Wednesday, 30 May 2018

المصطفے ویلفیئر سوسائٹی اور المصطفے ویلفیئر ٹرسٹ دُنیا بھر میں بلا امتیازرنگ و نسل ومذہب فلاحی کاموں میں مصروف عمل ........................صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی

المصطفے ویلفیئر سوسائٹی اور المصطفے ویلفیئر ٹرسٹ

صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی

نہایت محترم بھائی جناب محمد نواز کھرل، جن کے ساتھ انجمن طلبہء اسلام کے مشن کے لیے زندگی بھر تگ و تاز کی اُن کا گرامی نامہ موصول ہوا اپنھوں نے ارشاد فرمایا کہ برادرم میاں محمد اشرف عاصمی صاحب!
السلام علیکم! امید ہے مزاج گرامی بخیر ہوں گے۔۔۔ میں اخبارات میں آپ کی معرکہ آرائیاں پڑھتا رہتا ہوں اور آپ کو ہمہ وقت متحرک دیکھ کر بہت خوشی ہوتی ہے۔۔۔ بھائی جان میں آپ کو المصطفے ویلفیئر سوسائٹی اور المصطفے ویلفیئر ٹرسٹ کی مشترکہ رپورٹ بھیج رہا ہوں۔ میری آپ سے گذارش ہے کہ آپ رمضان المبارک کے دوران '' المصطفے '' کے حوالے سے ایک کالم ضرور لکھیں۔۔ میری اس گزارش میں حاجی حنیف طیب صاحب اور عبدالرزاق ساجد صاحب کی گذارش بھی شامل کر لیں۔ محمد نواز کھرل۔ قارئین اکرام جناب حاجی حنیف طیب اور عبدالرزاق ساجد دونوں انجمن طلبہ اسلام کے مرکزی صدر ہیں۔ آئیے اِن دونوں احباب کی مشترکہ فلاحی کوششوں کا جائزہ لیتے ہیں۔
’’المصطفے‘‘ کی فلاحی خدمات کا مختصر جائزہ :غربت کے اندھیرے اور محرومی و مفلسی کے سائے میں زندگی گزارنے والے مفلوک الحال خاک نشینوں کی بلا امتیاز رنگ و نسل اور مذہب بیلوث خدمت کرنے والی عالمی فلاحی و رفاہی تنظیم ’’المصطفے ویلفیئر سوسائٹی‘‘ 1983 میں کراچی میں قائم کی گئی۔۔۔۔ اس وقت ’’المصطفے‘‘کا نیٹ ورک پاکستان کے علاوہ کشمیر،برطانیہ، بنگلہ دیش، برما، شام، فلسطین، گیمبیا، صومالیہ، سوڈان، کینیا، اتھوپیا، نائیجیریا سمیت 22 ممالک تک پھیل چکا ہے۔ اور اس عالمگیر منظم اور فعال نیٹ ورک کے ذریعے خدمت انسانیت کا مشن جوش و جذبے اور خلوص و دیانت کے ساتھ جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ نیک نام سماجی، سیاسی و دینی شخصیت الحاج محمد حنیف طیب اس تنظیم کے بانی اور سرپرست اعلی ہیں۔۔۔۔ الحاج محمد حنیف طیب پاکستان وفاقی وزیر کی حیثیت سے بہترین خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔ پاکستان اور کشمیر میں 2005ء کے زلزلہ اور 2010۔2011ء کے سیلاب اور قحط سالی کے متاثرین کی جس لگن اور جذبے کے ساتھ المصطفے نے خدمت کی اس کا اعتراف اقوام متحدہ کے اس وقت کے سیکریٹری جنرل کو فی عنان، پرنس کریم آغا خان اور پاکستان و آزاد کشمیر کے صدر اور وزیر اعظم نے بھی کیا۔
کراچی میں ’’المصطفے‘‘کے فلاحی منصوبوں پر ایک نظر :کراچی میں المصطفے کا بڑا ہسپتال ’’المصطفے میڈیکل سنٹر‘‘کے نام سے گلشن اقبال میں قائم ہے۔ اس ہسپتال میں دل، گردے، شوگر، ہیپاٹائٹس، تھیلیسیمیا، آئی، سمیت تمام امراض کا مفت علاج کیا جاتا ہے۔المصطفے کے اس ہسپتال میں غریب افراد کے ہر طرح کے ٹیسٹ فری کئے جاتے ہیں اور ادویات بھی مفت مہیا کی جا رہی ہیں۔اس ہسپتال میں ہر روز کم و بیش ایک ہزار مریض استفادہ کرتے ہیں۔ہسپتال میں دو سو افراد کا طبی عملہ خدمات سرانجام دے رہا ہے۔ پچھلے تیس سالوں سے طبی خدمات سرانجام دینے والے اس ہسپتال سے اب تک لاکھوں افراد ایک روپیہ خرچ کئے بغیر علاج کروا کر شفایاب ہو چکے ہیں۔۔۔۔ اس ہسپتال میں ڈائیلائسز کا شعبہ 1998 سے کام کر رہا ہے جس کے ذریعے اب تک 112000 سے زائد ڈائیلسز کئے جا چکے ہیں۔۔۔ تھیلیسیمیا کا شعبہ 2008 میں قائم ہوا اور اب تک 18911 بچوں کے اضافی فولاد کا اخراج اور 6821 بچوں کے خون کی تبدیلی کی گئی ہے۔ جبکہ 70 بچوں کا مکمل مفت علاج کیا گیا ہے۔۔۔۔۔کراچی میں المصطفے کے گلشن اقبال والے مرکزی اور بڑے ہسپتال کے علاوہ بھی شاہ فیصل کالونی، او رنگی ٹاؤن، ملیر، گلشن اقبال بلاک 10اور کو رنگی کے علاوہ مختلف مقامات پر 8 میڈیکل سنٹر لاچار اور بیمار افراد کو علاج معالجے کی مفت سہولتیں فراہم کر رہے ہیں۔۔۔۔۔ صرف کراچی میں المصطفے کے پاس 130 ایمبولینسیں ہیں۔۔۔۔ کراچی میں المصطفے کی 12 میت گاڑیاں بھی خدمت میں مصروف ہیں۔۔۔۔۔ پچھلے سال المصطفے کی طرف سے کراچی کے مختلف علاقوں میں 120 فری میڈیکل کیمپ لگائے گئے جن سے ہزاروں افراد نے استفادہ کیا۔۔۔۔۔۔۔ کراچی میں المصطفے کے 15 سکولز میں غریب طلباء و طالبات کو مفت تعلیم اور کتابیں فراہم کی جارہی ہیں۔۔۔۔۔
یتیموں کی کفالت :المصطفے نے 2005 کے زلزلہ میں یتیم ہونے والے بچوں کی کفالت کے پروگرام آغاز کیا اور زلزلے کے نتیجے میں یتیم ہو جانے والے 300بچوں کی کفالت اپنے ذمے لیکر وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ان کی رہائش کا بندوبست کرکے ان کی تعلیم،لباس اور دوسری تمام ضروریات کو پورا کیااور اب یہ بچے تعلیم مکمل کرکے با روزگار ہو چکے ہیں۔المصطفے کا یتیموں کی کفالت کا اب یہ شعبہ بہت وسعت اختیار کر چکا ہے۔۔۔۔ اس وقت کراچی کے علاقے کورنگی میں المصطفے کا آرفن ہاؤس ’’میرا گھر‘‘کے نام سے قائم ہو چکا ہے، بہترین سہولتوں سے آراستہ اس آرفن ہاؤس میں 130 یتیم بچے گھر جیسے پرسکون میں پرورش پا رہے ہیں اور ان کی تعلیم، خوراک اور لباس کی تمام ضرورتیں المصطفے پوری کر رہی ہے۔۔۔۔ اسی طرح آذاد کشمیر کے دارالحکومت مظفر آباد سے گیار ہ کلو میٹر دور دریائے نیلم کے کنارے آباد گاؤں کہوڑی میں بھی المصطفے کا آرفن ہاؤس چل رہا ہے جس میں غریب بچیوں کو مختلف ہنر سکھانے کے لئے انڈسٹریل ہوم بھی بنایا گیا ہے۔ آذاد کشمیر کے اس آرفن ہاؤس کی نگرانی آذاد کشمیر کے سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن اور ریٹائرڈ سیشن جج جناب حاجی محمد یونس کر رہے ہیں۔۔۔۔۔۔
اولڈ ہومز :المصطفے نے کراچی کے گلستان جوہر بلاک 15 میں بے سہارا اور بیوہ خواتین کے لئے ’’گوشہ سیدہ فاطمتہ‘‘کے نام سے سنٹر بنایا ہے۔۔۔۔ اسی طرح اپنی اولاد کی طرف سے نظرانداز کئے جانے والے ضعیف العمر بوڑھوں کے لئے ’’گوشہ سیدنا امیر حمزہ‘‘ کے نام سے سنٹر کام کر رہا ہے۔ ان سنٹرز میں مقیم خواتین اور مردوں کو مفت رہائش، خوراک اور لباس کے ساتھ ساتھ تفریح کی سہولتیں بھی مہیا کی جاتی ہیں۔۔۔
اجتماعی شادیاں :
المصطفے کی طرف سے پچھلے کئی برس سے مظفرآباد، کوٹلی (آذاد کشمیر) فیصل آباد، گوجرانوالہ اور کامونکی میں ہر سال غریب بچیوں کی اجتماعی شادیوں کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ ان اجتماعی شادیوں میں المصطفے کی طرف سے غریب خواتین کو ایک لاکھ مالیت کے جہیز کے علاوہ باراتوں کو کھانا بھی کھلایا جاتا ہے۔ المصطفے کے اجتماعی شادیوں کے اس پروجیکٹ کے تحت اب تک ہزاروں غریب، مفلس اور بے سہارا خواتین شادیاں کروا کر اپنے گھروں میں بس چکی ہیں۔
ہونٹ اور تالو کٹے بچوں کے مفت آپریشن :المصطفے، کلیپ ٹرسٹ کے اشتراک سے ہونٹ اور تالو کٹے بچوں کے چہروں کی مسکراہٹ بحال کرنے کا مشن بھی جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس منصوبے کے سربراہ ڈاکٹر غلام قادر فیاض ہونٹ کٹے تالو کٹے کے 30ہزار سے زائد آپریشن کر کے دنیا بھر کے ان چند ڈاکٹروں میں شامل ہو چکے ہیں جنہیں ہونٹ کٹے تالو کٹے بچوں کی پلاسٹک سرجری کے سب سے زیادہ آپریشن کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔ اس منصوبے کے تحت اب تک ہونٹ اور تالو کٹے بچوں کے 8 ہزار آپریشن پلاسٹک سرجری ہسپتال فیصل ٹاؤن لاہورجبکہ 10 ہزار آپریشن مختلف علاقوں میں لگنے والے المصطفے کے فری کیمپوں میں مکمل ہو چکے ہیں۔

