Thursday, 4 August 2016

........... بچوں کا اغوا ایک قومی المیہ ۔ خادم اعلیٰ حوصلہ کر ہی لیں ۔خادم اعلیٰ کے نام کھلا خط..............ابو عمران صاحبزادہ اشرف عاصمی ایڈووکیٹ




بچوں کا اغوا ایک قومی المیہ ۔ خادم اعلیٰ حوصلہ کر ہی لیں ۔
خادم اعلیٰ کے نام کھلا خط

ابو عمران صاحبزادہ اشرف عاصمی ایڈووکیٹ

لاہور سمیت پنجاب بھر میں بچوں کے اغوا کے جو ہوش اُڑا دینے والے واقعات پیش آرہے ہیں اُس کا اگر جائزہ لیا جائے تو یہ سانحہ پاک آرمی سکول پشاور کے سانحے سے بھی بڑا سانحہ ہے۔دہشت گردی کے خلاف جنگ کی بھاری قیمت پہلے سے ہی پوری قوم نے ادا کی ہے ۔ اِس وطن کے بچے ، بوڑھے مرد خواتین سب اِس مادر وطن پر قربان کر دئیے گئے۔ لیکن پاک فوج کی جانب سے بھر پور جنگ عضب جو لڑی گئی اُس کے نمایاں اثرات قوم نے دیکھے۔نواز شریف کی حکومت میں لمبے عرصے کے معاشی منصوبہ جات کی وجہ سے ملک کی معاشی حالت کے اشاریے بہتر ہیں۔ اورنج ٹرین،لاہور کراچی موٹر وئے، آئی ایم ایف کے چنگل سے رہائی، پاک چینہ اکنامک کاریڈور، پاک ترکی اکنامک کاریڈور۔بجلی کی پیداوار کے منصوبے سب کچھ عوام کو نظر آرہا ہے۔ لیکن عام آدمی کی حالت بہت خراب ہے ۔ مہنگائی پر کنٹرول نہ ہونا اور امن و عامہ کی صورتحال کی مخدوش صورتحال نے عا م آدمی کے ہوش اُڑا کے رکھ دیے ہیں۔گو نواز حکومت نے سیاسی طور پر کشمیر میں حالیہ کلین سویپ کی ذریعہ سے ایک مثبت پیغام دیا ہے۔عمران خان کی سیاست کو اُس کے جاگیر دار حواریوں اور روایتی مسترد شدہ سیاستدان ساتھیوں نے شدید نقصان پہنچایا ہے عمران کی حالت اب یہ ہے کہ نہ تو ایماپئرنے اُنگلی اُٹھائی ہے اور نہ عمران کا جنون کارگر ثابت ہوا ہے۔بلکہ عمران خان کی بلدیاتی انتخابات میں سیاسی پوزیشن کو بھی شدید دھچکا لگا ہے۔کشمیر میں بھارتی ظلم و ستم کے شدید تر ہوتے ہی پاکستان میں خصوصی طور پر لاہور میں جس طرح معصوم بچوں کو اغوا کیا جارہا ہے یہ بہت بڑا قومی المیہ ہے۔ گلی کوچے میں کھیلنے والے معصوم بچے اب کھیلنے کی بجائے گھروں میں دُبکے پڑئے ہوئے ہیں۔جن ماؤں کے لال اغوا ہوئے ہیں اُن کا حال صر ف اللہ پاک کی ہستی ہی جانتی ہے۔ پنجاب پولیس سٹیٹ بنا ہو ا ہے ایسا اب سے نہیں بلکہ تین دہائیوں سے ایسا ہے۔افسوس شہباز شریف جیسے باہمت اور محنتی انسان کے ہوتے ہوئے بھی پولیس کلچر تبدیل نہیں ہوسکا۔شہباز شریف کی ایمانداری پر کوئی شک نہیں لیکن جس ایمانداری کا فائدہ عوام الناس کو نہ پہنچے اُس لیڈر کی ایمانداری عوام کے لیے زحمت بن جاتی ہے۔ تھانے بکتے ہیں ایس ایچ او کی تعنیاتیاں سیاسی طور پر ہوتی ہیں۔ اِن حالات میں خاک پولیس نے کارکردگی دیکھانی ہے ۔ سی ایس پی آفیسرز جو معاشرئے کی پڑھی لکھی ہستیاں ہوتے ہیں وہ بھی اِس پولیس کلچر میں آکر اُسی طرح کی ہو جاتی ہیں جیسا پہلے سے چلتا آرہا ہے۔خادم اعلیٰ صاحب اب یہ بُت توڑ ہی ڈالیں کیونکہ آپ ایسا کر سکتے ہیں ۔ پولیس کو سیاست سے آزاد کریں۔ پولیس میں سفارش اور رشوت کا کلچر ختم کروائیں۔ پولیس میں بھرتیاں اور ٹرانسفر میرٹ پر کروائیں دیکھیں تو سہی یہ ہی پولیس کتنا اچھا رزلٹ دئے گی۔ صرف ڈولفن فورس کے یونیفارم پہن کر نتائج حاصل نہیں ہوسکتے اِس کے لیے وردیوں کو جن لوگوں نے پہن رکھا ہے اُن کی تربیت بھی کرنی چاہیے اور اُن کو ایسا ماحول دیا جانا چاہیے جس کی وجہ سے وہ اِس قابل ہوسکیں کہ وہ بہتر کارکردگی دیکھا سکیں۔ انگریز دور میں پولیس نظام چوکیداری نظام اور مالیہ اکھٹا کرنے کا نظام جو تھا وہ بہت بہر تھا۔غلامی کے دور میں قانون کی حکمرانی قائم تھی۔ لیکن آزادی کے دور میں قانون کی حکمرانی کا یہ عالم کے سپریم کورٹ لاہو رجسٹری میں بچوں کے اغوا کے ازخود نوٹس کے دوران راولا کوٹ کے ایک سنئیر سول جج پھوٹ پھوٹ کر رو پڑئے کہ اُن کے بیٹے کو اغوا ہوئے دو سال گذر چکے ہیں تاحال برآمد نہیں کیا جاسکا۔ایک ملزم پولیس نے پکڑ بھی رکھا ہے۔ حالیہ چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ کے بیٹے کا واقعہ سب کے سامنے ہے۔پولیس کو واقعی ایک جانباز فورس بنا کر ہی اِس سے رزلٹ لیا جاسکتا ہے۔دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید ہونے والے بچوں کے لاشے دیکھ کر ماں باپ کو صبر تو آگیا کہ وہ اب نہیں رہے۔ لیکن جن ماؤں کے لاڈلے اغوا کیے جارہے ہیں اُن کو صبر کیسے آئے گا۔خادم اعلیٰ صاحب پولیس کا محکمہ صوبائی سبجیکٹ ہے اِس لیے آپ فوری طور پر پولیس کو سیاسی رنگ بازوں کے چنگل سے آزاد کروائیں ۔ 


No comments:

Post a Comment