Monday, 28 August 2017

قانون کی حاکمیت اور اشرافیہ...BY صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی


قانون کی حاکمیت اور اشرافیہصاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی

پاکستان ایک ترقی پذیر اور وڈیروں جاگیرداروں سرمایہ داروں کے چُنگل میں پھنسا ہوا ملک ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان کو بنانے میں اور پاکستان کا خواب دیکھنے میں ایک عظیم وکیل کا کردار نظر آتا ہے۔ انگریزوں سے آزادی ہندووں سے آزادی اِن دونوں سے آزادی حاصل کرناجوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔ لیکن پاکستان نے اللہ پاک کے کرم سے بننا تھا سو وہ بن گیا۔ لیکن حکمران اشرافیہ نے سات دہاہیوں سے ملک کے سماجی، سیاسی، معاشی معاملات کو بہتری کی طرف لے جانے کی بجائے ڈوبویا ہی ہے۔ حکمران اشرافیہ نے ہر ہر اُس طبقے کو بدنام کیا جو آنے والے وقت میں اُس کے سامنے کھڑا ہونے کی ہمت کر سکتا تھا۔ مزدوروں کے لہو اور پسینے سے جس سرمایہ دار کاکارخانہ چلتا ہے ۔ اُن سرمایہ داروں نے مزدوروں کی طاقت کو منتشر کرنے کے لیے ایک ہی ادارئے ایک ہی فیکٹری میں کئی کئی یونینز بنوائیں پھر اُن کو خریدا اور اُن کا امیج معاشرئے میں بُری طرح خراب کروایا تاکہ ایک تو مزدور طبقہ اپنے حق کے لیے جب کھڑا ہو اُس وقت اُن کے مقاصد کو شک کی نگاہ سے دیکھا جائے تاک مزدور اپنے ہی ساتھی پربداعتمادی کا شکار ہوجائیں۔دوسری طرف مزدور لیڈروں کو لالچ دے کر مزدوروں کے مفادات کے خلاف ہی اُن کو آپس میں لڑوا کر معاشرئے میں اُن کے لیے نفرت کے پہاڑ کھڑئے کر دئیے۔ یوں اب پاکستانی معاشرے میں مزدور لیڈروں کی کوئی کریڈیبیلٹی نہیں ہے۔ لوگ اِن کو دھوکے باز مفاد پرست گردانتے ہیں۔ ایسا اِس لیے ہے کہ اشرافیہ نے اِن کی جڑوں کو کھوکھلا کر دیا ہے۔ اِسی طرح معاشرئے میں وکلاء نہایت عزت و تکریم کے حامل سمجھے جاتے تھے۔ لیکن چند کالی بھیڑوں کے ضمیر خرید کر حکمران اشرافیہ نے وکلاء رہنماؤں کے کردار کو معاشرئے کے لیے یکسر بُرا بنا دیا ہے۔ حکمران اشرافیہ نے وکالت جیسے عظم پیشے کو اپنے لیے زبردست خطرہ سمجھتے ہوئے اِس کی انسانی آزادیوں کی جدجہد کو ایسی زک پہنچائی ہے کہ وکلاء کی حالیہ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کے ساتھ ہونے والی معاذآرائی میں میڈیا اور عوام نے وکلاء کے خلاف بہت کچھ کہا۔ حتی کہ اخبارات میں خصوصی مضامین وکلاء کے خلاف لکھے گئے۔ راقم نے خود دیکھا کہ ٹی وی پر ایک کورٹ رپورٹر صاحب تبصرہ فرما رہے تھے کہ وکلاء تو اِس میں شامل ہی نہیں ہیں۔ جو لوگ احتجاج کر رہے ہیں یہ نان پریکٹسنگ لائرز ہیں یا پھر وہ لائرز ہیں جنہوں نے بارز کے الیکشن لڑنا ہیں اِس لیے وہ احتجاج میں نمایا ں ہیں گویا اِس وقت وکلاء کی جانب سے کیے جانے والے کسی بھی احتجاج کو احتجاج کی وجہ سے نہیں پرکھا جا رہا ۔ یہ نہیں کہاجارہا کہ احتجاج کس مقصد کے لیے ہے میڈیا میں کہا جا رہا ہے کہ جناب احتجاج کرنے والے وکلاء درست لوگ نہیں ہیں۔یوں جن لوگوں نے معاشرئے میں آگے بڑھ کر عوام کے حقوق کے لیے آواز اُٹھاتے تھے جن کا فرمایا ہوا معتبر ہوتا تھا۔ جو حکمران اشرافیہ کی نیندیںیں اُڑا دیتے تھے۔ اُن کے متعلق اُن کے نشان کالے کوٹ کے متعلق طرح طرح کی باتیں پھیلا کر اور معاشرئے میں اُن کے امیج کو متاثر کردیا ہے گو وکلاء رہنماؤں میں کالی بھیڑیں بھی ہوتیں ہیں لیکن اِن کو کالی بھیڑوں کو رُغبت دلا کر اُن کے مُنہ کو ناجائز کمائی لگا اُن کو معاشرئے کے لیے ناقبل قبول بنا دیا گیا ہے یوں من حیث القوم ہم ذہنی دیوالہ پن کا شکار ہوتے چلے جارہے ہیں۔ اِن حالات میں حق کی بات کرنے والے وکیل رہنماء کو بھی شک کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔اشرافیہ نے یہاں تک ہی بس نہیں کیا بلکہ وکلا اور ججوں کی آپس میں ہم آہنگی کو اِس طرح بگاڑا ہے کہ ایسا محسوس ہوتاہے کہ جج اور وکیل ایک ہی گاڑی کے دوپہیے نہیں ہیں بلکہ یہ ایک دوسرئے کے لیے شودر کے درجے پر فائز کروادئیے گئے ہیں۔ اب صورتحال یہ بن چکی ہے کہ وکلاء اور ججز کے درمیان لڑئی جھگڑا معمول بن چکا ہے۔حالانکہ جج بننے سے پہلے وہی شخص وکیل ہوتا ہے لیکن جج بننے کے بعد وکلاء اور ججز ایک دوسرئے کو نیچا دیکھانے کے لیے کوشش جاری رکھتے ہیں۔معاشرئے کی رہنمائی کرنے والے اِس جانباز طبقے کی عزت معاشرئے میں جس طرح خاک میں ملا دی گئی ہے یہ پاکستان جیسے ملک کی بدنصیبی ہے کہ ہر ظلم کے خلاف آواز اُٹھانے والا طبقہ عوام کی نظر میں اپنا بھرم کھو بیٹھا ہے۔ چندغلط لوگوں کی لالچ کی وجہ سے اُن کی جانب سے خود کو حکمران اشرافیہ کے پے رول پر فائز کیے جانے پر یقینی طور پر قانون کی حاکمیت کو سخت نقصان پہنچا ہے۔

Thursday, 24 August 2017

امریکی صدر کی تصوراتی اور حقیقت پسندی کی حامل ہرزہ سرائی...............By صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ ہائی کورٹ







امریکی صدر کی تصوراتی اور 

حقیقت پسندی کی حامل ہرزہ سرائی
صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ ہائی کورٹ

