Tuesday, 28 November 2017

خون خرابے سے بچاؤ اور جج صاحب کانقطہ نظر................. صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ ہائی کورٹ




خون خرابے سے بچاؤ اور جج صاحب کانقطہ نظر


صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی
ایڈووکیٹ ہائی کورٹ
جس انداز میں اتنے نازک وقت میں جسٹس شوکت صدیقی نے پاک فوج کے خلاف ہرزہ رائی کی ہے یقینی طور پر یہ پاکستان کی خدمت نہین ہے ۔ اپنے الفاظ پر خود ہی غور فرمائیں۔ یہ وہ جج صاحب ہین جنہوں نے ممتاز قادی کو پھانسی کی سزا بھی دی تھی۔ یہ چاہتے تھے کہ طاقت کے زور پر دھرنا ختم کیوں نہ ؁ن ہوا۔ مذید لاشین کیوں نہین گریں فوج نے امن کیوں کروایا۔ جسٹس صدیقی اِس وقت حکمرانوں کی زبان بول رہے ہیں۔نہ جانے جناب شوکت صدیقی نے کس طرح کی بیان بازی شروع کردی ہے اُن کے خلاف تو پہلے ہی جوڈیشل کونسل میں ناہلی کا ریفرنس ہے۔ امید واثق ہے کہ وہ اپنی اِس ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔جد طرح سے اُنھوں نے ختم نبوت ﷺ کے لیے قربانی دینے ولے مسلمانوں کے خلاف الفاظ ادا کیے ہین ۔ اور جس انداز میں اپنی فوج کو بُرا بھلا کہا ہے ۔ ایسا لگ رہا ہے کہ شاید یہ کسی اور ملک کی عدالت ہے جس م ؁ن پاکستانی فوج کی کردار کشی کی جارہی ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے الفا ظ کا نوٹس لیں۔کسی طرح بھی عقل و دانش جناب جسٹس صاحب کے الفاظ کی غرض و غایت تسلیم کرنے سے عاری ہے۔جناب جسٹس صاحب فرماتے ہیں کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے فیض آباد انٹرچینج پر دھرنے کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت میں مظاہرین کی جانب سے اسلحہ کے استعمال، آنسو گیس کے شیل اورگیس فائر کرنے والی گنز کے حوالے سے اسلام آباد انتظامیہ اور انٹیلی جنس بیورو سے رپورٹ طلب کر لی ہے۔ عدالت نے حکومت اور مظاہرین کے درمیان طے پانے والے معاہدے میں فوج کے ثالثی کے کردار پروفاق سے جواب طلب کرتے ہوئے مشیر وزیر اعظم بیرسٹر ظفراللہ کی سربراہی میں کمیٹی بنا کر ختم نبوت کی شقوں میں ردو بدل کے ذمہ داروں کے خلاف انکوائری مکمل کرکے دس دن میں رپورٹ عدالت میں جمع کرانے کا حکم دیا ہے۔ عدالت نے انٹیلی جنس بیورو سے استفسار کیا ہے کہ بتائیں دھرنے والوں کے پاس اسلحہ کہاں سے پہنچا اور پولیس جب فیض آباد خالی کرانے کے قریب تھی تو دھرنا مظاہرین کی مدد کس نے کی ہے۔ عدالت نے حکومت اور مظاہرین کے درمیان معاہدے میں فوج کی ثالثی پر حیرت اور دھرنا مظاہرین کو سپریم کورٹ کے ججز کے خلاف گالیاں دینے پر معاہدے میں معافی کی شق شامل نہ کرنے پر سخت برہمی کا اظہار کیا اور ریمارکس دئیے ہیں کہ فوج نے قانون توڑنے اور قانون نافذ کرنیوالوں میں معاہدہ کرایا، حمزہ کیمپ کی جگہ یہاں جی ایچ کیو ہوتا تو کیا یہاں دھرنا ہوتا؟ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ دھرنے کے پیچھے یہ لوگ ہیں، کیا آئین کے تحت آرمی چیف ’ایگزیکٹو‘ سے الگ ہیں؟ آئین کے مطابق ایگزیکٹوز کا حکم ماننے کی بجائے فوج ثالث کیسے بن سکتی ہے؟ فوج کا میجر جنرل کیسے ثالث بنا؟ سازش کے تحت اسلام آباد پولیس اور انتظامیہ کو ناکام بنایا گیا، کب تک قوم کے ساتھ یہ تماشا چلتا رہے گا؟ اب تک کیا گیا نقصان ریاست کیوں برداشت کرے؟ ردالفساد اور ضرب عضب کہاں گئے؟ انوشہ رحمن کو بچانے کے لئے زاہد حامد کو قربانی کا بکرا بنایا جا رہا ہے، ختم نبوت کی شقوں میں ترمیم کا ڈرافٹ کس نے تیار کیا؟ یہ تاثر دیا گیا کہ ہرمرض کی دوا فوج ہے، اگر بیرونی جارحیت ہوئی تو فوج کے لئے اپنا خون بھی دیں گے، 1965 کی جنگ میں ہم نے جھولی پھیلا کر افواج کے لئے چندے جمع کئے، اب بھی ملک کو کوئی خطرہ ہوا تو افواج پاکستان کے شانہ بشانہ ہوں گے لیکن فوج کا یہ کردار ہمیں قبول نہیں ہے، فوج اپنا کردار آئینی حدود میں ادا کرے، جن فوجیوں کو سیاست کا شوق ہے وہ ریاست کی بندوق واپس کر کے ریٹائرمنٹ کے بعد سیاست میں آئیں، جانتا ہوں ان باتوں کے بعد میری زندگی کی بھی اب کوئی ضمانت نہیں رہی ہے میں ماردیا جاوں گا یاپھر لاپتہ کردیا جاوں گا۔، عدلیہ میں اب جسٹس (ر) منیر کے پیروکار نہیں رہے، ایجنسیوں نے دھرنے کے ذریعے وفاقی دارالخلافہ کو بند کرنے کی تیسری کوشش کی ہے۔ عدالت نے اٹارنی جنرل کو معاونت کے لئے طلب کر لیا ہے جبکہ انٹیلی جنس بیورو سے فوج کے اعلیٰ افسر کی ثاقب نامی شخص کو دھرنے کے بارے میں فوج کا نکتہ نظر بیان کرنے کی وائرل ہونیوالی ویڈیو بارے رپورٹ بھی مانگ لی ہے۔ عدالت نے حکومت کو مسلح افواج کے آئینی اور بطور ثالث کردار کے حوالے سے عدالت کو مطمئن کرنے کا حکم دیتے ہوئے ہدایت جاری کی ہے کہ حکومت اور اسلام آباد انتظامیہ دھرنا مظاہرین کو پریڈ گراونڈ منتقل کریں اور ناکامی کی صورت میں انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997کی دفعہ 4 اور 5 کے تحت فوج کو بلایا جائے۔ عدالت نے وفاقی وزیر داخلہ کی حاضری سے متعلق استفسار کیا جس پر ڈپٹی اٹارنی جنرل نے بتایا کہ وزیر داخلہ رات بھر جاگتے رہے اس لئے عدالت میں پیش نہیں ہو سکے ہیں۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ان سے استفسار کیا کہ وزیر داخلہ رات بھر جاگ کر کیا کرتے رہے ہیں؟ بعد ازاں عدالت نے وزیر داخلہ کو طلب کرتے ہوئے سماعت کچھ دیر کے لئے ملتوی کر دی۔ دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو وزیر داخلہ احسن اقبال نے عدالت کو بتایا کہ حکومت اور مظاہرین کے درمیان معاہدہ ہو گیا ہے۔ عدالت کے استفسار پر انہوں نے بتایا کہ معاہدے کی نقل پاس نہیں ہے۔ اس پر چیف کمشنر اسلام آباد نے بتایا کہ ان کے پاس معاہدے کی نقل موبائل فون میں موجود ہے۔ عدالتی حکم پر چیف کمشنر نے معاہدہ پڑھ کر سنایا اور بتایا کہ معاہدہ طے پاگیاہے، ہائیکورٹ کے حکم پر عمل ہو جائے گا۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ عدالت نے معاہدے کا نہیں فیض آباد کو مظاہرین سے خالی کرانے کا حکم دیا تھا۔ وزیر داخلہ احسن اقبال نے کہاکہ پریس کانفرنس ہونے والی ہے، دھرنا ختم اور ملک بھر میں مظاہرے ختم ہو جائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ مسلکی بنیادوں پر تقسیم کر کے مسلمانوں کے گھروں پر حملے کئے جا رہے تھے اور ملک میں فساد کھڑا کیا جا رہا تھا۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ آپ نے بے رحمی کے ساتھ اسلام آباد انتظامیہ کو ذلیل کروایا ہے ان کے پاس کوئی کور نہیں تھا۔ فاضل جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ معاہدے میں جنرل قمر باجوہ کا شکریہ ادا کیا گیا ہے۔ یہ تیسری کوشش ہے جو دارالحکومت میں ایجنسیوں کی طرف سے کرائی گئی ہے۔ آپریشن ردالفساد اور ضرب عضب کہاں گئے، یہاں کسی کو فساد نظر نہیں آیا؟ قوم کے ساتھ یہ تماشا کب تک چلتا رہے گا؟ اپنے ملک کے ادارے اپنی ریاست کے خلاف کام کر رہے ہیں۔ یہ کسی خادم حسین یا کسی تنظیم کا معاملہ نہیں پوری قوم و امت کا مسئلہ ہے۔ قانون شکنی کرنے والوں اور قانون نافذکرنیوالے اداروں کے درمیان فوج کیسے ثالث بن سکتی ہے؟ آپ لوگوں کو بتارہے ہیں کہ جوہری طاقت والے ملک کی سیکورٹی کا حال یہ ہے؟ آپ نے کوئی کام نہیں کیا صرف دھرنے والوں کے سامنے سرنڈر کیا ہے۔ حمزہ کیمپ کی جگہ یہاں جی ایچ کیو ہوتا تو کیا یہاں دھرنا ہوتا؟ احسن اقبال نے جواب دیا یہ تو مظاہرین ہی بتا سکتے ہیں میں کیسے بتا سکتا ہوں۔ جسٹس شوکت صدیقی نے کہا یہ خود اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کے پیچھے یہ لوگ ہیں۔ آرمی چیف کی آزادانہ کیا حیثیت ہوتی ہے؟ ایگزیکٹوز کا حکم ماننے کے بجائے وہ ثالث کیسے بن سکتے ہیں؟ دوران سماعت آئی ایس آئی کے سیکٹر کمانڈر بریگیڈئر عرفان شہید رامے نے کہا کہ دھرنوں کے پیچھے ایجنسیوں کا کوئی کردار نہیں۔ صورتحال کو کنٹرول کرنے کے دو ہی راستے تھے، پر امن طریقے سے حل کیا جاتا یا پرتشدد طریقے سے۔ عدالت نے حکم دیا تو پر امن راستے کا انتخاب کیا، عدالت نے گولی چلانے کا حکم نہیں دیا اس لئے پہلے وارننگ دینی تھی اور بات نہ ماننے پر فورس استعمال کرنی تھی۔ عدالت نے کہا کہ فوج کا خلاف آئین کردار قابل قبول نہیں کہ قانون توڑنے اور قانون نافذ کرانے والوں کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرے، فوج ہمارا فخر ہے، فوج میں ہمارے باپ بیٹے اور بھائی شامل ہیں، فوج کو اپنا کردار آئینی حدود میں ادا کرنا چاہئے۔ اب عدلیہ میں جسٹس منیر کے پیروکار نہیں رہے، آرمی اپنے آئینی کردار میں رہے۔ اپنے ملک کے ادارے اپنی ریاست کے خلاف کام کر رہے ہیں۔ فاضل جسٹس نے استفسار کیا کہ بتائیں یہ میجر جنرل صاحب کون ہیں اور انہوں نے کس حیثیت میں دستخط کئے؟ اس بات پر تو ان کا کورٹ مارشل ہونا چاہئے، آپ نے انہیں ثالث بنا دیا ہے۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے آئی بی کے جوائنٹ ڈائریکٹر جنرل کو مخاطب کر کے کہا کہ آئی بی میں بھی سب ٹھیک نہیں چل رہا، آپ بھی آئی ایس آئی سے لڑائی لگا کر بیٹھے ہوئے ہیں۔