غریب خاندانوں میں 800 ٹن چاولوں کی تقسیم :2012ء میں حکومت تائیوان نے المصطفے کے فلاحی کاموں اور حسن کارکردگی سے متاثر ہو کر 200 ٹن (2 لاکھ کلو) چاول غریب خاندانوں میں تقسیم کرنے کے لئے المصطفے کے حوالے کئے۔ اس کے بعد المصطفے کی ڈسٹریبیوشن سے مطمئن ہو کر اگلے سال 400 ٹن چاول بھیجے گئے اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ اب تک ’’المصطفے‘‘ پاکستان میں اپنے ملک گیر نیٹ ورک کے ذریعے تائیوان سے ملنے والے 800 ٹن چاول 80 ہزار غریب اور ضرورت مند خاندانوں میں تقسیم کر چکا ہے۔
لاہور کا المصطفے میڈیکل سنٹر :لاہور کے علاقے باغبانپورہ میں المصطفے نے جگہ خرید کر اپنا میڈیکل سنٹر تعمیر کیا ہے۔ یہ سنٹر 1992ء سے علاقے کے مستحق افراد کو علاج معالجے کی مفت سہولتیں فراہم کر رہا ہے۔جہاں پر روزانہ 100افراد استفادہ کررہے ہیں۔ اس سنٹر میں ایک ایم بی بی ایس ڈاکٹر خدمات سرانجام دے رہا ہے۔۔۔
مظفرآباد (آذاد کشمیر) کا المصطفے کمپلیکس :
آذادکشمیر کے کیپیٹل سٹی مظفرآباد میں ’’المصطفے کمپلیکس‘‘تعمیر کیا گیا ہے۔ اس کمپلیکس میں 2005 کے زلزلہ میں معزور ہو جانے والے افراد کے لئے فزوتھراپی سنٹر اور بیوہ خواتین کے لئے ’’انڈسٹریل ہوم‘‘کے علاوہ عوام کو مطالعہ کی سہولت فراہم کرنے کے لئے وسیع لائبریری قائم ہے۔ اسی کمپلیکس میں ہر سال فری آئی کیمپ بھی لگایا جاتا ہے۔ المصطفے کے اس کمپلیکس میں بیوگان کو مختلف ہنر سکھا کر باعزت روزگار کمانے کے قابل بنایا جاتا ہے۔ یہ کمپلیکس غریب افراد کے لئے کمیونٹی سنٹر بن چکا ہے۔
برطانیہ میں کام کا آغاز:پاکستان میں المصطفے کے ملک گیر نیٹ ورک کے قیام کے بعد اسی فلاحی کام کے تسلسل میں 2006 میں برطانیہ میں المصطفے کے کام کا آغاز ہوا اور الحاج محمد حنیف طیب کے دیرینہ رفیق سفر اور انجمن طلباء اسلام کے مرکزی صدر کی حیثیت سے ایک معروف و مقبول سٹوڈنٹ لیڈر کے طور پر اپنی پہچان بنانے والے عبدالرزاق ساجد کی سربراہی میں برطانیہ میں المصطفے کا قیام عمل میں لایا گیا۔ ذیل میں ہم المصطفے ویلفیئر ٹرسٹ انٹرنیشنل برطانیہ کی فلاحی و رفاہی خدمات کا ایک مختصر جائزہ پیش کر رہے ہیں۔
روشنی سب کے لئے :المصطفے نے آنکھوں کے 75 ہزار مفت آپریشن مکمل کر لئے۔المصطفے اس وقت دنیا میں آنکھوں کے مفت آپریشن کرنے والی سب سے بڑی چیرٹی بن چکی ہے۔ پچھلے 9 برس میں المصطفے کی طرف سے پاکستان اور دوسرے ملکوں کے پسماندہ علاقوں میں لگائے جانے والے فری آئی کیمپوں میں آنکھوں کے 75 ہزار مفت آپریشن مکمل کر لئے گئے ہیں جبکہ اس سال کے آخر تک ایک لاکھ آئی آپریشن مکمل کرنے کا ہدف پورا کر لیا جائے گا۔ المصطفے سال میں دو بار فری آئی کیمپوں کی مہم چلاتی ہے۔ اس مہم کے دوران پاکستان، بنگلہ دیش، گیمبیا، کینیا سمیت مختلف ممالک کے پسماندہ اور غریب علاقوں میں فری آئی کیمپ لگائے جاتے ہیں۔ ان کیمپوں میں آنکھوں کے معائنے اور سفید موتیا کے آپریشن کے علاوہ مریضوں لینز، ادویات اور عینکیں بھی مفت فراہم کی جاتی ہیں۔ کیمپوں کے دوران مریضوں اور ان کے لواحقین کو کھانا بھی المصطفے کی طرف سے پیش کیا جاتا ہے۔ غریب مریضوں کو گھروں سے کیمپ میں لانے اور آپریشن کے بعد واپس گھروں میں پہنچانے کا بندوبست بھی المصطفے کرتی ہے اس طرح وسائل سے محروم غریب افراد ایک روپیہ خرچ کئے بغیر آنکھوں کا آپریشن کروا کر پھر سے دیکھنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔ المصطفے ’’روشنی سب کے لئے‘‘ کے مشن کے تحت اندھے پن کے خلاف مسلسل جہاد کر رہی ہے۔ آنکھوں کی بینائی ختم ہو جانے کی وجہ سے بیروزگاری کا عذاب جھیلنے والے لاکھوں افراد المصطفے کے فری آئی کیمپوں میں علاج کروا کر پھر سے اپنے خاندان اور بچوں کے لئے روٹی روزی کمانے کے قابل ہو چکے ہیں۔ المصطفے کے فری آئی کیمپوں میں امراض چشم کے ماہر ڈاکٹر خدمات سرانجام دیتے ہیں۔۔۔۔۔۔ المصطفے پاکستان میں بڑے پیمانے پر ’’آئی ہسپتال‘‘کے قیام اور موبائل آئی آپریشن تھیٹر کے لئے بھی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔۔۔ المصطفے کے فری آئی کیمپوں کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ ان کیمپوں میں آنے والے مریضوں کے آنکھوں کے آپریشن سے پہلے ان کی ہیپاٹائٹس بی 228سی اور ایڈز کے ٹیسٹ بھی کیے جاتے ہیں اور ہیپاٹائٹس یا ایڈز کی تشخصیص کی صورت میں ان مریضوں کو علاج معالجے میں تعاون کیا جاتا ہے۔
برما (میانمار) کے بے گھر روہنگیا مسلمانوں کی امداد :برما کے روہنگیا مسلمان پچھلے کئی سالوں سے برمی فوج کے ظلم کا شکار ہیں۔ ان کی گھر جلا دیئے گئے ہیں۔ بستیاں راکھ کا ڈھیر بنا دی گئی ہیں۔ فصلیں اجاڑ دی گئی ہیں اور ہزاروں روہنگیا مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ہے۔ برما سے جانیں بچا کر قریبی ملک بنگلہ دیش میں پناہ گزیں ہونے والے روہنگیا مسلمانوں کی تعداد آٹھ لاکھ ہو چکی ہے۔ شہریت کے حق سے محروم یہ لٹے پٹے بے گھر روہنگیا مسلمان مہاجرین بنگلہ دیش کے سرحدی علاقے کاکس بازار میں خیموں اور درختوں کے نیچے انتہائی کسمپرسی کی حالت میں مقیم ہیں۔۔۔ المصطفے 2012 سے مسلسل روہنگیا مسلمانوں کی مشکلات کے ازالے کے لئے سرگرم عمل ہے۔ المصطفے کے چیئرمین عبدالرزاق ساجد بارہ مرتبہ برما اور بنگلہ دیش پہنچ کر روہنگیا مسلمانوں میں امداد تقسیم کر چکے ہیں۔ اب تک المصطفے روہنگیا مسلمانوں کے امدادی مشن میں ایک ملین خرچ کر چکی ہے۔ روہنگیا مسلمانوں کی برما سے بنگلہ دیش ہجرت کے بعد برطانیہ سے امداد لے کر بنگلہ دیش پہنچنے والی پہلی چیرٹی المصطفے ہے۔ پہلی مرتبہ کاکس بازار بنگلہ دیش جانے والی المصطفے کی ٹیم کی قیادت برطانوی ہاؤس آف لارڈز کے رکن لارڈ نذیر احمد کر رہے تھے جبکہ چیئرمین المصطفے عبدالرزاق ساجد بھی ان کے ہمراہ تھے۔ اس کے بعد بھی المصطفے کی ٹیم عبدالرزاق ساجد کی سربراہی میں متعدد بار بنگلہ دیش پہنچ کر روہنگیا مسلمانوں میں خوراک، ادویات، کپڑے، خیمے، نقد رقوم، جرسیاں اور دوسرا سامان تقسیم کر چکی ہے۔ المصطفے نے روہنگیا مسلمان مہاجرین کے کیمپوں میں ہر روز بیس ہزار فوڈ بیگز تقسیم کرنے کا مستقل نظام بنا دیا ہے۔ ایک فوڈ بیگ میں کھانے پینے کا وافر سامان موجود ہوتا ہے جس سے ایک خاندان کی دو ماہ کی غذائی ضروریات پوری ہو سکتی ہیں۔ اب تک ایک لاکھ خاندانوں تک کھانے پینے کا سامان پہنچایا جا چکا ہے۔۔۔۔۔۔۔ کھانے کے علاوہ المصطفے کی طرف سے روہنگیا مسلمانوں کے کیمپوں میں واٹر پروجیکٹ بھی مسلسل جاری ہے۔ اس منصوبے کے تحت مہاجرین کو صاف پانی کی فراہمی کے لئے ہزاروں ہینڈ پمپس نصب کئے جا چکے ہیں اور ٹائیلٹس تعمیر کی جا چکی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ المصطفے نے روہنگیا مہاجرین کو علاج معالجے کی مفت سہولتوں کی فراہمی کے لئے مہاجر کیمپوں میں جگہ جگہ میڈیکل سنٹر قائم کر دیئے ہیں۔ ان سنٹرز میں کوآلیفائیڈ ڈاکٹرز، لیڈی ڈاکٹرز اور دوسرا طبی عملہ خدمات سرانجام دے رہا ہے۔ المصطفے کے میڈیکل کیمپوں میں ادویات بھی مفت فراہم کی جاتی ہیں۔ چونکہ بنگلہ دیش میں فری آئی کیمپوں کے حوالے سے المصطفے کا نیٹ ورک پہلے سے موجود تھا اس لئے المصطفے کے رضاکاروں نے دربدری کے عذاب سے دوچار روہنگیا مسلمان مہاجرین کی سب سے زیادہ خدمت کی ہے۔
شامی مہاجرین کے لئے المصطفے کی خدمات :سات سال سے خانہ جنگی اور بیرونی مداخلتوں کی آگ میں جلتے ملک شام کے لاکھوں افراد مسلسل بمباری سے تنگ آ کر مختلف ممالک میں مہاجر بن کر پناہ گزیں ہیں۔ یہ لاکھوں شامی مہاجرین بے پناہ مسائل و مشکلات کا شکار ہیں۔ المصطفے 2014 سے شام میں اپنا سیٹ اپ بنا کر کام کر رہی ہے۔ چیئرمین المصطفے عبدالرزاق ساجد خود بھی کئی بار شام جا چکے ہیں۔ المصطفے شام کے اندر جنگ سے متاثرہ افراد کی دادرسی اور شام سے باہر شامی مہاجرین کی امداد کے لئے مسلسل سرگرم عمل ہے۔ اب تک المصطفے مجموعی طور پر شامی مہاجرین کے امدادی مشن پر ایک لاکھ پاؤنڈ خرچ کر چکی ہے جبکہ خدمت کا یہ سلسلہ جاری ہے۔ مارچ 2018 میں المصطفے کی ٹیم برطانیہ سے امداد لے کر عبدالرزاق ساجد کی قیادت میں ترکی پہنچی اور ترکی کے بارڈر پر واقع شہر آفریں میں قائم کئے گئے شامی مہاجرین کے کیمپوں میں کھانے پینے کے سامان پر مشتمل فوڈ بیگز تقسیم کئے۔ المصطفے کی طرف سے تیار کئے گئے فوڈ بیگ چاول، چینی، گھی، دالوں، بسکٹ، چائے پتی اور دوسری اشیائے خورد و نوش پر مشتمل تھے۔ المصطفے کی ٹیم نے ترکی میں ایک ہفتہ قیام کے دوران مجموعی طور پر 25 ہزار خاندانوں میں فوڈ بیگ تقسیم کئے۔۔۔۔۔ اس سے پہلے المصطفے فرانس کے بارڈر ’’ڈوور‘‘کے علاوہ ہنگری اور آسٹریا میں پناہ گزین شامی مہاجرین میں امدادی اشیائے ضرورت تقسیم کر چکی ہے۔ المصطفے نے یہ عزم کر رکھا ہے کہ بے گھری اور ہجرت کے دکھ جھیلتے شامی مہاجرین کی وطن واپسی تک ان کی خدمت کا مخلصانہ مشن جاری رہے گا۔
غریب طلباء کے لئے حافظ سپانسر شپ پروجیکٹ :المصطفے پاکستان کے پسماندہ علاقوں میں رہنے والے غریب بچوں کو قرآن حفظ کرانے کا پروجیکٹ بھی کئی برسوں سے چلا رہی ہے۔ اس منصوبے کے تحت پاکستان میں اوکاڑہ، راولپنڈی، خانیوال، رحیم یار خان، جھنگ، بہاولنگر اور کوئیٹہ کے اضلاع میں 500 بچوں کو قرآن حفظ کروایا جا رہا ہے اور ان بچوں کو کھانا، رہائش اور لباس کے ساتھ ساتھ وظیفہ بھی فراہم کیا جاتا ہے اور قرآن حفظ کروانے والے اساتذہ کی تنخواہیں المصطفے کی طرف سے ادا کی جاتی ہیں۔ حفاظ پروجیکٹ پاکستان کے علاوہ کشمیر، بنگلہ دیش، کینیا، گیمبیا اور صومالیہ میں بھی جاری
ہے۔
پاکستان میں سیلاب زدگان کے لئے گھروں کی تعمیر :پاکستان میں۔۔۔۔ کے دوران آنے والے تباہ کن سیلاب کے نتیجے میں بیشمار غریبوں کے گھر ختم ہو گئے تھے۔ آزمائش کے اس موقع پر المصطفے نے پاکستان کے ضلع مظفرگڑھ کی بستی میرن والا اور بیری والا میں پچاس گھر مکمل تعمیر کر کے بے گھر ہو جانے والے غریبوں کے حوالے کئے جبکہ سینکڑوں گھروں کی تعمیر و مرمت کروائی گئی۔
المصطفے کا واٹر پروجیکٹ :المصطفے مختلف ممالک کے غریب علاقوں میں صاف پانی کی فراہمی کے لئے واٹر پروجیکٹ بھی کامیابی کے ساتھ چلا رہی ہے۔ اس منصوبے کے تحت اب تک پاکستان، بنگلہ دیش، سوڈان سمیت مختلف خطوں میں ہزاروں واٹر پمپس کی تنصیب اور کنوؤں کی تعمیر مکمل ہو چکی ہے۔
مصنوعی اعضا کی فراہمی:المصطفے حادثات اور امراض کی وجہ سے معذور ہو جانے والے افراد کو مصنوعی اعضا کی فراہمی کے منصوبے پر بھی کام کر رہی ہے۔ اب تک مختلف ممالک میں سینکڑوں افراد کو مصنوعی بازو، ٹانگیں اور ہاتھ لگائے جا چکے ہیں۔
ہسپتالوں کو طبی آلات کی فراہمی:المصطفے برطانیہ کے ہسپتالوں سے مختلف جدید طبی آلات جمع کر کے غریب ممالک کے خیراتی ہسپتالوں کو بھیجتی ہے۔ اب تک بڑی تعداد میں مختلف امراض کے ٹیسٹوں اور علاج سے متعلقہ طبی آلات کے علاوہ وہیل چیئرز اور ایمبولینسیں پاکستان، کشمیر، بنگلہ دیش، نائیجیریا، اتھوپیا کے خیراتی ہسپتالوں کو فراہم کی جا چکی ہیں۔