امریکی صدر کی جانب سے یہ کہنا کہ اُنھوں نے اقتدار میں آنے سے پہلے تصوراتی باتیں افغان پالیسی کے حوالے سے کی تھیں اور حقائق مختلف ہیں اُن کی یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ موصوف کس قدر ذہنی پستی کے حامل ہیں ۔ مودی کے ساتھ دوستی کی وجہ سے اب جناب ٹرمپ پر حقیقت آشکار ہوئی ہے کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کو دھوکہ دے رہا ہے۔ جناب ٹرمپ کو انتہائی ترقی یافتہ ترین ٹیکنالوجی کے ساتھ بیس دہشت گرد تنظیموں کا اگر پتہ نہیں چلا سکا تو اُن کی عقل پر ماتم کے جاسکتا ہے کہ وہ ڈو مور کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ پاکستانی فوج دُنیا کی بہترین افوج میں سے ہے۔ پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ پاکستان اور چین کے درمیان جو سی پیک کے منصوبہ جات زیر تکمیل ہیں اُس کی وجہ سے مودی ٹرمپ دوستی فطرتی طور پر ہے۔ لیکن پاکستانی عوام اور پاک فوج مودی ٹرمپ کو یہ بات بتا دینے چاہتے ہیں کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بہت زیادہ قربانیاں دی ہیں۔ پاکستانی وزیر خارجہ کو اِس حوالے سے ماریکہ کو کھری کھری سُنا نے کی ضرورت ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان پر دہشتگردوں کو پناہ دینے کاالزام عائد کرتے ہوئے آ ئندہ کیلئے پاکستان سے ایک بار پھر ڈومور کا مطالبہ کیا اور کہاکہ پاکستان میں دہشتگردوں کی محفوظ پناہ گاہیں موجود ہیں اوراسلام آباد کو دہشتگردوں کے محفوظ ٹھکانوں کیخلاف کارروائیاں کرنا ہوں گی، ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ 20 غیر ملکی دہشت گرد تنظیمیں پاکستان اور افغانستان میں کام کر رہی ہیں۔پاکستانی عوام نے دہشتگردی اورانتہاپسندی کو بہت زیادہ سہاہے اور امریکا سے شراکت داری پاکستان کیلئے بہت سود مند ثابت ہوگی لیکن اگر وہ مسلسل دہشت گردوں کا ساتھ دے گا تو اس کیلئے مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں،پاکستان کو اربوں ڈالر دیتے ہیں مگر وہ دہشت گردوں کو پناہ دیتا ہے،امریکا اب پاکستان میں دہشت گردوں کی قائم پناہ گاہوں کے معاملے پر مزید خاموش نہیں رہ سکتا، دہشتگردوں کو پناہ دینے والوں پر اقتصادی پابندیاں لگائیں گے،ہماری قوم کو فوجیوں کی قربانیوں کا صلہ چاہئے، عراق سے تیز انخلا کا نتیجہ داعش کے تیزی سے پروان چڑھنے کی صورت میں نکلا،عراق کی طرح انخلا کرنے کی غلطی افغانستان میں نہیں دہرائی جائے گی۔فورٹ میئر آرلنگٹن میں تقریر میں صدر ٹرمپ نے پاکستان، افغانستان اوربھارت بارے میں اپنی انتظامیہ کی پالیسی کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے معاملے میں امریکا کے اہداف بالکل واضح ہیں اور وہ چاہتا ہے کہ اس خطے میں دہشت گردوں اور ان کی پناہ گاہوں کا صفایا ہو۔امریکی قوم سے اپنے خطاب میں ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان، پاکستان اور جنوبی ایشیا کے حوالے سے نئی امریکی پالیسی کا اعلان کیا۔اپنے خطاب میں امریکی صدر نے کہا ہم پاکستان میں موجود دہشت گرد تنظیموں کی محفوظ پناہ گاہوں پر خاموش نہیں رہیں گے۔امداد میں کمی کی دھمکی دیتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ نے کہاکہ ہم پاکستان کو اربوں ڈالر ادا کرتے ہیں مگر پھر بھی پاکستان نے انہی دہشت گردوں کو پناہ دے رکھی ہے جن کے خلاف ہماری جنگ جاری ہے۔ پاکستان کے اس رویے کو تبدیل ہونا چاہئے اور بہت جلد تبدیل ہونا چاہئے۔دوسری جانب جنوبی ایشیا میں اہم اتحادی بھارت سے متعلق ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا امریکا افغانستان میں استحکام کیلئے بھارتی کردار کو سراہتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ بھارت امریکا کے ساتھ تجارت سے اربوں ڈالر حاصل کرتا ہے اور وہ چاہتے
ہیں کہ بھارت افغانستان کی اقتصادی معاونت اور ترقی کیلئے مزید کام کرے۔ٹرمپ نے کہنا تھا نائن الیون کوکوئی فراموش نہیں کرسکتا،11 ستمبر حملہ کی منصوبہ بندی افغانستان میں ہوئی، تیزی سے انخلا کی صورت میں ممکنہ نتائج سے واقف ہیں،افغانستان کوہرممکنہ زاویے سے دیکھااورکابینہ سے ملاقات کرکے اسٹریٹجی تیارکی،انہوں نے کہا کہ عہدہ سنبھالنے کے بعدافغانستان اورجنوبی ایشیاکی حکمت عملی پرغورکیا، فوجی اہلکارباہمی اعتمادکیساتھ خودکوبھلاکرملک کی خدمت کرتے ہیں اور فوج کے تمام اہلکارایک خاندان کاحصہ ہیں جوامریکی خاندان ہے،امریکی صدر نے کہاکہ امریکی افواج نے ملک کیلئے بے پناہ قربانیاں دیں،امریکا میں نفرت کیلئے کوئی جگہ نہیں،افغان جنگ 17سال پر محیط ہے،افغانستان سے امریکی فوج کاانخلا میری خواہش ہے،امریکی فوجی وہ سمجھتے ہیں جوبحیثیت قوم ہم نہیں سمجھتے۔افغانستان میں 16 سال سے جاری جنگ کو وقت اور پیسے کا ضیاع قرار دینے کے اپنے سابقہ بیان کو مسترد کرتے ہوئے امریکی صدر نے کہا اوول آفس کی ڈیسک کے پیچھے سے صورتحال مختلف دکھائی دیتی ہے۔ انہوں نے کہاکہ افغانستان سے امریکی فوج کے تیزی سے انخلا کی صورت میں ایک خلا پیدا ہوگا جسے دہشت گرد فور طور پر بھر دیں گے۔ ڈونلڈ ٹرمپ افغانستان میں تعینات کیے جانے والے امریکی فوجیوں کی کل تعداد سے متعلق خاموش رہے تاہم وائٹ ہاس کے سینئر حکام کے مطابق امریکی صدر اپنے سیکریٹری دفاع کو افغانستان میں مزید 3900 فوجیوں کی تعیناتی کا اختیار دے چکے ہیں۔اپنے خطاب میں امریکی صدر نے خبردار کیا کہ ان کا نقطہ نظر اب تصوراتی سے زیادہ حقیقت پسندانہ ہوگا۔انہوں نے کہا کہ افغانستان کو دی جانے والی امریکی فوجی امداد بلینک چیک نہیں،ہم قوم کی دوبارہ تعمیر نہیں کررہے، ہم دہشت گردوں کا صفایا کررہے ہیں۔ عہدہ صدارت سنبھالنے کے بعد پہلی مرتبہ امریکی صدر نے طالبان سے سیاسی ڈیل کا اشارہ بھی دیا۔ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہمارے فوجی کوششوں کے بعد ممکن ہے کہ ایسا سیاسی تصفیہ ہوجائے جس میں افغانستان میں موجود طالبان عناصر بھی شریک ہوں۔ تاہم کوئی نہیں جانتا کہ ایسا کب ہوگا لیکن امریکا طالبان کا سامنا کرنے کیلئے افغان حکومت اور فوج کی حمایت جاری رکھے گا۔
امریکہ بھارت گٹھ جوڑ در حقیقت پاکستان کی بڑھتی ہوئی معاشی قوت سے خائف ہونے کی وجہ سے ہے۔ پاکستانی عوام پاک فوج کے شانہ بشانہ کھڑئے ہیں پاکستان زندہ آباد

Wednesday, 23 August 2017

شہری حقوق کے حوالے سے امتیازی سلوک کی بابت لاہور ہائی کورٹ کااہم فیصلہ سی ایل سی 2016 ۔ 408 صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ ہائی کورٹ




