Saturday, 26 May 2018

گورنمنٹ کالج سرگودہا کے عظیم اُستاد جناب پروفیسر حافظ فتح محمدؒ ...................................................صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی

 

گورنمنٹ کالج سرگودہا کے عظیم اُستاد 

جناب پروفیسر حافظ فتح محمدؒ

صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی

راقم زندگی کی نصف صدی مکمل کر چکا ہے۔ زندگی کی بود وباش انسان کو مختلف اوقات میں مختلف حالات سے آشنا کرواتی ہیں۔ سر زمین سرگودہا کی جب بات کی جاتی ہے تو پروفیسر غلام جیلانی اصغرؒ ، پروفیسرمنور مرزاؒ ، پروفیسرمظفر مرزاؒ ، ڈاکٹر انور سدیدؒ ،ڈاکٹر وزیر آغاؒ ، جیسی نابغہ روزگار ہستیاں کا تذکرہ ہوتا ہے کہ سرگودہا کے باسیوں کی قسمت پر رشک آتا ہے کہ اللہ پاک نے اِس شہر میں کتنے عظیم لوگ پیدا کیے۔ گورنمنٹ کالج سرگودہا کے ساتھ میری کچھ عرصہ وابستگی رہی ہے جس پر مجھے بلامبالغہ فخر حاصل ہے۔ پروفیسر الیاس اخترؒ کے بڑئے صاحبزادئے مسعود الیاس میرئے سکو ل میں کلاس فیلو تھے۔ لیکن میرئے بچپن کے دوست جناب خواجہ شفیق محترم الیاس اختر صاحب ؒ کے لاڈلے شاگرد تھے۔ اِس لیے مجھے بھی کبھی کبھی اُن کے پاس جانے کا موقع ملتا۔ اور فنکشنل انگریزی کے کچھ اسباق میں نے اُن سے پڑھے۔ اسی طرح انگریزی کے پروفیسر فضل کریم بھٹی صاحب اوراطہر شاہ خان صاحب بھی میرئے گورنمنٹ کالج سرگودہا میں اُستاد تھے۔آج جس عظیم ہستی کا تذکرہ کرنا مقصود ہے وہ عظیم ہستی کردار کی مضبوطی کی وجہ سے اور بطور اُستاد انتہائی کامیاب ہونے کی وجہ سے پورئے سرگودہا میں جانی جاتی ہیں۔ میری مراد جناب پروفیسر حافظ فتح محمد صاحبؒ سے ہے۔ اُستاد علم بکھیرتا ہے علم نور ہے نور نے فنا نہیں ہونا تو پھر نور پھیلانے والے کو کیسے فنا حاصل ہوجانی ہے۔ اللہ پاک ایسے عظیم لوگوں کو ہمیشہ کے لوگوں کے دلوں زندہ رکھتا ہے۔ حافظ فتح محمد ؒ صاحب روہتک بھارت میں جولائی 1945 میں پیدا ہوئے۔ پھلروان سے میٹرک اورگورنمنٹ کالج سرگودہا سے ایف اور بی اے کیا۔1967 میں پنجاب یونیورسٹی سے ایم ائے انگریزی ادب کیا۔گورنمنٹ کالج بھلوال میں یکم نومبر 1968 کو بطور لیکچرر اپنے کیرئیر کا آغاز کیا اور بعد ازاں 1973 میں گورنمنٹ کالج شورکوٹ ٹرانسفر ہوگئے اور پھر 1977 میں گورنمنٹ کالج سرگودہا میں ٹرانسفر ہوئے۔ 1997 میں شعبہ انگریزی گورنمنٹ کالج سرگودہا کے سربراہ مقرر ہوئے۔ یکم جنوری 2001 کو گورنمنٹ کالج سرگودہا سے ہی ریٹائرڈ ہوئے۔اللہ پاک نے حافظ صاحب کو سات بیٹوں اور ایک بیٹی سے نوازا۔ بڑئے صاحبزے ابوعبیدہ ماسٹرز اِن اکنامکس ہیں اور فارما سیوٹیکل انڈسٹری کے شعبہ مارکیٹنگ سے وابستہ ہیں۔ دوسرئے صاحبزادئے پروفیسر ڈاکٹر جوادمحمد شجاعت پی ایچ ڈی نفسیات ہیں۔ تیسرئے صاحبزادئے معظم فواد ایف سی پی ایس ہیں اور ماہر امراض دل ہیں اور سرگودہا میں پریکٹس کر رہے ہیں۔چوتھے صاحبزادئے محمد زبیر وقار ہومیو فیشن ہیں۔ پانچویں صاحبزادئے فاخر غیور بی ایس سی کیمیکل انجینئرنگ ہیں اور شانگریلا فوڈ کراچی کے جنرل مینجر پلانٹ ہیں۔چھٹے صاحبزادئے کاشف کلیم یاز معاشیات میں ماسٹر ڈگری کے حامل ہیں اور ساتویں صاحبزادئے کمال عالم ایم ایس سی کیمیکل انجینئرنگ ہیں اور بیٹی ایم انگریزی ہیں۔
