Tuesday, 28 November 2017

Lecture Series in the memory of my Great Teacher Hussain Ahmad Bahtii sb R.A Ex Principal Govt Comp High Scooll Sargodha



Pak Army zindabd.......


خون خرابے سے بچاؤ اور جج صاحب کانقطہ نظر................. صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ ہائی کورٹ




خون خرابے سے بچاؤ اور جج صاحب کانقطہ نظر


صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی
ایڈووکیٹ ہائی کورٹ
جس انداز میں اتنے نازک وقت میں جسٹس شوکت صدیقی نے پاک فوج کے خلاف ہرزہ رائی کی ہے یقینی طور پر یہ پاکستان کی خدمت نہین ہے ۔ اپنے الفاظ پر خود ہی غور فرمائیں۔ یہ وہ جج صاحب ہین جنہوں نے ممتاز قادی کو پھانسی کی سزا بھی دی تھی۔ یہ چاہتے تھے کہ طاقت کے زور پر دھرنا ختم کیوں نہ ؁ن ہوا۔ مذید لاشین کیوں نہین گریں فوج نے امن کیوں کروایا۔ جسٹس صدیقی اِس وقت حکمرانوں کی زبان بول رہے ہیں۔نہ جانے جناب شوکت صدیقی نے کس طرح کی بیان بازی شروع کردی ہے اُن کے خلاف تو پہلے ہی جوڈیشل کونسل میں ناہلی کا ریفرنس ہے۔ امید واثق ہے کہ وہ اپنی اِس ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔جد طرح سے اُنھوں نے ختم نبوت ﷺ کے لیے قربانی دینے ولے مسلمانوں کے خلاف الفاظ ادا کیے ہین ۔ اور جس انداز میں اپنی فوج کو بُرا بھلا کہا ہے ۔ ایسا لگ رہا ہے کہ شاید یہ کسی اور ملک کی عدالت ہے جس م ؁ن پاکستانی فوج کی کردار کشی کی جارہی ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے الفا ظ کا نوٹس لیں۔کسی طرح بھی عقل و دانش جناب جسٹس صاحب کے الفاظ کی غرض و غایت تسلیم کرنے سے عاری ہے۔جناب جسٹس صاحب فرماتے ہیں کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے فیض آباد انٹرچینج پر دھرنے کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت میں مظاہرین کی جانب سے اسلحہ کے استعمال، آنسو گیس کے شیل اورگیس فائر کرنے والی گنز کے حوالے سے اسلام آباد انتظامیہ اور انٹیلی جنس بیورو سے رپورٹ طلب کر لی ہے۔ عدالت نے حکومت اور مظاہرین کے درمیان طے پانے والے معاہدے میں فوج کے ثالثی کے کردار پروفاق سے جواب طلب کرتے ہوئے مشیر وزیر اعظم بیرسٹر ظفراللہ کی سربراہی میں کمیٹی بنا کر ختم نبوت کی شقوں میں ردو بدل کے ذمہ داروں کے خلاف انکوائری مکمل کرکے دس دن میں رپورٹ عدالت میں جمع کرانے کا حکم دیا ہے۔ عدالت نے انٹیلی جنس بیورو سے استفسار کیا ہے کہ بتائیں دھرنے والوں کے پاس اسلحہ کہاں سے پہنچا اور پولیس جب فیض آباد خالی کرانے کے قریب تھی تو دھرنا مظاہرین کی مدد کس نے کی ہے۔ عدالت نے حکومت اور مظاہرین کے درمیان معاہدے میں فوج کی ثالثی پر حیرت اور دھرنا مظاہرین کو سپریم کورٹ کے ججز کے خلاف گالیاں دینے پر معاہدے میں معافی کی شق شامل نہ کرنے پر سخت برہمی کا اظہار کیا اور ریمارکس دئیے ہیں کہ فوج نے قانون توڑنے اور قانون نافذ کرنیوالوں میں معاہدہ کرایا، حمزہ کیمپ کی جگہ یہاں جی ایچ کیو ہوتا تو کیا یہاں دھرنا ہوتا؟ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ دھرنے کے پیچھے یہ لوگ ہیں، کیا آئین کے تحت آرمی چیف ’ایگزیکٹو‘ سے الگ ہیں؟ آئین کے مطابق ایگزیکٹوز کا حکم ماننے کی بجائے فوج ثالث کیسے بن سکتی ہے؟ فوج کا میجر جنرل کیسے ثالث بنا؟ سازش کے تحت اسلام آباد پولیس اور انتظامیہ کو ناکام بنایا گیا، کب تک قوم کے ساتھ یہ تماشا چلتا رہے گا؟ اب تک کیا گیا نقصان ریاست کیوں برداشت کرے؟ ردالفساد اور ضرب عضب کہاں گئے؟ انوشہ رحمن کو بچانے کے لئے زاہد حامد کو قربانی کا بکرا بنایا جا رہا ہے، ختم نبوت کی شقوں میں ترمیم کا ڈرافٹ کس نے تیار کیا؟ یہ تاثر دیا گیا کہ ہرمرض کی دوا فوج ہے، اگر بیرونی جارحیت ہوئی تو فوج کے لئے اپنا خون بھی دیں گے، 1965 کی جنگ میں ہم نے جھولی پھیلا کر افواج کے لئے چندے جمع کئے، اب بھی ملک کو کوئی خطرہ ہوا تو افواج پاکستان کے شانہ بشانہ ہوں گے لیکن فوج کا یہ کردار ہمیں قبول نہیں ہے، فوج اپنا کردار آئینی حدود میں ادا کرے، جن فوجیوں کو سیاست کا شوق ہے وہ ریاست کی بندوق واپس کر کے ریٹائرمنٹ کے بعد سیاست میں آئیں، جانتا ہوں ان باتوں کے بعد میری زندگی کی بھی اب کوئی ضمانت نہیں رہی ہے میں ماردیا جاوں گا یاپھر لاپتہ کردیا جاوں گا۔، عدلیہ میں اب جسٹس (ر) منیر کے پیروکار نہیں رہے، ایجنسیوں نے دھرنے کے ذریعے وفاقی دارالخلافہ کو بند کرنے کی تیسری کوشش کی ہے۔ عدالت نے اٹارنی جنرل کو معاونت کے لئے طلب کر لیا ہے جبکہ انٹیلی جنس بیورو سے فوج کے اعلیٰ افسر کی ثاقب نامی شخص کو دھرنے کے بارے میں فوج کا نکتہ نظر بیان کرنے کی وائرل ہونیوالی ویڈیو بارے رپورٹ بھی مانگ لی ہے۔ عدالت نے حکومت کو مسلح افواج کے آئینی اور بطور ثالث کردار کے حوالے سے عدالت کو مطمئن کرنے کا حکم دیتے ہوئے ہدایت جاری کی ہے کہ حکومت اور اسلام آباد انتظامیہ دھرنا مظاہرین کو پریڈ گراونڈ منتقل کریں اور ناکامی کی صورت میں انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997کی دفعہ 4 اور 5 کے تحت فوج کو بلایا جائے۔ عدالت نے وفاقی وزیر داخلہ کی حاضری سے متعلق استفسار کیا جس پر ڈپٹی اٹارنی جنرل نے بتایا کہ وزیر داخلہ رات بھر جاگتے رہے اس لئے عدالت میں پیش نہیں ہو سکے ہیں۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ان سے استفسار کیا کہ وزیر داخلہ رات بھر جاگ کر کیا کرتے رہے ہیں؟ بعد ازاں عدالت نے وزیر داخلہ کو طلب کرتے ہوئے سماعت کچھ دیر کے لئے ملتوی کر دی۔ دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو وزیر داخلہ احسن اقبال نے عدالت کو بتایا کہ حکومت اور مظاہرین کے درمیان معاہدہ ہو گیا ہے۔ عدالت کے استفسار پر انہوں نے بتایا کہ معاہدے کی نقل پاس نہیں ہے۔ اس پر چیف کمشنر اسلام آباد نے بتایا کہ ان کے پاس معاہدے کی نقل موبائل فون میں موجود ہے۔ عدالتی حکم پر چیف کمشنر نے معاہدہ پڑھ کر سنایا اور بتایا کہ معاہدہ طے پاگیاہے، ہائیکورٹ کے حکم پر عمل ہو جائے گا۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ عدالت نے معاہدے کا نہیں فیض آباد کو مظاہرین سے خالی کرانے کا حکم دیا تھا۔ وزیر داخلہ احسن اقبال نے کہاکہ پریس کانفرنس ہونے والی ہے، دھرنا ختم اور ملک بھر میں مظاہرے ختم ہو جائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ مسلکی بنیادوں پر تقسیم کر کے مسلمانوں کے گھروں پر حملے کئے جا رہے تھے اور ملک میں فساد کھڑا کیا جا رہا تھا۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ آپ نے بے رحمی کے ساتھ اسلام آباد انتظامیہ کو ذلیل کروایا ہے ان کے پاس کوئی کور نہیں تھا۔ فاضل جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ معاہدے میں جنرل قمر باجوہ کا شکریہ ادا کیا گیا ہے۔ یہ تیسری کوشش ہے جو دارالحکومت میں ایجنسیوں کی طرف سے کرائی گئی ہے۔ آپریشن ردالفساد اور ضرب عضب کہاں گئے، یہاں کسی کو فساد نظر نہیں آیا؟ قوم کے ساتھ یہ تماشا کب تک چلتا رہے گا؟ اپنے ملک کے ادارے اپنی ریاست کے خلاف کام کر رہے ہیں۔ یہ کسی خادم حسین یا کسی تنظیم کا معاملہ نہیں پوری قوم و امت کا مسئلہ ہے۔ قانون شکنی کرنے والوں اور قانون نافذکرنیوالے اداروں کے درمیان فوج کیسے ثالث بن سکتی ہے؟ آپ لوگوں کو بتارہے ہیں کہ جوہری طاقت والے ملک کی سیکورٹی کا حال یہ ہے؟ آپ نے کوئی کام نہیں کیا صرف دھرنے والوں کے سامنے سرنڈر کیا ہے۔ حمزہ کیمپ کی جگہ یہاں جی ایچ کیو ہوتا تو کیا یہاں دھرنا ہوتا؟ احسن اقبال نے جواب دیا یہ تو مظاہرین ہی بتا سکتے ہیں میں کیسے بتا سکتا ہوں۔ جسٹس شوکت صدیقی نے کہا یہ خود اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کے پیچھے یہ لوگ ہیں۔ آرمی چیف کی آزادانہ کیا حیثیت ہوتی ہے؟ ایگزیکٹوز کا حکم ماننے کے بجائے وہ ثالث کیسے بن سکتے ہیں؟ دوران سماعت آئی ایس آئی کے سیکٹر کمانڈر بریگیڈئر عرفان شہید رامے نے کہا کہ دھرنوں کے پیچھے ایجنسیوں کا کوئی کردار نہیں۔ صورتحال کو کنٹرول کرنے کے دو ہی راستے تھے، پر امن طریقے سے حل کیا جاتا یا پرتشدد طریقے سے۔ عدالت نے حکم دیا تو پر امن راستے کا انتخاب کیا، عدالت نے گولی چلانے کا حکم نہیں دیا اس لئے پہلے وارننگ دینی تھی اور بات نہ ماننے پر فورس استعمال کرنی تھی۔ عدالت نے کہا کہ فوج کا خلاف آئین کردار قابل قبول نہیں کہ قانون توڑنے اور قانون نافذ کرانے والوں کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرے، فوج ہمارا فخر ہے، فوج میں ہمارے باپ بیٹے اور بھائی شامل ہیں، فوج کو اپنا کردار آئینی حدود میں ادا کرنا چاہئے۔ اب عدلیہ میں جسٹس منیر کے پیروکار نہیں رہے، آرمی اپنے آئینی کردار میں رہے۔ اپنے ملک کے ادارے اپنی ریاست کے خلاف کام کر رہے ہیں۔ فاضل جسٹس نے استفسار کیا کہ بتائیں یہ میجر جنرل صاحب کون ہیں اور انہوں نے کس حیثیت میں دستخط کئے؟ اس بات پر تو ان کا کورٹ مارشل ہونا چاہئے، آپ نے انہیں ثالث بنا دیا ہے۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے آئی بی کے جوائنٹ ڈائریکٹر جنرل کو مخاطب کر کے کہا کہ آئی بی میں بھی سب ٹھیک نہیں چل رہا، آپ بھی آئی ایس آئی سے لڑائی لگا کر بیٹھے ہوئے ہیں۔