شہری حقوق کے حوالے سے امتیازی سلوک کی بابت لاہور ہائی کورٹ کااہم فیصلہ

سی ایل سی 2016 ۔ 408

صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ ہائی کورٹ 

لاہور ہائی کورٹ سی ایل سی 2016 صفحہ نمبر 408 کے مطابق رٹ پٹیشن نمبر2410/2014 کے پٹیشنرز میں سے ایک پٹیشنر سید علی مہدی قزلباش نے1985 میں ایل ڈی اے لاہور کو درخواست دی کہ وہ 180 کنال کے مالک ہیں اور اُنھیں مار رُخ ہاوسنگ سکیم کے نام سے ایک ہاوسنگ سکیم کی منظور دی جائے۔ سید علی مہدی قزلباش کو ہاوسنگ سکیم کی اجازت دے دی گئی اور اُنھوں نے اپنی درخواست کی سکروٹنی کے لیے 15200 فیس ایل ڈی اے کو جمع کروادی۔ درخواست دہنگان نے مزید 899کنال اور دس مرلے زمین خرید ی تاکہ ہاوسنگ سکیم کے لیے خاطر خواہ زمین ہو اور اُنھوں نے ساتھ ایل ڈی اے کو اپروچ کیا کہ وہ ہاوسنگ سکیم کا نام ممتاز ہاوسنگ سکیم کردے اتھارٹی نے نام تبدیل کر دیا لیکن ابھی ہاوسنگ سکیم کی منظوری کو التوا میں رکھا۔ اسی اثنا میں ایل ڈی ائے نے لاہور کی ایکسٹینشن کے لیے مولہنوال کے مقام پر 16000 کنال پر مشتمل ایک ہاوسنگ سکیم کے لیے زمین ایکوائر کرنے کا پروگرام بنایاِ س ایل ڈی اے کی سکیم میں درخواستگزاروں کی ماہ رخ ہاوسنگ سکیم بھی شامل کر دی گئی۔ پٹیشنرز نے رٹ نمبر 13404/1994 کے تحت ایل ڈی اے کے اِس اقدام کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا۔ایل ڈی اے کی سکیم جو کہ سولہ ہزار کنال پر مشتمل تھی کا نو ٹیفکیشن خود ہی ختم ہوگیا کیونکہ اُس کی مدت ایک سال تھی یوں وہ 3-8-1994 کو میعاد ختم ہونے کی بناء پر خود ختم ہوگیا۔ 16-10-1995 کو چونکہ نوٹیفکیشن سولہ ہزار کنال والی ایل ڈی اے سکیم کا ختم ہوچکا تھا بعدازاں ڈائریکٹر جنرل ایل ڈی ائے نے ایل ڈ ای اے کے چےئرمین کو ایک سمری بھیجی کہ چونکہ مذکوہ مارخ ہاوسنگ سکیم کے تمام تر قانونی معاملات درست قرار پائے جا چکے ہیں اِس لیے ایل ڈی اے کی سولہ ہزار کنال والی لاہور ایکسٹینشن سکیم میں سے مارخ ہاوسنگ سکیم کی زمین کو نکال دیا جائے۔ لیکن ڈائریکٹر جنرل ایل ڈی اے کی اِس تجویز پر کوئی عمل نہ ہوسکا۔ اِس پر پٹیشنرز نے ایک رٹ نمبر12750/1990 لاہور ہائی کورٹ میں کی جس میں یہ استدعا کی گئی کہ نوٹیفکیشن مورخہ20-04-1994 میں سے پٹیشنرز کی زمین کو نکالا جائے۔ 9-10-1996 کو ڈسٹرکٹ کلٹر لاہور نے ایک نوٹیفکیشن سیکشن کے تحت دو ایکٹر زمین ورکزرز ویلفےئر بورڈ کی لیبر کالونی بنانے کے لے کیا ۔ پٹیشنرز کی زمین بھی اِس نوٹیفکیشن کی زد میں آرہی تھی۔ پٹیشنرز نے رٹ نمبر 20394/1996 لاہور ہائی کورٹ میں دائر کی ۔ پٹیشنرز کی جانب سے دائر کردہ تما م رٹ پٹیشنز کو فائنل سماعت کے لیے5-06-1997 کو رکھا گیا۔ اِس پٹیشن کو ڈس پوز آف کر دیا گیا ۔ اِس کے بعد 9-7-1997 کو درخواست دہندگان نے اتھارٹی کو درخواست دی کہ ممتاز ہاوسنگ سکیم کے کیس کو فائنل کردیا جائے۔ لیکن درخواست گزار کی درخواست کو بورڈ نے کوئی پزیرائی نہ دی بلکہ 6-12-1997 کو بورڈنے ایک نوٹیفکیشن سیکشن چھ اور 4 ۔ 1894 کے ایکٹ کے تحت جاری کردیا۔ اِس کے علاوہ ڈپٹی کمشنر نے زمین مالکان کو زمین دینے کی بجائے اُن کو زمین کا معاوضہ دینے کا حکم صادر فرما دیا جو لیبر کالونی کے لیے حکومت نے لی تھی۔ چونکہ پٹیشنرز کی جانب سے پرائیوٹ ہاوسنگ سکیم شروع کرنے کے لیے جو این او سی پٹشنرز نے مانگا تھا نہیں دیا گیا اِس لیے پٹیشنرز نے ایک رٹ نمبر812/1998 اِس ستدعا کے ساتھ ہائی کورٹ میں دائر کی کہ ورکرز بورڈ اور ایل ڈی اے کو اُن کی زمین اپنی اسکیموں میں ڈالنے سے روکا جائے۔ابھی جب کہ یہ والی رٹ زیر التوا ہی تھی کہ اے ڈی اے نے ایک اور اسکیم جس کا نام جوبلی ٹاون فیز ٹو تھا
شروع کرنے کا اعلان کردیا۔ اِس اسکیم کے لیے زمین حاصل کرنے کے لیے سیکشن چار کے تحت لیند کلکٹر نے27-02-1998 کو نوٹیفکیشن جاری کردیا۔ پٹیشنرز کی زمین کو پھر نئی اعلان کردہ زمین میں شامل کر لیا گیا۔ پٹیشنرز کی جانب سے ایک رٹ پٹیشن نمبر 812/1998 دائر کی گی جس میں دیگر معاملا ت کا بھی ذکر تھا۔اِس میں 12750/1996 نمبر کی رٹ بھی شامل کر لی گئی۔فائنل سماعت کے لیے 16-11-1999 کی تاریخ مقرر کی گئی۔ اِسکا آئی سی اے میں فیصلہ ہوا۔ اِسے 18-11-1997 کو ڈس پوز آف کر دیا گیا۔اِس میں اتھارٹی کو حکم دیا گیا کہ No.146/1996 ICA میں 18-111997 کو جو فیصلہ کیا گیا ہے ۔اُس کی روشنی میں ایل ڈی اے اتھارٹی دو ماہ کے اندر اندر پرائیوٹ ہاوسنگ اسکیم کی بابت جو درخواست زیر التوا ہے اُس کافیصلہ کر دیا جائے۔ عدالت کے حکم کے بعد پٹیشنرز نے ایک خط مورخہ 7-02-2001 کو اتھارٹی کو لکھا جس میں اسکیم کا تبدیل شُدہ پلان پیش کیا گیا۔ لیکن اتھارٹی نے اِس تبدیل شُدہ منصوبے کو مسترد کر دیا یہ کہ آپ کا یہ پلان اتھارٹی کے زیر غورپلان جوبلی ٹاون فیز 2 سے متصادم ہے۔ تاہم پٹیشنرز نے بعد ازاں کا فی مرتبہ اتھارٹی کے دفتر کے چکر لگائے اور کہا کہ اُن کے زمین کو ایکوائر کی جانے والی زمین میں سے نکالا جائے۔ تاہم اتھارٹی نے کوئی مثبت جواب نہ دیا۔ بعد ازاں آخری کو شش کے طور پر پٹیشنرز نے ایک رٹ دائر کی کہ 16-11-1999 کے فیصلے جو کہ رٹ نمبر12750/1996 میں کیا گیا تھا اور ICA-No.146/1996 کا فیصلہ جو کہ بعد میں اپیکس کورٹ سے کنفرم ہوا جس کا آرڈر کریمنل رٹ پٹیشن نمبر 194-l/2000 تا 199-L/2000 پہ تھا پر عمل درآمد کروایا جائے۔ رٹ میں مزید یہ بھی استدعا بھی کی گئی کہ نہ صرف کاسٹ ڈالی جائے بلکہ پٹیشنرز کے حق میں پرائیوٹ ہاوسنگ اسکیم بنانے کی منظوری کی بھی کروائی جائے۔ ابھی اِس رٹ پر فیصلہ نہ ہوا تھا کہ ایل ڈی اے اتھارٹی کے کلکٹر نے سیکشن چار کے تحت کہ ایل ڈی ائے ایونیو1- ہاوسنگ اسکیم کے لیے زمین ایکوائر کرنے کے لیے ایک نوٹیفکیشن جاری کردیا ۔پٹیشنرز نے ایک درخواست CM No.1/2003 اِس آرڈر کو روکنے کیے دائر کردی جو زمین ایکوائر کرنے کے لیے کلکٹر ایل ڈی اے نے جاری کیا تھا اور اِس کے ساتھ ہی یپٹیشنرز نے ایک درخواست CM No.86/2003 دائر کردی جس میں جمع شدہ دو درخواستیں جو مورخہ 22-01-2003 کو دی تھیں کہ اُن کی استدعا میں