تمام مخیر احباب سے گزارش ہے کہ المصطفے کے پراجیکٹ میں آپ تعاون فرمائیں۔ اللہ پک ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔

Sunday, 27 May 2018

سپائی کرانیکلز........................ صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی

                                   سپائی کرانیکلز


صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی

بھارتی خفیہ ایجنسی اورپاکستانی خفیہ ایجنسی کے سابق چیفس کی جانب سے مشترکہ طور پر لکھی گئی کتاب کے چند ایک مندرجات قارئین کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔ پاکستان کی قومی سا لمیت کے حوالے سے اور پوری دُنیا مین ہماری اندرونی اور بیرونی ترجیحات کے حوالے سے دُشمن ملک کے سابق چیف کے ساتھ ملک کتاب لکھے جانے کو کیا معانی پہنائے جا سکتے ہیں۔پاکستان میں پہلے ہی ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور حکمران جماعت کے درمیان کافی تناؤ کی کیفیت ہے ۔ اِن حالات میں جب کہ پاکستان کے بھارت کے ساتھ تعلقات بھی تاریخ کی بدترین کمتر سطع پر ہیں اور اِس کتبا نے ایک دھماکہ کر دیا ہے۔ ایک سابق فوجی جرنیل اور سابق آئی ایس آئی کے سربراہ ہونے کی حیثیت سے اسد دُرانی کو اِس کتاب کے لکھے جانے کا خمیازہ بھگتنا پڑئے گا یا پھر اِس معاملے کو دبا لیا جائے گا۔آئیے اِس کے کچھ مندرجات بلا تبصرہ دیکھتے ہیں۔
بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کے سابق سربراہ امرجیت سنگھ دولت نے اعتراف کرتے ہوئے کہا ہے کلبھوشن یادیو کی تعیناتی بدترین غلطی تھی، کسی سینئر افسر کو کیسے کھلے عام بلوچستان یا چمن بھیج سکتے ہیں؟۔سپائی کرانیکلز نامی کتاب میں سابق را چیف نے اعتراف کرتے ہوئے کہا آج تک آئی ایس آئی کے کسی ایجنٹ نے اپنی وفا داری نہیں بدلی، کلبھوشن یادیو کی تعیناتی بھارتی ایجنسی کی بدترین غلطی ہے، آپ اپنی بحریہ کے کسی سینئر افسر کو کیسے کھل عام بلوچستان یا چمن بھیج سکتے ہیں؟ کلبھوشن کے معاملے میں آئی ایس آئی کی عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ ہوتا ہے۔ انہوں نے جاسوس کو فوراً ٹی وی کے سامنے پیش کر دیا۔سابق را چیف امرجیت سنگھ دولت نے کتاب میں مزید کہا بھارت میں کچھ بھی ہو جائے الزام آئی ایس آئی پر ڈال دیا جاتا ہے، کارکردگی کے حوالے سے آئی ایس آئی را سے بہت آگے ہے، دنیا بھر کی تمام خفیہ ایجنسیوں میں سے آئی ایس آئی سب سے دلچسپ ایجنسی ہے، میں نے کہا تھا اگر میں آئی ایس آئی کا سربراہ بن جاو191ں تو مجھے بے حد خوشی ہو گی۔سابق آئی ایس آئی چیف اسد درانی نے کتاب میں دعویٰ کیا کہ کارگل جنگ جنرل مشرف کا جنون تھا، مکتی باہنی کا قیام اور سقوط ڈھاکہ ’’را‘‘ کی اہم کامیابیاں ہیں، آئی ایس آئی کشمیر میں تحریک آزادی کو صحیح طور پر سمجھ نہیں پائی، نواز شریف کو کارگل آپریشن سے متعلق بہت کم معلومات تھیں۔اسد درانی نے مزید کہا پاکستانی وزیر اعظم آئی ایس آئی پر بھروسہ نہیں کرتے، ملکی سلامتی کے اہم معاملات پر آئی ایس آئی خود فیصلے کرتی ہے، حافظ سعید کے خلاف عدالتی کارروائی بہت مہنگی پڑ سکتی ہے، الزام لگے گا کہ اسد درانی کے خلاف کارروائی بھارتی ایما پر کی جا رہی ہے۔ انہوں نے افغانستان میں سویت یونین کی شکست کو آئی ایس آئی کا بڑا کارنامہ قرار دیا۔
پاکستانی فوج کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل اسد درانی اور ان کے انڈین ہم منصب، 'را' کے سابق سربراہ امرجیت سنگھ دُلت کی انڈین مصنف ادتیا سنہا کے ساتھ مل کر لکھی گئی کتاب 'دا سپائی کرانیکلز: را، آئی ایس آئی اینڈ الُوژنز آف پیس' نے سرحد کے دونوں جانب بحث مباحثے کے نئے در کھول دیے ہیں۔اس کتاب میں دونوں جاسوسوں نے اپنے اپنے کیرئیر اور دونوں ممالک کے درمیان تلخ تعلقات کے بارے میں کھل کر بات کی ہے اور ماضی کے کئی اہم واقعات پر روشنی ڈالنے کے علاوہ مستقبل میں امن حاصل کرنے کے لیے روڈ میپ کے حوالے سے بھی بات کی ہے۔
اس کتاب کے لیے دونوں افسران اور ادتیا سنہا نے بنکاک، استنبول اور کھٹمنڈو میں 2016 اور 2017 میں چار مختلف مواقعوں پر ملاقاتیں کیں۔پاکستان خفیہ ایجنسی کے سابق سربراہ جنرل اسد درانی نے کہا کہ پاکستانی وزرا اعظم آئی ایس آئی پر بھروسہ نہیں کرتے۔انھوں نے مزید کہا کہ ملکی سلامتی کے اہم معاملات پر آئی ایس آئی خود فیصلے کرتی ہے اور ہمیں اس کے لیے فوج کو یا حکومت کو بتانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔را کے سربراہ امرجیت سنگھ دُلت کہتے ہیں کہ 'اگر آئی ایس آئی اتنی موثر تنظیم نہ ہوتی تو ہر روز انڈیا میں اس پر الزام نہیں لگ رہا ہوتا۔ جب بھی انڈیا میں کوئی واقعہ ہوتا ہے اس کا الزام آئی ایس آئی پر لگتا ہے۔ یہ دنیا بھر کی تمام خفیہ ایجنسیوں میں سے سب سے دلچسپ ایجنسی ہے۔ مجھ سے ماضی میں ایک پاکستانی ٹی وی چنیل نے آئی ایس آئی کے بارے میں پوچھا تو میں نے کہا کہ اگر میں اس کا سربراہ بن جاؤں تو مجھے بے حد خوشی ہو گی۔را کے سابق سربراہ اے ایس دلت کہتے ہے کہ جب بھی کوئی انڈیا میں کوئی واقعہ ہوتا ہے اس کا الزام آئی ایس آئی پر لگتا ہے۔اس سوال پر کہ دونوں ایجنسیوں میں بہتر کون ہے، اسد درانی کہتے ہیں کہ دس سال قبل ایک ویب سائٹ پر مختلف فہرستیں سامنے آئیں جن میں دنیا کی بہترین خفیہ ایجنسیوں کی فہرست میں آئی ایس آئی پہلے نمبر پر تھی۔اسی بارے میں اے ایس دُلت کہتے ہیں کہ را کا قیام آئی ایس آئی سے تقریباً 20 سال کے بعد آیا اور یہ مناسب نہیں ہو گا کہ دونوں تنظیموں کا موازنہ کیا جائے۔ ساتھ ساتھ انھوں نے کہا کہ را اور انڈین اداروں نے کئی ایسے کام کیے ہیں جن کے بارے میں لوگوں کو علم نہیں ہے اور نہ ہی انھیں اس کے بارے میں معلوم ہونا چاہیے۔اسد درانی نے بھی اس بات کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ ضروری نہیں ہے کہ کا آپ کا نمبر کون سا ہو۔ 'اصل بات یہ ہوتی ہے کہ آپ اپنا کام موثر طریقے سے کریں اور خاموش رہیں، جیسے انڈیا والوں نے مکتی باہنی کے ساتھ کیا تھا۔'انھوں نے مزید کہا کہ آئی ایس آئی کی ایک اور بڑی کامیابی یہ ہے کہ آج تک کسی جاسوس نے اپنی ہمددردیاں نہیں بدلیں اور نہ ہی رنگے ہاتھوں پکڑا گیا۔
اسی حوالے سے اے ایس دُلت کہتے ہیں کہ آئی ایس آئی کے جاسوس کو نہ گرفتار کرنا نہ اس کی ہمدردیاں تبدیل کرانا را کی بڑی ناکامیوں میں سے ایک ہے۔دوسری جانب اسد درانی نے آئی ایس آئی کی ناکامیوں کے حوالے سے کہا کہ 'جب کشمیر کے مسئلے شروع ہوتا تو ہمیں اندازہ نہیں تھا کہ یہ کس قدر سنجیدہ اور طویل معاملہ بن جائے گا۔ یہ سب چیزیں جب شروع ہوتی ہیں تو وہ چھ ماہ، سال بھر چلتی ہیں لیکن جب وہ لمبی ہو گئی تو اس کو سنبھالنا مشکل ہو گیا اور کشمیری بغاوت پر ہمارا کنٹرول اتنا کامیاب نہیں رہا۔جنرل اسد درانی کے مطابق حافظ سعید کے خلاف عدالتی کارروائی بہت مہنگی پڑ سکتی ہے ۔اے ایس دُلت کتاب میں سوال کرتے ہیں کہ لشکر طیبہ کے سربراہ حافظ سعید پاکستان کی کس طرح مدد کرتے ہیں۔ اس بارے میں اسد درانی نے کہا کہ سوال یہ ہونا چاہیے کہ پاکستان حافظ سعید کے بارے میں کیا کر سکتا ہے۔اس بارے میں انھوں نے مزید کہا: 'اگر ہم حافظ سعید کے خلاف عدالتی کارروائی کریں تو الزام لگے گا کہ یہ انڈیا کے ایما پر کیا جا رہا ہے اور وہ معصوم ہے۔ ایسے کسی بھی عمل کا سیاسی نقصان بہت زیادہ ہے۔ حافظ سعید کے خلاف عدالتی کارروائی بہت مہنگی پڑ سکتی ہے۔'انڈین جاسوس کلبھوشن جادھو کے بارے میں اے ایس دلت کہتے ہیں کہ اتنے سینئیر افسر کو کھلے عام کیسے بھیجا جا سکتا ہے۔انڈین نیوی کے اہلکار کلبھوشن جادھو کے بارے میں بات کرتے ہوئے اے ایس دُلت کہتے ہیں کہ 'آپ اپنی بحریہ کے کسی سینئیر افسر کو کیسے کھل عام بلوچستان یا چمن بھیج سکتے ہیں۔ وہ کیا کر رہے تھے وہاں پر؟'انھوں نے کہا کہ جاسوسوں کا پکڑے جانے کوئی انوکھی بات نہیں ہے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا اور نہ ہی اس بارے میں کوئی وضاحت دی گئی ہے۔'اس معاملے میں آئی ایس آئی کی عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ ہوتا ہے۔ انھوں نے جاسوس کو فوراً ٹی وی کے سامنے پیش کر دیا۔ یہ ویسے ہی تھا جب کارگل کی جنگ میں ہم نے پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل مشرف اور جنرل عزیز کی گفتگو ریکارڈ کی اور سامنے لے آئے۔' جنرل اسد درانی کے مطابق کارگل کی جنگ پاک فوج کے اس وقت کے سربراہ جنرل مشرف کا جنون تھا۔سال 1999 میں پاکستان اور انڈیا کے مابین کارگل کے مقام پر ہونے والی جنگ کے بارے میں اے ایس دُلت نے سوال کیا کہ وہ جنگ کیسے شروع ہوئی اور اس کے پیچھے کیا عوامل تھے۔اس پر جنرل اسد درانی جواب میں کہتے ہیں کہ وہ پاکستان کے اُس وقت کے فوجی سربراہ جنرل مشرف کا جنون تھا۔پاکستان کے پاس کچھ علاقے تھے جو کے سٹریٹیجک طور پر اہمیت کے حامل تھے لیکن 1971 کی جنگ کے بعد پاکستان ان سے ہاتھ دھو بیٹھا تھا۔انھوں نے مزید کہا کہ ہمارے فوجی سربراہ کی یہ حماقت تھی کہ وہ کھلی لائن پر باتیں کر رہے تھے اور اگر انڈینز نے وہ گفتگو ریکارڈ کر لی تو وہ اپنا کام کر رہے تھے۔اسامہ بن لادن کی پاکستان میں موجودگی پر سوال کے جواب میں جنرل اسد درانی نے کہا کہ 'میں یہ ٹی وی پر پہلے بھی کہ چکا ہوں کہ شاید ہم نے ان کو چھپا کے رکھا تھا یا ہمیں بعد میں علم ہو گیا تھا کہ وہ پاکستان میں ہی ہیں اور آئی ایس آئی نے فیصلہ کیا کہ امریکہ سے مشترکہ معاہدے کے بعد انھیں وہاں سے لے جایا جائے۔ دوسری جانب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آئی ایس آئی نے امریکہ کو کہا ہو کہ آپ اسامہ کو لے جائیں اور ہم اس بارے میں ناواقفیت کا بہانہ کر لیں گے۔'
اے ایس دُلت نے اس پر کہا کہ 'را' کے اندازے کے مطابق ایسا ہی ہوا اور پاکستان نے اسامہ بن لادن کو امریکہ کے حوالے کیا ہے۔اسی بارے میں مزید بات کرتے ہوئے اسد درانی نے سوال کیا کہ میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ پاکستان کو اس سے کیا فائدہ ہوا۔'ہمیں ناکارہ کارکردگی پر دھتکارا گیا، کہا گیا کہ ہم دوغلا پن کر رہے ہیں، اور ہمیں کیا ملا ان سب الزامات سے؟ میں یہ جاننا چاہتا ہوں۔'اس پر اے ایس دُلت نے سوال اٹھایا کہ اسامہ بن لادن کی موت سے کچھ ہی دن قبل اُس وقت کے پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے کسی اہم امریکی فوجی افسر سے ملاقات کی تھی اور اس کے بعد اسامہ بن لادن کے خلاف آپریشن کیا گیا جس سے یہ ملاقات کافی معنی خیز محسوس ہوتی ہے۔جس پر جنرل اسد درانی نے کہا کہ جنرل کیانی نے امریکی فوج کے جنرل ڈیوڈ پیٹریاس سے ملاقات کی تھی۔
اسد درانی کے مطابق جنرل کیانی نے اسامہ بن لادن کی موت سے کچھ روز قبل امریکی جنرل پیٹریاس سے ملاقات کی تھی۔'را' کے سابق سربراہ نے اسد درانی سے سوال کیا کہ پشاور کے ڈاکٹر شکیل آفریدی کا اسامہ بن لادن کے معاملے میں کیا کردار تھا۔اس پر جنرل اسد درانی نے کہا کہ انھوں نے پولیو کے قطروں کے جعلی پروگرام کی مدد سے اسامہ بن لادن کی موجودگی کے بارے میں معلومات حاصل کیں۔
'میرا خیال ہے کہ امریکیوں کو شکیل آفریدی سے اسامہ کے بارے میں معلومات ملیں لیکن وہ واحد ذریعہ نہیں تھے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ ایک سابق پاکستانی فوجی افسر جو کہ خفیہ اداروں سے منسلک تھا، اس نے امریکیوں کو اسامہ کے بارے میں آگاہ کیا۔ میں اس کا نام نہیں لینا چاہتا کیونکہ میں اپنے الزامات ثابت نہیں کر سکوں گا اور نہ ہی میں اس کو کوئی مشہوری دلوانا چاہتا ہوں۔

Saturday, 26 May 2018

گورنمنٹ کالج سرگودہا کے عظیم اُستاد جناب پروفیسر حافظ فتح محمدؒ ...................................................صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی

 

