Thursday, 20 April 2017

محفوظ کیا گیا غیر محفوظ فیصلہ۔انصاف کا قتل .................... صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ

محفوظ کیا گیا غیر محفوظ فیصلہ۔انصاف کا قتل


صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ


حا ضر سروس کمانڈر سے تفتیش کے لیے سپاہی کا منتخب کیا جانا اِس حقیقت کا مظہر ہے کہ قوم کے ساتھ بد ترین مذاق کیا گیا۔ کیسی کسیے تاویلیں دی جارہی ہیں کہ جائنٹ انوسٹی گیشن وزیر اعظم کو ناک آوٹ کرے گی۔ کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ۔اشرافیہ پاکستانی قوم کے ساتھ پھر ایک بہت بڑا ہاتھ کر گئی ہے اور اُسے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا ہوا ہے۔سپریم کورٹ کے سنےئر ترین جج جناب جسٹس طارق کھوسہ نے کہ ہے کہ بڑی خوش قسمتی کے پیچھے بڑا جرم ہوتا ہے۔جناب کھوسہ صاحب نے وزیر اعظم گیلانی کو جب ناہل قرار دیا تھا تو تب بھی ایک نظم کا حصہ فیصلے میں لکھا تھا۔ اور بعد ازاں اپنے اِس امر پہ معذرت کی۔پاکستانی اشرافیہ جسمیں اسٹیبلیشمنٹ کے تمام کردار شامل ہیں وہ کیسے اپنی تیار کردہ پراڈکٹ کو ضائع کرے گی۔کچھ دن پہلے سپریم کورٹ کے ایک جج صاحب نے انقلاب آفرین بیان دیا موصوف نے فرمایا کہ پانامہ کیس کا ایسا فیصلہ آئے گا کہ قوم صدیوں یاد رکھے گی۔ اِسی طرح جس بنچ نے اِس کیس کی سماعت کی ہے اُنھوں نے فرمایا کہ ایسا فیصلہ آئے گا کہ تاریخ میں اِس کا مقام ہوگا۔ کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے قوم کو بیس چار کے دریا کے ساتھ ساتھ بیس چار کے سمندر کا بھی سامنا ہے۔متوالوں نے پانامہ کیس فیصلے سے ایک دن پہلے پورئے لاہور میں بینر آویزاں کیے۔ جس میں اُنھوں نے اِس بات کی یقین دہانی کروائی ہے کہ جناب نواز شریف صاحب ہمارا لہو آپکے لیے حاضر ہے۔ انہیں سیاسی بٹیروں کے متعلق یہی قائد محترم فرماچکے ہیں کہ جب میں مشرف دور میں پاکستان آیا تھا تو مجھے زبردستی واپس بھجوادیا گیا تھا اُس وقت میرئے لیے تو کوئی نہیں نکلا۔ اگر آپ لوگ نکلتے تو مجھے یوں رسوائی کا سامنا نہ ہوتا۔تو جناب نواز شریف صاحب آپ کے اقتددار میں ہوتے ہوئے ہی تو ایسے نعرئے لگ رہے ہیں ورنہ کہاں کہ جمہوریت کہاں کا لہو اور کہاں کا قائد۔ حضرت جی یہ دودھ پینے والے مجنوں ہیں یہ لوگ لہو دینے والے نہیں ہیں۔ویسے پاکستان کی ستر سال کی تاریخ میں کبھی کوئی ایسا فیصلہ نہیں آیا جسے قوم چند سال بھی یاد رکھ سکے ۔ایک حاضر سروس جج صاحب کی یہ تاویل کہ صدیوں یاد رکھنے والا فیصلہ لکھا جارہا ہے۔ نہ جانے یہ فیصلہ سونے کے پانی سے لکھا جاتا رہا ہے کہ اتنی طوالت اختیار کر گیا۔ مجھے سعادت حن منٹو کا افسانہ نیا آئین یاد آرہا ہے جس میں اُس افسانے کے اہم کردار منگو کو جب پتہ چلا کہ نیا آئین ملک میں آرہا ہے تو اُس کی امیدیں آسمان کو چھونے لگیں۔ لیکن جب نیا آئین نافذ ہو گیا تو کچھ بھی نیا نہیں تھا اُس طرح انگریز فرنگی دندناتے پھر رہے تھے۔ یہ ہی حال اُس خواب کا ہے جو پاکستان بنتے وقت دیکھا گیا تھا لیکن پاکستان کو مٹھی بھر اشرافیہ نے یر غمال بنا لیا اور عوام ایسے قیدی بنے کہ آزادی کے مطالب بھول گئے۔اب سنیں وہ فیصلہ جو صدیوں یاد رکھا جائے گا۔فیصلے کی گھڑی آن پہنچی 249 سپریم کورٹ نے پاناما کیس کا تاریخی فیصلہ جاری کر دیا،فیصلہ جسٹس اعجاز افضل نے تحریر کیا،پاناما کیس کا فیصلہ 540 صفحات پر مشتمل ہے،پاناما کیس کا فیصلہ تین دو سے ہوا ہے،2 ججر نے فیصلے سے اختلاف کیا 249جسٹس گلزار احمد اور جسٹس آصف کھوسہ نے فیصلے سے اختلاف کیا 249سپریم کورٹ نے معاملے کی تحقیقات کیلئے جے آئی ٹی بنانے کا حکم دیدیا،نواز شریف، حسن نواز اور حسین نواز جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونگے،جے آئی ٹی ہر دو ہفتے میں بنچ کے سامنے اپنی رپورٹ پیش کریگی،جے آئی ٹی 2 ماہ میں اپنی رپورٹ مکمل کریگی249160 نیب،ایس سی اسی پی اور ملٹری انٹیلی جنس کا نمائندہ ٹیم کا حصہ ہوگا،جے آئی ٹی وزیراعظم کی بے نامی جائیدادوں کی تحقیقات کرے گی۔سپریم کورٹ نے پاناما لیکس کے معاملے پر وزیراعظم نواز شریف کے خلاف دائر درخواستوں پر مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی (جے آئی ٹی)بنائے کا حکم دے دیا،رقم کیسے قطر منتقل کی گئی اس کی تحقیقات ہونی چاہئیں،چیئرمین نیب غیر رضامند پائے گئے اس کی بھی تحقیقات ہونی چاہئیں 249فیصلے کے مطابق جے آئی ٹی ہر 2ہفتے بعد سپریم کورٹ بینچ کے سامنے اپنی رپورٹ پیش کرنے کی پابند ہوگی۔جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے کورٹ روم نمبر 1میں پاناما لیکس کے معاملے پر آئینی درخواستوں کا فیصلہ سنایا،جو رواں برس 23فروری کو محفوظ کیا گیا تھا۔فیصلہ 540صفحات پر مشتمل تھا، جسے جسٹس اعجاز اسلم خان نے تحریر کیا۔فیصلے پر ججز کی رائے تقسیم رہی اور 3 ججز ایک طرف جبکہ 2 ججز جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس گلزار احمد خان نے اختلافی نوٹ لکھا۔فیصلے کے ابتدائی نکات میں کہا گیا کہ رقم کیسے قطر منتقل کی گئی اس کی تحقیقات ہونی چاہئیں249چیئرمین نیب غیر رضامند پائے گئے اس کی بھی تحقیقات ہونی چاہئیں249چیئرمین نیب اپنا کام کرنے میں ناکام رہے اس لئے جے آئی ٹی بنائی گئی۔