Thursday, 28 September 2017

امامِ عالیٰ مقام حضرت امام حسینؓ کی شہادت دینِ اسلام کی تجدید writen by میاں محمداشرف عاصمی . IMAM HUSSAINR.A


امامِ عالیٰ مقام حضرت امام حسینؓ کی شہادت دینِ اسلام کی تجدید

میاں محمداشرف عاصمی 

حق کے لیے ڈٹ جانا اور حق کے لیے خود کو اپنے خاندان سمیت قربان کردینا ایک عظیم قربانی ہے۔ دین حق اسلام کو جب تجدید کی خاطر لہو کی ضرورت پڑی تو یہ لہو کسی اور کا نہیں نواسہ رسولﷺ کا تھا جو میدان کربلا میں حریت کی عظیم مثال قائم کر گیا۔ دُنیا ایاسی قربانی کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ جب بھی انسانی معاشرے میں حق کی قلت واقع ہوجاتی ہے تو معاشرے کی اِس گٹھن کو ختم کرنے کے لیے اور حق کا بول بالا کرنے کی خاطر لہو کا تیل چراغوں میں جلانے کے لیے درکار ہوتا ہے اور یہ لہو امام اعلیٰ مقام کی حق پر مبنی عظیم شہادت کی یاد دلاتا ہے۔ امام عالیٰ مقام نے سچ کو امر کرنے کے لیے اپنی جان اپنے گھرانے سمیت اللہ پاک کے حضور پیش کردی اور یزید نے اپنی انا کی بالادستی کے لیے امام حسین کو خاندان سمیت شہید کردیا۔ امام عالیٰ مقامؓ کائنات میں حق اور سچ کا نشان ٹھرے اور یزید قیامت تک کے لیے رسوا ہونے کے لیے۔تاریخ انسانی بھی عجب اسلوب و انداز کی حامل ہے۔جس وقت کوئی اندوہناک واقعہ درپیش ہوتا ہے اُس وقت یہ سمجھا جاتا ہے کہ شکست ہوئی ہے ۔ظلم ہوا ہے۔ طاقت کی فتح ہوئی ہے اور مظلوم کو شکست ہوئی ہے ۔یوں شکست کھانے والے کا نشان وقتی طور پر مٹ جاتا ہے اور شکست دینے والا غالب آجانے کی وجہ سے اپنے وجود کو بچا لیتا ہے۔ لیکن تھوڑئے ہی عرصے کے بعد جب اُس واقعہ کے محرکات کا جائزہ لیا جاتا ہے اور اُس کے نتائج و عواقب کو خالقِ کائنات کی طے کردہ کسوٹی پر پرکھا جاتا ہے تو پھر شکست دینے والا تاریخ کے ہاتھوں شکست کھا جاتا ہے۔اُسے لعن طن کی جاتی ہے ظاہری فتح کے باوجود وہ عبرتناک شکست کا شکار ہو جاتا ہے کہ پھر اُسے تاریخ کے ہاتھوں ہمیشہ کے لیے ذلیل و خوار ہونا پڑتا ہے۔یہی کیفیت اور اہمیت امام عالیٰ مقام حضرت امام حسینؓ کی شہادت کے حوالے سے تاریخ کے انوکھے باب کی ہے۔ لاکھوں پیغمبروں رسولوں کے بعد اور نبی پاکﷺ سے دین کو مکمل کروانے کے بعد فوری طور پر دین کی تجدید کی ضرورت کیوں پڑی۔ اِس کا جواب بھی تاریخ ہی دیتی ہے کہ خالق نے جس دین کو نبی پاک ﷺ پر مکمل کیا اُس کی تجدید کی ذمہ داری بھی آپﷺ کے گھرانے کی قسمت میں لکھ دی گئی گو کہ آپ کے نواسے امام حسینؓ کو اِس را ہ میں دیگر اہلِ خانہ کے ساتھ شہادت کے مقام پر سرفراز ہونا پڑا لیکن نبی پاکﷺ کے گھرانے نے قربانی سے دریغ نہیں کیا اور موت کو اِس طرح گلے لگایا کہ چند ماہ کے علی اصغرؓ نے بھی نبی پاکﷺ کے دین کی آبیاری کے لیے اپنے خون کو پیش کیا۔ اِس طرح کی قربانی کے فلسفے کو سمجھنے کے لیے اطاعت رسولﷺ،عشق رسولﷺ کے سبق کو سمجھنا ہوگا۔حضرت امام حسینؓ کی شہادت بھی درحقیقت اُنھی قربانیوں کا تسلسل ہے جس کا آغاز اللہ پاک کی وحدانیت کے پرچم کو بلند کرنے کے لیے ہمیشہ سے جاری و ساری ہے۔اگر ہم عشق رسولﷺ کے فلسفے کی اہمیت کو جان جاتے ہیں تو پھر کربلا کے میدان میں سجنے والی انوکھی مقتل گاہ کا فلسفہ بھی سمجھ میں آسکتا ہے۔ دو شہزادوں کی جنگ کا بہتان لگانے والوں کی عقل پر جتنا بھی ماتم کیا جائے وہ کم ہے کہ جنگیں لڑنے کے لیے چند ماہ کے بچوں اور گھر کی خواتیں کو ساتھ لے کر نہیں جایا جاتا۔اور گھرانہ بھی وہ جن کے بابا نبی پاکﷺ ہیں۔نبی پاکﷺ کے گھرانے کے بچوں اور عورتوں کے ساتھ جس طرح سلوک کربلا کی دھرتی پر ہوا وہ دھرتی خود شائد کھبی معاف نہ کر پائے گئی لیکن دوسری جانب اِسی دھرتی پر بپا ہونے والا ظلم سچائی کے لیے مینارہ نور بن گیا ۔یقیناًکربلا کی دھرتی کے لیے یہ امر کسی اعزاز سے کم نہیں۔اللہ پاک، نبی پاکﷺ اور قران مجید کے پیغام کو ہمیشہ کے لیے دوام بخشنے کے لیے نبی پاکﷺ کے گھرانے کو عظیم قربانی دینا پڑی۔آئیے سرکار نبی پاکﷺ کے حوالے سے ذکر خیر ہو جائے۔انسانی تاریخ میں کسی بھی الہامی کتاب کو وہ پذیرائی اور مرکزیت حاصل نہیں ہے جو کہ قران پاک کو ہے۔قران پاک تقریباً چوبیس سالوں میں نبی پاکﷺ پر نازل ہوا۔قران پاک اللہ پاک کا کلام ہے جو اللہ پاک نے مختلف ادوار میں مختلف حالات کے مطابق نازل کیا ۔قرانِ مجید کو نبی پاکﷺ تک پہنچانے کا کام اللہ پاک کے جلیل القدر فرشتے حضرت جبریلؑ نے انجام دیا۔گویا قران اللہ پاک کی جانب سے بندئے کے لیے ایک ایسا ہدایت نامہ ہے کہ اِس کی نظیر نہیں ملتی۔اسلامی تمدن کے تمام تر محرکات اور اسلوب اِس انداز میں قران پاک میں بیان فرما دئیے گئے ہیں کہ اِس کتاب کو اللہ پاک نے ایسی کتاب قرار دیا ہے کہ جو کہ لاریب ہے۔ہم مسلمان ،یورپ امریکہ کے لوگوں کے کارنامے اور وہاں کا نظامِ حکومت دیکھ کر کمتری محسوس کرتے ہیں کہ شائد وہ ہم سے زیادہ علم کے حامل ہیں۔ اصل نکتہ تو یہ ہے کہ تمام تر معاملات کا تعلق عمل سے ہے۔ گفتار کے غازی اور کردار کے غازی دو مختلف انداز ہیں۔ فی زمانہ جو صورتحال واضع ہے وہ یہ کہ مسلمان گفتار پر زور دئے رہے ہیں۔ اور کردار یعنی عمل والا پہلو اُن لوگوں نے ا پنا رکھا ہے جن کو ہم کافر کہتے ہیں۔ اِس جگہ میں ایک نہایت ہی اہم نکتے کی طرف توجہ مبذول کروانا چاہتا ہوں۔ قران اللہ کا کلام ہے اور اِس کتابِ برحق کو انسان کی ہدایت کے لیے اللہ پاک نے نازل فرمایا۔ نبی پاکﷺ نے فرمادیا کہ یہ قران ہے اُس کو قران کا درجہ دئے دیا گیا۔ اور جس بات کو نبی پاکﷺ نے کہا کہ یہ حدیث ہے ہم نے اُس کو حدیث کا درجہ دئے دیا۔ اِس سے یہ بات اظہر من الشمس ہوجاتی ہے کہ صاحب کتاب نبی پاکﷺ کی ذات کی اہمیت اور تقدس کتنا ہے۔ یعنی نبی پاکﷺ کے کہنے سے کتاب برحق کو کتاب ہونے کا درجہ ملا۔بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ نام کے مسلمان وہ صاحب قران نبی پاکﷺ کی تقدیس کی بجائے قران کی بات کرتے ہیں۔یہاں یہ کہنا ازحد ضروری ہے کہ جو نبی ﷺکی بات ہے وہ اللہ کی بات ہے اور جو اللہ کی بات ہے وہی قران ہے گویا ہم اللہ اور نبی ﷺ کو الگ الگ نہیں کر سکتے۔انسانی تاریخ اِس بات کی گواہ ہے کہ اللہ کے پیغام کو پُر اثر انداز دینے کی سعادت نبی پاکﷺ کو اللہ پاک نے بخشی اور یوں راہ ہدایت قران کو نبی پاک ﷺ کے توسط سے نازل کیا گیا۔ کیونکہ اگر ہم خالق کی توقیر کی بات کرتے ہیں اور اگر ہم کتاب ہدایت قران کی بات کرتے ہیں تو پھر صاحب قران نبی پاکﷺ کی ذات اِس ہدایت والے عمل میں مرکز ومحور ہے کیونکہ الہامی کتابیں اور صحیفے تو پہلے بھی نازل ہوتے رہے۔رب پاک کو ایک ماننے کا سبق تو سوا لاکھ پیغمبروں نے دیا لیکن نبی پاکﷺ پر آکر نبوت کا سلسلہ ختم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ پاک پوری کائنات کو یہ باور کروانا چاہتے ہیں کہ ہدایت کا سلسلہ نبی پاکﷺ پر آکر مکمل ہوچکا ہے اور یوں سوا لاکھ نبیوں کے تبلیغی مشن کے باوجود،توریت زبور انجیل کے ہوتے ہوئے بھی اللہ پاک نے دین کو مکمل کرنے کے لیے جس ہستی کا چناؤ کر رکھا تھا وہ نبی آخر و اعظمﷺ ہیں۔ جن کی تعلیمات کو زوال نہیں۔جن کا وجود سارئے جہانوں کے لیے رحمت اور جو کائنات کی تخلیق کی وجہ قرار پائے۔ حتیٰ کہ جس توحید کو تمام ادیا ن کسی نہ کسی طرح مانتے ہیں اُس توحید کی خالص روح سے آگاہی بھی نبی پاکﷺ کے توسط سے ہوئی۔۔ جو نبی ﷺ اُمت کے لیے شفاعت کر نے والی ہستی ہے۔ایسی برگزیدہ ہستی کہ جس کے متعلق اللہ پاک فرماتا ہے کہ ائے میرئے پیارئے حبیبﷺ اگر میں آپﷺ کو پیدا نہ کرتا تو زمین وآسمان پیدا نہ کرتا حتیٰ کہ اپنے رب ہونے کا بھی اظہار نہ کرتا۔اِس حدیث قدسی کی روشنی میں یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں کے قران اور صاحب قران نبی پاکﷺ کا کیا مقام ہے۔نبی پاکﷺ کی اولاد پاک اور پیارئے نواسے جناب حضرت امام حسینؓ کی شہادت در حقیت ظلم و بربریت کے منہ پر ایک ایسا طمانچہ ہے کہ مورخ اِسکا کبھی بھی ثانی ڈھونڈ نہیں پائے گا۔ چونکہ وجہ تخلیقِ کائنات جناب نبی پاکﷺ کے پیارئے نواسے کی حق کی خاطر عظیم شان قربانی ہمیشہ کے لیے سچ کے پیروکاروں کے لیے مشعل راہ بن چکی ہے۔ قیامت تک قدرت اِس عظیم قربانی پر ناز کرتی رہے گی ۔ حشر کے میدان میں بھی اِسی قربانی کا چرچا ہوگا کہ جس نے بھی حق اور باطل کے درمیان فرق کرنا ہوگا وہ شہادت امام عالی مقام کو ہی کسوٹی قرار دئے گا۔ 