گورنمنٹ کالج سرگودہا کے عظیم اُستاد 

جناب پروفیسر حافظ فتح محمدؒ

صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی

راقم زندگی کی نصف صدی مکمل کر چکا ہے۔ زندگی کی بود وباش انسان کو مختلف اوقات میں مختلف حالات سے آشنا کرواتی ہیں۔ سر زمین سرگودہا کی جب بات کی جاتی ہے تو پروفیسر غلام جیلانی اصغرؒ ، پروفیسرمنور مرزاؒ ، پروفیسرمظفر مرزاؒ ، ڈاکٹر انور سدیدؒ ،ڈاکٹر وزیر آغاؒ ، جیسی نابغہ روزگار ہستیاں کا تذکرہ ہوتا ہے کہ سرگودہا کے باسیوں کی قسمت پر رشک آتا ہے کہ اللہ پاک نے اِس شہر میں کتنے عظیم لوگ پیدا کیے۔ گورنمنٹ کالج سرگودہا کے ساتھ میری کچھ عرصہ وابستگی رہی ہے جس پر مجھے بلامبالغہ فخر حاصل ہے۔ پروفیسر الیاس اخترؒ کے بڑئے صاحبزادئے مسعود الیاس میرئے سکو ل میں کلاس فیلو تھے۔ لیکن میرئے بچپن کے دوست جناب خواجہ شفیق محترم الیاس اختر صاحب ؒ کے لاڈلے شاگرد تھے۔ اِس لیے مجھے بھی کبھی کبھی اُن کے پاس جانے کا موقع ملتا۔ اور فنکشنل انگریزی کے کچھ اسباق میں نے اُن سے پڑھے۔ اسی طرح انگریزی کے پروفیسر فضل کریم بھٹی صاحب اوراطہر شاہ خان صاحب بھی میرئے گورنمنٹ کالج سرگودہا میں اُستاد تھے۔آج جس عظیم ہستی کا تذکرہ کرنا مقصود ہے وہ عظیم ہستی کردار کی مضبوطی کی وجہ سے اور بطور اُستاد انتہائی کامیاب ہونے کی وجہ سے پورئے سرگودہا میں جانی جاتی ہیں۔ میری مراد جناب پروفیسر حافظ فتح محمد صاحبؒ سے ہے۔ اُستاد علم بکھیرتا ہے علم نور ہے نور نے فنا نہیں ہونا تو پھر نور پھیلانے والے کو کیسے فنا حاصل ہوجانی ہے۔ اللہ پاک ایسے عظیم لوگوں کو ہمیشہ کے لوگوں کے دلوں زندہ رکھتا ہے۔ حافظ فتح محمد ؒ صاحب روہتک بھارت میں جولائی 1945 میں پیدا ہوئے۔ پھلروان سے میٹرک اورگورنمنٹ کالج سرگودہا سے ایف اور بی اے کیا۔1967 میں پنجاب یونیورسٹی سے ایم ائے انگریزی ادب کیا۔گورنمنٹ کالج بھلوال میں یکم نومبر 1968 کو بطور لیکچرر اپنے کیرئیر کا آغاز کیا اور بعد ازاں 1973 میں گورنمنٹ کالج شورکوٹ ٹرانسفر ہوگئے اور پھر 1977 میں گورنمنٹ کالج سرگودہا میں ٹرانسفر ہوئے۔ 1997 میں شعبہ انگریزی گورنمنٹ کالج سرگودہا کے سربراہ مقرر ہوئے۔ یکم جنوری 2001 کو گورنمنٹ کالج سرگودہا سے ہی ریٹائرڈ ہوئے۔اللہ پاک نے حافظ صاحب کو سات بیٹوں اور ایک بیٹی سے نوازا۔ بڑئے صاحبزے ابوعبیدہ ماسٹرز اِن اکنامکس ہیں اور فارما سیوٹیکل انڈسٹری کے شعبہ مارکیٹنگ سے وابستہ ہیں۔ دوسرئے صاحبزادئے پروفیسر ڈاکٹر جوادمحمد شجاعت پی ایچ ڈی نفسیات ہیں۔ تیسرئے صاحبزادئے معظم فواد ایف سی پی ایس ہیں اور ماہر امراض دل ہیں اور سرگودہا میں پریکٹس کر رہے ہیں۔چوتھے صاحبزادئے محمد زبیر وقار ہومیو فیشن ہیں۔ پانچویں صاحبزادئے فاخر غیور بی ایس سی کیمیکل انجینئرنگ ہیں اور شانگریلا فوڈ کراچی کے جنرل مینجر پلانٹ ہیں۔چھٹے صاحبزادئے کاشف کلیم یاز معاشیات میں ماسٹر ڈگری کے حامل ہیں اور ساتویں صاحبزادئے کمال عالم ایم ایس سی کیمیکل انجینئرنگ ہیں اور بیٹی ایم انگریزی ہیں۔
رب پاک نے کائنات کانظام خود بخود چلنے کے لیے نہیں چھوڑ رکھا بلکہ کائنات میں موجود ہر ذی روح کو کوئی نہ کوئی کام کوئی نہ کوئی کردار سونپ رکھا ہے۔ عقلی تقاضے بعض اوقات اُن معاملات کا ادراک نہیں کر پاتے جو سلسلے رب پاک نے کائنات کے نظام کو حرکت میں رکھنے کے لیے کیے ہوتے ہیں۔ ایسے افراد جو دوسرے انسانوں کے لیے منفعت کا باعث بنتے ہیں یا ایسے انسان جو کہ انسان کو اشرف المخلوقات کے منصب کے قابل بناتے ہیں وہ لوگ معلم ہیں وہ اُستاد ہیں جو دنیا بھر میں علم کے نور کو پھیلاتے ہیں اور یہ سلسلہ رُکتا نہیں بلکہ اُن کی ظاہری حیات اور پردہ پوش ہونے کے بعد بھی اُن کا فیض جاری وساری رہتا ہے۔ اللہ پاک کے نیک بندے جن کا مقصد حیات ہی علم کی شع فر وزاں کرنا ہوتا ہے وہ ہمیشہ زندہ رہتے
ہیں اُن کے پھیلائے ہوئے علم کے نور کا ہا لہ معاشرے میں مسلسل نیکی اور بھلائی پھیلارہا ہوتا ہے۔ موجودہ حالت میں جب کہ سرزمین سرگودہا کے لیے شائد یہ کوئی یہ انوکھی بات نہیں کیونکہ یہ بڑی مردم خیز مٹی کی حامل سرزمین ہے لیکن سرگودہا کے لوگوں نے ہمیشہ علم وادب کے ساتھ اپنا رشتہ قائم رکھا ہے۔ ہوتا اکثر یہ ہی ہے کہ جب بھی کوئی بڑی ہستی اِس دنیا کا سفر مکمل کرکے اپنے جنتی گھر تشریف لے جاتی ہے تو تب اُس کو خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے سرگودہا کے لوگ خوش نصیب ہیں کہ اُن کو حافظ فتح محمد صاحب ؒ جیسا عظیم اُستا دملا�آ اللہ پاک نے محترم پروفیسر حافظ فتح محمدؒ کو کمال کا
حُسن خلاق عطا فرمایا تھا۔ چھوٹے بڑئے سب سے نہایت اخلاص سے پیش آتے۔ جناب پروفیسر حافظ فتح محمد ؒ نے ایک خوبصورت نگر آبادکر رکھا تھا۔ اُن کے دولت خانے میں خاندان کے بچے تحصیل علم کے لیے قیام پزیر ہوتے اور جناب حافظ صاحبؒ کی شفقت سے استفادہ کرتے ۔ جناب حافظصاحبؒ کا دسترخوان بہت وسیع تھا۔ ہر مہمان خاص مہمان ہوتا۔ حافظ صاحبؒ کے بچوں کے دوستوں سے اُن کا اِس طرح محبت سے برتاؤ تھا کہ شفقت کی انتہاء تھی۔ راقم کو بھی اُن کے بڑئے صاحبزادئے کنور ابوعبیدہ کی دوستی کے سبب شفقت سے میسر آئی۔
