Monday, 4 December 2017

خواتین کے حق وراثت کے قانون کی قران اور اعلیٰ عدلیہ کی تشریح ARTICLE BY میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ ہائی کورٹ women shares in Inheritance in Pakistani laws

خواتین کے حق وراثت کے قانون کی قران اور اعلیٰ عدلیہ کی تشریح

صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ ہائی کورٹ


قران کی تین آیتیں وراثت کی تقسیم کی تفصیل بتاتی ہیں۔ وہ یہ ہیں۔‘‘تمہاری اولاد کے بارے میں اللہ تمہیں ہدایت کرتا ہے کہ مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہے۔ اگر (میت کی وارث) دو سے زائد لڑکیاں ہوں تو انہیں ترکے کا دو تہائی دیا جائے۔ اور اگر ایک ہی لڑکی وارث ہو تو آدھا ترکہ اس کا ہے۔ اگر میت صاحبِ اولاد ہو تو اس کے والدین میں سے ہر ایک کو ترکے کا چھٹا حصہ ملنا چاہیے۔ اور اگر وہ صاحبِ اولاد نہ ہو اور (صرف) والدین ہی اس کے وارث ہوں تو ماں کو تیسرا حصہ دیا جائے۔ اور اگر میت کے بھائی بہن بھی ہوں تو ماں چھٹے حصے کی حق دار ہو گی۔ (یہ سب حصے اس وقت نکالے جائیں گے) جبکہ وصیت جو میت نے کی ہو پوری کر دی جائے اور قرض جو اُس پر ہو ادا کر دیا جائے۔ تم نہیں جانتے کہ تمہارے ماں باپ اور تماری اولاد میں سے کون بلحاظ نفع تم سے قریب تر ہے۔ یہ حصے اللہ نے مقرر کر دیے ہیں اور اللہ یقینًا سب حقیقتوں سے واقف اور ساری مصلحتوں کا جاننے والا ہے۔’’(سورۃ النساء آیت11)جو مال تمہاری عورتیں چھوڑ مریں اس میں تمہارا آدھا حصہ ہے بشرطیکہ ان کی اولاد نہ ہو اور اگر ان کی اولاد ہو تو اس میں سے جو چھوڑ جائیں ایک چوتھائی تمہارا ہے اس وصیت کے بعد جو وہ کر جائیں یا قرض کے بعد اور عورتوں کے لیے چوتھائی مال ہے جو تم چھوڑ کر مرو بشرطیکہ تمہاری اولاد نہ ہو پس اگر تمہاری اولاد ہو تو جو تم نے چھوڑا اس میں ان کا آٹھواں حصہ ہے اس وصیت کے بعد جو تم کر جاؤ یا قرض کے بعد اور اگر وہ مرد یا عورت جس کی یہ میراث ہے باپ بیٹا کچھ نہیں رکھتا اور اس میت کا ایک بھائی یا بہن ہے تو دونوں میں سے ہر ایک کا چھٹا حصہ ہے پس اگر اس سے زیادہ ہوں تو ایک تہائی میں سب شریک ہیں وصیت کی بات جو ہو چکی ہو یا قرض کے بعد بشرطیکہ اوروں کا نقصان نہ ہو یہ اللہ پاک کا حکم ہے اور اللہ جاننے والا تحمل کرنے والا ہے (سورۃ النساء آیت 12)وہ تجھ سے فتویٰ مانگتے ہیں۔ کہہ اللہ تمہیں کلالہ (والدین اور اولاد کے بغیر) کے متعلق فتویٰ دیتا ہے۔ اگر کوئی مرد مر جائے جسکی اولاد نہ ہو مگر اسکی ایک بہن ہو تو اسے ترکے کا نصف ملے گا، اور (اگر بہن پہلے مرے تو) وہ (مرد) خود اسکا وارث ہو گا اگر اسکی بہن کی اولاد نہ ہو۔ اور اگر وہ دو عورتیں ہوں تو ان کے لیئے ترکے کا دو تہائی ہوگا۔ اور اگر بھائی بہنوں میں کئی مرد اور عورتیں ہوں تو مرد کے لیئے دو عورتوں کے حصے کی مانند ہو گا۔ اللہ تم پر واضح کرتا ہے تا کہ تم بھٹک نہ جاؤ، اور اللہ ہر بات کو جانتا ہے۔ (النسا 176) 