Tuesday, 26 September 2017

ہبہ/ گفٹ کے حوالے سے سپریم کورٹ پاکستان کی تشریح2017SCMR-1110 ..EXPLAIN BY ASHRAF ASMI ADVOCATE



ہبہ/ گفٹ کے حوالے سے سپریم کورٹ پاکستان کی تشریح

صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ 
2017SCMR-1110 


کے مطابق سپریم کورٹ آف پاکستان میں عبدلارحمن بنام مجیداں بی بی میں جسٹس اعجاز افضل خان اور جسٹس دوست محمد خان نے ہبہ یعنی گفٹ کرنے کے حوالے سے ایک لینڈ مارک فیصلہ سُنایا ہے۔ہبہ کے قانون میں میں اصل میں تین لازمی شرائط ہیں۔ اگر اِن میں سے کوئی ایک بھی شرط پوری نہ کی گئی ہو تو ہہ کی قانونی حثیت نہ ہوگی۔وہ تین شرائط مندرجہ ذیل ہیں۔1۔ ہبہ دہندہ کی طرف سے جو کہ بالغ،عاقل ہو جائیداد کا مالک ہو۔ اور وہ ہبیہ کرنے کی پیش کش کا کھلا اظہار کرئے2۔ہبہ گریندہ جو کہ عاقل و بالغ ہو کی طرف سے پیش کش کا تحریری یا اعلانیہ طور پر اظہارِ قبولیت کرنا۔3۔ اگر ہبہ دہندہ خود قابضِ جائیداد نہ ہو۔جائیدادِ ہبہ کسی تیسرئے فریق کے قبضے میں ہو جیسے کہ مزارع یا کرایہ دار یا پٹہ دار کے قبضے میں ہو۔ تو ہبہ دہندہ اُس کے سامنے زبانی اعلان کرئے یا تحریری نوٹس دے کہ اس دن سے ہبہ گریندہ کو مالک/ مالکہ تصور کیا جائے اور جائیداد کی آمدن یا کرایہ یا پٹہ داری/ عوضانہ نئے مالک کو ادا کرنا شروع کردے۔موجودہ کیس میں بوقت زبانی ہبہ مبینہ ہبہ گریندہ کم سن، نابالغ تھا لہذا وہ ازروئے قانون کسی قسم کا معائدہ کرنے کا مجاز نہ تھا۔اور نہ ہی مبینہ ہبہ گریندہ کی جانب سے کسی سرپرست نے اِس مبینہ پیش کش کو قبولیت بخشی۔ مزید یہ کہ جس وقت جس دن کافی عرصہ قبل مبینہ ہبہ کا اعلان کیا گیا ۔اراضی متدعوعہ کا قبضہ مبینہ ہبہ گریندہ کو نہیں دلایا گیا یوں پورا عمل ہبہ قانون کی رو سے باطل اور ناقابلِ عمل تھا۔دیہاتی ان پڑھ اور ناسمجھ خواتین سے اگر مصدقہ رجسٹری کے ذریعے بھی جائیداد بطور ہبہ لی گئی ہوپھر بھی قوی بار ثبوت، ہبہ سے فائدہ اُٹھانے والے پر ہے ا ور رجسٹری ہبہ کو اِس صورت میں وہ قانونی حثیت حاصل نہ ہوگی اُس معائدے کے مقابلے میں جو کہ گیرندہ نے کسی اعلیٰ تعلیم یافتہ عاقل بالغ شخص کے ساتھ ہبہ کا معائد ہ کیا ہو۔ پردہ نشین دیہاتی خاتون کے ساتھ اِس قسم کا معائدہ کرنے سے شفافیت اور مکمل احتیاظ برتنے کو لازمی قرار دیا گیا ہے بصورت دیگر اِس قسم کے معائدے کو عمومی طور پر مشکوک تصور کیا جائے گا۔ اِس کیس میں عدالت نے کل سات ایشوز وضع کیے تاہم ایشو نمبر دو کا غلط طور پر خلاف قانون و خلاف ضابطہ بار ثبوت فریقین پہ رکھا گیا حالانکہ واقعات کی رو سے اِس ایشو کا بارِ ثبوت اپیل کندہ مدعاعلیہ پر تھا۔ شاید اس وجہ کی بناء پر عدالتِ ابتدائی سماعت و عدالتِ ضلعی اپیل نے شہادت بر مثل کا غلط تجزیہ کرتے ہوئے غلط اور غیر قانونی نتیجہ اخذ کیا اور مسہول علہیہ کا دعویٰ و اپیل خارج کیے۔ مسول علہیہ نے نگرانی دیوانی نمبری 2007/D 242 ہائی کورٹ میں دائر کی جو کہ فاضل جج صاحب نے دونوں عدالوں کے احکام و ڈگری کو مسترد کرے ہوئے مسول علہیہ منظور کی اور دعوی متعدیہ مسول علہیہ میں ڈگری صادر کی جس سے نالاں ہو کر اپیل کندہ نے براہ راست اپیل ہذا دائر کی۔ اِس مقدمہ میں وقعات کچھ اِس طرح کے ہیں جس سے فریقین کو انکار نہیں جیسا کہ مسول علہیہ کی اراضی میں مطلوبہ ملکیت سے انکار نہیں کیا گیا ہے۔اور یہ کہ ہبہ گریندہ اور ہبی دہندہ دونوں آپس میں بہن بھائی ہیں۔اِس امر سے کوئی بھی انکار نہیں کرتا کہ اپیل کنندہبوقتِ مبینہ ہبہ کمسن و نابلغ تھا۔ اگرچہ مسول علہیہ کی والدہ مرحومہ سے بھی اپیل کنندہ کے حق میں اِسی روز ہی اپنے حصہ ملکیت کو ہبہ کیا تاہم یہامر عیاں ہے کہ اِس وقت اپیل کنندہ کی والد ہ مرحومہ کو قا نونی حثیت مسول علہیہ کے ہو بہو تھی کیونکہ وہ ہبہ دہندہ تھی لہذا وہ کسی صورت میں بیک وقت قانونی ولی یا سرپرست کی حثیت سے عاری تھی۔ہمارے زمانہ میں یہ نرواج عام ہوتا جا رہا ہے کہ زندگی میں اپنی جائیداد تقسیم کر دیتے ہیں لیکن صحابہ رضی اللہ عنھم، تابعین و ائمہ کے دور میں اس کا ثبوت نہیں ملتا ہے کہ کسی نے بھی اپنی زندگی میں جائیداد تقسیم کر دی ہو، بنا بریں صحیح طریقہ یہ ہے کہ شخص کے فوت ہونے کے بعد شرعی طریقہ پر اس کا مال تقسیم کیا جائے۔کوئی شخص مورث نہیں بن سکتا جب تک وہ وفات نہ پا جائے۔ اسی طرح موت کے بغیر اس کے
کسی قریبی کو اس کا وارث قرار دینا بھی صحیح نہیں اور نہ ہی زندگی میں مورث اور وارث کے اعتبار سے ان کے درمیان ورثہ منتقل ہو سکتا ہے۔ اس لیے کہ مورث اور وارث کا اطلاق موت کے بعد ہوتا ہے۔ موت سے پہلے نہیں ہوتا۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے دو نہیں، بلکہ تین آیات اور ایک حدیث بیان کی ہے اور ان سے استدلال کیا ہے کہ موت کے بغیر کوئی شخص مورث نہیں ہو سکتا۔ یہ مفہوم اور معنیٰ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور لغتِ عرب سے منقول ہے۔ لہذا جو شخص زندہ رہتے ہوئے اپنی جائیداد اپنے اقرباء میں بحیثیت ان کے وارث ہونے کے ان کے درمیان تقسیم کرتا ہے وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی مخالفت کرتا ہے۔ اس میں کسی کو اختلاف نہیں ہو سکتا مگر ہبہ کا مسئلہ اس سے مختلف ہے اگر کوئی شخص اپنی زندگی میں اپنے اقرباء کے درمیان جائیداد تقسیم کر دے جو اس کی موت کے بعد وارث ہونے کے اہل ہیں یا اہل نہیں تو شریعت کی طرف سے اس پر کوئی مواخذہ نہیں، بشرطیکہ ہبہ میں اس کی شرائط کو ملحوظ رکھا جائے۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے باب کا اطلاق اس پر نہیں ہوتا۔نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کے والد بشیر نے جب اپنے ایک لڑکے کو غلام دے کر رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو گواہ بنانا چاہا .تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا:
یعنی ''اس طرح باقی اولاد کو بھی عطیہ دیا ہے؟'جواب ملا کہ ''نہیں'' آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جور و ظلم پر گواہ بننے سے انکار کر دیا اور فرمایا: ''اعدلوا بين اولاد?م'' اور ایک روایت میں ''سووا بين اولاد?م'' ہے یعنی ''عطیہ کے وقت اولاد میں عدل اور برابری کرو۔''اس حدیث سے دو باتیں معلوم ہوئیں۔1۔ ہبہ اور وراثت کے احکام الگ الگ ہیں۔ ہبہ کا اطلاق زندگی میں اور وراثت کا اجراء موت کے بعد ہوتا ہے۔ نیز ہبہ اور وراثت کی تقسیم میں بھی جمہور ائمہ نے فرق بیان کیا ہے کہ ہبہ کی صورت میں لڑکی کا حصہ لڑکے کے حصہ کے برابر ہے۔ مگر وراثت کی صورت میں لڑکی کا حصہ لڑکے کے حصہ سے نصف ہے۔2۔ نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کی حدیث سے جو دوسری بات واضح ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ انسان اپنی زندگی میں اولاد وغیرہ کے درمیان بصورتِ ہبہ جائیداد وغیرہ تقسیم کرنے کا مجاز ہے۔ شرط یہ ہے کہ اس کا مقصد کسی پر جور و ستم نہ ہو۔ 