کہاں ہیں ایسے لوگ اب جن کی زندگی اللہ پاک اور اُسکے رسولﷺ کی اطاعت پر مبنی تھی ۔ کسی بھی معاشرئے میں نفوس پزیری کے حامل افراد میں اساتذہ اکرام کا کردار ہمیشہ نمایا ں ہوتا ہے۔ والدین سے بھی زیادہ جس شخص کا کسی بھی انسان کی کردار سازی میں کردار ہوتا ہے وہ اُستاد ہے۔ ہمارے دین کے مطابق اُستاد کو باپ کا درجہ دیا گیا ہے۔ اِسی لیے وہ اساتذہ جنہوں نے اپنی زندگی کو معاشرئے کی تربیت کے لیے وقف کیے رکھا وہ اُس مینارہ نور کی حیثیت اختیار کر گئے جو علم و آگہی کے چراغ جلا کر قوموں کی زندگیوں کو منور کرتے ہیں۔ اللہ پاک نے جناب حافظ صاحب ؒ کو یہ کمال بخشا تھا کہ علم و آگہی کا یہ پیکر طالبعلموں کے قلوب اذہان کو علم کی روشنی سے منور کر تارہا۔
سرگودہا جس کو مرد خیز علاقہ کہا جاتا ہے یہاں کے مکینوں نے جہاں تحریک پاکستان میں بھرپور حصہ لیا وہاں تعمیر پاکستان کے لیے بھی ڈٹے ہوئے ہیں۔ یہاں کی آبادی میں جہاں ایک طرف بہت امیر لوگ جو کہ بڑئے بڑئے زمیندار ہیں اور دوسرئے طرف بھارت سے ہجرت کرکے آنے والے۔یہاں کے بڑئے زمیندار بھی تعلیمی میدان میں بھر پور کردار کے حامل رہے ہیں ۔ سرگودہا کے بڑئے بڑئے جاگیر دار بھی علم دوست ہیں ۔ باقی اچھے بُرئے لوگ ہر معاشرئے میں ہوتے ہیں۔
یہ فانی دُنیا ہے یہاں سب مسافر ہیں لیکن جو لوگ رب پاک کے بندوں کے لیے منفعت کا ذریعہ بنتے ہیں وہ افراد معاشرئے کے ماتھے کا جھومر ہیں یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنی زندگی میں ایسے کام کر جاتے ہیں جو کہ ہمیشہ اُن کو امر کرجاتے۔ خلوص و مہر وفا کی حامل شخصیات ظاہری حیات اور اُسے بعد بھی فیض جاری رکھے ہوئے رہتی ہیں۔اُن کا مرنا اُس طرح کا مرنا نہیں ہوتا کہ مٹی کا ڈھیر بن جائے بلکہ وہ تو علم کے نور کے اتنے دئیے روشن کیے ہوتے ہیں کہ گہری رات بھی بقعہ نور بن جاتی ہے عقل و دانش اُن کے آگے جھکتی ہیں۔ اُن کا جینااُن کا مرنا ایسے سفر کی مانند ہوتا ہے جہاں کبھی کبھی پڑاؤ ڈالنا پڑتا ہے لیکن پھر یہ سفر راہوں کو روشنی دیتا ہوا منزل کی جانب گامزن رہتا ہے۔ایسی ہی ایک ہستی جناب حافظ فتح محمدؒ نہایت عالم فاضل اور اپنے مضمون انگریزی کے ماہر اُستا دتھے۔ اُن کے لیے شائد تھا کا لفظ لکھنا میرے لیے مشکل ہے کیونکہ جتنا علم انھوں نے اپنے رب کے کرم سے پھیلایا اور خیر تقسیم کی وہ نور ، وہ علم بھی زندہ ہے اور جن لوگوں نے جناب پروفیسر صاحب سے اکتسابِ فیض کیا وہ اس نور کو آگے پھیلا رہے ہیں۔ جناب حافظ صاحب جیسی شخصیت کسی بھی معاشرے کے لیے کسی بہت بڑی نعمت سے کم نہیں۔آپ نے اپنی پوری زندگی علم کو پھیلا نے میں صرف کی۔ سرگو دہا اوراُ س کے قرب وجوار کے شہر اِس بات کے گواہ ہیں جناب حافظ صاحب انگریزی کے ایک بے بدل پروفیسر تھے۔ پھلروا ن سرگودہا وہ خوش نصیب قصبہ ہے جہاں جناب پروفیسر صاحب پیدا ہوئے اور پروان چڑھے۔ محدو د وسائل کے باوجود آپ نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور پھر گورنمنٹ کالج سرگودہا میں تدریس کے فرائض انجام دئیے۔ آپ کے لکھے ہوئے نوٹس انگریزی کے مضمون کے طلبہء کے لیے کامیابی کی ضمانت سمجھے جاتے۔آپ نہایت محبت اور نرمی کے ساتھ پڑھاتے اور طلبہء کے دل میں آپ کے لیکچر اُتر جاتے۔ راقم کے لیے یہ بات باعث افتخار ٹھری کے پروفیسر صاحبؒ کے بڑے صاحبزادے جناب کنور ابوعبیدہ میرے نہایت ہی قریبی دوست ہیں اور ہماری دوستی اُس وقت سے ہے جب ہم گورنمنٹ کمپری ھینسیوہائی سکول سرگودہا میں پڑھتے تھے۔ یوں مجھے جناب پروفیسر صاحب کے ساتھ اکثر ملاقات کا شرف ملتا اور جب بھی میں اُن کے گھر جاتا تو اپنے بیٹے کو خصوصی طور پر کہتے کہ اشرف کو کھانا کھلایا ہے یا نہیں ،بہت زیادہ محبت اور شفقت سے پیش آتے بہت مہمان نواز تھے۔ میں کامرس اور قانون کا طالب علم رہا ہوں لیکن مجھے اعزاز ہے کہ میں نے جناب پروفیسر صاحب کے پاس اُن کے بڑے بیٹے کے ہمراہ انگریزی ادب کے لیکچرز لیے اور میری یہ خواہش تھی کہ میں ایسا کرکے اُس برادری میں شامل ہوجاؤں جو آپ کے شاگرد ہونے کا اعزاز رکھتی ہے۔ اِس حوالے سے مجھے جب بھی اُن کی یاد آتی ہے تو میں پروفیسر صاحبؒ کے زیادہ قریب ہونے پر افتخار محسوس کرتا ہوں۔
جناب پروفیسر صاحب اعلیٰ گریڈ میں ترقی پاچکے   
تھے لیکن پھر بھی انتہائی سادہ اندازِ زندگی اختیار کیے رکھا۔ آپ کالج سائیکل پر ہی جاتے۔ گھر میں بھی با جماعت نماز کا اہتمام کیا ہوتا۔ آپ کے تمام بچے صوم صلوۃ کے پابند ہیں ایک اور بات وہ یہ کہ اکثر آپ کے عزیزوں کے بچے تعلیم کے خاطر آپ کے ہاں قیام پزیر ہوجاتے یوں آپ کے دستر خواں کو بہت وسعت حاصل تھی۔ یافتہ ہیں اور آپ سے فیض یاب ہونے والے آپ کے شاگرد بھی زندگی کے ہر شعبے زندگی کا کوئی شعبہ بھی ایسا نہیں جہاں آپ کے شاگرد موجود نہ ہوں اور وطن عزیز کی خدمت پر مامور نہ ہوں۔اِسی سرگودہا کی سرزمین پہ پیر محمد کرم شاہ الازہری ؒ جیسی نابغہ روزگار ہستی پوری آب و تاب سے چمکیں اور علم وعمل کے اِس پیکر نے پوری دُنیا میں سر گودہا کے نام کو روشناس کروایا۔ اِسی طرح پروفیسر صاحبزادہ عبدالرسول جیسی عظیم جو گورنمنٹ کالج سرگودہا کے پرنسپل رہے ہیں۔ جناب غلام جیلانی اصغرؒ بھی گورنمنٹ کالج سرگودہا کے پرنسپل رہے۔ علم پھیلانے والے عطیم جناب حافظ فتح محمدؒ کا وصال 28
نومبر2012 کو ہوگیا۔ جناب پروفیسر صاحبؒ سرگودہا میں آسودہ خاک ہیں۔ سرگودہا میں ہی حضرت حکیم میاں محمد عنائت خان قادری ؒ آف زاویہ نوشاہی آسودہ خاک ہیں اور اِس شہر میں نصف صدی تک ہر خاص و عام کے لیے خلوص و محبت کے عظیم پیامبر رہے ہیں۔ حضرت بابا نور خان ؒ بھی سرگودہا میں ہی آسودہ خاک ہیں۔ جناب پروفیسر حافظ فتح محمدؒ نے اپنی پوری زندگی سرگودہا کی عوام کو علم کی روشنی سے منور کرتے گزاری۔ اللہ پاک اُن کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے آمین۔