فیصلے میں کہا گیا ہے کہ وزیر اعظم، حسن نواز اور حسین نواز جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوں249جے آئی ٹی ہر دو ہفتے بعد اپنی رپورٹ پیش کرے249ڈی جی ایف آئی اے وائٹ کالر کرائم کی تحقیقات کرنے میں ناکام رہے249جے آئی ٹی میں ایم آئی، ایف آئی اے، آئی ایس آئی کے نمائندے شامل ہونگے،2ججز نے وزیراعظم کو ڈی نوٹیفائی کرنے کا کہا۔جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں 5رکنی لارجر بنچ نے سماعت کی۔ فیصلہ مجموعی طور پر پانچ سو چالیس صفحات پر مشتمل تھا۔کیس کا فیصلہ 5 رکنی لارجر بنچ کیسربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ کورٹ روم نمبر ون میں پڑھ کر سنایا۔اس سے قبل مختلف سیاسی رہنما باری باری سپریم پہنچنے۔ کورٹ کے باہر میڈیا، سیکورٹی اسٹاف اور سیاسی کارکنوں کا رش رہا۔پاناما کیس کا فیصلہ سننے کیلئے آنے والوں سے کمرہ عدالت بھر ہوا تھا۔کمرے میں تل دھرنے تک کی جگہ نہیں تھی۔پاناما کیس کا فیصلہ آنے کے بعد عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ کے رہنماوں نے فیصلے کو اپنی 'جیت' قرار دیتے ہوئے 'گو عمران گو' کے نعرے لگائے۔وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہاکہ اللہ کا جتنا شکر ادا کریں وہ کم ہے، ہم سرخرو ہوئے ہیں، عدالت عظمی نے فیصلہ دیا ہے، مزید تحقیقات کی جائیں جبکہ یہی بات 6 ماہ قبل خود وزیراعظم نواز شریف نے بھی کہی تھی۔انہوں نے کہا کہ مخالفین نے جو شواہد پیش کیے، وہ ناکافی تھے، ان کی مزید تحقیقات کی ضرورت ہے۔ کسی بھی دوسرے ملک میں آف شور بینک اکانٹس اور دیگر مالیاتی لین دین کے نگران اداروں سے یا ٹیکس سے بچنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے249 کمپنیاں یا شخصیات اس کے لیے عموما شیل کمپنیوں کا استعمال کرتی ہیں جس کا مقصد اصل مالکان کے ناموں اور اس میں استعمال فنڈز کو چھپانا ہوتا ہے۔پاناما لیکس کے معاملے نے ملکی سیاست میں اس وقت ہلچل مچائی، جب گذشتہ سال اپریل میں بیرون ملک ٹیکس کے حوالے سے کام کرنے والی پاناما کی مشہور لا فرم موزیک فانسیکا کی افشا ہونے والی انتہائی خفیہ دستاویزات سے پاکستان سمیت دنیا کی کئی طاقت ور اور سیاسی شخصیات کے 'آف شور' مالی معاملات عیاں ہو گئے تھے۔ تو میرئے ہم وطنو یہ ہے پانامہ کا فیصلہ۔ سعادت حسن منٹو کے کردار اُستاد منگو ٹانگے والے کی طرح ہمارا انتظار بھی ایسا ہی ثابت ہوا۔ اللہ پاک مملکت خداد کا مال ہے وہی اِس کی حفاظت فرمائے۔معاشرے میں پھیلی بے حسی اور مادیت سے انتہاء کا لگاؤ اِس بات کا مظہر ہے کہ حضرت انسان موجودہ د ور میں کیسے حالات سے گزر رہا ہے۔زندگی گزارنے کے لیے جہاں روحانی سکون درکا ہوتا ہے اُس کی بجائے اب ہوس نے جگہ لے لی ہے۔حضرت انسان کو اپنے وجود کوآسائشیں بہم پہنچانے کی اتنی فکر ہے کہ وہ خود کو انسانیت کے مقام سے گرا چکاہے۔ زندگی کا واحد مقصد پیسہ کماؤ ۔ اب پیسہ اگر حلال طریقے سے نہیں مل رہا تو یہ انداز کہ جیسے مرضی کماو۔ جب مقصد جیسے مرضی کا ہو تو پھر اچھے اور بُرئے کی تمیز کا جنازہ نکل جاتا ہے۔ انسانی عقل و شعور درندگی کے اندھیرئے میں پناہ لے لیتا ہے۔ طاقت اور مادی وسائل پر زیادہ سے زیادہ کنٹرول کے لیے تمام قانون قائدئے اخلاقی پہلو ؤں کا دھڑن تختہ کردیا جاتا ہے۔ ایک طرف سرمایہ داروں وڈیروں کے اندر یہ گھمنڈ پیدا ہوجاتا ہے کہ وہ بااثر ہیں اور محفوط ہیں۔دوسری طرف اِسی معاشرئے کی پیداوار جن کے پاس وسائل کی کمی ہوتی ہے اور معاشرے میں اُن کے لیے وہ قد کاٹھ نہیں بن پاتا تو وہ مذہبی طبقے میں گھس کر اِنھی سرمایہ داروں کی کاسہ لیسی کرکے اور اُن کی نوازشات کو اپنا حق سمجھ کر وصول کرتے ہیں اور معاشرئے میں خود کو باعزت بنانے کی تگ و دو میں لگے رہتے ہیں اور مذہب کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہیں۔ مذہبی طبقے کی ایک اور شکل ہمارئے معاشرئے میں پیر ہیں جو کہ خود تو اربوں روپے کی پراپرٹی بنا کر یورپ امریکہ میں مزئے کر رہے ہیں اور اپنے مریدین کو روحانی سکون عطا کرنے کی بجائے اُنھی بھی ہوس پرستی کے راستے پر لگائے ہوئے ہیں۔ ظاہری بات ہے کہ جو اوپر ہوگا وہی نیچے ہوگا۔مذہب کی صورت جس طرح بگاڑ کے رکھ دی گئی ہے اور خانقاہی نظام کا بیڑا غرق کردیا گیا ہے۔ دین حق اسلام مظلوم بن کر رہ گیا ہے۔اچھے علماء اور پیر اب بھی معاشرئے میں موجود ہیں لیکن اُن کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے یہی وجہ ہے ہر طرف اُودھم مچا ہوا ہوا ہے۔ ملک میں معاشی دہشت گردی، مذہبی دہشت گردی نے سماج کا سکون برباد کر ڈالا ہے۔ یہود ہنود نے ایسا کلچر ہمارئے معاشرئے پر لاد دیا ہے کہ لباس طور اطوار دیکھ کر لگتا ہی نہیں کہ یہ ایک غریب اور مقروض قوم کا ملک ہے۔پیر بننے سے آمدنی کے جو ذرائع مل جاتے ہیں اُس کا شاخسانہ ہے ہے کہ کوئی پیر بننے کے لائق ہے یا نہیں پیر بن بیٹھا ہے اور معاشرئے کا استحصال کر رہا ہے۔ یوں ہوس مزید ہوس کا جنم دے رہا ہے۔ اِسی طرح سیاستدان بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں۔نام نہاد جمہوری نظام کو چند ہاتھوں نے مرتکز کیا ہوا ہے اور یوں جمہوریت کے نام پر انتہائی چھوٹی سے اقلیت ملک پر حکمران بنی بیٹھی ہے۔اور یہ ہی اقلیت جو کہ حکمران اشرافیہ ہے شور مچا رہی ہے کہ جمہوریت کو نقصان نہیں پہنچنا چاہیے۔جب سماج میں جنگل کا قانون ہو تو پھر دہشت گردی نے ہی جنم لینا ہے۔تب مولانا فضل الرحمان جیسے لوگ یورپ امریکہ کو باور کرواہے ہیں کہ اُنھین بھی آزمائیں وہ بھی حکمران بن کر اُن کے ایجنڈئے کو اِسی طرح جاری رکھ سکتے ہیں جیسے حکمران اشرافیہ رکھے ہوئے ہے۔