The Search.. overview by Ashraf Asmi افضل چوہدری کی تلاش صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ




افضل چوہدری کی تلاش

صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ 

چوبیس ستمبر 2017 لاہورکی ایک دوپہر جس میں گرمی کی شدت نہ تھی اور موسم خوشگوار ہی تھا۔ اتوار ہونے کی وجہ سے مال روڈ کو خاموشی نے اپنے دامن میں سمیٹ رکھا تھا۔ میں اپنے بیٹے حذیفہ اشرف کے ساتھ اپنے محترم دوست صحافی جناب افضل چوہدری کی خصوصی دعوت پر اُنکی کتاب تلاش کی تقریب رونمائی میں شرکت کے لیے کرسٹل ہال پی سی ہوٹل کی جانب رواں دواں تھا۔جبب ہم پی سی ہوٹل پہنچے تو کرسٹل ہا ل میں جناب افضل چوہدری نے بہت ہی خوبصورت محفل سجا رکھی تھی۔ سٹیج پر اوریا مقبول جان، مجیب الرحمن شامی، ڈاکٹر صغریٰ صدف، ناصر ادیب،حافظ حسین احمد، فرید پراچہ، ولید اقبال، ایم این حاجی وحید و دیگر تشریف فرما تھے۔جناب افضل چوہدری دلہا بنے ہر کسی سے انتہائی پُرتپاک انداز میں مل رہے تھے۔جناب افضل چوہدری نے اپنے عزیز اقارب اپنے دوستوں کی بہت بڑی تعداد کو تقریب میں مدعو کر رکھا تھا۔ولید اقبال نے کتاب تلاش جو کہ ادیان کی ایک تاریخ بیان کرتی ہے جس میں الہامی مذاہب اور دُنیاوی طور پر بنائے گئے مذاہب کا ذکر ہے کو بہت اچھے انداز میں پیش کیا۔ولید اقبال نے کتاب کے مندرجات کے حوالے سے انتہائی مختصر اور جامع گفتگو کی اور حاضرین کے دل موہ لیے۔ میاں شہباز صدر پریس کلب لاہور نے بھی اچھا خطاب کیا اور انسانی آزادیوں کی گھمبیر صورحال کے حوالے سے اپنا نقطہ نظر پیش کیا۔ ناصر ادیب جنہوں نے مولاجٹ شیر خان جیسی فلمیں لکھی تھیں اُنھوں نے انہتائی خوبصورت گفتگو کی۔ زندگی کے احساسات کو جس طرح اُنھوں نے الفاظ کا رنگ دیا یہ اُنھی کا ملکہ ہوسکتا ہے۔ ڈاکٹر صغریٰ صدف جو پلاک کی ڈائریکٹر جنرل ہیں انتہائی خوبصورت گفتگو کرتی ہیں۔اُنھوں نے بہت ہی شاندار انداز میں مذاہب کو ماننے والوں کو امن و آشتی کا سبق یاد دلایا۔حافظ حسین احمد جو کہ انتہائی بیمار کے عالم میں تقریب کی صدارت فرما رہے تھے وہ تقریب میں آخر تک تشریف فرما رہے اور اُنھوں نے جناب افضل چوہدری کو تلاش کی اشاعت پر خراج تحسین پیش کیا۔ جناب اسد کھرل نے اپنے خطاب میں تلاش کے موضوع کا بہت اہمیت کا حامل قرار دیا اور کتاب کے مصنف کی جانب سے اُٹھائے گئے نکات پر عصری تقاضوں کے مطابق جواب کی تلاش پر زور دیا۔مجیب الرحمان شامی نے بھی کافی جاندار خطاب کیا اور افضل چوہدری کی کتاب کو بین المذاہب ہم آہنگی کے لیے ایک سنگِ میل قرار دیا۔ اُنھوں نے پاکستان کی موجودہ معاشرتی صورتحال پر بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ اوریا مقبول جان جیسی شخصیت نے تقریب مین جان ڈال دی اور والہانہ انداز میں خطاب کیا اُنھوں نے مسلم دُنیا کے حکمرانوں کی روایتی بے حسی کا تفصیل کے ساتھ ذکر کیا۔ کتاب کے مصنف جناب افضل چوہدری نے کتاب لکھنے کے محرکات اور اِس حوالے سے اپنے تیس سے زائد ممالک کے سفر کے مشاہدات اور مختلف مذاہب کے درمیان ہم آہنگی کے حوالے سے سیر حاصل گفتگو کی۔کتاب کے چار باب ہیں۔ باب اول میں مذہب، قدیم ترین مذاہب ، قدیم مذاہب کے ذرائع جبکہ باب دوم میں ہندو مذہب،جین مت، بدھ مت، سلھ مت، چینی تاو مت، کنیفیوشس مت ،شنتو مت، باب سوم میں پارسی زشت مت، یہودیت، عیسائیت اسلام ،باب چہارم میں کیا مذہب کو ماننا، انسانی تخلیق سائنس کے مطابق، مذہب کا سائنس کو چیلنج ، جی ہاں مذہب کو ماننا چاہیے ، سچا مذہب میری نظر میں۔ متذکرہ بالا عنوانات کے تحت جناب افضل چوہدری نے اپنی کتاب کو لکھا ہے۔ اِس شہرہ آفاق کتاب میں دلچسپی ہر مذہب کو ماننے والے کے لیے ہے۔
جناب افضل چوہدری نے کتاب کے پیش لفظ میں لکھا ہے کہ "
تخیل کی خول کے اندر مقید ہونا اختلاف رائے میں شدت کرتا ہے بعض اوقات یہ شدت کسی تحریک کو جنم دیتی ہے اور بعض اوقات نئے مذہب کو۔ روز ازل سے انسان یہ تخیلیات کھبی زندگی کے دنیاوی فلسفہ سے اخذ کرتا ہے اور کبھی یہ تخلیات آسمانی اور الہامی احکامات کی صورت میں کسی مذہب کا پرچار کرتے ہیں۔تخلیق کار کے تخیل کو جب تک رس ٹپکتے الفاظ کا روپ نہ ملے تب تک شاہکار نہیں بنتا۔انسانی تخیل جب شاہکار بن جائے تو پھر شاہکار کے رموزدھیرے دھیرے دوسروں پر آشکار ہوتے ہیں ۔"آخری بات جناب افضل چوہدری نے دُنیا میں امن وآشتی کے جو اعلیٰ مثال قائم کی ہے ۔اصل میں یہ انسانیت کی بہت بڑی خدمت ہے۔اللہ پاک چوہدری افضل صاحب کو سدا سلامت رکھے۔ 

Sunday, 24 September 2017

OUR THOUGHTS ARE RESPONSIBLE OF OUR SUCCESS سوچ کا مظہر. BY ASHRAF ASMI



سوچ کا مظہر

صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ

انسانی احتیاجات وقت گزرنے کے ساتھ اپنی اہمیت اور سب سے بڑھ کر اپنی حقیقت تبدیل کرتی چلی جاتی ہیں۔کسی بھی شے کا حصول وقت گزرنے کے بعد یہ ثابت کرتا ہے کہ کیا اُس شے کا حصول فائدہ مند تھا یا نہیں یا جس قدر اُس کو اپنے لیے سوہان روح بنایا ہوا تھاُ اتنی اُس کی اہمیت و افادیت تھی بھی یا نہیں۔ انسان کی زندگی کے جو تین ادوار ہیں اُن کی اہمیت بدلتی رہتی ہے۔ذرا تصور فرمائیں جس نوجوان کی عمر بائیس سال ہے۔وہ بیس سال کے بعد کہاں ہوگا۔ کیا سوچ رہا ہوگا۔ اُس کی سوچ کے تانے بانے کیا بُن رہے ہوں گے۔ تصور فرمائیں بیس سال گزر گئے ہیں وہ نوجوان اب بیالس سال کا ہوچکا ہے۔ پیچھے مڑ کا جب وہ دیکھتا ہے تو ہو سکتا ہے کہ دو دہاہیوں قبل وہ جس منزل کو حاصل کرنے کے لیے بے تاب تھا اُسے پانے کے بعد بھی اُس کی تشفی نہیں ہوئی تھی اور وہ فقط راہ گزر ثابت ہوئی تھی وہ منزل نہ تھی۔ انسانی مزاج میں جو تبدیلی پیدا ہوتی ہے وہ اُسے تجربات کی وجہ سے ایسی بھٹی میں جھونکتی ہے جس سے وقت اُس کا اُستاد بن جاتا ہے اور اُسے وہ کچھ سکھاتا ہے جو شائد کسی مکتب کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ ہوسکتا جس ملازمت کو حاصل کرنے کا خواب اُس کا بیس پہلے تھا وہ ملازمت حاصل کرنے کے بعد بیس سال بعد وہ اِس نتیجے پر پہنچے کہ یہ اُس کی منزل نہیں تھی وہ غلطی پر تھا یااُس نے اپنے متعلق درست فیصلہ نہیں کیا تھا۔ ٹائم لائن پر کھڑئے ہو کر اپنی زندگی کے تینوں ادوار کے متعلق آنے والے وقت کے ساتھ ساتھ انسان کا اندازِ سوچ بدل جاتا ہے۔ جیسے ایک شخص نے تہیہ کیا تھا کہ وہ سول سروس میں جائے سول سروس میں جانے کے بیس سال بعد اُسے اگر یہ احساس ہو کہ اُس نے اپنی زندگی کو درست سمت نہیں ڈالا یا جو روحانی سکون اُسے صحافت کے شعبے میں مل سکتا تھا وہ اُسے نہیں ملا۔ یہ بھی وہ رائے رکھ سکتاہے کہ اُس کا فلاں کلاس فیلو جو کہ اُس سے کمتر درجے کا طالبعلم تھا لیکن اُس نے زندگی کو مشین نہیں بننے دیا اور اپنی زندگی جیا اور اُس نے صحافی بن کر حالات کی چکی میں پس کر وہ مقام حاصل کر لیا جو کہ وہ سول سروس والے شخص کے لیے بیس سال گزرنے کے بعد بھی خواب ہے۔ اِس لیے زندگی میں محنت، ذمہ داری کا بہت اہم کردار ہوتا ہے۔ انسانی رویوں کا انداز بدلتا رہتا ہے۔ اللہ پاک نے انسان کو بہت حد تک با اختیار بنایا ہے۔لیکن اِس با اختیار ہونے کا احساس تو تب تقویت پکڑئے گا جب انسان اپنی ذمہ داری کو محنت کے ساتھ نباہے گا۔ کئی مرتبہ ہم یہ سمجھ لیتے ہیں کہ فلاں گاڑی فلاں گھر فلاں ملازمت اگر مل جائے تو ہمارئے وارئے نیارئے ہوجائیں گے لیکن جب سب کچھ مل جاتا ہے تو احساس ہوتا ہے کہ یہ تو منزل ہی نہیں تھی سب کچھ کیا دھرا بے کار گیا اگر وہ فلاں راستے کا راہی بن جاتا تو وہ کچھ مل جاتا جو میرئے لیے اچھا ہے۔ وقت کی کسوٹی بتاتی ہے کہ کیرئیر شروع کرتے وقت جو فیصلہ کیا تھا وہ درست تھا یا غلط۔جب انسان اپنے رب کی مدد مانگتا ہے تو پھر اُس کا رب اُس کی مدد کے لیے اُس کے ساتھ ہوتا ہے پھر اُس سے اپنے مستقبل کے حوالے سے فیصلے بھی اچھے صادر ہوتے ہیں۔یہ نہیں ہوسکتاہے کہ مادیت سے حد سے زیادہ محبت ہمیں روحانی خوشیوں سے بھی سرشار کرئے۔ میرئے ایک بچپن کے دوست ہیں وہ اس وقت بہت کامیاب ڈاکٹر ہیں۔ اُن کا فیملی بیک گراونڈ بھی ایسا ہے کہ اربوں پتی ہیں میں نے زندگی میں کبھی بھی اُن کو روپے پیسے کے پیچھے بھاگتے ہوئے نہیں دیکھا۔ لیکن وہ بہت کا میاب ڈاکٹر ہیں اُن کی پریکٹس بہت اچھی ہے۔ وہ بہت زیادہ کما رہے ہیں۔ بچپن سے لے کر اب تلک میں نے اُن کے اندر یہ خواہش نہیں دیکھی کہ میں نے بہت زیادہ دولت کمانی ہے۔ وہ ایک مطمن زندگی گزار رہا ہے۔ اُس کے مریض اُس سے بہت خوش ہیں۔ اِسی طرح ایک دوست ہے وہ صرف گریجویشن تک تعلیم حاصل کرسکا۔ سات سمندر جا کر پیسے کمانے کی مشین بنا ہوا ہے۔ امریکہ کی نیشنلٹی کا حامل ہے۔ بہت امیر بن چکا ہے لیکن اپنے غریب دوستوں اور غریب رشتے داروں کے لیے اُس کے پاس کچھ نہیں کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ اُس نے یہ ساری دولت اپنی محنت سے کمائی ہے اِس لیے وہ اُس کا خرچ نہیں کرتا۔ دولت ہی اُس کے لیے خدا بن چکی ہے۔ یوں وہ وہ منزل مراد پا چکا ہے جو اُس کا مطمع نظر ہے۔ کیا وہ روحانی طور پر پرسکون ہے۔ اُس کے انداز سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اُس کی زندگی میں وہ سکون نہیں ہے جو کہ اُسے مل جانا چاہیے۔اِس لیے ٹائم لین پر کھڑئے ہو کر اگر ہم حال مین بہتر فیصلہ کر لیتے ہیں کہ مجھے زندگی میں یہ کام کرنا ہے تو پھر آئندہ آنے والے وقت میں اُسے پچھتاوا نہیں ہوگا اُس نے اگر کسی سے رہنمائی لے لی ہوتی تو اُسے اپنے کیر ئیر کے متعلق فیصلہ کرنے میں آسانی رہتی۔ اِس لیے اگر ہم اپنے متعلق فیصلہ سازی کرتے وقت مشورہ کرلیں تو زندگی میں پچھتاوئے کم ہو جائیں گے۔ اللہ پاک کا کرم ساتھ ہوگا۔ روحانی خوشی ملے گی۔ دوستو: دولت تو سب کچھ تب ہو نہ جب اِس نے ہمارئے ساتھ ہمیشہ رہنا ہے ہمیشہ ساتھ تو اعمال نے رہنا ہے۔ اِس لیے اپنے خالق کو خوش کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم وہ راستہ اپنائیں جس سے خالق اور اُس کی مخلوق خوش ہوں۔ 

RULE OF LAW INTERNATIONAL MAGAZINE: زندگی میں زندگی کا احساس ............................