ترمیم کی جائے۔ اِس کے علاوہ دو مزید درخواستیں عدالت میں جمع کروائی گئیں کہ نوٹفکیشن میں سے اُن کی زمین کے خسر ہ نمبروں کو نکالا جائے۔ عدالت میں جمع کروائی گےء اِن درخواستوں کے مندرجہ ذیل نمبرCM NOo.605/2003, CM No. 824/2003 تھے۔ اِن درخواستوں کو جو پٹیشنرز نے دائر کیں اتھارٹی نے بھی ایک درخواست نمبر825/2003 دائر کردی کہ یہ درخواستیں عمل درآمد کے قبل نہ رہی ہیں۔ بعد ازاں پٹیشنرز نے ایک اور درخواست نمبر CM No. 118/2003 دائر کی کہ اُن کی زمین کو اتھارٹی کے نوٹفکیشن نمبر 4 اور 6 اور(174)4) )کے تحت والے نوٹفکیشن سے حذف کیا جائے۔بعد ازاں نے اتھارٹی نے ایک درخواست نمبرCM.No. 1/2012 دائر کی کہ پٹیشنرز کی درخواست قابلِ سماعت نہ ہے۔ پٹیشنرز نے ایک اور درخواست نمبر CM No.2/2014 ایوارڈ کا اعلان نہ کیا جائے۔آخر میں پٹیشنرز نے ایک درخواست نمبر CM. No.3/2014 عدالت میں دی کہ زمین مقدمہ کا قبضہ اُن کے حق میں بحال کے جائے۔درخواست گزارن نے اِس سے متعلقہ توہین عدالت کی درخواست جس کا تعلق مورخہ 20-10-2014 کے حکم سے تھا بھی عدالت میں دائر کردی۔ اِس طرح تمام معاملات یکجاء ہوگئے۔ اِس لیے اِن کا ایک ہی آرڈر کیا گیا ہے۔ اِس کیس میں پٹیشنرز نے اتھارٹی کو ایک پرائیوٹ ہاوسنگ اسکیم کی اجازت کے لیے رجوع کیا کہ وہ اُسے این او سی جاری کرئے لیکن ایل ڈی اے اتھارٹی نے اپنی ہاوسنگ سوسائٹی بنانے کے لیے اُس میں شامل کر لیا ۔ اور پٹیشنرز کو اجازت نہ دی ۔پٹیشنرز نے اپنی زمیں کو اتھارٹی کے ہاوسنگ اسکیم سے نکالنے کے لیے عدالت سے رجوع کیا تو فیصلہ اتھارٹی کے خلاف ہوا۔ حکمِ امتناعی کے دوران اتھارٹی نے پٹیشنرز کی زمین کو ایکوائر کروالیا اتھارٹی نے سیکشن چار آف ایکسیشن ایکٹ آف لینڈ کے تحت مزید کوئی قدم نہ اُٹھایا۔ حتی کے اِس بابت کیے جانے والے نوٹفکیشن کی مدت جو ایک سال کے لیے تھی ختم ہوگئی یوں یہ نوٹفیکشن خود بخود ختم ہوگیا۔ ۔ عدالت عالیہ نے اِس کیس کا جوفیصلہ کیا وہ قار ئین کی دلچسپی کے لیے ذیل میں بیان کیا جارہا ہے۔
1۔ اتھارٹی پر یہ لازم تھا کہ وہ ایک سال کے اندر اندراِس بابت فیصلہ کرتی کہ وہ پٹیشنرز کی زمین ایکوائر کرنے میں دلچپی رکھتی ہے یا نہیں۔
-2 اتھارٹی کو یہ خیال آنا کہ وہ وہ خود ہاوسنگ اسکیم بنا نا چاہتی ہے اور اِس بناء پر پٹیشنرز کی درخواست کو مسترد کیا جانا کوئی وجہ نہ ہے۔ 
-3 اتھارٹی کو معلوم تھا کہ حکم امتناعی ہوا ہوا ہے اُس نے سٹے کو ختم کروانے کے لیے متعلقہ عدالت سے یا ہائر فورم سے رجوع نہ کیا اور نہ ہی سپریم کورٹ میں سیکشن چار آف لینڈ ایکوزیشن ایکٹ کی بابت کوئی درخواست دی۔ 
-4 اتھارٹی کی جانب سے حکم امتناعی کی خلاف ورزی کرنا غیر قانونی اورمطلق قانونی کی روح کے خلاف ہے۔ یعنی ایب انشےؤ ہے۔ یعنی اُس کا وجود میںآنا ہی غلط ہے۔
5 -اتھارٹی پابند تھی ہ وہ پٹیشنرز کی این او سی حا صل کرنے کے درخواست کا وجوہات کے ساتھ قانون کیمطابق فیصلہ کرتی۔
-6 یہ درست ہے کہ حکومت عوامی مفاد عامہ کے لیے زمین ایکوائر کرسکتی ہے لیکن بغیر قانونی تقاضے پورے کیے اُس کے حقیقی مالک کو زمین کے قانونی استعمال سے مالک کو اپنے خواہشات کے مطابق استعمال کرنے سے کیسے روک نہیں سکتی ہے۔
-7 اتھارٹی کی جانب سے بدنیتی کی گئی جبکہ ہائی کورٹ نے اتھارٹی کے نوٹفکیشن کو معطل کر دیا تھا۔ اِس کے باوجود اتھارٹی نے زمین پر قبضہ کر لیا اور اُس پر ڈھانچہ بھی کھڑا کیا۔ 
-8 ایکوائرنگ ایجنسی ہاوسنگ زمین کے لیے زمین حاصل کر سکتی ہے اگر وہ منظور ہوچکی ہوتی لیکن ڈویلپمنٹ ورک کے حوالے سے اتھارٹی نے کچھ بھی نہ کیا۔ 
9 ایسا کرنے کیاجازت نہیں دی جاسکتی کہ ایسا کرنے کی اجازت دی جائے جس کی بابت عدالت پہلے ہی حکم امتناعی دے چکی ہو۔ اور مقدمہ میں وہ زمین سبجیکٹ میڑ کا درجہ رکھتی ہو۔ 
10 - اپنی آئینی حدود سے باہر نکل کر حکومتی اداروں کی جانب سے اختیارات کا استعمال کرنا غلط تصور ہوگا۔
11 - ہائی کورٹ قرار دے چکی ہے کہ اتھارٹی کی جانب سے نوٹفکیشن سیکشن چار آف لینڈ ایکوزیشن ایکٹ 1894 سے لے کر قبضہ لینے تک غیر قانونی ہے جبکہ اِس کے پاس پہلے ہی قبضہ تھا اِس لیے اُسے اب نئے سرئے سے پراسیس شروع کرنا ہوگا۔ اگر اتھارٹی ایسا کرتی ہے تو وہ نوٹفکیشن کے جاری ہونے سے مقررہ مدت کے اندر اندر طریقہ کار پر عمل کرئے گی۔ 
12 ۔ ہائی کورٹ نے چھ لاکھ روپے جرمانہ ادا کرنے کا حکم دیا تاکہ جو اتھارٹی کی جانب سے پٹیشنرز کی زمین پر تعمیر تھی اُسے ہٹایا جاسکے۔ اِس آئنی پٹیشن کو ڈسپوز آف کر دیا گیا۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لاہور ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ جسٹس شجاعت علی خان کا ہے۔ اِس کواُردو آسان فہم میں ڈھالنے کے لیے بردارم جناب اعجاز چغتائی ایڈووکیٹ ہائی کورٹ اور بردارم محمد احسان الحق رندھاوا ایڈووکیٹ ہائی کورٹ نے رہنمائی فرمائی جس کے لیے راقم اُن کا تہہ دل سے شُکر گزار ہے۔ 