رب پاک نے کائنات کانظام خود بخود چلنے کے لیے نہیں چھوڑ رکھا بلکہ کائنات میں موجود ہر ذی روح کو کوئی نہ کوئی کام کوئی نہ کوئی کردار سونپ رکھا ہے۔ عقلی تقاضے بعض اوقات اُن معاملات کا ادراک نہیں کر پاتے جو سلسلے رب پاک نے کائنات کے نظام کو حرکت میں رکھنے کے لیے کیے ہوتے ہیں۔ ایسے افراد جو دوسرے انسانوں کے لیے منفعت کا باعث بنتے ہیں یا ایسے انسان جو کہ انسان کو اشرف المخلوقات کے منصب کے قابل بناتے ہیں وہ لوگ معلم ہیں وہ اُستاد ہیں جو دنیا بھر میں علم کے نور کو پھیلاتے ہیں اور یہ سلسلہ رُکتا نہیں بلکہ اُن کی ظاہری حیات اور پردہ پوش ہونے کے بعد بھی اُن کا فیض جاری وساری رہتا ہے۔ اللہ پاک کے نیک بندے جن کا مقصد حیات ہی علم کی شع فر وزاں کرنا ہوتا ہے وہ ہمیشہ زندہ رہتے
ہیں اُن کے پھیلائے ہوئے علم کے نور کا ہا لہ معاشرے میں مسلسل نیکی اور بھلائی پھیلارہا ہوتا ہے۔ موجودہ حالت میں جب کہ سرزمین سرگودہا کے لیے شائد یہ کوئی یہ انوکھی بات نہیں کیونکہ یہ بڑی مردم خیز مٹی کی حامل سرزمین ہے لیکن سرگودہا کے لوگوں نے ہمیشہ علم وادب کے ساتھ اپنا رشتہ قائم رکھا ہے۔ ہوتا اکثر یہ ہی ہے کہ جب بھی کوئی بڑی ہستی اِس دنیا کا سفر مکمل کرکے اپنے جنتی گھر تشریف لے جاتی ہے تو تب اُس کو خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے سرگودہا کے لوگ خوش نصیب ہیں کہ اُن کو حافظ فتح محمد صاحب ؒ جیسا عظیم اُستا دملا�آ اللہ پاک نے محترم پروفیسر حافظ فتح محمدؒ کو کمال کا
حُسن خلاق عطا فرمایا تھا۔ چھوٹے بڑئے سب سے نہایت اخلاص سے پیش آتے۔ جناب پروفیسر حافظ فتح محمد ؒ نے ایک خوبصورت نگر آبادکر رکھا تھا۔ اُن کے دولت خانے میں خاندان کے بچے تحصیل علم کے لیے قیام پزیر ہوتے اور جناب حافظ صاحبؒ کی شفقت سے استفادہ کرتے ۔ جناب حافظصاحبؒ کا دسترخوان بہت وسیع تھا۔ ہر مہمان خاص مہمان ہوتا۔ حافظ صاحبؒ کے بچوں کے دوستوں سے اُن کا اِس طرح محبت سے برتاؤ تھا کہ شفقت کی انتہاء تھی۔ راقم کو بھی اُن کے بڑئے صاحبزادئے کنور ابوعبیدہ کی دوستی کے سبب شفقت سے میسر آئی۔