RULE OF LAW INTERNATIONAL MAGAZINE: زندگی میں زندگی کا احساس ............................: زندگی میں زندگی کا احساس صاحبزادہ میاں محمدا شرف عاصمی خوشی کا احساس کیسے ہو سکتاہے اِس حوالے سے سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم خوش...

RULE OF LAW INTERNATIONAL MAGAZINE: زندگی میں زندگی کا احساس ............................

RULE OF LAW INTERNATIONAL MAGAZINE: زندگی میں زندگی کا احساس ............................: زندگی میں زندگی کا احساس صاحبزادہ میاں محمدا شرف عاصمی خوشی کا احساس کیسے ہو سکتاہے اِس حوالے سے سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم خوش...

RULE OF LAW INTERNATIONAL MAGAZINE: زندگی میں زندگی کا احساس ............................

RULE OF LAW INTERNATIONAL MAGAZINE: زندگی میں زندگی کا احساس ............................: زندگی میں زندگی کا احساس صاحبزادہ میاں محمدا شرف عاصمی خوشی کا احساس کیسے ہو سکتاہے اِس حوالے سے سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم خوش...

زندگی میں زندگی کا احساس .............................HAPPINESS IN LIFE HOWصاحبزادہ میاں محمدا شرف عاصمی


زندگی میں زندگی کا احساس

صاحبزادہ میاں محمدا شرف عاصمی


خوشی کا احساس کیسے ہو سکتاہے اِس حوالے سے سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم خوشی کے ساتھ کتنے روابط قائم رکھے ہوئے ہیں۔خوشی کے ساتھ روابط کا مطلب یہ ہے کہ ہم خوشیاں بکھیرنے کے لیے کتنی سعی کرتے ہیں۔ ظاہر سی بات ہے ہمیں وہی چیز میسر آسکتی ہے جو چیز ہم دوسروں کو دئے رہے ہیں۔میرئے دوست ہیں ڈاکٹر عرفان ایک دفعہ اُنھوں نے مجھے ایک انگریزی جملہ کہا تھا کہ اگر تم کسی کو بغیر مسکراہٹ کے دیکھو تو اُسے اپنی مسکراہٹ دے دو۔ اب جناب خود ہی اندازہ لگا لیجیے کہ کتنا خوش قسمت ہوگا جو دوسروں میں مسکراہٹ تقسیم کرتا ہے۔ کہنے کو تو یہ بہت آسان سی بات لگتی ہے اور ہے بھی آسان اُس کے لیے جو اپنے خالق و مالک کا شکر ادا کرتا ہے۔ اِسی لیے کہا گیا کہ جو اپنے ہم عصر دوستوں کو شکریہ ادا نہیں کرتا وہ اپنے خالق کا بھی شکریہ ادا نہیں کرتا۔ اِسی طرح ایک دوست جو کہ اِس وقت ایک کامیاب ڈاکٹر ہیں اور خود بھی اپنی زندگی سے مطمن ہیں اور اللہ کی مخلوق بھی اُن سے مطمن ہے۔ وہ بچپن آج سے تیس سال قبل جب ہم بیس سال کے تھے مجھے کہا کرتے تھے کہ کاونٹنگ نہ کیا کرو ۔ جو مل گیا وہ ٹھیک ہے شکر کرو۔ مجھے حیرانی ہوتی ہے اُس دوست پہ کہ وہ بیس سال کی عمر میں بھی کتنا میچیور تھا اور واقعی وہ شخص مطمن زندگی بسر کر رہا ہے ۔اِس لیے دوستو: اگر ہم زندگی میں اپنا وطیرہ بنا لیں کہ ہم ہر وقت اللہ پاک کا شکر ادا کریں اور اپنے آس پاس کے لوگوں میں آسانیاں تقسیم کریں۔ اللہ پاک بے نیاز ہے اور وہ جسے چاہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہے ذلت۔ اللہ پاک کا جب قرب حاصل ہوجائے تو پھر اللہ کی دوستی میں تو پھر اللہ عزت سے نوازے گا۔ اِس لیے جب ہم اللہ پاک سے دوستی کا دم بڑھتے ہیں تو اِس کامطلب یہ ہے اللہ پاک کی باتیں بھی مانتے ہیں۔ جب ہم اللہ پاک کی مانتے ہیں تو پھر اللہ پاک بھی
ہماری سُنتا ہے۔ اور اللہ تو ستر ماؤوں سے زیادہ محبت اپنی مخلوق سے کرتا ہے تو پھر اللہ پاک ہمیں کیسے ذلت دے گا۔ اللہ کی دوستی قناعت سے مالا مال کردیتی ہے اور قناعت مومن کے لیے وہ عظیم قدرت کا صلہ ہے کہ موومن پھر دُنیاؤی آقاؤں کیمحتاجی سے بچ جاتا ہے۔ اِک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات۔تو دوستوں پھر بات تو یہ ہی سمجھ میں آتی ہے کہ وہ شخص جو اللہ پاک کی مخلوق سے محبت کرتا ہے اُسے پھر بدلے میں جو روحانی خوشی و سکون میسر آتا ہے اُس کا کوئی بدل نہیں ہوتا۔ یوں جب انسان اِس سٹیٹ آف مائنڈ سے ہم آہنگ ہوجاتا ہے تو پھر اُسکو حقیقی خوشی کا احساس ہوتا ہے۔ اُس کے لیے مادیت کی حقیقت مُردار سے زیادہ اور کچھ نہیں ہوتی۔ دُنیاوی زندگی اُس کے لیے ایسا سفر شمار ہوتا ہے جس نے بہت سرعت کے ساتھ طے ہوجانا ہوتا ہے۔ زندگی میں ابدیت نہیں ہے زندگی لافانی نہیں زندگی ایک ایسی پگڈنڈی ہے جس پر وہی زیادہ پُرسکون ہوسکتاہے جس کے پاس مادیت کے اسباب کم ہوں اور اُخروی زندگی کے اسباب زیادہ ہوں۔ اُخروی زندگی کے لیے راستہ بہت آسان ہے۔ اِس کے لیے کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے۔ جو چیز فطرتی تقاضوں کے خلاف ہے وہ انسان نہ کرئے۔ بھلا کرئے اُس کے ساتھ بھلا ہوگا۔ اگر کسی دوست کے ساتھ ہماری ناراضگی ہے ہمیں ایک دفعہ اُس کو احساس دلا کر اُس سے معذرت کرلینی چاہیے کیونکہ ایسا کرنے سے اُس ناراض دوست کا دل جیتا جاسکتاہے۔ معذرت کر لینے سے یہ نہیں ہوتا کہ ہم چھوٹے ہو گئے ہیں یا اُس کی شان میں اضافہ ہوگیا ہے۔ اِس سے ہمارا ضمیر مطمن ہوجائے گا۔ اور پچھتاوا جو ہمیں اندر ہی اندر سے ملامت کر رہا ہوتا ہے اور وہ پچھتاوا ہمار دُشمن بن جاتاہے اگر اُس کا تریاق نہ کیا جائے۔ اپنے اندر اپنا ہی دُشمن پالنے سے پھر انسان روحانی سکون سے محروم ہوتا چلا جاتا ہے اور وہ پھر ڈیپرشن کا شکار ہوجاتا۔ بات کرلینی چاہیے بات کرنے سے بات بن جاتی ہے کیونکہ بات کرنے سے مزید باتیں کرنے اور سُننے کا موقع ملتا ہے یوں باتیں کرنے سے نفس مطمن ہوجاتا ہے۔ ہمارئے ایک بہت پیارئے دوست ہیں جاوید مصظفائی وہ میرئے سکول کے کلاس فیلو ہیں۔ وہ ہمیشہ خوش رہتے ہیں اللہ پاک نے اُن کو عزت سے نوازا ہوا ہے اور دُنیاوی رفعتیں عطا کی ہیں لیکن جاوید صاحب انتہائی مطمن انسان ہیں۔وہ بے شک دُنیاداروں کے چنگل میں پھنسے ہوں جو ہر وقت انا پرستی کا شکار ہوں وہ مطمن رہتے ہیں اُن کے اندر مال و دولت کی وجہ سے کوئی بے چینی پیدا نہیں ہوتی۔ اُن کے اندر رونا دھونا نہیں ہے ۔ مجھے جب بھی ڈیپریشن ہو، بے چینی ہو میں فوری طور پر جاوید صاحب سے فون پر بات کرلیتا ہوں مجھے سکون مل جاتا ہے۔ ہر کسی کا کوئی ایسا دوست ضرور ہونا چاہیے جس سے دل کی ہر بات کی جاسکے۔ 