قرآن مجید نے لڑکیوں کو حصہ دلانے کا اس قدر اہتمام کیا ہے کہ لڑکیوں کے حصہ کو اصل قرار دے کر اس کے اعتبار سے لڑکوں کا حصہ بتلایا اور بجائے لانثین مثل حظ الذکر(دو لڑکیوں کو ایک لڑکے کے حصہ کے بقدر) فرمانے کے للذکر مثل حظ الانثیین (لڑکے کو دو لڑکیوں کے حصہ کے بقدر) کے الفاظ سے تعبیر فرمایا ۔بہنوں کو میراث سے محروم کرنا حرام ہے
یہ بات ملحوظ رہے کہ لڑکیوں کو میراث سے محروم کرنا اور ان کو جو میراث سے حصہ ملتا ہے وہ لڑکوں کا آپس میں تقسیم کرلینا (جیسا کہ اکثر یہی ہوتا ہے) یہ سخت حرام ہے، بہنوں پر ظلم ہے اور قانون خدا وندی سے بغاوت ہے اگر کسی فرد یا جماعت یا پنچائت یا ملک کے احکام اپنے مروجہ قانون کے مطابق لڑکوں ہی میں مرنے والوں کی میراث تقسیم کردیں اور لڑکیوں کو محروم کردیں تو اس طرح سے لڑکوں کیلئے شرعا بہنوں کا حصہ لینا حلال نہ ہوگا، اللہ تعالیٰ نے لڑکیوں کے حصہ کی اہمیت بیان فرماتے ہوئے یعنی لڑکوں کا حصہ علیحدہ سے بتایا ہی نہیں بلکہ لڑکیوں کا حصہ بتاتے ہوئے لڑکوں کا حصہ بتایا ہے۔
غیر منقسم ہندوستان میں جب انگریزوں کا تسلط تھا اور انہیں کا قانون رائج تھا اس زمانہ میں ایک مسلمان انگریز مجسٹریٹ کے یہاں اپنے باپ کی میراث تقسیم کرانے کیلئے گیا اور اس سے کہا کہ آپ انگریزی قانون کے مطابق تقسیم کردیں۔ مجسٹریٹ نے کہا چونکہ میں سرکاری ملازم ہوں اس لئے میں اسی طرح تقسیم کردوں گا جیسے آپ کہہ رہے ہیں لیکن میرا سوال یہ ہے کہ آپ مسلمان ہوتے ہوئے قرآن کے مطابق کیوں تقسیم نہیں کراتے؟ قرآن میں تو آدھی سطر سے بھی کم میں لڑکوں اور لڑکیوں دونوں کا حصہ بیان فرمادیا ہے آپ قرآن کے لفظ للذکر کو تو ماننے کے لئے تیار ہیں لیکن مثل حظ الانثیین ماننے کو تیار نہیں۔ یہ قرآن ماننے کا کون سا طریقہ ہےَ ؟ مسلمان صاحب اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔
بعض لوگ بہنوں کا حصہ یوں کہہ کر دبا لیتے ہیں کہ وہ لیتی ہی نہیں یا انہوں نے معاف کردیا ہے۔ اگر واقعی سچے دل سے معاف کردیں تو وہ معاف ہوجاتا ہے لیکن اگر انہوں نے اوپر کے دل سے معاف کردیا تو اس سے معاف نہیں ہوگا۔ اگر بہنوں کو بتادے کہ تمہارا اتنا اتنا حصہ ہے، اتنے اتنے ہزار روپے تمہارے حصے میں آرہے ہیں اور باغ میں تمہارا اتنا حصہ ہے اور مکان، جائیداد میں اور زرعی زمین میں اتنا اتنا حصہ ہے، وہ سمجھ لیں کہ ہم اپنے اپنے حصے میں صاحب اختیار ہیں۔ معاف نہ کریں تو ہمارے بھائی ضرور ہمارا حصہ ہم کو دے دیں گے اس کے باوجود معاف کردیں تو یہ معافی معتبر ہوگی اگر انہوں نے یہ سمجھ کر اوپر کے دل سے معاف کردیا کہ ملنا تو ہے ہی نہیں۔ بھائیوں کا دل بھی کیوں برا کیا، اگر شوہر سے مخالفت ہوگئی یا اس کی موت ہوگئی تو ان بھائیوں کے پاس آنا پڑے گا۔ اس وقت بھائی برا مانیں گے اور بھابیان طعنہ دیں گی اس لئے مجبوراًزبانی طور پر معاف ہی کردیں۔ ایسی معافی کا کوئی اعتبار نہیں کیونکہ یہ معافی طیب نفس سے اور اندر کی خوشی سے نہیں ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ جو لوگ بہنوں کو حصہ نہیں دیتے، اور وہ یہ سمجھ کر بادل ناخواستہ شرما شرمی معاف کر دیتی ہیں کہ ملنے والا تو ہے ہی نہیں تو یوں بھائیوں سے برائی لیں، ایسی معافی شرعاً معافی نہیں ہوتی، ان کا حق بھائیوں کے ذمہ واجب رہتا ہے، یہ میراث دبانے والے سخت گنہگار ہیں، ان میں بعض بچیاں نابالغ بھی ہوتی ہیں، ان کو حصہ نہ دینا دوہرا گناہ ہے 
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سات گناہوں سے بچو جو ہلاکت کا باعث ہیں پوچھا گیا کیا کیا؟ فرمایا اللہ کے ساتھ شرک، جادو، بے وجہ قتل، سود خوری، یتیم کا مال کھا جانا، جہاد سے پیٹھ موڑنا، بھولی بھالی ناواقف عورتوں پر تہمت لگانا، ابن ابی حاتم میں ہے صحابہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے معراج کی رات کا واقعہ پوچھا جس میں آپﷺ نے فرمایا کہ میں نے بہت سے لوگوں کو دیکھا کہ ان کے ہونٹ نیچے لٹک رہے ہیں اور فرشتے انہیں گھسیٹ کر ان کا منہ خوب کھول دیتے ہیں پھر جہنم کے گرم پتھر ان میں ٹھونس دیتے ہیں جو ان کے پیٹ میں اتر کر پیچھے کے راستے سے نکل جاتے ہیں اور وہ بے طرح چیخ چلا رہے ہیں ہائے ہائے مچا رہے ہیں۔ میں نے حضرت جبرائیل سے پوچھا یہ کون لوگ ہیں؟ کہا یہ یتیموں کا مال کھا جانے والے ہیں جو اپنے پیٹوں میں آگ بھر رہے ہیں اور عنقریب جہنم میں جائیں گے، حضرت سدی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں یتیم کا مال کھا جانے والا قیامت کے روز اپنی قبر سے اس طرح اٹھایا جائے گا کہ اس کے منہ آنکھوں نتھنوں اور روئیں روئیں سے آگ کے شعلے نکل رہے ہوں گے ہر شخص دیکھتے ہی پہچان لے گا کہ اس نے کسی یتیم کا مال ناحق کھا رکھا ہے۔ سورہ نساء کے اول رکوع میں شروع سے آخر تک یہی احکام ہیں، یتامی کے اموال کی نگہداشت رکھنے، ان کے مال کو اپنا مال نہ بنا لینے، ان کے وراثت میں ملے ہوئے اموال سے ان کو حصہ دینے کا حکم فرمایا اور بڑا ہو جانے کے ڈر سے ان کا مال اڑا دینے میں جلدی کرنا، یتیم لڑکیوں سے نکاح کر کے مہر کم کر دینا، یا ان کے مال پر قبضہ کر لینا وغیرہ ان سب امور کی ممانت فرمائی۔آخر میں فرمایا کہ ناحق یتیم کا مال کھانا پیٹ میں آگ کے انگارے بھرنا ہے، کیونکہ اس کی پاداش میں موت کے بعد اس طرح کے لوگوں کے پیٹوں میں آگ بھری جائے گی، لفظ یاکلون استعمال فرمایا ہے اور یتیم کا مال کھانے پر وعید سنائی گئی ہے، لیکن یتیم کے مال کا ہر استعمال کھانے پینے میں ہو یا برتنے میں، سب حرام اور باعث عتاب و عذاب ہے، کیونکہ محاورے میں کسی کا مال ناحق کھا لینا ہر استعمال کو شامل ہوتا ہے۔