Wednesday, 28 December 2016

گزرے سال کی خود احتسابی کی بیلنس شیٹ کی تیاری ضروری کیوں ؟ صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ

گزرے سال کی خود احتسابی کی بیلنس شیٹ کی تیاری ضروری کیوں ؟
صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ

زندگی کا پہیہ اپنے محور کے گرد اُسی طرح گھوم رہا ہے جیسے زندگی کے آغاز میں تھا۔ لیکن ذرائع اطلاعات و مواصلات نے زندگی کی ہیت بدل کر رکھ دی ہے۔ اطلاعات تک رسانی بہت تیز ہوئی ہے ۔ پاکستان میں بیٹھ کر لاکھوں میل دور کی خبر آنِ واحد میں پہنچ رہی ہے ۔ لیکن اِس کے ساتھ ہی مصروفیت نے انسان کو اپنی بنیادی ذمہ داریوں سے عہدا ء براء ہونے سے قاصر کررکھا ہے۔ لاکھوں میل دور کی خبر تو انسان کے پاس چند لمحات مین پہنچ جاتی ہے لیکن ساتھ والے کمرے میں بستر دراز بوڑھی ماں یا بوڑھے باپ کی خیریت اُسے معلوم نہیں ہو پاتی۔اِس المیہ کی وجہ سے انسانوں میں آپس میں محبت کا فقدان جنم لے رہا ہے۔ پاکستانی معاشرئے کی پہچان مشترکہ خاندانی نظام تھا۔ لیکن اِس نظام کو شدید گزند پہنچی ہے وہ یوں کہ نظام کے سربراہ کو اب گھر میں اپنے ساتھ رکھنے کی بجائے گھر کے کیسی کونے کھدرے میں رکھا جاتا ہے۔ گھر کا حاکم باپ، اولاد کے جوان ہوتے ہی خود یتیموں جیسی زندگی بسر کرتا ہے۔ ماضی میں جو اولاد اپنے ماں باپ کا احترام کرتی تھی وہاں اب حالت یوں ہے کہ بوڑھے ماں باپ اولاد کے جوان ہوتے ہی اُن سے ڈرنے لگتے ہیں۔ایک نیا عیسوی سال دستک دئے رہا ہے۔ ذرا گزر جانے والے سال کے حوالے اگر ہم سب اپنے اپنے گریبان میں جھانک لیں تو شاید خود احتسابی کی کوئی روشن روایت پنپ سکے۔اگر ہم ملازمت پیشہ ہیں یا اپنا کاروبار کرتے ہیں یا ہم خدمات مہیا کرتے ہیں تو ہمیں اکیلے میں بیٹھ کر خود سے سوال کرنا چاہیے کہ پورئے سال میں ہم نے رزق کمانے کے لیے جو فرائض تھے اُن کی ادائیگی درست طور پر کئی یا نہیں۔ کیا جو لقمے ہماری اولاد نے کھائے وہ لقمے حلال کے زمرئے میں آتے ہیں یا نہیں۔ ذرا ذہن پر زور ڈال کر ہم سو چیں کیا ہم نے اپنے بچوں کے لیے رزق کماتے ہوئے کسی اور کے بچوں کی روزی تو نہیں چھینی۔ کیا ہم نے جھوٹ اور لوٹ کھسوٹ کا سہارا لے کر مال تو نہیں کمایا۔ یہ جو ہم خود احتسابی کر رہے ہیں اِس میں یہ بات پیشِ نظر رہے کہ ہم نے یہ نہیں کہنا کہ سب ہی تو کر رہے ہیں۔ ہم تو اپنا حساب کتاب کر رہے ہیں۔ ہم نے تو اپنے ضمیر سے پو چھنا ہے کہ سال کے365 دنوں میں حقوق اللہ اور حقوق العباد کا خیال رکھا یا نہیں۔آئیے خود کلامی کرتے ہیں اور خود سے پوچھتے ہیں کہ کیا ہم اپنے دوست احباب کے ساتھ پورا سال رابطے میں رہے کیا ہم نے اپنے سے مالی طور پر کم دوست رشتے داروں کی دلجوئی کرنے کی کوئی سعی کی۔ایک اور بات کہ کیا ہم نے سچ کو اپنا شعار بنایا۔ کیا ہم خود کو مطمن کرنے کے لیے منافقت کا شکار تو نہیں ہو گئے۔ کیا ہم نے اپنے والدین کا خیال رکھا اُن کے کھانے پینے دوائی وغیرہ اُن کی ضرورتوں کو اپنی ضرورتوں پر تر جیح دی کیا ایسا تو نہیں ہوا کہ والدین کو عام اور خود اور اپنی اولاد کو خاص کھلایا اور خاص پہنایا۔ صاحبو ایک اور بات کا بھی کیا دھیان رکھا کہ جس دین کا نام ہم ہر وقت لیتے ہیں اور خود کو معصوم سمجھتے ہیں اُس دین پر عمل کرنے کی بھی کوشش کی۔ جس نبیﷺ کے عشق کا دعویٰ کرتے ہیں اُن کے حیات طیبہ پر چلنے کی سعی کی۔ ایک نقطہ اور کہ گزرئے ہوئے سال میں کتنے دوست رشتے دار ایسے ہیں جو ہم سے خفا ہوئے اور ہم نے اُن کو منایا۔چلیے ایک نظر اِس طرف بھی کہ کیا ہم نے اپنے بیوی بچوں کی جائز ضروریات کا خیال رکھا۔ ہم نے اپنی آنکھوں کی پاکیزگی اپنی روح کی پاکیزگی کا کتنا خیال رکھا۔ کیا ہم ایک دوسرئے کی چغلی میں تو نہیں لگے رہے اور دوسروں کو خود سے کم تر جانتے رہے۔اِس سوالات کے لیے کوئی زیادہ وقت درکار نہیں ہے۔ بس چند منٹ ہی تو درکار ہیں۔ہمیں غور کرنا ہوگا کہ کیا ہم باعمل مسلمان ہیں اور ہم دکھاوئے کے لیے اچھا بنتے ہیں یا ایسا کوئی وصف ہے کہ لوگ ہماری عدم موجودگی میں بھی ہمارئے لیے نیک خواہشات رکھتے ہوں۔ ہماری اخلاقیات کیسی ہے۔ہمیں خود احتسابی کرلینی چاہیے ایسا نہ ہو کہ اِس کام کے لیے مقرر فرشتوں کی جانب سے ہی حساب کتاب کرنے کا وقت آپہنچے۔بس ہمیں اپنے فرائض ادا کرنے ہیں۔اگر ہمارئے پاس کسی کی امانت ہے تو ہمیں اُس کی حفاظت کی بابت بھی سوچنا ہے کہ ہم نے اُس شے کی حفاظت کیسے کی ہے۔وہ لوگ جو ہم سے کینہ رکھتے ہیں اُن کے دلوں کو نرم کرنے کے لیے کیا کوئی قدم ہمارئے طرف سے اُٹھا ہے یا نہیں۔ کیا ہم نے اپنی اولاد کو نماز، روزئے اور اخلاقیات کی ترغیب دینے کے لیے وقت نکالا ہے۔ہم نے ا? پاک کے فرمان کے ہر کسی سے اُس کی رعیت کے متعلق سوال پوچھا جائے گا کہ حوالے سے اپنے آپ سے پوچھنا ہے۔اپنے محلے میں اپنے ہمسایوں کے ساتھ برتاؤ کیسا رہا۔آخری بات کہ ہم نے اپنی روحانی بالیدگی کے لیے خود کے لیے کتنا وقت نکالا ہے۔

RULE OF LAW INTERNATIONAL MAGAZINE: باصلاحیت، ہونہار نوجوان۔ صاحبزادہ حذیفہ نوشاہی سے ...

RULE OF LAW INTERNATIONAL MAGAZINE: باصلاحیت، ہونہار نوجوان۔ صاحبزادہ حذیفہ نوشاہی سے ...: باصلاحیت، ہونہار نوجوان۔ صاحبزادہ حذیفہ نوشاہی سے ملاقات ترتیب :جاوید مصطفائی صاحبزادہ حذیفہ نوشاہی کا تعلق لاہور کے ایک علمی ورو...

باصلاحیت، ہونہار نوجوان۔ صاحبزادہ حذیفہ نوشاہی سے ملاقات ترتیب :جاوید مصطفائی

باصلاحیت، ہونہار نوجوان۔ صاحبزادہ حذیفہ نوشاہی سے ملاقات

ترتیب :جاوید مصطفائی

صاحبزادہ حذیفہ نوشاہی کا تعلق لاہور کے ایک علمی وروحانی حاندان سے ہے حذیفہ نوشاہی 4 اکتوبر1999کو لاہور میں پیدا ہوئے۔حذیفہ نوشاہی کے والد ممتاز قانون دان میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ ہیں۔حذیفہ نوشاہی سالِ دوم کامرس گروپ کے طالبِ علم ہیں۔اور مستقبل میں حضرت قائدِاعظمؒ اور حضرت اقبالؒ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے قانون کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے خواہاں ہیں اور سول سروس میں جانے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔حذیفہ نوشاہی نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے ممبر ہیں او رحال ہی میں ہیومن رائٹس فرنٹ انٹرنیشنل کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل نامزد ہوئے ہیں۔اس کے علاوہ انٹرنیشنل کالمسٹ ایسوسی ایشن ساؤتھ ایشیا ریجن کے کوارڈینیٹرہیں۔۔نظریہ پاکستان ٹرسٹ میں ہونے والی تقریبات میں بہترین کمپیرنگ پر مجید نظامی صاحبؒ اور وزیرِاعلیٰ پنجاب شہباز شریف سے چار مرتبہ ایوارڈ حاصل کر چکے ہیں۔اس کے علاوہ نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے زیرِاہتمام نظریاتی سمر سکول کیمپ میں مسلسل چار مرتبہ شامل ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔اور 2014میں منعقدہ اختتامی پروگرام کی کمپیرنگ کا اعزاز بھی حاصل کیا۔حضرت اقبالؒ کی شاعری سے عشق کی حد تک محبت کرتے ہیں۔لاہور پریس کلب، لاہورہائی کورٹ،نظریہ پاکستان ٹرسٹ میں ہونے والی مختلف تقریبات میں خطاب اور نعتِ رسولِ مقبولﷺپڑھنے کا اعزاز حاصل کر چکے ہیں۔ کراٹے، پینٹنگ، اورکرکٹ میں دلچسپی رکھتے ہے۔ مختلف اخبارات میں تحریر کردہ مختلف سماجی موضوعات پر ان کے کئی مضامین چھپ چکے ہیں۔ حذیفہ نوشاہی اردو بلاگ بھی لکھتے ہیں۔بچوں کے ویب میگزین مصطفائی چلڈرن میگزین کے چیف ایڈیٹر ہیں۔اللہ پاک جو کہ سارے جہانوں کا خالق ومالک ہے۔اس نے یہ کائنات بغیر کسی مقصد کے پیدا نہیں کی۔بلکہ اس کائنات کو پیدا کرنے کا سبب ایک ایسی ہستی ہیں جس ہستی کو اللہ پاک اپنا محبوب گردانتا ہے۔گویا کہ اس کائنات کا وجود اللہ پاک کے محبوب نبیﷺ کی بدولت ہے۔حدیثِ قدسی ہے کہ اللہ پاک فرماتا ہے کہ اے نبی ﷺاگر میں تجھے پیدا نہ کرتا تو زمین و آسمان پیدا نہ کرتا حتٰی کہ اپنے رب ہونے کا اظہار بھی نہ کرتا۔اس حدیثِ قدسی کے مطابق کائنات کی ہر چیز کا وجود اللہ پاک نے نبی پاکﷺکی وجہ سے پیدا کیا ہے۔اسی طرح اللہ پاک نے نبی پاک ﷺکو اُس وقت نبوت سے سرفراز فرما دیا جب آدم کا وجود ابھی تخلیق نہ ہوا تھا۔ اللہ پاک اور اُسکے فرشتے نبی پاکﷺ پر درودو سلام بھیجتے ہیں اور مسلمانوں کو بھی نبی پاک ﷺپر درود بھیجنے کا اللہ پاک نے حکم دیا ہے۔یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ رسول پاک ﷺکی محبت کے بغیر ایمان مکمل نہیں ہو سکتا۔رسول پاکﷺکی اطاعت اللہ کی اطاعت ہے ۔نعت سے مراد نبی پاک ﷺکی تعریف و توصیف ہے۔اس حوالے سے دیکھا جائے تو سب سے پہلے جس ہستی نے رسول پاک ﷺکی تعریف و توصیف کی ہے وہ ہستی خود اللہ پاک ہی ہے تمام انبیا کرام نبی پاک ﷺکی نبوت کی بشارت دیتے آئے ہیں۔اور اُنکی شان بیان کرتے بھی آئے ہیں۔اس لیے صحابہ اکرامؓؓ ،اولیا اکرام حتٰی کہ غیر مسلم نے بھی رسول پاک ﷺکی نعت بیان کی ہے۔ جب ہم نے حذیفہ نوشاہی سے نعت رسولﷺ پڑھنے کی طرف رغبت کی بابت سوال کیا تو اُن کا کہنا تھا گھر کا ماحول چونکہ مذہبی ہے اور بچپن سے ہی مجھے ہمیشہ نبی پاکْ ﷺکا درس میرے والدین کی طرف سے ملا۔اسی طرح سرگودھا میں عظیم صوفی بزرگ حضرتِ میاں محمد عنایت قادری نوشاہیؒ جو کہ میرے نانا ابو تھے۔اُنکے فیضانِ نظر سے بھی نعت خوانی کے شوق کی طرف مائل ہوا۔حذیفہ نوشاہی نعت پڑھنے کی باقاعدہ تربیت معروف نعت خواں جناب حافظ سہیل نذر سے لے رہے ہیں۔اور قرات کے لیے جناب قاری ثاقب قادری اُن کے اُستاد ہیں۔جب حذیفہ نوشاہی سے پوچھا گیا کہ آپ کو نعت پڑھنے کے دوران کیسی کیفیت محسوس ہوتی ہے تو اُن کا کہنا تھا کہ نبی پاک ﷺ اِس کائنات کی جان ہیں اُن کا ذکر دل کو سرور بخشتا ہے اور میری زندگی کا حاصل وہی لمحات ہوتے ہیں جب میں شان رسالت ﷺ میں نعت پیش کر رہا ہوتا ہوں۔ اُن سے اگلا سوال یہ تھا کہ آپ کی فیملی میں پہلے بھی باقاعدہ نعت خوانی کی طرف کسی نے اِس انداز میں محنت کی ہے تو حذیفہ نوشاہی کا کہنا تھا کہ میرئے چچا جناب صاحبزادہ میاں محمد اکرم جو کہ آجکل سعودی عرب میں ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں بطور سیفٹی انجینئر خدمات انجام دئے رہے ہیں وہ بھی بہت اچھی نعت پڑھ لیتے ہیں اور بچپن میں اُن سے نعت سُن کر مجھے بھی اِس جانب آنے کا شوق ہوا۔ اِس لے علاوہ میرے چچا صاحبزادہ میاں محمد اعظم جو کہ کنگ ایدورڈ میڈیکل یونیورسٹی کے شعبہ لائبریری میں جاب کر رہے ہیں وہ بھی بہت اچھی نعت پڑھتے ہیں۔ جب حذیفہ نوشاہی سے یہ سوال کیا گیا کہ آپ کو کس کا کلام پڑھنا زیادہ پسند ہے تو اُن کا کہنا تھا کہ نعت رسولﷺ لکھنا بہت مقدس کام ہے اِس لیے جو کلام بھی مجھ سے پڑھا جا سکے وہ میں پڑھتا ہوں ۔ اعلیٰ حضرت عظیم البرکت حضرت احمد رضا خانؒ ایک عظیم عاشق رسولﷺ تھے اُن کی لکھی ہوئی نعتیں بہت شوق سے تیار کی ہیں۔ اِسی طرح احمد ندیم قاسمیؒ کا کلام پڑھنے کا شرف بھی حاصل ہوا ہے۔نعت پڑھنا اور اِس کے ساتھ آپ قانون کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں اِس کے علاوہ اور کیا مشاغل ہیں اِس سوال کے جواب میں صاحبزادہ حذیفہ نوشاہی کا کہنا تھا کہ وہ بچوں کے لیے کہانیاں لکھتے ہیں اِس کے ساتھ ساتھ کالم نگاری کا بھی شوق ہے۔ نظریہ پاکستان ٹرسٹ میں ہونے والے تقریریے مقابلہ جات میں بھی حصہ لیتا رہا ہوں۔ نظریہ پاکستا ن ٹر سٹ میں لگا تار چار سال تک مجھے بہترین طالب علم کی شیلڈ سے نواز گیا۔آپ پاکستان کے مسائل کو کس نظر سے دیکھتے ہیں اِس سوال کے جواب میں صاحبزادہ حذیفہ نوشاہی نے کہا کہ پاکستان ایک عظیم اسلامی مملکت ہے اور یہ ملک ستائیسویں رمضان کی شب کو معرض وجود م میںآیا یہ تا قیامت قائم رہے گا انشا اللہ۔ مسائل بہت ہیں کرپشن اقربا پروری نے ہمارے معاشرے کا حلیہ بگاڑ دیا ہے۔ میرٹ کی بالا دستی نہیں ۔دہشت گردی کی وجہ سے بھی پاکستان کا بہت نقصان ہوا ہے۔ اللہ پاک ہمیں دیانتدار حکمران عطا فرمائے۔اگلا سوال جو حذیفہ نوشاہی سے تھا وہ یہ کہ نبی پاکﷺ رحمت عالم ہیں آپ اِس حوالے سے ہمارے دلوں کو گرمائیں۔حذیفہ نوشاہی گویا ہوئے ہزاروں سالوں پہ محیط یہ دُنیا نشیب وفراز سے گزرتی رہی ہے۔ حضرتِ آدم ؑ سے لے کر حضرت عیسیٰؑ تک کے برگزیدہ انبیاء اور رُسلؑ پوری کائنات میں رب کی واحد ربوبیت کے پرچار میں اپنی حیات صرف کرتے رہے۔ دوسرئے انبیاء بے شک اللہ پاک کی طرف سے مبعوث ہوئے اور اپنے اپنے دائرہ کار، علاقے میں اپنے فرض کی ادا ئیگی کرتے رہے۔ ایسا بھی ہوتا رہا کہ ایک ہی وقت میں کئی نبی معبوث کیے گئے۔لیکن جب تاجدار ختم نبوت نبی پاک ﷺ مبعوث ہوئے تو اُس وقت کائنات کے ایک ایک ذرئے کے لیے آپ ﷺ کی رسالت رحمت بنی۔ رحمتِ عالم حضرت محمد مصطفےﷺ کی نبوت کا دائرہ کار تمام زمینوں اور تمام آسمانوں اور ایک ایک انسان، چرند پرند،حتی کے درختوں پر الغرض جس طرح اللہ پاک بغیر کسی دوسرئے کے شریک کے رب ہے اِسی طرح نبی پاکﷺ کو جس وقت مبعوث کیا گیا اُس وقت صرف اور صرف آپ ہی اللہ پاک کے نبی اور رسولﷺ ٹھرئے۔اور نبی پاک ﷺ کا رحمتِ دوعالم ہونا اور قیامت تک آپﷺ کا ہی نبی ورسولﷺ قرار پانا درحقیقت عظمت مصطفے ﷺ کی دلیل ہے کہ جس طرح ہمارا رب یکتا ہے اِسی طرح جس نبی پاکﷺ کی غلامی کا دعویٰ مسلمان کرتے ہیں وہ بھی اپنے تمام تر کمال میں بالکل یکتا اور بے مثال ہے۔نبی پاک ﷺ کی رحمتیں سارئے جہانوں پر ہیں اور نبی پاکﷺ کو اللہ پاک نے قاسم کے رُتبے پر سرفراز فرمایا ہے کہ نبی پاکﷺ اللہ پاک سے لے کر تقسیم فرماتے ہیں۔اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مسلمانوں کا عقیدہ ایک رب ایک نبیﷺ ایک قران کی بنیادوں پر کھڑا ہے اور نبی پاکﷺ نے ہمیشہ اپنے پرائے سب کے لیے دُعا فرمائی۔جس سال نبی پاک ﷺ کو بہت ہی عظیم صدمات سے گزرنا پڑا یعنی آپ ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرتِ خدیجہؓ کا وصال اور آپ ﷺ کے شفیق چچا جنابِ ابوطالبؓ کا وصال ہوا۔ اِس دور میں جب کہ آپ پر غم کے پہاڑ گر پڑئے۔آپ ﷺ وادی طائف میں تبلیغ کے لیے تشریف لے جاتے ہیں تو مشرکین آپ پر سنگ باری کرتے ہیں آپ ﷺ لہو لہان ہو جاتے ہے حتی کہ آپ کے نعلین مبارک میں خون بھر جاتا ہے۔اللہ پاک فوراً جبریل امینؓ کو بھیجتے ہیں اور وہ آکر کہتے ہیں کہ اگر آپ ﷺ فرمائیں تو پوری طائف کی وادی کو نیست و نابود کردیتے ہیں لیکن آقاکریمﷺ فرماتے ہیں کہ نہیں میں تو رحمتِ عالم ہوں اِن لوگوں کو نہیں پتہ کہ میں اُن کا کتنا خیر خوا ہ ہوں۔ حذیفہ نوشاہی کی گفتگو نے ایمان تازہ کر دیا تھا۔ موجودہ دور میں نعت خوانی جس طرح ہورہی ہے اُس حوالے کیا رائے ہے۔ حذیفہ کہنے لگے کہ گانوں کے انداز میں نعت پڑھنا اور محفلوں کے تقدس کا خیال نہ رکھنا بہت افسوس ناک امر ہے۔دوسرا اِس میں بہت زیادہ کمرشل ازم آگیا ہے ۔ اِس وجہ سے بھی نعت رسولﷺ کے مشن کی روح کو گذند پہنچ رہی ہے۔حذیفہ نوشاہی نے عشق رسول ﷺ کی کیفیات کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عشق رسولﷺ ایک ایسا عظیم رسرمایہ ہے کہ مومن کی یہ خوش بختی ہے کہ اللہ پاک نے ذکر مصطفیٰ کریم ﷺ کو مومنین کے لے توشہِ آخرت بنا دیا ہے۔ انسانی عقل و شعور اِس بات کو سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتی کہ نبی پاکﷺ کی عظمت و رفعت کا احاطہ کرسکے۔ اِس لیے جب بھی مجھے نعت پڑھنے کی سعادت نصیب ہوتی ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ رب پاک کا بے پایاں کرم ہوتا ہے کہ وہ اپنے بندے کو اپنے محبوب ﷺکی مدحت کے لیے منتخب کر لیتا ہے۔ جب حذیفہ نوشاہی سے۔یہ سوال کیا گیا کہ آپ جب نعت پڑھ رہے ہوتے ہیں تو اُس وقت آپ کی روح کو کیسا محسوس ہوتا ہے اِس سوال کا جواب دیتے ہوئی حذیفہ نوشاہی کی آنکھوں میں آنسو چھلک پڑئے۔ حذیفہ نے کہا کہ مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کہ میں حضرت بلالؓ، حضرت اویس کرنیؓ اور حضرت حسان بن ثابتؓ کے دور میں موجود ہوں اُن کی راہ پر چل رہا ہوں۔ حذیفہ نوشاہی نے بتایا کہ وہ اپنے کالج کے میگزین کے ایڈیٹر ہیں اور اِس حوالے سے اُن کو بہت ہی اچھا تجربہ ملا ہے۔حذیفہ نوشاہی عشق رسولﷺ کی سُرخیل تنظیم انجمن طلبہ ء اسلام سے بھی وابستہ ہیں۔

