نواز اور مودی کی جند جان۔ جندال
صاحبزادہ میاں محمدا شرف عاصمی ایڈووکیٹ
جس وقت وزیر اعظم بھارتی تاجر جندال جوکہ نواز شریف اور مودی کا مشترکہ دوست ہے سے ملاقات کر رہے تھے۔ اور خفیہ ملاقات تھی اِس کا سرکاری طور پر کوئی اعلان نہ تھا عین اُسی وقت میڈیا میں طالبان کے سابق رہنماء احسان اللہ احسان کی وڈیو دیکھئائی جارہی تھی جس میں وہ بھارت کی جانب سے پاکستان پر ڈھائے جانے والے دہشتگردی کے ظلم کی داستان سُنا رہا تھا۔عین اُسی وقت کشمیر میں ایک طالبعلم کو شھید کردیا گیا تھا اور کشمیری حریت پسند لیدڑ آسیہ اندرابی گرفتار ہو چکی تھیں۔ کلبہوشن یادو کی گرفتاری اور سزائے موت اور مودی کے یار جندال کی نواز شریف سے خفیہ ملاقات۔یہ کیا ہے۔ محب وطن حلقے یہ بات سوچنے میں حق بجانب ہیں کہ کہ نواز شریف کو کاروبار سے غرض ہے وطن سے نہیں۔پاکستانی معاشرے کی بدقسمتی ہے کہ قومی دھارے والی سیاسی جماعتیں اور مذہب کے نام پر سیاست کرنے والے علما ء اکرام نے جانتے بوجھتے آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ اور اِن پارٹیوں کی ترجیحات میں طاقت کا حصول تو ہے لیکن اِس طاقت کے حصول میں وہ یہ بات مجرمانہ حد تک فراموش کیے بیٹھے ہیں کہ ہمارے سماجی ڈھانچے کو کس حد تک کھوکھلا کر دیا گیا ہے۔یہ بات درست ہے کہ طاقت حکومت کے پاس ہوتی ہے اُس کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ معاشرئے کی اصلاح کے لیے اقدامات اُٹھائے۔ لیکن جو ہمارئے سماج کی جو حالت اب کرد گئی ہے اُس میں ایک ایک فرد ایک ایک ادارے کی ذمہ داری بنتی تھی کہ وہ معاشرئے کو اعتدال میں رکھنے کے لیے اپنا کردار ادا کرئے۔جب ایک بات طے ہے کہ ہمارا وجود ہمارئے دُشمن بھارت کے لیے کسی طور بھی قابل قبول نہیں تو پھر ہم اپنی قومی سلامتی کے معاملات میں اگر صرف نظر کر رہے ہیں تو اِس سے بڑی مجرمانہ غفلت اور کیا ہوگی۔نصف صدی قبل پاکستان کے ایک حصے کو جدا کرکے بھارت نے یہ پیغام ہمیں دے دیا تھا کہ اُس کے عزائم کیا ہیں لیکن پھر بھی اقتدار کے ایوانوں کی غلام گردشوں میں موجود کھلاڑی ہوش کے ناخن نہیں لے رہے۔جمہوریت اورمذہب کے نام پر جس طرح نوجوان نسل کو کنفیوز کردیا گیا ہے ۔ اُس کا شاخسانہ وہ لا تعداد واقعات ہیں۔ اور حال ہی میں خود کو پاک فوج کے حوالے کرنے والے تحریک طالبان پاکستان کے رہنماء کا اعترافی بیان پوری قوم کے سامنے ہے کہ کس طرح اسلام کا نام لے کر بھارت کی مدد سے پاکستان میں انتشار پیدا کیا گیا ہے۔پاک فوج نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان(ٹی ٹی پی) کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان کا اعترافی ویڈیو بیان جاری کردیا ہے جس میں انہوں نے ٹی ٹی پی کے بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ اور افغانستان کی ’این ڈی ایس‘ سے روابط کا انکشاف کیا اور بتایا کہ کالعدم تنظیم اسرائیل سے بھی مدد لینے کے لیے تیارتھی۔