Sunday, 20 August 2017

ناقص تفتیش اور ٹرائل کورٹ کی مجرمانہ غفلت کا نظام Written By صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی




ناقص تفتیش اور ٹرائل کورٹ کی مجرمانہ غفلت کا نظام

صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی

موجودہ سماجی ڈھانچہ کچھ اِس طرح سے شکل اختیار کرتا جارہا ہے کہ سچ اور جھوٹ میں تمیز کرنا مشکل بنا دیا گیا ہے۔انصاف کے ایوانوں میں انصاف بکتا ہے۔ اِس حوالے سے بہت سی تو ضحیات پیش کی جاتی ہیں۔ نظام عدل کے اسٹیک ہولڈرز میں سائلین، تفتیشی افسران، وکلاء اور ججز حضرات شامل ہیں۔اِن چاروں اسٹیک ہولڈرز میں سے جس اسٹیک ہولڈر کی محنت سے مقدمہ سچائی کے ساتھ اپنے انجام کو پہنچتا ہے وہ اِس مقدمے کے تفتیشی افسران ہیں۔ اِس مین کوئی شک نہیں کہ عدالتوں پر تفتیشی افسران کے بنانے ہونے نتائج پر یقین کرنا ضروری نہیں ہے۔ لیکن عدالت کوئی انویسٹی گیشن ایجنسی نہیں ہے۔ اِس کے پاس تفتیش کرنا اور جرم ہونے کے شواہد اکھٹا کرنا اور سچ کی تہہ تک پہنچنے کے کھوج لگانے کے لیے کوئی ایسا ادارہ نہیں ہے جس سے وہ مدد لے سکے بلکہ وہ ادارہ تو پولیس کا ہی ہے جس نے عدالت کو حقائق تک پہنچنے کے لیے شواہد اکھٹا کرکے دینا ہوتے ہیں۔لیکن جس طرح کا ہمارا سماجی ڈھانچہ ہے اِس معاشرئے میں پولیس دونوں پارٹیوں سے پیسے بٹورتی ہے۔ بلکہ پولیس تو سفید کو سیاہ اور سیاہ کو سفید بنا کر پیش کردیتی ہے۔پولیس بے چاری کا قصور اتنا نہیں ہے جتنا ہمارے سماجی ڈھانچے کا ہے کہ سیاسی لیڈران، با اثر افراد، وڈیرئے جاگیر دار پولیس کے تفتیشی نظام پر اثرانداز ہوتے ہیں ،۔ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کیس خراب ہوجاتا ہے۔لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اِس نظام کو کون ٹھیک کرئے گا۔سپریم کورٹ نے پولیس کے تفتیشی طریقہ کار پر اظہار تشویش کرتے ہوئے آبزرویشن دی ہے کہ تفتیشی افسروں کی کوئی ٹریننگ نہیں کی جاتی۔ ا س دوران ریمارکس دیتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہاکہ ناقص تفتیش پر تفتیشی افسر کو سزا کے بغیر یہ نظام ٹھیک نہیں ہو سکتا۔ اگرپولیس نے تفتیش درست انداز میں نہیں کرنی تو محکمہ پولیس کو ختم کر دیں۔ جسٹس قاضی فائزنے سوال اٹھایا کہ کیا پولیس کا فرض صرف دونوں جانب سے پیسے بٹورنا ہے؟ قومی خزانے کے پیسے خرچ کرکے پولیس اہلکاروں کو وی آئی پی ڈیوٹی پر کیوں لگایا جاتا ہے۔ جسٹس قاضی فائزکا کہنا تھا کہ اتنے اخراجات کے باوجود پولیس کا نظام تباہ ہو چکا ہے، پولیس افسران کو تفتیش کی تربیت ہی نہیں دی جاتی،سپریم کورٹ نے قتل کے مقدمات نمٹاتے ہوئے ایک ملزم کو بری، 2کی سزاؤں میں کمی جبکہ دو ملزموں کی بریت کیخلاف درخواستیں خارج کردی ہیں جبکہ تین دیگر ملزموں کی بریت
کیخلاف ایک درخواست سماعت کیلئے منظور کرلی گئی ہے۔ پہلے مقدمہ میں عدالت عظمی نے قتل کے ملزم خضر حیات کی سزاعمر قید کم کرکے گیارہ سال کر دی۔ملزم خضر حیات اور اسکے بھائی عمرحیات پر2007 میں سرگودھا کے علاقہ کوٹ مومن میں اپنی بہن امیر بی بی کو قتل کرنے کا الزام تھا۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ قتل کے مقدمات میں درست تفتیش نہ ہونے کے حوالے سے کوئی بندوبست کرنا ہو گا۔گواہ حلف اٹھا کر جھوٹ بولتے ہیں، جھوٹے گواہوں کی وجہ سے ملزموں کا بری ہونا اللہ کا عذاب ہے۔ سچ میں بڑی طاقت ہو تی ہے، اس دوران جسٹس دوست محمد خان نے مذاقاً کہا کہ جھوٹ میں بھی بڑی طاقت ہے اس کی وجہ سے کیس سپریم کورٹ تک پہنچ جاتے ہیں۔ دوسرے مقدمے میں عدالت عظمی نے گیارہ سال سے پاپند سلاسل ملزم فریاد حسین کو بری کردیا۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہاکہ مقدمہ میں بنائے گئے گواہ سوفیصد جھوٹے ہیں،دفعہ194 کہتی ہے جو جھوٹی گواہی دے اسے عمر قید کی سزا دے جائے جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ اس مقدمہ میں ہائیکورٹ خود کہتی ہے کہ سچ چھپایا گیا جب سچ نہیں بولا گیا تو ہائیکورٹ کو ملزم کو بری کر دینا چاہیے تھالیکن ہائیکورٹ میں بری کرنے کا حوصلہ نہیں تھا۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہاکہ آخر کب تک اسطرح ہم سنتے رہیں گے کہ گواہ جھوٹے ہیں۔تیسرے مقدمہ میں عدالت نے سرگودھا میں مالٹے توڑنے کے تنازعہ میں کلیم اللہ نامی شخص کو قتل کرنے والے ملزم شبریز عرف صالحی کی عمر قید میں کمی کرکے 13سال قید کردی اور ایک لاکھ روپے جرمانہ برقرار رکھا ہے۔ عدالت کا کہنا تھا کہ سیشن جج نے جرمانہ ادا نہ کرنے پر دو سال قید کی مزید سزابھی متعلقہ قانون پڑھے بغیر سنادی اس قانون کے مطابق زیادہ سے زیادہ سزا چھ ماہ ہوتی ہے اور ہائیکورٹ نے بھی اس پر اسی طرح مہر لگادی جج کوسزا دینے سے پہلے مذکورہ شق تو پڑھ لینی چاہیے تھی۔ سپریم کورٹ کی حالیہ آبزرویشن کا جس کا ذکر ابھی کیا گیا ہے اِس کے مطابق تفتیشی نظام کے ساتھ ساتھ گواہوں کی جانب سے جھوٹا حلف اُٹھانا، ماتحت عدلیہ اور حتی کہ ہائیکورٹ کے ججز کی جانب سے بغیر قانونی شق پڑھے فیصلہ کرنا۔ اِس افسوسناک صورتحال میں فرض تو علیہ کابنتا ہے کہ وہ نظام تفتیش اور نظام عدل کے تمام محرکات کو سامنے رکے اور اِس کے اصلاح کے لیے عملی طور پر کچھ کرئے۔جھوٹی گواہی یا ناقص تفتیش یا پھر ایڈیشنل سیشن جج یا پھر ہائی کورٹ کی کوتاہی سے کوئی اگر بے گناہ پھانسی چڑھ جاتا ہے تو اِس کا کیا حل ہے ۔ اگر سپریم کورٹ میں بھی اُس کی شنوائی نہ ہو تو پھر کیا بنے یعنی پھانسی صرف۔ اِس نظام تفتیش اور نظام عدل کو مخلصانہ کوششیں کرکے درست کیا جائے۔سپریم کورٹ اِس کو براہ راست دیکھے۔ 

