طارق اسماعیل ساگر کی شخصیت کا اہم ترین پہلو۔ پاکستان سے محبت
صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ
طاررق اسماعیل ساگر ایک محب وطن قلمکار اور مجاہد کا نام ہے۔پاکستان کی جانب سے وطن عزیز کی حفاظت کے لیے قلمی جہاد کرنے والے ساگر صاحب نے خود انڈین قید کاٹی اور ایک جاسوس کی حثیت سے پاکستان کے لیے خود کو پیش کیے رکھا۔ ساگر صاحب وہ واحد قلمکار ہیں جن کو نسیم حجازی ثانی کہا جاسکتا ہے۔پاکستان سے محبت اول و آخر ساگر صاحب کی زندگی کا مرکز ومحور ہے۔ گزشتہ چار دہائیوں سے زائد عرصے سے ارض وطن پاکستان کے دفاع کے لیے قلمی محاذ پر ہمہ وقت تیار ساگر صاحب کا دل پاکستان کے موجودہ سیاسی و سماجی ماحول کڑھتا ہے۔ساگر صاحب کی تحریریں پڑھ کر پاکستان آرمی میں بھرتی ہونے والوں کی بڑی تعداد ہے۔ حضرت اقبالؒ سے محبت کرنے والے، صوم و صلوۃ کے پابند، ساگر صاحب پوری دنیا میں مانے جانے ناول نگار صحافی ہیں۔ آپ نے بے شمار ڈارمے لکھے، فلم بھی لکھی۔گذشتہ دنوں اُن کی خدمت میں پیش ہو کر اکتساب فیض کا موقع ملا۔ راقم کا تعلق ساگر صاحب سے 1983 سے ہے۔یوں اُن کے ساتھ تعلق کی بنیاد پاکستان سے محبت ، نبیﷺ سے محبت ہے۔بے شمار کتابوں کا خالق ہونے کے ناطے اور دبنگ صحافی ہونے کی وجہ سے اُن کے سامنے کو ئی نہیں ٹھر سکتا۔اُن کالم قومی اخبارات کی زینت بنتے ہیں ۔ تیس سال تک نوائے وقت میں کام کیا، جنگ میں بھی کچھ عرصہ رہے۔نیا جہان انٹرنیشنل میگزین کے نام سے حالات حاضرہ پر ایک ماہنامہ لاہور سے شائع کرتے ہیں۔اُن سے ملاقات میں اِس بات کا شدت سے احساس ہوا کہ پاکستان سے محبت کرنے والے اِس مخلص قلمکار کا دل پاکستانی سیاست کے کھلاڑیوں کی مکاربازیوں کی وجہ سے دکھی ہے۔میری گزارش پر فرمانے لگے میاں صاحب: اِس ملک کے حکمران پاکستان کی عوام کو اچھوت خیال کرتے ہیں۔ یہاں پر قبضہ گروپ چھائے ہوئے ہیں۔حکمران پاکستان کو اِس طرح کھارہے ہیں جس طرح یہ مال غنیمت کا لوٹا ہو ا مال ہے۔ساگر صاحب نے کمال محبت سے قبلہ پیرو مُرشد حضرت حکیم میاں محمد عنائت خان قادری نوشاہیؒ کا تذکرہ فرمایا۔ساگر صاحب قبلہ حکیم عنایتصاحبؒ سے کئی مرتبہ ملاقات فرما چکے تھے۔ کستان کی سرزمین کو جہاں دہشت گردی اور انتہا پسندی کا سامنا ہے ۔یہ درست ہے کی بھانت بھانت کی بولیا ں بولنے والے اِس وطن کی جڑوں کو کھو کھلا کر رہے ہیں یہ بھی درست ہے کہ ہمارا ازلی دُشمن بھارت اتنا مکار ہے کہ اِس کیحوالے سے ایک لمحے کے لیے بھی بھروسہ کرنا بے وقوفی کی انتہا ہے۔اِس شاطر دُشمن کے ہوتے ہوئے پاکستان کو دولخت ہونا پڑا اور اِس سارئے معاملے میں بھارت کا سو فیصد کردار تھا۔ اِس بات کا اظہار بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے بنگلہ دیش کی وزیراعظم کے پہلو میں بیٹھ کر کیا ہے کہ وہ بھی پاکستان کو دولخت کرنے والے میں پیش پیش تھا۔ دیکھیں ایک وزیر اعظم کا بیان دوسرئے ملک کی سلامتی کے حوالے سے۔ کہاں ہیں آداب سفارت کاری، کہاں ہیں روشن خیال لبرل فاشسٹ جو دن رات امن کی آشا کو لیے گھوم پھر رہے ہیں۔ کہاں ہیں وہ لوگ جو بھارت کے ساتھ تجارت کرنے کے لیے بے چین ہیں۔ستر سال گزرنے کے بعد بھی بھارت اپنے سے کئی گُنا چھوٹے ملک کو ہڑپ کرنے کے لیے تیار بیٹھا ہے۔ چند فی صد برہمن کو چھوڑ کر بھاتی تو کسی بھی دوسرئے کو انسان ماننے کے لیے تیار ہی نہیں ۔ حالیہ دنوں میں بھارت کے سابق آرمی چیف وی پی سنگھ کا ایک دلت لڑکے کی موت پر یہ بیان کہ وہ تو کتا تھا مر گیا تو کیا ہوا۔ کیا مطلب ہے؟۔ بھارت کے لیے سافٹ کارنر رکھنے والوں کی آنکھیں کھل نہیں سکیں ابھی تک کیا۔ اِس سارئے کھیل میں ایک شخص تنہا کھڑا ہے جو مادرِ وطن کے لیے اپنا تن من قربان کیے ہوئے ہے۔ میری مراد صحافی میدان میں قلم کے ساتھ جہاد میں مصروف طارق اسماعیل ساگر سے ہے۔ ساگر صاحب سے میرا تعلق اُس وقت سے ہے جب میں ابھی سکول میں زیر تعلیم تھا۔کہ میں نے اِنکا ناول میں ایک جاسوس تھاپڑھا۔ اُس کے بعد اِن کو خط لکھا انھوں نے کمال محبت سے اُس کا جواب دیا۔ پھر میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد میں انھیں نوائے وقت کے دفتر میں ملنے گیا۔ یوں عقیدت و احترام کا رشتہ گذشتہ 31 سالوں سے قائم دائم ہے۔ یوں اُن کی تحریریں پڑھ کر راقم کے دل میں پاک فوج اور وطن سے محبت کا جذبہ اپنے کمال عروج کو ہپنچا کہ پاکستان سے محبت میرا ایمان ہے۔ ساگر صاحب نے اپنے زندگی کا سار عرصہ قلمی جہاد کرتے ہوئے گزارا۔ کچھ عرصہ پہلے اُنھوں نے اپنی ایک سرگزشت وہ مجھے کھا گئے کے نام سے لکھی جس کے کچھ اقتباس راقم نے بھی ساگر ڈائجسٹ میں پڑھے۔ یقینی طو ر پر ایک صاف سچے کھرئے انسان کو معاشرئے میں اپنا کام کرنے کے لیے بہت سے مسائل کا سامناکرنا پڑتا ہے۔ یہ سب کچھ جناب ساگر صاحب کے ساتھ بھی ہواکہ وہ لوگ جو صحافت کے ٹھیکیدار بنے ہوئے ہیں ساگر صاحب کی سرگزشت پڑھنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ اُن کا اصل چہرہ کیا ہے۔ لیکن ساگر صاحب امیدکے راہی ہیں اُن کے ہاں مایوسی نہیں ہے۔ ساگر صاحب کی کتابیں نوجوان نسل میں اتنی مقبول ہیں کہ اپنی مثال آپ ہیں۔