Monday, 28 August 2017

قانون کی حاکمیت اور اشرافیہ...BY صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی


قانون کی حاکمیت اور اشرافیہصاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی

پاکستان ایک ترقی پذیر اور وڈیروں جاگیرداروں سرمایہ داروں کے چُنگل میں پھنسا ہوا ملک ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان کو بنانے میں اور پاکستان کا خواب دیکھنے میں ایک عظیم وکیل کا کردار نظر آتا ہے۔ انگریزوں سے آزادی ہندووں سے آزادی اِن دونوں سے آزادی حاصل کرناجوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔ لیکن پاکستان نے اللہ پاک کے کرم سے بننا تھا سو وہ بن گیا۔ لیکن حکمران اشرافیہ نے سات دہاہیوں سے ملک کے سماجی، سیاسی، معاشی معاملات کو بہتری کی طرف لے جانے کی بجائے ڈوبویا ہی ہے۔ حکمران اشرافیہ نے ہر ہر اُس طبقے کو بدنام کیا جو آنے والے وقت میں اُس کے سامنے کھڑا ہونے کی ہمت کر سکتا تھا۔ مزدوروں کے لہو اور پسینے سے جس سرمایہ دار کاکارخانہ چلتا ہے ۔ اُن سرمایہ داروں نے مزدوروں کی طاقت کو منتشر کرنے کے لیے ایک ہی ادارئے ایک ہی فیکٹری میں کئی کئی یونینز بنوائیں پھر اُن کو خریدا اور اُن کا امیج معاشرئے میں بُری طرح خراب کروایا تاکہ ایک تو مزدور طبقہ اپنے حق کے لیے جب کھڑا ہو اُس وقت اُن کے مقاصد کو شک کی نگاہ سے دیکھا جائے تاک مزدور اپنے ہی ساتھی پربداعتمادی کا شکار ہوجائیں۔دوسری طرف مزدور لیڈروں کو لالچ دے کر مزدوروں کے مفادات کے خلاف ہی اُن کو آپس میں لڑوا کر معاشرئے میں اُن کے لیے نفرت کے پہاڑ کھڑئے کر دئیے۔ یوں اب پاکستانی معاشرے میں مزدور لیڈروں کی کوئی کریڈیبیلٹی نہیں ہے۔ لوگ اِن کو دھوکے باز مفاد پرست گردانتے ہیں۔ ایسا اِس لیے ہے کہ اشرافیہ نے اِن کی جڑوں کو کھوکھلا کر دیا ہے۔ اِسی طرح معاشرئے میں وکلاء نہایت عزت و تکریم کے حامل سمجھے جاتے تھے۔ لیکن چند کالی بھیڑوں کے ضمیر خرید کر حکمران اشرافیہ نے وکلاء رہنماؤں کے کردار کو معاشرئے کے لیے یکسر بُرا بنا دیا ہے۔ حکمران اشرافیہ نے وکالت جیسے عظم پیشے کو اپنے لیے زبردست خطرہ سمجھتے ہوئے اِس کی انسانی آزادیوں کی جدجہد کو ایسی زک پہنچائی ہے کہ وکلاء کی حالیہ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کے ساتھ ہونے والی معاذآرائی میں میڈیا اور عوام نے وکلاء کے خلاف بہت کچھ کہا۔ حتی کہ اخبارات میں خصوصی مضامین وکلاء کے خلاف لکھے گئے۔ راقم نے خود دیکھا کہ ٹی وی پر ایک کورٹ رپورٹر صاحب تبصرہ فرما رہے تھے کہ وکلاء تو اِس میں شامل ہی نہیں ہیں۔ جو لوگ احتجاج کر رہے ہیں یہ نان پریکٹسنگ لائرز ہیں یا پھر وہ لائرز ہیں جنہوں نے بارز کے الیکشن لڑنا ہیں اِس لیے وہ احتجاج میں نمایا ں ہیں گویا اِس وقت وکلاء کی جانب سے کیے جانے والے کسی بھی احتجاج کو احتجاج کی وجہ سے نہیں پرکھا جا رہا ۔ یہ نہیں کہاجارہا کہ احتجاج کس مقصد کے لیے ہے میڈیا میں کہا جا رہا ہے کہ جناب احتجاج کرنے والے وکلاء درست لوگ نہیں ہیں۔یوں جن لوگوں نے معاشرئے میں آگے بڑھ کر عوام کے حقوق کے لیے آواز اُٹھاتے تھے جن کا فرمایا ہوا معتبر ہوتا تھا۔ جو حکمران اشرافیہ کی نیندیںیں اُڑا دیتے تھے۔ اُن کے متعلق اُن کے نشان کالے کوٹ کے متعلق طرح طرح کی باتیں پھیلا کر اور معاشرئے میں اُن کے امیج کو متاثر کردیا ہے گو وکلاء رہنماؤں میں کالی بھیڑیں بھی ہوتیں ہیں لیکن اِن کو کالی بھیڑوں کو رُغبت دلا کر اُن کے مُنہ کو ناجائز کمائی لگا اُن کو معاشرئے کے لیے ناقبل قبول بنا دیا گیا ہے یوں من حیث القوم ہم ذہنی دیوالہ پن کا شکار ہوتے چلے جارہے ہیں۔ اِن حالات میں حق کی بات کرنے والے وکیل رہنماء کو بھی شک کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔اشرافیہ نے یہاں تک ہی بس نہیں کیا بلکہ وکلا اور ججوں کی آپس میں ہم آہنگی کو اِس طرح بگاڑا ہے کہ ایسا محسوس ہوتاہے کہ جج اور وکیل ایک ہی گاڑی کے دوپہیے نہیں ہیں بلکہ یہ ایک دوسرئے کے لیے شودر کے درجے پر فائز کروادئیے گئے ہیں۔ اب صورتحال یہ بن چکی ہے کہ وکلاء اور ججز کے درمیان لڑئی جھگڑا معمول بن چکا ہے۔حالانکہ جج بننے سے پہلے وہی شخص وکیل ہوتا ہے لیکن جج بننے کے بعد وکلاء اور ججز ایک دوسرئے کو نیچا دیکھانے کے لیے کوشش جاری رکھتے ہیں۔معاشرئے کی رہنمائی کرنے والے اِس جانباز طبقے کی عزت معاشرئے میں جس طرح خاک میں ملا دی گئی ہے یہ پاکستان جیسے ملک کی بدنصیبی ہے کہ ہر ظلم کے خلاف آواز اُٹھانے والا طبقہ عوام کی نظر میں اپنا بھرم کھو بیٹھا ہے۔ چندغلط لوگوں کی لالچ کی وجہ سے اُن کی جانب سے خود کو حکمران اشرافیہ کے پے رول پر فائز کیے جانے پر یقینی طور پر قانون کی حاکمیت کو سخت نقصان پہنچا ہے۔

No comments:

Post a Comment