Sunday, 27 November 2016

فیدل کاسترو۔ایک انقلابی لیڈر.................... صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ


فیدل کاسترو۔ایک انقلابی لیڈر

صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ

کیوبا میں سابق صدر فیدل کاسترو کے انتقال کے بعد نو روزہ سوگ کا آغاز ہو گیا ہے جس کے دوران ان کی باقیات کو ان راستوں پر لے جایا جائے گا جن پر سے گزر کر ان کے ساتھیوں نے بتیستا کی حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا۔کیوبا کے دارالحکومت ہوانا میں غم کا سماں ہے جبکہ میامی میں وہ کیوبن افراد جو وہاں مقیم ہیں جشن منا رہے ہیں۔ کیوبا کے انقلابی رہنما اور سابق صدر جمعہ کی رات 90 برس کی عمر میں انتقال کر گئے تھے۔عالمی سربراہان اور اہم شخصیات کی جانب سے فیدل کاسترو کے انتقال پر تعزیتی پیغامات کا سلسلہ جاری ہے۔امریکی صدر باراک اوباما کا کہنا ہے کہ وہ کیوبا کے سابق صدر فیدل کاسترو کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھانا چاہتے تھے جبکہ چین اور روس کے صدور نے کہا ہے کہ ان کے ممالک نے ایک اچھا دوست کھو دیا ہے۔اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون کا کہنا ہے کہ فیدل کاسترو کو کیوبا میں تعلیم، ادب اور صحت جیسے شعبوں میں بہتری لانے کے لیے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ان کے علاوہ پاپ فرانسس جنھوں نے گذشتہ سال فیدل کاسترو سے ملاقات کی تھی نے ان کے بھائی کو بیجھے پیغام میں دکھ کا اظہار کیا ہے۔اس سے قبل امریکہ کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ کیوبا کے انقلابی رہنما فیدل کاسترو ایک 'ظالم آمر' تھے جنھوں نے کئی دہایوں تک اپنے ہی لوگوں پر ظلم کیا۔ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ وہ امید کرتے ہیں کہ اب کیوبن عوام مزید آزاد مستقبل کی جانب بڑھیں گے۔فیدل کاسترو کی یک جماعتی حکومت نے کیوبا پر تقریباً نصف صدی تک حکومت کی اور 2008 میں اقتدار اپنے بھائی راؤل کاسترو کو منتقل کر دیا۔ان کے مداحین ان کے بارے میں کہتے ہیں کہ انھوں نے کیوبا واپس عوام کو سونپ دیا۔ تاہم ان کے مخالفین ان پر حزب اختلاف کو سختی سے کچلنے کا الزام لگاتے ہیں۔صدر راؤل کاسترو نے
سرکاری ٹیلی وڑن پر ایک غیر متوقع خطاب میں بتایا کہ فیدل کاسترو انتقال کر گئے ہیں اور ان کی آخری رسومات سنیچر کو ادا کی جائیں گی۔ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے۔ کہ 'کیوبا ایک مطلق العنان جزیرہ ہے، میں امید کرتا ہوں کہ آج کے دن سے وہ اس خوف سے آگے بڑھیں گے جو انھیں نے طویل عرصے تک جھیلے ہیں، اور بہترین کیوبن عوام بالآخر مستقبل کی جانب بڑھیں گے اور آزادی کے ساتھ رہ سکیں گے جس کے وہ مستحق ہیں۔'خیال رہے کہ صدر اوباما کے دور میں امریکہ اور کیوبا کے درمیان سفارتی تعلقات سنہ 2015 میں کئی دہائیوں کے بعد بحال ہوئے تھے۔ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم میں اس پر تنقید کا اظہار کیا تھا لیکن اپنے حالیہ بیان میں اس کا کوئی ذکر نہیں کیا، ان کا کہنا ہے کہ انتظامیہ جو کچھ کر سکے کرے گی تاکہ کیوبا کے لوگوں کا 'آزادی اور خوشحالی کی جانب سفر کو یقینی بنایا جاسکے۔'دوسری جانب صدر اوباما کا کہنا ہے کہ تاریخ 'کاسترو کے بے پناہ اثر کو پرکھے گی اور یاد رکھے گی۔' ان کا کہنا تھا کہ امریکہ 'کیوبا کے عوام کی جانب دوستی کا ہاتھ' بڑھا رہا تھا۔فیدل کاسترو کا شمار بیسویں صدر میں طویل ترین عرصہ تک برسراقتدار رہنے والے حکمرانوں میں ہوتا ہے۔انھوں نے 2006 میں صحت کی خرابی کے باعث عارضی طور پر اپنے بھائی کو اقتدار سونپا تھا۔ تاہم دو سال بعد ان کے بھائی راؤل کاسترو باقاعدہ طور پر کیوبا کے صدر بن گئے تھے۔ان کی آخری رسومات سنیچر کو ادا کی جائیں گے جبکہ چار دسمبر تک ملک میں سرکاری سطح پر سوگ منایا جائے گا جب ان کی جسدخاکی کو نذر آتش کرنے کے بعد اس کی راکھ کو جنوب مشرقی شہر سان تیاگو میں دفن کیا جائے گا۔ فیدل کاسترو عہد حاضر کے ان عوامی رہنماؤں میں سے تھے جنھوں نے امریکا کی دہلیز پر کیوبا کی ریاست اور حکومت کے قیام سے لے کر اپنی موت تک ایک عظیم مزاحمتی جنگ لڑی۔ ان کی موت کی اطلاع اور تصدیق موجودہ صدر اور اور کاسترو کے چھوٹے بھائی راول کاسٹرو نے کی۔سرد جنگ کے نقطہ عروج پر کاسٹرو نے تیسری دنیا میں اپنی طلسماتی انقلابی شخصیت کی دھاک بٹھا دی تھی،
وہ عوام کے محبوب رہنما تھے۔ کاسترو نے 1953 نے مونکاڈا ملٹری بیرکس پر حملے میں ساتھیوں کے ہمراہ حصہ لیا تھا مگر ناکام حملے کے باعث وہ گرفتار ہوئے وہ کیوبا سے باہر چلے گئے اور 6 سال جلاوطن رہ کرواپس کیوبا آئے۔ وہ کیوبن آمر بیتستا کی 80 ہزار فوج کو شکست دے کر کیوبا میں داخل ہوئے تھے۔1959 میں وہ کیوبا میں بر سر اقتدارآئے، ایک طویل مدت تک کیوبن عوام کی خدمت کرتے رہے، ان کے انقلابی آدرش کی تقلید کئی عالمی مارکسی انقلابی لیڈروں نے کی، چی گویرا ان میں سے ایک تھے،کاسٹرو سیکڑوں مرتبہ ناکام قاتلانہ حملوں سے بچتے رہے جب کہ کئی امریکی صدور کو تبدیل ہوتے دیکھتے رہے، انکل سام سے کشمکش اور چپقلش ان کی زندگی اور سیاسی جدوجہد کا ایک ان مٹ تاریخی باب ہے، امریکی خفیہ ایجنسی اور کیوبا کے بعض جلاوطن شہری ان کی زندگی کے درپے رہے مگر ہر بار انہیں ناکامی ہوئی۔ کاسترو نے اپنے ملک میں سماجی و معاشی اصلاحات کا موثر نیٹ ورک قائم کیا جس میں تعلیم اور صحت کو بنیادی ترجیح حاصل تھی۔اگرچہ امریکہ نے کیوبا پر حکمرانی کرنے والے کاسترو سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے سر توڑ کوشش کی لیکن اس طویل عرصے میں امریکہ میں دس کم ازکم صدور تبدیل ہو چکے تھے۔دنیا کے طول وعرض میں کمیونزم کو شکست دینے کے باوجود کاسترو امریکہ کے اپنے ہی دروازے پر ایک چبھتی ہوئی زندہ یاد کی صورت میں موجود رہے۔فیدل الیہاندرو کاسترو تین اگست 1926 میں کیوبا کے ایک امیر خاندان میں پیدا ہوئے جو پیشے کے اعتبار سے جاگیردار تھا لیکن اپنی آرام دہ طرز زندگی لیکن اردگرد پھیلی اذیت ناک مفلسی کی صورت میں سماجی تفریق اور دیگر مصائب ان کے لیے کسی دھچکے سے کم نہیں تھے اور اسی نے انھیں انقلابی بناڈالا۔اس وقت کیوبا پر فلجینسیو بتیستا کی حکومت تھی جن کا اقتدار بدعنوانی، تنزلی اور عدم مساوات کی علامت تھا۔ کاسترو اس کے خاتمے کے لیے پرعزم تھے۔اس زمانے کا کیوبا کسی کھلنڈرے شخص کے لیے جنت کی مانند تھا لیکن درحقیقت وہ منظم مجرموں کی پناہ گاہ کی مانند تھا۔ وہاں جسم فروشی، جوئے بازی اور منشیات کی سمگلنگ عام تھی۔کاسترو اور اس کے انقلابی گروہ نے موجودہ گوانتاناموبے کے جنوب میں واقع سیراما اسٹیا نامی پہاڑوں میں موجود اپنے اڈے سے بڑے پیمانے پر گوریلا مہم شروع کرنے کی منصوبہ بندی کی۔دو جولائی کو 1959 کو کیوبا کے صدر مقام ہوانا میں یہی باغی فوج داخل ہو گئی۔ نتیجتاً کاسترو فتحیاب ہوئے، بتیستا کو راہِ فرار اختیار کرنا پڑی اور کیوبا کو نئی حکومت مل گئی۔ یہ کامیابی ارجنٹائن سے تعلق رکھنے والے انقلابی ارنسٹ چی گیوارا کو بھی ملی تھی جنھوں نے کاسترو کی انقلابی تحریک میں حصہ لیا تھا اور بعد میں حکومت کا حصہ بھی بنے۔کیوبا کے نئے حکمرانوں نے لوگوں کی زمینیں واپس کرنے اور غربا کے حقوق کے تحفظ کا وعدہ کیا۔ لیکن جلد ہی منظر نامہ بدل گیا، حکومت نے ملک میں یک جماعتی نظام مسلط کر دیا جس کی وجہ سے سینکڑوں لوگوں کو جیل کی ہوا کھلائی گئی اور مزدوروں کے کیمپ سیاسی قیدیوں سے بھر گئے۔ صرف یہی نہیں ہزاروں لوگوں کو جلاء وطنی اختیار کرنی پڑی۔بے آف پگ بغاوت کے دوران فیدل کاسترو ٹینک سے چھلانگ لگاتے ہوئیکاسترو کا دعویٰ تھا کہ ان کے نظریے میں سب سے مقدم حیثیت کیوبا کے عوام کی ہے۔انھوں نے ایک موقعے پر کہا تھا: 'اشتراکیت اور مارکسیت سے نہیں، مگر بہتر منصوبہ بندی سے تشکیل دی گئی معیشت میں جمہوریت اور سماجی انصاف کی ترجمانی ہوتی ہے۔'
1960 میں فیدل کاسترو نے کیوبا میں موجود ان تمام کاروباروں کو قومی ملکیت میں لے لیا جو دراصل امریکہ کی ملکیت تھے۔ جواباً امریکہ نے کیوبا پر تجارتی پابندیاں عائد کر دیں جو حالیہ برسوں میں صدر
براک اوباما کے دور میں کہیں جا کر اٹھنا شروع ہوئیں۔کاسترو یہ دعویٰ کرتے تھے کہ انھیں مجبوراً سوویت یونین کے سربراہ نیکیتا کروسچو سے رابطے استوار کرنا پڑے، تاہم سے بہت سے تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ کاسترو نے اپنی خوشی اور مرضی سے سوویت یونین کو گلے لگایا تھا۔اس سے قطع نظر کہ ان کے اس اقدام کے کیا پیچھے کیا محرکات تھے، نتیجتاً کیوبا سرد جنگ کا میدان بن گیا۔اپریل 1961 میں امریکہ نے کیوبا سے کاسترو کے اقتدار کا خاتمہ کرنے کی کوشش کی اور اسے عملی جامہ پہنانے کے لیے کے لیے اسیری کی زندگی گزارنے والے کیوبا کے باشندوں کو غیر سرکاری فوج میں بھرتی کرنا شروع کر دیا۔کیوبا کے ساحل
بے آف پگز میں امریکی معاونت میں تربیت حاصل کرنے والے کیوبن باشندوں نے حملہ کیا لیکن کیوبا کے فوجی دستوں نے اسے ناکام بنا دیا۔ اس لڑائی میں لاتعداد حملہ آور مارے گئے جبکہ ایک ہزار کے قریب گرفتار ہوئے۔فیدل کاسترونے اس حملے کو ناکام بنا کے امریکہ کو ناکوں چنے چبوا دیے، جسے امریکہ ایک عرصے تک نہیں بھلا سکا۔اگلے برس یعنی 1962 میں امریکہ کے جاسوس طیاروں نے کیوبا کے مختلف مقامات پر سوویت یونین کے میزائلوں کی موجودگی کا پتہ لگایا۔ اس کے بعد اچانک دنیا بھر پر ایٹمی جنگ کے سیاہ بادل چھا گئے۔دو عالمی طاقتیں ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑی ہو گئیں۔ لیکن پلک جھپکنے کی پہل روس کے صدر نیکیتا کروشیف نے کیوبا سے میزائل نکالنے کی صورت میں کی۔ اس کے بدلے میں ترکی سے امریکی ہتھیاروں کو نکالنے کا خفیہ معاہدہ طے ہوا۔فیدل کاسترو نے دعوی کیا تھا کے انھیں نکیتا خروشیف کے ساتھ اتحاد میں شمولیت کے لیے مجبور کیا گیا تھاکاسترو امریکہ کے دشمنوں کی فہرست میں اول نمبر پر تھے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ نے انھیں آپریشن مونگوس میں قتل کرنے کی کوشش کی، لیکن وہ بچ نکلے۔دوسری جانب سوویت یونین کیوبا میں پیسہ انڈیل رہا تھا۔ اس نے جزیرے کی گنے کی کاشت کا وسیع رقبہ خرید لیا۔ بدلے میں ہوانا کی بندرگاہ پر اس کے ساز و سامان سے لدے جہاز اترتے تھے۔ امریکہ کی جانب سے تجارتی بندشوں کی وجہ سے کیوبا میں ان اشیائے ضرورت کی شدید قلت تھی۔سویت یونین پر انحصار کے باوجود کاسترو نے کیوبا کو غیر وابستہ تحریک میں شامل کیا جو اس وقت نوزائیدہ تھی۔ لیکن دوسری جانب کاسترو اتحادوں کا حصہ بھی بنے خاص طور پر انھوں نے افریقہ کی معاونت کی۔ انھوں نے اپنے فوجی دستے انگولا اور موزمبیق میں مارکسٹ گوریلوں کی مدد کے لیے بھیجے۔80 کی دہائی کے نصف تک عالمی سطح پر جغرافیائی سیاسی منظر نامہ بدل رہا تھا۔ یہ میخیل گورباچوف، گلاس نوسٹ اور پیرسٹروئکا کا زمانہ تھا اور یہی کاسترو کے انقلاب کے لیے تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ادھر روس نے کیوبا کی معاشی مدد سے ہاتھ کھینچ لیا اور اس سے مزید چینی لینے سے انکار کر دیا۔ امریکی تجارت کی بندش اور سویت یونین کی مدد نہ ملنے کی وجہ سے کیوبا میں بڑے پیمانے پر ضروری اشیا کی قلت پیدا ہو گئی۔ جب خوراک کے حصول کے لیے قطاریں طویل ہونے لگیں تو عوامی ضبط بھی مزید کم ہوتا چلا گیا۔کاسترو کی فورسز 1959 میں ہوانا میں داخل ہوئیں۔وہ ملک جس کے لیے کاسترو نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ دنیا کا سب سے ترقی یافتہ ملک ہے، درحقیقت واپس ہل جوتنے کے زمانے میں پہنچ چکا تھا۔90 کی دہائی کے وسط تک کیوبا کے عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا۔ اگر پہلے لوگ سیاسی اور معاشی وجوہات کی وجہ سے اسیری کی زندگی کی جانب مائل ہوئے تھے تو اب ہزاروں ایسے تھے جو ایک اچھی زندگی کا خواب آنکھوں میں سجائے سمندری راستے سے امریکی ریاست فلوریڈا ہجرت کر گئے۔بہت سے ایسے تھے جو دوران سفر اپنی جانوں سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے لیکن ایسا کرنا ان کی جانب سے کاسترو کے لیے عدم اعتماد کا ووٹ تھا۔بکھرنے والے خاندانوں میں سے ایک مثال نو عمر بچے ایلین گونزالز کی ہے جس کی والدہ فلوریڈا کے سفر کے دوران وفات پا گئی تھیں۔ کیوبا اور میامی میں اس کے خاندان کے درمیان طویل تنازعے کے بعد وہ ہوانا واپس آ گیا تھا۔اس عرصے میں کاسترو کی حکومت نے اندرونی سطح پر چند قابل توجہ اہداف حاصل کیے۔ ان میں تمام عوام کے لیے بہتر طبی سہولیات کی فراہمی نمایاں تھی، اسی کی بدولت کیوبا میں بچوں کی اموات ترقی پذیر ممالک سے کم ہو گئی۔ اپنے دور حکومت کے آخری عرصے میں کاسترو کافی حد تک بالغ نظر ہو چکے تھے۔1998 میں پوپ جان پال دوم نے کیوبا کا غیر معمولی دورہ کیا جس کے لیے اس سے پانچ سال قبل تک سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا۔ اس موقعے پر پوپ نے انسانی حقوق کی پامالی کی وجہ سے کیوبا پر کڑی تنقید کی۔ عالمی میڈیا کے سامنے کاسترو کے لیے یہ سب باعث شرمندگی تھا۔اپنی واضح کوتاہیوں کے دوسری طرف اقتدار کے آخری برسوں میں کاسترو نے کیریبئین کمیونزم کی ایک انوکھی طرز کو متعارف کروایا۔اپنے انقلاب کو بچانے کے لیے کاسترو سرمایہ کارانہ نظام 'فری مارکیٹ' کی اصلاحات کو اپنانے اور آہستہ آہستہ متعارف کروانے کے لیے مجبو ر ہو گئے۔پوپ جان پال دوئم نے اپنے کیوبا کے دورے کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر تنقید کے لیے استعمال کیا۔2004 میں کاسترو کی گھٹنے کی ہڈی ٹوٹ گئی اور بازو بھی متاثر ہوا جس کے بعد سے کاسترو کی صحت کے بارے میں مختلف افواہیں گردش کرنے لگیں۔ یہ بھی کہا جانے لگا کہ ان کا 24 سالہ بھائی راؤل ممکنہ طور پر ان کی جگہ ذمہ داریاں سنبھال لے گا۔جولائی 2006 میں جب کاسترو کی 80 ویں سالگرہ میں چند ہی روز باقی تھے، کاسترو نے آنتوں کے آپریشن کے بعد اپنے اختیارات عارضی طور پر اپنے بھائی کے حوالے کر دیے۔اس دوران کیوبا کی حکومت نے مسلسل طور پر اس خبر کی تردید کرتی رہی کہ کاسترو کو لاحق کینسر خطرناک حد کو پہنچ چکا ہے۔ بعدازاں فروری2007 میں کاسترو کے بھائی نے اعلان کیا کہ کاسترو کی صحت بہتر ہو رہی ہے۔ٹھیک ایک سال بعد کاسترو نے اقتدار چھوڑنے کا اعلان کیا اور کہا کہ وہ قومی اسمبلی کے اگلے اجلاس میں صدر اور کمانڈرانچیف کی حیثیت سے شرکت نہیں کریں گے۔کاسترو نے عوامی زندگی سے کنارہ کشی اختیار کر لی اور 'ریفلیکشنز آف کامریڈ' کے عنوان سے ملکی میڈیا کے لیے تحریریں لکھنے لگے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ کیوبا کے بہت سے لوگوں نے کاسترو کو آزمانا چھوڑ دیا تھا لیکن بہت سے ایسے بھی تھے جنھیں ان سے حقیقی پیار تھا۔وہ کاسترو کو ڈیوڈ کی طرح سمجھتے تھے جو امریکہ کے گولائتھ کے سامنے کھڑے ہونیکی ہمت رکھتا تھا اور جس نے کامیابی حاصل کی تھی۔
ان کے لیے کاسترو کیوبا اور کیوبا کاسترو تھا۔کاسترو ایک انقلابی شخصیت کے طور پر ہمیشہ یاد رکھے جائے گے۔