                                            Phtotos of sons of Respected Hafiz Fateh Muhammad sb R.A

























Thursday, 17 May 2018

سرگودہا کی آن ۔۔ صدارتی ایوارڈ یافتہ علمی شخصیت محمد بشیر شادؒ.................................. صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی

سرگودہا کی آن ۔۔ صدارتی ایوارڈ یافتہ علمی شخصیت محمد بشیر شادؒ

صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی

جب مجھ ناچیز نے کالج میں داخلہ لیا تو نہایت ہی محترم دوست جناب میاں محمد شفیق بھی میرئے کلاس فیلو تھے۔ انتہائی لائق فائق اور مرنجاں مرنج شخصیت۔ یوں محبت و خلوص کا سلسلہ 1984 سے تاد مِ تحریر جاری و ساری ہے اور انشا اللہ جاری رہے گا۔ جناب میاں محمد شفیق کے والد گرامی میاں محمدبشیر شاد سرگودہا شہر کی عظیم شخصیت تھے اِنھوں نے اپنی زندگی کو معاشرئے کی تعلیم و تربیت کے لیے وقف کر رکھا تھا۔ اُس زمانے میں جس دور کی بات میں کر رہا ہوں اُس میں اساتذہ اکرام کی عزت دل و جان سے ہوتی۔ اور اُستاد بھی واقعی چراغِ راہ کی مانند اپنے شاگردوں کے لیے عظیم انسان ہوتا ۔ اُس دور میں مادیت نے معاشرئے میں اپنے پنجھے اِس بُری طرح نہیں گاڑئے تھے۔ اُستاد اور شاگر کے درمیان انتہائی مضبوط روحانی رشتہ قائم تھا۔ محترم محمد بشیر شاد ؒ جن کی زندگی وطن عزیز کی خدمت کی سرگرمیوں میں گزری ۔ایک اُستاد ہونے کے ساتھ ساتھ وہ انتہائی فعال سکاوٹ تھے۔ جناب محمد بشیر شاد ؒ انبالہ بھارت سے ہجرت کرکے پاکستان تشریف لائے تھے پاکستان بننے وقت جناب محمد بشیرشاد ؒ گیارہ سال کے تھے اُس وقت تحریک پاکستان کے ہر اول دستہ کا حصہ تھے۔
اللہ پاک نے اپنے پیارئے رسولوں کے توسط سے اپنی مخلوق کے لیے راہ ہدایت کا سلسلہ جاری رکھا کیونکہ نبی پاکﷺ پر یہ سلسلہِ نبوت ختم ہوگیا اب نبی پاک ﷺ کا مشن اللہ پاک کے نیک بندوں کے ذمہ ہے۔ جناب محمد بشیر شاد ؒ بھی اللہ پاک کے اُن خاص پسندیدہ انسانوں میں تھے جنہوں نے علم کے چراغ کو جلائے رکھا اور بطور اُستاد، بطور اسکاوٹ معاشرئے کی خدمت کو اولیت دی۔ اب جب کہ مادیت پرستی نے ہر رشتے کو کمزور کردیا ہے ایسے میں جناب محمدبشیر شادؒ کے قبیلے کے افراد معاشرئے کے لیے بہت بڑی نعمت ہیں۔
جناب محمد بشیر شادؒ نے ساری زندگی فرزندان سرگودہا کے تعلیم و تربیت میں گزاری اور یوں سرزمین سرگودہا کے سپوتوں کے لیے وہ ایک ایسی راہ ہموار کرگئے کہ چراغ سے چراغ جل رہے ہیں۔خلو ص و محبت کے پیکر جناب محمد بشیر شاد ؒ نبی پاکﷺ کے بہت بڑئے عاشق تھے اور معاشرئے کی خدمت کا درد کوٹ کوٹ کر اُن میں بھرا ہوا تھا۔ اُنھوں نے روپے پیسے کی دوڑ کی بجائے معاشرئے کی خدمت کے لیے خود کو وقف کیے رکھا۔قائد اعظمؒ اور حضرت اقبالؒ کے شاہین جناب بشیر احمد شاد ہمیشہ وطن عزیز کی نظریاتی سرحدوں کے امین رہے۔ اور وطن کی محبت کی چنگاری اُنھوں نے اپنے ہر ہر شاگر د کے دل میں پیدا کی۔
جناب محمدبشیر شادؒ کے مطابق 1945 کی بات ہے کہ ایک مرتبہ پتہ چلا کہ ایک بہت بڑی ہستی ا نبالہ شہر سے گزرئے گی محمد بشیر شادؒ کے مطابق میں اپنی چھت پر کھڑا ہو گیا جب وہ ہستی گزری تو میں نے اُنھیں سلام کیا اُس ہستی نے بھی ہاتھ ہلا کر سلام کا جواب دیا بعد میں پتہ چلا ہ وہ ہستی حضرت قائد اعظمؒ ہیں۔گورنمنٹ انبالہ مسلم ہائی سکول سرگودہا میں محترم محمد بشیر شادؒ نے اپنی ساری زندگی درس و تدریس میں گزاری۔ اِس سکول میں بزمِ ادب اور سکاوٹنگ کے حوالے سے اِن کے بے مثال خدمات ہیں۔ گورنمنٹ انبالہ مسلم سکول سرگودہا میں زیر تعلیم طلبہء کو علم کی روشنی کے ساتھ عمل صالح کی بھی تربیت دیتے رہے۔ اِس عظیم درسگاہ کے آپ عظیم معمار تھے۔ آپ نے زندگی کی 80 بہاریں دیکھیں۔ انبالہ سکول میں نصب سائرن کے نگران بھی محترم بشیر شادؒ تھے۔یہ سائرن جنگ کے ایام کے علاوہ رمضان المبارک میں سحری و افطاری کے وقت بجایا جاتا تھا۔ محترم بشیر شاد ؒ کے بڑئے صاحبزادئے نیشنل انوسٹمنٹ ٹرسٹ میں نائب صدر ہیں۔ جناب بشیر شاد ؒ کو اُن کی تحریک پاکستان میں خدمات پر گولڈ میڈل سے بھی نواز گیا تھا۔
لفظ پاکستان اور اسلام،الفاظ نظریہ پاکستان اور نظریہ اسلام اس طرح ایک دوسرے کے ہم مترادف ہیں کہ شائد اُردو زبان اُسکی وسعتوں کا احاطہ کرنے میں اتنی ہی آسانی محسوس کرتی ہے جتنی آسانی سے محبت اور پیار کے الفاظ بولے جانے کے لائق ہوں۔انسانی جبلت میں پیار اور محبت رچا بسا ہے۔نام نہاد دانشور اپنے غیرملکی آقاوٗں کی خوشنودی کی خاطر پاکستان کے خلاف زبان درازی کرکے اور پاکستان کی تخلیق کو انگریز کی سازش گردان کر درحقیقت ابلیس کی پیروی کا فریضہ ادا کرنے کی سہی میں لگے رہتے ہیں۔حضرتِ قائدِاعطمؒ ، حضرتِ علامہ اقبالؒ ،مجدد د ین و ملت حضرتِ مولانا امام احمد رضاء خانؒ ،پیرجماعت علیشا ہ، حضرت مولانا فضل خیرحق آبادیؒ ، مولانا شبیر عثمانیؒ جیسے عاشقانِ توحید و سنت کے عظیم علمبرداروں کی مساعی جمیلہ سے کفرستانِ ہندوستان میں نبی پاکﷺ کے حکم سے بننے والی یہ پاک سرزمین جو 27 رمضان المبارک کی شب کی پرُ نور ساعتوں میں وجود میں آئی ہو اُسکی حفاظت تو رب پاک خود کرتا ہے۔اسلا میہ جمہوریہ پاکستان، ایک مخصوص نظرئے کی بنیاد پر معرض وجوڈ میں آیا تھا اور وہ نظریہ تھا، نظریہ پاکستان۔۔ برِ صغیر میں دو قومی نظرئے کی کوکھ سے اْبھرنے والا نظریہ دراصل اپنے تمام معانی، مصادر منابع کے نقطہ نظر سے نظر سے قرآن اور نظریہ اسلام ہے۔ کیونکہ تحریک پاکستان کے مراحل کے دوران اسلامیان ہند نے جو نظریاتی نعرہ بلند کیا تھا وہ تھا پاکستان کا مطلب کیا لاالہٰ ا لاللہ۔ پاکستان عالیشان کا وجود باسعود، ایک مرد قلندر، مرد حریت اور مرد ایمان اور مرد امتحان، حضرت قائداعظم ؒ ، کی محنت شاقہ کی بدولت ہوا۔ حضرت علامہ اقبال ؒ کی روحانی اور ایمانی الہامی شعری کا وشوں نے اپنا رنگ دکھیا اور انہوں نے برصغیر کی غلامی میں پھنسی ہوئی مسلمان قوم کو احساس تفاخر ور خودی کی بیداری کا پیگام دے کر انہیں آزقدی کے اوج ثریا تک پہنچانے کیلئے اپنا خون جگر عطا کیا۔علم و عقل میں اگر تضاد اور تصادم رہے گا تو ظاہر ہے کہ اس بنی ہوع انسان میں انتشار اور تخریب کا باعث بنے گا، اور بالآخر قومی زوال کا پیش خیمہ۔ خدائے بزرگ و برتر نے اْن افراد کو یہ اعزاز عطا فرمادیا۔ جنھیں دائرہ اسلام نے اسلام میں داخل ہونے کا شرف نصیب ہوا، وہ افراد دنیائے انسانیت کے خوش قسمت ترین انسان ہیں جنہیں حضور اکرم ﷺ کے یک امتی ہونے کا شرف حاصل ہے۔ دین اسلام نے مسلمانوں کے قلوب و ارواح میں جس فلسفہ توحید کو موجزن اور مرتسم کیا ہے، اْس سے ان میں فکری وحدت، تہذیبی ہم آہنگی، دینی حریت ور نسانی سطح پر احساس تفاخر کی تخلیق ہوئی۔ جب قلوب و اذہان میں تصور توحید جلوہ گر نہ ہو انسان کی شخصیت میں وحدت پیدا نہیں ہو سکتی، ظاہر ہے کہ مسلمان ایک باری تعالیٰ جو وحدہ لاشریک ہے اس پر پختہ ایمان و ایقان رکھے گا، تو جب ہی اپنے ندر بھی وحدت پیدا کرے گا۔ حضر ت قا ئد اعظم ؒ نے اسلامیان ہند کو اپنی تقاریر، خطابات، اور علمی اور قانونی نظریات وارشادات کی روشنی میں انگریزوں اور ہندؤں کی استعمار پسند انہ اور تشدد آمیز رویوں سے آگاہ کرتے رہے اور انہیں اپنی اسلامی اقدار و رو ایا ت اور تاریخ کی روشنی میں تیار رہنے کی ہدایت کرتے رہے۔ حضرت قائداعظم ؒ نے اسلامیان ہند کے قلوب واذہان میں آزادی کی جو لو لگائی وہ الاؤ بن کر سامنے آئی اور پاکستان دنیائے انسانیت کے نقشے پر بڑی شان وشوکت کے ساتھ ظہور پزیر ہوا۔محترم جناب محمد بشیر شادؒ کو سال مئی2018 میں اسلامی جموریہ پاکستان کے صدر جناب ممنون نے بوائز سکاوٹنگ میں گراں قدر خدمات پر صدارتی ایوار ڈ سے نوازاہے۔۔ یہ ایوارڈ محترم بشیر شاد کے فرزند جناب میاں محمد شفیق نے وصول کیا۔جناب محمد بشیر شادؒ حضرت قائد اعظم ؒ کے مشن کے علمبردار تھے اور قائد اعظمؒ کے حکم پر تحریک پاکستان اور پھر تعمیر پاکستان میں بھر پور حصہ لیتے رہے۔ اللہ پاک جناب محمد بشیر ؒ کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے آمین۔

