امریکی صدر کی تصوراتی اور
حقیقت پسندی کی حامل ہرزہ سرائی
صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ ہائی کورٹ
امریکی صدر کی جانب سے یہ کہنا کہ اُنھوں نے اقتدار میں آنے سے پہلے تصوراتی باتیں افغان پالیسی کے حوالے سے کی تھیں اور حقائق مختلف ہیں اُن کی یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ موصوف کس قدر ذہنی پستی کے حامل ہیں ۔ مودی کے ساتھ دوستی کی وجہ سے اب جناب ٹرمپ پر حقیقت آشکار ہوئی ہے کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کو دھوکہ دے رہا ہے۔ جناب ٹرمپ کو انتہائی ترقی یافتہ ترین ٹیکنالوجی کے ساتھ بیس دہشت گرد تنظیموں کا اگر پتہ نہیں چلا سکا تو اُن کی عقل پر ماتم کے جاسکتا ہے کہ وہ ڈو مور کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ پاکستانی فوج دُنیا کی بہترین افوج میں سے ہے۔ پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ پاکستان اور چین کے درمیان جو سی پیک کے منصوبہ جات زیر تکمیل ہیں اُس کی وجہ سے مودی ٹرمپ دوستی فطرتی طور پر ہے۔ لیکن پاکستانی عوام اور پاک فوج مودی ٹرمپ کو یہ بات بتا دینے چاہتے ہیں کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بہت زیادہ قربانیاں دی ہیں۔ پاکستانی وزیر خارجہ کو اِس حوالے سے ماریکہ کو کھری کھری سُنا نے کی ضرورت ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان پر دہشتگردوں کو پناہ دینے کاالزام عائد کرتے ہوئے آ ئندہ کیلئے پاکستان سے ایک بار پھر ڈومور کا مطالبہ کیا اور کہاکہ پاکستان میں دہشتگردوں کی محفوظ پناہ گاہیں موجود ہیں اوراسلام آباد کو دہشتگردوں کے محفوظ ٹھکانوں کیخلاف کارروائیاں کرنا ہوں گی، ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ 20 غیر ملکی دہشت گرد تنظیمیں پاکستان اور افغانستان میں کام کر رہی ہیں۔پاکستانی عوام نے دہشتگردی اورانتہاپسندی کو بہت زیادہ سہاہے اور امریکا سے شراکت داری پاکستان کیلئے بہت سود مند ثابت ہوگی لیکن اگر وہ مسلسل دہشت گردوں کا ساتھ دے گا تو اس کیلئے مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں،پاکستان کو اربوں ڈالر دیتے ہیں مگر وہ دہشت گردوں کو پناہ دیتا ہے،امریکا اب پاکستان میں دہشت گردوں کی قائم پناہ گاہوں کے معاملے پر مزید خاموش نہیں رہ سکتا، دہشتگردوں کو پناہ دینے والوں پر اقتصادی پابندیاں لگائیں گے،ہماری قوم کو فوجیوں کی قربانیوں کا صلہ چاہئے، عراق سے تیز انخلا کا نتیجہ داعش کے تیزی سے پروان چڑھنے کی صورت میں نکلا،عراق کی طرح انخلا کرنے کی غلطی افغانستان میں نہیں دہرائی جائے گی۔فورٹ میئر آرلنگٹن میں تقریر میں صدر ٹرمپ نے پاکستان، افغانستان اوربھارت بارے میں اپنی انتظامیہ کی پالیسی کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے معاملے میں امریکا کے اہداف بالکل واضح ہیں اور وہ چاہتا ہے کہ اس خطے میں دہشت گردوں اور ان کی پناہ گاہوں کا صفایا ہو۔امریکی قوم سے اپنے خطاب میں ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان، پاکستان اور جنوبی ایشیا کے حوالے سے نئی امریکی پالیسی کا اعلان کیا۔اپنے خطاب میں امریکی صدر نے کہا ہم پاکستان میں موجود دہشت گرد تنظیموں کی محفوظ پناہ گاہوں پر خاموش نہیں رہیں گے۔