Sunday, 20 August 2017

ناقص تفتیش اور ٹرائل کورٹ کی مجرمانہ غفلت کا نظام Written By صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی




ناقص تفتیش اور ٹرائل کورٹ کی مجرمانہ غفلت کا نظام

صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی

موجودہ سماجی ڈھانچہ کچھ اِس طرح سے شکل اختیار کرتا جارہا ہے کہ سچ اور جھوٹ میں تمیز کرنا مشکل بنا دیا گیا ہے۔انصاف کے ایوانوں میں انصاف بکتا ہے۔ اِس حوالے سے بہت سی تو ضحیات پیش کی جاتی ہیں۔ نظام عدل کے اسٹیک ہولڈرز میں سائلین، تفتیشی افسران، وکلاء اور ججز حضرات شامل ہیں۔اِن چاروں اسٹیک ہولڈرز میں سے جس اسٹیک ہولڈر کی محنت سے مقدمہ سچائی کے ساتھ اپنے انجام کو پہنچتا ہے وہ اِس مقدمے کے تفتیشی افسران ہیں۔ اِس مین کوئی شک نہیں کہ عدالتوں پر تفتیشی افسران کے بنانے ہونے نتائج پر یقین کرنا ضروری نہیں ہے۔ لیکن عدالت کوئی انویسٹی گیشن ایجنسی نہیں ہے۔ اِس کے پاس تفتیش کرنا اور جرم ہونے کے شواہد اکھٹا کرنا اور سچ کی تہہ تک پہنچنے کے کھوج لگانے کے لیے کوئی ایسا ادارہ نہیں ہے جس سے وہ مدد لے سکے بلکہ وہ ادارہ تو پولیس کا ہی ہے جس نے عدالت کو حقائق تک پہنچنے کے لیے شواہد اکھٹا کرکے دینا ہوتے ہیں۔لیکن جس طرح کا ہمارا سماجی ڈھانچہ ہے اِس معاشرئے میں پولیس دونوں پارٹیوں سے پیسے بٹورتی ہے۔ بلکہ پولیس تو سفید کو سیاہ اور سیاہ کو سفید بنا کر پیش کردیتی ہے۔پولیس بے چاری کا قصور اتنا نہیں ہے جتنا ہمارے سماجی ڈھانچے کا ہے کہ سیاسی لیڈران، با اثر افراد، وڈیرئے جاگیر دار پولیس کے تفتیشی نظام پر اثرانداز ہوتے ہیں ،۔ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کیس خراب ہوجاتا ہے۔لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اِس نظام کو کون ٹھیک کرئے گا۔سپریم کورٹ نے پولیس کے تفتیشی طریقہ کار پر اظہار تشویش کرتے ہوئے آبزرویشن دی ہے کہ تفتیشی افسروں کی کوئی ٹریننگ نہیں کی جاتی۔ ا س دوران ریمارکس دیتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہاکہ ناقص تفتیش پر تفتیشی افسر کو سزا کے بغیر یہ نظام ٹھیک نہیں ہو سکتا۔ اگرپولیس نے تفتیش درست انداز میں نہیں کرنی تو محکمہ پولیس کو ختم کر دیں۔ جسٹس قاضی فائزنے سوال اٹھایا کہ کیا پولیس کا فرض صرف دونوں جانب سے پیسے بٹورنا ہے؟ قومی خزانے کے پیسے خرچ کرکے پولیس اہلکاروں کو وی آئی پی ڈیوٹی پر کیوں لگایا جاتا ہے۔ جسٹس قاضی فائزکا کہنا تھا کہ اتنے اخراجات کے باوجود پولیس کا نظام تباہ ہو چکا ہے، پولیس افسران کو تفتیش کی تربیت ہی نہیں دی جاتی،سپریم کورٹ نے قتل کے مقدمات نمٹاتے ہوئے ایک ملزم کو بری، 2کی سزاؤں میں کمی جبکہ دو ملزموں کی بریت کیخلاف درخواستیں خارج کردی ہیں جبکہ تین دیگر ملزموں کی بریت