Sunday, 13 May 2018

جاتی عمرہ کے شیخ مجیب کی زبان بندی ضروری.................... تحریر:صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی

جاتی عمرہ کے شیخ مجیب کی زبان بندی ضروری

تحریر:صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی
۔۔کیا عجب وقت آن پڑا ہے کہ نواز شریف اور الطاف ھسین ایک ہی پلڑئے میں آ ہڑئے ہیں دونوں مودی کی زبان بول رہے ہیں۔جناب سابق وزیر اعظم کے بیان کہ پاکستان ممبئی حملوں میں ملوث ہے سُن کر اتنا شدید گھائو لگا ہے کہ دل سنبھل ہی نہیں پا رہا۔ پاکستان کی تاریخ اور اِس کی جغرافیائی اہمیت کے پیش نظر پاکستانی فوج اللہ پاک کے بعد اِس ملک کی پاسبان ہے۔کشمیر کا معاملہ بھی ایسا ہے کہ وہ پاکستان کی شہ رگ ہے لیکن بھارت وہاں مسلسل خون کی ہولی کھیل رہا ہے۔پاکستان اور بھارت کے درمیان کئی جنگیں ہو چکیں ہیں۔ نواز شریف کو ہو سکتا ہے کسی خاص سازش کے تحت نا اہل کیا گیا ہو۔ یہ بھی مانا جاسکتا ہے کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اِسے کوئی سبق سیکھانا چاہ رہی ہے۔یہ بھی مانا جاسکتا ہے کہ نواز شریف کی مقبولیت کو ختم کرنے کے لیے اُسے رسوا کیا جارہا ہے لیکن کیا ممتازی قادری شہید ؒ کی پھانسی ٹل نہیں سکتی تھی۔کیا ن لیگ ختم نبوت کے قانون کوترمیم کرکے بدترین ظلم کی مرتکب نہیں ہوئی تھی۔ کیا ختم نبوت کے معاملے پر ن لیگ کا موقف عوام کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف نہ تھا۔ کیاا بھی بھی توہین رسالتﷺ کے ساڑھے آٹھ سو کیس زیر التواء نہیں ہیں اُن سب کو تو فراموش کردیا گیا اور ممتاز قادری کو پھانسی دئے کر ن لیگ نے اپنے لیے اپنے ہاتھوں سے ظلم نہ خریدا۔ بھارتی وزیر اعظم کی جاتی اُمرا آمد نواز شریف کے ساتھ ذاتی دوستی،نواز شریف کے خاندان کے بھارت میں کاروبار ایں چہ باشد۔ نواز شریف کی جانب سے پاکستان کو دو لخت کرنے والے شیخ مجیب کو بارہا یاد کرکے پاکستانی عوام اور فوج کو دھمکی دینا کہ شیخ مجیب کے ساتھ ظلم ہوا تھا۔کلبہوشن یادو کے خلاف نوازشریف نے آج تک ایک لفظ منہ سے نہیں نکالا۔ نوازشریف کی بھارت سے محبت کا یہ عالم کہ آزادی کی لکیر کو سیفما کے اجلاس میں ختم کرنے کی بات کر ڈالی اور کہا کہ ہم سب ایک جیسے ہیںاُن کا خدا اور ہمارا خدا ایک ہے۔پھر اقامہ اور پانامہ کی وجہ سے پاکستانی عدلیہ کے ساتھ نواز شریف کی مہم جوئی۔ گلی گلی کوچے کوچے مجھے کیوں نکالا کی رٹ۔پاکستانی فوج کو خلائی مخلوق کا کہہ کر پو ری دُنیا میں مذاق اُڑانا۔ پاکستانی اعلیٰ عدلیہ کے خلاف زبردست محاذ آرائی۔ چیف جسٹس کو سر ئے عام دھمکیاں۔ سوشل میڈیا کو استعمال کرکے چیف جسٹس کو لعن طعن۔۔۔پٹرول اور ڈالر مہنگائی کی آگ میں جھونک دئیے گئے ہیں۔ اسحاق ڈار صاحب ملک و قوم کی دولت لوٹ کر بیمار بن کر لندن میں مزئے کر رہے ہیں اِس لیے کہ وہ نواز شریف کی بیٹی کا سُسر ہے۔اب وہ وقت آگیا ہے کہ نواز شریف کی زبان بندی کی جائے ورنہ پوری دُنیا میں یہ تاثر جا رہا ہے کہ پاکستانی سابق وزیر اعظم کہہ رہا ہے کہ ممبی حملووں میںپاکستان ملوث ہے۔ جمہور عوام کے دل میں یہ بات راسخ ہو گئی ہے کہ نواز شریف کی سوچ یکسر بدل گئی ہے۔ پنجاب میں بھی اِن کی حکومت تھی لیکن تھانہ کلچر تبدیل نہ ہو سکا عوامی مسائل مزید گھمبیر ہوتے چلے گئے۔ پاکستانی عوام کے لیے یہ ہضم کرنا مشکل ہوتا جارہا تھا کہ کشمیر میں قتل و غارت ہو رہی ہے اور نواز شریف کے ساتھ مودی کی یاری گھریلو تعلقات تک پہنچ چکی ہے ۔مودی کا افغانستا ن میں بیٹھ کرپاکستان کو خوب دھمکیاں لگانا اور پھر سیدھا پاکستان بغیر کسی شیڈول کے آنا سیدھا جاتی عمرہ جانا اور نواز شریف کے ہاں شادی میں شریک ہونا ۔ نواز شریف کے اِس طرح کے اندازِ محبت نے پاکستانیوں اور فوج کے دل میں اضطرابی کیفیت پیدا کردی۔ دوسری طرف نواز شریف کے بھارت میں کاروبار کیے جانے کے معاملے نے بھی عوام اور ملٹر ی اسٹیبلشمنٹ کو تحفظات میں مبتلا کردیا ۔ پانامہ لیکس نے نواز شریف کے خلا ف ہنگامہ کھڑا کیا کہ نواز شریف پانامہ اور اقامہ کے کی زد میں آکر نااہل ہو چکا ہے اور گلی گلی قریہ قریہ کہتا پھر رہا ہے کہ مجھے کیوں نکالا۔ نیب نے نواز شریف کی جانب سے منی لانڈرنگ کیے جانے اور بیرون ملک کاروبار اور جائیدادوں کی خرید کیے جانے پر نواز شریف کا بھرکس نکال دیا ہے ۔اب نواز شریف ہفتے میں چار پانچ دن عدالتوں میں پیش ہورہا ہے۔ اپنی بیٹی کو بھی نوازشریف نے سیاست میںاِن کر لیا ہے۔قسمت کے مارئے نواز شریف کی بہادر بیوی محترمہ کلثوم نواز صاحبہ کینسر کے علاج کے لیے لندن میں ہیں اور نواز شریف لندن اور پاکستان کے درمیان پنگ پانگ بنا ہوا ہے۔ پنجاب میں ایک اعلیٰ آفیسر احد چیمہ کی گرفتاری اور اُس کے جانب سے کرپشن کیے جانے کے اقرار نے نواز شریف اور شہباز شریف کی گڈ گورنس کو سر عام ننگا کر دیا ہے۔ خاقان عباسی کو وزیر اعظم بنائے جانے کا تاثر یہ اُبھرا ہے کہ اِس وقت پاکستان میں کوئی حکومت نہیں بس ڈنگ ٹپائے جارہے ہیں۔ نواز شریف کے حصے میں ایک رسوائی ختم نبوتﷺ کے قانون کی ترمیم کے حوالے سے بھی آئی جس کی وجہ سے پوری قوم سراپا ا حتجاج بن گئی۔ راولپنڈی اور لاہور میں دھرنے دئیے گئے۔ پوری قوم پر یہ عیاں ہو گیا کہ نواز شریف قادیانیوں کے ساتھ مل گئے ہیں اور قادیانیوں کو پاکستان میں نواز رہے ہیں۔ نواز شریف اپنے حکومت میں ہی پورئے ملک میں احتجاجی جلسے کر رہے ہیں کہ اُ نھیں کیوں نکالا۔ اِن حالات میں جناب چیف جسٹس آف پاکستان الطاف کی طرح نواز شریف کی بھی میڈیا پر زبان بندی کا حکم جاری فرمادیں۔