Sunday, 23 October 2016

جی سی حسثام حسن چوہان شھید۔ شھیدِ راہ وفا... written by صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ


جی سی حسثام حسن چوہان شھید۔ شھیدِ راہ وفا

صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ


سرزمین سرگودہا ایسی زرخیز مٹی کی حامل جگہ ہے کہ اِس سرزمیں کو 1965 کی جنگ میں بہادری کی بدولت ہلال استقلال عطا ہوا۔عظیم ہوا باز جناب امتیا زبھٹی بھی اِسی سرزمین کے فرزند ہیں۔علم و دانش کے حوالے سے جناب صاحبزادہ عبدالرسول، جناب پروفیسر منور مرزاؒ ، پروفیسر مظفر مرزا ؒ ، مرزا ادیبؒ ، اور بہت شمار چمکتے ستارے ہیں۔  دین سے محبت رکھنے والی اِس فیملی پر اللہ پاک کا بہت کرم ہے ۔ جناب امیر چوہان جو کہ امان اللہ چوہان کے بڑے بھائی ہیں اُن سے میرا تعلق ہمیشہ بھائیوں جیسا رہا۔ چونکہ راقم سرگودہا میں مقیم رہا اور آستانہ زاویہ نوشاہی میں جناب ماموں جان حضرت حکیم میاں محمد عنائت خان قادری نوشاہیؒ کے زیر سایہ دو دہائیاں گزاریں۔ یوں جناب امان اللہ چوہان صاحب سے ہمیشہ احترام کا تعلق رہا اور ہمارے مشترکہ دوست جناب ملک وحید اعوان ایڈووکیٹ بھی ہمارے رابطے کا سبب ہیں۔اِسی طرح انصاف فاونڈیشن سرگودہا کے روح رواں جناب حافظ عبد الروف بھی ہمارے مشترکہ دوستوں میں سے ہیں۔اگست میں جناب ملک وحید اعوان ایڈووکیٹ کا مجھے ایس ایم ایس موصول ہوا جس میں جناب امان اللہ چوہان کے جواں سال صاحبزادے جی سی جناب حسثام چوہان کی شہادت کی بابت پیغام تھا۔دل بہت اُداس ہوگیا ۔ طبیعت بوجھل سی ہوگئی۔ہمت کرکے ملک وحید اعوان سے اِس خبر کے حوالے سے دریافت کیا۔ یوں صورتحال کا پتہ چلا کہ حسثام شھید ہوگئے ہیں۔ملک وحید نے مجھے کہا کہ تم امان اللہ چوہان کو فون کر لو۔ لیکن میرے اندر اتنی ہمت نہیں تھی کہ ایسا کر پاتا۔تفصیل پتہ چلی کہ حسثام باکسنگ کھیلتے ہوئے سر پر چوٹ لگنے سے شہید ہو گئے ہیں۔شہادت ہے مطلوب و مقصو دِمومن ہ مال غنیمت نہ کشور کشائی۔جناب حسثام حسن چوہان شھید کا سن پیدائش 6 جنوری 1997 ہے اور سن شہادت8 اگست 2016 ۔ یوں نعرہ تکبیر اللہ ہو اکبر کا نعرہ لگانے والی پاک فوج پی ایم اے137 کا جی سی ، اپنے رب کے حضور عین عالم شباب میں پیش ہوگیا۔انسانی جذبوں میں محبت کاعمل دخل ہی انسان کو جینے کی اُمنگ دئیے رکھتا ہے۔دنیا سے محبت نہ کرنے سے مراد مادییت سے ماورا ہونا ہے۔اِسی لیے خالق کا ابدی ہونا اور بندئے کا اِس جہاں میں فانی ہونا اور عالمِ برزخ میں پھر ہمیشہ کے لیے غیر فانی ہوجانا۔اِس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بندئے کا اس جہاں میں فانی ہونا اور پھر اگلے جہاں میں غیر فانی ہوجانا یقینی طور پر اِس دنیا کی حقیقت کے حوالے سے جس کسوٹی کو سمجھنے کی ضرورت ہے وہ یہ ہی ہے کہ یہاں عارضی قیام اور وہاں ہمیش۔ بندہ مومن کا جب اپنے رب سے ملاقات ہونے کا سبب بننے والی موت سے سامنا ہوتا ہے تو بندہ مومن کے لیے اُس کے رب کی جانب سے وہ موت تحفہ کا درجہ حاصل کر لیتی ہے۔ جتنی مرضی تدبیریں کر لیں آخر رخصت ہونا ہی ہے ۔ اِس لیے اِس دنیا کی محبت کو مردار سے تشبہ دی گئی ہے۔امام عالیٰ مقام حضرت امام حسینؓ کا اپنا سر کٹوانا قبول کر لینا۔اپنے خاندان کو اپنے سامنے شہید ہوتا دیکھنا منطور کر لینا۔حالانکہ جان بچانا تو لازمی امر ہے ۔لیکن جان کے بدلے میں سچائی کا ساتھ چھوڑنا حق نہیں ہے حق وہی ہے جو خالق کی رضا ہے۔ تو گویا اصل حقیقت گوشت پوست کی نہیں بلکہ روح کی ہے۔موت انسانی زندگی کے خاتمے کا نام نہیں بلکہ یہ تو انسانی زندگی کے اگلے دور کا نام ہے۔موت کے دروازئے سے گزر کر انسان اگلے دور میں داخل ہو جاتا ہے۔موت کا ذائقہ ہر کسی نے چھکنا ہے۔ذائقہ ایک کیفیت کا نام ہوتا ہے اِس کا وجود مستقل نہیں ہوتا۔جیسے اگر کوئی مشروب پیا جائے تو اُس کا ذائقہ کچھ دیر تک رہتا ہے لیکن اُس کے بعد اُس مشروب کے ذائقے والی کیفیت ختم ہوجاتی ہے ۔ یہی حال موت کا ہے کہ انسان نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے ، مرنا نہیں ہے۔چونکہ ذائقہ ایک بے حقیقت شے ہے ۔ ایک دن میں کئی مرتبہ ذائقہ آتا ہے اور ختم ہوجاتا ہے۔اِس لیے تو موت ذائقہ بن کر آتی ہے اور چلی جاتی ہے۔ اِس ذائقہ موت کی کیا مجال کہ وہ انسان کی حقیقت کو ختم کر سکے۔حضرت عمرؓ کا فرمانَ عالیشان ہے کہ لوگو: تم جب ایک مرتبہ پیدا ہوگئے تو پھر مستقل پیدا ہو گئے اب منتقل ہوتے رہو
گے۔پیدائش زندگی کا آغا ز ہے۔بچہ ماں کے پیٹ میں بھی زندہ ہوتا ہے۔ کھاتا پیتا ہے ۔پیدائش کا مطلب ہی یہ ہے کہ پیدائش سے پہلے بھی زندگی میں تھا۔ماں کے پیٹ سے دنیا میں آتا ہے۔پیدائش سے پہلے زندگی کا مقام اور تھا اور پیدائش کے بعد اور۔ماں کے پیٹ سے پہلے بھی تھا عالم ارواح میں۔جب بچہ ماں کے پیٹ سے آتا ہے تو روتا ہو ا آتا ہے ۔ وہ سمجھتا ہے کہ شائد اُس کی موت ہوگئی ہے۔ کیونکہ اُسکے لیے تو جہان اُس کی ماں کا پیٹ ہوتا ہے۔ وہ سب کچھ اُسی کو سمجھتا ہے اور وہاں سے نکالے جانے پر روتا ہے۔ لیکن جب وہ اس جہاں میں آتا ہے تو اُسے اِس جہاں کی وسعت کا اندازہ ہوتا ہے ۔ اُسے روشنی نظر آتی ہے ۔ وہ پھر ماں کے پیٹ میں جانے کی بجائے اِس دنیا کو اُس دنیا سے زیادہ بہتر خیال کرتا ہے۔اِسی طرح جب انسان اِس دنیا کو چھوڑ کر عالم بررزخ میں جاتا ہے تو اُسے یہ دنیا بھی ماں کے پیٹ کی طرح چھوٹی لگتی ہے اور واپس اِس دنیا میں نہیں آنا چاہتا۔جب وہ جنت کے نظارئے کرتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ دنیا تو ایک قید خانہ تھی۔وہ اپنے وطن کو جارہا ہوتا ہے پھر پردیس میں آنے کو اُس کا جی نہیں چاہتا۔ ساری راحتیں موت پر قربان ہوجاتی ہیں کیونکہ رب پاک سے جو ملنا ہوتا ہے۔نبی پاکﷺ کا فرمانِ عالیشان ہے کہ مردِ مومن کی موت کا جب وقت آتا ہے تو مومن کی روح ملائکہ کے جلوس کے ساتھ جاتی ہے۔ملک الموت کی قیادت میں پانچ سو فرشتوں کا وفد جلوس لے کر مومن کے پاس آتا ہے ۔ ملک الموت مردِ مومن کو سلام کرتا ہے۔ اور کہتا کہ کہ االلہ پانک نے آپ پر سلام بھیجا ہے۔روح قبض کرکے قبر میں نہیں لائی جاتی۔ ایک ایک آسمان کا دروازہ کھلتا چلا جاتا ہے اور ملائکہ اللہ پاک کے حضور روح کو پیش کرتے ہیں۔تمام ملائکہ اللہ کو سجدہ کرتے ہیں۔اور پھر تمام ملائکہ اللہ کے نیک بندئے کو اپنے جھرمٹ میں اللہ کے حضور سجدہ ریز کرواتے ہیں۔حدیث پاک کے الفاط ہیں کہ اللہ پاک حضرت میکائیل ؑ کو کہتے ہیں کہ روح کو واپس اُس جسم میں رکھ دو جہاں سے نکال کر لائے ہو۔روح جسم سے جدا ہونے کے بعد اللہ کے حضور سجدہ ریز ہونے کے بعد اُس کے جسم کو قبر میں رکھا جاتا ہے۔حدیث کے مطابق لوگ بندئے کے جسم کو دفن کر رہے ہوتے ہیں اور فرشتے روح کو اُس بندئے کے جسم میں داخل کردیتے ہیں۔ اللہ پاک حسثام حسن چوہان شھید کے درجات بلند فرماے اور اُن کی فیملی کو صبر عطا فرماے۔ 