تحریک طالبان کے لوگ پیسے لے کر بھارت، افغابستان کیلئے کام کرتے ہیں،انہوں نے کہا کہ تحریک طالبان کوبھارت اور افغانستان استعمال کر رہے ہیں۔آئی ایس پی آرکی جانب سے جاری کی گئی ویڈیو میں احسان اللہ احسان کا کہنا تھا کہ انہوں نے 2008میں تحریک طالبان میں شمولیت اختیار کی،انہوں نے کہا کہ ’ہم اسلام کا نعرہ لگاتے تھے مگر اس پر عمل نہیں کرتے تھے، طالبان نے خاص طور پر نوجوان طبقے کو گمراہ کرکے اپنے ساتھ ملایا۔ٹی ٹی پی کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ’میں نے ان تنظیموں کے اندر رہ کر بہت کچھ دیکھا، یہ لوگوں کو اسلام کے نام پر ورغلا کر بھرتی کرتے ہیں،جبکہ یہ خود اس تعریف پر پورا نہیں اترتے‘۔ٹی ٹی پی کی قیادت کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ ’چند لوگ امرابنے ہوئے ہیں، معصوم مسلمانوں سے بھتہ لیتے ہیں، ان کا قتل عام کرتے ہیں،عوامی مقامات، اسکولوں اور کالجوں پر حملہ کرتے ہیں‘۔احسان اللہ احسان کا کہنا تھا کہ ٹی ٹی پی کے رہنماؤں میں قیادت کی جستجو تھی اورحکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد تو قیادت کی دوڑ میں مزید تیزی آگئی جس کے بعد انتخابات کی طرز پر مہم چلائی گئی، اس مہم میں مولوی فضل اللہ، خالد سجنا اور عمر خالد خراسانی شامل تھے۔احسان اللہ احسان کے مطابق ہر کوئی ٹی ٹی پی کا اقتدار حاصل کرنا چاہتا تھا جس کے بعد شوریٰ نے قرعہ اندازی کرانے کا فیصلہ کیا جس کے نتیجے میں مولوی فضل اللہ چیف منتخب ہوئے۔ انہوں نے سوال کرتے ہوئے کہا کہ ’ایسی تنظیم سے کیا توقع رکھ سکتے ہیں جن کا امیرقرعہ اندازی سے منتخب ہوا ہو اور اپنے ہی استاد کی بیٹی سے زبردستی شادی کر کے اپنے ساتھ لے گیا ہو، ایسے لوگ اسلام کی خدمت کر رہے ہیں اور نہ ہی کر سکتے ہیں‘۔شمالی وزیرستان میں جاری آپریشن کا ذکر کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جب شمالی وزیرستان میں آپریشن ہوا تو ہم سب افغانستان چلے گئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ’را‘ نے ہر کارروائی کی قیمت ادا کی احسان اللہ احسان نے ٹی ٹی پی کو ملنے والی بھارتی معاونت کا بھی اعتراف کیا، ان کا کہنا تھا کہ ’جب ہم افغانستان پہنچے تو میں نے وہاں دیکھا کہ ٹی ٹی پی کے بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ کے ساتھ تعلقات بڑھنے لگے ہیں،’ر‘ا نے ٹی ٹی پی کو افغانستان میں مالی معاونت فراہم کی اور ٹی ٹی پی کو اہداف دیئے اور پاکستان میں کی جانے والی ہر کاروائی کی قیمت ادا کی‘ جب ٹی ٹی پی نے بھارت سے مدد لینی شروع کی تو میں نے عمر خالد خراسانی کو کہا کہ یہ تو ہم کفار کی مدد کر رہے ہیں، اس سے ہم اپنے لوگوں کو مروائیں گے جو کہ کفار کی خدمت ہوگی، جواب میں عمر خالد خراسانی کا کہنا تھا کہ ’اگر پاکستان میں تخریب کاری کرنے کے لیے مجھے اسرائیل سے بھی مدد لینی پڑی تو میں لوں گا‘۔ ’افغانستان میں موجود ان تنظیموں نے مختلف کمیٹیاں بنائی ہوئی ہیں جو بھارتی خفیہ ایجنسی را سے روابط رکھتے ہیں، بھارت نے ان لوگوں کو ’تذکرہ‘ دیا تھا، یہ تذکرہ افغانستان کے قومی شناختی کارڈ کی طرح استعمال ہوتے ہیں اور ان کے بغیر سفر کرنا مشکل ہوتا ہے‘۔ ’ان لوگوں کی تمام تر نقل و حمل کا علم افغانستان کی خفیہ ایجنسی این ڈی ایس کو بھی ہوا کرتا تھا اور این ڈی ایس ہی ٹی ٹی پی کو پاکستان میں داخل ہونے کا راستہ فراہم کرتی تھی‘۔پاک فوج کے حالیہ آپریشن کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کا تذکرہ کرتے ہوئے احسان اللہ احسان نے کہا کہ
جماعت الاحرار کے جو کمانڈر اب باقی رہ گئے ہیں ان میں مایوسی پائی جاتی ہے، میں ان کو پیغام دینا چاہتا ہوں کہ بس کرو، امن کا راستہ اختیار کرو اور پر امن زندگی میں واپس آجاؤ۔دہشتگردوں کی اشتہاری مہم کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی فوج کے آپریشن کے بعد جب انہیں میڈیا میں جگہ ملنا کم ہوگئی تو ان لوگوں نے سوشل میڈیا کا سہارا لے کر نوجوان لڑکوں کو پراپیگنڈاکر کے ورغلانا شروع کیا جس میں کئی نوجوان پھنس جایا کرتے تھے۔ احسان اللہ احسان نے سوشل میڈیا استعمال کرنے والے نوجوانوں کو متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ ’میں سوشل میڈیا استعمال کرنے والے نوجوانوں کو یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ یہ لوگ اپنے ذاتی مقاصد حاصل کرنے کے لیے غیروں کے ہاتھوں استعمال ہورہے ہیں‘۔ ’یہ تمام وجوہات تھیں جن کے بعد میں نے خود کو فوج کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا اور رضا کارانہ طور پرخود کو پاک فوج کے حوالے کر دیا‘۔ احسان اللہ احسان نے اعتراف کیا ہے کہ ملک دشمن عناصر کیلئے پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی غرض سے کام کیا ہے، ان کا کہنا
ہے کہ مولوی فضل اللہ جیسے لوگوں نے ہمیں اپنے لوگوں اور ملک کیخلاف غلط طور پر استعمال کیا، اسلام کے نام پر معصوم لوگوں کو ورغلا کر سکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں سمیت عوامی مقامات پر دھماکے کرائے، بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ اور افغان خفیہ ایجنسی این ڈی ایس سے بھاری قیمت کی وصولی کے عوض اہداف فراہم کئے، افغان فورسز باقاعدہ طور پر مولوی فضل اللہ سمیت دیگر انتہائی خطرناک دہشت گردوں کو افغانستان میں داخل ہونے کا راستہ فراہم کرتی ہیں،ان لوگوں کے باقاعدہ افغان شناختی کارڈ بنے ہوئے ہیں۔ میرا تعلق مہمند ایجنسی سے ہے 2008ء کے اوائل میں نے تحریک طالبان میں شمولیت اختیار کی اس وقت میں کالج کا سٹوڈنٹ تھا، میں ٹی ٹی پی مہمند ایجنسی کا ترجمان بھی رہا ہوں،اس کے بعد میں ٹی ٹی پی کے مرکزی ترجمان اور جماعت الاحرار کا ترجمان بھی رہا۔ٹی ٹی پی والوں نے اسلام کے نام پر لوگوں کو گمراہ کرکے بھرتی کیا۔ بالخصوص نوجوان طبقے کو بھرتی کیا گیا یہ ایسا ٹولہ ہے جو امرا بنے بیٹھے ہیں لوگوں سے بھتے لیتے ہیں، لوگوں کا قتل عام کرتے