نا اہل حکومت جو چاہتی تھی وہی ہوا اور تحریک لبیک یارسولﷺ کے دھرنے پر بدترین تشدد کرکے پاک فوج کو پھر آنے کی دعوت دی گئی لیکن پاک فوج کے سربراہ جناب قمر جاوید باجوہ نے صاف صاف فرمادیا کہ فوج اپنے لوگوں پر گولی نہیں چلائے گی۔ اور ختم نبوتﷺ کے قانون میں ترمیم کرنے والے ذمہ داروں کا تعین کرکے اُن کو سزا دی جائے اور ٹی وی چینلز کھولے جائیں۔ یوں نااہل حکومت نے ملک کو آگ میں جھونک کر قوم کو اور فوج کو لڑوانے کے لیے اپنی پوری کوشش کی لیکن سپہ سالار فوج نے حکومت کی تمام تر چالاکیوں کا توڑ کر لیا ۔جس انداز میں ختم نبوت ﷺ کے قانون پر شب خون مارا گیا اور نواز حکومت نے جس ڈھٹائی کے ساتھ اپنے موقف پر میں نہ مانوں والی رٹ لگائی رکھی اِس کے بعد یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوچکی ہے کہ نواز کے حواریوں نے اپنی دُنیا بھی خراب کرلی ہے اور آخرت بھی۔جس طرح معصوم لہو بہایا گیا اور اپنے ایک وزیر کی قربانی نہ دی وزیر بھی وہ جو مشرف کا بھی وزیر قانون تھا۔ اِس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ نواز حکومت نے پر امن اہلسنت کو ہمیشہ کے لیے ناراض کر لیا ہے۔ اب نواز لیگ بھول جائے کہ وہ اہلسنت جو اِس ملک کی کثیر آبادی ہے سے ووٹ لے سکے گئی۔ لبیک یارسول اللہ ﷺ کے نعرے میں وہ قوت ہے وہ روحانی سرشاری ہے کہ جس کو یہ نام نہاد دو ٹکے کے سیاستدان نہ سمجھ پائے اور نہ ہی سمجھ پائیں گے کیونکہ ان کے نزدیک آقا کریم ﷺ کی محبت کی بجائے ایک وزیر زیادہ مقدم ہے۔ قدرت کا اِس سے بڑا انتقام اور کیا ہوگا کہ نا اہل وزیر داخلہ احسن اب کہہ رہا ہے کہ آپریش میری نگرانی میں نہیں ہوا یہ تو عدالت کے حکم پر اسلام آباد کی انتظامیہ نے کیا ہے میں تو آپریشن کے حق میں ہی نہیں تھا۔ ساری باتیں ایک طرف اِب صورتحال یہ ہوچکی ہے کہ ن لیگ کے وزراء اور ارکین اسمبلی کے گھروں پر عوام الناس حملے کر رہی ہے۔ کتنا بڑا قدرت کا انتقام ہے کہ چند سال پہلے تک کے مقبول ترین لیڈروں کو اپنی جان کے لالے پڑ گئے ہیں۔ احسن اقبال اور رنا ثنا ا للہ اِن لوگوں نے شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری کو ثبوت دیا ہے اور عوام کی عشق رسول ﷺ کی طاقت کا غلط اندازہ لگایا ۔ نبی پاکﷺ کی ختم نبوت کے ساتھ جس طرح کی دُشمنی ن لیگ نے روا رکھی ہے اِس کا حشر نشر ہو گیا ہے۔عوام پاک فوج کے ساتھ ہیں اور ملک میں امن قائم کریں جتنا احتجاج ریکارڈ ہوچکا ہے اب کسی کا باپ خواہ وہ امریکہ ہے یا بھارت ہے یا کوئی اور وہ ختم نبوت کے قانون کو تبدیل کروانے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ اللہ پاک پاکستانیوں کے عشق رسولﷺ کے جذبوں کو سلامت رکھے۔جناب جسٹس شوکت صدیقی خود محاز آرئی چاہتے ہیں۔ اللہ پاک کرم فرمائے۔آمین 

No comments:

Post a Comment