رشتے داروں کی وراثت کامال کھانا گناہ کبیرہ ہے۔جو لوگ یتیم کی وراثت کھا رہے ہیں اللہ پاک فرماتا ہے کہ وہ آگ کے انگارئے کھارئے ہیں۔ خاص طور پر بیٹیوں کو اُن کی وراثت کا حصہ نہیں دیا جاتا یہ بہت بڑا ظلم ہے۔ یہ گناہ کبیرہ ہے۔ وراثت کا مال نہ دینے کا گناہ اُتنا ہی ہے جتنا چوری یا ڈاکہ مار کر مال کھانا ہے۔ نبی پاک ﷺ کا ارشاد ہے۔کسی مسلمان کا مال اُس کی مکمل دلی خوشی کے بغیر کھانا حرام ہے۔ بہنوں سے وراثت معاف کروالی جاتی ہے۔ یہ بہت بڑا ظلم ہے۔مال تھوڑا ہے یا زیادہ وراثت لازمی جاری ہوتی ہے۔ جس طرح رشتے داروں پر رحم کھانے کا ثواب بھی زیادہ ہے اِسی طرح رشتے داروں کا مال کھانے کا گناہ بھی بہت زیادہ ہے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے جسٹس جواد ایس خواجہ نے2016 میں و راثت کے ایک کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا کہ ہمارے ہاں بیٹی اور بہن کو وراثت میں حصہ نہ دینے کا رجحان عام ہے جو شریعت کے منافی ہے اور اس کی حوصلہ شکنی کی ضرورت ہے۔ سبھیل نامی خاتون کے بچوں کی وراثت کے بارے میں ماتحت عدالت کے ایک فیصلے کے خلاف جسٹس جواد ایس خواجہ، جسٹس سرمد جلال عثمانی اور جسٹس اقبال حمید الرحمن پر مشتمل بینچ نے رٹ کی سماعت کی اور ماتحت عدالت کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے اس کے خلاف اپیل مسترد کر دی۔ اس موقع پر بینچ کے سربراہ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ یہ معاشرے کی روایت بن چکی ہے کہ بہنوں اور بیٹیوں کو وراثت میں ایک ٹکہ بھی نہیں دیا جاتا۔ انہیں ڈرا دھمکا کر وراثت نہ لینے پر قائل کیا جاتا ہے۔ زمینوں سے پیار کرنے والے اپنی وراثت بچانے کے لیے سگی بہنوں اور بیٹیوں کے وجود تک سے انکار کر دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی معاشرہ نے خواتین کو وراثت میں جو حقوق دیے ہیں اس سے کوئی انکار کی جرأت نہیں کر سکتا، وقت آگیا ہے کہ بیٹیوں اور بہنوں کے حقوق کا تحفظ کیا جائے۔
درحقیقت اِس آر ٹیکل کو لکھے جانے کا محرک وہ امتناع حقوق خواتین ایکٹ 2011 ہے. جس میں خواتین کے وراثت کے حق کے لیے تعزیزات پاکستان میں 498A دفعہ شامل کی گی۔ اِس کا مقصد خواتین کے وراثتی حقوق کا تحفظ ہے۔ وہ دفعہ یہ ہے۔ 
Section 498A-PPC..Under section 498 A, depriving women from inheriting property by deceitful or illegal means shall be punished with imprisonment which may extend to ten years but not be less than five years or with a fine of one million rupees or both. 