Thursday, 6 October 2016

سید شاہ تراب الحق قادریؒ ۔ایک عہد ساز شخصیت WRITTEN BY صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی


سید شاہ تراب الحق قادریؒ ۔ایک عہد ساز شخصیت 

صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی 

میں دوپہر کے وقت لاہور ہائی کورٹ میں اپنے چیمبر میں تھا کہ پاکستان فلاح پارٹی لاہور کے صدر جناب ذیشان احمد راجپوت تشریف لائے اور یہ افسوس ناک خبر سُنائی کہ جناب شاہ تراب الحق قادری صاحبؒ کا وصال ہو گیا ہے ۔ ہرذی روح نے موت کا ذائقہ چھکنا ہے۔عشق رسولﷺ کی عظیم تحریک انجمن طلبہ ء اسلام کے ساتھ وابستگی کی بدولت ایسی ہستیوں کا بھی ذکر سننے میں ملتا رہا ہے جن کی خدمات نبی پاکﷺ کی محبت کے فروغ کے لیے بے شمار ہیں۔ کراچی میں کیوں کہ انجمن طلبہ ء اسلام کی بنیا دپڑی اور کراچی میں شاہ احمد نورانی ، حنیف طیب، افتخار غزالی، ریاض الدین نوری، مو لا نا جمیل نعیمی،معین نوری ، حفظ تقی ،حبیب صدیقی دیگر بہت سے احباب عشق رسولﷺ کے مشن سے وابستہ ہونے کی بناء پر دل وجان میں خصوصی احترام رکھتے ہیں۔ یقینی طور پر کراچی نے عشق رسولﷺ کے فروغ کے لیے ہمیشہ بہت کام کیا ہے۔جب بھی کراچی کے حوالے عشق رسول ﷺ کی تحریک کے حوالے سے کسی بزرگ ہستی کا نام ذہن میں آتا تو وہ جناب سید شاہ تراب الحق قادری صاحبؒ کی ہوتی۔ قبلہ شاہ صاحب نے اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ عشق رسولﷺ کے لیے رکھا۔ تصنیف و تالیف ، خطابت، دین کی تبلیغ۔ عوام کی فلاح کے لیے سیاست۔زندگی کے سارئے شعبہ جات میں جناب شاہ صاحبؒ کا کردار انمٹ ہے۔آپ ؒ کی بیماری کی بابت پتہ چلتا رہتا ۔ آپ کافی عرصہ سے بیمار تھے۔ ایک دفعہ انجمن طلبہ اسلام کی تاریخ مرتب کرنے والے عظیم عاشق رسولﷺسید شاہ تراب الحق قادریؒ وہ شخصیت تھے کہ جن کانام ذہن میں آتے ہی عشق رسولﷺ کی روحانی سرشاری محسوس ہوتی ہے۔ آپؒ کی ولادت 27 ماہ رمضان سن 1946ء کو ہوئی۔آپؒ قیام پاکستان سے ایک سال قبل 1946ء میں ماہ رمضان کی 27 تاریخ کو ہندوستان کی اس وقت کی ایک ریاست حیدرآباد دکن کیایک شہر ناندھیڑ کے مضافات میں موضع کلمبر میں پیدا ہوئے۔آپؒ کے والد ماجد کا نام حضرت سید شاہ حسین قادری بن سید شاہ محی الدین قادری بن سید شاہ عبداللہ قادری بن سید شاہ مہراں قادری تھا اور آپ ؒ کی والدہ ماجدہ کا نام اکبر النساء بیگم تھا اور آپؒ والد ماجد کی طرف سے سید ہیں اور والدہ ماجدہ کی طرف سے فاروقی ہیں یعنی سلسلہ نسب امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے۔ اپنے وقت کے جید عالم، مدیر المہام امور مذہبی حیدرآباد دکن حضرت علامہ مولانا انوار اللہ خان صاحب فاروقی علیہ الرحمہ سے آپؒ کا ننھیال ہے۔ حضرت علامہ مولانا انوار ا للہ خان صاحب ایک متبحر عالم دین تھے جن کی تبحر علمی کا اندازہ ان کی تصانیف ’’کتاب العقل‘‘اور ’’مقاصد الاسلام‘‘ کے مطالعے سے لگایا جاسکتا ہے۔تقسیم ہند، سقوط حیدرآباد دکن کے بعد 1951ء میں ہندوستان سے ہجرت فرما کر پاکستان تشریف لائے۔ سقوط حیدرآباد دکن میں آپؒ کے تایا محترم سید شاہ امیر ا للہ قادری کو شہید کردیا گیا تھا اور پاکستان تشریف لاکر آپ ؒ نے کراچی میں قیام فرمایا۔ کچھ عرصہ پی آئی بی کالونی میں، پی آئی بی کے قریب لیاقت بستی نامی آبادی میں رہے۔ اس کے بعدکورنگی منتقل ہوگئے۔ابتدائی تعلیم مدرسہ تحتانیہ دودھ بولی بیرون دروازہ نزد جامعہ نظامیہ حیدرآباد دکن میں حاصل کی۔ پاکستان آنے کے بعد پی آئی بی کالونی (کراچی) میں قیام کے دوران ’’فیض عام ہائی اسکول‘‘ میں تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد اپنے رشتے کے خالو اور سسر پیر طریقت رہبر شریعت ولی ا للہ نعمت قاری مصلح الدین صدیقی علیہ الرحمہ سے گھر پر کتابیں پڑھیں، پھر ’’دارالعلوم امجدیہ‘‘ میں داخلہ لے لیا جہاں زیادہ تر اسباق قاری صاحب علیہ الرحمہ کے پاس پڑھے اور سند صدر الشریعۃ بدر الطریقہ حضرت علامہ امجد علی اعظمی (متوفی 1367ھ) علیہ الرحمہ کے صاحبزادے شیخ الحدیث حضرت علامہ عبدالمصطفی ازہری علیہ الرحمہ سے حاصل کی جو اس وقت ’’دارالعلوم امجدیہ‘‘ کے شیخ الحدیث تھے جبکہ اعزازی سند وقار الملت سرمایہ اہلسنت حضرت علامہ مفتی محمد وقار الدین قادری رضوی حنفی علیہ الرحمہ سے حاصل کی جو اس وقت ’’دارالعلوم امجدیہ‘‘ کراچی کی مسند افتاء پر فائز تھے۔آپؒ کا نکاح 1966ء میں پیر طریقت ولی نعمت حضرت علامہ قاری محمد مصلح الدین صدیقی علیہ الرحمہ کی دختر نیک اختر سے ہوا۔ جس سے ا للہ تعالیٰ نے تین فرزند سید شاہ سراج الحق، سید شاہ عبدالحق اور سید شاہ فرید الحق اور چھ بیٹیاں عطا ہوئیں جن میں سے ایک کا تین سال کی عمر میں ہی وصال ہوگیا۔ باقی الحمد ا للہ بقید حیات ہیں۔آپؒ کے بڑے صاحبزادے سید شاہ سراج الحق نے درس نظامی کی اکثر کتب کا سبقاً سبقاً مطالعہ کرنے کے بعد موقوف کردیا جبکہ منجھلے صاحبزادے سید شاہ عبدالحق قادری نے بفضلہ تعالیٰ ’’دارالعلوم امجدیہ‘‘ سے سند فراغت حاصل کی۔ ان کے بارے میں حضرت سید شاہ تراب الحق قادریؒ فرماتے ہیں ’’جب سید عبدالحق کی پیدائش ہوئی تو پیر طریقت حضرت علامہ قاری مصلح الدین علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ ان کا نام محقق شاہ عبدالحق محدث دہلوی کی نسبت سے شاہ عبدالحق رکھو۔ شاید عالم دین بن جائے۔ لہذا قاری صاحب علیہ الرحمہ کے ارشاد کے مطابق شاہ عبدالحق رکھا گیا۔ خدا کا کرنا دیکھئے یہی بیٹا میرا عالم دین بنا۔ الحمدا للہ موصوف عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ اچھے مقرر بھی ہیں اور اپنے والد بزرگوار کی جگہ اکثر آپ ہی وعظ فرمانے تشریف لے جاتے ہیں۔ حضرت کے قائم کردہ دینی ادارے ’’دارالعلوم مصلح الدین‘‘ کا انتظام بھی انہی کے سپرد ہے اور ’’آخوند مسجد‘‘ کھارادر میں خطابت کے فرائض بھی انجام دیتے ہیں۔ چھوٹے صاحبزادے سید شاہ فرید الحق قادری اپنا کاروبار کرتے ہیں۔ شاہزادیوں میں آپ کی چھوٹی لخت جگر بھی عالمہ ہے۔1962ء میں بذریعہ خط اور 1968ء میں بریلی شریف حاضر ہوکر امام اہلسنت امام احمد رضا محدث بریلوی (متوفی 1340ھ) کے چھوٹے فرزند مفتی اعظم ہند حضرت علامہ مولانا مصطفی رضا خان صاحب کے دست حق پرست پر بیعت ہوئے۔ اس سفر میں آپ تیرہ روز حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ کے دولت خانے پر قیام پذیر رہے اور آپ سے تعویذات کی تربیت اور اجازت بھی حاصل کی۔ اسی دوران ’’مسجد رضا‘‘ میں نمازوں میں امامت فرماتے اور حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ ان کی اقتداء میں نمازیں ادا فرماتے، نیز کئی جلسوں میں حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ کی موجودگی میں تقریر فرمائی اور داد تحسین حاصل کی۔سلسلہ عالیہ قادری، برکاتیہ،اشرفیہ، شاذلیہ، منوریہ، معمریہ اور دیگر تمام سلاسل میںآپؒ کو اپنے پیر حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ، اپنے استاد و سسر پیر طریقت حضرت علامہ قاری مصلح الدین علیہ الرحمہ اور قطب مدینہ شیخ عرب و عجم حضرت علامہ مولانا ضیاء الدین مدنی علیہ الرحمہ کے صاحبزادے زینت العلماء مولانا فضل الرحمن مدنی علیہ الرحمہ سے خلافت و اجازت حاصل کی۔ ’’ماہنامہ مصلح الدین‘‘ کی اشاعت خاص ’’مصلح الدین نمبر‘‘ (اگست 2002/ جمادی الاخر 1223ھ) کے صفحہ 65 میں ہے کہ قبلہ قاری صاحب علیہ الرحمہ نے مورخہ 27 جمادی الثانی 1402ھ بمطابق 22 اپریل 1982ء بروز جمعرات بعد نماز عشاء بمقام میمن مسجد مصلح الدین گارڈن بتقریب خرقہ خلافت سند اجازت اور محفل نعت بروانگی عمرہ حاضری دربار مدینہ میں حضرت علامہ سید شاہ تراب الحق قادری ؒ کو سند خلافت اور اجازت بیعت عطا فرمائی۔اس سے قبل جب آپ 1977ء میں تبلیغی دورے پر نیروبی (کینیا) تشریف لے گئے۔ واپسی پر فریضہ حج ادا فرمایا۔ اسی سفر حرمین شریفین میں ضیاء الملت والدین حضرت علامہ مولانا ضیاء الدین مدنی علیہ الرحمہ کی صحبت میں کئی روز تک رہنے کی سعادت حاصل ہوئی۔1965ء تا 1970ء چھ سال ’’محمدی مسجد‘‘ کورنگی کراچی میں اور 1970ء تا 1982ء بارہ سال ’’اخوند مسجد‘‘ کھارادر کراچی میں امامت و خطابت فرماتے رہے پھر جب 1983ء میں آپ کے استاد و سسر قاری مصلح الدین علیہ الرحمہ (جوکہ اپنی نیابت و خلافت آپ کو پہلے ہی عنایت فرماچکے تھے) نے اپنے وصال سے دو سال قبل ’’میمن مسجد‘‘ مصلح الدین گارڈن سابقہ کھوڑی گارڈن کراچی کی امامت و خطابت آپ کے سپرد فرمائی۔ اس وقت سے تا وفات آپؒ قاری صاحب علیہ الرحمہ کی دی ہوئی ذمہ داری کو نبھا تے رہے۔جس وقت ’’اخوند مسجد‘‘ کھارادر کراچی میں امامت و خطابت کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ اس وقت نوجوانوں کی خاصی تعداد آپؒ کے حلقہ درس میں شامل ہوئی اور کئی تنظیمیں قائم ہوئیں جن میں سنی باب الاشاعت، تحریک عوام اہلسنت، انجمن اشاعت الاسلام، جمعیت اشاعت اہلسنت (1)، حقوق اہلسنت اور دعوت اسلامی (2) وغیرہا معرض وجود میں آئیں۔تقاریر کا سلسلہ آپ نے 1962ء میں شروع کیا جبکہ آپ ابھی طالب علم تھے، فراغت کے بعد مادر علمی ’’دارالعلوم امجدیہ‘‘ کراچی سے مبلغ کے طور پر خدمات انجام دیں، ہر جلسہ میں ’’دارالعلوم امجدیہ‘‘ کی جانب سے خطیب کے طور پر جانے جاتے تھے۔ وہ ایسا دور تھا کہ آپ ایک دن میں بارہ بارہ تقاریر بھی کرتے تھے۔وہ دور جب مولوی احتشام الحق تھانوی نے سرکاری و نجی دفاتر میں ہونے والے میلاد شریف کے جلسوں میں اپنا سکہ بٹھا دیا تھا۔ اس وقت حضرت نے اپنی مصروفیات کے باوجود سرکاری، نیم سرکاری ونجی اداروں، بینکوں اور دیگر دفاتر میں ہونے والے میلاد شریف کے جلسوں میں جاکر مسلک حق اہلسنت کے فروغ کے لئے تبلیغ فرمائی اور اس کا سلسلہ اڑتیس سال سے زائد عرصہ تک چلتا رہا پھر آپ نے طبیعت کی ناسازی اور مصروفیت کی زیادتی کی بناء پر تقاریر کا سلسلہ تقریبا موقوف کردیا۔۔دین متین کی تبلیغ و اشاعت میں آپ نے بھرپور حصہ لیا۔ اپنی تقاریر اور مواعظ حسنہ کے ذریعے کونے کونے میں اسلام کی دعوت کو عام کیا۔ یہ سلسلہ 1977ء سے شروع ہوا، جب آپ نے پہلا دورہ نیروبی کینیا کا فرمایا اور لوگوں کی دعوت پر کئی بار عرب امارات، سری لنک، بھارت، بنگلہ دیش، برطانیہ، ہالینڈ، جرمنی، بیلجیم، امریکہ، ساؤتھ افریقہ، کینیا، تنزانیہ، زمبابوے، عراق، زنزیبار، زمبیا، فرانس، اردن اور مصر تشریف لے گئے اور سرکاری وفد کے رکن کی حیثیت سے آپ نے اس وقت کے وزیراعظم محمد خان جونیجو مرحوم کے ہمراہ عوامی جمہوریہ چین کا دورہ کیا اور ’’کنزالایمان‘‘ اور اہلسنت و جماعت کا لٹریچر وہاں کے مسلمانوں تک پہنچایا، نیز سرکاری وفد کے رکن کی حیثیت سے اردن اور مصر کا بھی دورہ فرمایا۔جن ممالک میں آپ تشریف لے گئے،قومی اسمبلی کے رکن رہے۔ بے شمار کتب لکھیں۔ہزاروں لاکھوں لوگوں کے دلوں میں عشق رسولﷺ کی تڑپ پیدا کی۔ عظیم المرتبت جناب سید شاہ تراب الحق قادریؒ کا فیضان ہمیشہ جاری و اسری رہے گا۔ اللہ پاک جناب شاہ صاحب کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔( آمین) 

Thursday, 8 September 2016

نابغہ روزگار ہستی عظیم عاشق رسولﷺ حضرت علامہ احمد علی قصوری ........ by صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ ہائی کورٹ


