Monday, 18 December 2017

وراثتی حق کے زائد المعیاد ہونے کی بابت لاہور ہائی کورٹ کی تشریح ...............صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ ہائی کورٹ





وراثتی حق کے زائد المعیاد ہونے کی بابت لاہور ہائی کورٹ کی تشریح

صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ ہائی کورٹ

لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس مسٹر جسٹس خالد محمود خان نے 2016YLR383 کے مطابق وراثت کے حوالے سے ایک لینڈ مارک فیصلہ کیا۔ مقدمے کا عنوان محمد صدیق وغیرہ بنام مسماۃ عائشہ بی بی ہے جس کا فیصلہ 2017/2002 نمبر Civil Revision میں کیا۔ صدیق اور مریم بی بی کی وراثتی زمین تھی جو اُن کے والد شگتا اور والدہ راجی کی جانب سے تھی۔ یہ وراثتی زمین د و د یہات میں تھی ۔ چک نمبر 23 بوپال تحصیل پتوکی اور بونگہ سوڈی وال تحصیل دیپالپور ۔ دعویٰ میں وراثتی زمین کی تفصیلات مو جود ہیں۔ انتقال زمین کے مطابق مسماۃ مریم کے حق میں 230 اور 269 نمبر انتقال دونوں دیہات میں ہوا۔ مسماۃ مریم اپنے پیچھے ایک بیٹا منشاء اور دوبیٹاں اور خاوند رمضان کو وارث چھوڑ کی فوت ہوئی۔ منشاء 20-9-1986 کو وفات پاء گیا۔ ریسپانڈنٹس مسماۃ عائشہ بی بی وغیرہ منشاء کے قانونی وارث ہیں۔ یہ لوگ گاؤں سوڈی وال میں رہتے تھے۔ اور یہ لوگ کبھی بھی چک نمبر 23 تحصیل پتوکی نہیں گئے۔رمضان بھی بونگہ سوڈی وال کا رہائشی ہے۔ 
ریسپانڈنٹس نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ اُن کی والدہ مریم جو زمین چک نمبر 23 تحصیل پتوکی میں ہماری وراثت کے طور پر چھوڑ کر فوت ہوئی اُس میں سے اِن کو اُنکا وراثتی حصہ نہیں ملا۔ مریم بی بی چک نمبر23 تحصیل پتوکی میں1957 میں وفات پاء گئی۔چک نمبر 23 تحصیل پتوکی والی وراثتی زمین کے متعلق حقیقت اِن کے سامنے کبھی بھی نہ آئی اور نہ ہی ریسپونڈنٹس کے علم میں تھا کہ وہاں اِن کی وراثتی زمین ہے۔ اِن کے نانا محمد صدیق جو کہ پٹیشنر نمبر ایک ہے نے زمین اپنے دوبیٹوں خالد علی اور ظارق علی کے نام ٹرانسفر کردی۔ دعویٰ دائر کرنے سے کچھ روز پہلے رسپونڈنٹس کو بشیر احمد ولد حکیم عطا ء سے معلوم ہوا کہ کہ چک نمبر23 تحصیل پتوکی میں مریم بی بی کی وراثتی زمین ہے۔رسپونڈنٹس نے اپنے طور پر چک نمبر23 تحصیل پتوکی جا کر حقائق معلوم کیے۔اور یہ دعویٰ دائر کر دیا۔
پٹیشنرز نے کیس لڑا اور عدالت میں جاکر یہ کلیم کیا کہ مرحومہ مریم بی بی کی کوئی اولاد نہ تھی اور یہ کہ ریسپاونڈنٹس نمبر سات اور آٹھ مریم کی بیٹیاں نہیں ہیں اور نہ ہی ریسپاونڈنٹس نمبر ایک سے چھ تک قانونی ورثان ہیں۔ فریقین نے عدالت میں اپنا اپنا جو موقف عدالت میں جمع کروایا تھا۔ اُس کی بنیاد پر عدالت نے مندرجہ ذیل ایشو فریم کیے۔ 
1 ( آیا کہ دعویٰ جو کہ دائر کیا گیا ہے وہ جھوٹا ہے اور اِس کو خارج کر دینا چاہیے؟۔
2 ( کیا دعویٰ زائد المعیاد ہے؟
3) آیا کہ مدعیان نے مُدعا علیہان کو صرف ہراساں کرنے کے لیے دعویٰ دائر کیا ہے اور مدعیان آیا کہ سیکشن35-A , سول پروسجر کوڈ ( CPC) کے تحت ہرجانہ وصول کرنے کے حق دار ہیں یا نہیں؟
(4 آیا کہ مُدعیان نے وجہ کے دعویٰ دائر کیا۔ آیا کہ اُن کو اِس دعویٰ کو دائر کرنے کا حق نہ تھا؟
(5 آیا کہ اراضی انتقال نمبر 329 مورخہ8-1957 20- جس کا تعلق مسماۃ مریم بی بی چک نمبر 23
بوپال سے ہے اور موجودہ انتقال اراضی نمبر 139 مورخہ 24-5-1958 گاؤں بونگہ سوڈی وال تحصیل دیپالپور ضلع اوکاڑی جھوٹی ہیں اور حقائق کے منافی ہیں؟
6 ( کیا مریم بی بی کو 26 کنال اور19 مرلے زمین کا مالک بمطابق ا نتقال نمبر 230 قرار دیا گیا تھا اور انتقال نمبر 269 سے زمین ایک کنال ا ور اٹھارہ میں سے ہے چار مرلے کا مالک قرار دیا گیا تھا۔ 
(7 کیا انتقالِ اراضی نمبر 329 مورخہ20-8-1957 کو غلطی سے الاٹ ہوا
8 ) کیا مدعیان کو ڈگری ملنی چاہیے جس ڈگری کی انھوں نے عدالت سے استدعا کی ہے۔ 
دونوں پارٹیوں نے اپنی اپنی دستاویزی اور زبانی شہادتیں کروایں۔ ٹرائل کورٹ نے29-03-2000 کو دعویٰ خارج کرنے کا حکم صادر کردیا۔ ٹرائل کورٹ نے فیصلہ اِس بنیاد پر دیا کہ کہ یہ دعویٰ زائد المعیاد ہے۔ 
بعد ازاں ٹرائل کورٹ کے فیصلے کے خلاف ڈسٹرکٹ کورٹ میں اپیل دائر کی گئی ۔ اپیلٹ کورٹ نے 2-7-2002 کو دعویٰ ڈگری کر دیا موجود ہ پٹینشرز اِس کیس کے خلاف سول نگرانی میں لاہور ہائی کورٹ دعویٰ لائے۔ پٹیشنرز کے وکیل صاحب نے اپنے دلائل میں کہا کہ ڈگری جو ریسپونڈنٹس کے حق میں ہوئی ہے یہ اِس وجہ سے ہے کہ عدالت نے کیس درست طور پر نہیں پڑھا۔انتقال اراضی والا معاملہ پٹیشنر کے حق میں تھا اور یہ بات منشا کو معلوم تھی۔اِس کے باجود Suit Land کے معاملے کو کبھی بھی چیلنج نہیں کیا۔اپیلٹ کورٹ اِس اہم نکتے کو سمجھنے میں نا کام رہی اور دعویٰ ڈگری کر دیا۔فاضل وکیل نے اپنی بات پر زور دئے کر کہا کہ وراثت میںWaiver اور Acquiescence لاگو ہوتا ہے۔
ریسپونڈنٹس کے وکیل نے اپنے دلائل میں کہا کہ یہ فیصلہ اور ڈگری درست ہے۔ ٹرائل کورٹ نے فیصلہ صرف زائد المعیاد کی بنیاد پر دیا تھا۔ اور انتقال اراضی غیر قانونی ہے اِس بابت کچھ نہ کہا ہے۔اراضی کے انتقال کے حوالے سے ٹرائل کورٹ کا فیصلہ فائنل حثیت کا حامل ہے۔ وراثت میںLimitation کا اطلاق نہیں ہوتا۔ جب ریسپونڈنٹس کے علم میں آیا کہ پٹیشنرز نے اُن کے خلاف فراڈ کیا ہے تو ریسپونڈنٹس نے انتقال اراضی کے فراڈ کو عدالت میں چیلنج کر دیا۔ فاضل وکیل نے PLJ2011SC44 اور2000YLR 621 کا حوالہ دیا۔ لاہور ہائی کورٹ نے دونوں کی جانب کے دلائل سُنے۔
فاضل جج لاہور ہائی کورٹ مسٹر جسٹس جناب خالد محمود خان نے فیصلے میں لکھا کہ مسلم وراثتی قانون کو زائد المیعاد ہونے کی بناء پر کسی صورت بھی مسترد نہیں کیا جاسکتا۔ اسلام کا حق وراثت کا قانون اللہ پاک کا دیا ہوا قانون ہے۔اِس لیے اسلام کے حق وراثت کے قانون کو انسانوں کے بنائے ہوئے قانون پر فوقیت حاصل ہے۔ 
"It is settled law that right of succession of Muslim cannot be defeated by law of limitation, the islamic law of succession is divine law and has a 
preference on man made law. " 
جب جا ئیداد کا ملک فوت ہوتا ہے تو اُس وقت فوت ہونے والے کی وراثت کھل جاتی ہے۔اور جیسے ہی جائیداد کا مالک فوت ہوتا ہے تو اُس وقت اُس کے وارثان اُس کی چھوڑی ہوئی جائیداد کے اپنے اپنے مخصوص حصے کے مالک بن جاتے ہیں۔جس زمین پر جھگڑا ہے اُس کا انتقال اِس بناء پر کیا گیا تھا کہ مریم بی بی کی کوئی اولاد نہ ہے۔ یہ بات غلط ثابت ہوئی ۔ جبکہ مریم بی بی کے وارثان میں اُس کی دو بیٹیاں ایک بیٹا اور خاوند شامل تھے جو کے سوڈی وال میں تھے۔ پٹیشنرز نے فراڈ سے انتقال اراضی کروایا تھا۔ اراضی کے انتقال کی Limitation ، اُس دن شروع ہوتی ہے جس دن فراڈ کا ریسپونڈنٹس کو پتہ چلا۔ اِس بات پر ریسپونڈٹنس زور دے کر کہ چکے ہیں کہ دعویٰ دائر کرنے سے چند روز پہلے اُنھیں پتہ چلا اِس کا مطلب یہ ہے کہ یہ دعویٰ معیاد کے اندر ہی ہے۔ یہ مسلمہ اصول ہے کہ فراڈ تمام ایسے اقدامات کو ختم کردیتا ہے جو اپنے طور پر درست بھی کیے ہوتے ہیں۔ اِس تمام بحث کا حاصل یہ ہے کہ پٹشنرز ڈگری ہونے کے حوالے سے کسی قسم کے بھی غیر قانونی اقدام کو ثابت نہیں کر سکا۔ اِس لیے پٹینشرز کی سول نگرانی کو خاج کیا جاتا ہے۔ 

Thursday, 14 December 2017

Article on Custody of Minor in the ligh of High Courts and Suprem Court of Pakistan. by Ashraf asmi گارڈین کورٹ سے نابالغ/ نابالغہ کی عارضی و مستقل حوالگی کا پاکستانی قانون اور اعلیٰ عدلیہ کے فیصلہ جات صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ ہائی کورٹ





