Monday, 15 August 2016

تحریک آزادی کشمیر زندگی اور موت کی جنگ................ صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ ہائی کورٹ




تحریک آزادی کشمیر زندگی اور موت کی جنگ
صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ ہائی کورٹ

کشمیر کی آزادی کے حوالے سے ایک بھرپور بریفنگ کا اہتمام تھا۔ اِس بریفنگ میں ورلڈ کالمسٹ کلب کے عہدیداران اور سپریم کونسل کے ممبران کالم نگار شریک ہوئے۔لاہور شہر میں قیام پذیر نامور کالم نگاروں کے درمیان بندہ ناچیز بھی بطور ممبر سپریم کونسل آف ورلڈ کالمسٹ کلب شریک محفل تھا۔کشمیر میں ڈھائے جانے والے مظالم اور عالمی سطع پر اِس حوالے سے ہونے والے رد عمل پر بریفنگ میں جو ذکر کشمیریوں پر ڈھائے جانے والاظلم و ستم کا ہوا اور ملٹی میڈیا کے ذریعہ سے کشمیری مجاہدین کے انