام کی بنیاد کو چھوڑ کر دنیاوی مادہ پرستی کے حرص و لالچ میں ڈوب کر ہم عشق رسول ﷺ کا دعویٰ تو کر رہے ہیں لیکن عاشق رسول ﷺ ہونے کا عملی نمونہ کیوں نہیں بن پا رہے۔ اب اگر کوئی بھی مسیحا آئے گا تو وہ نرم سے نرم انداز میں خونی انقلاب کی سوچ کو پروان چڑہائے گا ۔ لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ قافلے میں ایک بھی ْ حسین ؓ کی طرح نہیں جو رسم شبیری ادا کرے اور قوم کو سماجی ، ثقافتی ، معاشی ، عمرانی ، نفسیاتی ، غلامی سے نکال کر روحانی مزاج میں ڈھالے اور مسلم امہ کے قلعہ پاکستان کو صحیح پاکستان بنائے۔ پانامہ فیصلے کے بعد یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ قوم کو جو لمبے عرصے تک لولی پاپ دیا جارہا تھا اُس کا معاملہ ٹائی ٹائی فش۔ قوم اب کسی باکردار لیڈر کی آمد کے لے دُعا کریں۔ اِس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ہمارئے معاشرئے میں اشرافیہ نے پوری قوم کویرغمال بنا رکھا ہے۔قوم کو غلامی سے نجات حاصل کرنے کے لیے واقعی باکردار لیڈر کی ضرورت ہے۔