ہیں، عوامی مقامات پر دھماکے کرتے ہیں ۔ پوری قوم کو کہتا ہوں کہ وہ ایسے لوگوں کے منفی پروپیگنڈا میں ہرگز نہ آئیں یہ لوگ اپنے مفادات کے حصول کے لئے غیروں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں ان تمام چیزوں کو دیکھتے ہوئے میں نے رضا کارانہ طور پر خود کو پاک فوج کے حوالے کردیا۔یاد رہے کہ 17 اپریل کو پاک فوج نے کہا تھا کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان نے خود کو سکیورٹی فورسز کے حوالے کردیا ہے۔ 2014 میں کالعدم تحریک طالبان میں انتشار کے بعد احسان اللہ احسان جماعت الاحرار کے ترجمان بن گئے جو کہ اس وقت ٹی ٹی پی سے علیحدہ ہونے والا چھوٹا گروپ تھا۔اس وقت احسان اللہ احسان کا یہ دعویٰ تھا کہ 70 سے 80 فیصد ٹی ٹی پی کمانڈرز اور جنگجو جماعت الاحرار میں شمولیت اختیار کرچکے ہیں، احسان اللہ احسان نے واہگہ بارڈر اور ملالہ یوسف زئی پر حملے، گلگت بلتستان میں نو غیر ملکی سیاحوں کے قتل، کرنل شجاع خانزادہ پر حملے سمیت دہشت گردی کے دس بڑے واقعات کی ذمہ
داری قبول کی تھی رواں برس فروری میں لاہور کے مال روڈ پر ہونے والے خود کش دھماکے کی ذمہ داری بھی جماعت الاحرار نے قبول کی تھی جس میں 13 افراد جاں بحق اور 100 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔خدارا پاکستانی نوجوان نسل کو درست سمت کی طرف گامز کرنے کے لیے معاشرئے میں موجود ہر فرد ہر ادار اپنا کردار ادا کرئے اور سوشل میڈیا کے مواد پر گہری نظر رکھی جائے تاکہ نوجوان نسل کو گمرا کرکے دہشت گرد جس طرح استعمال کر رہے ہیں اُس کا قلع قمع کیا جاسکے۔خطرئے کی گھنٹی بج رہی ہے ۔بچھے کچھے پاکستان کے وجود کو برقرار رکھنے کے لیے پوری قوم کو مل کر کردار ادا کرنا ہوگا۔
جماعت الاحرار کے جو کمانڈر اب باقی رہ گئے ہیں ان میں مایوسی پائی جاتی ہے، میں ان کو پیغام دینا چاہتا ہوں کہ بس کرو، امن کا راستہ اختیار کرو اور پر امن زندگی میں واپس آجاؤ۔دہشتگردوں کی اشتہاری مہم کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی فوج کے آپریشن کے بعد جب انہیں میڈیا میں جگہ ملنا کم ہوگئی تو ان لوگوں نے سوشل میڈیا کا سہارا لے کر نوجوان لڑکوں کو پراپیگنڈاکر کے ورغلانا شروع کیا جس میں کئی نوجوان پھنس جایا کرتے تھے۔ احسان اللہ احسان نے سوشل میڈیا استعمال کرنے والے نوجوانوں کو متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ ’میں سوشل میڈیا استعمال کرنے والے نوجوانوں کو یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ یہ لوگ اپنے ذاتی مقاصد حاصل کرنے کے لیے غیروں کے ہاتھوں استعمال ہورہے ہیں‘۔ ’یہ تمام وجوہات تھیں جن کے بعد میں نے خود کو فوج کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا اور رضا کارانہ طور پرخود کو پاک فوج کے حوالے کر دیا‘۔ احسان اللہ احسان نے اعتراف کیا ہے کہ ملک دشمن عناصر کیلئے پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی غرض سے کام کیا ہے، ان کا کہنا