NAAT RECITED BY HUZAIFA NOSHAHI , KLAM DR SHAHNAQZ MUZMIL

NAAT RECITED BY HUZAIFA NOSHAHI , KLAM DR SHAHNAQZ MUZMIL

NAAT RECITED BY HUZAIFA NOSHAHI , KLAM DR SHAHNAQZ MUZMIL

NAAT RECITED BY HUZAIFA NOSHAHI , KLAM DR SHAHNAQZ MUZMIL

NAAT RECITED BY HUZAIFA NOSHAHI , KLAM DR SHAHNAQZ MUZMIL

NAAT RECITED BY HUZAIFA NOSHAHI , KLAM DR SHAHNAQZ MUZMIL

NAAT RECITED BY HUZAIFA NOSHAHI , KLAM DR SHAHNAQZ MUZMIL

NAAT RECITED BY HUZAIFA NOSHAHI , KLAM DR SHAHNAQZ MUZMIL

NAAT RECITED BY HUZAIFA NOSHAHI , KLAM DR SHAHNAQZ MUZMIL

NAAT RECITED BY HUZAIFA NOSHAHI , KLAM DR SHAHNAQZ MUZMIL

Tuesday, 19 September 2017

2017SCMR-1194سپریم کورٹ کا منشیات کے مقدمے میں بیمار شخص کی ضمانت کے حوالے سے لینڈ مارک فیصلہ ................... صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی BAIL OF A ACCUSED BY SUPREME COURT WHO IS TRYING IN SPECIAL COURT



2017SCMR-1194سپریم کورٹ کا منشیات کے مقدمے میں بیمار شخص

کی ضمانت کے حوالے سے لینڈ مارک فیصلہ


صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی 
اِس آرٹیکل میں جس سپریم کورٹ کے فیصلے کی بابت تشریح و تو ضیع کی جارہی ہے اِس میں منشیات فروشی کے جرم میں ملوث ملزم کی ضمانت کی بابت اہم بحث کی گئی ہے اور فاضل جج صاحبان جناب جسٹس مشےئر عالم اور جناب جسٹس دوست محمد نے تاریخی حوالوں کے ساتھ فیصلہ صادر فرمایا ہے۔ اِس کیس کے فیصلے اور کیس کے محرکات کا جائزہ لینے کے بعد ہم منشیات کے کیس میں ٹرائل کورٹ کی ذمہ داریوں اور مناسب وقت پر ٹرائل مکمل نہ کیے جانے اور بیمار قیدی ملزم کی میڈیکل سہولیات کے حوالے سے سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔ اور دہشت گردی کی دفعات میں ضمانت لیے جانے کے کیس کو موضوع بحث بنایا گیا ہے۔ سپریم کورٹ کے اِس فیصلے میں سپریم کورٹ کے بنچ نے جو اصول اپنایا ہے جو کہ pollock c.b 1864 2H& C431 @515 میں اپنایا گیا ہے۔ اِس میں بحث کی گئی ہے کہ Statute کا مطلب کیاہے۔اور اِس میں اہم بات یہ ہے کہ اس کا کیا مطلب نہیں ہے۔اگر یہ واضع ہوجائے کہ اِسکا کیا مطلب ہے اور کیا مطلب نہیں ہے تب یہ فرض کیا جاسکتاہے کہ اس کا کیا مطلب ہے۔ اِس میں یہ واضع کیا جاتا ہے کہ اِس کا کیا مطلب ہے اور کیا مطلب نہیں ہے۔ لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بنچ کا 10-01-2017 کا آرڈر چیلنج کیا گیا ہے جس میں امتیاز احمد پٹیشنر کی درخواست ضمانت کوخارج کیا گیا ہے۔وہ درخواست ضمانت درخواست گزار نے Statutory Grounds پر ٹرائل میں تاخیر کی بنیاد پردائر کی تھی۔ اِس کیس کی تفصیلات کچھ یوں ہیں ہیں کہ انسپکٹر شکیل احمد نے اے این ایف کے سٹاف کے ہمراہ درخواست گزار امتیاز احمد اور اُس کے ساتھی عرفان علی( جو کہ اب مر چکا ہے) کو دو شاپنگ بیگ میں ہیروئین کے ساتھ پکڑا۔ اور ملزمان کی نشاندہی پر بھی مزید ہیروئین برآمد کی گئی۔ ٹوٹل وزن ہیروین کا 69 کلو گرام بنا جس کی ایف آئی آر نمبر 33/2014 پولیس اسٹیشن/RD ANF آر اے بازار راولپنڈی میں درج کی گئی۔ دونون ملزمان کا نام اِس ایف آئی آر میں بطور پارٹنر شامل تھا۔ درخواست گزار امتیاز احمد کے وکیل نے سپریم کورٹ کو دوران سماعت بتایاکہ ملزم کو جیل میں گئے ہوئے دو سال اور دس ماہ گزر گئے ہیں۔ ابھی تک ٹرائل مکمل نہیں ہوا۔ پراسکیوشن کے گواہان بھی نہیں آئے حتیٰ کے اُن کے ناقابل ضمانت سمن بھی عدالت نے جاری کیے ہیں۔ اِس کیس میں جو انوسٹی گیشن افسر ہے وہ شخص کسی اور کیس میں اشتہاری ہے۔ درخواست گزار کے وکیل نے عدالت عظمیٰ کی توجہ اِس جانب دلوائی کہ سپیشل کورٹ کی آرڈر شیٹس کو ملاحظہ کیا جائے ۔عرفان علی ملزم جیل میں قید تھا۔ وہ بیمار ہوا اُس کے علاج کے لیے عدالت میں بہت دفعہ در خواستیں دیں کہ عرفان علی کا علاج اچھے سرکاری ہسپتال سے کروانے کی اجازت دی جائے لیکن سپیشل کورٹ کے جج صاحب نے اِن درخواستوں کو نظر انداز کردیا ۔ آخر کار جب اُسے ایمرجنسی میں ہسپتال لے جایا گیا تو وہ وفات پاگیا ۔ اِسی طرح درخواست گزار ملزم امتیاز احمد کی آنکھوں کی سرجری ہوئی ہوئی ہے۔وہ اب کافی بیمار ہے اور اُس کی عمر بھی کافی ہے۔ لیکن ٹرائل کورٹ نے ابھی تک ٹرائل مکمل کیے جانے کے حوالے سے کوئی قابل عمل اقدامات نہیں کیے۔ جیل میں موجود قیدی جس کا ابھی ٹرائل مکمل نہ ہوا ہو اُس کی دیکھ بھال اُس کے صحت وغیرہ کے معاملات دیکھنا اُس جج کا فرض ہے جس کے پاس اُس کا ٹرائل چل رہا ہو۔اِس کیس میں سپیشل جج نے اپنی جان چھڑا کر جیل انتظامیہ کے سر ذمہ داری ڈال دی تھی۔حتیٰ کہ ہارڈینڈ
کریمنل کے بارئے میں بھی یہ دیکھا جاتا ہے کہ اگر وہ سیریس بیمار ہے اور اُ سے طبی امداد کی ضرورت ہے تو اُس کے لیے نرم رویہ رکھا جاتا ہے ۔تاہم یہ ضروری ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ ملزم کا جہاں علاج ہورہا ہو وہاں سیکورٹی کے انتظامات سخت کر دئیے جائیں۔اِس کیس میں بھی ملزم کافی بیمار ہے اُس کی آنکھ کی سرجری ہوچکی ہے اور وہ تین سال سے قید میں ہے۔سپیشل پراسیکوٹر آف اے این ایس نے عدالت کو بتایا کہ سیکشن اکیاون آف کنٹرول آف نارکوٹکس ایکٹ انیسوس ستانوئے نے ضمانت کی بابت واضع طور پر بتایا ہے۔اور 498,497Cr PCِٓ اِس میں نہ ہے۔ سیکشن CNSA51(1) جو ہے وہ سیکشن 497 (1) سے borrow کیا گیا ہے۔ اِس کے مطابق ضمانت نہیں لی جاسکتی بے شک سزا عمر قید ہو یا دس سال ہو۔اگرچہ قانون ساز اِس امر کی اہلیت رکھتے ہیں کہ وہ مختلف قسم کے جرائم کے حوالے سے سزائیں دینے کے قوانین کو بنائیں یہ سب کچھ وہ قانونی طور پر انتہائی اعلیٰ اخلاقی اقدار اور معقولیت کے انداز میں کرتے ہیں۔ ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں اور کیس لائز بھی بطور ریفرنس پیش کیے جاسکتے ہیں کہ جن میں یہ قرار دیا گیا ہے کہ سپیریر کورٹس نے ہمیشہ حتیٰ لامقدور کوشش کی ہے کہ شہریوں کی آزادی کا ضامن بن کر حفاظت کرئے۔اور ہمیشہ رہنمائی 497Crpc سے حاصل کی ہے کیونکہ اِس قانون کو Mother of Provision مانا جاتا ہے۔ایس کیسز جن کا ٹرائل Specail Courts میں ہونا ہوتا ہے اُن میں بھی ہر وقت کردار ادا کیا ہے۔آئین پاکستان کے آرٹیکل سات اور نو مجریہ انیسو تہتر کے تحت کسی بھی شہری کی آزادی پر قدغن نہیں لگائی جاسکتی اور نہ ہی کسی ملزم کو بغیر کسی عدالت کی اجازت حاصل کیے نظر بند کیا جاسکتا ہے۔ قراردادِ مقاصد جو کہ اب آئین کے آڑٹیکل 2-A کا حصہ بن چکی ہے جس میں یہ قرار دیا گیا ہے کہ پاکستان فلاحی ریاست ہوگی۔ اِس لیے سیکشن اکیاون آف سی این ایس اے کے تحت جاکر دیکھنا ہوگا کہ کچھ مستثنیات ہو سکتی ہیں۔متزکرہ بالا حوالے سے پہلا ٹسٹ کیس جو اِس عدالت کے سامنے پیش ہوا وہ مشہور کیس الائیڈ بنک بنام خالد فاروق اور محمد اسلم بنام سرکار جس میں تین رکنی بنچ نے مختلف view رکھا۔ بعد ازاں قابل احترام چیف جسٹس آف پاکستان نے اِس معاملے کے حال کے لیے ایک لارجر بنچ تشکیل دیاتھا جس نے دہشت گردی کی شقوں کے حوالے سے کیس جس میں چھبیس افراد قتل ہوئے تھے۔اس کیس کا مرکزی ملزم قائم علی شاہ بیمار تھا تو اُس کی ضمانت کے لیے497 Crprc کی پہلی provisio کو پریس کرتے ہوئے حالانکہ یہ بار بھی تھا کہ اُس جرم کی ضمانت نہ لی جائے جو کہ specail T A Act1975 میں درج ہے َ پانچ رُکنی بنچ نے سید قائم علی شاہ کیس میں ضمانت لیے جانے کے اختیار کے سوال پر جو singel point of law اُٹھایا۔وہ درج ذیل ہے کیا ایسا شخص جس کا ٹرائل ہو رہا اور اُس کی497(1) کیgrounds کے تحت ضمانت لی جاسکتی ہے۔ اِس سپریم کورٹ کے فیصلے میں سپریم کورٹ کے بنچ نے وہ اصول اپنایا ہے جو کہ pollock c.b 1864 2H& C431 @515 میں اپنایا گیا ہے۔ اِس میں بحث کی گئی ہے کہ Statute کا مطلب کیاہے۔اور اِس میں اہم بات یہ ہے کہ اس کا کیا مطلب نہیں ہے۔اگر یہ واضع ہوجائے کہ اِسکا کیا مطلب ہے اور کیا مطلب نہیں ہے تب یہ فرض کیا جاسکتاہے کہ اس کا کیا مطلب ہے۔ اِس میں یہ واضع کیا جاتا ہے کہ اِس کا کیا مطلب ہے اور کیا مطلب نہیں ہے۔ یوں متذکرہ بالا مقدمہ امتیاز احمد بنام سرکار میں ضمانت لے لی گئی