کہاں ہیں ایسے لوگ اب جن کی زندگی اللہ پاک اور اُسکے رسولﷺ کی اطاعت پر مبنی تھی ۔ کسی بھی معاشرئے میں نفوس پزیری کے حامل افراد میں اساتذہ اکرام کا کردار ہمیشہ نمایا ں ہوتا ہے۔ والدین سے بھی زیادہ جس شخص کا کسی بھی انسان کی کردار سازی میں کردار ہوتا ہے وہ اُستاد ہے۔ ہمارے دین کے مطابق اُستاد کو باپ کا درجہ دیا گیا ہے۔ اِسی لیے وہ اساتذہ جنہوں نے اپنی زندگی کو معاشرئے کی تربیت کے لیے وقف کیے رکھا وہ اُس مینارہ نور کی حیثیت اختیار کر گئے جو علم و آگہی کے چراغ جلا کر قوموں کی زندگیوں کو منور کرتے ہیں۔ اللہ پاک نے جناب حافظ صاحب ؒ کو یہ کمال بخشا تھا کہ علم و آگہی کا یہ پیکر طالبعلموں کے قلوب اذہان کو علم کی روشنی سے منور کر تارہا۔
سرگودہا جس کو مرد خیز علاقہ کہا جاتا ہے یہاں کے مکینوں نے جہاں تحریک پاکستان میں بھرپور حصہ لیا وہاں تعمیر پاکستان کے لیے بھی ڈٹے ہوئے ہیں۔ یہاں کی آبادی میں جہاں ایک طرف بہت امیر لوگ جو کہ بڑئے بڑئے زمیندار ہیں اور دوسرئے طرف بھارت سے ہجرت کرکے آنے والے۔یہاں کے بڑئے زمیندار بھی تعلیمی میدان میں بھر پور کردار کے حامل رہے ہیں ۔ سرگودہا کے بڑئے بڑئے جاگیر دار بھی علم دوست ہیں ۔ باقی اچھے بُرئے لوگ ہر معاشرئے میں ہوتے ہیں۔
یہ فانی دُنیا ہے یہاں سب مسافر ہیں لیکن جو لوگ رب پاک کے بندوں کے لیے منفعت کا ذریعہ بنتے ہیں وہ افراد معاشرئے کے ماتھے کا جھومر ہیں یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنی زندگی میں ایسے کام کر جاتے ہیں جو کہ ہمیشہ اُن کو امر کرجاتے۔ خلوص و مہر وفا کی حامل شخصیات ظاہری حیات اور اُسے بعد بھی فیض جاری رکھے ہوئے رہتی ہیں۔اُن کا مرنا اُس طرح کا مرنا نہیں ہوتا کہ مٹی کا ڈھیر بن جائے بلکہ وہ تو علم کے نور کے اتنے دئیے روشن کیے ہوتے ہیں کہ گہری رات بھی بقعہ نور بن جاتی ہے عقل و دانش اُن کے آگے جھکتی ہیں۔ اُن کا جینااُن کا مرنا ایسے سفر کی مانند ہوتا ہے جہاں کبھی کبھی پڑاؤ ڈالنا پڑتا ہے لیکن پھر یہ سفر راہوں کو روشنی دیتا ہوا منزل کی جانب گامزن رہتا ہے۔ایسی ہی ایک ہستی جناب حافظ فتح محمدؒ نہایت عالم فاضل اور اپنے مضمون انگریزی کے ماہر اُستا دتھے۔ اُن کے لیے شائد تھا کا لفظ لکھنا میرے لیے مشکل ہے کیونکہ جتنا علم انھوں نے اپنے رب کے کرم سے پھیلایا اور خیر تقسیم کی وہ نور ، وہ علم بھی زندہ ہے اور جن لوگوں نے جناب پروفیسر صاحب سے اکتسابِ فیض کیا وہ اس نور کو آگے پھیلا رہے ہیں۔ جناب حافظ صاحب جیسی شخصیت کسی بھی معاشرے کے لیے کسی بہت بڑی نعمت سے کم نہیں۔آپ نے اپنی پوری زندگی علم کو پھیلا نے میں صرف کی۔ سرگو دہا اوراُ س کے قرب وجوار کے شہر اِس بات کے گواہ ہیں جناب حافظ صاحب انگریزی کے ایک بے بدل پروفیسر تھے۔ پھلروا ن سرگودہا وہ خوش نصیب قصبہ ہے جہاں جناب پروفیسر صاحب پیدا ہوئے اور پروان چڑھے۔ محدو د وسائل کے باوجود آپ نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور پھر گورنمنٹ کالج سرگودہا میں تدریس کے فرائض انجام دئیے۔ آپ کے لکھے ہوئے نوٹس انگریزی کے مضمون کے طلبہء کے لیے کامیابی کی ضمانت سمجھے جاتے۔