پاکستانی سوسائٹی کے اندر اِس وقت جو عجیب طرح کی بے حسی جو پنپ رہی ہے اُس کے محرکات میں ایک اہم عنصر قانون پر عمل پیرا نہ ہونا ہے۔ قانون توڑنے والا خود کو یہ سمجھ بیٹھتا ہے کہ اگر وہ قانون کی پیروی کر لیتا تو گویا اُس کی ہتک ہوجاتی۔ اِس سوچ اور رویے کے جب ہم عمرانی، نفسیاتی اور سماجی پہلووں کا جائزہ لیتے ہیں تو حیرت انگیز طور پر ہماری سو سائٹی میں قانون توڑ کرتفاخر پایا جاتا ہے ۔ انگریز کی حکومت میں اور ہندوں کی عملداری کی وجہ سے اٹھارہ سو ستاون سے لے اُنیسو سینتالیس تک کا نوئے سالا دور برغیر پاک وہند کے مسلمانون کو ایک مختلف سی ذہنی کشمکش میں مبتلا کر گیا۔ جس سوسائٹی میں انصاف کا خون ہوگا وہاں جبر اور لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہوگا، جس معاشرے
میں قانون کی بالا دستی نہیں ہوگی وہاں ظلمت کا راج پنپے گا۔ دین فطرت اسلام کی تما م تر تعلیمات جو کہ نبی پاک ﷺ کے توسط سے اُمتِ مسلمہ کو نصیب ہوئیں اُن کا تو اول و آخر نچوڑ ہی محبت اخلاص ا،نصاف، رواداری ہے ۔ جو معاشرہ پاکستان میں جنم لے چکا ہے یہاں تو اُس کی بدولت نہ تو کسی عزت محفوظ ہے اور نہ ہی کسی کو انصاف تک رسائی ہے انصاف صرف اُس کو ملتا ہے جس کے پاس پیسے ہیں یا ڈنڈا ، گویا وہ اصول یہاں بھی فروغ پاچکا ہے کہ جس کی لاٹھی اُس کی بھینس ۔زمین اور آسمان کبھی نہیں مل سکتے ۔ نفی اور جمع میں ہمیشہ سے تضاد رہا ہے۔ انسان اپنی فطرت کے ہاتھوں مجبور ہوکر بعض اوقات اس طرح کے قدم اُ ٹھانے لگ جاتا ہے۔ جس سے اْس کی شخصیت کے سارے دم خم سامنے آجاتے ہیں ۔ علم دوستی کا رواج تو بہت ہے لیکن جدید تعلیم کے تقاضوں کو اْس طرح اہمیت نہیں دی جا سکی جس طرح اْس کی اہمیت تھی ۔ انسانی ترقی میں وسائل کی ترقی کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ ایسے معاشرے میں جہاں دنیا کی تمام نعمتیں یعنی چار موسم ہیں ۔ پہاڑ ہیں، معدنیات ہیں، دنیا کا بہترین نہری نظام ہے۔ان کے ہوتے ہوئے بھی پوری دنیا میں کشکول لے کر گھومنے کا مطلب یہ ہے کہ خودی کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے ۔ گورنر جنرل غلام محمد، سکندر مرزا ، ایوب خان ، ذولفقار علی بھٹو ، یحیےٰ خان ، مشرف ، ذرداری ، کس کس کا رونا روئیں۔ کسی نے نام نہاد جمہوریت کے نام پر ا ور کسی نے مذہب کے نام پر عوام کے خون کو چوسا ہے ۔ اب ہم یہ بات ڈنکے کی چوٹ پر کہہ سکتے ہیں کہ بد قسمی سے ہمارے ہاں قیادت کی شدید کمی ہے۔ جو لوگ قوم کی قیادت کے اہل ہیں اْن کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ وہ مروجہ سیاسی نظام میں اسمبلی کے ممبر بن سکیں ۔ موجود تعفن شدہ معاشرے میں انسانی حقوق اور سماجی انقلاب کی دعویدار مذہبی وسیاسی قیادتیں خود ہی سماج کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں ۔ اْن قوتوں نے ہمارے معاشرے کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ زندگی اتنی اجیرن کہ ریاست اپنے شہریوں سے اِس طرح نبرد آزما ہے۔ جیسے بھیڑ بکریوں کو ہانکا جاتا ہے۔ کوئی بھی مذہبی جماعت اْس طرح ڈلیور نہیں کرسکی جس طرح کے اسلامی نظام کا دعویٰ کرتی ہیں ۔ سیاسی قیادتیں مصلحتوں کا شکار ہیں ۔ ایک سے بڑھ کر ایک غنڈہ قاتل ، قبضہ گروپ کا سرغنہ اسمبلی میں بیٹھا ہے۔ سیاست میں قدم رکھنے کے لیے جس کی لاٹھی اْسکی بھینس کا قانون ہے۔ کم وسائل رکھنے والا معاشرے میںُ شودر کی طرح دیکھا جاتا ہے۔ حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی خاطر جان قربان کرنے کا دعویٰٗ کرنے والے اْن کی سیرت پاک کو اپنانے کے معاملے میں صفر ثابت ہورہے ہیں ۔ جو جتنا مرضی تبلیغ دین میں مشغول ہو جائے ہیں ۔ عمرہ و حج کر لے معاشرے میں اْن کی طرف سے کوئی بھی پسندیدہ عمل نظر نہ آئے ، تو پھر یہ کیسا ایمان ہے کہ جو جھوٹ چوری ہیرا پھیری ، ظلم ڈاکے کم ناپ تول سے نہیں روکتا مطلب صاف واضع ہے کہ معاشرے میں نفوذ پزیری کے حامل افراد اپنا کردار ادا نہیں کر رہے ہیں۔ اگر ہمیں اِس طرح کے مسائل کی جانب دھکیل دیا ہے تو پھر یہ بھی ہماری ناکامی و بے بسی ہے کہ ہم اْن کی ساری سازشوں کا مقابلہ نہیں کر پا سکے اْلٹا اغیار کی ساشوں کا مہرہ ثابت ہو رہے ہیں ۔ دین مبین ، اسلام کی بنیاد کو چھوڑ کر دنیاوی مادہ پرستی کے حرص و لالچ میں ڈوب کر ہم عشق رسول ﷺ کا دعویٰ تو کر رہے ہیں لیکن عاشق رسول ﷺ ہونے کا عملی نمونہ کیوں نہیں بن پا رہے۔ اب اگر کوئی بھی مسیحا آئے گا تو وہ نرم سے نرم انداز میں خونی انقلاب کی سوچ کو پروان چڑہائے گا ۔ لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ قافلے میں ایک بھی ْ حسین ؓ کی طرح نہیں جو رسم شبیری ادا کرے اور قوم کو سماجی ، ثقافتی ، معاشی ، عمرانی ، نفسیاتی ، غلامی سے نکال کر روحانی مزاج میں ڈھالے اور مسلم امہ کے قلعہ پاکستان کو صحیح پاکستان بنائے۔ پانامہ فیصلے کے بعد یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ قوم کو جو لمبے عرصے تک لولی پاپ دیا جارہا تھا اُس کا معاملہ ٹائی ٹائی فش۔ قوم اب کسی باکردار لیڈر کی آمد کے لے دُعا کریں۔ اِس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ہمارئے معاشرئے میں اشرافیہ نے پوری قوم کویرغمال بنا رکھا ہے۔قوم کو غلامی سے نجات حاصل کرنے کے لیے واقعی باکردار لیڈر کی ضرورت ہے۔

No comments:

Post a Comment