پاک فوج کے ساتھ ساگر صاحب کی محبت پاکستان سے محبت ہے کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ پاک فوج کی قربانیوں کا ذکر ساگر صاحب کے ناولوں اور کالموں میں بجا طور پر ملتا ہے۔ساگر صاحب کو مجھے بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ہے انتہائی نیک انسان ہیں اللہ پاک سے ڈرنے والے ہیں اور روایتی صحافت سے بہت دور ہیں۔ صوم و صلوۃ کے پابند ہیں اور اُن کا معاشی سٹیٹس دیکھ کر اندازہ ہوجاتا ہے کہ اتنا بڑا رائٹر خود کو رزقِ حلال کے ساتھ جورئے ہوئے ہے۔ مجھے اِن کے ساتھ سفر پر جانے کا تفاق ہوا وہ یوں کہ میرئے ماموں جان قبلہ حکیم عنائت خان قادری نوشاہی ؒ سے ملنے کا اشتیاق انھیں سرگودہا لے گیا۔ یوں وہ سفر میرئے لیے یادگار بن گیا کہ ساگر صاحب سے مجھے اکتساب فیض کا موقع ملا۔ اور انھوں نے مجھے اپنی ذاتی زندگی کی کہانی سنائی۔ پاکستان کے جاسوس۔ بھارت کی جیل سے فرار۔ مادر وطن کے لیے اپنے زندگی کو ہر طرح کی مشکلات میں ڈالے رکھا۔ ساگر صاحب یوسف زئی پٹھان ہیں یوں ساگر صاحب نے پاک وطن کی حرمت کے لیے واقعی ہمیشہ ایک بہادر سپاہی کا کردار ادا کیا ہے۔ تقریباً دو سال تک میری روزانہ اِن سے ملاقات رہی کہ ساگر صاحب کی بڑی بیٹی میری شاگرد رہیں۔اُنھیں پک کرنے اور ڈراپ کرنے کے لیے تشریف لاتے رہے اور میری اُن سے ملاقات رہی۔ میری یہ خوش قسمتی رہی کہ مجھے اُن سے اتنا قریب ہونے کا شرف حاصل رہا۔ قبلہ ماموں جان حکیم صاحبؒ کے ہمراہ بھی ساگر صاحب کے دولت کدئے پرجانے کا اتفاق ہوا۔میرئے چھوٹے بھائی میاں اکرم کی شادی میں ساگر صاحب اپنی تمام فیملی کے ساتھ تشریف لائے۔حضرت میاں وڈا صاحبؒ کے دربار شریف پر بھی اُنھوں نے حاضری دی۔میری یادیں ساگر صاحب کے حوالے سے اتنی زیادہ ہیں کہ اُنھیں ایک کالم میں سمونا ممکن نہیں ہے۔ ساگر صاحب نے بے شمار کتابیں لکھیں ہیں اُن کے حوالے سے کوئی بات کرنا مجھ ناچیز کے لیے ممکن نہیں ہے۔ میں ایک جاسوس تھا۔ کمانڈو، وادی لہو رنگ، را، بے شمار ناول، کتابیں ہیں جو کہ ہمارئے نوجوانوں کے لیے مشعل راہ ہیں۔ ہماری حکومت کو چاہیے کہ جناب ساگر صاحب جیسی شخصیت کے مقام کو سراہے اور اُن کی لازوال خدمات پر اُنھیں صدارتی تمغہ دئے۔ کیونکہ ساگر صاحب کھرئے انسان ہیںِ اس لیے اُن سے چاپلوسی نہیں ہوتی اور حکمرانوں کے کان تو ایسی باتیں پسند کرتے ہیں جو اُن کے کانوں کو بھلی لگیں۔ ساگر صاحب کی کتابوں سے اقتباسات کو ہمارئے تعلیمی نصاب کا حصہ بنایا جانا چاہیے۔ ساگر صاحب کی خدمات کو بطور سٹریٹجک اِنالسٹ لینا چاہیے۔ میرئے دُعا ہے کہ پاکستانی قوم کے اِس عظیم سپوت کو اللہ پاک عمر خضر عطا فرمائے۔ آمین۔
No comments:
Post a Comment