آپ نہایت محبت اور نرمی کے ساتھ پڑھاتے اور طلبہء کے دل میں آپ کے لیکچر اُتر جاتے۔ راقم کے لیے یہ بات باعث افتخار ٹھری کے پروفیسر صاحبؒ کے بڑے صاحبزادے جناب کنور ابوعبیدہ میرے نہایت ہی قریبی دوست ہیں اور ہماری دوستی اُس وقت سے ہے جب ہم گورنمنٹ کمپری ھینسیوہائی سکول سرگودہا میں پڑھتے تھے۔ یوں مجھے جناب پروفیسر صاحب کے ساتھ اکثر ملاقات کا شرف ملتا اور جب بھی میں اُن کے گھر جاتا تو اپنے بیٹے کو خصوصی طور پر کہتے کہ اشرف کو کھانا کھلایا ہے یا نہیں ،بہت زیادہ محبت اور شفقت سے پیش آتے بہت مہمان نواز تھے۔ میں کامرس اور قانون کا طالب علم رہا ہوں لیکن مجھے اعزاز ہے کہ میں نے جناب پروفیسر صاحب کے پاس اُن کے بڑے بیٹے کے ہمراہ انگریزی ادب کے لیکچرز لیے اور میری یہ خواہش تھی کہ میں ایسا کرکے اُس برادری میں شامل ہوجاؤں جو آپ کے شاگرد ہونے کا اعزاز رکھتی ہے۔ اِس حوالے سے مجھے جب بھی اُن کی یاد آتی ہے تو میں پروفیسر صاحبؒ کے زیادہ قریب ہونے پر افتخار محسوس کرتا ہوں۔
جناب پروفیسر صاحب اعلیٰ گریڈ میں ترقی پاچکے   
تھے لیکن پھر بھی انتہائی سادہ اندازِ زندگی اختیار کیے رکھا۔ آپ کالج سائیکل پر ہی جاتے۔ گھر میں بھی با جماعت نماز کا اہتمام کیا ہوتا۔ آپ کے تمام بچے صوم صلوۃ کے پابند ہیں ایک اور بات وہ یہ کہ اکثر آپ کے عزیزوں کے بچے تعلیم کے خاطر آپ کے ہاں قیام پزیر ہوجاتے یوں آپ کے دستر خواں کو بہت وسعت حاصل تھی۔ یافتہ ہیں اور آپ سے فیض یاب ہونے والے آپ کے شاگرد بھی زندگی کے ہر شعبے زندگی کا کوئی شعبہ بھی ایسا نہیں جہاں آپ کے شاگرد موجود نہ ہوں اور وطن عزیز کی خدمت پر مامور نہ ہوں۔اِسی سرگودہا کی سرزمین پہ پیر محمد کرم شاہ الازہری ؒ جیسی نابغہ روزگار ہستی پوری آب و تاب سے چمکیں اور علم وعمل کے اِس پیکر نے پوری دُنیا میں سر گودہا کے نام کو روشناس کروایا۔ اِسی طرح پروفیسر صاحبزادہ عبدالرسول جیسی عظیم جو گورنمنٹ کالج سرگودہا کے پرنسپل رہے ہیں۔ جناب غلام جیلانی اصغرؒ بھی گورنمنٹ کالج سرگودہا کے پرنسپل رہے۔ علم پھیلانے والے عطیم جناب حافظ فتح محمدؒ کا وصال 28
نومبر2012 کو ہوگیا۔ جناب پروفیسر صاحبؒ سرگودہا میں آسودہ خاک ہیں۔ سرگودہا میں ہی حضرت حکیم میاں محمد عنائت خان قادری ؒ آف زاویہ نوشاہی آسودہ خاک ہیں اور اِس شہر میں نصف صدی تک ہر خاص و عام کے لیے خلوص و محبت کے عظیم پیامبر رہے ہیں۔ حضرت بابا نور خان ؒ بھی سرگودہا میں ہی آسودہ خاک ہیں۔ جناب پروفیسر حافظ فتح محمدؒ نے اپنی پوری زندگی سرگودہا کی عوام کو علم کی روشنی سے منور کرتے گزاری۔ اللہ پاک اُن کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے آمین۔









                                            Phtotos of sons of Respected Hafiz Fateh Muhammad sb R.A

























No comments:

Post a Comment