امداد میں کمی کی دھمکی دیتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ نے کہاکہ ہم پاکستان کو اربوں ڈالر ادا کرتے ہیں مگر پھر بھی پاکستان نے انہی دہشت گردوں کو پناہ دے رکھی ہے جن کے خلاف ہماری جنگ جاری ہے۔ پاکستان کے اس رویے کو تبدیل ہونا چاہئے اور بہت جلد تبدیل ہونا چاہئے۔دوسری جانب جنوبی ایشیا میں اہم اتحادی بھارت سے متعلق ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا امریکا افغانستان میں استحکام کیلئے بھارتی کردار کو سراہتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ بھارت امریکا کے ساتھ تجارت سے اربوں ڈالر حاصل کرتا ہے اور وہ چاہتےہیں کہ بھارت افغانستان کی اقتصادی معاونت اور ترقی کیلئے مزید کام کرے۔ٹرمپ نے کہنا تھا نائن الیون کوکوئی فراموش نہیں کرسکتا،11 ستمبر حملہ کی منصوبہ بندی افغانستان میں ہوئی، تیزی سے انخلا کی صورت میں ممکنہ نتائج سے واقف ہیں،افغانستان کوہرممکنہ زاویے سے دیکھااورکابینہ سے ملاقات کرکے اسٹریٹجی تیارکی،انہوں نے کہا کہ عہدہ سنبھالنے کے بعدافغانستان اورجنوبی ایشیاکی حکمت عملی پرغورکیا، فوجی اہلکارباہمی اعتمادکیساتھ خودکوبھلاکرملک کی خدمت کرتے ہیں اور فوج کے تمام اہلکارایک خاندان کاحصہ ہیں جوامریکی خاندان ہے،امریکی صدر نے کہاکہ امریکی افواج نے ملک کیلئے بے پناہ قربانیاں دیں،امریکا میں نفرت کیلئے کوئی جگہ نہیں،افغان جنگ 17سال پر محیط ہے،افغانستان سے امریکی فوج کاانخلا میری خواہش ہے،امریکی فوجی وہ سمجھتے ہیں جوبحیثیت قوم ہم نہیں سمجھتے۔افغانستان میں 16 سال سے جاری جنگ کو وقت اور پیسے کا ضیاع قرار دینے کے اپنے سابقہ بیان کو مسترد کرتے ہوئے امریکی صدر نے کہا اوول آفس کی ڈیسک کے پیچھے سے صورتحال مختلف دکھائی دیتی ہے۔ انہوں نے کہاکہ افغانستان سے امریکی فوج کے تیزی سے انخلا کی صورت میں ایک خلا پیدا ہوگا جسے دہشت گرد فور طور پر بھر دیں گے۔ ڈونلڈ ٹرمپ افغانستان میں تعینات کیے جانے والے امریکی فوجیوں کی کل تعداد سے متعلق خاموش رہے تاہم وائٹ ہاس کے سینئر حکام کے مطابق امریکی صدر اپنے سیکریٹری دفاع کو افغانستان میں مزید 3900 فوجیوں کی تعیناتی کا اختیار دے چکے ہیں۔اپنے خطاب میں امریکی صدر نے خبردار کیا کہ ان کا نقطہ نظر اب تصوراتی سے زیادہ حقیقت پسندانہ ہوگا۔انہوں نے کہا کہ افغانستان کو دی جانے والی امریکی فوجی امداد بلینک چیک نہیں،ہم قوم کی دوبارہ تعمیر نہیں کررہے، ہم دہشت گردوں کا صفایا کررہے ہیں۔ عہدہ صدارت سنبھالنے کے بعد پہلی مرتبہ امریکی صدر نے طالبان سے سیاسی ڈیل کا اشارہ بھی دیا۔ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہمارے فوجی کوششوں کے بعد ممکن ہے کہ ایسا سیاسی تصفیہ ہوجائے جس میں افغانستان میں موجود طالبان عناصر بھی شریک ہوں۔ تاہم کوئی نہیں جانتا کہ ایسا کب ہوگا لیکن امریکا طالبان کا سامنا کرنے کیلئے افغان حکومت اور فوج کی حمایت جاری رکھے گا۔
امریکہ بھارت گٹھ جوڑ در حقیقت پاکستان کی بڑھتی ہوئی معاشی قوت سے خائف ہونے کی وجہ سے ہے۔ پاکستانی عوام پاک فوج کے شانہ بشانہ کھڑئے ہیں پاکستان زندہ آباد
No comments:
Post a Comment