   
                        گارڈین کورٹ سے نابالغ/ نابالغہ کی عارضی و مستقل حوالگی

  کا پاکستانی قانون اور

اعلیٰ عدلیہ کے فیصلہ جات

صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ ہائی کورٹ                         
 پاکستان جسے حاصل ہی اِس مقصد کے لیے کیا گیا تھا کہ اِس ملک میں نبی پاکﷺ کا لایا ہوا نظام نافذ کیا جائے گا۔ لیکن حضرت قائد اعظمؒ کے وصال کے بعد قوم کی قیادت بھیڑیا صفت حکمران اشرافیہ کے پاس چلی گئی یوں نظام مصطفےٰﷺ کا نفاذ نہ ہو سکا۔ بلکہ اِس ملک کے حکمران اپنے بیرونی آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے قران و حدیث سے متصادم قوانین بھی بناتے رہے اور ابھی تک یہ سلسلہ جاری ہے۔ سود کے حوالے سے حکومت نے اپیل دائر کر رکھی ہے۔ ناموس رسالت ﷺ اور نبی پاکﷺ کی ختم نبوت کے حوالے سے بنائے ہو ئے قوانین سے یہی حکمران طبقہ چھیڑ چھاڑ کرتا رہتا ہے۔ عدالتوں کا نظام اِتنا گھسا پٹا ہے کہ ٹرائل کورٹ سے سپریم کورٹ تک انصاف لینے کے لیے تقریباً چالیس سال صرف ہوجاتے ہیں۔ انگریز کی جانب سے قائم کردہ نظام انصاف کا بھی دھڑن تختہ ہو گیا۔ کلمہ طیبہ کی بنیاد پر بننے والے ملک میں کرپشن ،مادیت سے محبت نے اِس طرح ڈیرئے ڈالے ہیں کہ خدا کی پناہ۔ رشوت سفارش بد دیانتی لوٹ مار کے کلچر نے معاشرئے سے امن و سکون چھین لیا۔ پوری دُنیا میں جس معاشرتی نظام اور والدین کے عزت و احترام کے حامل بنیادی یونٹ گھر کی مشالیں دی جاتی تھیں۔ وہ نظام کرپشن لوٹ مار کی کمائی،موبائل فون اور انٹرنیٹ کے استعمال سے پیدا ہونے والی بے راروی کی بھینت چڑھ گیا۔ گھر سے بھاگ کر شادی کرنے کا رحجان اور پھر طلاقوں کی شرح میں اوسان خطا کر دینے والا اضافہ اور پھر اِسی تسلسل کا شاخسانہ کے ماں باپ کی علحیدگی کے سبب بچوں کی حوالگی اور اُن کی پروش کے معاملات۔ سب کچھ تو بکھرکر رہ گیا۔ لو میرج میں اضافے کی وجہ سے طلاقیں بھی بہت تیز رفتار ہو گئی ہیں۔اور یوں گھریلو ناچاقیوں کا سارا وزن بے چارئے نابالغ بچوں پر آ پڑا ہے۔ ماں باپ کی علحیدگی سے بچوں پر جو مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں اُن اثرات میں کمی کرنے کے لیے اِس ملک کا بوسیدہ نظام انصاف جہاں آئے روز ہڑتالیں ہوتی ہیں جہاں انصاف بکتا ہے جہاں ایک ایک جج کے پاس روزانہ کی بنیاد پر دو دو سو کیس زیر سماعت ہوتے ہیں کیسے انصاف فراہم کیا جاسکتا ہے۔ زیر نظر آرٹیکل پاکستان میں مروجہ قانونِ گارڈین اینڈ وارڈ ایکٹ کے تحت نا بالغ/ نا بالغہ کی ماں یا باپ یا کسی اور شخص کو حوالگی کے حوالے سے لکھا گیا ہے۔ اِس آرٹیکل میں ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلہ جات کو بیان کیا گیا ہے کہ کس طرح والدین علحیدگی کے بعد بچوں کی گارڈین شپ حاصل کرسکتے ہیں۔ اِس آرٹیکل میں گارڈین اینڈ وارڈ ایکٹ 1890 کے سیکشن 12 اور سیکشن 25 کے حوالے سے بچی یا بچے کی عارضی و مستقل حوالگی کے حوالے سے پاکستانی قوانین اور اعلیٰ عدلیہ کے فیصلہ جات کا حوالہ پیش خدمت ہے۔
عدالت کسی بھی شخص کو یہ حکم دئے سکتی ہے کہ کہ اگر نابالغ بچہ یا بچی اُس کے پاس ہیں تو اُسے عدالت میں پیش کرئے یا اُس کے حوالے کرئے جس کو گارڈین کورٹ نے گارڈین مقرر کیا ہے۔ 200YLR 2215 کے مطابق گارڈین اینڈ وارڈ ایکٹ کے سیکشن 12 گارڈین گارڈین کورٹ کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ کسی بھی شخص جس کے پاس نابالغ بچہ یا بچی ہے ۔ اُسے عدالت کے سامنے پیش کرئے یا اُس شخص کے سامنے جس کو عدالت نے اِس مقصد کے لیے مقرر کیا ہو۔ عدالت عاضی طور پر نابالغ بچہ یا بچی کی حضانت/ حوالگی جسے بہتر سمجھے کر سکتی ہے۔ اگر نابالغ بچی ہے تو اُسے اخلاقی اقدار اور معاشرئے کی رسم و رواج کے مطابق عزت وا حترام کے ساتھ عدالت میں پیش کیا جائے۔ سب سیکشن 3 عدالت کو اِس بات سے منع کرتا ہے کہ وہ نابالغ بچی کی حضانت/ حوالگی کسی ایسے شخص کو کر دئے جو یہ دعویٰ کرتا ہو کہ وہ اِس کاخاوند ہے جب تک کہ نابالغہ کے والدین نے اپنی رضا مندی سے اُسے اُس کے حوالے نہ کیا ہو۔ سیکشن 12 گارڈین اینڈ وارڈ ایکٹ کا دائرہ اختیار وارنٹ جاری کرنے سے بھی زیادہ کا ہے اِس سیکشن کو آزادی کے ساتھ اور نابالغ بچہ یا بچی کی بہتری کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے۔ نابالغ بچہ یا بچی کی حضانت/ حوالگی کے حوالے سے کسی تکنیکی بنیاد کو ملحوظِ خاطر رکھے بغیر نابالغ بچہ یا بچی کی حضانت/ حوالگی صرف اور صرف اپس کی فلاح و بہبود کو مدنظر رکھ کر کی جائے۔
1980CLC 1027 کے مطابق نابالغ بچہ یا بچی کی حضانت/ حوالگی کا جو معیار ہے وہ صرف اور صرف یہ ہے کہ نابالغ بچہ یا بچی کی فلاح و بہبود کو مدِ نظر رکھا جائے۔ والدین کے حقوق کو بھی دیکھنا چاہیے لیکن اُس کے باوجود معیار صرف اور صرف نابالغ بچہ یا بچی کی فلاح و بہبود ہو۔
1974 SCMR 96 کے مطابق سپریم کورٹ نے یہ قرار دیا ہے کہ سیکشن 12 گارڈین اینڈ وارڈ ایکٹ کے تحت کیس کا فیصلہ کرتے وقت عدالت کو بچے یا بچی کی جنس ، عمر اور درخواست گزار کا مطمع نظر مد نظر رکھانا چاہیے۔ دودھ پیتے بچے کی ماں کو سیکشن بارہ کے تحت عارضی حوالگی کے فیصلے کو سپریم کورٹ نے بحال رکھا کیونکہ گارڈین کورٹ نے بچے کی مستقل حوالگی کے حوالے سے سیکشن 25گارڈین ایند وارڈ ایکٹ کے تحت ابھی کرنا ہے۔
PLD 1973 Lah. 442 کے مطابق لاہور ہائی کورٹ نے یہ قرار دیا کہ عدالت کے سامنے ایسے کیسیز بھی آتے ہیں کہ جس میں
عدالت یہ سمجھتی ہے کہ ہر کیس کی سماعت کے دوران نابا لغ یا نابالغہ کی حوالگی تبدیل نہ کی تو بچے یا بچی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے جس شخص کے پاس نابالغ بچہ یا بچی کی حوالگی ہے اگر اُس کی جانب سے اُسے نظر انداز کرنے یا اُس کی لاپروائی سے وہ نابالغ یا نابالغہ معاشرئے میں بدنام ہورہے ہوں یا وہ نابالغ یا نابالغہ بُرئے کردار کا حامل بن رہے ہوں یا پھر نابا لغ یا نابالغہ شدید بیمار ہوجائیں اور اُنھیں بہتر طبی سہولیات میسر نہ آرہی ہوں اِس کے باجود کہ وہ نابا لغ یا نابالغہ مالی طور پر خودمختار ہوں تو اِن حالات میں جب اُس کی تعلیم یاجائیداد کی دیکھ بھال درست نہ کی جارہی ہو تو عدالت نابا لغ یا نابالغہ کی حوالگی تبدیل کرسکتی ہے۔
PLJ 1982 (Lah) کے مطابق لاہور ہائی کورٹ نے یہ قرار دیا ہے کہ اگر نابا لغ یا نابالغہ کی زندگی یا صحت کو خطرات درپیش ہوں
تواِ س کا مطلب یہ ہے کہ یہ معاملہ ار جنٹ نوعیت کا ہے۔ PLD 2008 Kar 198 کے مطابق سندھ ہائی کور ٹ نے یہ قرار دیا کہ
نابا لغ یا نابالغہ جو کہ اپنی ماں کے پاس رہتے ہیں ماں اپنے تین بھائیوں کے ساتھ رہتی ہے۔اِن تین بھائیوں میں سے ایک سزا یافتہ ہے باپ کی فیملی کا ماحول بچووں کی نشو نماء کے لیے بہت بہتر ہے باپ کے پاس بچوں کی پرورش کے لیے وسائل بھی بہتر ہیں.۔ اِس لیے نابا لغ
یا نابالغہ کو باپ کے حوالے کر دیا جائے۔
1997 P Cr LJ 1251 کے مطابق بچوں کی ماں وفات پاء گئی ہے۔ اُنھیں کسی غیر محرم کے ساتھ جانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔ بچیاں اپنے ماموں کے ساتھ رہ رہی ہیں ۔ گارڈین کورٹ کوچاہیے کہ وہ شہادتیں ریکارڈ کرنے کے بعد بچیوں کی فلاح و بہبود کو مد نظر رکھتے ہوئے اُن کی حوالگی کا فیصلہ کرئے ۔ بچیوں کا اپنے ماموں کے پاس رہنا غیر قانونی یا غیر موزوں نہیں ہے۔
1998MLD 1996 کے مطابق محمڈن لاء میں یہ قرار دیا گیا ہے ماں کی غیر موجودگی میں نانی کو باپ کے مقابلے میں نابا لغ یا نابالغہ کی حضانت / حوالگی کے معاملے میں ترجیحی حق حاصل ہے۔
ُؒ PLD 2004 SC-1 کے مطابق سپریم کورٹ نے یہ قرار دیا کہ باپ کی حضانت میں نا بالغاں کی موجودگی سیکشن 491 Crpc میں نہیں آتی لیکن عدالت کا یہ فرض ہے کہ وہ بچوں کے حقوق کی حفاظت کر تے ہوئے بہتر انداز میں فیصلہ کرئے۔ 2000MLD 351 کے مطابق دودھ پیتے بچے کو غیر قانونی کسٹڈی میں رکھا ہو تو ماں کی تحویل میں دیا جانے ماں کا تر جعیے حق ہے۔ 1996 P.cr.LJ کے مطابق ہائی کورٹ کو دودھ پیتے بچے کی حوالگی کے معاملے میں سماعت اختیار حاصل ہے۔ لیکن بچے کی حوالگی کا حتمی فیصلہ گارڈین کورٹ میں سماعت کے بعد ہی ہوگا۔
2264MLD 2264 کے مطابق ہائی کورٹ کا یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ نا بالغ/ نا بالغہ کی حوالگی کے کیس کی سماعت کرئے۔
1997MLD 197 کے مطابق یہ قرار دیا گیا ہے کہ اگر نا بالغ/ نا بالغہ کی حوالگی کی بابت کوئی معائدہ کیا جائے تو وہ قابل نفاذ نہ ہوگا۔ اِس پر عمل در آمد نہ ہوسکتا ہے۔
000SCMR 1804 کے مطابق سپریم کورٹ نے اِس کیس میں فیصلہ کیا کہ گارڈین کورٹ میں ابھی کیس زیر سماعت تھا کہ باپ بچے کو ملنے کی سہولت کے دوران وقت میں بچے کو بیرون ملک لے گیا۔ والد اور اُس کے ساتھیوں کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی۔ سپریم کورٹ نے باپ کے ساتھیوں کی ضمانت کی درخواست کی سماعت کے دوران ازخود نوٹس لیتے ہوئے بچے کو بیرون ملک سے بازیاب کروانے کے لیے اعلیٰ حکام کو حکم دیا ۔ اعلیٰ حکام نے بچے کو بیرون ملک سے بازیا ب کرو الیا اور بچے کو اُسکی ماں کے حوالے کردیا۔ سپریم کورٹ نے یہ حکم دیا کہ گارڈین کورٹ بچے کی حوالگی کے حوالے سے فیصلہ کرئے کہ اِس نے کس کے پاس رہنا ہے۔
اوپر درج کردہ ریسرچ کی بنیاد خالصتاً سیکشن بارہ گارڈین اینڈ وارڈ ایکٹ کے ریفرنس سے بیان کی گئی ہے اب ہم سیکشن 25 گارڈین اینڈ وارڈ ایکٹ کے حوالے سے بحث کرتے ہیں۔
سیکشن 25 گارڈین اینڈ وارڈ ایکٹ 1890 کے مطابق (1) اگر کوئی بچہ یا کوئی ذہنی طور پر متاثرہ شخص یا کوئی شخص جسے عدالت نے اُس کی پروٹیکشن کے لیے گارڈین کے حوالے کیا ہو اور وہ اُس گارڈین کو چھوڑ جائے یا اُسے کوئی لے جائے۔ تو اُ س وارڈ کی ویلفیر کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ گارڈین کی تحویل میں رہے تو عدالت اُسے اُسی گارڈین کی تحویل میں واپس دئیے جانے کا حکم صادر کر سکتی ہے۔ اِس مقصد کے لیے وارڈ کو گرفتار کرکے بھی عدالت میں پیش کرنا پڑئے تو عدالت اِس کا حکم فرما سکتی ہے۔
(2 اگر وارڈ کو گرفتار کرکے گارڈین کی تحویل میں دینا ہو تو گارڈین کورٹ کے پاس مجسٹریٹ درجہ اول کے اختیارات جو کہ Cr.pc 1898 کے سیکشن 100 کے تحت ہوتے ہیں اُن کو استعمال کیا جاسکتا ہے۔
(3 اگر کوئی وارڈ اپنے گارڈین کی مرضی کے خلاف کسی اور شخص کے ساتھ رہائش پذیر ہو تو اُس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ گارڈین کی گارڈین شپ ختم ہو گئی ہے۔
سیکشن25 کا تعلق وارڈ کی حوالگی کے متعلق ہے۔ اگر وارڈ گارڈین کے پاس سے خود چلا جائے یا گارڈین کی کسٹڈی سے کوئی لے جائے تو وارڈ کی حوالگی کے متعلق یہ دیکھاجائے گا کہ وارڈ کی فلاح و بہبود کس میں ہے۔
1989 ILJ 214 Comp41 کے مطابق سیکشن 25 اِس وقت تک پلائی نہیں ہوتا جب تک کہ یہ ظاہر نہ ہوجائے کہ نابالغ کو گارڈین سے چھین لیا گیا ہے یا وہ خود چلا گیا ہے۔
2000MLD 1261 کے مطابق صرف اِس بناء پر کہ نا بالغ کی سات سال عمر ہوگئی ہے اور اُس کی گاردین شپ تبدیل کردی جائے۔ نا بالغ اپنی ماں کی تحویل میں اچھی تعلیم حاصل کر رہا ہے اور اُس کی صحت بھی اچھی ہے ۔ بچے کو باپ کے حوالے کیا جانا بچے کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔
عدالت عالیہ کے مطابق گاردین اینڈ وارڈ ایکٹ 890 کے سیکشن 25 کے تحت مندرجہ ذیل اصول بچے کی حوالگی کے حوالے سے مدِ نظر رکھنا پڑتے ہیں۔
(a باپ بچے کا قدرتی طور پر گارڈین ہے بچہ بے شک ماں کی تحویل میں ہو پھر بھی باپ کو یہ حق حاصل ہے اور اِس کا یہ فرض بھی ہے کہ وہ بچے کی نگرانی اور کنٹرول کی بابت اپنا کردار ادا کرئے۔
b) باپ کا یہ فرض ہے کہ وہ بچے کے تمام اخراجات ادا کرئے بے شک بچہ اپنی ماں کے پاس رہ رہا ہو۔ خاص طور پر جب عدالت نے یہ حکم دیا ہو کہ وہ بچے کا خرچہ ادا کرئے ا گر وہ بچے کے اخراجات ادا نہیں کر تا تو عدالت اُس شخص کی جانب سے بچے کی حوالگی کا دعویٰ کرنے سے اُس شخص کو نا اہل قرار دے سکتی ہے۔ اِسکے باوجود کے بچے نے ماں کے پاس رہنے کیمدت پوری کر لی ہو۔
(c ماں بے شک غریب ہے لیکن اگر وہ بچوں کی اچھی طرح دیکھ بھال کر رہی ہے۔ اُن کو بہتر طریقے سے تعلیم دلا رہی ہے اور خاتون نے طلاق کے بعد دوسری شادی بھی نہیں کی۔ مرد نے دوسری شادی بھی کر لی ہو تو عورت کا یہ زیادہ حق بنتا ہے کہ وہ بچے اپنے رکھے۔
2004 CLC 228 کے مطابق گار ڈین کورٹ نے والد کی طرف سے سیکشن پچس کے تحت بچے کی حوالگی کی درخواست منظور رکر لی ۔ اور اپیلٹ کورٹ نے نے ٹرائل کورٹ کا حکم ختم کر دیا۔ہائی کورٹ نے بھی اپیلٹ کورٹ کا حکم بحال رکھا کہ چھوٹی عمر کے بچے کو ماں سے علحیدہ کرنا ظلم ہے بچے کی فلاح و بہبود میں ذہنی سماج روحانی بہبود بھی شامل ہے۔
1979 CLC(Lah) کے مطابق شیعہ فیملی قوانین کے تحت نابالغ کی فلاح و بہبود باپ کے پاس حوالگی میں ہے۔
2005CLC 817 کے مطابق اگر کوئی شخص اپنا مذہب تبدیل کر لیتا ہے تو اُسے فیملی قوانین بھی تبدیل ہو جاتے ہیں یوں نئے فیملی
قوانین ہی بچوں کی وراثت کا تعین کریں گے۔
2009MLD736 کے مطابق باپ نے ماں کو طلاق دے دی اور بیرون ملک چلا گیا اور دوسری شادی کر لی جبکہ مان نے دوسری شادی نہ کی نا بلغان اپنی ماں کے پاس ہی رہ رہے ہیں۔ اور اُن کی ماں اچھے ادروں میں اُن کو تعلیم دلا رہی ہے اُن کی اچھی طرح دیکھ بھال بھی کر رہی ہے۔ بچوں کی فلاح و بہبود کے لیے بہتر ہے کہ وہ ماں کے پاس رہیں۔
YLR 926 2013 کے مطابق باپ نے دوسری شادی کر لی ماں نے اپنی باقی زندگی اپنے بچے کے لیے صرف کردی حقیقی ماں سے بچہ لے سٹیپ ماں کے حوالے نہیں کیا جاسکتا۔بچہ پیدائش سے لے کر گیارہ سال تک کی عمر تک ماں کے پاس ہے اگر بچے کو سٹیپ ماں کے ھوالے کیا گیا تو بچے کے لیے ذہنی نفسیاتی مسائل پیدا ہوجائیں گے۔ بچے کی فلاح و بہبود کے لیے یہ بہتر نہ ہے ماں کی گود خدا کی گو دہے ۔ صرف ماں کی غربت کی وجہ سے بچے کو ماں سے علحیدہ نہیں کیا جاسکتا۔
راقم نے بطور طالب علم نابالغان کی تحویل کے حوالے سے پاکستانی قوانین کی بنیاد پر ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے جتنے بھی فیصلہ جات کا مطالعہ کیا ہے اور اِس حوالے سے اِس آرٹیکل میں جتنے بھی ریفرنسز پیش کیے ہیں اُن تمام میں ایک بات ہی اہم ہے کہ نا بالغان کی حوالگی کے حوالے سے کوئی تکنیکی یا ہارڈ اینڈ فاسٹ قانون نہیں ہے بلکہ حالات و واقعات کے تحت عدالت نے صرف اور صرف نا بالغان کی ویلفئیر دیکھنا ہوتی ہے کہ ماں یا باپ یا کسی بھی اور شخص کو بچے کی گارڈین شپ دی جائے یا اُس کی جا ئیداد کے حوالے سے کسی کو گاردین مقرر کیا جائے ۔ مقصد صرف نا بالغان کی ویلفئیر ہے