نابغہ روزگار ہستی عظیم عاشق رسولﷺ 

   حضرت علامہ 

احمد علی قصوری

صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ ہائی کورٹ


نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے وائین ہال میں علامہ احمد علی قصوریؒ کی یاد میں تعزیتی ریفرنس انعقاد پزیر تھا۔ نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے چےئرمین سابق صدر مملکت جناب جسٹس (ر)فیق احمد تارڑ کرسی صدارت پہ تشریف فرماء تھے۔ اُن کے دائیں ہاتھ ممتاز ماہر تعلیم نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے وائس چےئرمین ڈاکٹر پروفیسر رفیق احمد صاحب تشریف رکھتے تھے۔طاہر رضا بخاری ڈائریکٹر جنرل محکمہ اوقاف پنجاب بھی ساتھ والی نشست پر متمکن تھے۔ جناب ضیا ء الحق نقشبندی اور جناب علامہ جاوید نوری ، علامہ احمد علی قصوری کے بیٹے اسامہ قصوری علامہ صاحبؒ کے تایازاد جناب پروفیسر عرفان، حرمت رسول موومنٹ کے ترجمان علی عمران شاہین اور دیگر مہمان تشریف فرماء تھے۔ جناب شاہد رشید صاحب اِس تعزیتی ریفرنس میں نظامت کے فرائض انجام دئے رہے تھے۔مجھ ناچیز کے حصہ میں بھی یہ سعادت آئی کہ مجھے بھی حضرت علامہ احمد علی قصوریؒ کی زندگی کے حوالے سے کچھ کہنے کا موقع ملا۔ محکمہ اوقاف کے ڈائریکٹر جنرل طاہر رضا بخاری نے اپنے خطاب میں علامہ احمد علی قصوری ؒ کی حضرت اقبالؒ کے ساتھ محبت اور اقبالؒ شناسی کے حوالے سے تذکرہ کرتے ہوئے اُنھیں شاندار الفاط میں خراجِ تحسین پیش کیا۔طاہر رضا بخاری کا کہنا تھا کہ علامہ صاحبؒ ایک عظیم عاشق رسولﷺ اور پاکستان سے محبت کرنے والے تھے۔پروفیسر عرفان نے اپنے خطاب میں کہا کہ علامہ صاحبؒ میرئے تایازاد بھائی تھے اور میرئے لیے اُن کی شفقت باپ کی طرح تھی۔پروفیسر عرفان نے مزید کہا کہ مجھے لگتا ہے کہ میں پھر سے یتیم ہوگیا ہوں۔علامہ صاحبؒ کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے جناب شاہد رشید نے اُنھیں عظیم بیباک رہنماء قرار دیا ۔ شاہد رشید کا کہنا تھا کہ علامہ صاحبؒ جیسی شخصیت وطن عزیز کے لیے عظیم نعمت تھی اور اُنھوں نے ہمیشہ حق و صداقت کے لیے قربانی دی۔ تعزیتی ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے وائس چےئرمین سابق وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی ممتاز ماہر معاشیات ڈاکٹر رفیق احمد نے علامہ احمد علی قصوریؒ کو شاندار الفاظ میں خراجِ تحسین پیش کیا۔ڈاکٹر رفیق احمد کا کہنا تھا کہ جناب علامہ صاحبؒ نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے پروگراموں میں باقاعدگی سے تشریف لاتے اور جب بھی کسی مجلس میں کسی نکتہ پر اعتراض ہوتا تو بہادری سے اور دلائل سے اپنا موقف بیان کرتے یوں ہمیں بعد میں اندازہ ہوتا کہ علامہ صاحبؒ کا استدلال درست تھا۔ ڈاکٹر رفیق احمد نے مزید کہا کہ احمد علی قصوری صاحبؒ کی بہت بڑی خوبی یہ تھی کہ اُنھوں نے رزق حلال کھایا اور اِسی سے اپنی اولاد کی پرورش کی۔وہ مسجد میں امامت بھی فرماتے اور خطابت بھی کرتے تھے لیکن اُنہوں نے اِس کام کو اپنے روزگار کا ذریعہ نہیں بنایا۔ راقم صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ نے اپنے خطاب میں کہا کہ حضرت علامہ اقبالؒ کے حوالے سے جناب علامہ احمد علی قصوریؒ صاحب کی محبت ہم جیسوں کے لیے تقویت کا باعث تھی۔اشرف عاصمی کا کہنا تھا کہ میری علامہ صاحب سے شناسائی کا تعلق اُس وقت سے ہے جب میں انجمن طلبہ ء اسلام کے ساتھ منسلک تھا اور طالب علم تھا یوں روحانی تعلق تین عشروں پہ محیط ہے۔اشرف عاصمی کا کہنا تھا کہ میری آخری ملاقات جناب علامہ قصوریؒ سے لاہور ہائی کورٹ میں اُس وقت ہوئی جب وہ غازی ممتاز قادری شہیدؒ کی غائبانہ نمازِ جنازہ پڑھانے کے لیے تشریف آئے۔ اُن کے ساتھ جناب جسٹس (ر ) خواجہ شریف بھی موجود تھے ۔ علی عمران شاہین تحریک حرمت رسولؒ اور تحریک آزادیِ کشمیر کے رہنماء نے کہا کہ علامہ صاحبؒ اتحاد اُمت کے بہت بڑی داعی تھے اور جب بھی اُن سے کسی پروگرام میں آنے استدعا کرتے تو وہ بخوشی تشریف لاتے۔ تعزیتی ریفرنس کے آخر میں نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے چےئرمین سابق صدر مملکت پاکستان جناب رفیق احمد تارڑ نے جناب علامہ قصوریؒ کو عظیم عاشق رسول قرار دیا ۔ رفیق تارڑ کا کہنا تھا کہ مرحوم اکثر میرئے ہاں تشریف لاتے اور شعر و سخن کی محفلیں بپا ہوتیں۔ رفیق تارڑ نے کہا کہ علامہ صاحب بہادر اور بے باک انسان تھے۔ وہ کسی سے ڈرنے والے نہیں تھے۔ اِس موقع پر حغرت علامہ احمد علی قصوری ؒ کی آڈیو تقریر کا اقتباس بھی حاضرین کو سُنایا گیا جس میں علامہ صاحب سات ستمبر کے حوالے سے نوجوانوں سے مخاطب تھے اور 1965 کی جنگ کا احوال بتا رہے تھے۔ ہر ذی روح نے موت کا ذایقہ چکھنا ہے ہمارئے عظیم رہنماء بزرگ احمد علی قصوریؒ اپنے رب کے حضور پیش ہو گئے ہیں ۔ پاکستان اسلام اور نبی پاکﷺ سے عشق کرنے والی ہستی ہمارئے لیے مینارہِ نور ہیں ۔علامہ احمد علی قصوری ؒ نامور عالم دین تھے، وہ نہایت جرات مند، حق گو، نہ بکنے والے نہ جھکنے والے تھے۔ گزشتہ کم و بیش نصف صدی سے لاہور کی دینی اور سیاسی سرگرمیوں میں شریک رہے۔ انہوں نے بھٹو کے ابتدائی دور میں ’’بنگلہ دیش نامنظور تحریک‘‘ میں حصہ لیا، بھٹو سرکار کے ڈنڈے بھی کھائے اور جیل بھی کاٹی۔ ان کی دینی اور سیاسی سرگرمیوں کا آغاز 1962ء سے ہوا جب علامہ قاضی عبدالنبّی کوکب کی زیر قیادت برکت علی اسلامیہ بال باغ بیرون موچی دروازہ میں پہلے یوم رضا کا جلسہ منعقد ہوا۔ علامہ قاضی عبدالنبی کوکب اور علامہ مفتی عبدالقیوم ہزاروی کے ساتھ وہ ضلع لاہور کی جمعیت علماء پاکستان کیلئے کام کرتے رہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں جب خواجہ محمد رفیق شہید ہوئے تو انکے جنازے کے جلوس میں علامہ عبدالستار خان نیازی اور دیگر زعما کے شانہ بشانہ علامہ احمد علی قصوری نے شرکت کی۔ علامہ قصوری نے علامہ شاہ احمد نورانی اور علامہ عبدالستار خان نیازی کی زیر قیادت تحریک نفاذ نظام مصطفی اور تحریک تحفظ ختم نبوت میں حصہ لیا۔ 1977ء کے جنرل الیکشن میں ہونے والی دھاندلی کے خلاف 9 ستاروں (9 جماعتوں کے اتحاد) کی احتجاجی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ 30 مارچ کو لاہور میں لوہاری گیٹ کے باہر مسلم مسجد کے سامنے جمعیت علماء پاکستان کے زیر اہتمام ایک احتجاجی ریلی کا اہتمام کیا گیا اس کی قیادت علامہ مفتی عبدالقیوم ہزاروی اور علامہ احمد علی قصوری نے کی۔ شروع میں ہی کچھ لوگوں کی گرفتاریاں کرکے جلوس کے شرکاء پر تشدد کیا گیا۔ پولیس فورس جوتوں سمیت مسلم مسجد میں داخل ہو گئی۔ مسجد میں وضو کے حوض اور سیڑھیوں میں نوچی گئی داڑھیوں کے بال اور خون کے چھینٹے پھیلے ہوئے تھے۔ اس روز گولی بھی چلی تھی اور خبر یہ تھی کہ کم از کم دس لوگ شہید ہوئے۔ اس سے قبل ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں شادباغ، وسن پورہ، مصری شاہ، فیض باغ وغیرہ کے قومی حلقہ میں ہونے والے ضمنی الیکشن میں جمعیت علماء پاکستان کی مرکزی قیادت علامہ شاہ احمد نورانی اور علامہ عبدالستار خان نیازی نے علامہ احمد علی قصوری کو جمعیت کی طرف سے امیدوار نامزد کیا اور شادباغ کی گول گراؤنڈ میں انتخابی جلسہ میں علامہ شاہ احمد نورانی اور علامہ عبدالستار خاں نیازی نے خطاب کیا۔ جب یورپ کے بعض بدبخت اخبار مالکان نے متنازع خاکے شائع کئے تو پاکستان بھر میں اس کے خلاف احتجاجی جلسے اور ریلیاں نکالی گئیں۔ لاہور میں مزار حضرت داتا گنج بخش پر ایک تاریخی احتجاجی ریلی نکالی گئی۔ علامہ ڈاکٹر سرفراز نعیمی، علامہ احمد علی قصوری، حزب الاحناف سے صاحبزادہ غلام مصطفے اور انجینئر سلیم اللہ نے قیادت کی یہ لاہور کی تاریخ میں سب سے بڑی ریلی تھی جو ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے دور حکومت میں نکالی گئی۔ اس ریلی میں سارا لاہور امڈ کر سڑکوں پر آگیا تھا۔ قائدین کا ٹرک ابھی مزار داتا گنج بخش سے گول باغ (ناصر باغ) تک بھی نہیں پہنچ سکا تھا کہ لوگوں کا جم غفیر چوک جی پی او سے چوک اسمبلی ہال تک پہنچ چکا تھا۔ اس دوران روایتی انداز میں ہونے والی شرپسند عناصر کی کارروائی بھی شروع ہو چکی تھی چوک ریگل کے آس پاس کئی عمارتوں کو آگ لگا دی گئی، لاتعداد موٹر سائیکلیں اور کاریں بھی تباہ ہو گئیں۔ اس ریلی پر اسلام آباد میں بیٹھا ہوا ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف سخت سیخ پا ہوا۔ وہ یقین ہی نہیں کر رہا تھا کہ اس کے آہنی پنجہ کی حکومت کے ہوتے ہوئے عوام کی اتنی بڑی تعداد سڑکوں پر کیسے نکل آئی۔اس نے صوبائی حکومت کو سب ذمہ داران کے خلاف سخت ایکشن لینے کا حکم دیا۔ احتمال تھا کہ حکومت قائدین کو غیر قانونی طریقے سے نقصان پہنچانے کی کوشش کریگی اس لئے ریلی کے تمام قائدین کچھ روز کیلئے ’’روپوش ہو گئے۔ ان میں علامہ ڈاکٹر سرفراز نعیمی، علامہ احمد علی قصوری، علامہ رضائے مصطفی، صاحبزادہ غلام مصطفی (حزب الاحناف) اور انجینئر سلیم اللہ بھی شامل تھے۔ چند ہفتوں کے بعد تمام قائدین گرفتار کر لئے گئے تاہم علامہ قصوری کو مسجد میں داخل ہو کر گرفتار کرنے کا حوصلہ پولیس نے نہ کیا تاہم علامہ قصوری سمیت سب رہنماؤں پر مختلف تھانوں میں مقدمات درج کرائے گئے جن میں فساد کرنے، املاک کونقصان پہنچانے اور آگ لگانے کے الزامات لگائے گئے۔ علامہ قصوری صاحب 2015ء تک ان مقدمات میں پیش ہوتے رہے۔ راقم خود پیر طاہر علا دین ؒ کے صاحبزادگان کے اغوا کے احتجاج پر جو بہت بڑی ریلی 1988 میں نکالی گئی اُس میں شریک تھا۔ مجھے یاد ہے جناب قصوری صاحبؒ نعرہ لگوارہا تھے وہ کون تھے جن پر ظلم ہوا غوث جلیؒ کے شہزادئے۔علامہ احمد علی قصوریؒ عاشقان رسولﷺ ، اقبالؒ پاکستان اور قائد ا عظمؒ سے محبت کرنے والی ایک عظیم ہستی تھے۔ اللہ پاک اُن کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے( آمین) 

Monday, 15 August 2016

تحریک آزادی کشمیر زندگی اور موت کی جنگ................ صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ ہائی کورٹ




تحریک آزادی کشمیر زندگی اور موت کی جنگ
صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ ہائی کورٹ

کشمیر کی آزادی کے حوالے سے ایک بھرپور بریفنگ کا اہتمام تھا۔ اِس بریفنگ میں ورلڈ کالمسٹ کلب کے عہدیداران اور سپریم کونسل کے ممبران کالم نگار شریک ہوئے۔لاہور شہر میں قیام پذیر نامور کالم نگاروں کے درمیان بندہ ناچیز بھی بطور ممبر سپریم کونسل آف ورلڈ کالمسٹ کلب شریک محفل تھا۔کشمیر میں ڈھائے جانے والے مظالم اور عالمی سطع پر اِس حوالے سے ہونے والے رد عمل پر بریفنگ میں جو ذکر کشمیریوں پر ڈھائے جانے والاظلم و ستم کا ہوا اور ملٹی میڈیا کے ذریعہ سے کشمیری مجاہدین کے انٹرویوز، کشمیری رہنماؤں کی تقاریر جو سننے کو ملیں۔ اِن سب کچھ کے سُننے کے بعد اور وڈیوز دیکھنے کے بعد آنکھیں بھیگ چکی تھیں۔اِیسا میرئے ساتھ ہی نہیں تھا۔روزنامہ جنگ کے کالم نگار جناب فاروق چوہان بھی درمندی کے ساتھ کشمیر میں ڈھائے جانے والے ظلم کے خلاف اپنے جذبات کا اظہار فرما رہے تھے۔جناب سردار مراد خان ایڈیٹر روزنامہ بیتاب بھی کشمیر کے حوالے سے دُکھی دیکھائی دئے رہے تھے۔جناب ناصر اقبال خان اور حافظ شفیق الرحمان جو کہ ورلڈکالمسٹ کلب کے قائدین ہیں اُن کی گفتگو سے بھی انتہا کا درد جھلک رہا تھا۔بندہ ناچیز کی وابستگی انجمن طلبہ ء اسلام کے ساتھ رہی ہے اور زمانہ طالب علمی میں تحریک آزادی کشمیر کے عظیم رہنماء جناب سید شبیر شاہ کی تگ وتاز میں بندہ ناچیز اور میرئے دوست جناب جاوید مصطفائی ہمرکاب رہے اور سید شبیرشاہ کے لٹریچر کی ترسیل اپنے طالب علم ساتھیوں میں کالج میں کرتے رہے۔برسوں سے کشمیریوں کے ساتھ یک جہتی کے لیے ہر سال پاکستان میں5 فروی کو دن منایا جاتا ہے۔پاکستانی حکمران اشرافیہ کو ہندوستان سے دوستی اور تجارت کی فکر لاحق رہتی ہے۔ اِس لیے اِس طرح کے ایام منانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوا ۔نہ تو عالمی برادری پر کوئی اِس کا اثر کروانے میں پاکستان کامیاب ہوا ہے اور نہ ہی پاکستان کے اندر کشمیر کی آزادی کے حوالے ے حکومت اپنا قبلہ درست کرسکی ہے۔کشمیر کی آزادی کے لیے جنگ لڑنے والے ایک مجاہد نے جب ہمیں موجودہ حالات کے حوالے سے اپنے جذبات کا اظہار کیا یقین جانیے بندہ ناچیز کو انتہائی دکھ ہوا کہ ہمارئے حکمران کشمیر کو آزاد کروانے کے لیے ستر سالوں سے کچھ بھی نہیں کر پائے۔ بریفنگ میں ایک مجاہد نے بتایا کہ حضرت قائد اعظم ؒ نے کشمیر کے حوالے سے کہا تھا کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔قائد اعظمؒ نے اُس وقت کے پاکستانی فوج کے چیف کو حکم دیا تھا کہ وہ کشمیر کو آزاد کروانے کے لیے پاکستانی فوج کو کشمیر میں لے جائے ۔لیکن وہ جرنیل جنرل گریسی انگریز تھا اُس نے اپنے ہی گورنر جنرل کا حکم ماننے سے انکار کردیا تھا۔کشمیر کی اندر حق خود ارادیت کے لیے کشمیری اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں اور بھارت ڈھٹائی کے ساتھ پوری دُنیا کی آنکھوں میں دھول جھونک رہا ہے۔حال ہی میں تحریک آزادی کشمیر میں تیزی کی لہر کو پس پشت ڈالنے کے لیے بھارتی را ء نے کوئٹہ میں بدترین قسم کی دہشت گردی کا ارتکاب کیا اور وہاں وکلاء صحافیوں ایک جج صاحب ایک ڈاکٹر اور دیگر لوگوں کو شہید کردیا گیا۔ملٹی میڈیا پر جس طرح کشمیری عوام کے جذبات کی عکاسی ہوئی اور پاکستان کے ساتھ الحاق کے حوالے سے اُن کی تڑپ دیکھنے کو نظر آئی۔ اِس کے بعد راقم مزید رنجیدہ ہوگیا کہ اے کاش ہم نے پاکستان کی قدر کی ہوتی۔ہندووں کے ظلم وستم سہتے سہتے کشمیریوں کی کئی نسلیں قبروں میں چلی گئی ہیں لیکن کشمیریوں کے پائے استقلال میں کوئی لغزش نہیں آئی۔ہر صبح طلوح ہونے والا سورج کشمیریوں کے جذبہ حریت میں اضافہ کرتا چلا جارہا ہے۔ناقدین کہتے ہیں کہ ہم مشرقی پاکستان گنوا بیٹھے ہیں کشمیر کیسے حاصل کر پائیں گے۔مشرقی پاکستان کا مغربی پاکستانی کے ساتھ جغرافیائی راستہ نہ تھا۔ اور ہندوستان پہلے دن سے سازش کر رہا تھا کہ مشرقی پاکستان کو علحیدہ کردیا جائے۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے بنگلہ دیشی وزیر اعظم حسینہ واجد کے ساتھ بیٹھ کر اعترافِ گناہ کیا تھا کہ ہاں پاکستان کو توڑنے والوں میں میں بھی شامل تھا۔کشمیر پاکستان کا اٹوٹ انگ ہے۔کشمیر پاکستان کے ساتھ جُڑا ہوا ہے۔ پاکستان مین دریا وں کا پانی کشمیر کے رستوں سے آتا ہے۔ کشمیریوں پرڈھائے جانے والے ظلم کے تذکرئے کے بعد محسوس ہو رہا تھا کہ آزادی کتنی بڑی نعمت ہے۔کشمیر میں معیشت تباہ ہوچکی ہے۔سہاگنوں کے سہاگ لٹ چکے ہیں ۔بچے یتیم ہے۔ ماؤں کے لال منوں مٹی میں جا سکے ہیں۔اِس لیے پاکستان کے اربابِ اقتدار یہ بات اپنے دماغ میں بٹھائیں کہ کشمیر کی آزادی کو اپنی ذات انا کی بھینت نہ چڑھائیں۔فوج بطور ایک ادارہ پاکستان کی سالمیت کا محافظ ہے۔ اِس لیے پاک فوج کے خلاف حکومتی حلیف سیاستدانوں کی جانب سے ہرزہ سرائی کا کیا مطلب ہے۔ اچکزئی اور فضل الرحمان کس کی زبان بول رہے ہیں۔ قومی اسمبلی کی کشمیر کمیٹی کی چےئرمین شپ سیاسی رشوت کے طور پر ایک ایسے شخص کو دی ہوئی ہے جس کا کہنا ہے کہ خدا کا شکر ہے کہ ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شریک نہ تھے۔کانگرسی علماء کے ہمنوا پیٹرو اسلام کے حامل نام نہاد پاکستانی مذہبی جماعتوں کے مُلاء جہاد کشمیر کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔انشا ء اللہ کشمیر بنے گا پاکستان۔ زمانہ طالب علمی سے میرئے قائد لاکھوں دلوں کی دھڑکن انجمن طلبہ ء اسلام کے سابق مرکزی صدر جناب ڈاکٹڑظفر اقبال نوری جو التجاء نبی پاکﷺ کی بارگا میں کرتے ہیں وہی الفاظ میں دھرانے لگا ہوں۔ یا رسولِ ہاشمیؒ ۔کرم کی ہو نگاہ۔ ہر محاذ پر کامران ہوں یہ سپاہ۔ 