Wednesday, 2 May 2018

تاریخی گورنمنٹ کالج سرگودہا کو بحال کیا جائے۔یونیورسٹی آف سرگودہا کو بتدریج نئی جگہ منتقل کیا جائے ۔ سرگودہا کی عوام ایک معیاری سوسال کی تاریخ کے حامل سرکاری کالج سے محروم کردی گئی



تاریخی گورنمنٹ کالج سرگودہا کو بحال کیا جائے۔یونیورسٹی آف سرگودہا کو بتدریج نئی جگہ منتقل کیا جائے ۔ سرگودہا کی عوام ایک معیاری سوسال کی تاریخ کے حامل سرکاری کالج سے محروم کردی گئی۔ انٹرمیڈیٹ کی سطح کی تعلیم کے لیے سرگودہا کی عوام پرائیویٹ کالجوں کی لوٹ مار کا شکار ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب فوری نوٹس لیں

گورنمنٹ کالج سرگودہا کی بحالی کے لیے انسانی حقوق کے علمبردار ہیومن رائٹس موومنٹ انٹرنیشنل کے صدر محمدناصر اقبال خان ،قانون دان صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈوکیٹ ، ایلومنائی گورنمنٹ کالج سرگودہا کے صدر ارشد شاہد ،جاوید اقبال مصطفائی، عرفان علی ظفر، ڈاکٹر تنویر احمد، مظہر سلیم حجازی، حافظ عبدالروف، محمد اعظم خان، و زندگی کے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والوں کا گورنمنٹ 

کالج سرگودہا کی بحالی تحریک فورم میں اظہارِ خیال










 تاریخی گورنمنٹ کالج سرگودہا کو بحال کیا جائے۔یونیورسٹی آف سرگودہا کو بتدریج نئی جگہ منتقل کیا جائے ۔ سرگودہا کی عوام ایک معیاری سوسال کی تاریخ کے حامل سرکاری کالج سے محروم کردی گئی۔ انٹرمیڈیٹ کی سطح کی تعلیم کے لیے سرگودہا کی عوام پرائیویٹ کالجوں کی لوٹ مار کا شکار ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب فوری نوٹس لیں اِن خیالات کا اظہار گورنمنٹ کالج سرگودہا کی بحالی تحریک فورم میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے گورنمنٹ کالج سرگودہا کی بحالی کے حوالے سے ہیومن رائٹس موومنٹ انٹرنیشنل کے صدر محمدناصر اقبال خان انسانی حقوق کے علمبردار صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈوکیٹ ، ایلومنائی گورنمنٹ کالج سرگودہا کے صدر ارشد شاہد ،جاوید اقبال مصطفائی، عرفان علی ظفر، مظہر سلیم حجازی ،ڈاکٹر تنویر احمد، حافظ عبدالروف، محمد اعظم خان، ودیگر نے کیا۔ ہیومن رائٹس موومنٹ انٹرنیشنل کے صدر محمدناصر اقبال خان نے کہا کہ حکمران تعلیم دُشمنی سے باز رہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ اتنے اہم کالج کو سرئے سے ختم کرنا انتہائی افسوس ناک امر ہے ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ فوری طور پر گورنمنٹ کالج سرگودہا کو بحال کیا جائے۔ قانون دان صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی کا کہنا تھا کہ سر زمین سرگودہا کو اللہ پا ک نے ایک ایسی عظیم درسگاہ عطا کی جس نے کئی دہائیوں تک سرگودہا ڈویژن کے تشنگانِ علم کو سیراب کیا۔ ایکڑوں زمین پر پھیلے ہوئے اِس کالج کی شان و شوکت اپنی مثال تھی۔ عظیم اساتذہ نے اِس کالج کو حقیقی معنوں میں کامیابیوں سے ہمکنار کیا اور اِس کالج کے سٹوڈنٹس پاکستان سمیت دُنیا بھر میں ہر شعبہِ زندگی میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ کالج میں عبدالعلی خان غلام جیلانی اصغر ، صاحبزادہ عبدالرسول جیسی نابغہ رُ وزگار ہستیاں پرنسپل رہیں۔اِس کالج کو دوسری کالجوں کی طرح یونیورسٹی کادرجہ دینے کی بات کی گئی۔ لیکن اِس کالج کا تشخص مکمل طور پر ختم کردیا گیا اور صرف یونیورسٹی آف سرگودہا کا قیام عمل میں لے آگیا۔ سرگودہاکے لیے یونیورسٹی ناگزیر تھی۔ لیکن گورنمنٹ کالج سرگودہا کو قتل کرکے انتہائی ظلم کیا گیا۔ گورنمنٹ کالج سرگودہا ایلمنائی کے صدر جناب ارشد شاہد نے کہا کہ لاہور کے گورنمنٹ کالج کو یونیورسٹی کا درجہ دیا گیا لیکن اِسکا کالج کا سٹیٹس بھی برقرار رہا۔ اِسی طرح فیصل آباد کے گورنمنٹ کالج کو بھی یونیورسٹی کا درجہ دیا گیا لیکن اُس کا کالج کا سٹیٹس بھی برقرار رکھا گیا۔ لیکن صد افسوس سرگودہا کے گورنمنٹ کالج کا سٹیٹس ختم کردیا گیا یوں انتہائی درخشندہ روایات کا حامل تعلیمی ادارہ ختم کر دیا گیا۔ جاوید اقبال مصطفائی کا کہنا تھا کہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ نئی جگہ پر یونیورسٹی کا قیام عمل میں لایا جاتا سرگودہا شہر کے آس پاس بے شمار سرکاری اراضی پڑی ہے۔لیکن گورنمنٹ کالج کو ختم کرنا کسی طور بھی مناسب نہ تھا۔ اگر یونیورسٹی اِس کیمپس میں بنادی گئی تھی تو بلڈنگ کے کچھ حصے میں گورنمنٹ کالج کا سٹیٹس برقرار رکھا جاسکتا تھا۔ لیکن نہ جانے یونیورسٹی کے قیام کی خوشی میں عظیم تعلیمی درسگاہ کا نام تک ختم کردیا گیا۔ ڈاکٹر عرفان علی ظفر نے کہا کہ پورئے سرگودہا ڈویژن کے لیے بے مثال تعلیمی خدمات دینا والا اب کوئی بھی کالج نہ رہا ہے۔ پرائیوٹ کالجوں کی بھرمار نے تعلیم کو مکمل طور پر تاجرانہ وصف بنا دیا ہے۔ اب طالب علم تعلیمی ادارے کا چناؤ فیس کے حساب سے کرتے ہیں کہ فلاں کالج یا فلاں کالج اور چند مرلے کے اِن کالجوں نے سرگودہا کے شاہنوں سے وہ آن شان چھین لی ہے جو گورنمنٹ کالج کے ہوتے ہوئے ہر امیر غریب کو حاصل تھی۔ ممتاز سماجی رہنماء مطہر سلیم حجازی نے کہا کہ اربابِ اختیار سے گزارش ہے کہ سرگودہا کی میں بلڈنگ میں فرسٹ اےئر کی کلاسز کا اجراء کردیا جائے اور گورنمنٹ کالج کی حیثت بحال کردی جائے۔ اگر حکومت دردمندانہ درخواست مان لے تو یونیورسٹی کے لیے علحیدہ کیمپس بنا کر یونیورسٹی کو بتددریج منتقل کرئے اور گورنمنٹ کالج کا مقام و مرتبہ بحال کیا جائے۔ ڈاکٹر تنویر احمد چوہدری نے اپنی گفتگو میں کہا کہ پنجاب حکومت لاہور کے تاریخی ورثے کو خوب سنبھال رہی ہے اور اس کو دوبارہ زندہ کررہی ہے۔ اس قومی ورثے کو سنبھالنا اچھی بات ہے۔ یہ تاریخی ورثہ شاہی محلات، باغ اور پتھر کی دیواروں وغیرہ پر مشتمل ہے۔ لیکن گورنمنٹ کالج سرگودھا جیسا سوبرس پرانا تاریخی ورثہ ایک لمحے میں ختم کردیا گیا جبکہ یہ تاریخی ورثہ سوبرس کی بیشمار نامور شخصیات کو جنم دے چکا تھا اور مستقبل میں نہ جانے کتنے نامور نام یہاں سے پیدا ہونے والے تھے۔ سابق گورنمنٹ کالج سرگودھا سوال کرتا ہے کہ اینٹ، بجری، ریت اور سیمنٹ کے تاریخی ورثے کو سنبھالنا تو ضروری ہے لیکن کیا قدیم تعلیمی ورثے کو پاؤں تلے روند دیئے جانے کا ذرا سا نوٹس لینا بھی ضروری نہیں ہے ۔ حافظ عبدالروف کا کہنا تھا جناح بلاک، اقبال ہاسٹل، جناح ہال اور مولا بخش آڈیٹوریم کو گورنمنٹ کالج سرگودھا کے اصل نام اور اصل مونوگرام کے ساتھ بحال کیا جائے۔ حکومت اِس مطالبے پر کان دھرے اور گورنمنٹ کالج سرگودہا کو بحال کرئے۔ فورم سے اعظم خان اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے خطاب کیا۔