Saturday, 9 December 2017

عقل طالش میرانی۔ عشق رسولﷺ ۔ خدمت انسانیت کے عظیم داعی صاحبزادہ میاں محمدا شرف عاصمی ایڈووکیٹ



عقل طالش میرانی۔ عشق رسولﷺ ۔ خدمت انسانیت کے عظیم داعی

صاحبزادہ میاں محمدا شرف عاصمی ایڈووکیٹ 
وقت گزرنے کی ساعتیں اُس وقت شدت سے اپنا احساس دلاتی ہیں جب ایسی کوئی خبر آتی ہے کہ ہماری کوئی دوست ہمارا کوئی ساتھی کوئی غمخوار دُنیا کی بے ثباتیوں سے مُنہ موڑ کر اپنی اصل منرل کی طرف روانہ ہو جاتا ہے۔ جس طرح دولت جوانی حُسن وقت کا ایک دھارا ہوتی ہیں اِن کو بھی آخرکار منرل کی انتہاء کو چھوناہوتا ہے اور پھر وہ خامشی۔ ایسا ہی ہمارئے اپنے ساتھ بھی ہوجانا ہے۔ لیکن کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جنہیں اللہ پاک نے درد انسانیت عطا کیا ہوتا ہے۔ عقیل طالش میرانی ؒ کی وفات کی خبر یقینی طور پر انہتائی دکھ کے ساتھ سُنی گی۔ جب ڈاکٹر ظفر اقبال نوری امریکہ قیام پذیر ہو گئے تو پھر مصطفائی تحریک کو عقیل طالش اور ڈاکٹر جاوید صدیقی جیسے لوگوں نے اپنی تگ و تاز سے عوام الناس میں زندہ رکھا۔ عقیل طالش میرانی کے ساتھ میرا تعلق بھی تنظیمی ہی تھا۔ جب وہ پنجاب کے مصطفائی تحریک کے صدر تھے اور مصطفائی تحریک کے پنجاب کے ڈائریکٹر ایجوکشن کی ذمہ داری مجھے سونپی گئی تھی۔ جناب میرانی ایک انتہائی منکسر المزاج اورحالات کو سمجھنے والے رہنماء تھے اُن کی قیادت میں پنجاب پبلک لائبریری کے ہال میں ایک عظیم شان ضرب مومن کانفرنس کی گئی تھی یہ 1999 ء کی بات ہے جس میں مصطفائی تحریک کے رہنماؤوں نے بھر پور شرکت کی تھی اُس تقریب میں جناب ڈاکٹر شریف سیالویؒ نے بھی خطاب فرما یا تھا نامور صحافی جناب طارق اسماعیل ساگر بھی اِس تقریب کے مہمان تھے۔ یوں عقیل طالش میرانی اور ڈاکٹر جاوید صدیقی نے مصطفائی تحریک کے پرچم کو تھامے رکھا۔ مسلم ماڈل سکول اُردو بازار لاہور میں جناب عقیل طالش میرانی کی قیادت میں ہی ایجوکشن ورکشاپ کا انعقاد ہوا۔ اور یہ کانفرنس بہت کامیاب ہوئی۔ تیس سے زائد پبلشرز نے اپنی کتابوں کا ڈسپلے کیا۔ عقیل طالش میرانی
نے سود کی لعنت سے نجات کے لیے ایک بھرپور علمی کا م کیا اور حکومت وقت کو سود سے نجات کے لیے حکمت عملی بنا کر پیش کی۔پھر جس طرح ہوتا ہے کہ جو شخص بہت م محنت اور جذبے کے ساتھ کام کر رہا ہوتا ہے اِس دیمک زدہ، آسیب زدہ معاشرئے میں میر جعفر و میر صادق اپنے ہی رہنماؤوں کے عزم و حوصلے کا خون کرنے کے درپے ہوجاتے ہیں۔ یوں عقیل طالش میرانی جیسا زیرک، انتہائی ٹھنڈے مزاج کا حامل رہنماء اپنے ہی میر جعفروں اور میر صادقوں کی بے ثباتی کا شکار ہوتا چلا گیا اور تنظیمی معاملات سے اُنہیں کنارہ کش ہونا پڑ گیا۔ وقت کے فرعون وقتی طور پر طو رجیت جاتے یہی المیہ ہمارئے معاشرئے میں بھی ہے کہ کوئی بھی تنظیم کوئی بھی شخص جب فعال ہوتا ہے تو اُس کے اخلاص کو احسا س کمتری سمجھاجاتا ہے۔ عقیل طالش میرانی تنظیمی کام سے بالکل الگ تھلگ ہوگئے تھے اور شاید اُن کی موت کا سبب بھی وہ بے رحم قوتیں ہیں جو کسی بھی محنتی اور اخلاص سے بھر پور شخصیت کو کام کرنے نہیں دیتیں کیونکہ اِس سے اُن کے مادیت سے بھرپور ایجنڈئے پر زک جو پڑتی ہے۔میرے ساتھ اُن کی آخری بات چند سال پیشر فون پر ہوئی وہ مجھے میرئے کالموں کے حوالے سے فیڈ بیک دیتے رہتے تھے۔ اللہ پاک عقیل طالش میرانی کا سفر آخرت آسان فرمائے۔ اللہ پاک اِس عظیم عاشق رسولﷺ کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔(آمین) 

Friday, 8 December 2017

World Human Rights Day and Pakistan nation..انسانی حقوق کا عالمی دن اور پاکستانی عوام کے گرد ظلم وستم کا منحوس چکر صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ ہائی کورٹ


انسانی حقوق کا عالمی دن

اور پاکستانی عوام کے گرد ظلم وستم کا منحوس چکر

صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ ہائی کورٹ
چیئرمین انسانی حقوق کمیٹی (پنجاب)
لاہور ہائی کورٹ بار

یوں تو وکلا کا پروفیشن ہی ایسا ہے کہ ان کو معاشی معاشرتی عمرانی ،نفسیاتی قانونی و دیگر زندگی کے شعبہ