نبی پاکﷺ کی بارگا میں ........................Written By Ashraf ASmi


Monday, 8 August 2016

بلوچستان کے وکلاء کے لہو کی پکار۔مودی اُوباما گٹھ جوڑ مردہ آباد .................written by صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ


بلوچستان کے وکلاء کے لہو کی پکار۔مودی اُوباما گٹھ جوڑ 

مردہ آباد

صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ 

سوموار 8اگست 2016 کی صبح وکلاء برادری کے لیے انتہائی دُکھ بھری خبر نے افسردہ کردیا۔ قلم کتاب کے حامل قانون دان دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید کر دئیے گئے۔ پاکستانی معاشرئے میں دہشت گردی نے جس طرح پھن پھیلائے ہیں۔ امریکی افغانی اور بھارتی گٹھ جوڑ نے پاکستان کو لہو لہو کردیا ہے۔ پاک فوج کی عظیم قیادت نے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی بے باک قیادت میں ملک میں سے 80% دہشت گردی کو جڑ سے اُکھاڑ دیا ہے۔ لیکن چین پاکستان دوستی اور ترکی کا اپنے پاکستانی بھائیوں سے والہانہ پیار یہ عاملین ایسے ہیں کہ امریکہ بھارت اسرائیل کو چین نہیں لینے دے رہے۔ پاک چین اکنامک کاریڈور کو جس طرح پاک فوج نے حفاظتی حصار میں تکمیل کے مراحل سے گزارا ہے اور پاک ترک اکنامک کاریڈور بھی امریکہ بھارت اسرائیل کے لیے سوہانِ روح بنا ہوا ہے۔ دو دن پہلے امریکی جاسوس کی گرفتاری، چند ماہ پہلے بھارتی جاسوس کی گرفتاری۔ یہ ہیں وہ سب محرکات جنکی وجہ سے ملک کے امن کو تباہ برباد کیا جارہا ہے۔ بلوچستان بار کے صدر جناب بلال کاسی کی دہشت گردوں کے ہاتھو ں شہادت کے بعد ہسپتال پہنچنے والے وکلاء پر جس طرح بم دھماکہ کیا گیا اور فائرنگ کی گئی اُس سے وہاں موجود وکلاء کی شہادتیں ہوئی ہیں۔ لاہور ہائی کورٹ بار میں عین اُسی وقت اِس واقعے کی مذمتی قرارداد منظور کی گئی اور سپریم کورٹ بار نے ایک ہفتے کے لیے سوگ منانے کا اعلان کیا ہے۔ جس وحشیانہ انداز میں وکلاء کی ٹارگٹ کلنگ ہوئی ہے ۔ اِس سے یہ حقیقت عیاں ہے کہ وکلاء کو کتنی بے دردی سے شہید کیا گیا ہے۔ آرمی سکو ل پشاور میں معصوم فرشتوں کی شہادت کے بعد کوئٹہ میں وکلاء کی شہادت نے دل کو اتنا زخمی کردیا ہے کہ خون کے آنسو رو رہا ہے۔ پاکستان جیسے معاشرئے میں جہاں انصاف نام کی کوئی چیز نہیں عدالتیں کرپشن کا گڑھ ہیں وہاں اپنی جان ہتھیلی پہ رکھ کر سائلین کے لیے آواز اُٹھانے والے نہتے وکلاء کو جس بُری طرح صبح کے وقت دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا ۔اُس سے انسانیت کی عزت و تکریم کی دھیجیاں اُڑا دی گئی ہیں۔ پاکستان میں جس طرح دہشت گردی مسلط کی گئی ہے اُس کی مثال موجودہ نام نہاد مہذب دُنیا میں نہیں ملتی۔راقم لاہور ہائی کورٹ بار روم میں بیٹھا جب سانحہ کوئٹہ کی فوٹیج ٹی وی پر دیکھ رہا تھا اور جس طرح سے وہاں وکلاء کے بوٹ اِدھر اُدھر بکھرئے پڑئے تھے۔ وکلاء کے کوٹ بجلی کی تاروں سے چمٹے ہوئے لٹک رہے تھے۔ اِن روح فرسا مناظر نے بار روم میں تشریف فرماء وکلاء کوخون کے آنسو رُلادیا۔ ہمارئے ساتھی عظیم شیخ ایڈووکیٹ بھی بہت مضطرب نظر آئے۔ صدر بار اور سیکرٹری بار انس غازی دکھی دل کے ساتھ اِس المناک سانحے کے حوالے سے تفصیلات بتارہے تھے۔ شہزاد عمران رانا ایڈووکیٹ، فرہاد شاہ ، عرفان تارڑ ایڈووکیٹس انتہائی غمزہ تھے اور اِس دکھ میں دیگر وکلاء کے ساتھ شریک تھے۔ پاکستان میں جس طرح وکلا کی ٹارگٹ کلنگ ہوئی اِس سے بارہ مئی کے سانحہ کراچی کے دل خراش واقعے کی یاد دل میں عود آئی جب مشرف ایم کیو ایم گٹھ جوڑ کی وجہ سے نہتے وکلاء کو کراچی میں زندہ جلادیا گیا۔ ہائے ماؤں کے لال کس ظلم کی بھینت چڑھا دیے گئے۔ اللہ پاک اِن دہشت گردوں کو نیست و نابود فرمائے۔ پاکستانی میڈیا نے اِس سانحے کے حوالے سے زمہ دارانہ رویہ اختیار کیے رکھا۔وزیر اعظم نواز شریف، صدر مملکت چاروں وزراء اعلیٰ، گورنرز، چیف آف آرمی سٹاف سیاستدانوں سماجی شخصیات نے اس سانحے پر گہرئے افسوس کا اظہار کیا ہے۔ جب سے مودی سرکار آئی ہے پاکستان میں دہشت گردی کو بہت زیادہ ہوا ملی ہے۔ مودی اوباما، اشرف غنی ۔ اِن کرداروں نے پاکستان میں دہشت گردی کو مسلسل ہوا دے رکھی ہے ۔رانا سجاد شیخ،احسان رندھاوا ایڈووکیٹس شہید وکلا کے غم میں مضطرب نظر آئے۔ راقم کو ہائی کورٹ لاہور کے در دیوار انتہائی دکھی محسوس ہورہے تھے ۔اے کاش یہ واقعہ نہ ہوا ہوتا۔ ماؤں سے اُن کے بیٹے ، بہنوں سے اُن کے بھائی، بچوں سے اُن کے باپ اور سہاگنوں کے سر سے اُن کے سرتاج چھن گئے۔پاکستانی سوسائٹی میں جس طرح دہشت پھیلائی گئی ہے اِس سے یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ پاکستان کے دُشمن پاکستان کی سالمیت کے خلاف جس طرح دن رات کیے ہوئے ہیں۔ پاک فوج کے جوان و افسران اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر رہے اور مادر وطن پہ قربان ہورہے ہیں۔ پاکستان کی آزادی کے لیے بے شمار قربانیاں دی گئیں اب استحکام پاکستان کے لیے سول سوسائٹی فوج وکلاء ڈاکٹرز طالب علم سب قربان ہو رہے ہیں۔ وکلاء جن کے ہاتھوں میں قلم کتاب ہے زندگی کو اتنا غنیمت نہیں مانتے کے عہد کم ظرف کے آگے جھک جائیں۔ انشا اللہ ایک دن آئے گا حالات بدل جائیں گے اور دہشت گردی کے یہ بت پگھل جائیں گے۔ 

Thursday, 4 August 2016

........... بچوں کا اغوا ایک قومی المیہ ۔ خادم اعلیٰ حوصلہ کر ہی لیں ۔خادم اعلیٰ کے نام کھلا خط..............ابو عمران صاحبزادہ اشرف عاصمی ایڈووکیٹ




بچوں کا اغوا ایک قومی المیہ ۔ خادم اعلیٰ حوصلہ کر ہی لیں ۔
خادم اعلیٰ کے نام کھلا خط

ابو عمران صاحبزادہ اشرف عاصمی ایڈووکیٹ

لاہور سمیت پنجاب بھر میں بچوں کے اغوا کے جو ہوش اُڑا دینے والے واقعات پیش آرہے ہیں اُس کا اگر جائزہ لیا جائے تو یہ سانحہ پاک آرمی سکول پشاور کے سانحے سے بھی بڑا سانحہ ہے۔دہشت گردی کے خلاف جنگ کی بھاری قیمت پہلے سے ہی پوری قوم نے ادا کی ہے ۔ اِس وطن کے بچے ، بوڑھے مرد خواتین سب اِس مادر وطن پر قربان کر دئیے گئے۔ لیکن پاک فوج کی جانب سے بھر پور جنگ عضب جو لڑی گئی اُس کے نمایاں اثرات قوم نے دیکھے۔نواز شریف کی حکومت میں لمبے عرصے کے معاشی منصوبہ جات کی وجہ سے ملک کی معاشی حالت کے اشاریے بہتر ہیں۔ اورنج ٹرین،لاہور کراچی موٹر وئے، آئی ایم ایف کے چنگل سے رہائی، پاک چینہ اکنامک کاریڈور، پاک ترکی اکنامک کاریڈور۔بجلی کی پیداوار کے منصوبے سب کچھ عوام کو نظر آرہا ہے۔ لیکن عام آدمی کی حالت بہت خراب ہے ۔ مہنگائی پر کنٹرول نہ ہونا اور امن و عامہ کی صورتحال کی مخدوش صورتحال نے عا م آدمی کے ہوش اُڑا کے رکھ دیے ہیں۔گو نواز حکومت نے سیاسی طور پر کشمیر میں حالیہ کلین سویپ کی ذریعہ سے ایک مثبت پیغام دیا ہے۔عمران خان کی سیاست کو اُس کے جاگیر دار حواریوں اور روایتی مسترد شدہ سیاستدان ساتھیوں نے شدید نقصان پہنچایا ہے عمران کی حالت اب یہ ہے کہ نہ تو ایماپئرنے اُنگلی اُٹھائی ہے اور نہ عمران کا جنون کارگر ثابت ہوا ہے۔بلکہ عمران خان کی بلدیاتی انتخابات میں سیاسی پوزیشن کو بھی شدید دھچکا لگا ہے۔کشمیر میں بھارتی ظلم و ستم کے شدید تر ہوتے ہی پاکستان میں خصوصی طور پر لاہور میں جس طرح معصوم بچوں کو اغوا کیا جارہا ہے یہ بہت بڑا قومی المیہ ہے۔ گلی کوچے میں کھیلنے والے معصوم بچے اب کھیلنے کی بجائے گھروں میں دُبکے پڑئے ہوئے ہیں۔جن ماؤں کے لال اغوا ہوئے ہیں اُن کا حال صر ف اللہ پاک کی ہستی ہی جانتی ہے۔ پنجاب پولیس سٹیٹ بنا ہو ا ہے ایسا اب سے نہیں بلکہ تین دہائیوں سے ایسا ہے۔افسوس شہباز شریف جیسے باہمت اور محنتی انسان کے ہوتے ہوئے بھی پولیس کلچر تبدیل نہیں ہوسکا۔شہباز شریف کی ایمانداری پر کوئی شک نہیں لیکن جس ایمانداری کا فائدہ عوام الناس کو نہ پہنچے اُس لیڈر کی ایمانداری عوام کے لیے زحمت بن جاتی ہے۔ تھانے بکتے ہیں ایس ایچ او کی تعنیاتیاں سیاسی طور پر ہوتی ہیں۔ اِن حالات میں خاک پولیس نے کارکردگی دیکھانی ہے ۔ سی ایس پی آفیسرز جو معاشرئے کی پڑھی لکھی ہستیاں ہوتے ہیں وہ بھی اِس پولیس کلچر میں آکر اُسی طرح کی ہو جاتی ہیں جیسا پہلے سے چلتا آرہا ہے۔خادم اعلیٰ صاحب اب یہ بُت توڑ ہی ڈالیں کیونکہ آپ ایسا کر سکتے ہیں ۔ پولیس کو سیاست سے آزاد کریں۔ پولیس میں سفارش اور رشوت کا کلچر ختم کروائیں۔ پولیس میں بھرتیاں اور ٹرانسفر میرٹ پر کروائیں دیکھیں تو سہی یہ ہی پولیس کتنا اچھا رزلٹ دئے گی۔ صرف ڈولفن فورس کے یونیفارم پہن کر نتائج حاصل نہیں ہوسکتے اِس کے لیے وردیوں کو جن لوگوں نے پہن رکھا ہے اُن کی تربیت بھی کرنی چاہیے اور اُن کو ایسا ماحول دیا جانا چاہیے جس کی وجہ سے وہ اِس قابل ہوسکیں کہ وہ بہتر کارکردگی دیکھا سکیں۔ انگریز دور میں پولیس نظام چوکیداری نظام اور مالیہ اکھٹا کرنے کا نظام جو تھا وہ بہت بہر تھا۔غلامی کے دور میں قانون کی حکمرانی قائم تھی۔ لیکن آزادی کے دور میں قانون کی حکمرانی کا یہ عالم کے سپریم کورٹ لاہو رجسٹری میں بچوں کے اغوا کے ازخود نوٹس کے دوران راولا کوٹ کے ایک سنئیر سول جج پھوٹ پھوٹ کر رو پڑئے کہ اُن کے بیٹے کو اغوا ہوئے دو سال گذر چکے ہیں تاحال برآمد نہیں کیا جاسکا۔ایک ملزم پولیس نے پکڑ بھی رکھا ہے۔ حالیہ چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ کے بیٹے کا واقعہ سب کے سامنے ہے۔پولیس کو واقعی ایک جانباز فورس بنا کر ہی اِس سے رزلٹ لیا جاسکتا ہے۔دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید ہونے والے بچوں کے لاشے دیکھ کر ماں باپ کو صبر تو آگیا کہ وہ اب نہیں رہے۔ لیکن جن ماؤں کے لاڈلے اغوا کیے جارہے ہیں اُن کو صبر کیسے آئے گا۔خادم اعلیٰ صاحب پولیس کا محکمہ صوبائی سبجیکٹ ہے اِس لیے آپ فوری طور پر پولیس کو سیاسی رنگ بازوں کے چنگل سے آزاد کروائیں ۔ 


Monday, 1 August 2016

طارق اسماعیل ساگر کی شخصیت کا اہم ترین پہلو۔ پاکستان سے محبت...Written by صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ

طارق اسماعیل ساگر کی شخصیت کا اہم ترین پہلو۔ پاکستان سے محبت

صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ










طاررق اسماعیل ساگر ایک محب وطن قلمکار اور مجاہد کا نام ہے۔پاکستان کی جانب سے وطن عزیز کی حفاظت کے لیے قلمی جہاد کرنے والے ساگر صاحب نے خود انڈین قید کاٹی اور ایک جاسوس کی حثیت سے پاکستان کے لیے خود کو پیش کیے رکھا۔ ساگر صاحب وہ واحد قلمکار ہیں جن کو نسیم حجازی ثانی کہا جاسکتا ہے۔پاکستان سے محبت اول و آخر ساگر صاحب کی زندگی کا مرکز ومحور ہے۔ گزشتہ چار دہائیوں سے زائد عرصے سے ارض وطن پاکستان کے دفاع کے لیے قلمی محاذ پر ہمہ وقت تیار ساگر صاحب کا دل پاکستان کے موجودہ سیاسی و سماجی ماحول کڑھتا ہے۔ساگر صاحب کی تحریریں پڑھ کر پاکستان آرمی میں بھرتی ہونے والوں کی بڑی تعداد ہے۔ حضرت اقبالؒ سے محبت کرنے والے، صوم و صلوۃ کے پابند، ساگر صاحب پوری دنیا میں مانے جانے ناول نگار صحافی ہیں۔ آپ نے بے شمار ڈارمے لکھے، فلم بھی لکھی۔گذشتہ دنوں اُن کی خدمت میں پیش ہو کر اکتساب فیض کا موقع ملا۔ راقم کا تعلق ساگر صاحب سے 1983 سے ہے۔یوں اُن کے ساتھ تعلق کی بنیاد پاکستان سے محبت ، نبیﷺ سے محبت ہے۔بے شمار کتابوں کا خالق ہونے کے ناطے اور دبنگ صحافی ہونے کی وجہ سے اُن کے سامنے کو ئی نہیں ٹھر سکتا۔اُن کالم قومی اخبارات کی زینت بنتے ہیں ۔ تیس سال تک نوائے وقت میں کام کیا، جنگ میں بھی کچھ عرصہ رہے۔نیا جہان انٹرنیشنل میگزین کے نام سے حالات حاضرہ پر ایک ماہنامہ لاہور سے شائع کرتے ہیں۔اُن سے ملاقات میں اِس بات کا شدت سے احساس ہوا کہ پاکستان سے محبت کرنے والے اِس مخلص قلمکار کا دل پاکستانی سیاست کے کھلاڑیوں کی مکاربازیوں کی وجہ سے دکھی ہے۔میری گزارش پر فرمانے لگے میاں صاحب: اِس ملک کے حکمران پاکستان کی عوام کو اچھوت خیال کرتے ہیں۔ یہاں پر قبضہ گروپ چھائے ہوئے ہیں۔حکمران پاکستان کو اِس طرح کھارہے ہیں جس طرح یہ مال غنیمت کا لوٹا ہو ا مال ہے۔ساگر صاحب نے کمال محبت سے قبلہ پیرو مُرشد حضرت حکیم میاں محمد عنائت خان قادری نوشاہیؒ کا تذکرہ فرمایا۔ساگر صاحب قبلہ حکیم عنایتصاحبؒ سے کئی مرتبہ ملاقات فرما چکے تھے۔ کستان کی سرزمین کو جہاں دہشت گردی اور انتہا پسندی کا سامنا ہے ۔یہ درست ہے کی بھانت بھانت کی بولیا ں بولنے والے اِس وطن کی جڑوں کو کھو کھلا کر رہے ہیں یہ بھی درست ہے کہ ہمارا ازلی دُشمن بھارت اتنا مکار ہے کہ اِس کیحوالے سے ایک لمحے کے لیے بھی بھروسہ کرنا بے وقوفی کی انتہا ہے۔اِس شاطر دُشمن کے ہوتے ہوئے پاکستان کو دولخت ہونا پڑا اور اِس سارئے معاملے میں بھارت کا سو فیصد کردار تھا۔ اِس بات کا اظہار بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے بنگلہ دیش کی وزیراعظم کے پہلو میں بیٹھ کر کیا ہے کہ وہ بھی پاکستان کو دولخت کرنے والے میں پیش پیش تھا۔ دیکھیں ایک وزیر اعظم کا بیان دوسرئے ملک کی سلامتی کے حوالے سے۔ کہاں ہیں آداب سفارت کاری، کہاں ہیں روشن خیال لبرل فاشسٹ جو دن رات امن کی آشا کو لیے گھوم پھر رہے ہیں۔ کہاں ہیں وہ لوگ جو بھارت کے ساتھ تجارت کرنے کے لیے بے چین ہیں۔ستر سال گزرنے کے بعد بھی بھارت اپنے سے کئی گُنا چھوٹے ملک کو ہڑپ کرنے کے لیے تیار بیٹھا ہے۔ چند فی صد برہمن کو چھوڑ کر بھاتی تو کسی بھی دوسرئے کو انسان ماننے کے لیے تیار ہی نہیں ۔ حالیہ دنوں میں بھارت کے سابق آرمی چیف وی پی سنگھ کا ایک دلت لڑکے کی موت پر یہ بیان کہ وہ تو کتا تھا مر گیا تو کیا ہوا۔ کیا مطلب ہے؟۔ بھارت کے لیے سافٹ کارنر رکھنے والوں کی آنکھیں کھل نہیں سکیں ابھی تک کیا۔ اِس سارئے کھیل میں ایک شخص تنہا کھڑا ہے جو مادرِ وطن کے لیے اپنا تن من قربان کیے ہوئے ہے۔ میری مراد صحافی میدان میں قلم کے ساتھ جہاد میں مصروف طارق اسماعیل ساگر سے ہے۔ ساگر صاحب سے میرا تعلق اُس وقت سے ہے جب میں ابھی سکول میں زیر تعلیم تھا۔کہ میں نے اِنکا ناول میں ایک جاسوس تھاپڑھا۔ اُس کے بعد اِن کو خط لکھا انھوں نے کمال محبت سے اُس کا جواب دیا۔ پھر میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد میں انھیں نوائے وقت کے دفتر میں ملنے گیا۔ یوں عقیدت و احترام کا رشتہ گذشتہ 31 سالوں سے قائم دائم ہے۔ یوں اُن کی تحریریں پڑھ کر راقم کے دل میں پاک فوج اور وطن سے محبت کا جذبہ اپنے کمال عروج کو ہپنچا کہ پاکستان سے محبت میرا ایمان ہے۔ ساگر صاحب نے اپنے زندگی کا سار عرصہ قلمی جہاد کرتے ہوئے گزارا۔ کچھ عرصہ پہلے اُنھوں نے اپنی ایک سرگزشت وہ مجھے کھا گئے کے نام سے لکھی جس کے کچھ اقتباس راقم نے بھی ساگر ڈائجسٹ میں پڑھے۔ یقینی طو ر پر ایک صاف سچے کھرئے انسان کو معاشرئے میں اپنا کام کرنے کے لیے بہت سے مسائل کا سامناکرنا پڑتا ہے۔ یہ سب کچھ جناب ساگر صاحب کے ساتھ بھی ہواکہ وہ لوگ جو صحافت کے ٹھیکیدار بنے ہوئے ہیں ساگر صاحب کی سرگزشت پڑھنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ اُن کا اصل چہرہ کیا ہے۔ لیکن ساگر صاحب امیدکے راہی ہیں اُن کے ہاں مایوسی نہیں ہے۔ ساگر صاحب کی کتابیں نوجوان نسل میں اتنی مقبول ہیں کہ اپنی مثال آپ ہیں۔پاک فوج کے ساتھ ساگر صاحب کی محبت پاکستان سے محبت ہے کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ پاک فوج کی قربانیوں کا ذکر ساگر صاحب کے ناولوں اور کالموں میں بجا طور پر ملتا ہے۔ساگر صاحب کو مجھے بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ہے انتہائی نیک انسان ہیں اللہ پاک سے ڈرنے والے ہیں اور روایتی صحافت سے بہت دور ہیں۔ صوم و صلوۃ کے پابند ہیں اور اُن کا معاشی سٹیٹس دیکھ کر اندازہ ہوجاتا ہے کہ اتنا بڑا رائٹر خود کو رزقِ حلال کے ساتھ جورئے ہوئے ہے۔ مجھے اِن کے ساتھ سفر پر جانے کا تفاق ہوا وہ یوں کہ میرئے ماموں جان قبلہ حکیم عنائت خان قادری نوشاہی ؒ سے ملنے کا اشتیاق انھیں سرگودہا لے گیا۔ یوں وہ سفر میرئے لیے یادگار بن گیا کہ ساگر صاحب سے مجھے اکتساب فیض کا موقع ملا۔ اور انھوں نے مجھے اپنی ذاتی زندگی کی کہانی سنائی۔ پاکستان کے جاسوس۔ بھارت کی جیل سے فرار۔ مادر وطن کے لیے اپنے زندگی کو ہر طرح کی مشکلات میں ڈالے رکھا۔ ساگر صاحب یوسف زئی پٹھان ہیں یوں ساگر صاحب نے پاک وطن کی حرمت کے لیے واقعی ہمیشہ ایک بہادر سپاہی کا کردار ادا کیا ہے۔ تقریباً دو سال تک میری روزانہ اِن سے ملاقات رہی کہ ساگر صاحب کی بڑی بیٹی میری شاگرد رہیں۔اُنھیں پک کرنے اور ڈراپ کرنے کے لیے تشریف لاتے رہے اور میری اُن سے ملاقات رہی۔ میری یہ خوش قسمتی رہی کہ مجھے اُن سے اتنا قریب ہونے کا شرف حاصل رہا۔ قبلہ ماموں جان حکیم صاحبؒ کے ہمراہ بھی ساگر صاحب کے دولت کدئے پرجانے کا اتفاق ہوا۔میرئے چھوٹے بھائی میاں اکرم کی شادی میں ساگر صاحب اپنی تمام فیملی کے ساتھ تشریف لائے۔حضرت میاں وڈا صاحبؒ کے دربار شریف پر بھی اُنھوں نے حاضری دی۔میری یادیں ساگر صاحب کے حوالے سے اتنی زیادہ ہیں کہ اُنھیں ایک کالم میں سمونا ممکن نہیں ہے۔ ساگر صاحب نے بے شمار کتابیں لکھیں ہیں اُن کے حوالے سے کوئی بات کرنا مجھ ناچیز کے لیے ممکن نہیں ہے۔ میں ایک جاسوس تھا۔ کمانڈو، وادی لہو رنگ، را، بے شمار ناول، کتابیں ہیں جو کہ ہمارئے نوجوانوں کے لیے مشعل راہ ہیں۔ ہماری حکومت کو چاہیے کہ جناب ساگر صاحب جیسی شخصیت کے مقام کو سراہے اور اُن کی لازوال خدمات پر اُنھیں صدارتی تمغہ دئے۔ کیونکہ ساگر صاحب کھرئے انسان ہیںِ اس لیے اُن سے چاپلوسی نہیں ہوتی اور حکمرانوں کے کان تو ایسی باتیں پسند کرتے ہیں جو اُن کے کانوں کو بھلی لگیں۔ ساگر صاحب کی کتابوں سے اقتباسات کو ہمارئے تعلیمی نصاب کا حصہ بنایا جانا چاہیے۔ ساگر صاحب کی خدمات کو بطور سٹریٹجک اِنالسٹ لینا چاہیے۔ میرئے دُعا ہے کہ پاکستانی قوم کے اِس عظیم سپوت کو اللہ پاک عمر خضر عطا فرمائے۔ آمین۔ 

طارق اسماعیل ساگر کی شخصیت کا اہم ترین پہلو۔ پاکستان سے محبت...Written by صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ

طارق اسماعیل ساگر کی شخصیت کا اہم ترین پہلو۔ پاکستان سے محبت

صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ









طاررق اسماعیل ساگر ایک محب وطن قلمکار اور مجاہد کا نام ہے۔پاکستان کی جانب سے وطن عزیز کی حفاظت کے لیے قلمی جہاد کرنے والے ساگر صاحب نے خود انڈین قید کاٹی اور ایک جاسوس کی حثیت سے پاکستان کے لیے خود کو پیش کیے رکھا۔ ساگر صاحب وہ واحد قلمکار ہیں جن کو نسیم حجازی ثانی کہا جاسکتا ہے۔پاکستان سے محبت اول و آخر ساگر صاحب کی زندگی کا مرکز ومحور ہے۔ گزشتہ چار دہائیوں سے زائد عرصے سے ارض وطن پاکستان کے دفاع کے لیے قلمی محاذ پر ہمہ وقت تیار ساگر صاحب کا دل پاکستان کے موجودہ سیاسی و سماجی ماحول کڑھتا ہے۔ساگر صاحب کی تحریریں پڑھ کر پاکستان آرمی میں بھرتی ہونے والوں کی بڑی تعداد ہے۔ حضرت اقبالؒ سے محبت کرنے والے، صوم و صلوۃ کے پابند، ساگر صاحب پوری دنیا میں مانے جانے ناول نگار صحافی ہیں۔ آپ نے بے شمار ڈارمے لکھے، فلم بھی لکھی۔گذشتہ دنوں اُن کی خدمت میں پیش ہو کر اکتساب فیض کا موقع ملا۔ راقم کا تعلق ساگر صاحب سے 1983 سے ہے۔یوں اُن کے ساتھ تعلق کی بنیاد پاکستان سے محبت ، نبیﷺ سے محبت ہے۔بے شمار کتابوں کا خالق ہونے کے ناطے اور دبنگ صحافی ہونے کی وجہ سے اُن کے سامنے کو ئی نہیں ٹھر سکتا۔اُن کالم قومی اخبارات کی زینت بنتے ہیں ۔ تیس سال تک نوائے وقت میں کام کیا، جنگ میں بھی کچھ عرصہ رہے۔نیا جہان انٹرنیشنل میگزین کے نام سے حالات حاضرہ پر ایک ماہنامہ لاہور سے شائع کرتے ہیں۔اُن سے ملاقات میں اِس بات کا شدت سے احساس ہوا کہ پاکستان سے محبت کرنے والے اِس مخلص قلمکار کا دل پاکستانی سیاست کے کھلاڑیوں کی مکاربازیوں کی وجہ سے دکھی ہے۔میری گزارش پر فرمانے لگے میاں صاحب: اِس ملک کے حکمران پاکستان کی عوام کو اچھوت خیال کرتے ہیں۔ یہاں پر قبضہ گروپ چھائے ہوئے ہیں۔حکمران پاکستان کو اِس طرح کھارہے ہیں جس طرح یہ مال غنیمت کا لوٹا ہو ا مال ہے۔ساگر صاحب نے کمال محبت سے قبلہ پیرو مُرشد حضرت حکیم میاں محمد عنائت خان قادری نوشاہیؒ کا تذکرہ فرمایا۔ساگر صاحب قبلہ حکیم عنایتصاحبؒ سے کئی مرتبہ ملاقات فرما چکے تھے۔ کستان کی سرزمین کو جہاں دہشت گردی اور انتہا پسندی کا سامنا ہے ۔یہ درست ہے کی بھانت بھانت کی بولیا ں بولنے والے اِس وطن کی جڑوں کو کھو کھلا کر رہے ہیں یہ بھی درست ہے کہ ہمارا ازلی دُشمن بھارت اتنا مکار ہے کہ اِس کیحوالے سے ایک لمحے کے لیے بھی بھروسہ کرنا بے وقوفی کی انتہا ہے۔اِس شاطر دُشمن کے ہوتے ہوئے پاکستان کو دولخت ہونا پڑا اور اِس سارئے معاملے میں بھارت کا سو فیصد کردار تھا۔ اِس بات کا اظہار بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے بنگلہ دیش کی وزیراعظم کے پہلو میں بیٹھ کر کیا ہے کہ وہ بھی پاکستان کو دولخت کرنے والے میں پیش پیش تھا۔ دیکھیں ایک وزیر اعظم کا بیان دوسرئے ملک کی سلامتی کے حوالے سے۔ کہاں ہیں آداب سفارت کاری، کہاں ہیں روشن خیال لبرل فاشسٹ جو دن رات امن کی آشا کو لیے گھوم پھر رہے ہیں۔ کہاں ہیں وہ لوگ جو بھارت کے ساتھ تجارت کرنے کے لیے بے چین ہیں۔ستر سال گزرنے کے بعد بھی بھارت اپنے سے کئی گُنا چھوٹے ملک کو ہڑپ کرنے کے لیے تیار بیٹھا ہے۔ چند فی صد برہمن کو چھوڑ کر بھاتی تو کسی بھی دوسرئے کو انسان ماننے کے لیے تیار ہی نہیں ۔ حالیہ دنوں میں بھارت کے سابق آرمی چیف وی پی سنگھ کا ایک دلت لڑکے کی موت پر یہ بیان کہ وہ تو کتا تھا مر گیا تو کیا ہوا۔ کیا مطلب ہے؟۔ بھارت کے لیے سافٹ کارنر رکھنے والوں کی آنکھیں کھل نہیں سکیں ابھی تک کیا۔ اِس سارئے کھیل میں ایک شخص تنہا کھڑا ہے جو مادرِ وطن کے لیے اپنا تن من قربان کیے ہوئے ہے۔ میری مراد صحافی میدان میں قلم کے ساتھ جہاد میں مصروف طارق اسماعیل ساگر سے ہے۔ ساگر صاحب سے میرا تعلق اُس وقت سے ہے جب میں ابھی سکول میں زیر تعلیم تھا۔کہ میں نے اِنکا ناول میں ایک جاسوس تھاپڑھا۔ اُس کے بعد اِن کو خط لکھا انھوں نے کمال محبت سے اُس کا جواب دیا۔ پھر میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد میں انھیں نوائے وقت کے دفتر میں ملنے گیا۔ یوں عقیدت و احترام کا رشتہ گذشتہ 31 سالوں سے قائم دائم ہے۔ یوں اُن کی تحریریں پڑھ کر راقم کے دل میں پاک فوج اور وطن سے محبت کا جذبہ اپنے کمال عروج کو ہپنچا کہ پاکستان سے محبت میرا ایمان ہے۔ ساگر صاحب نے اپنے زندگی کا سار عرصہ قلمی جہاد کرتے ہوئے گزارا۔ کچھ عرصہ پہلے اُنھوں نے اپنی ایک سرگزشت وہ مجھے کھا گئے کے نام سے لکھی جس کے کچھ اقتباس راقم نے بھی ساگر ڈائجسٹ میں پڑھے۔ یقینی طو ر پر ایک صاف سچے کھرئے انسان کو معاشرئے میں اپنا کام کرنے کے لیے بہت سے مسائل کا سامناکرنا پڑتا ہے۔ یہ سب کچھ جناب ساگر صاحب کے ساتھ بھی ہواکہ وہ لوگ جو صحافت کے ٹھیکیدار بنے ہوئے ہیں ساگر صاحب کی سرگزشت پڑھنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ اُن کا اصل چہرہ کیا ہے۔ لیکن ساگر صاحب امیدکے راہی ہیں اُن کے ہاں مایوسی نہیں ہے۔ ساگر صاحب کی کتابیں نوجوان نسل میں اتنی مقبول ہیں کہ اپنی مثال آپ ہیں۔پاک فوج کے ساتھ ساگر صاحب کی محبت پاکستان سے محبت ہے کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ پاک فوج کی قربانیوں کا ذکر ساگر صاحب کے ناولوں اور کالموں میں بجا طور پر ملتا ہے۔ساگر صاحب کو مجھے بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ہے انتہائی نیک انسان ہیں اللہ پاک سے ڈرنے والے ہیں اور روایتی صحافت سے بہت دور ہیں۔ صوم و صلوۃ کے پابند ہیں اور اُن کا معاشی سٹیٹس دیکھ کر اندازہ ہوجاتا ہے کہ اتنا بڑا رائٹر خود کو رزقِ حلال کے ساتھ جورئے ہوئے ہے۔ مجھے اِن کے ساتھ سفر پر جانے کا تفاق ہوا وہ یوں کہ میرئے ماموں جان قبلہ حکیم عنائت خان قادری نوشاہی ؒ سے ملنے کا اشتیاق انھیں سرگودہا لے گیا۔ یوں وہ سفر میرئے لیے یادگار بن گیا کہ ساگر صاحب سے مجھے اکتساب فیض کا موقع ملا۔ اور انھوں نے مجھے اپنی ذاتی زندگی کی کہانی سنائی۔ پاکستان کے جاسوس۔ بھارت کی جیل سے فرار۔ مادر وطن کے لیے اپنے زندگی کو ہر طرح کی مشکلات میں ڈالے رکھا۔ ساگر صاحب یوسف زئی پٹھان ہیں یوں ساگر صاحب نے پاک وطن کی حرمت کے لیے واقعی ہمیشہ ایک بہادر سپاہی کا کردار ادا کیا ہے۔ تقریباً دو سال تک میری روزانہ اِن سے ملاقات رہی کہ ساگر صاحب کی بڑی بیٹی میری شاگرد رہیں۔اُنھیں پک کرنے اور ڈراپ کرنے کے لیے تشریف لاتے رہے اور میری اُن سے ملاقات رہی۔ میری یہ خوش قسمتی رہی کہ مجھے اُن سے اتنا قریب ہونے کا شرف حاصل رہا۔ قبلہ ماموں جان حکیم صاحبؒ کے ہمراہ بھی ساگر صاحب کے دولت کدئے پرجانے کا اتفاق ہوا۔میرئے چھوٹے بھائی میاں اکرم کی شادی میں ساگر صاحب اپنی تمام فیملی کے ساتھ تشریف لائے۔حضرت میاں وڈا صاحبؒ کے دربار شریف پر بھی اُنھوں نے حاضری دی۔میری یادیں ساگر صاحب کے حوالے سے اتنی زیادہ ہیں کہ اُنھیں ایک کالم میں سمونا ممکن نہیں ہے۔ ساگر صاحب نے بے شمار کتابیں لکھیں ہیں اُن کے حوالے سے کوئی بات کرنا مجھ ناچیز کے لیے ممکن نہیں ہے۔ میں ایک جاسوس تھا۔ کمانڈو، وادی لہو رنگ، را، بے شمار ناول، کتابیں ہیں جو کہ ہمارئے نوجوانوں کے لیے مشعل راہ ہیں۔ ہماری حکومت کو چاہیے کہ جناب ساگر صاحب جیسی شخصیت کے مقام کو سراہے اور اُن کی لازوال خدمات پر اُنھیں صدارتی تمغہ دئے۔ کیونکہ ساگر صاحب کھرئے انسان ہیںِ اس لیے اُن سے چاپلوسی نہیں ہوتی اور حکمرانوں کے کان تو ایسی باتیں پسند کرتے ہیں جو اُن کے کانوں کو بھلی لگیں۔ ساگر صاحب کی کتابوں سے اقتباسات کو ہمارئے تعلیمی نصاب کا حصہ بنایا جانا چاہیے۔ ساگر صاحب کی خدمات کو بطور سٹریٹجک اِنالسٹ لینا چاہیے۔ میرئے دُعا ہے کہ پاکستانی قوم کے اِس عظیم سپوت کو اللہ پاک عمر خضر عطا فرمائے۔ آمین۔ 