کیخلاف ایک درخواست سماعت کیلئے منظور کرلی گئی ہے۔ پہلے مقدمہ میں عدالت عظمی نے قتل کے ملزم خضر حیات کی سزاعمر قید کم کرکے گیارہ سال کر دی۔ملزم خضر حیات اور اسکے بھائی عمرحیات پر2007 میں سرگودھا کے علاقہ کوٹ مومن میں اپنی بہن امیر بی بی کو قتل کرنے کا الزام تھا۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ قتل کے مقدمات میں درست تفتیش نہ ہونے کے حوالے سے کوئی بندوبست کرنا ہو گا۔گواہ حلف اٹھا کر جھوٹ بولتے ہیں، جھوٹے گواہوں کی وجہ سے ملزموں کا بری ہونا اللہ کا عذاب ہے۔ سچ میں بڑی طاقت ہو تی ہے، اس دوران جسٹس دوست محمد خان نے مذاقاً کہا کہ جھوٹ میں بھی بڑی طاقت ہے اس کی وجہ سے کیس سپریم کورٹ تک پہنچ جاتے ہیں۔ دوسرے مقدمے میں عدالت عظمی نے گیارہ سال سے پاپند سلاسل ملزم فریاد حسین کو بری کردیا۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہاکہ مقدمہ میں بنائے گئے گواہ سوفیصد جھوٹے ہیں،دفعہ194 کہتی ہے جو جھوٹی گواہی دے اسے عمر قید کی سزا دے جائے جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ اس مقدمہ میں ہائیکورٹ خود کہتی ہے کہ سچ چھپایا گیا جب سچ نہیں بولا گیا تو ہائیکورٹ کو ملزم کو بری کر دینا چاہیے تھالیکن ہائیکورٹ میں بری کرنے کا حوصلہ نہیں تھا۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہاکہ آخر کب تک اسطرح ہم سنتے رہیں گے کہ گواہ جھوٹے ہیں۔تیسرے مقدمہ میں عدالت نے سرگودھا میں مالٹے توڑنے کے تنازعہ میں کلیم اللہ نامی شخص کو قتل کرنے والے ملزم شبریز عرف صالحی کی عمر قید میں کمی کرکے 13سال قید کردی اور ایک لاکھ روپے جرمانہ برقرار رکھا ہے۔ عدالت کا کہنا تھا کہ سیشن جج نے جرمانہ ادا نہ کرنے پر دو سال قید کی مزید سزابھی متعلقہ قانون پڑھے بغیر سنادی اس قانون کے مطابق زیادہ سے زیادہ سزا چھ ماہ ہوتی ہے اور ہائیکورٹ نے بھی اس پر اسی طرح مہر لگادی جج کوسزا دینے سے پہلے مذکورہ شق تو پڑھ لینی چاہیے تھی۔ سپریم کورٹ کی حالیہ آبزرویشن کا جس کا ذکر ابھی کیا گیا ہے اِس کے مطابق تفتیشی نظام کے ساتھ ساتھ گواہوں کی جانب سے جھوٹا حلف اُٹھانا، ماتحت عدلیہ اور حتی کہ ہائیکورٹ کے ججز کی جانب سے بغیر قانونی شق پڑھے فیصلہ کرنا۔ اِس افسوسناک صورتحال میں فرض تو علیہ کابنتا ہے کہ وہ نظام تفتیش اور نظام عدل کے تمام محرکات کو سامنے رکے اور اِس کے اصلاح کے لیے عملی طور پر کچھ کرئے۔جھوٹی گواہی یا ناقص تفتیش یا پھر ایڈیشنل سیشن جج یا پھر ہائی کورٹ کی کوتاہی سے کوئی اگر بے گناہ پھانسی چڑھ جاتا ہے تو اِس کا کیا حل ہے ۔ اگر سپریم کورٹ میں بھی اُس کی شنوائی نہ ہو تو پھر کیا بنے یعنی پھانسی صرف۔ اِس نظام تفتیش اور نظام عدل کو مخلصانہ کوششیں کرکے درست کیا جائے۔سپریم کورٹ اِس کو براہ راست دیکھے۔ 

No comments:

Post a Comment