 جات کے متعلق بھرپور آگہی واداک ہوتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے ۔قانون کے شعبہ سے منسلک افراد کس طرح اپنے وجود سے معاشرے کو فا ئدہ پہنچا سکتے ہیں موجودہ حالات میں مادیت نے ہر رشتے سے تعلق کو گہنا کر رکھ دیا ۔ہر لمحہ ہر ساعت معاشی ضرورتوں کا رونا رونے نے معاشرے سے امن سکون چھین لیا ہے ۔صبح صادق سے لے کر رات گئے تک معاشی مجبوریوں کو اپنے حواس پر سوار کرکے اپنے آپ کو ہر لمحے ما یوس اور دکھ کا شکا ر کررکھا ہے دکھی اور مایوس انسانیت نے اپنے لئے خود سا ختہ اتنے دُکھ پال رکھے ہیں کہ دو وقت کی روٹی کو ترسنے والے کوتو خالق پر بھروسہ ہے لیکن جن کو روٹی میسر ہے وہ دوسروں سے نوالے چھین کر اپنے پیٹ کی دوزخ کی آگ کو بجھانے کی لا حاصل سعی میں مصروف ہیں۔راقم کے خیا ل میں انسانی حقوق کے تنظیموں کو سب سے پہلے تو یہ امر پیش نظر رکھنا چاہیے کہ انسانی حقوق کے لئے کا م کرنے والے کا رکنا ن خود کو ہو س دُنیا وی لالچ سے دور رکھیں ۔جب تک اُن کے اپنے دلوں میں خوف خداہوگااور دُنیا وی آسائشات کی اہمیت نہ ہو گی تب ہی وہ معاشرے کو کچھ دے سکتے ہیں۔ا پاکستان میں انسانی حقوق کے حوالے سے کا م کرنے کے جنا ب انصاربرنی بہت بڑا نام ہے جوکہ پوری دُنیا میں اِس شعبے میں اپنی مثال آپ ہیں دیگر کئی لوگ اور تنظمیں بھی کا م کررہی ہیں لیکن اکثرکا کا م صرف میڈیا تک اپنی نمائش تک محدود ہے یا پھر جن لوگوں سے یا جن ملکوں سے یہ افراد فنڈز لیتے ہے اِن کے مِفادات کا تحفظ کرنا ہے۔دُنیا آج تک ایسی مثال دینے سے قاصر ہے کہ نبی پاک ﷺ سے بڑھ کر انسانی حقوق کا علمبرادر اور کوئی نہیں ۔بنی پاک ﷺ نے حقوق خواتین اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے جو مثالیں قائم کیں وہ پوری انسانیت کا سرفخر سے بلند کیے ہوئے ہیں انسانی حقوق تو بہت بڑی بات ہے ،نبی پاک ﷺ نے تو جانوروں کے تحفظ کے حوالے سے بھی ہما ری رہنمائی کے لئے بہت کچھ کیا ہے۔موجودہ ادوار میں امریکہ یورپ برطانیہ میں انسانی حقوق کی تنظیمیں بہت فعال ہیں ۔لیکن اُن کا دائرہ کا ر صرف اپنے ملکوں تک محدود ہے یہ ممالک تومعاشی سماجی حوالے سے پہلے ہی بہت ترقی یا فتہ ہیں وہا ں تو اِن تنظیموں کا کام بہت آسان اور یہ تنظیمیں مسلسل آگا ہی مہم کے ذریعے انسانی شعور کی بیداری کا فریضہ سرانجام دیتی ہیں ۔ان ترقی یافتہ ممالک میں معاشی آسودگی کی وجہ سے قوانین پر عمل پیرا ہونا اور عزت وحرمت کے لیے کام کرنا نسبتاً آسان ہے۔سویڈن برطانیہ ،ناروئے امریکہ جرمنی یورپ کے دیگر ممالک میں انسانی حقوق کے علمبردار مرد وخواتین بہت زیادہ فعال ہیں۔ اگر ہم انسانی حقوق کی پامالی کی بات کرتے ہیں تو یہ بات انتہائی افسوس ناک ہے کہ ترقی پذیر ممالک یا انتہائی پسماندہ ممالک غربت کی ایسی چکی میں پس رہے ہیں کہ ان ممالک میں بس غلام ابنِ غلام ہی پیدا ہورہے ہیں غربت کے منحوس چکر نے ان ممالک کو اِس طرح اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے کہ پاکستان جیسے ملک میں جو کہ ایک ایٹمی ملک ہے جس کے پاس سمندر ہے پہار ہیں چاروں موسم ہیں ہیں صرف چند ہزار لوگوں نے اُنیس کروڑ انسانوں کو یر غمال بنا رکھا ہے ساٹھ فی صد سے زیادہ لوگ خِط غربت سے انتہائی نچلی سطح پر زندگی بسر کرہے ہیں بے روزگاری، مخفی بے روز گاری نے عوام کا بُرا حال کر رکھا ہے ان حالات میں پھر انسانی حقوق کی حالت کیسے بہتر ہوسکتی ہے جب غریب
عوام کو بھیڑوں کے ریوڑ کی طرح ہانکا جارہا ہے بنگلہ دیش بھارت برما میں بھی ایسے ہی حالات ہیں۔ جس طرح کسی دوشیزہ کی خوبصورتی اُسکے لیے وبالِ جان بن جاتی ہے اِسی طرح پاکستان کی سٹرٹیجک جغرافیائی حالت نے اُس کے وجود کو ہلا کر رکھ دیا ہے امریکہ ، بھارت اسرائیل ہماری جان کے دُشمن بنے ہوئے ہیں اوپر سے ستم ظریفی یہ بھی کہ ہمارے ماضی کے حکمرانوں نے بھی ہمیشہ امریکی غلامی کے طوق کو اپنے گلے کا ہار بنائے رکھنے کو اپنے لیے فخر جانا ہے ۔ پاکستانی معاشرے میں علم کے نور کی کمی نے وڈیروں ، زمینداروں ، سرمایہ داروں کو عوام دُشمنی کے حوالے کیے رکھا ہے ۔ پاکستانی قوم کی بنیادی مشکلات میں پولیس کا نظام اور پٹواری کا ظلم شامل ہے۔ راقم کو جب 22A,22B سی آر پی سی کے تحت سیشن کورٹ میں پیش ہونا پڑتا ہے تو سیشن جج صاحبان کے احکامات کی حکم عدولی پولیس افسران کا خاصہ ہے۔ سیشن جج صاحبان بے بسی کی تصویر بنے ہوتے ہیں۔
پولیس کے نظام میں بہت بڑی خرابی سیاسی مداخلت کا ہونا ہے۔ پولیس کا نظام ہمارے معاشرے میں انصاف کی بالا دستی کے راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔پو لیس کو دباؤ میں رکھنے کے لیے اتنے گروہ سرگرمِِِِِِِِ عمل ہیں کہ پولیس چاہے بھی تو اِن ذ مہ داریوں کو ادا کرنے سے قاصر ہے ۔جب پولیس نے اپنے فرا ئض کی ادائیگی پریشر میں کرنی ہے اور جب ہر ایم این اے اور ایم پی اے تھانیدار کو اپنی انا کے اشاروں پر نچاتا ہے تو امن و امان کیسے قائم رہ سکتا ہے۔ رب پاک کو حاضر و نا ضر جان کر اگر ہم خود سے یہ سوال کریں کہ کیا کسی شریف النفس انسان کا موجودہ دور میں اسمبلی کا ممبر بننا ممکن ہے تو اِسکا جواب منفی میں ہونے کے ساتھ ساتھ ہے یہ بھی ہوگا کہ شریف آدمی نہ تو الیکشن لڑ سکتا ہے اور نہ ہی جیت سکتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں تھانے اور کچہری کی سیاست ہوتی ہے۔ کسی کو گرفتار کروادیا کسی کو مروادیا اور کسی کو علاقے سے ہی غائب کروادیاجنگل کا قانون توپھر بھی کو معانی رکھتا ہے جہاں درندے ، پرندے ہزاروں سالوں سے بس رہے ہیں۔ ہمارری سوسائٹی میں طاقت کا استعمال ،اقرباپروری اپنی مثال آپ ہیں۔ یہاں عوامی نمائندے کیسے ہوں گے ؟ جیسا ماحول بن چکا ہے ادھر تو شرافت، دیانت امانت سب کچھ منافقت میں ڈھل چکا ہے۔98% طبقے کو % 2 نے یرغمال بنا رکھا ہے۔ اِن حا لات میں پولیس امن و امان کیسے قائم رکھے جب عوامی نمائندے وزیر ،مشیر سرمایہ دار وڈیرے پولیس کو اپنی من مانی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ گزشتہ سندھ اسمبلی کے ایک ضمنی الیکشن میں حکومتی پارٹی کی ایک خاتون امیدوار نے پولیس آفیسر کے سامنے خاتون پریزائیڈنگ آفیسر کو تھپڑ مارے اور ڈی ایس پی باادب ہو کر سارا تماشا دیکھتا رہا۔ یہ ہے وہ پولیس جس نے عوام کو غنڈوں کی چیرہ دستیوں اور ظلم سے بچانا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے معاشرے میں میڈیا کے فعال کردار نے کافی حد تک آگاہی دی ہے۔ لیکن حز بِ اقتدار ہو یا حزب مخالف، اقتدار میں رہنے کے لیے منشیات فروشوں اور قبضہ گروپوں کی سرپرستی کرتے ہیں اور یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ کیونکہ وہ بھاری رقوم خرچ کرکے آئے ہیں اس لیے ہر طریقے سے رقم کماتے ہیں۔ اِن لوگوں نے باقاعدہ غنڈے پال رکھے ہوئے ہیں۔ موجودہ حالات میں وکلاء، سول سوسائٹی اور عدلیہ ہی امید کی کرن ہیں کہ شائد ہمارہ معاشرہ کبھی گدِھوں سے نجات حاصل کرسکے۔ تھانے بکتے ہیں ماہانہ بنیادوں پر رقوم اکھٹی ہوتی ہیں۔کتابوں میں لکھے اخلاقیات اور مذہب کے امن وآشتی کے اسباق کہیں دور اندھیرے میں دُبکے ہوئے ہیں۔۔ تعلیم ،امن ،صحت، روزگار سماجی انصاف معاشرے کو امن وآشتی کا گہوارہ بنا سکتے ہیں۔نبی پاکﷺ کا فرمانِ عالیٰ شان ہے کہ وہ شخص ہم میں سے نہیں جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ نہیں۔قصور پولیس کا نہیں بلکہ اِس کو کرپٹ کرنے والوں کا ہے جو پولیس کو دباؤمیں رکھ کر اُس سے ہرناجائز کام کرواتے ہیں جس سے یہ احساس شدت سے محسوس ہوتا ہے کہ ہم نے آزادی جیسی نعمت کی قدر نہیں کی اور دورِ غلامی کی لعنت سے کوئی سبق نہیں سیکھاہمارے رویے ایک قوم ہونے کے ناطے اِس لیے بہتر نہیں ہو پائے کہ ہمارے حکمران کیونکہ عوام کے ساتھ مخلص نہیں ہیں اور وہ خود کو قانون کے دائرے میں رکھنے کو اپنی توہین سمجھتے ہیں۔قانون کی بلادستی کے لیے سب سے زریں اصول یہ ہے کہ قانون سب کے لیے ایک ہو۔ جو قومیں امیروں اور غریبوں کے درمیان انصاف کی فراہمی کے حوالے سے تفریق کرتی ہیں وہ تباہ برباد ہوجاتی ہیں پاکستانی سوسائٹی میں امن ومان اور قانون کی عملداری اُس وقت ممکن ہے جب حکمران اور عوام ایک ہی صف میں کھڑے ہوں۔ہمارئے معاشرئے میں قانون کی حاکمیت نہ ہونے کہ وجہ سے معاشرہ بُری طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔عوام ظلم برداشت کر کر کے ادھ مُو ہو چکی ہے سب سے پہلے تو وہ افراد انسانی حقوق کی پامالی کرنا بند کریں جن پر یہ ذمہ داری ہے کہ اُن پرانسانی حقوق کی بالا دستی کے لیے کام کرنے کی ذمہ داری ہے۔ جیلوں کی صورت حال، تھانہ کلچر، گھروں میں کام کرنے والے بچے بوڑھے خواتین سب لوگ تو انسانی حقوق کی پامالی کا شکار ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون نگار میاں اشرف عاصمی ایڈووکیٹ ہائی کورٹ لاہور ہائی کورٹ بار کی انسانی حقوق کی کمیٹی کے چےئرمین ہیں اور گزشتہ دو دہا ئیوں سے سماجی معاشی عمرانی و قانونی موضوعا ت پر لکھتے ہیں۔

Wednesday, 6 December 2017

باقر نجفی رپورٹ کے مندرجات رانا ثناء اللہ ہی اصل قاتل۔۔؟Article by صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمیBaqer Najfi Report Article on



باقر نجفی رپورٹ کے مندرجات رانا ثناء اللہ ہی اصل قاتل۔۔؟
صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی

لاہور ہائیکورٹ نے سانحہ ماڈل ٹاؤن عدالتی انکوائری رپورٹ منظر عام پرلانے کا حکم دیدیا۔ فاضل عدالت نے حکومت پنجاب اور نامزد ملزم پولیس افسروں اور اہلکاروں کی اپیلیں مسترد کر دیں۔ لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس عابد عزیز شیخ کی سربراہی میں جسٹس شہباز علی رضوی اور جسٹس قاضی محمد امین پر مشتمل فل بنچ نے تین اپیلوں کا فیصلہ سنایا۔ عدالتی فیصلہ 101 صفحات پر مشتمل ہے۔ فاضل عدالت نے فیصلے میں کہا ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے متاثرین کو جسٹس علی باقر نجفی کی عدالتی انکوائری رپورٹ فوری طور پر فراہم کی جائے۔ عدالت نے حکومت پنجاب کو سانحہ ماڈل ٹاؤن کی عدالتی انکوائری رپورٹ 30 یوم میں مشتہر کرنے کا حکم دے دیا۔ عدالت نے فیصلے میں کہا ہے کہ انکوائری رپورٹ انسداد دہشت گردی کی عدالت میں سانحہ ماڈل کے زیر سماعت کیس پر اثر انداز نہیں ہو گی اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ٹرائل شفاف ہو اور ٹرائل پر رپورٹ اثر انداز نہ ہو۔ اس سے قبل لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی پر مشتمل سنگل بنچ نے سانحہ ماڈل ٹاؤن عدالتی انکوائری رپورٹ جاری کرنے کا حکم دیا تھا۔ حکومت پنجاب کے علاوہ نامزد پولیس افسران اور اہلکاروں نے سنگل بنچ کے فیصلے کو فل بنچ کے روبرو چیلنج کیا تھا۔ تین مختلف اپیلوں میں موقف اختیار کیاگیا تھا کہ سنگل بنچ نے یکطرفہ کارروائی کرتے ہوئے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی رپورٹ پبلک کرنے کا حکم دیا۔ رپورٹ کے پبلک کرنے سے امن و امان کے مسائل پیدا ہوں گے۔
لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر پنجاب حکومت کی جانب سے سانحہ ماڈل ٹاؤن سے متعلق جسٹس علی باقر نجفی کی رپورٹ پبلک کر دی گئی جس کے مطابق پنجاب حکومت کی جانب سے 17 جون 2014ء کی ماڈل ٹاؤن میں واقع منہاج القرآن سیکرٹریٹ کے حوالے سی کی گئی کارروائی غیر قانونی تھی۔ رپورٹ 132 صفحات پر مشتمل ہے۔ جس کے مطابق پنجاب حکومت کے معصوم ہونے پر شبہ ہے۔ جسٹس باقر نجفی نے رپورٹ میں کہا ہے کہ وزیراعلیٰ شہباز شریف نے عوامی تحریک کے حامیوں سے نمٹنے کیلئے فری ہینڈ دیا تھا۔ جس میں 14 افراد جاں بحق اور 90 سے زائد زخمی ہوئے پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناء اور نہ ہی وزیر اعلی کے سابق پرنسپل سیکرٹری، ڈاکٹر توقیر شاہ نے کمیشن کو بیان دیا۔ رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ منہاج القرآن کے کارکنوں نے پولیس پر پتھر پھینکا جس کے بدلے میں پولیس نے کارکنوں میں فائرنگ کی۔ رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ پولس نے پنجاب حکومت کے احکامات کی پیروی کی۔ رپورٹ کے مطابق منہاج القرآن انٹرنیشنل سیکرٹریٹ کے باہر رکاوٹیں قانونی تھیں۔ جنہیں ہٹانے کیلئے پولیس نے کارروائی کی۔ رپورٹ کے صفحہ 65 پر درج ہے طاہر القادری کی جانب سے 23 جون 2014ء کو لاہور سے راولپنڈی لانگ مارچ کے اعلان کے بعد رانا ثناء وزیر قانون پنجاب نے سخت مؤقف اختیار کیا اور اجلاس میں بتایا کہ وہ ہرگز لانگ مارچ نہیں ہونے دینگے۔ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے behalf پر ڈاکٹر توقیر نے منہاج القرآن سیکرٹریٹ کے گرد سے رکاوٹیں ہٹانے کا حکم دیا۔ رکاوٹیں قانونی تھیں کیونکہ ہائیکورٹ نے اپنے حکم نامہ ICA No.155/2011 کے تحت رکاوٹوں کو قانونی قرار دیا تھا۔ ٹی ایم اے گلبرگ ٹاؤن اور زون II کے ٹی ایم اوز رات کے وقت موقع پر گئے اور 16 جون کی رات رکاوٹیں ہٹانے گئے۔ کارکنوں نے پتھر پھینکے جس کے بعد پولیس نے سیدھی فائرنگ شروع کر دی پولیس اہلکاروں کی جانب سے کسی نے بھی اس شخص کی نشاندہی نہیں کی جس کے حکم پر فائرنگ کی گئی۔ رپورٹ میں میڈیا کے نمائندوں کا بھی شکریہ ادا کیا گیا جن کی وجہ سے رپورٹ مرتب کی جا سکی اور حقائق سامنے آ سکے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پنجاب حکومت کے لائزن آفیسر اسد اللہ فیض ایڈیشنل سیکرٹری ہوم ڈیپارٹمنٹ نے تیز رفتاری سے ثبوت فراہم کئے دو رجسٹرار جواد الحسن ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج اور صادق مسعود صابر ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج اور دوسرے ممبران نے دن رات کام کیا جس کی وجہ سے انکوائری ٹربیونل رپورٹ بنانے میں کامیاب ہوا۔ رپورٹ میں انٹرسروسز
انٹیلی جنس، آئی بی اور سپیشل برانچ کی شہادتیں بھی نوٹ کی گئی ہیں۔ آئی ایس آئی کی جانب سے بھی شواہد حاصل کئے گئے جن کا حوالہ رپورٹ کے صفحہ 40 پر درج کیا گیا ہے رپورٹ میں درجنوں پولیس اہلکاروں اور افسران کے بیان حلفی بھی منسلک کئے گئے ہیں۔ عینی شاہدین اور زخمیوں کے بیانات بھی درج کئے گئے۔ آئینی ماہرین کے مطابق رپورٹ ہر لحاظ سے مکمل اور جامع ہے اور تمام قانونی تقاضے پورے کئے گئے ہیں۔
جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ کمشن نے ازخود تفتیش کی کسی پر ذمہ داری نہیں ڈالی۔ رانا ثناء اللہ‘ ڈاکٹر توقیر اور شہباز شریف کے فون کا ڈیٹا آئی ایس آئی نے دیا۔ پنجاب حکومت نے پولیس کو کمشن کی رپورٹ مسترد کرنے سے منع کیا۔ سپیشل برانچ‘ آئی بی اور آئی ایس آئی نے الگ الگ رپورٹس کمشن کو دیں۔ ٹربیونل رجسٹرار سمیت منہاج القرآن گیا اور 43 منٹ تک جائے وقوعہ کا معائنہ کیا۔ کمیشن کو پولیس کے ذریعے تفتیش کرانے کا اختیار حاصل تھا۔ وزیراعلیٰ پنجاب کی ہدایت پر منہاج القرآن کے باہر رکاوٹیں ہٹانے کا حکم دیا گیا۔حکومتی اجلاس کے شرکاء عدالتی فیصلے سے آگاہ تھے۔ عدالتی فیصلے کے باوجود سانحہ ماڈل ٹاؤن کا ہونا افسوسناک ہے۔ ٹی ایم اے عملہ 10 جون 2014ء کو تجاوزات کیخلاف آپریشن کیلئے گیا۔ منہاج القرآن کے مشتعل مظاہرین نے پتھراؤ کیا۔ مظاہرین کے ردعمل پر پولیس نے فائرنگ کی۔ پولیس فائرنگ سے مظاہرین جاں بحق‘ زخمی ہوئے۔ غیر مسلح مظاہرین کے خلاف پولیس کی کارروائی غیر سنجیدہ تھی۔ سانحہ میں کسی پولیس افسر کی ہدایت دینے کا پتہ نہیں چلا۔ پولیس افسروں نے دانستہ طور پر ٹربیونل سے معلومات چھپائیں۔ حقائق چھپانے پر پولیس کا رویہ سچائی کو دفن کرنے کے مترادف ہے۔ ٹربیونل کو کیس کی تہہ تک جانے کیلئے مکمل اختیارات نہیں دئیے گئے۔ وزیرقانون کے تحت اجلاس میں کارروائی کا فیصلہ ہوا۔ وزیراعلیٰ کے نمائندے ڈاکٹر توقیر نے رضامندی ظاہر کی۔ اجلاس کے شرکاء 2011ء کے عدالتی فیصلے سے آگاہ تھے، آپریشن پر ایڈووکیٹ جنرل کی
رائے نہیں لی گئی۔حکومت کی سچائی جاننے کی نیت ٹھیک نہیں تھی۔ سانحہ سے پہلے خان بیگ کو آئی جی پولیس کے عہدے سے ہٹایا گیا۔ غیر مسلح مظاہرین کیخلاف پولیس کی کارروائی غیر سنجیدہ تھی۔ سانحہ میں کسی پولیس افسرکی ہدایت دینے کا پتہ نہیں چلا۔ سانحہ سے قبل ڈی سی او لاہور کو بھی عہدے سے ہٹایا گیا۔ رانا ثناء اللہ، ڈاکٹر توقیر اور پولیس افسر سانحہ ماڈل ٹاؤن میں معصوم نہیں، پولیس کی خاموشی سے لگ رہا تھا انہیں صرف حکم پر عمل کرنا تھا۔ پولیس نے عوامی تحریک کے کارکنوں سے زیادہ جارحانہ رویہ اختیار کیا۔رانا ثناء اللہ، طاہرالقادری کو سیاسی مقاصد پورا کرنے کا موقع نہیں دینا چاہتے تھے۔ وزیرقانون پنجاب رانا ثناء اللہ کے اجلاس کا فیصلہ ہلاکتوں کا سبب بنا۔ پولیس افسران نے وہی کیا جس کیلئے انہیں بھجوایا گیا تھا۔ فائرنگ کس کے حکم پر کی‘ پولیس افسر بتانے سے گریز کرتے رہے۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن پر کسی پولیس اہلکار نے ایک لفظ نہیں بتایا، تمام پولیس افسر انکوائری میں ایک دوسرے کو بچاتے رہے۔آئی ایس آئی نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے حوالے سے ٹربیونل کو رپورٹ میں کہا کہ پولیس کو 17 جون کی رات منہاج القرآن کے بیرئیر ہٹانے کا سخت حکم ملا۔ پولیس پہنچی تو منہاج القرآن کے کارکنوں نے پتھراؤ کیا ایک سب انسپکٹر نے تین ہوائی فائر کئے جس سے کارکنوں میں بھگدڑ مچ گئی۔ آئی ایس آئی کے سب انسپکٹر نے سیکرٹری ٹو سی ایم کو فون کیا تو جواب ملا وہ کچھ نہیں جانتے سیکرٹری ٹو سی ایم کا کہنا تھا طبیعت ٹھیک نہیں آج دفتر بھی نہیں جائیں گے پولیس کی فائرنگ سے دس لوگ ہلاک‘70 زخمی ہوئے50 کو فائر لگے رانا ثناء اللہ ڈٹے رہے بلکہ طاہرالقادری کو ان کے مقاصد پورے نہیں کرنے دیں گے۔ سانحہ میں کہیں بھی پولیس کی کمانڈ نظر نہیں آتی سانحے سے پہلے آئی جی اور ڈی سی او بدلنے سے شبہ ظاہر ہوتا ہے۔رانا ثناء اللہ اور سیکرٹری داخلہ نے وزیراعلیٰ کے حکم کا ذکر نہیں کیا طاہرالقادری کے گھر کی چھت سے گارڈز کی فائرنگ پر وثوق سے کچھ نہیں کہہ سکتے۔ منہاج القرآن کے گارڈ نے چھت سے فائرنگ کی جس سے دو پولیس اہلکار زخمی ہوئے زخمی اہلکاروں کی اطلاع ملنے پر پولیس مشتعل ہوگئی۔ رپورٹس، پولیس
افسران کے حلف نامے عکاسی کرتے ہیں وزیراعلیٰ نے پولیس ہٹانے کا حکم دیا۔ پولیس، حکومتی مشینری نے بغیر کسی خوف کے آپریشن کیا حکومت پنجاب کے تمام ارباب اختیار کے معلوم ہونے پر قوی شبہ ہے حکومت پنجاب کے تمام ارباب اختیار کی سرد مہری اور لاپرواہی نظر آتی ہے۔ باقر نجفی کی رپورٹ میں سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ذمہ داروں کے حوالے سے وزیرقانون رانا ثناء اور پولیس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے تاہم کسی کو براہ راست ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جبکہ پنجاب حکومت نے رپورٹ پبلک کرنے کے عدالتی فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج نہ کرنے کا فیصلہ بھی کیا ہے کمشن نے رپورٹ پولیس اہلکاروں کے بیانات انتظامی افسروں کے بیانات میں رانا ثناء اللہ بھی شامل ہیں اور وزیراعلیٰ کی طرف سے دئیے جانے والے بیان حلفی کی روشنی میں تیار کی رپورٹ دو صفحوں پر مشتمل ہے پہلے حصے میں 74 صفحات جبکہ دوسرے میں 54 صفحات ہیں۔ ماڈل ٹان آپریشن کی منصوبہ بندی وزیر قانون پنجاب کی نگرانی میں ہوئی۔ سانحہ ماڈل ٹان سے ایک روز پہلے یعنی 16 جون 2014 کو وزیرقانون رانا ثنا اللہ کی زیر صدارت سول سیکرٹریٹ میں اجلاس ہوا، اس وقت کے سی سی پی او لاہور چوہدری شفیق گجر اور وزیر اعلی پنجاب کے سیکریٹری توقیرشاہ بھی شریک ہوئے، اجلاس میں طاہر القادری کی رہائش گاہ اور ادارہ منہاج القرآن کے اطراف میں لگائے گئے بیریئرز ہٹانے کا فیصلہ بھی کیا گیا۔رپورٹ کے مطابق وزیراعلی پنجاب نے بیان دیا کہ انہیں اس واقعے کا 17 جون کی صبح 9 بجے علم ہوا اور انہوں نے فوری طورپرآپریشن روکنے کی ہدایت کردی، اسی روز صبح 10 بجے وزیراعلی نے گورنرہاس میں نئے چیف جسٹس لاہورہائیکورٹ جسٹس خواجہ امتیازکی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کی وہ دن 11 بجے ماڈل ٹان اپنی رہائش گاہ پہنچے جہاں دوپہرایک بجے تک انہوں نے غیرملکی وفد سے ملاقات کی، رپورٹ کے مطابق اس دوران شہبازشریف نے دوبارہ ماڈل ٹاؤن کی صورتحال سے متعلق کسی سے کوئی رپورٹ نہیں مانگی۔رپورٹ کے مطابق 16 اور17 جون کی درمیانی رات ادارہ منہاج القرآن کے اردگرد صورتحال
کشیدہ رہی، عوامی تحریک کے کارکنوں کی طرف سے پتھرا ؤکے نتیجے میں کئی پولیس اہل کار زخمی ہوگئے، 17 جون کی صبح 9 بجے ڈی آئی جی آپریشنز موقع پرپہنچے اور انہوں نے مختلف ڈویژنز کے ایس پیز کو بلالیا، پولیس نے عوامی تحریک کے کارکنوں کو جواب دینے کیلئے آنسوگیس کی شیلنگ اور فائرنگ کی، ڈی آئی جی آپریشنز نے صورتحال خراب ہونے پردن 11بجے ایلیٹ فورس کو بھی طلب کرلیا، دوپہر12 بجے فائرنگ سے جاں بحق ہونے والوں کی لاشوں اور زخمیوں کو جناح اسپتال منتقل کیا گیا، دوپہر ڈیڑھ بجے تک طاہرالقاری کی رہائش گاہ اور ادارہ منہاج القرآن کے گرد تمام بیریئرز ہٹا دیئے گئے۔ انکوائری رپورٹ میں جسٹس علی باقر نجفی نے ایک سے زیادہ بار دہشت گردی کے خلاف ضرب عضب آپریشن اورفوج کی قربانیوں کا ذکر کیا ہے۔ قارئین اِس رپورٹ کے مندرجات اِس بات کی دلالت کرتے ہیں کہ سانحہ ماڈل ٹاون کے شہیداء کا قتل وزیر قانون رانا ثنا ء اللہ کی ایما پر ہوا۔ اللہ پاک شہداء کے خون کو رائیگاں نہیں جانے دے گا۔          

Monday, 4 December 2017

خواتین کے حق وراثت کے قانون کی قران اور اعلیٰ عدلیہ کی تشریح ARTICLE BY میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ ہائی کورٹ women shares in Inheritance in Pakistani laws

