Monday, 8 August 2016

بلوچستان کے وکلاء کے لہو کی پکار۔مودی اُوباما گٹھ جوڑ مردہ آباد .................written by صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ


بلوچستان کے وکلاء کے لہو کی پکار۔مودی اُوباما گٹھ جوڑ 

مردہ آباد

صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ 

سوموار 8اگست 2016 کی صبح وکلاء برادری کے لیے انتہائی دُکھ بھری خبر نے افسردہ کردیا۔ قلم کتاب کے حامل قانون دان دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید کر دئیے گئے۔ پاکستانی معاشرئے میں دہشت گردی نے جس طرح پھن پھیلائے ہیں۔ امریکی افغانی اور بھارتی گٹھ جوڑ نے پاکستان کو لہو لہو کردیا ہے۔ پاک فوج کی عظیم قیادت نے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی بے باک قیادت میں ملک میں سے 80% دہشت گردی کو جڑ سے اُکھاڑ دیا ہے۔ لیکن چین پاکستان دوستی اور ترکی کا اپنے پاکستانی بھائیوں سے والہانہ پیار یہ عاملین ایسے ہیں کہ امریکہ بھارت اسرائیل کو چین نہیں لینے دے رہے۔ پاک چین اکنامک کاریڈور کو جس طرح پاک فوج نے حفاظتی حصار میں تکمیل کے مراحل سے گزارا ہے اور پاک ترک اکنامک کاریڈور بھی امریکہ بھارت اسرائیل کے لیے سوہانِ روح بنا ہوا ہے۔ دو دن پہلے امریکی جاسوس کی گرفتاری، چند ماہ پہلے بھارتی جاسوس کی گرفتاری۔ یہ ہیں وہ سب محرکات جنکی وجہ سے ملک کے امن کو تباہ برباد کیا جارہا ہے۔ بلوچستان بار کے صدر جناب بلال کاسی کی دہشت گردوں کے ہاتھو ں شہادت کے بعد ہسپتال پہنچنے والے وکلاء پر جس طرح بم دھماکہ کیا گیا اور فائرنگ کی گئی اُس سے وہاں موجود وکلاء کی شہادتیں ہوئی ہیں۔ لاہور ہائی کورٹ بار میں عین اُسی وقت اِس واقعے کی مذمتی قرارداد منظور کی گئی اور سپریم کورٹ بار نے ایک ہفتے کے لیے سوگ منانے کا اعلان کیا ہے۔ جس وحشیانہ انداز میں وکلاء کی ٹارگٹ کلنگ ہوئی ہے ۔ اِس سے یہ حقیقت عیاں ہے کہ وکلاء کو کتنی بے دردی سے شہید کیا گیا ہے۔ آرمی سکو ل پشاور میں معصوم فرشتوں کی شہادت کے بعد کوئٹہ میں وکلاء کی شہادت نے دل کو اتنا زخمی کردیا ہے کہ خون کے آنسو رو رہا ہے۔ پاکستان جیسے معاشرئے میں جہاں انصاف نام کی کوئی چیز نہیں عدالتیں کرپشن کا گڑھ ہیں وہاں اپنی جان ہتھیلی پہ رکھ کر سائلین کے لیے آواز اُٹھانے والے نہتے وکلاء کو جس بُری طرح صبح کے وقت دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا ۔اُس سے انسانیت کی عزت و تکریم کی دھیجیاں اُڑا دی گئی ہیں۔ پاکستان میں جس طرح دہشت گردی مسلط کی گئی ہے اُس کی مثال موجودہ نام نہاد مہذب دُنیا میں نہیں ملتی۔راقم لاہور ہائی کورٹ بار روم میں بیٹھا جب سانحہ کوئٹہ کی فوٹیج ٹی وی پر دیکھ رہا تھا اور جس طرح سے وہاں وکلاء کے بوٹ اِدھر اُدھر بکھرئے پڑئے تھے۔ وکلاء کے کوٹ بجلی کی تاروں سے چمٹے ہوئے لٹک رہے تھے۔ اِن روح فرسا مناظر نے بار روم میں تشریف فرماء وکلاء کوخون کے آنسو رُلادیا۔ ہمارئے ساتھی عظیم شیخ ایڈووکیٹ بھی بہت مضطرب نظر آئے۔ صدر بار اور سیکرٹری بار انس غازی دکھی دل کے ساتھ اِس المناک سانحے کے حوالے سے تفصیلات بتارہے تھے۔ شہزاد عمران رانا ایڈووکیٹ، فرہاد شاہ ، عرفان تارڑ ایڈووکیٹس انتہائی غمزہ تھے اور اِس دکھ میں دیگر وکلاء کے ساتھ شریک تھے۔ پاکستان میں جس طرح وکلا کی ٹارگٹ کلنگ ہوئی اِس سے بارہ مئی کے سانحہ کراچی کے دل خراش واقعے کی یاد دل میں عود آئی جب مشرف ایم کیو ایم گٹھ جوڑ کی وجہ سے نہتے وکلاء کو کراچی میں زندہ جلادیا گیا۔ ہائے ماؤں کے لال کس ظلم کی بھینت چڑھا دیے گئے۔ اللہ پاک اِن دہشت گردوں کو نیست و نابود فرمائے۔ پاکستانی میڈیا نے اِس سانحے کے حوالے سے زمہ دارانہ رویہ اختیار کیے رکھا۔وزیر اعظم نواز شریف، صدر مملکت چاروں وزراء اعلیٰ، گورنرز، چیف آف آرمی سٹاف سیاستدانوں سماجی شخصیات نے اس سانحے پر گہرئے افسوس کا اظہار کیا ہے۔ جب سے مودی سرکار آئی ہے پاکستان میں دہشت گردی کو بہت زیادہ ہوا ملی ہے۔ مودی اوباما، اشرف غنی ۔ اِن کرداروں نے پاکستان میں دہشت گردی کو مسلسل ہوا دے رکھی ہے ۔رانا سجاد شیخ،احسان رندھاوا ایڈووکیٹس شہید وکلا کے غم میں مضطرب نظر آئے۔ راقم کو ہائی کورٹ لاہور کے در دیوار انتہائی دکھی محسوس ہورہے تھے ۔اے کاش یہ واقعہ نہ ہوا ہوتا۔ ماؤں سے اُن کے بیٹے ، بہنوں سے اُن کے بھائی، بچوں سے اُن کے باپ اور سہاگنوں کے سر سے اُن کے سرتاج چھن گئے۔پاکستانی سوسائٹی میں جس طرح دہشت پھیلائی گئی ہے اِس سے یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ پاکستان کے دُشمن پاکستان کی سالمیت کے خلاف جس طرح دن رات کیے ہوئے ہیں۔ پاک فوج کے جوان و افسران اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر رہے اور مادر وطن پہ قربان ہورہے ہیں۔ پاکستان کی آزادی کے لیے بے شمار قربانیاں دی گئیں اب استحکام پاکستان کے لیے سول سوسائٹی فوج وکلاء ڈاکٹرز طالب علم سب قربان ہو رہے ہیں۔ وکلاء جن کے ہاتھوں میں قلم کتاب ہے زندگی کو اتنا غنیمت نہیں مانتے کے عہد کم ظرف کے آگے جھک جائیں۔ انشا اللہ ایک دن آئے گا حالات بدل جائیں گے اور دہشت گردی کے یہ بت پگھل جائیں گے۔ 

No comments:

Post a Comment