نا اہل حکومت جو چاہتی تھی وہی ہوا اور تحریک لبیک یارسولﷺ کے دھرنے پر بدترین تشدد کرکے پاک فوج کو پھر آنے کی دعوت دی گئی لیکن پاک فوج کے سربراہ جناب قمر جاوید باجوہ نے صاف صاف فرمادیا کہ فوج اپنے لوگوں پر گولی نہیں چلائے گی۔ اور ختم نبوتﷺ کے قانون میں ترمیم کرنے والے ذمہ داروں کا تعین کرکے اُن کو سزا دی جائے اور ٹی وی چینلز کھولے جائیں۔ یوں نااہل حکومت نے ملک کو آگ میں جھونک کر قوم کو اور فوج کو لڑوانے کے لیے اپنی پوری کوشش کی لیکن سپہ سالار فوج نے حکومت کی تمام تر چالاکیوں کا توڑ کر لیا ۔جس انداز میں ختم نبوت ﷺ کے قانون پر شب خون مارا گیا اور نواز حکومت نے جس ڈھٹائی کے ساتھ اپنے موقف پر میں نہ مانوں والی رٹ لگائی رکھی اِس کے بعد یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوچکی ہے کہ نواز کے حواریوں نے اپنی دُنیا بھی خراب کرلی ہے اور آخرت بھی۔جس طرح معصوم لہو بہایا گیا اور اپنے ایک وزیر کی قربانی نہ دی وزیر بھی وہ جو مشرف کا بھی وزیر قانون تھا۔ اِس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ نواز حکومت نے پر امن اہلسنت کو ہمیشہ کے لیے ناراض کر لیا ہے۔ اب نواز لیگ بھول جائے کہ وہ اہلسنت جو اِس ملک کی کثیر آبادی ہے سے ووٹ لے سکے گئی۔ لبیک یارسول اللہ ﷺ کے نعرے میں وہ قوت ہے وہ روحانی سرشاری ہے کہ جس کو یہ نام نہاد دو ٹکے کے سیاستدان نہ سمجھ پائے اور نہ ہی سمجھ پائیں گے کیونکہ ان کے نزدیک آقا کریم ﷺ کی محبت کی بجائے ایک وزیر زیادہ مقدم ہے۔ قدرت کا اِس سے بڑا انتقام اور کیا ہوگا کہ نا اہل وزیر داخلہ احسن اب کہہ رہا ہے کہ آپریش میری نگرانی میں نہیں ہوا یہ تو عدالت کے حکم پر اسلام آباد کی انتظامیہ نے کیا ہے میں تو آپریشن کے حق میں ہی نہیں تھا۔ ساری باتیں ایک طرف اِب صورتحال یہ ہوچکی ہے کہ ن لیگ کے وزراء اور ارکین اسمبلی کے گھروں پر عوام الناس حملے کر رہی ہے۔ کتنا بڑا قدرت کا انتقام ہے کہ چند سال پہلے تک کے مقبول ترین لیڈروں کو اپنی جان کے لالے پڑ گئے ہیں۔ احسن اقبال اور رنا ثنا ا للہ اِن لوگوں نے شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری کو ثبوت دیا ہے اور عوام کی عشق رسول ﷺ کی طاقت کا غلط اندازہ لگایا ۔ نبی پاکﷺ کی ختم نبوت کے ساتھ جس طرح کی دُشمنی ن لیگ نے روا رکھی ہے اِس کا حشر نشر ہو گیا ہے۔عوام پاک فوج کے ساتھ ہیں اور ملک میں امن قائم کریں جتنا احتجاج ریکارڈ ہوچکا ہے اب کسی کا باپ خواہ وہ امریکہ ہے یا بھارت ہے یا کوئی اور وہ ختم نبوت کے قانون کو تبدیل کروانے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ اللہ پاک پاکستانیوں کے عشق رسولﷺ کے جذبوں کو سلامت رکھے۔جناب جسٹس شوکت صدیقی خود محاز آرئی چاہتے ہیں۔ اللہ پاک کرم فرمائے۔آمین 

Monday, 20 November 2017

لبیک یا رسول اللہ ﷺ کی خیر وبرکت" نظام مصطفےٰ ﷺمتحدہ محاذ " صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ ہائی کورٹ


لبیک یا رسول اللہ ﷺ کی خیر وبرکت" نظام مصطفےٰ ﷺمتحدہ محاذ "

صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ ہائی کورٹ

جب تمام ختم نبوت کا قانون بحال ہوگیا ہے تو پھراسلام آباد میں دھرنا کیوں؟ لیکن کیا دھرنے والے کوئی غیر آئینی مطالبہ کر رہے ہیں۔جی نہیں۔اُن کا مطالبہ یہ ہے کہ ختم نبوت ﷺ کے پہلے سے طے شُدہ معاملے اور قانون پر ڈاکہ زنی کرنے والے قابل گرفت ہیں۔اب بات یہ ہے کہ یہ تو اسلامہ جمہوریہ پاکستان ہے۔جس کی بنیاد کلمہ طیبہ پر ہے
اگر پاکستان میں نبی پاکﷺ کی عزت و ناموس اور ختم نبوت کے معاملات درست نہیں ہیں۔تو پھر اِسکا مطلب کیا یہ نہیں ہے۔پاکستانی حکمران قادیانیوں کے ایجنڈئے کی تکمیل کر رہے ہیں اور یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ امریکہ کا پاکستان پر دباؤ ہے کہ ختم نبوت ﷺاور ناموس رسالت ﷺ کے قوانین کو ختم کیا جائے۔اب اگر عوام کے پریشر سے یہ قوانین بحال ہوگئے ہیں تو اِس میں حکومت کا تو کوئی کمال نہیں۔اِس لیے جس کسی نے بھی آئین پاکستان کی دھجیاں بکھیریں ہیں اُس کو قرار واقعی سزا ملنی چاہیے۔ظاہری سی بات ہے کہ وزیر قانون ہی انچارج ہے تو اُس سمیت دیگر ذمہ داراں کو سزا ملنی چاہیے۔بس اتنی سی بات ہے اِس کے لیے موم بتی مافیا نام نہاد لبرل فاشسٹ طرح طرح کی بولیاں بول رہے ہیںیہ تمام مسلمانوں کے ایمان کا معاملہ ہے کسی خاص فرقے اور سیاسی پارٹی کا نہیں اِس لیے اِس معمالے پر پوائنٹ سکورنگ نہ کی جائے اب اگر بائیس کروڑ کی آبادی کے ملک میں مذہبی لوگ حکومت میں شامل ہیں تو اُن کو لعن طعن کرنا مناسب نہیں ہے کیونکہ یہ مسلمانوں کا ملک ہے اِس لیے تمام مسلمان بغیر کسی تخصیص کہ دھرنے کے مطالبے کی حمایت کریں اور ملک میں خانہ جنگی فضا نہ پیدا ہونے دیں۔نواز لیگ کے نصیب میں یہ لکھ دیا گیا تھا کہ اُس کے ہاتھوں یہ ظلم ہونا تھااللہ پاک ملک و قوم کی حفاظت فرمائے۔اور پاکﷺ کے مقام کے تحفظ کے لیے ہر مسلمان کو حضرت بلالؓ کی روح عطا فرمائے آمین۔ یہ بات درست کہ ختم نبوت کے حلف کی آئینی شقوں 7بی 7سی کو پارلیمنٹ نے منظور کر لیا ہے۔ ختم نبوت کا قانون پہلے کی طر ح بحال کر دیا گیا۔ چونکہ نواز حکومت اِس وقت بُری طرح دباؤ میں ہے اور اُس نے نبی پاکﷺ کے مقام کے تحفظ اور ختم نبوت ﷺکے قانون پر ڈاکہ ڈالنے والے وزراء کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی۔ شاید نواز شریف فیملی کو نبی پاکﷺ کی شفاعت کی طلب ہی نہیں رہی۔ اُسے تو بس ایک ہی فکر ہے کہ اُسے کیوں نکالا۔ حالانکہ سپریم کورٹ کے پانچ ججز نے تفصیلی جاری کردیا ہے اور اُن محرکات کا ذکر کیا ہے کہ نواز شریف کی نااہلی کا سبب کیا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمارئے ہاں شاید پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ نبی پاکﷺ کی عزت و ناموس کے احساس معاملے میں بھی نواز لیگ کے حامیوں کو سب اچھا نظر آتا رہا ہے۔ اور تو اور جن لوگوں نے ساری زندگی نبی پاک ﷺ کی محبت کے ترانے پڑھے اور اِسی بناء پر سیاست میں کامیابیاں حاصل کیں میری مراد اُن پیر صاحبان سے ہے جو نواز حکومت میں ہیں۔ اُن کے مریدین نبی پاکﷺ کی ختم نبوت کے قانون کے تحفظ کی بجائے اپنے پیر صاحبان کی کرسی کی مضبوطی کے لیے نواز لیگ کے اِس افسوس ناک اقدام کی مذمت نہیں کر پائے شاید اُن کے نصیب میں اب نبی پاکﷺ کے مقام کے تحفظ کی بجائے سیاسی آقاؤں کی حاشیہ برداری لکھ دی گئی ہے۔راقم پچاس سال کی عمر کو پہنچ گیا ہے اور راقم کا تعلق عشق رسولﷺ کی سُرخیل تنظیم انجمن طلبہء اسلام کے ساتھ رہا ہے۔ایک بات درست ہے کہ پیر صاحبان جو حکومت کے ساتھ ہیں اُن کی مرضی وہ جس مرضی پارٹی کا ساتھ دیں۔خواہ نواز شریف کے ساتھ ہوں یا کسی اور کے ساتھ۔ لیکن دُکھ اِس بات کا ہے اُنھوں نے ہمیشہ اہلسنت کا پلیٹ فارم استعمال کرکے اپنا سیاسی قد بنایا اور اب وہ ایک ایسے حکمران کی کاسہ لیسی کر رہے ہیں جس کو ملک کی سب سے بڑی عدالت نااہل اور جھوٹا قرار دے چکی ہے۔ راقم کو اِس سے بھی غرض نہیں کہ نواز شریف جو دائیں بازو کی سیاست کرتے رہے اب کسی اور طرف نکل گئے۔ لیکن بات تو نبی پاکﷺ کی ناموس کی ہے۔ بے چارے مریدین اللہ پاک کو اور نبی پاکﷺ کو ناراض کرکے اپنے اپنے پیروں کی خوشامد میں طوطوں کی طرح بول رہے ہیں ۔طاہر القادری اور عمران خان نے دھرنا دیا جو سوا سو دن جاری رہا۔پی ٹی وی اور پارلیمنٹ پر حملہ کیا گیا۔ اب اِس سارے کام کی وجہ سے کہ اسلام آبد میں دھرنا طول پکڑ گیا ہے، اتک بہت ہی خوش آئین بات یہ ہے کہ اتحاد کی طرف علماء اکرام بڑھے ہیں۔نظامِ مصطفے ﷺ محاز قائم کردیا گیا ہے۔ اِس کی تفصیلات بہت ہی اچھی ہیں اور خوش آئین ہیں ۔ لیکن اِسے کوئی ہائی جیک نہ کرلے جیسا کہ ماضی میں ہوتا آیا ہے۔اہل سنت جماعتوں کے گرینڈ الائنس '' نظام مصطفےٰ متحدہ محاذ '' نے وفاقی وزیر قانون زاہد حامد اور صوبائی وزیر قانون رانا ثنائاللہ کی برطرفی کا مطالبہ کر دیا۔ 20 دسمبر کو راولپنڈی میں ملک گیر علماؤ مشائخ کنونشن منعقد کر کے رابطہ عوام مہم شروع کی جائے گی اور ربیع الاول کے بعد چاروں صوبوں میں بڑے سیاسی جلسے منعقد کئے جائیں گے اور کراچی سے راولپنڈی تک کاروان چلایا جائے گا۔ جمعہ 24 نومبر کو ملک بھر میں '' یوم ختم نبوت '' منایا جائے گا۔ متحدہ محاذ کے آئندہ اجلاس میں منشور و دستور منظور کیا جائے گا۔ اسلام آباد دھرنے کے مطالبات کی تائید و حمایت کرتے ہیں۔ دھرنے کے خلاف ریاستی طاقت کا استعمال برداشت نہیں کریں گے۔ حکومت طاقت کی بجائے مزاکرات سے دھرنے کا مسئلہ حل کرے۔ میلادالنبی کے تمام پروگراموں کو ختم نبوت سے منسوب کیا جائے گا۔ اس بات کا فیصلہ ادارہ تعلیمات اسلامیہ راولپنڈی میں علامہ پیر سید ریاض حسین شاہ کی میزبانی میں منعقد ہونے والے نظام مصطفےٰ متحدہ محاذکے سربراہی اجلاس کے مشترکہ اعلامیہ میں کیا گیا۔ اجلاس میں متحدہ نظام مصطفے محاذ کے کنوینرصاحبزادہ سید حامد سعید کاظمی، جماعت اہل سنت کے ناظم اعلی علامہ پیر سید ریاض حسین شاہ، سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین صاحبزادہ حامد رضا، جے یو پی کے سیکریٹری جنرل صاحبزادہ شاہ اویس نورانی، نظام مصطفےٰ پارٹی کے سربراہ اور سابق وفاقی وزیر الحاج محمد حنیف طیب، جمعیت علمائپاکستان کے صدر صاحبزادہ ڈاکٹر ابو الخیر محمد زبیر، پاکستان سنی تحریک کے مرکزی نائب صدر شاہد غوری، جے یوپی نیازی کے مرکزی نائب امیر مولانا محمد عباس ہاشمی، فلاح پارٹی کے صدر قاضی عتیق الرحمن، قومی اسمبلی کے سابق رکن صاحبزادہ میاں جلیل احمد شرقپوری، سابق ایم این اے محمد عثمان خان نوری، میاں خالد حبیب الہی ایڈووکیٹ، پنجاب اسمبلی کے رکن پیر سید محمد محفوظ مشہدی، عبدالرزاق ساجد، صاحبزادہ سید صفدر شاہ گیلانی، امانت علی زیب، سید جواد الحسن کاظمی، ڈکٹر ظفر اقبال جلالی اور دیگر نے شرکت کی۔ اجلاس میں ملکی حالات اور سیاسی صورت حال کا جائزہ لے کر آئیندہ کا مشترکہ انتخابی وسیاسی لائحہ عمل تیار کیا گیا۔ اجلاس کے اختتام پر نظام مصطفے محاذ کے کنوینر صاحبزادہ سید حامد سعید کاظمی نے دوسرے راہنماؤں کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ختم نبوت حلف نامے میں تبدیلی کرنے والوں کی برطرفی تک عوامی بے چینی ختم نہیں ہو گی۔ ختم نبوت کے معاملے میں کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔ پرویز رشید اور مشاہد اللہ کو کسی اور مسئلے پر برطرف کیا جا سکتا ہے تو زاہد حامد کو ختم نبوت کے مسئلے پر بر طرف کیوں نہیں کیا جا سکتا۔نظام مصطفے متحدہ محاذ اہل حق کا نمائندہ سیاسی و مذہبی پلیٹ فارم ہے۔ پر امن اہل سنت کو امن کے راستے سے ہٹانے کی سازش کی جا رہی ہے۔ ہم نے جنازے اٹھائے ہیں لیکن ہتھیار نہیں اٹھائے۔ اہل سنت اپنے اکابرین کے راستے پر چلتے ہوئے دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف جدوجہد جاری رکھیں گے۔ اہل سنت کا سیاسی تشخص بحال کیا جائے گا۔ ہماری منزل انقلاب نظام مصطفے ہے۔ اہل سنت جماعتوں کا گرینڈ الائنس آئندہ الیکشن میں اہم کردار ادا کرے گا۔ اجلاس میں منظور کی گئی قراردادوں میں مطالبہ کیا گیا کہ حکومت ملک میں نظام مصطفے نافذ کرے۔ سودی نظام معیشت کا خاتمہ کیا جائے۔ وزیر عظم دوٹوک اعلان کریں کہ امریکی دباؤ پر قانون ناموس رسالت تبدیل نہیں کیا جائے گا۔ عدالتوں سے سزا یافتہ گستاخان رسول کو پھانسیاں دی جائیں۔ اقوام متحدہ مقبوضہ کشمیر، فلسطین اور برما میں انسانی حقوق کی پامالیوں کا نوٹس لے۔ حکومت مہنگائی، بے روزگاری، لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کے لئے اقدامات کرے۔ روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی روکنے کے لئے مسلم حکمران برما کی حکومت پر مشترکہ دباؤ ڈالیں۔ آخری بات۔سعودی عرب جو کام بھی کرئے ایک طبقہ پاکستان میں اُس کی ہر حال میں حمایت کرتا ہے حتی کہ مودی کو جب سعودی حکومت نے سب سے بڑا سول ایوارڈ عطا کیا تو اُس کی وکالت میں بھی یہ طبقہ پیش پیش تھا۔ اب سعودی عرب نے بارہ ربیع الاول کو جشن پیدائش حضرت محمد ﷺ منانے کا اعلان کے ہے۔ اب اِن بے چاروں کی حالت دیکھی نہیں جاتی۔تاجدار ختم نبوتﷺ زندہ آباد۔اللہ پاک اِس اتحاد کو قائم رکھے اور ایسے عناصر سے بچائے جو کہ اِس کو ہائی جیک