خواتین کے حق وراثت کے قانون کی قران اور اعلیٰ عدلیہ کی تشریح

صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ ہائی کورٹ


قران کی تین آیتیں وراثت کی تقسیم کی تفصیل بتاتی ہیں۔ وہ یہ ہیں۔‘‘تمہاری اولاد کے بارے میں اللہ تمہیں ہدایت کرتا ہے کہ مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہے۔ اگر (میت کی وارث) دو سے زائد لڑکیاں ہوں تو انہیں ترکے کا دو تہائی دیا جائے۔ اور اگر ایک ہی لڑکی وارث ہو تو آدھا ترکہ اس کا ہے۔ اگر میت صاحبِ اولاد ہو تو اس کے والدین میں سے ہر ایک کو ترکے کا چھٹا حصہ ملنا چاہیے۔ اور اگر وہ صاحبِ اولاد نہ ہو اور (صرف) والدین ہی اس کے وارث ہوں تو ماں کو تیسرا حصہ دیا جائے۔ اور اگر میت کے بھائی بہن بھی ہوں تو ماں چھٹے حصے کی حق دار ہو گی۔ (یہ سب حصے اس وقت نکالے جائیں گے) جبکہ وصیت جو میت نے کی ہو پوری کر دی جائے اور قرض جو اُس پر ہو ادا کر دیا جائے۔ تم نہیں جانتے کہ تمہارے ماں باپ اور تماری اولاد میں سے کون بلحاظ نفع تم سے قریب تر ہے۔ یہ حصے اللہ نے مقرر کر دیے ہیں اور اللہ یقینًا سب حقیقتوں سے واقف اور ساری مصلحتوں کا جاننے والا ہے۔’’(سورۃ النساء آیت11)جو مال تمہاری عورتیں چھوڑ مریں اس میں تمہارا آدھا حصہ ہے بشرطیکہ ان کی اولاد نہ ہو اور اگر ان کی اولاد ہو تو اس میں سے جو چھوڑ جائیں ایک چوتھائی تمہارا ہے اس وصیت کے بعد جو وہ کر جائیں یا قرض کے بعد اور عورتوں کے لیے چوتھائی مال ہے جو تم چھوڑ کر مرو بشرطیکہ تمہاری اولاد نہ ہو پس اگر تمہاری اولاد ہو تو جو تم نے چھوڑا اس میں ان کا آٹھواں حصہ ہے اس وصیت کے بعد جو تم کر جاؤ یا قرض کے بعد اور اگر وہ مرد یا عورت جس کی یہ میراث ہے باپ بیٹا کچھ نہیں رکھتا اور اس میت کا ایک بھائی یا بہن ہے تو دونوں میں سے ہر ایک کا چھٹا حصہ ہے پس اگر اس سے زیادہ ہوں تو ایک تہائی میں سب شریک ہیں وصیت کی بات جو ہو چکی ہو یا قرض کے بعد بشرطیکہ اوروں کا نقصان نہ ہو یہ اللہ پاک کا حکم ہے اور اللہ جاننے والا تحمل کرنے والا ہے (سورۃ النساء آیت 12)وہ تجھ سے فتویٰ مانگتے ہیں۔ کہہ اللہ تمہیں کلالہ (والدین اور اولاد کے بغیر) کے متعلق فتویٰ دیتا ہے۔ اگر کوئی مرد مر جائے جسکی اولاد نہ ہو مگر اسکی ایک بہن ہو تو اسے ترکے کا نصف ملے گا، اور (اگر بہن پہلے مرے تو) وہ (مرد) خود اسکا وارث ہو گا اگر اسکی بہن کی اولاد نہ ہو۔ اور اگر وہ دو عورتیں ہوں تو ان کے لیئے ترکے کا دو تہائی ہوگا۔ اور اگر بھائی بہنوں میں کئی مرد اور عورتیں ہوں تو مرد کے لیئے دو عورتوں کے حصے کی مانند ہو گا۔ اللہ تم پر واضح کرتا ہے تا کہ تم بھٹک نہ جاؤ، اور اللہ ہر بات کو جانتا ہے۔ (النسا 176) 