ہے کہ مولوی فضل اللہ جیسے لوگوں نے ہمیں اپنے لوگوں اور ملک کیخلاف غلط طور پر استعمال کیا، اسلام کے نام پر معصوم لوگوں کو ورغلا کر سکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں سمیت عوامی مقامات پر دھماکے کرائے، بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ اور افغان خفیہ ایجنسی این ڈی ایس سے بھاری قیمت کی وصولی کے عوض اہداف فراہم کئے، افغان فورسز باقاعدہ طور پر مولوی فضل اللہ سمیت دیگر انتہائی خطرناک دہشت گردوں کو افغانستان میں داخل ہونے کا راستہ فراہم کرتی ہیں،ان لوگوں کے باقاعدہ افغان شناختی کارڈ بنے ہوئے ہیں۔ میرا تعلق مہمند ایجنسی سے ہے 2008ء کے اوائل میں نے تحریک طالبان میں شمولیت اختیار کی اس وقت میں کالج کا سٹوڈنٹ تھا، میں ٹی ٹی پی مہمند ایجنسی کا ترجمان بھی رہا ہوں،اس کے بعد میں ٹی ٹی پی کے مرکزی ترجمان اور جماعت الاحرار کا ترجمان بھی رہا۔ٹی ٹی پی والوں نے اسلام کے نام پر لوگوں کو گمراہ کرکے بھرتی کیا۔ بالخصوص نوجوان طبقے کو بھرتی کیا گیا یہ ایسا ٹولہ ہے جو امرا بنے بیٹھے ہیں لوگوں سے بھتے لیتے ہیں، لوگوں کا قتل عام کرتے
ہیں، عوامی مقامات پر دھماکے کرتے ہیں ۔ پوری قوم کو کہتا ہوں کہ وہ ایسے لوگوں کے منفی پروپیگنڈا میں ہرگز نہ آئیں یہ لوگ اپنے مفادات کے حصول کے لئے غیروں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں ان تمام چیزوں کو دیکھتے ہوئے میں نے رضا کارانہ طور پر خود کو پاک فوج کے حوالے کردیا۔یاد رہے کہ 17 اپریل کو پاک فوج نے کہا تھا کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان نے خود کو سکیورٹی فورسز کے حوالے کردیا ہے۔ 2014 میں کالعدم تحریک طالبان میں انتشار کے بعد احسان اللہ احسان جماعت الاحرار کے ترجمان بن گئے جو کہ اس وقت ٹی ٹی پی سے علیحدہ ہونے والا چھوٹا گروپ تھا۔اس وقت احسان اللہ احسان کا یہ دعویٰ تھا کہ 70 سے 80 فیصد ٹی ٹی پی کمانڈرز اور جنگجو جماعت الاحرار میں شمولیت اختیار کرچکے ہیں، احسان اللہ احسان نے واہگہ بارڈر اور ملالہ یوسف زئی پر حملے، گلگت بلتستان میں نو غیر ملکی سیاحوں کے قتل، کرنل شجاع خانزادہ پر حملے سمیت دہشت گردی کے دس بڑے واقعات کی ذمہ
داری قبول کی تھی رواں برس فروری میں لاہور کے مال روڈ پر ہونے والے خود کش دھماکے کی ذمہ داری بھی جماعت الاحرار نے قبول کی تھی جس میں 13 افراد جاں بحق اور 100 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔خدارا پاکستانی نوجوان نسل کو درست سمت کی طرف گامز کرنے کے لیے معاشرئے میں موجود ہر فرد ہر ادار اپنا کردار ادا کرئے اور سوشل میڈیا کے مواد پر گہری نظر رکھی جائے تاکہ نوجوان نسل کو گمرا کرکے دہشت گرد جس طرح استعمال کر رہے ہیں اُس کا قلع قمع کیا جاسکے۔خطرئے کی گھنٹی بج رہی ہے ۔بچھے کچھے پاکستان کے وجود کو برقرار رکھنے کے لیے پوری قوم کو مل کر کردار ادا کرنا ہوگا۔
No comments:
Post a Comment