Tuesday, 8 August 2017

نظریاتی مملکتِ پاکستان محمد علی جناح ؒ کا احسان ........................صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ ہائی کورٹ






نظریاتی مملکتِ پاکستان محمد علی جناح ؒ کا احسان

صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ ہائی کورٹ

پاکستان کے قیام کے بعد جو کچھ کشمیریوں کے ساتھ کیا جارہا ہے اور جس طرح اُنھیں صرف مسلمان ہونے کی بناء پر ظلم وستم کا نشانہ بنیا جارہا ہے اِس سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ حضرت قائد اعظم ؒ نے کتنی کٹھن محنت سے اِس ملک کو حاصل کیا ہوگا۔ پاکستان کے قیام سے لے کر ابتک پاکستان کی بھارت کے ساتھ جتنی بھی جنگیں ہوئی ہیں۔سب کی وجہ کشمیر ہے۔ اِن حالات میں بھارت کیس اتھ تجارت کرنا اور بھارت کے ساتھ سرحدیں ختم کرنے کی باتیں کرنا دراصل کشمیریوں کے لہو سے غداری ہے ۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف کی نا اہلی کے بعد ایک منظم مہم پاک فوج کے خلاف چلائی جارہی ہے۔کشمیر کشمییروں کا ہے اور کشمیرویوں کو حقِ خود ارادیت ملنا چاہیے۔ لیکن نام نہاد لبرل فاشسٹ پاک فوج کے خلاف ہرزہ سرائی سے باز رہیں۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی کی بنیاد ہی کشمیر پر ہے۔ کشمیری اوسطاً پچھلے ستر سالوں سے روزانہ چار لوگوں کی لاشیں اُٹھارہے ہیں۔ اِس لیے پاکستانی قوم کے ساتھ یہ بہت بڑا ظلم ہے کہ پاکستانی فوج کے خلاف مہم جوئی کی جاری ہے۔ نواز شریف کی نااہلی کی وجہ سے پاک فوج کے خلاف جو ایک طوفان بدتمیزی اُٹھا رکھا ہے۔ مسلم لیگ ن پاکستان کی ایک بہت بڑی جماعت ہے اُس کے کارکنوں کو یقینی طور پر سپریم کورٹ سے اپنے قائد کی نااہلی کے فیصلے پر تحفظات ہیں ۔ لیکن نواز شریف کی نا اہلی کے ایشو پر پاک فوج کے خلاف مہن چلانات مودی کا ایجنڈا تو ہوسکتا ہے کسی محب وطن پاکستانی کا نہیں ہوسکتا۔دُنیا کے امن کی راہ میں حائل بہت سے عوامل کے ساتھ ساتھ کشمیر ی عوام کی غلامی بھی ہے۔ کشمیریوں کو بھارتی درندوں نے زبردستی ظلم اور غلامی کا طوق پہنا رکھا ہے۔ یوں کشمیر میں انسانی حقوق کی جس طرح سے پامالی ہو رہی ہے اور کشمیری عوام جس طرح گاجر اور مولیوں کی طرح کٹ رہے ہیں یہ سب کچھ موجودہ انسانی حقوق کے علمبردار ممالک کے لیے بہت بڑا چیلنج ہے۔انسان کا بنیادی حق آزادی ہے ۔ سوچ اور فکر کی آزادی تو بہت بڑی نعمت ہے لیکن سب سے گھمبیر معاملہ یہ ہے کہ کشمیر ی مسلمان جسمانی طور پر بھی غلام ہیں کو ئی دن نہیں جاتاجب کشمیر میں خون کی ہولی نہ کھیلی جاتی ہو انسانی آزادیوں کی پامالی کے حوالے سے کشمیر لہو لہو ہے۔ڈوگرہ راج سے لے کر موجودہ بھارتی تسلط کی آزادی کے حوالے تک بین الاقوامی میڈیا و بین الاقوامی عدالتِ انصاف کا ٹریک ریکارڈ ماتم کدہ بن چُکا ہے۔ انسانی عقل و شعور کسی صورت بھی یہ تصور نہیں کر سکتا کہ موجودہ حالات کے تناظر میں اِس حد تک شرمناک سلوک انسانوں کے ساتھ کیا جاسکتا ہے۔ پاکستانی معاشرئے پہ کشمیر میں ہونے والی کشمیریوں کی نسل کُشی کا بہت ہی گہرا اثر ہے۔پاکستانی عوام کے دل کشمیریوں کے ساتھ ظلم وستم پہ نوحہ کناں ہے۔عالمی ضمیر کی بے حسی کا عالم یہ ہے کہ کشمیر کا معاملہ اقوام متحدہ میں بے حس و حرکت پڑا ہے اور ابھی تک کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی۔ بیسویں صدی کے آخری عشروں میں روس سپر پاور تھا لیکن اُس کی تمام تر ہمدردیاں بھارت کے ساتھ تھیں۔اِسی طرح موجودہ ادوار میں انکل سام امریکہ بہادر سُپر پاور ہے لیکن امریکہ کا بھی جُھکاؤ بھارت کی جانب ہے۔کشمیری عوام کی نفسیات پر جو گہرئے اثرات بھارتی ظلم و ستم کی بناء پر مرتب ہورہے ہیں۔ اِس بناء پر کشمیریوں کی معاشی سماجی عمرانی حالات غیر موافق ہیں۔ جنوبی ایشاء کا امن اِس وقت داؤ پہ لگا ہوا ہے۔ پاکستان اور بھارت دونوں ایٹمی طاقتیں ہیں۔ یوں ایٹمی طاقتیں ہونے کی بناء پر پورئے جنوبی اشیاء کا امن داؤ پر لگا ہوا ہے۔نریندر مودی نے جب سے حکومت سنبھالی ہے ۔پاکستانی سرحدوں پر آگ اور خون کا کھیل کھیلا جارہا ہے اور نریندر مودی نے جس طرح حالیہ دنوں میں پاکستانی علاقوں میں اتنا گولہ بارود پھینکا ہے کہ ہماری فوج کے جوان شہری آبادی حتی ٰ کے جانور بھی ہلاک کیے گئے انسانی چشم نے یہ تماشا بھی دیکھا کہ فلیگ میٹنگ کے لیے بلائے گئے پاک فوج کے جوانوں کو سینے پہ گولی مار دی گئی۔ یوں سفارتی دُنیا کے معاملات کے حوالے سے بھارت نے اپنے ماتھے پر کلنک کا ٹیکا خود لگا دیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی وادیِ لہو رنگ نے عزم و ایثار کی وہ داستانیں رقم کی ہیں کہ انسانی تارئیخ اِس کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے۔ کشمیری عوام جس طرح کے مسلسل کرب میں سے گزرئے ہیں اور ہنوز اِس کا سلسلہ جاری ہے۔تصور میں یہ بات لائی جائے کہ جس معاشرئے میں امن نام کی کوئی چیز نہ ہو۔ ایسا معاشرہ جہاں پر جابر حکومت ہو ایسی سر زمین جو اپنے ہی باسیوں کے خون سے رنگین ہو۔ جہاں کے شہریوں کو ریاستی جبر و ظلم کا سامنا کرنا پرئے۔ گویا ریاست کے ساتھ عوام کی جنگ ہو رہی ہے اور ریاست نے سات لاکھ فوجی کشمیریوں پر ظلم و ستم ڈھانے کے لیے وادی میں اُتار رکھے۔ اِن حالات میں وادی کی صنعت وحرفت تباہ برباد ہو چُکی ہے۔معیشت کا گہرا تعلق امن و امان سے ہے۔ وادیِ کشمیر میں امن نام کی کوئی شے نہیں ہے۔غور کرنے کا مقام ہے اُس قوم کے بچوں کی نفسیات رہن سہن کیا ہوگا جہاں اُن کے سامنے اُن کی ماؤں کی عصمت دری کی جارہی ہو جہاں اُن کے باپ اُن کے سامنے قتل کیے جارہے ہوں۔ جہاں آئے روز نوجوان کشمیریوں کو نامعلوم مقامات پر اغوا کرکے رکھا جارہا ہو۔ ایسے حالات میں کشمیر ی باشندوں کی نفسیاتی عمرانی حالت خطرناک حد تک خراب ہے۔ نہرو کی جانب سے جب اقوام متحدہ میں جاکر یہ یقین دہانی کر ائی گئی کہ کشمیریوں کو حقِ استصواب رائے دیا جائیگاجب یہ قرارداد پیش کی گئی ۔اُس وقت یقین دہانی یہ ہی کروائی گئی تھی کہ کشمیری اگر چاہیے تو پاکستان کے ساتھ الحاق کرلیں اور اگر چاہیں تو بھارت کے ساتھ ہی رہیں ۔لیکن بھارت اپنی ہی پیش کی گئی قرارداد سے پھر چکا ہے ۔کشمیری مجاہدین جن میں جناب شبیر شاہ ، سید گیلانی،میرو اعظ عمر فاروق، یاسین و دیگر قائدین بھارتی ظلم وستم کے خلاف عَلم بلند کیے ہوئے ہیں۔ برہان وانی کی شہادت نے کشمیر کی جدو جہد کو نیا آہنگ دیا ہے۔کشمیر نے دُنیا کے تمام ممالک میں اپنے لیے توجہ تو حاصل کی ہے لیکن عملی طور پر امریکہ بہادر نے کچھ نہیں کیا بلکہ حالیہ بھارتی دورہ کرنے سے پہلے امریکی صدر اوباما نے کہا ہے کہ بھارت حقیقی معنوں میں ہمارا گلوبل پارٹنر ہے۔امریکہ جو کہ طاقت کے نشے میں دُھت ہے وہ صرف اپنے مفادات دیکھتا ہے اُس کے لیے کشمیریوں کی زندگی اور موت کی کوئی اہمیت نہیں۔ جس طرح کی انسانی آزادیوں کی بات امریکہ کرتا ہے وہ صرف زبانی کلامی ہیں عملی طور پر تو وہ کسی بھی مسلمان ملک کو سکون میں نہیں دیکھنا نہیں چاہتا۔امریکہ بہادر تو خطے میں چین کی معاشی ترقی کو روکنے کے لیے بھارت کا ہمنوا بن چکا ہے۔پاکستان کے اندر ہونے والی دہشتگردی کی کاروائیوں میں بھارت امریکہ اسرائیل تینوں ملوث ہیں۔ منصف بننے کا دعوئیدار امریکہ خود لُٹیرا ہے ۔ پاکستانی حکومت کو کشمیر کی آزادی کے لیے آواز اُتھانی چاہیے لیکن اِس آواز کو کون سنتا ہے۔چین نے یہ پالیسی بنا رکھی کہ اُس نے اپنی معیشت کو استحکام بخشنا ہے اور کسی کے ساتھ جنگ نہیں کرنی۔روس کے ساتھ سرد جنگ کے دنوں سے ہماری مخالفت ہے اور جس طرح امریکہ نے روس کو توڑنے کے لیے پاکستان اور اسلام کو استعمال کیا وہ سب کچھ روس کے سینے پہ ابھی تک مونگ دَل رہا ہے۔پاکستان کو عجیب و غریب حالات سے دو چار ہونا پڑتا ہے۔