Sunday, 3 September 2017

دوست اور خوف By صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی

دوست اور خوف

صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی
نفسیات کی ایک ریسرچ بتاتی ہے کہ انسان جن خدشات میں مبتلا ہوتا ہے اُن میں سے 99% غلط ہوتے ہوتے ہیں۔ ایک فی صد خدشات ویسے ہی اِن سے کوئی نقصان نہیں ہوتا ہے۔زندگی کے آغاز سے خاتمے تک خواہشات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری رہتا ہے۔عمر کے ساتھ ساتھ خواہشات بڑھتی چلی جاتی ہیں اور یوں خوف کا سلسلہ بھی دراز ہوتا چلا جاتا ہے۔جتنی زیادہ خواہشات ہم پالتے ہیں اُتنا ہی زیادہ کواف ہمیں آن گھیرتا ہے۔خوف تجربات کے بعد بھی پیدا ہوتا ہے کوف نظام کی خرابیوں کی وجہ سے بھی پیدا ہوتا ہے۔خوف کسی شے کوپانے کے بعد چھن جانے کے ڈر کی وجہ سے بھی پیدا ہوتا ہے۔جیسے بیمہ کمپنی والا خوف بیچتا ہے اور اِس کے بدلے اِس کی پالیسی بکتی ہے۔لیکن دوسری طرف اللہ پاک فرماتا ہے کہ تم میرئے بندئے بن جاؤ اور پھر لاخوف ہوجاؤ۔اَلاَ اِنَّ اَوْلِیَاءَ اللّٰہِ لاَ خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلاَ ھُمْ یَحْزَنُوْنَ(یونس آیت۲۶)ترجمہ خبردار! بے شک اللہ تعالیٰ کے ولیوں پر نہ کچھ خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہونگے۔ اللہ تعالیٰ نے نماز‘ روزہ‘ حج‘ زکواۃ کے تمام مسائل بیان فرمائے لیکن کہیں لفظ ’’الا‘‘ نہیں فرمایا مگر جس وقت اولیاء کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کا ذکر آیا تو لفظ’’الا‘‘ ابتداء میں لایا کیونکہ ہمارے ظاہراً معاملات رہن سہن میں ہمیں پتہ نہیں چلتا کہ کون اللہ تعالیٰ کا ولی ہے اور کون نہیں۔ باوجود اس اختلاط کے ان حضرات کا وہ مرتبہ ہے کہ لَوْاَقْسَمَ عَلَی اللّٰہِ لَاَبَرَّہٗ ۔ترجمہ* اگر وہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر قسم کھائیں تو اللہ تعالیٰ انہیں پورا کرتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایامَنْ عَادٰی لِیْ وَلِیَّا فَقَدْاٰذَنْتُہٗ بِالْحَرْبِ(بخاری شریف ج ۲ ص ۳۶۹)ترجمہ جس نے میرے ولی کے ساتھ عداوت رکھی اس کے ساتھ میرا اعلان جنگ ہے ۔معلوم ہوا یہ وہ نفوس قدسیہ ہیں کہ جنکے گستاخوں کیساتھ اللہ تعالیٰ اعلان جنگ فرمارہاہے اور جنکے ساتھ اللہ تعالیٰ اعلان جنگ کرے وہ کبھی بھی نجات نہیں پاسکتا۔ اب ہمیں اَلاَ اِنَّ اَوْلِیَاءَ اللّٰہِ لاَ خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلاَ ھُمْ یَحْزَنُوْنَ(یونس آیت۲۶) کا مطلب سمجھنا ضروری ہے۔کیا ان حضرات کو دنیا اور آخرت کا خوف نہیں؟ اگر کہیں کہ دنیا میں خوف نہیں تو یہ بھی غلط ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرمایا کہ ’’اَلْقِھَا یٰا مُوْسٰی‘‘ یعنی اے موسی ٰاپنے عصا کو پھینکو۔ جب عصا کو پھینکا تو وہ ایک اژدھا بن گیا۔ جس سے حضرت موسی علیہ السلام ڈر گئے۔(کیونکہ یہ عصا اللہ تعالیٰ کے جلال کا مظہر تھا) تو اللہ تعالیٰ نے فرمایاخُذْھَا وَلاَ تَخَفْ(ظہ آیت۱۲)ترجمہ اے موسی! خوف مت کرو اسکو پکڑ لو۔ معلوم ہوا دنیا میں انبیاء کو خوف تھا اور وہ بھی مخلوق کا۔ کیونکہ اژدھا مخلوق ہے خالق نہیں۔ جب انبیاء کو اس دنیا میں مخلوق کا خوف ہے تو اولیاء کو بھی ضرور ہوگا کیونکہ انبیاء میں جہاں تک ولایت کا منصب نہ آئے نبوت کی تکمیل نہیں ہوسکتی اگر کہیں کہ آخرت میں خوف نہیں تو یہ بھی غلط ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قیامت کے دن کے متعلق فرمایا یَوْمَ یَجْمَعُ اللّٰہُ الرُّسُلَ فَیَقُوْلُ مَاذَا اُجِبْتُمْ(ماہدہ آیت۹۰۱)ترجمہ جس دن اللہ تعالیٰ جمع فرمائے گا رسولوں کو پھر فرمائے گا تمہیں کیاجواب ملا۔یعنی اللہ تعالیٰ قیامت کے دن رسولوں کو جمع کرکے فرمائیگا کہ تم اپنی امت سے کیاجواب دیئے گئے تو رسول کہیں گے ۔قَالُوْا لاَعِلْمَ لَنَا(ماہدہ آیت۹۰۱)ترجمہ اے ہمارے مولا! ہمیں کوئی علم نہیں۔حالانکہ انکو علم ہے کہ واقعی ہم نے دنیا میں جاکر دعوت دی پھر بھی کہیں گے ہمیں علم نہیں۔ کیوں؟ وجہ یہ ہے کہ اس دن اللہ تعالیٰ کے جلال کا ظہور ہوگا اسی طرح عصا اللہ تعالیٰ کے جلال کا مظہر تھا اور بیبت اور رعب چھا جائے گا۔ تو اس جلال کو دیکھ کررسل کرام علیہم السلام کہیں گئے کہ لاَ عِلْمَ لَنَا ۔ترجمہ ہمیں علم نہیں۔* یعنی ہمارا علم تیرے علم کے سامنے کالعدم ہے۔ تو جب ’’رسل‘‘ خوف سے یہ کہیں گے تو اولیاء اللہ پر بھی ضرور خوف ہوگا۔ اگر یہ کہیں کہ خالق کا خوف نہیں تو یہ بھی غلط ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ جَنَّتٰنِ(الرحمن آیت۶۴)ترجمہ* اور جو اپنے رب کے سامنے پیش ہونے کا خوف رکھتا ہو اس کیلئے دو جنتیں ہیں۔ یعنی جس نے اللہ تعالیٰ سے خوف کیا اس کیلئے دو جنتیں ہیں معلوم ہوا اللہ تعالیٰ کا خوف بھی ضروری ہے لہذا معنی یہ ہوگا کہ اولیاء اللہ کو خوف’’ضرر‘‘ نہیں ہوگا بلکہ خوف نفع ہوگا۔