قرآن مجید نے لڑکیوں کو حصہ دلانے کا اس قدر اہتمام کیا ہے کہ لڑکیوں کے حصہ کو اصل قرار دے کر اس کے اعتبار سے لڑکوں کا حصہ بتلایا اور بجائے لانثین مثل حظ الذکر(دو لڑکیوں کو ایک لڑکے کے حصہ کے بقدر) فرمانے کے للذکر مثل حظ الانثیین (لڑکے کو دو لڑکیوں کے حصہ کے بقدر) کے الفاظ سے تعبیر فرمایا ۔بہنوں کو میراث سے محروم کرنا حرام ہے
یہ بات ملحوظ رہے کہ لڑکیوں کو میراث سے محروم کرنا اور ان کو جو میراث سے حصہ ملتا ہے وہ لڑکوں کا آپس میں تقسیم کرلینا (جیسا کہ اکثر یہی ہوتا ہے) یہ سخت حرام ہے، بہنوں پر ظلم ہے اور قانون خدا وندی سے بغاوت ہے اگر کسی فرد یا جماعت یا پنچائت یا ملک کے احکام اپنے مروجہ قانون کے مطابق لڑکوں ہی میں مرنے والوں کی میراث تقسیم کردیں اور لڑکیوں کو محروم کردیں تو اس طرح سے لڑکوں کیلئے شرعا بہنوں کا حصہ لینا حلال نہ ہوگا، اللہ تعالیٰ نے لڑکیوں کے حصہ کی اہمیت بیان فرماتے ہوئے یعنی لڑکوں کا حصہ علیحدہ سے بتایا ہی نہیں بلکہ لڑکیوں کا حصہ بتاتے ہوئے لڑکوں کا حصہ بتایا ہے۔
غیر منقسم ہندوستان میں جب انگریزوں کا تسلط تھا اور انہیں کا قانون رائج تھا اس زمانہ میں ایک مسلمان انگریز مجسٹریٹ کے یہاں اپنے باپ کی میراث تقسیم کرانے کیلئے گیا اور اس سے کہا کہ آپ انگریزی قانون کے مطابق تقسیم کردیں۔ مجسٹریٹ نے کہا چونکہ میں سرکاری ملازم ہوں اس لئے میں اسی طرح تقسیم کردوں گا جیسے آپ کہہ رہے ہیں لیکن میرا سوال یہ ہے کہ آپ مسلمان ہوتے ہوئے قرآن کے مطابق کیوں تقسیم نہیں کراتے؟ قرآن میں تو آدھی سطر سے بھی کم میں لڑکوں اور لڑکیوں دونوں کا حصہ بیان فرمادیا ہے آپ قرآن کے لفظ للذکر کو تو ماننے کے لئے تیار ہیں لیکن مثل حظ الانثیین ماننے کو تیار نہیں۔ یہ قرآن ماننے کا کون سا طریقہ ہےَ ؟ مسلمان صاحب اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔
بعض لوگ بہنوں کا حصہ یوں کہہ کر دبا لیتے ہیں کہ وہ لیتی ہی نہیں یا انہوں نے معاف کردیا ہے۔ اگر واقعی سچے دل سے معاف کردیں تو وہ معاف ہوجاتا ہے لیکن اگر انہوں نے اوپر کے دل سے معاف کردیا تو اس سے معاف نہیں ہوگا۔ اگر بہنوں کو بتادے کہ تمہارا اتنا اتنا حصہ ہے، اتنے اتنے ہزار روپے تمہارے حصے میں آرہے ہیں اور باغ میں تمہارا اتنا حصہ ہے اور مکان، جائیداد میں اور زرعی زمین میں اتنا اتنا حصہ ہے، وہ سمجھ لیں کہ ہم اپنے اپنے حصے میں صاحب اختیار ہیں۔ معاف نہ کریں تو ہمارے بھائی ضرور ہمارا حصہ ہم کو دے دیں گے اس کے باوجود معاف کردیں تو یہ معافی معتبر ہوگی اگر انہوں نے یہ سمجھ کر اوپر کے دل سے معاف کردیا کہ ملنا تو ہے ہی نہیں۔ بھائیوں کا دل بھی کیوں برا کیا، اگر شوہر سے مخالفت ہوگئی یا اس کی موت ہوگئی تو ان بھائیوں کے پاس آنا پڑے گا۔ اس وقت بھائی برا مانیں گے اور بھابیان طعنہ دیں گی اس لئے مجبوراًزبانی طور پر معاف ہی کردیں۔ ایسی معافی کا کوئی اعتبار نہیں کیونکہ یہ معافی طیب نفس سے اور اندر کی خوشی سے نہیں ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ جو لوگ بہنوں کو حصہ نہیں دیتے، اور وہ یہ سمجھ کر بادل ناخواستہ شرما شرمی معاف کر دیتی ہیں کہ ملنے والا تو ہے ہی نہیں تو یوں بھائیوں سے برائی لیں، ایسی معافی شرعاً معافی نہیں ہوتی، ان کا حق بھائیوں کے ذمہ واجب رہتا ہے، یہ میراث دبانے والے سخت گنہگار ہیں، ان میں بعض بچیاں نابالغ بھی ہوتی ہیں، ان کو حصہ نہ دینا دوہرا گناہ ہے 
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سات گناہوں سے بچو جو ہلاکت کا باعث ہیں پوچھا گیا کیا کیا؟ فرمایا اللہ کے ساتھ شرک، جادو، بے وجہ قتل، سود خوری، یتیم کا مال کھا جانا، جہاد سے پیٹھ موڑنا، بھولی بھالی ناواقف عورتوں پر تہمت لگانا، ابن ابی حاتم میں ہے صحابہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے معراج کی رات کا واقعہ پوچھا جس میں آپﷺ نے فرمایا کہ میں نے بہت سے لوگوں کو دیکھا کہ ان کے ہونٹ نیچے لٹک رہے ہیں اور فرشتے انہیں گھسیٹ کر ان کا منہ خوب کھول دیتے ہیں پھر جہنم کے گرم پتھر ان میں ٹھونس دیتے ہیں جو ان کے پیٹ میں اتر کر پیچھے کے راستے سے نکل جاتے ہیں اور وہ بے طرح چیخ چلا رہے ہیں ہائے ہائے مچا رہے ہیں۔ میں نے حضرت جبرائیل سے پوچھا یہ کون لوگ ہیں؟ کہا یہ یتیموں کا مال کھا جانے والے ہیں جو اپنے پیٹوں میں آگ بھر رہے ہیں اور عنقریب جہنم میں جائیں گے، حضرت سدی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں یتیم کا مال کھا جانے والا قیامت کے روز اپنی قبر سے اس طرح اٹھایا جائے گا کہ اس کے منہ آنکھوں نتھنوں اور روئیں روئیں سے آگ کے شعلے نکل رہے ہوں گے ہر شخص دیکھتے ہی پہچان لے گا کہ اس نے کسی یتیم کا مال ناحق کھا رکھا ہے۔ سورہ نساء کے اول رکوع میں شروع سے آخر تک یہی احکام ہیں، یتامی کے اموال کی نگہداشت رکھنے، ان کے مال کو اپنا مال نہ بنا لینے، ان کے وراثت میں ملے ہوئے اموال سے ان کو حصہ دینے کا حکم فرمایا اور بڑا ہو جانے کے ڈر سے ان کا مال اڑا دینے میں جلدی کرنا، یتیم لڑکیوں سے نکاح کر کے مہر کم کر دینا، یا ان کے مال پر قبضہ کر لینا وغیرہ ان سب امور کی ممانت فرمائی۔آخر میں فرمایا کہ ناحق یتیم کا مال کھانا پیٹ میں آگ کے انگارے بھرنا ہے، کیونکہ اس کی پاداش میں موت کے بعد اس طرح کے لوگوں کے پیٹوں میں آگ بھری جائے گی، لفظ یاکلون استعمال فرمایا ہے اور یتیم کا مال کھانے پر وعید سنائی گئی ہے، لیکن یتیم کے مال کا ہر استعمال کھانے پینے میں ہو یا برتنے میں، سب حرام اور باعث عتاب و عذاب ہے، کیونکہ محاورے میں کسی کا مال ناحق کھا لینا ہر استعمال کو شامل ہوتا ہے۔رشتے داروں کی وراثت کامال کھانا گناہ کبیرہ ہے۔جو لوگ یتیم کی وراثت کھا رہے ہیں اللہ پاک فرماتا ہے کہ وہ آگ کے انگارئے کھارئے ہیں۔ خاص طور پر بیٹیوں کو اُن کی وراثت کا حصہ نہیں دیا جاتا یہ بہت بڑا ظلم ہے۔ یہ گناہ کبیرہ ہے۔ وراثت کا مال نہ دینے کا گناہ اُتنا ہی ہے جتنا چوری یا ڈاکہ مار کر مال کھانا ہے۔ نبی پاک ﷺ کا ارشاد ہے۔کسی مسلمان کا مال اُس کی مکمل دلی خوشی کے بغیر کھانا حرام ہے۔ بہنوں سے وراثت معاف کروالی جاتی ہے۔ یہ بہت بڑا ظلم ہے۔مال تھوڑا ہے یا زیادہ وراثت لازمی جاری ہوتی ہے۔ جس طرح رشتے داروں پر رحم کھانے کا ثواب بھی زیادہ ہے اِسی طرح رشتے داروں کا مال کھانے کا گناہ بھی بہت زیادہ ہے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے جسٹس جواد ایس خواجہ نے2016 میں و راثت کے ایک کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا کہ ہمارے ہاں بیٹی اور بہن کو وراثت میں حصہ نہ دینے کا رجحان عام ہے جو شریعت کے منافی ہے اور اس کی حوصلہ شکنی کی ضرورت ہے۔ سبھیل نامی خاتون کے بچوں کی وراثت کے بارے میں ماتحت عدالت کے ایک فیصلے کے خلاف جسٹس جواد ایس خواجہ، جسٹس سرمد جلال عثمانی اور جسٹس اقبال حمید الرحمن پر مشتمل بینچ نے رٹ کی سماعت کی اور ماتحت عدالت کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے اس کے خلاف اپیل مسترد کر دی۔ اس موقع پر بینچ کے سربراہ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ یہ معاشرے کی روایت بن چکی ہے کہ بہنوں اور بیٹیوں کو وراثت میں ایک ٹکہ بھی نہیں دیا جاتا۔ انہیں ڈرا دھمکا کر وراثت نہ لینے پر قائل کیا جاتا ہے۔ زمینوں سے پیار کرنے والے اپنی وراثت بچانے کے لیے سگی بہنوں اور بیٹیوں کے وجود تک سے انکار کر دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی معاشرہ نے خواتین کو وراثت میں جو حقوق دیے ہیں اس سے کوئی انکار کی جرأت نہیں کر سکتا، وقت آگیا ہے کہ بیٹیوں اور بہنوں کے حقوق کا تحفظ کیا جائے۔
درحقیقت اِس آر ٹیکل کو لکھے جانے کا محرک وہ امتناع حقوق خواتین ایکٹ 2011 ہے. جس میں خواتین کے وراثت کے حق کے لیے تعزیزات پاکستان میں 498A دفعہ شامل کی گی۔ اِس کا مقصد خواتین کے وراثتی حقوق کا تحفظ ہے۔ وہ دفعہ یہ ہے۔ 
Section 498A-PPC..Under section 498 A, depriving women from inheriting property by deceitful or illegal means shall be punished with imprisonment which may extend to ten years but not be less than five years or with a fine of one million rupees or both. 
جو کہ درحقیقت خواتین کے وراثتی حقوق کے حصول کی جانب ایک بہت بڑا قدم ہے اِس ایکٹ کے تحت تعزیزات پاکستان میں 498-A کا اضافہ کیا گیا ۔جس میں خاتون کو حق وراثت سے محروم کیے جانے دس سال قید اور دس لاکھ روپے جرمانے کی سزا رکھی گئی ہے۔ پاکستانی معاشرئے میں اِس طرح کے قوانین کی اہمیت اِس لیے نہیں ہوتی کہ اِن کا اطلاق ہو نا بہت مشکل ہے۔ جس طرح کا سماجی ڈھانچہ پاکستان کا ہے ا،س طرح کے سماجی ڈھانچے میں بہت مشکل ہے کہ ایک خاتون اپنے حق وراثت کے لیے اپنے بھائیوں کے خلاف عدالت میں جائے۔ لیکن اِس قانون کے بننے اور اِس کے نفاذ سے وقت کے ساتھ ساتھ ضرور تبدیلی آئے گی۔ جب خواتین یا اُن کے وارثان اپنی والدہ، دادی، نانی کے حق وراثت کے لیے قانونی جنگ لڑیں گے۔ اِس حوالے سے اگر خصوصی عدالتیں قائم ہوجائیں جہاں پر صرف خواتین کے حق وراثت کے معاملات نبٹائے جائیں تو یقینی طور پر اِس سے معاشرئے میں اچھا رحجان پیدا ہو گا۔ ہمارئے معاشرئے میں عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ خواتین کو وراثت میں سے حصہ نہیں دیا جاتا اور یہ بھی ہمارئے ہاں رسم ہے کہ خواتین کی شادی اپنے سے کم مالی حیثیت والے کے ساتھ کی جاتی ہے ۔ اِس طرح ایک تو عورت کو ویسے ہی کم خوشحال گھرانے میں بھیج دیا جاتاہے اور دوسرا پھر اُس کو حق وراثت بھی نہیں دیا جاتا تیسرا اُس عورت کے بچے بھی پھر معاشی طور پر کمزور ہوتے ہیں جس سے اُن کی اپنے ننھیال کے ساتھ رشتے داری نہیں ہوپاتی یا پھر سٹیٹس کا بہت فرق نمایاں ہوتا ہے جس سے معاشرتی اونچ نیچ کی خلیج بڑھتی چلی جاتی ہے ۔ اِس ایکٹ کی وجہ سے خواتین کو اُن کے حق وراثت ملنے کے چانسیز سو فی صد ہیں۔ اب ہم اِس قانون کے نفاذ کی راہ میں حائل ایک قانونی نکتے پر خصوصی گفتگو کرتے ہیں۔ کیاِ اِس قانون کا اطلاق اُن پر ہو گا جنہوں نے ابھی تک اپنی بہنوں یا بیٹیوں کو حق وراثت نہیں دیا یا اِس قانون کا اطلاق آنے والے وقت سے ہو گا۔لاہور ہائی کورٹ کے ایک کیس مسماۃ حمیدہ بی بی بنام محمد شریف جس کا فیصلہ لاہور ہائی کورت کے جج علی اکبر قریشی نے لکھا ہے جو کہ 3264/2010 میں ہے کہ بھائی نے اپنی بہن کو گفٹ میوٹیشن کے ذریعہ سے وراثت سے محروم کر دیا۔کیس کے مطابق پٹیشنر زکا والد ابراہیم 22-4-2001 کو وفات پا گیا اور اُس کے وارثان میں ایک بیٹا اور دو بیٹیاں تھیں۔ اپنی زندگی میں ابراہیم اپنی زمین کاشت کرتا تھا وہی زمین اُس نے اپنے ترکے میں چھوڑی۔ ابراہیم کی وفات کے بعد اُس کا بیٹا محمد شریف وہ زمین کاشت کرنے لگا۔ پہلے پہل محمد شریف اپنی بہنوں کو کہتا رہا کہ وہ اُن کا حصہ جو وراثت میں بنتا ہے وہ دے دے گا۔ بعدا زاں اُس نے کہا کہ وہ تو والد صاحب نے اپنی زندگی میں مجھے گفٹ کردی تھی۔ جب پٹشنیر زنے پٹواری سے رابطہ کیا تو پٹواری نے بتایا کہ محمد شریف نے ریونیو کے محکمہ سے مل بھگت کرکے نے جعلی دستاویزات تیار کروائی تھیں۔ پٹیشنرز نے جب ٹرائل کورٹ میں دعویٰ دائر کیا تو اُس کے جواب میں محمد شریف نے بتایا کہ زمین ابراہیم نے اپنے پوتوں کے نام گفٹ کر دی تھی اور بعد میں وہ زمین محمد شریف نے اپنے نام لگوا لی تھی۔ ٹرائل کورٹ نے مسماۃ حمیدہ بی بی وغیرہ کے حق میں ڈگری جاری کردی بعد ازاں محمد شریف نے اِس ڈگری کے خلاف اپیل دائر کردی تو ڈسٹرکٹ کورٹ نے اِس ڈگری کو کینسل کردیا۔ اِس مقدمے کے کہانی برصغیر پاک و ہند کے معاشرئے کے اُس رویے کو ظاہر کرتی ہے جس میں بھائی بہنوں کو وراثت سے محروم کر دیتے ہیں اور اِس مقصد کے لیے مختلف حیلے بہانے تراشتے ہیں۔ اِس مقدمے میں حقیقی بھائی نے اپنی بہنو ں کی وراثتی زمین گفٹ کے ذریعہ سے ہتھیا لی۔ اِس کیس کے کچھ اہم نکات پر روشنی ڈالتے ہیں یہ کہ جو گفٹ میوٹیشن بنائی گئی اُس میں ریسپونڈنٹ محمد شریف کے بیٹوں کے نام زمین لگائی گئی لیکن اُسی دن رپٹ روزنامچے میں گفٹ رسپونڈنٹ محمد شریف کے نام ظاہر کی گئی ہے۔یہ کہ مبینہ گفٹ میوٹشن کرتے وقت ریکارڈ میں کٹنگ کی گئی ہے۔ اور یہ کٹنگ کافی سیریس قسم کی ہے۔ جو گواہان پیش ہوئے اُنھوں نے بھی اِس کٹنگ کو تسلیم کیا ہے اِس سے واضع ہے یہ گفٹ Null&Void ہے۔ 
ریسپونڈنٹ خود بھی بطور گواہ پیش ہو ا لیکن اُس نے ایک لفظ بھی گفٹ کے وقت مقام اور تاریخ کے متعلق نہ بتایا ۔پٹیشنرز نے جب دعویٰ کیا تو اُس میں اُنھوں نے لکھا کہ گفٹ فراڈ پر مبنی ہے اُن کے والد نے گفٹ نہ کیا تھا ابراہیم نے انگوٹھے کا نشان بھی نہیں لگایا تھا اور نہ ہی ابراہیم نے شناختی کارڈ نمبر لکھا تھا۔ اِس امر پر ریسپونڈنٹ کے وکیل کی جانب سے کوئی جرح نہ کی گئی۔ اِس طرح پٹیشنرز کا اِس اہم نکتے پر Rebutell نہیں ہوا۔ 
ریسپونڈنٹ نے یہ کہا کہ گفٹ ابراہیم نے شفیع اور محمد اسحاق کے سامنے کی تھی۔ لیکن شفیع اور محمد اسحاق کو بطور گواہ پیش نہ کیا۔ اِس موقع پر فاضل عدالت نے ایک کیس غلام علی وغیرہ PLD 1990 SC-1 کا حوالہ دیا کہ عورت ہمارے معاشرے کا کمزور فرد ہے۔ عورت کو رسومات کی بھینت چڑھا کر یا جذباتی کرکے اُسے اُس کے حق وراثت سے محروم کردیا جاتا ہے۔ اِس کیس میں محمد شریف نے وہ تین نکات جو کہ گفٹ کے لیے ضروری ہیں ۔Offer, Acceptance, Delivery of Possession ثابت نہیں کر سکا۔یہ گفٹ ڈیڈ فراڈ پر مبنی ہے فیصلہ پٹیشنرز کے حق میں کیا جاتا ہے۔ 
اب ہم پشاور ہائی کورٹ کے بہت اہم فیصلے جس میں رواج کی بناء پر خواتین کو اُن کا وراثتی حصہ نہیں دیا جاتا اُس کی تفصیلات میں جاتے ہیں۔2016--YLR-23 - کے مطابق ریا ض احمد غیرہ بنام فقیر احمد کیس میں اہم فیصلہ جسٹس وقار احمد نے لکھا ہے۔ عام طور پر رواج ہے کہ عورتوں کو وراثت میں سے اُن کا حصہ نہیں دیا جاتا مدعا علیہ کا استدلال ہے کہ وراثتی زمین کا رواج کے مطابق انتقال ہوا ہے۔ جس رواج کی بات مدعا علیہ نے کی ہے اُس کا کہیں ریکارڈ نہ ہے۔ نہ ہی اُس علا قے میں غیر مسلم رہتے ہیں۔ اور وہاں پر یہ غیر اسلامی رواج بھی نافذ نہ تھا۔ قرانی احکامات کے ہوتے ہوئے غیر اسلامی احکامات پر عمل درآمد نہیں کروایا جاسکتا۔اِس کیس میں ریاض احمد اور دیگر پانچ لوگ پٹیشنرز ہیں۔ ٹرائل کورٹ نے ڈگری پٹیشنرز کے حق میں ہوئی کی بعد ازاں اپیل میں ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج نے ڈگری کے خلاف فیصلہ دے دیا۔ اِس کیس میں مسماۃ ذکیہ کے بیٹے اور بیٹیوں نے وراثت مانگی ہے ذکیہ کی ماں سیدہ ۔نواب خان کی بیٹی تھی سیدہ کا یک بھائی فقیر احمد تھا۔ جا ئیداد کا مالک ان دونوں پارٹیوں کا مورث اعلیٰ تھا جو کہ نواب خان تھا۔ نواب خان 1932 میں وفات پاء گیا تھا۔ نواب خان کا ایک بیٹا فقیر احمد اور بیٹی سیدہ تھے۔ سیدہ کی شادی خواجہ محمد سے ہوئی جو کہ شادی کے ایک سال بعد فوت ہوگیا ۔ سیدہ اپنے بھائی فقیر احمد کے گھر آگئی اور وہیں اُس کی بیٹی ذکیہ پیدا ہوئی۔ذکیہ موجود پٹیشنرز کی ماں ہے۔ ذکیہ 2006 میں وفات پاء گی۔موجودہ کیس پٹیشنرز نے 13-3-2007 میں دائر کیا۔فقیر ا حمد جب سات آٹھ سال کا تھا تو اُس کے حق میں زمین کا انتقال ہوگیا تھا۔ سیدہ جو کہ بیوہ ہوچکی تھی وہ بھی اپنے بھائی فقیر احمد کے ساتھ ہی رہتی تھی۔ فقیر احمد نے بعد ازاں اپنی
بہن سیدہ کو اُس کا حصہ وراثت دینے کی بجائے اُسے کل وراثت جو چھ سو کنال تھی میں سے بیس کینال گفٹ کردی۔ ذکیہ نے عدالت میں یہ بیان دیا تھاکہ وہ اپنی امی کے ساتھ اپنے ماموں فقیر احمد کے گھر رہتی تھیں لیکن وہ اپنا خرچہ خود کرتی تھیں۔ سیدہ اس حیثیت کی حامل نہ تھیں کہ وہ ا پنا حصہ اپنے بھائی سے وصول کرسکتی۔ ریکارڈ میں کہیں نہ ہے کہ سیدہ بیس کنال گفت لے کر اپنے وراثتی حصے سے دستبردار ہوگئی تھی۔ ریکارڈ میں یہ بھی نہ ہے کہ سیدہ اور ذکیہ پردہ نشین خواتین نہ تھیں۔ اِن رواجات کی وجہ سے بیٹیوں سے وراثتی حق اُن کے بھائی چھین لیتے ہیں۔ یہ بہت بڑا ظلم ہے۔ عدالت نے ذکیہ کے بیٹوں اور بیٹیوں کے حق میں فیصلہ کر دیا۔ 
یہاں498-A.ppc کا اب ذکر کرتے ہیں جس کے تحت خواتین کو حق وراثت سے محروم کرنے کی سزا دس لاکھ روپے جرمانہ اور سات سال قید ہے اور یہ نا قابل ضمانت اور ناقبال راضی نامہ ہے۔ اب ہماری بحث یہ ہے کہ کیا اِس قانون کا اطلاق اُن کیسیز پر ہوگا جنیں وراثت میں سے حصہ نہیں ملا۔ کیا اِس کا اطلاق 2012 کے بعد وراثتی جائیداد سے محروم کیے جانے والی خواتین پر ہو گا یا جس خاتون کو بھی وراثت میں سے حصہ نہیں ملا وہ اِس قانون سے فائد اُٹھا سکتی ہے۔ اِس کے لیے ہم Reterospective Effect پر بحث کرتے ہیں۔ عا م طور پر قوانین کاReterspective Effect ہوتا ہے تاہم کچھ قوانین جو کہ مستثنیات ہیں جو کہ پروسجیر پر اثر انداز ہوتے ہیں اُن کا Reterspective اطلاق بھی ہوتا ہے۔ پی ایل ڈی 1961 ڈھاکہ کے مطابق قانون میں ایسی کسی بھی اینکٹمنٹ کو Prospectiveتصور کیا جائے گا جب تک کہ خاص طور پر نہ کہا گیا ہو کہ اِس قانون کا اطلاق Reterspective بھی ہوگا۔
اگر الفاظ واضع نہ ہوں اور مطلب بھی ظاہر نہ ہو اور اِسکے اطلاق کرنے کے حوالے سے بھی وضاحت نہ ہو تو اِس کا Reterspective اطلاق نہ کیا جائے گا۔اگر کوئی ایسا قانون نافذ ہو جس کے نفاذ کے متعلق واضع طور پر ہوبتایاگیا ہو تو عدالت پراِسکا Reterspective Effect کا کیا جانے لازم ہو گا۔ ۔اِس کا مطلب یہ ہے کہ اگر قانون سازی ہو تو Reterspective کے نفاذ میں عدالت ہچکچاہٹ نہ کر ئے گی۔ 
پی ایل ڈی 2005 لاہور 150 کے مطابق قانون ساز وں کی جانب سے ایسے اقدامات جو کہPending معاملات کی جانب ہوں لیکن اِس کاReterspective Effect یہ نہیں ہوگا کہ یہ قانون اِس طرح لاگو ہو کہ اِس سے کوئی حق متاثر ہو یا اُس سے کسی کا حق چھین لے جائے۔ 
2011SCMR 1254 کے مطابق پروسیجرل قوانین کاReterspective Effect ہوتا ہے جب تک کہ اُن کو Impledely یا Expressely ثابت نہ کیا جائے۔ 
2002 YLR731 کے مطابق انصاف حاصل کیے جانے کے لیے فورم کا تبدیل کیے جانے کا Reterspective Effect ہے۔اِس سے پروسیجرل تبدیلی بھی آتی ہے۔ لیکن اِس کے لیے واضع طور پر بیان کیا گیا ہو کہ اِس کا Prospective Effect ہو گا نہ کہ Reterspective Effect ہو گا۔ 
PLD 1988 SC 232 کے مطابق جب Reterspective Effect سے کسی کا موجودہ حق متاثر ہو رہا ہو یا Reterspective Effect کی وجہ سے ناانصافی ہو رہی ہو۔ تب عدالت ایساکوئی قدم نہیں اٹھائے گی کہ سے کیس کا طریقہ بدلے۔ 
2001 PTD 570 کے مطابق Reterspective Effect وہاں اپلائی نہ ہوگا جہاں کسی فریق کا موجودہ حق جو اُسے جو حاصل ہے وہ ختم ہوجائے۔ 
1998CLC 743 کے مطابق Reterspective کی وجہ سے اگر کسی کا حق ڈسٹرب ہوجائے یا ۔ یعنی اِس کی وجہ سے Vested Right کے حصول میں رکاوٹ پیدا ہوجائے۔ تو پھر Reterspective کا اطلاق نہ ہو گا۔ 
23 2013 YLR کے مطابق اگر کسی علاقے کے رواج کے تحت کسی بھی عورت کو اُن کے حقِ وراثت سے محروم کر دیا گیا ہو تو ایسا خلاف اسلام ہے۔ خاتون اپنے والد کے فوت ہوتے ہی اُن کے ترکے میں سے اُس کی وارث بن گی۔ اُسے کسی طور بھی محروم نہیں کیا جاسکتا۔ 
اب ہم اِس حوالے سے Reterospective Effect کا ذکر کرتے ہیں اور اگر کسی طور بھی اُس کے حق کے حصول کے لیے کوئی بہتر قانون نافذ ہوتا ہے تو اُس کا نفاذ بھی اُس عورت کے حق وراثت کے حصول کے لیے بھی نافذ العمل ہوگا کیونکہ رسم و رواج کے وجہ سے عورت کو اُس کے حق وراثت سے محروم کیے جانے کے خلاف قانون ساز ادارئے جو بھی قانون بنائیں گے اُس کا اطلاق اُس کے حق کے حصول کے لیے بھی ہوگا۔ کیونکہ جس طرح489-A تعزیزات پاکستان کے تحت جو کوئی بھی کسی خاتون کو حقِ وراثت سے محروم کرئے گا تو اُس کو سات سال قید اور دس لاکھ روپے جرمانہ ہوگا۔ اور یہ جرم ناقابل ضمانت اور ناقابل صلح ہوگا۔ گویا اِس قانون کے نفاذ سے پاکستانی معاشرئے میں خواتین کو حق وراثت سے محروم کیے جانے کی جو رسم ہے اُس کا خاتمہ ہوگا۔ 