Thursday, 30 June 2016

لاہور ہائی کورٹ کے نئے چیف جسٹس کا عزم ..........................bY صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ



لاہور ہائی کورٹ کے نئے چیف جسٹس کا عزم

صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ 

چشمِ فلک نے عجب نظارہ دیکھا کہ سٹیٹس کو کے مارئے ہوئے نظام میں بھی جان پیدا ہو سکتی ہے۔پنجاب کے عدلیہ کے نئے سربراہ انتہائی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے حامل جج ہیں اور ماضی قریب میں بھی لاہور ہائی کورٹ کے سنےئر جج ہونے کی حثیت سے اُنہوں نے عالتی نظام کو کمپیوٹرائزڈ کرنے لاہور ہائی کورٹ میں سیکورٹی کے انتظا مات کے حوالے سے انتہائی فعال کردار ادا کیا ہے۔جناب منصور شاہ صاحب کی شہرت ایک انتہائی اچھی شخصیت کی ہے۔ اِس وقت جب قوم دہشت گردی معاشی مسائل کا شکار ہے اور عدالتی نظام انتہائی بوسیدہ ہوچکا ہے۔ لوگ عدالتوں میں انصاف کے لیے جانے سے کتراتے ہیں۔ دیونی مقدمات تیس تیس سال تک چلتے ہیں۔ جرائم کی شرح میں بے انتہاء اضافہ ہونے کی وجہ بھی یہ ہی ہے کہ انصاف کے ایوانوں میں انصاف نہیں ہے۔اچانک سٹیٹس کو میں جو سوراخ جناب جسٹس منصور علی شاہ صاحب نے کردیا ہے۔ اِس سے دیکھائی دیتا ہے کہ کہ یہ کسی دیوانے کی بڑھک نہیں ہے بلکہ یہ انتہائی پسے ہوئے عوام کو انصاف دلانے کی جانب ایک انقلابی قدم ہے۔ماضی قریب میں چھ ماہ کے لیے جناب جسٹس منظور ملک صاحب نے لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی ذمہ داریاں انجام دی تھیں۔ اور یقینی طور پر محسوس ہورا تھا کہ اگر کوشش کی جائے تو کچھ بھی ناممکن نہیں ہے۔ امام عالی مقام حضرت امام حسینؒ کے ساتھ نسبت تو ہر مسلمان کو ہے لیکن شاہ صاحب کیونکہ سید زادئے ہیں اِس لیے اِن کا حسب نسب بھی امام عالی مقام حضرت امام حسینؓ سے جُرا ہوا ہے۔ یوں حلف لیے ہی جناب جسٹس منصور علی شاہ نے جس انداز میں رسم شبیری ادا کی ہے اور جو پیغام اُنہوں نے دیا ہے اُس پر یقینی طور پر عوام کی اُن پر امیدیں بڑھ گئی ہیں۔ماتحت عدلیہ میں ٹاوٹوں کی بھرمار، ماتحت عدلیہ کے عملے کی کرپشن پر یقینی طور پر چیف جسٹس صاحب کی نظر ہو گی اور وہ اِس حوالے سے اپنے عزم کا اظہار کر چکے ہیں۔عدلیہ کے ملازمین چپڑاسی سے لے کر ججز تک تمام عملے کی جائیدادوں کا ریکارڈ تیار کیا جائے۔ اور انتہائی پیشہ ورانہ اور ایماندار جوڈیشل افسران پر مشتمل ایک انتیلی جنس ونگ ہونا چاہیے جو خصوصی طور پر ماتحت عدلیہ کے ماتحت عملے کی جانب سائلین کو جو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اُسکا تدارک کرئے۔ چیف جسٹس صاحب نے جو لب و لہجہ اختیار کیا ہے وہ ایسے قائد کا ہے جسے حالات کا ادراک ہے۔جسٹس سید منصور علی شاہ نے لاہور ہائیکورٹ کے 45 ویں چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالنے کے بعد پنجاب جوڈیشل اکیڈمی کے آڈیٹوریم میں لاہور ہائیکورٹ کے تمام سٹاف سے خطاب کیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ کا تمام سٹاف میرے بچوں کی مانند ہیں۔ وہ باپ کی طرح تمام سٹاف کے ساتھ شفقت سے پیش آئیں گے مگر جو بچہ غلط کام کریگا اسے کان سے پکڑ کر ادارے سے نکال باہر کریں گے۔ تمام سٹاف حقیقی ہائیکورٹ ہے، میں آپ کی محنت کو سراہتا ہوں، انہوں نے کہا کہ وہ عدالتی ملازمین کی مشکلات سے آشنا ہیں اور تمام مشکلات کے ازالے کیلئے ہر ممکن اقدام کرینگے۔ عدالتی ملازمین کے پچاس فیصد ایڈہاک الاؤنس سے متعلق وزیر اعلیٰ پنجاب سے بات کی ہے۔ ہم حکومت کے ساتھ ورکنگ ریلیشن شپ قائم کریں گے اور ہر عوامی مسئلے میں حکومت پنجاب کی معاونت کریں گے، چاہتے ہیں کہ پنجاب کا نظام انصاف باقی تمام صوبوں سے بہتر ہو۔ اداروں کو لڑنا نہیں ہے، ہم سب کو مل کر ملک کیلئے کام کرنا ہے اور عام آدمی کو انصاف فراہم کرنا ہے۔ ہم اس ہائی کورٹ کو پورے پاکستان کیلئے مثال بنائیں گے۔ ہائی کورٹ میں بھرتیوں کے رکے ہوئے عمل کو شروع کر دیا گیا ہے جو اگلے پندرہ روز میں مکمل کر لیا جائے گا۔ لاہور ہائی کورٹ میں بھرتیوں کا عمل سو فیصد شفاف انداز میں مکمل کیا جائے گا۔ کسی سفارش کو نہیں مانا جائے گا اس لئے کوئی ایسی جرات بھی نہ کرے۔ خواتین اور جسمانی معذور افراد کو بھی عدالت عالیہ میں کام کرنے کا برابر موقع دیا جائے گا۔ رمضان کے بعد عدالت عالیہ کے کیفے ٹیریا کو فعال کر دیا جائے گا۔ جہاں سب کو ایک جیسا کھانا ملے گا، ہم سب وہاں ایک وقت میں ساتھ بیٹھ کر کھانا کھائیں گے۔ سٹاف و افسروں کی کارکردگی رپورٹس کا نظام وضع کیا جارہا ہے۔ روائتی نظام کی بجائے بہترین کارکردگی کی بنیاد پر پورا اترنے والے ملازمین کو نیچے سے اوپر لائیں گے۔ صرف ادارے کی ترقی کے بارے میں ہمیں سوچنا ہے، ادارہ ماں کا درجہ رکھتا ہے، اس کی عزت و وقار میں اضافہ کا باعث بنیں۔ اپنی سوچ کو مثبت رکھیں، میں آسمان سے نہیں اترا، میرے چیمبر کے دروازے تمام ملازمین کیلئے کھلے ہیں، آپ اگر اپنے گلے شکوے مجھے نہیں بتائیں گے تو کس کو بتائیں گے۔ ملازمین صرف اللہ تعالیٰ سے ڈریں، افسروں سے ڈرنے کی ضرورت نہیں، اپنا کام پوری ایمانداری سے سرانجام دیں اور اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھیں۔ ہائی کورٹ میں انٹرنل آڈٹ کا نظام نہیں ہے، جس کی اس وقت اشد ضرورت ہے، دنیا میں کوئی ادارہ انٹرنل آڈٹ کے بغیر نہیں چل سکتا ہے۔ اس حوالے سے ہم نے پاکستان کی سب سے بڑی آڈٹ فرم سے درخواست کی ہے کہ اس صوبے کی عوام کیلئے ہماری مدد کریں اور ہمیں خوشی ہوئی ہے کہ انہوں نے ہمارے ساتھ ایک سال بے لوث کام کرنے کی رضا مندی ظاہر کی ہے اور اس دورانیے میں عدالت عالیہ لاہور کا اپنا آڈٹ سیل قائم کر لیا جائے گا۔ ہم عدالت عالیہ کے تمام سسٹم کو کمپیوٹرائزڈ کر رہے ہیں، ہر چیز کو آن بورڈ کر یں گے۔ باپ بیٹے کا رشتہ اعتماد کا رشتہ ہوتا ہے، جس نے بھی اس اعتماد کو ٹھیس پہنچائی وہ اس ادارے کا حصہ نہیں رہے گا۔ ہم ایک نیا ادارہ کھڑا کرنے جارہے ہیں، آپ سب کا تعاون شامل حال رہا تو پاکستان میں اپنا نام بنائیں گے، پورا پاکستان آ کر دیکھے گا کہ کیسے ہائی کورٹ بنتا ہے۔ ہائیکورٹ کے ہر کمرے میں کیمرے لگیں گے۔ نماز اور کھانے کا وقفہ بھی ہو گا۔ عوام کو انصاف کی فراہمی ہم سب کی ذمہ داری ہے اس لئے اب عدالت میں کسی کی کوئی بھی سفارش نہیں چلے گی بلکہ تمام فیصلے آئین و قانون اور انصاف کے مطابق ہوں گے اور انصاف کی راہ میں کسی قسم کی کوئی رکاوٹ برداشت نہیں کی جائیگی اور انصاف کیلئے ہر کسی کیلئے لاہور ہائیکورٹ کے دروازے کھلے ہیں۔ چیف جسٹس سید منصور علی شاہ نے کہا ہے کہ عدلیہ کی بہتری کیلئے کام کرنے والے ملازمین کو بے انتہا پیار کروں گا اگر کسی ملازم نے مان اور اعتماد توڑ ا تو اس کے خلاف سخت ترین ایکشن لیا جائے گا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ باپ کی حیثیت سے تنبیہہ کر رہا ہوں کہ عدلیہ کے ادارے میں غلط کام کرنے والے سب ٹھیک ہو جائیں ورنہ سخت باز پرس ہوگی اور کڑا احتساب کیا جائے گا۔ چیف جسٹس سید منصور علی شاہ نے کہا کہ میں اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہوں کہ اس نے مجھے اس عزت و توقیر سے نوازا ہے اور میری پوری کوشش ہو گی کہ مجھے صوبے میں انصاف کے جس سب سے بڑے منصب پر فائز کیا گیا ہے میں نہ صرف اس کے تقاضوں کو پورا کر سکوں بلکہ حق اور انصاف کی فراہمی کو بھی یقینی بنا سکوں۔چیف جسٹس منصور علی شاہ نے کہا ہے کہ میں پروفیشنل وکلا کی عزت کرتا ہوں ججز اکیلے کچھ نہیں کر سکتے کچھ کرنا ہے تو پہلے اکٹھا ہونا اور مل جل کر کام کرنا ہے، ہمارے پاس آواز پہنچانے کا کوئی سسٹم ہی نہیں ہمارے پاس ٹرانسفر پالیسی بھی نہیں سب سے پہلے ایڈوائزری پالیسی بنائی جائے گی، عدالتوں، چیمبرز اور واش رومز کی حالت بہتر کی جائے گی۔ 25سے 30ججز او ایس ڈی کئے، انکوائری ہو گی دس ججز۔ کسی جج کی کرپشن کی گواہی دے دیں وہ کافی ہے ایماندار افسر کے پیچھے میں پہاڑ کی طرح کھڑا ہوں۔ چیف جسٹس نے وکلا کی ججز کے چیمبرز میں داخلے پر پابندی لگاتے کہا کہ وکلا کو ججز کے چیمبرز میں داخلے کی اجازت نہیں ہو گی آپ کے حقوق کیلئے ڈسپلنری کمیٹی بنائی گئی ہے، بدعنوان ججز اور وکلا کو بالکل برداشت نہیں کیا جائے گا۔ سسٹم کو شفاف بنانے کیلئے ضروری ہے کہ ہمارا کردار بے داغ ہو۔ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس سید منصور علی شاہ کی منظوری سے کرپشن اور دیگر الزامات پر اکیس سول جج اور چھ ایڈیشنل سیشن جج صاحبان کو او ایس ڈی بنانے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا۔ پرنسپل سیکرٹری ٹو چیف جسٹس ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج عرفان احمد سعید، ممبر انسپکشن ٹیم لاہور ہائی کورٹ سیشن جج صفدر سلیم شاہد اور ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج اسٹیبلشمنٹ بہادر علی خان بھی او ایس ڈی بنانے کے احکامات جاری کر دیئے گئے ہیں۔ نوٹیفکیشنز کے مطابق او ایس ڈی بننے والوں میں سول جج درجہ اول نصرت علی صدیقی، ملک شیخ اللہ بخش، حافظ محمد اقبال کلیار، ہدایت اللہ شاہ، مزمل سپرا، محمد طارق، سید احمد اعوان، جواد عالم قریشی، ندیم خضر رانجھا، ندیم عباس ساقی، محمد یوسف ہنجرا، نثار احمد، محمد منصور عطا، ذوالفقار احمد، غلام مصطفی، فیض احمد رانجھا، محمد نوازش خان چودھری، محمد افضل بھٹی، شہزاد اسلم، نور محمد اور سول جج عبدالکریم شامل ہیں، او ایس ڈی بننے والے ایڈیشنل سیشن جج صاحبان میں چودھری جمیل احمد، سید محمد ظفر عباس سبزواری، محمد علی رانا، محمد بخش مسعود ہاشمی، محمد رفعت سلطان شیخ اور سید احسن محبوب بخاری شامل ہیں۔ مزید برآں چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ سید منصور علی شاہ کے پرائیویٹ سیکرٹری سید زاہد حسین شاہ کو گریڈ انیس میں ترقی دیدی گئی ہے۔ نوٹیفکیشن کے مطابق سید زاہد حسین شاہ کو گریڈ انیس میں ترقی دے کر پرائیویٹ سیکرٹری ٹو چیف جسٹس کام کرنے کی ہدایت کی گئی ہے جبکہ اس عہدے پر تعینات پرائیویٹ سیکرٹری عامر خلیل چشتی کو پول میں رپورٹ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ علاوہ ازیں پنجاب کی خواتین ججز کے تحفظ کیلئے کمیٹی قائم کر دی گئی ہے۔ چیف جسٹس ہائی کورٹ نے کمیٹی کے قیام کی منظوری دیدی۔ سربراہی جسٹس کاظم رضا شمسی کرینگے۔ کمیٹی میں جسٹس عالیہ نیلم، عائشہ ملک، محمود مقبول باجوہ ہوں گے۔اللہ پاک جسٹس منصور علی شاہ صاحب کو ہمت عطا فرمائے عوام نے اُن سے بہت سی اُمیدیں باندھ لی ہیں۔