پاکستان کا اندرونی استحکام تو بین الاقوامی طاقتوں کے ہاتھ میں ہے۔ چین کے عالمی سپر پاور بننے کے عمل کی وجہ سے امریکہ بھارت یک جان دو قالب بنے بیٹھے ہیں۔ اِ ن حالات میں کشمیریوں کا پرسان حال کیا ہوگا۔ ہمیشہ سے سُنا کرتے تھے کہ جس کی لاٹھی اُسکی بھینس۔ لیکن جب قوموں کے متعلق تعلیم یافتہ اور مہذب ہونے کی سوچ پروان چڑھی تو شائد معصوم ذہنوں میں یہ بات کہیں اٹک کر ر ہ گی و ہ یہ کہ ترقی یافتہ اور تعلیم یافتہ ہونا مہذب ہونے کی نشانی ہے۔ نبی پاک ﷺ نے عرب کے وحشیوں کو جب مہذب بنایا اُن کی تربیت فرمائی تو یہ اُسی تربیت کا اثر تھا کہ پوری دنیا کی مسلمانوں نے امامت فرمائی اور دنیا کو اچھی حکمرانی کے طور طریقے سکھائے۔ موجودہ دور میں حالات و واقعات نے یہ بات ثابت کردی ہے اور ایک بات شدت کے ساتھ محسوس کی جارہی ہے کہ امریکہ انٹرنیشنل قوانین کی پامالی کررہا ہے۔ امریکہ جو کہ ہر معاملے میں خود کو گھسیٹتا ہے اور خود کو کو کوئی اوتار سمجھے ہوئے ہے۔ اُسے دُنیا میں موجود مسلم عوام ایک آنکھ نہیں بھاتی ۔ اقوام متحدہ اور امریکہ کا موجودہ کردار کسی طور بھی انڑنیشنل قوانین کے تحت نہیں ہے۔ اقوام متحدہ صرف دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کا فیریضہ انجام دئے رہا ہے اور اِسکا اولین کام امریکہ کی تابعدارای اور فرما 
برداری ہے۔ تقریباً دنیا کے تمام ملکوں میں امریکہ کا اثر روسوخ ہے یہ اثرورسوخ پہلے معاشی اور بعد میں پھر سیاسی بن جاتا ہے۔ اگر نرم سے نرم الفاظ میں بات کی جائے تو بھی امریکہ اِس وقت پوری دُنیا کا دُشمن بنا بیٹھا ہے اور اِس کی سامراجیت کو لگام دینا والا اِسکا کوئی بھی ہم پلہ ملک نہیں ہے۔روس کی شکست وریخت کے بعد تو امریکہ کو کھلی چُھٹی ملی ہوئی ہے۔ عراق میں لاکھوں انسانون کا قتل عام اور ا فغانی عوام کے خون سے ہولی امریکی دہشت گردی کا مُنہ بولتا ثبوت ہیں۔شام ،مصر ، ترکی کے اندر مداخلت پاکستان میں ڈرون حملے، کیا یہ سب کچھ کسی قانون قاعدے یا اخلاقی پہلو کو پیشِ نظر رکھ کر کیا جارہاہے۔امریکہ اس وقت سب سے بڑا دہشت گرد ہے اور وہ بین الا قوامی قوانین کی دھیجیاں اُڑا رہا ہے۔ قم کے خیال میں امریکہ اِس وقت دنیا میں دہشت کا نشان بن چکا ہے۔ بھارتی حکومت نے جس طرح ممبئی حملے خود کروائے اور اُس کی ذمہ داری پاکستان پر ڈال کر پورے دُنیا میں پاکستان کو خوب بدنام کیایہ سب کچھ امریکہ کی آشیر باد سے کیا گیا وہ تو امریکی انٹیلی جنس آفیسر نے بھارتی عدالت میں حلف نامے کے ساتھ یہ بیان جمع کروایا کہ یہ سب کچھ بھارت نے خود کیا تھا۔یہ ہے بھارت اور امریکہ کا گٹھ جوڑ ۔کشمیرکی وادی میں مسلمانوں کا قتل عام امریکہ اقوام متحدہ کی بے حسی کا شاخسانہ ہے۔اگر ہم اِس بات کا مشاہدہ کرتے ہیں کہ امریکی قانون شکنی کا سارا زور کس پر ہے تو صرف اور صرف وہ مسلم دُنیا ہے۔اِس حوالے سے مسلم حکمرانوں کو اپنے اپنے ملکوں میں جمہوری اندازِ حکمرانی اپنانا ہوگا تاکہ اُن کی عوام جو سوچتی ہے اور جو چاہتی ہے اُس کی آواز مسلم حکمرانوں کے کانوں تک پہنچے اور وہ اپنے عوام کی ترجمانی کا فریضہ انجام دے سکیں۔کیونکہ جس طرح سے امریکہ نے عراق کے سابق صدر صدام حسین کو اپنی دوستی کے چنگُل میں پھانسا اور پھر عراق کی جانب سے ایران کے اوپر چڑھائی کروائی اور ایران کو کمزور کیا بعد میں اِسی صدام کو پھانسی پہ لٹکایا اور دنیا بھر کے میڈیا پہ لائیو دیکھایا۔پھر عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور بارہ لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کا قتلِ عام کیا۔ امریکہ بہادر کے سامنے کلمہ حق کہنا تو ایک طرف مسلم حکمران تو اِس کے سامنے کھڑے نہیں ہوسکتے۔ مسلم دنیا کو اپنے عوام کو خوشحال کرنا ہو گا اور پھر جب مسلم دنیا خود اپنی عوام کی آشیر باد سے اس قابل ہوں کہ وہ اقوام متحدہ اور امریکہ کو یہ احساس دلائیں کہ انٹرنیشنل قوانین پر عمل درآمد کس طرح ہوتا ہے اگر چہ مسلم دنیا کے حکمرانوں کا راہ راست پر آنا مستقبل قریب میں دیکھائی نہیں دیتا لیکن اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہے۔ امریکی عوام مہذب ہیں لیکن اگر وہ اتنی مہذب،ترقی یافتہ اور تعلیم یافتہ ہیں تو پھر ان کی عقل و دانش ان کو اس امر کی طرف راغب کیوں نہیں کرتی کہ امریکہ بھی عالمی قوانین کااحترام کرئے امریکی عوام کو اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ پوری دنیا میں امریکہ صرف اِس لیے نفرت کا نشان ہے کہ امریکہ نے خود کو ہر طرح کے قانون سے بالا تر سمجھ رکھا ہے۔ ایران کے خلاف معاشی پابندیاں اور اسرائیل کو کھلی چُھٹی بین الاقوامی قوانین کے ساتھ کھلا مذاق ہے۔ امریکہ کی اتنی ٹانگیں نہیں ہیں کہ وہ ہر معاملے میں اپنے ٹانگ اڑا رہا ہے اِس کا انجام روس کی طرح ہی ہوگا کہ یہ آخر کار اپنی ٹانگیں تڑوا بیٹھے گا۔ امریکہ کی جگہ لینے کے لیے چین تیار بیٹھا ہے روس کو ختم کرنے کے لیے جس طرح پوری دُنیا کے مسلمانوں کو امریکہ نے جہاد کے نام پر اکھٹا کیا اور افغانستان کی جنگ میں جھونکا اور روس کو شکست دی اور خود واحد سپر بن گیا۔ القائدہ ،طالبان امریکہ کے لگا ئے ہوے پودے ہیں جو کانٹے بن چکے ہیں۔اقوام متحدہ ، بین الاقوامی عدالت ، انسانی حقوق کی تنظیموں کے ہونے کے باوجود امریکہ جانب سے پوری دنیا میں دہشت گردی اور پاکستان میں ڈرون کی شکل میں تباہی یہ وہ سوالیہ نشان ہیں کہ جو پوری دنیا کے سامنے امریکہ کا چہرہ بے نقاب کیے ہوئے ہیں کہ امریکہ اِس وقت سب سے بڑا قانون شکن ہے۔ا مریکہ کے ہوتے ہوئے کشمیر کی آزادی کیسے ممکن ہے۔ پوری مسلمان دنیا میں کوئی بھی ایسا ملک نہیں جو کہ کشمیریوں کے لیے آواز اُٹھائے۔ موجودہ حالات میں جب کہ پاکستان دہشت گردوں کی خلاف جنگ لر رہا ہے۔ امریکی عہدئے داروں کو مکمل ادراک ہے کہ
بھارت پاکستان میں دہشت گردی کی کاروائیاں کروا رہا ہے اور پینٹاگان اِس کے ساتھ ہے۔کشمیری کی وادی لہو رنگ وادی اِس وادی میں مسلمانوں کے خون سے سیراب ہونے کے لیے نہ جانے اتنا حوصلہ کیسے آچکا ہے ۔نام نہاد دانشور اپنے غیرملکی آقاوٗں کی خوشنودی کی خاطر پاکستان کے خلاف زبان درازی کرکے اور پاکستان کی تخلیق کو انگریز کی سازش گرداننادرحقیقت ابلیس کی پیروی کا فریضہ ادا کرنے کی سہی ہے۔حضرتِ قائدِاعطمؒ ، حضرتِ علامہ اقبالؒ ،مجدد د ین و ملت حضرتِ مولانا امام احمد رضاء خانؒ ،پیرجماعت علیشا ہ، حضرت مولانا فضل خیرحق آبادیؒ ، مولانا شبیر عثمانیؒ جیسے عاشقانِ توحید و سنت کے عظیم علمبرداروں کی مساعی جمیلہ سے کفرستانِ ہندوستان میں نبی پاکﷺ کے حکم سے بننے والی یہ پاک سرزمین جو 27 رمضان المبارک کی شب کی پرُ نور ساعتوں میں وجود میں آئی ہو اُسکی حفاظت تو رب پاک خود کرتا ہے۔اسلا میہ جمہوریہ پاکستان، ایک مخصوص نظرئے کی بنیاد پر معرض وجوڈ میں آیا تھا اور وہ نظریہ تھا، نظریہ پاکستان۔حضرت علامہ اقبال ؒ کی روحانی اور ایمانی الہامی شعری کا وشوں نے اپنا رنگ دکھایاور انہوں نے برصغیر کی غلامی میں پھنسی ہوئی مسلمان قوم کو احساس تفاخر ور خودی کی بیداری کا پیگام دے کر انہیں آزقدی کے اوج ثریا تک پہنچانے کیلئے اپنا خون جگر عطا کیا۔علم و عقل میں اگر تضاد اور تصادم رہے گا تو ظاہر ہے کہ اس بنی ہوع انسان میں انتشار اور تخریب کا باعث بنے گا، اور بالآخر قومی زوال کا پیش خیمہ۔ خدائے بزرگ و برتر نے اْن افراد کو یہ اعزاز عطا فرمادیا۔ جنھیں دائرہ اسلام نے اسلام میں داخل ہونے کا شرف نصیب ہوا، وہ افراد دنیائے انسانیت کے خوش قسمت ترین انسان ہیں جنہیں حضور اکرم ﷺ کے یک امتی ہونے کا شرف حاصل ہے۔ دین اسلام نے مسلمانوں کے قلوب و ارواح میں جس فلسفہ توحید کو موجزن اور مرتسم کیا ہے، اْس سے ان میں فکری وحدت، تہذیبی ہم آہنگی، دینی حریت ور نسانی سطح پر احساس تفاخر کی تخلیق ہوئی۔ جب قلوب و اذہان میں تصور توحید جلوہ گر نہ ہو انسان کی شخصیت میں وحدت پیدا نہیں ہو سکتی، ظاہر ہے کہ مسلمان ایک باری تعالیٰ جو وحدہ لاشریک ہے اس پر پختہ ایمان و ایقان رکھے گا، تو جب ہی اپنے ندر بھی وحدت پیدا کرے گا۔ اس تمام فلسفہ حیات کا منبع، ماخذ، روح، اساس، سرچشمہ اور بنیاد قرآن الحکیم ہے۔ اس نظریے کو قرآن کی تعلیمات اور حکام کے پیش نظر مجدد الف ثانی ؒ ، حضرت داتا گنج بخش ؒ اور دوسرے اولیائے کرام اور مجتہدین قابل صد احترام نے اسی نظرئے کو اپنے خون جگر سے سینچا اور روحانی کمالات سے اس عظیم عمارت کی بنیاد وں کو استحکام سے ہمکنار بھی فرمایا۔ انہی بابرکت اور روحانی شخصیات کی تعلیمات مقدسہ نے حضرت علامہ اقبال ؒ اور حضرت قائد اعظم ؒ کے افکار ملہ اور قومی نظریات، دینی، اسلامی، قومی امنگوں کا رنگ بھر دیا تھا۔ حضرت علامہ اقبال ؒ نے اسلامیان ہند کو پیغام خودی دیا۔ انہیں انتشار ونکبت سے جگایا او ایک قوم کی شکل میں متشکل کر دیا۔ حضر ت قا ئد اعظم ؒ نے اسلامیان ہند کو اپنی تقاریر، خطابات، اور علمی اور قانونی نظریات وارشادات کی روشنی میں انگریزوں اور ہندؤں کی استعمار پسند انہ اور تشدد آمیز رویوں سے آگاہ کرتے رہے اور انہیں اپنی اسلامی اقدار و رو ایا ت اور تاریخ کی روشنی میں تیار رہنے کی ہدایت کرتے رہے۔ حضرت قائداعظم ؒ نے اسلامیان ہند کے قلوب واذہان میں آزادی کی جو لو لگائی وہ الاؤ بن کر سامنے آئی اور پاکستان دنیائے انسانیت کے نقشے پر بڑی شان وشوکت کے ساتھ ظہور پزیر ہوا۔ قرآن حکیم نے استفسار فرمایا: خدا تعالیٰ نے تم سب کو تخلیق فرمایا‘ پھر تم میں سے ایک گروہ نے بلند و بالا اور عالمگیر انسانیت سے انکا کردیا‘ اور دوسرے گروہ نے اسے تسلیم کر لیا۔ ۔یعنی تم میں اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کے لیے کھلی عداو ت اور نفرت رہے گی۔چنانچہ تاریخ اسلام گواہ ہے کہ اسلامی ریاست وحکومت میں شامل نہ گیا۔ حضور پاک ﷺ کی مجلس شوریٰ میں کبھی کوئی غیر مسلم نہ تھا۔ خلفائے راشدین رضی اللہ علیم اجمعین کی مجلس شوریٰ اور پارلیمان میں کوئی غیر مسلم کا داخل نہ تھا۔ بلکہ کافر یا غیر مسلم، ملت اسلامیہ کا ف رد ہی نہیں تھا لہٰذا اسلام اور قرآن کے نزول کے ساتھ ہی بنی انسان دو مختلف نظریات اور حتمی طبقات میں تقسیم ہو گئے۔ ایک نظریہ ایمان نہ لانے والوں کا۔ چنانچہ اولاد آدم دو کیمپوں میں تقسیم ہو گئی شرار بو لہبی ایک جانب اور چراغ مصطفیٰ ﷺ دوسری جانب، اس نظریے نے خون اور حسب و نسب کی نفی نھی کردی۔ برادری، قبیلے اور ذات پات کو ملیا میٹ کر کے رکھ دیا۔ اس کی بہترین مثال جنگ بدر اور جنگ اْحد ہے جس میں نبی
الزماں حضور اکرم ﷺ دوسرے صحابہ کرام کے قریبی رشتہ دار دشمن کے صف میں براجماں تھے، چنانچہ قرآن نے کافروں اور منافقین کے ضمن میں ملت اسلامیہ کو بڑی سختی سے متبنہ کیا ہے۔ اسلامی نقطہ نظر سے نظر? پاکستان کا آغاز، تشکیل، اور تراویح برصغیر میں اس وقت ہوئی جب مسلمانوں کو انتشار و افتراق اور زوال و انھطاط کا سامنا کرنا پڑا اور ہندوں کی اصل فطرت کے شاہکار وں کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کے مظالم کا گھناونی سازشوں کا مقابلہ کرنا پڑا۔ ہمارے سابق مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے غدار سیاستدانوں نے ہماری تاریخ اسلام کو منسخ کر کے دیا۔ جو ایمانی اور ایقانی روح سے محروم تھے۔ جو قرآنی جرات و استقامت سے سرمایہ دارا نہ تھے۔ ہمارے جسم کا ایک بازو کٹ گیا چنانچہ اندرا گاندھی نے زور خطابت کے نشے میں یہ کہا ’’آج ہم نے دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے، ہم نے ایک ہزار سال کا بدلہ لے لیا ہے۔ لیکن ہم نے اندرا گاندھی اور ان کے مخلص چیلوں چانٹوں اور حواریوں اور ان کے حاشیہ برداروں کو اسی وقت باور کرارہے ہیں اور کراتے رہیں گے کہ جب تک ایک مسلمان بچہ بھی برصغیر پاک و ہند میں زندہ ہے اسلام اور کفر کی جنگ جاری رہے گی، اسلام کا جھنڈا موجود رہے گا۔ حضرت قائداعظم 1944ء ؁ میں مسلم یونیورسٹی (علی گڑھ) میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا ’’آپ نے غور فرمایا کہ پاکستان مطالبہ کا جذبہ محرکہ کیا تھا؟ مسلمانوں کے لیے ایک جداگانہ مملکت کی وجہ جواز کیا تھی۔ تقسیم ہند کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ اس کی وجہ نہ ہندوں کی تنگ نظری ہے۔ نہ انگریزوں کی چال، یہ اسلام کا بنیادی مطالبہ ہے۔ اور یہی دراصل مطالبہ نظریہ پاکستان کی ترجمانی کرتا ہے۔مسئلہ یہ ہے کہ تکلیف صرف اسلام سے ہے کیونکہ کسی غیر مسلم کے اسلام قبول کر لینے کے بعد جس طرح اس کے زمین و آسمان بدل جاتے ہیں وہ عجیب کیفیت ہے، اس کے خیالات و تصور ات اس کے جذبات و احساسات اور انسانیت کے جملہ تمام اطوار یکدم وحدہ لاشریک کی ذات اقدس سے جڑ جاتے ہیں اور پھر اس کا رخ کلکتہ اجودھیا دہلی اور بجنور سے مکہ اور مدینہ کی طرف ہو جاتا ہے اس روحانی اور دینی تبدیلی کی مسٹر گاندھی کو بھی سمجھ نہیں آئی تھی۔ ان سے پہلے ہو گزرے مہاپرشوں کو بھی سمجھ نہیں آئی تھی، ان مہا گرووں کو بھی سمجھ نہیں آئی تھی، اور نہ ہی آسکتی تھی اور اب یہ کیفیت کا فرما ہے مسٹر گاندھی عجیب مکاریت و فریب کاری کے انداز گفتگو میں کہا کرتے تھے کہ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ ایک سیدھا سادھا سا ہندو جب مسلمان ہو جاتا ہے تو دنگی، فسادی اور لڑاکا ہو جاتا ہے۔ دنگئی تو وہ ہو جائے گا جب اسے اپنے نظریے کی پاسبانی کرنا پڑے گی۔ دنگئی تو وہ ہو جائے گا، جب ناموس رسالت ﷺ پر خدانخواستہ حرف آئے گا۔ دنگئی تو لازمی ہو گا کہ جب وہ وحدہ لاشریک کی شان میں کوئی غیر قوم کا فرد گستاخی کا مرتکب ہوگا۔ قرآن پاک پر رکیک حملوں کا جواب تو پھر وہ پنی جان پر کھیل کر دے گا اور شہادت کے مقام اولیٰ کو مسکراتے ہوئے حاصل کرنا اسلامی فریضہ سمجھے گا۔ یہی وہ جذبہ اسلام ہے، یہی وہ قرآنی برکت ہے یہی وہ دو قومی نظریے کی بنیا د ہے۔ یہی دوقومی نظریہ اپنی روقحانی معنویت اور اسلامی قومی نظریات و تصور کی شکل میں برصغیر کے مسلمانوں کے لیے نظریہ پاکستان کی شکل میں نمودار ہوا۔ پاکستان کی تخلیق میں لاکھوں اسلامیان ہند نے شہادتوں کا خون عطا کیا لاکھوں مسلمان عورتوں اور بچون نے قربانیاں دیں، پاکستان کو انگریزوں اور ہندوں نے آسانی سے قبول نہیں کیا تھا۔ پاکستان انگریز نے طشتری میں رکھ کر پیش نہیں کیا تھا۔ تقسیم ہند نہ انگریزی بادشاہت کو پسند نہ تھی، نہ برطانوی پارلیمنٹ، نہ برطانوی حکومت ہند، نہ وائسرائے صاحبان، نہ انڈین نیشنل کانگریس، نہ مسٹر گاندھی، نہرو پٹیل اور راجگو پال اچاریہ وغیرہ، لارڈ مونٹ بیٹن جو آخری وائسرائے ہند تھا۔ اسے تقسیم ہند سے ویسے ہی چڑ تھی۔ جمیعت العلمائے ہند کی اکثریت مخالف چند اور اسلام پسند گروہ بھی قائداعظم ؒ پر رکیک حملوں سے باز نہ آرہے تھے۔ اکثر مسلمان اکابرین جو کانگریس کے متاثرین میں سے تھے یہ تقسیم پسند نہیں فرما رہے تھے جن میں مولانا ابوالکلام آزاد اور مولانا حسین احمد مدنی خاص طور پر شامل تھے۔ یہ حضرت قائد اعظم ؒ کی سیاسی صداقت اور ولولہ انگیز قیادت اور مومنانہ شان و شوکت کا اعجاز تھا کہ بڑے بڑے برج گرتے چلے گئے بڑے بڑے طوفان اپنی اپنی راہ لیتے رہے بڑے بڑے پہاڑ
چکنا چور ہو جاتے رہے۔ اور وہ سرحدیں قیام پزیر ہوئیں جنھوں نے معرکہ بدرو حنین کی یاد دتازہ کردی۔ یہ سرحدیں کچے دھاگے کی سرحدیں نہیں یہ اینٹوں گارے، سیمنٹ اور ماربل کی بنائی ہوئی دیوار نہیں ’’لاالہٰ الاللہ محمد الرسول اللہ‘‘ کے اسلامی اور قرآنی نظریے اور ایمان پر قائم کردہ دیواریں ہیں۔ جو قیامت تک قائم رہیں گی۔