Friday, 1 December 2017

قانون کی حاکمیت۔اعلی عدلیہ کے فیصلہ جات اور قانونی نظائر کی عام فہم تشریحات کا مجموعہ صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ ہائی کورٹ a, book by ashraf asmi on law














قانون کی حاکمیت۔اعلی عدلیہ کے فیصلہ جات اور قانونی نظائر کی عام فہم تشریحات کا مجموعہ
صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ ہائی کورٹ

کسی بھی معاشرے میں اِس کے باسیوں کے مابین رہنے سہنے اور ایک دوسرے کے ساتھ اچھے بُرے برتاؤ کے کچھ اصول و ضوبط ہوا کرتے ہیں۔یہ اصول و ضوابط ہر معاشرے کے لیے علیحیدہ علحیدہ ہوتے ہیں۔ گویا ہر معاشرے یا گروہ ایک دوسرے سے الگ الگ زندگی کے اصول و ضوابط پر عمل پیرا ہوتا ہے۔اِسی رہن سہن کے نفاذ کے سبب ہی اِس معاشرے کی پہچان ہو پاتی ہے۔جو لوگ اپنے اپنے معاشرے کی پیروی کرتے ہیں وہی لوگ اِس معاشرے کے پُرامن شہری کہلاتے ہیں۔ پُر امن شہری سے مُراد پُر اُمن ماحول، پُرامن ملک۔ اِس لیے عالمی سطع پر اقوام کے مابین طے پاجانے والے معاہدے عالمی اصول و ضوابظ کی شکل اختیار کر جاتے ہیں۔جنہیں اقوام عالم کے مابین تعلقات کو پُرامن بنانے کے لیے زیر مطالعہ لایا جاتا ہے۔
گویا آج کا انسانی ذہن اِس بلند ترین سطع تک رسائی حاصل کر چُکا ہے جہاں سے آسانی سے ہر کوئی یہ کہتا نظر آتا ہے کہ قوانین سے عدم آگہی و عدم شناسی ناقابل قبول بہانہ ہے۔ یہ بات نہ صرف انسانی نقطہ نظر کی ترقی بلکہ معاشری ترقی کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے۔ مگر وہ معاشرے جہاں لوگوں میں ناخواندگی کی شرح بہت زیادہ ہو ۔ علم کی کمی ہو۔ سکولوں میں تعلیم ادھورہ چھوڑنے کا رحجان بہت زیادہ ہو۔ بنیادی انسانی حقوق سے محرومی بلکہ ناواقفیت بھی عام ہو۔ وہاں کون قانون طلب و رسد کی بات کرے اگر کوئی کرے بھی تو کس حد تک کرسکتا ہے۔جبکہ تیسری دُنیا کے ممالک نو آبادیاتی نظام کا حصہ رہے ہیں۔اِس لیے اِن ممالک میں ایک بڑا مسئلہ قومی زبان کا بھی ہے۔ ایسے ممالک میں عام طور پر حکمران ممالک کی زبان میں کاروبارِ حکومت چلایا رہا ہوتا ہے۔جس کے سبب اِن ممالک کے عوام علوم وفنون اور خصوصاً قانونی معاملات اور اپنے بنیادی حقوق سے نابلد رہتے ہیں یا انہیں بزور نابلد رکھا جاتا ہے۔گزشتہ تین دہائیوں کی پیشہ ورانہ زندگی میں مجھے اپنے ہاں بھی کچھ ایسا ہی ماحول نظر آیا ہے۔
ہماری % 70 فیصد آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔کروڑوں افراد صحت و صفائی اور پینے کے صاف پانی تک سے محروم ہیں۔ ناخواندگی کی سطع خطے کے دیگر ممالک کے مقابلہ میں سب سے بلند ہے۔ سکول و کالج کی بنیادی تعلیم سے لاکھوں افراد دور رہنے پر مجبور نظر آتے ہیں۔تو کون کس طرح اپنے حقوق کی حفاظت کر سکتا ہے۔ جبکہ اِسے ا پنے حقوق سے آگہی اور ملکی قوانین کی سوجھ بوجھ ہی نہ ہو۔ تمام قانون کی کتب غیر ملکی زبان میں ہونے کے سبب کوئی پھر کیوں نہ کہے گا کہ مجھے قانونی کُتب تک رسائی نہیں ہوئی یا مجھے ملکی قانونی کا علم نہ تھا۔
جی ہاں جب تک ریاست اپنے شہریوں کو ترقی کے یکساں ذرائع و مواقع فراہم نہین کرتی تو کو ئی کس طرح ایسے امتیازی سلوک والے معاشرہ کو پُرامن معاشرہ یا پُرامن ملک کہ سکتا ہے۔کچھ ایسے ہی خیالات کو سامنے رکھتے ہوئے زیرِ نظر کتاب" قانون کی حاکمیت " خصوصاً قومی زبان اُردو میں تحریر کی گئی ہے۔ جسے صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ نے تحریر کیا ہے ۔جس میں خصوصیت کے ساتھ ایسے قانونی موضوعات کو زیرِ بحث لایا گیا ہے جو کہ عوام النا س کی زندگی کے قریب ہیں۔کتاب میں مندرجہ ذیل مضامین شامل ہیں۔-1نبی پاکﷺ کی ختم نبوت کے حوالے سے پاکستانی قانون -2ہبہ / گفٹ کی سپریم کورٹ کی تشریح -3پوتی/ پوتا کی وراثت کا قانون قرانِ پاک اور سپریم کورٹ کی نظر میں-4جان لیوا بیماری میں مبتلا قیدی کی ضمانت کے قانون کی بات سپریم کورٹ کی تشریح -5رسولﷺ کے عظیم عاشق غازی علم دین شہیدؒ کے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کا تجزیہ -6توہین عدالت کے قانون کی تشریح سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں -7قانون کرایہ داری/ کرائے دار کی بے دخلی کا قانون اور سپریم کورٹ کے اہم فیصلہ جات -8فیڈرل شریعت کورٹ/ سپریم کورٹ کے فیصلہ جات کی روشنی میں حدود آرڈنیس کے تحت چوری کی سزا کے فیصلہ جات -9عدم پیروی کی بناء پر خارج ہونے والے کیس کی بابت سپریم کو کورٹ کا لینڈ مارک فیصلہ-10پاکستان میں ٹریڈ مارک کاپی رائٹس کے قوانین کی عملداری -11سرکار کی جانب سے شہریوں کے حقوق کی بابت امتیاز برتے جانے کے حوالے سے لاہور ہائی کورٹ کا لینڈ مارک فیصلہ -12پاکستانی آئین کے آرٹیکل 17 کے نفاذ کی حقیقت اور انسانی آزادیوں کی صورتحال -13ہارڈینڈ کریمنل کی ضمانت کے قانون کی سپریم کورٹ کی تشریح -14پولیس اہلکار کے قتل کی بابت سپریم کورٹ کا اہم فیصلہ -15جسٹس آف پیس کے اختیارات کے قانون،22-A, 22 B سی آر پی سی کی حقیقت حال-16پاکستان میں طلاق کی شرح میں اضافے کے محرکات اور مضمرات -17آئین پاکستان کے آرٹیکل 199 کی عملداری کی صورتحال -18سائبر کرائمز/سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کے پاکستانی قانون کا جائزہ -19خیبر پختون خواہ کے طالب علم مثال خان کے قتل کے حقائق -20کرسچین کے شادی بیاہ و طلاق کے پاکستانی قوانین -21بچوں کی حوالگی کی عدالت گارڈین کورٹ میں سائلین کودرپیش مسائل کا جائزہ -22خواتین پر تشدد کے قانون کے نفاذ کے حوالے سے ایک سیر حاصل بحث -23سرکاری ملازمین کی کرپشن کی بابت ا نسداد کرپشن کا قانون -24پولیس کی ذمہ داریوں کا پاکستانی قانون -25 کریمنالوجی کی بین الاقوامی ریسرچ کی بنیاد پر جرائم ہونے اور جرائم برھنے کے محرکات کا جائزہ ۔26 چیک جاری کرتے وقت بدیانتی کا ارتکاب 489-F PPCکے قانون کی تشریح -27 جنسی زیادتی کی سزا قران وحدیث اور پاکستانی اعلیٰ عدلیہ کے فیصلہ جات کی روشنی میں -28 دُنیا کے مختلف ممالک کے طلاق کے قوانین پر ایک تحقیقی بحث -29 آئین پاکستان کے آر ٹیکل 4 کے تقاضے اور عملی نفاذ کی حقیت 30 -فوجداری مقدمات میںCrPc,365K کی اہمیت -31 زائد المیعاد دستاویزات کی بطور شہادت تسلیم کیے جانے کی بابت اعلیٰ عدلیہ کی تشریح ۔ اِس کتاب کو عرفان لاء پبلشر ٹرنر روڈ  ہائی کورٹ لاہور نے شائع کیا ہے۔