خوف ضرر اور خوف نفع کا فرق۔* خوف دو قسم کا ہے ایک خوف ضرر اور دوسرا خوف نفع۔ جو خوف منتج بر ضرر ہے وہ اللہ تعالیٰ اپنے دشمنوں کو دیتا ہے اور جو خوف منتج برنفع ہے وہ اپنے دوستوں کو دیتا ہے اور یہ خوف(خوف نفع) باری تعالیٰ کے قرب اور معرفت کا نتیجہ ہے اور اللہ تعالیٰ کی معرفت انسان کا مقصد حیات ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ(سورہ الذاریات) اور معرفت سے کوئی عبادت زائد ہو ہی نہیں سکتی۔ بلکہ عبادت معرفت کاہی نام ہے۔ جتنی معرفت زیادہ ہوگی اتنی محبت زیادہ ہوگی اور جتنی محبت زیادہ ہوگی اتنا قرب زیادہ ہوگا اور جتنا قرب زیادہ ہوگا اتنا خوف زیادہ ہوگا۔ لہذا جتنی معرفت زیادہ ہوگی اتنا خوف زیادہ ہوگا اسلئے حضور اکرم ﷺ نے فرمایا۔اِنَّ اَتْقَاکُمْ وَ اَعْلَمَکُمْ بِاللّٰہِ اَنَا(بخاری ص ۷)ترجمہ* میں تم میں سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنیوالا اور اللہ کی معرفت والا ہوں۔ بہرکیف خوف نفع انبیاء و اولیاء کو ضرور ہے اور خوف ضرر۔ ان حضرات کو نہ اس دنیا میں ہے اور نہ آخرت میں۔ اولیاء ولی کی جمع ہے اور ولی صفت مشبہ ہے۔ ولی اللہ تعالیٰ کا محب ہے اور محبت کے بھی منازل ہوتے ہیں جتنی محبت زیادہ ہوگی اتنا ہی ولایت کا مرتبہ بلند ہوگا۔ ولی خدا کا عبد کامل اور محبوب کامل ہوتا ہے۔ ولی کے حق میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ حدیث قدسی ہے۔لَایَزَاٰنُ عَبْدِ یْ یَتَقَرَّبُ اِلَیَّ بِالنَّوَافِلِ حَتّٰی اَحْبَبْتُہٗ فَاِذَا اَحْبَبْتُہٗ فَکُنْتُ سَمْعَہُ الَّذِیْ یَسْمَعُ بِہٖ وَبَصَرَہُ الَّذِیْ یُبْصِرَبِہٖ وَیَدَہُ الَّتِیْ یَبْطِشُ بِھَا وَرِجْلَہُ الَّتِیْ یَمْشِیْ بِھَا(بخاری شریف ص ۲۶۹ ج ۲) یعنی نوافل سے اتنا قرب
حاصل ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسکے کان ہوجاتا ہے جس سے وہ سنتا ہے اور وہ اسکی آنکھ ہوجاتا ہے جس سے وہ دیکھتا ہے اورہاتھ ہوجاتا ہے جس سے وہ پکڑتا ہے اور اسکے پاؤں ہوجاتا ہے جس سے وہ چلتا ہے۔ اسکا مطلب یہ نہیں کہ انسان خدا بن جاتا ہے یا خدا انسان میں حلول فرماتا ہے اگر مانیں کہ انسان خدا ہوگیا تو کفر آئیگا اور اگرمانیں کہ انسان میں خدا حلول کرگیا تو شرک آئیگا تو اس حدیث مقدسی کے یہ معنی نہیں بلکہ یہ معنی ہیں کہ وہ مظہر خداہوگیا ہے۔ ایسا ہی جیسا کہ سورج کے سامنے آئینہ رکھ دیں تو وہ سورج آئینہ میں نظر آئیگا تو یہاں نہ سورج آئینہ میں آیا اور نہ سورج آئینہ بنا بلکہ آئینہ مظہر شمس بنا۔ اسیطرح ہزارہا آئینے سورج کے سامنے رکھ دیں تو سورج تمام میں نظر آئیگا تو وہ تمام آئینے مظہر شمس ہونگے۔ اسطرح بندہ بھی نوافل کے ذریعے اتنا قرب حاصل کرلیتا ہے کہ مظہر خدا بن جاتا ہے بعض لوگوں نے اس حدیث کا مطلب یوں بیان کیا ہے کہ اسکا سننا‘ دیکھنا‘پکڑنا‘ چلنا خدا کی رضا کے بغیر اور خلاف شرع نہیں ہوگا جو کچھ بھی وہ کرتا ہے خدا کی رضا کے مطابق کرتا ہے۔ اسکا یہ مطلب صحیح نہیں اسلئے کہ حدیث میں ہے۔حَتّٰی اَحْبَبْتُہٗ فَاِذَا اَحْبَبْتُہٗ فَکُنْتُ سَمْعَہٗ الخ۔ اس بندہ کو محبوب بنالیتا ہوں محبوب بنانیکے بعد میں اسکی سمع و بصر وغیرہ ہوتا ہوں۔ اسکا یہ معنی ہرگز نہیں ہوسکتا کہ محبوب بنانے کے بعد وہ خلاف شرع کام نہیں کرتا۔ قول و فعل خلاف شرع نہ کرنیکے بعد تو وہ محبوب بنتا ہے۔ پہلے محبوب بنے پھر خلاف شرع کام نہ کرے کیسے ممکن ہے؟ بلکہ وہ پہلے بھی اور بعد میں بھی خلاف شرع کام نہیں کرتا۔ اگر مان لیں کہ وہ بندہ گناہ بھی کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کا محبوب بھی ہوجاتا ہے اور پھر وہ خلاف شرع کام نہیں کرتا تو لازم آئیگا کہ اللہ معاذ اللہ برائیوں کو پسند کرتا ہے اور جو چیز اللہ تعالیٰ کی پسند ہو وہ معصیت نہیں ہوسکتی لہذا نتیجہ نکلے گا کہ دنیا میں تمام انسان معصیت کرتے رہیں۔ اگر یہ مطلب لیں تو تمام انبیا و رسل کا تشریف لانا معاذ اللہ عبث ہوگا۔ حالانکہ انبیاء ورسل تو معصیت سے بچانے کیلئے آئے ہیں تو معلوم ہوا معصیت سے کوئی محبوب نہیں ہوتا اسلئے انبیاء و رسل کا تشریف لانا عبث نہیں لہذا ماننا پڑے گا کہ جب تک بندہ برائیوں سے باز نہ آئے خدا کا محبوب ہو ہی نہیں سکتا۔* اب اس حدیث قدسی کا مطلب یہ ہوگا کہ جسکو امام فخری رازی نے اپنی شہرہ آفاق تفسیر میں ذکر فرمایا ہے امام رازی کی عبارت کا خلاصہ یہ ہے کہ جب کوئی بندہ نیکیوں پر ہمیشگی اختیار کرلیتا ہے تو اس مقام تک پہنچ جاتا ہے جسکے متعلق اللہ تعالیٰ نے کُنْتُ لَہٗ سَمْعًا وَ بَصَرًا فرمایا ہے جب اللہ تعالیٰ کے جلال کا نور اسکی سمع و بصر ہوجاتا ہے تووہ دور و نزدیک کی چیزوں کو سن لیتا اور دیکھ لیتا ہے زندگی میں سے خوف کو بھگائیں اور رب پر بھروسہ کرنا سیکھیں۔