صاحبزادہ میاں محمدا شرف عاصمی ایڈووکیٹ
وقت گزرنے کی ساعتیں اُس وقت شدت سے اپنا احساس دلاتی ہیں جب ایسی کوئی خبر آتی ہے کہ ہماری کوئی دوست ہمارا کوئی ساتھی کوئی غمخوار دُنیا کی بے ثباتیوں سے مُنہ موڑ کر اپنی اصل منرل کی طرف روانہ ہو جاتا ہے۔ جس طرح دولت جوانی حُسن وقت کا ایک دھارا ہوتی ہیں اِن کو بھی آخرکار منرل کی انتہاء کو چھوناہوتا ہے اور پھر وہ خامشی۔ ایسا ہی ہمارئے اپنے ساتھ بھی ہوجانا ہے۔ لیکن کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جنہیں اللہ پاک نے درد انسانیت عطا کیا ہوتا ہے۔ عقیل طالش میرانی ؒ کی وفات کی خبر یقینی طور پر انہتائی دکھ کے ساتھ سُنی گی۔ جب ڈاکٹر ظفر اقبال نوری امریکہ قیام پذیر ہو گئے تو پھر مصطفائی تحریک کو عقیل طالش اور ڈاکٹر جاوید صدیقی جیسے لوگوں نے اپنی تگ و تاز سے عوام الناس میں زندہ رکھا۔ عقیل طالش میرانی کے ساتھ میرا تعلق بھی تنظیمی ہی تھا۔ جب وہ پنجاب کے مصطفائی تحریک کے صدر تھے اور مصطفائی تحریک کے پنجاب کے ڈائریکٹر ایجوکشن کی ذمہ داری مجھے سونپی گئی تھی۔ جناب میرانی ایک انتہائی منکسر المزاج اورحالات کو سمجھنے والے رہنماء تھے اُن کی قیادت میں پنجاب پبلک لائبریری کے ہال میں ایک عظیم شان ضرب مومن کانفرنس کی گئی تھی یہ 1999 ء کی بات ہے جس میں مصطفائی تحریک کے رہنماؤوں نے بھر پور شرکت کی تھی اُس تقریب میں جناب ڈاکٹر شریف سیالویؒ نے بھی خطاب فرما یا تھا نامور صحافی جناب طارق اسماعیل ساگر بھی اِس تقریب کے مہمان تھے۔ یوں عقیل طالش میرانی اور ڈاکٹر جاوید صدیقی نے مصطفائی تحریک کے پرچم کو تھامے رکھا۔ مسلم ماڈل سکول اُردو بازار لاہور میں جناب عقیل طالش میرانی کی قیادت میں ہی ایجوکشن ورکشاپ کا انعقاد ہوا۔ اور یہ کانفرنس بہت کامیاب ہوئی۔ تیس سے زائد پبلشرز نے اپنی کتابوں کا ڈسپلے کیا۔ عقیل طالش میرانینے سود کی لعنت سے نجات کے لیے ایک بھرپور علمی کا م کیا اور حکومت وقت کو سود سے نجات کے لیے حکمت عملی بنا کر پیش کی۔پھر جس طرح ہوتا ہے کہ جو شخص بہت م محنت اور جذبے کے ساتھ کام کر رہا ہوتا ہے اِس دیمک زدہ، آسیب زدہ معاشرئے میں میر جعفر و میر صادق اپنے ہی رہنماؤوں کے عزم و حوصلے کا خون کرنے کے درپے ہوجاتے ہیں۔ یوں عقیل طالش میرانی جیسا زیرک، انتہائی ٹھنڈے مزاج کا حامل رہنماء اپنے ہی میر جعفروں اور میر صادقوں کی بے ثباتی کا شکار ہوتا چلا گیا اور تنظیمی معاملات سے اُنہیں کنارہ کش ہونا پڑ گیا۔ وقت کے فرعون وقتی طور پر طو رجیت جاتے یہی المیہ ہمارئے معاشرئے میں بھی ہے کہ کوئی بھی تنظیم کوئی بھی شخص جب فعال ہوتا ہے تو اُس کے اخلاص کو احسا س کمتری سمجھاجاتا ہے۔ عقیل طالش میرانی تنظیمی کام سے بالکل الگ تھلگ ہوگئے تھے اور شاید اُن کی موت کا سبب بھی وہ بے رحم قوتیں ہیں جو کسی بھی محنتی اور اخلاص سے بھر پور شخصیت کو کام کرنے نہیں دیتیں کیونکہ اِس سے اُن کے مادیت سے بھرپور ایجنڈئے پر زک جو پڑتی ہے۔میرے ساتھ اُن کی آخری بات چند سال پیشر فون پر ہوئی وہ مجھے میرئے کالموں کے حوالے سے فیڈ بیک دیتے رہتے تھے۔ اللہ پاک عقیل طالش میرانی کا سفر آخرت آسان فرمائے۔ اللہ پاک اِس عظیم عاشق رسولﷺ کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔(آمین)
No comments:
Post a Comment