جو کہ درحقیقت خواتین کے وراثتی حقوق کے حصول کی جانب ایک بہت بڑا قدم ہے اِس ایکٹ کے تحت تعزیزات پاکستان میں 498-A کا اضافہ کیا گیا ۔جس میں خاتون کو حق وراثت سے محروم کیے جانے دس سال قید اور دس لاکھ روپے جرمانے کی سزا رکھی گئی ہے۔ پاکستانی معاشرئے میں اِس طرح کے قوانین کی اہمیت اِس لیے نہیں ہوتی کہ اِن کا اطلاق ہو نا بہت مشکل ہے۔ جس طرح کا سماجی ڈھانچہ پاکستان کا ہے ا،س طرح کے سماجی ڈھانچے میں بہت مشکل ہے کہ ایک خاتون اپنے حق وراثت کے لیے اپنے بھائیوں کے خلاف عدالت میں جائے۔ لیکن اِس قانون کے بننے اور اِس کے نفاذ سے وقت کے ساتھ ساتھ ضرور تبدیلی آئے گی۔ جب خواتین یا اُن کے وارثان اپنی والدہ، دادی، نانی کے حق وراثت کے لیے قانونی جنگ لڑیں گے۔ اِس حوالے سے اگر خصوصی عدالتیں قائم ہوجائیں جہاں پر صرف خواتین کے حق وراثت کے معاملات نبٹائے جائیں تو یقینی طور پر اِس سے معاشرئے میں اچھا رحجان پیدا ہو گا۔ ہمارئے معاشرئے میں عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ خواتین کو وراثت میں سے حصہ نہیں دیا جاتا اور یہ بھی ہمارئے ہاں رسم ہے کہ خواتین کی شادی اپنے سے کم مالی حیثیت والے کے ساتھ کی جاتی ہے ۔ اِس طرح ایک تو عورت کو ویسے ہی کم خوشحال گھرانے میں بھیج دیا جاتاہے اور دوسرا پھر اُس کو حق وراثت بھی نہیں دیا جاتا تیسرا اُس عورت کے بچے بھی پھر معاشی طور پر کمزور ہوتے ہیں جس سے اُن کی اپنے ننھیال کے ساتھ رشتے داری نہیں ہوپاتی یا پھر سٹیٹس کا بہت فرق نمایاں ہوتا ہے جس سے معاشرتی اونچ نیچ کی خلیج بڑھتی چلی جاتی ہے ۔ اِس ایکٹ کی وجہ سے خواتین کو اُن کے حق وراثت ملنے کے چانسیز سو فی صد ہیں۔ اب ہم اِس قانون کے نفاذ کی راہ میں حائل ایک قانونی نکتے پر خصوصی گفتگو کرتے ہیں۔ کیاِ اِس قانون کا اطلاق اُن پر ہو گا جنہوں نے ابھی تک اپنی بہنوں یا بیٹیوں کو حق وراثت نہیں دیا یا اِس قانون کا اطلاق آنے والے وقت سے ہو گا۔لاہور ہائی کورٹ کے ایک کیس مسماۃ حمیدہ بی بی بنام محمد شریف جس کا فیصلہ لاہور ہائی کورت کے جج علی اکبر قریشی نے لکھا ہے جو کہ 3264/2010 میں ہے کہ بھائی نے اپنی بہن کو گفٹ میوٹیشن کے ذریعہ سے وراثت سے محروم کر دیا۔کیس کے مطابق پٹیشنر زکا والد ابراہیم 22-4-2001 کو وفات پا گیا اور اُس کے وارثان میں ایک بیٹا اور دو بیٹیاں تھیں۔ اپنی زندگی میں ابراہیم اپنی زمین کاشت کرتا تھا وہی زمین اُس نے اپنے ترکے میں چھوڑی۔ ابراہیم کی وفات کے بعد اُس کا بیٹا محمد شریف وہ زمین کاشت کرنے لگا۔ پہلے پہل محمد شریف اپنی بہنوں کو کہتا رہا کہ وہ اُن کا حصہ جو وراثت میں بنتا ہے وہ دے دے گا۔ بعدا زاں اُس نے کہا کہ وہ تو والد صاحب نے اپنی زندگی میں مجھے گفٹ کردی تھی۔ جب پٹشنیر زنے پٹواری سے رابطہ کیا تو پٹواری نے بتایا کہ محمد شریف نے ریونیو کے محکمہ سے مل بھگت کرکے نے جعلی دستاویزات تیار کروائی تھیں۔ پٹیشنرز نے جب ٹرائل کورٹ میں دعویٰ دائر کیا تو اُس کے جواب میں محمد شریف نے بتایا کہ زمین ابراہیم نے اپنے پوتوں کے نام گفٹ کر دی تھی اور بعد میں وہ زمین محمد شریف نے اپنے نام لگوا لی تھی۔ ٹرائل کورٹ نے مسماۃ حمیدہ بی بی وغیرہ کے حق میں ڈگری جاری کردی بعد ازاں محمد شریف نے اِس ڈگری کے خلاف اپیل دائر کردی تو ڈسٹرکٹ کورٹ نے اِس ڈگری کو کینسل کردیا۔ اِس مقدمے کے کہانی برصغیر پاک و ہند کے معاشرئے کے اُس رویے کو ظاہر کرتی ہے جس میں بھائی بہنوں کو وراثت سے محروم کر دیتے ہیں اور اِس مقصد کے لیے مختلف حیلے بہانے تراشتے ہیں۔ اِس مقدمے میں حقیقی بھائی نے اپنی بہنو ں کی وراثتی زمین گفٹ کے ذریعہ سے ہتھیا لی۔ اِس کیس کے کچھ اہم نکات پر روشنی ڈالتے ہیں یہ کہ جو گفٹ میوٹیشن بنائی گئی اُس میں ریسپونڈنٹ محمد شریف کے بیٹوں کے نام زمین لگائی گئی لیکن اُسی دن رپٹ روزنامچے میں گفٹ رسپونڈنٹ محمد شریف کے نام ظاہر کی گئی ہے۔یہ کہ مبینہ گفٹ میوٹشن کرتے وقت ریکارڈ میں کٹنگ کی گئی ہے۔ اور یہ کٹنگ کافی سیریس قسم کی ہے۔ جو گواہان پیش ہوئے اُنھوں نے بھی اِس کٹنگ کو تسلیم کیا ہے اِس سے واضع ہے یہ گفٹ Null&Void ہے۔ 
ریسپونڈنٹ خود بھی بطور گواہ پیش ہو ا لیکن اُس نے ایک لفظ بھی گفٹ کے وقت مقام اور تاریخ کے متعلق نہ بتایا ۔پٹیشنرز نے جب دعویٰ کیا تو اُس میں اُنھوں نے لکھا کہ گفٹ فراڈ پر مبنی ہے اُن کے والد نے گفٹ نہ کیا تھا ابراہیم نے انگوٹھے کا نشان بھی نہیں لگایا تھا اور نہ ہی ابراہیم نے شناختی کارڈ نمبر لکھا تھا۔ اِس امر پر ریسپونڈنٹ کے وکیل کی جانب سے کوئی جرح نہ کی گئی۔ اِس طرح پٹیشنرز کا اِس اہم نکتے پر Rebutell نہیں ہوا۔ 
ریسپونڈنٹ نے یہ کہا کہ گفٹ ابراہیم نے شفیع اور محمد اسحاق کے سامنے کی تھی۔ لیکن شفیع اور محمد اسحاق کو بطور گواہ پیش نہ کیا۔ اِس موقع پر فاضل عدالت نے ایک کیس غلام علی وغیرہ PLD 1990 SC-1 کا حوالہ دیا کہ عورت ہمارے معاشرے کا کمزور فرد ہے۔ عورت کو رسومات کی بھینت چڑھا کر یا جذباتی کرکے اُسے اُس کے حق وراثت سے محروم کردیا جاتا ہے۔ اِس کیس میں محمد شریف نے وہ تین نکات جو کہ گفٹ کے لیے ضروری ہیں ۔Offer, Acceptance, Delivery of Possession ثابت نہیں کر سکا۔یہ گفٹ ڈیڈ فراڈ پر مبنی ہے فیصلہ پٹیشنرز کے حق میں کیا جاتا ہے۔ 
اب ہم پشاور ہائی کورٹ کے بہت اہم فیصلے جس میں رواج کی بناء پر خواتین کو اُن کا وراثتی حصہ نہیں دیا جاتا اُس کی تفصیلات میں جاتے ہیں۔2016--YLR-23 - کے مطابق ریا ض احمد غیرہ بنام فقیر احمد کیس میں اہم فیصلہ جسٹس وقار احمد نے لکھا ہے۔ عام طور پر رواج ہے کہ عورتوں کو وراثت میں سے اُن کا حصہ نہیں دیا جاتا مدعا علیہ کا استدلال ہے کہ وراثتی زمین کا رواج کے مطابق انتقال ہوا ہے۔ جس رواج کی بات مدعا علیہ نے کی ہے اُس کا کہیں ریکارڈ نہ ہے۔ نہ ہی اُس علا قے میں غیر مسلم رہتے ہیں۔ اور وہاں پر یہ غیر اسلامی رواج بھی نافذ نہ تھا۔ قرانی احکامات کے ہوتے ہوئے غیر اسلامی احکامات پر عمل درآمد نہیں کروایا جاسکتا۔اِس کیس میں ریاض احمد اور دیگر پانچ لوگ پٹیشنرز ہیں۔ ٹرائل کورٹ نے ڈگری پٹیشنرز کے حق میں ہوئی کی بعد ازاں اپیل میں ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج نے ڈگری کے خلاف فیصلہ دے دیا۔ اِس کیس میں مسماۃ ذکیہ کے بیٹے اور بیٹیوں نے وراثت مانگی ہے ذکیہ کی ماں سیدہ ۔نواب خان کی بیٹی تھی سیدہ کا یک بھائی فقیر احمد تھا۔ جا ئیداد کا مالک ان دونوں پارٹیوں کا مورث اعلیٰ تھا جو کہ نواب خان تھا۔ نواب خان 1932 میں وفات پاء گیا تھا۔ نواب خان کا ایک بیٹا فقیر احمد اور بیٹی سیدہ تھے۔ سیدہ کی شادی خواجہ محمد سے ہوئی جو کہ شادی کے ایک سال بعد فوت ہوگیا ۔ سیدہ اپنے بھائی فقیر احمد کے گھر آگئی اور وہیں اُس کی بیٹی ذکیہ پیدا ہوئی۔ذکیہ موجود پٹیشنرز کی ماں ہے۔ ذکیہ 2006 میں وفات پاء گی۔موجودہ کیس پٹیشنرز نے 13-3-2007 میں دائر کیا۔فقیر ا حمد جب سات آٹھ سال کا تھا تو اُس کے حق میں زمین کا انتقال ہوگیا تھا۔ سیدہ جو کہ بیوہ ہوچکی تھی وہ بھی اپنے بھائی فقیر احمد کے ساتھ ہی رہتی تھی۔ فقیر احمد نے بعد ازاں اپنی
بہن سیدہ کو اُس کا حصہ وراثت دینے کی بجائے اُسے کل وراثت جو چھ سو کنال تھی میں سے بیس کینال گفٹ کردی۔ ذکیہ نے عدالت میں یہ بیان دیا تھاکہ وہ اپنی امی کے ساتھ اپنے ماموں فقیر احمد کے گھر رہتی تھیں لیکن وہ اپنا خرچہ خود کرتی تھیں۔ سیدہ اس حیثیت کی حامل نہ تھیں کہ وہ ا پنا حصہ اپنے بھائی سے وصول کرسکتی۔ ریکارڈ میں کہیں نہ ہے کہ سیدہ بیس کنال گفت لے کر اپنے وراثتی حصے سے دستبردار ہوگئی تھی۔ ریکارڈ میں یہ بھی نہ ہے کہ سیدہ اور ذکیہ پردہ نشین خواتین نہ تھیں۔ اِن رواجات کی وجہ سے بیٹیوں سے وراثتی حق اُن کے بھائی چھین لیتے ہیں۔ یہ بہت بڑا ظلم ہے۔ عدالت نے ذکیہ کے بیٹوں اور بیٹیوں کے حق میں فیصلہ کر دیا۔ 
یہاں498-A.ppc کا اب ذکر کرتے ہیں جس کے تحت خواتین کو حق وراثت سے محروم کرنے کی سزا دس لاکھ روپے جرمانہ اور سات سال قید ہے اور یہ نا قابل ضمانت اور ناقبال راضی نامہ ہے۔ اب ہماری بحث یہ ہے کہ کیا اِس قانون کا اطلاق اُن کیسیز پر ہوگا جنیں وراثت میں سے حصہ نہیں ملا۔ کیا اِس کا اطلاق 2012 کے بعد وراثتی جائیداد سے محروم کیے جانے والی خواتین پر ہو گا یا جس خاتون کو بھی وراثت میں سے حصہ نہیں ملا وہ اِس قانون سے فائد اُٹھا سکتی ہے۔ اِس کے لیے ہم Reterospective Effect پر بحث کرتے ہیں۔ عا م طور پر قوانین کاReterspective Effect ہوتا ہے تاہم کچھ قوانین جو کہ مستثنیات ہیں جو کہ پروسجیر پر اثر انداز ہوتے ہیں اُن کا Reterspective اطلاق بھی ہوتا ہے۔ پی ایل ڈی 1961 ڈھاکہ کے مطابق قانون میں ایسی کسی بھی اینکٹمنٹ کو Prospectiveتصور کیا جائے گا جب تک کہ خاص طور پر نہ کہا گیا ہو کہ اِس قانون کا اطلاق Reterspective بھی ہوگا۔
اگر الفاظ واضع نہ ہوں اور مطلب بھی ظاہر نہ ہو اور اِسکے اطلاق کرنے کے حوالے سے بھی وضاحت نہ ہو تو اِس کا Reterspective اطلاق نہ کیا جائے گا۔اگر کوئی ایسا قانون نافذ ہو جس کے نفاذ کے متعلق واضع طور پر ہوبتایاگیا ہو تو عدالت پراِسکا Reterspective Effect کا کیا جانے لازم ہو گا۔ ۔اِس کا مطلب یہ ہے کہ اگر قانون سازی ہو تو Reterspective کے نفاذ میں عدالت ہچکچاہٹ نہ کر ئے گی۔ 
پی ایل ڈی 2005 لاہور 150 کے مطابق قانون ساز وں کی جانب سے ایسے اقدامات جو کہPending معاملات کی جانب ہوں لیکن اِس کاReterspective Effect یہ نہیں ہوگا کہ یہ قانون اِس طرح لاگو ہو کہ اِس سے کوئی حق متاثر ہو یا اُس سے کسی کا حق چھین لے جائے۔ 
2011SCMR 1254 کے مطابق پروسیجرل قوانین کاReterspective Effect ہوتا ہے جب تک کہ اُن کو Impledely یا Expressely ثابت نہ کیا جائے۔ 
2002 YLR731 کے مطابق انصاف حاصل کیے جانے کے لیے فورم کا تبدیل کیے جانے کا Reterspective Effect ہے۔اِس سے پروسیجرل تبدیلی بھی آتی ہے۔ لیکن اِس کے لیے واضع طور پر بیان کیا گیا ہو کہ اِس کا Prospective Effect ہو گا نہ کہ Reterspective Effect ہو گا۔ 
PLD 1988 SC 232 کے مطابق جب Reterspective Effect سے کسی کا موجودہ حق متاثر ہو رہا ہو یا Reterspective Effect کی وجہ سے ناانصافی ہو رہی ہو۔ تب عدالت ایساکوئی قدم نہیں اٹھائے گی کہ سے کیس کا طریقہ بدلے۔ 
2001 PTD 570 کے مطابق Reterspective Effect وہاں اپلائی نہ ہوگا جہاں کسی فریق کا موجودہ حق جو اُسے جو حاصل ہے وہ ختم ہوجائے۔ 
1998CLC 743 کے مطابق Reterspective کی وجہ سے اگر کسی کا حق ڈسٹرب ہوجائے یا ۔ یعنی اِس کی وجہ سے Vested Right کے حصول میں رکاوٹ پیدا ہوجائے۔ تو پھر Reterspective کا اطلاق نہ ہو گا۔ 
23 2013 YLR کے مطابق اگر کسی علاقے کے رواج کے تحت کسی بھی عورت کو اُن کے حقِ وراثت سے محروم کر دیا گیا ہو تو ایسا خلاف اسلام ہے۔ خاتون اپنے والد کے فوت ہوتے ہی اُن کے ترکے میں سے اُس کی وارث بن گی۔ اُسے کسی طور بھی محروم نہیں کیا جاسکتا۔ 
اب ہم اِس حوالے سے Reterospective Effect کا ذکر کرتے ہیں اور اگر کسی طور بھی اُس کے حق کے حصول کے لیے کوئی بہتر قانون نافذ ہوتا ہے تو اُس کا نفاذ بھی اُس عورت کے حق وراثت کے حصول کے لیے بھی نافذ العمل ہوگا کیونکہ رسم و رواج کے وجہ سے عورت کو اُس کے حق وراثت سے محروم کیے جانے کے خلاف قانون ساز ادارئے جو بھی قانون بنائیں گے اُس کا اطلاق اُس کے حق کے حصول کے لیے بھی ہوگا۔ کیونکہ جس طرح489-A تعزیزات پاکستان کے تحت جو کوئی بھی کسی خاتون کو حقِ وراثت سے محروم کرئے گا تو اُس کو سات سال قید اور دس لاکھ روپے جرمانہ ہوگا۔ اور یہ جرم ناقابل ضمانت اور ناقابل صلح ہوگا۔ گویا اِس قانون کے نفاذ سے پاکستانی معاشرئے میں خواتین کو حق وراثت سے محروم کیے جانے کی جو رسم ہے اُس کا خاتمہ ہوگا۔ 

No comments:

Post a Comment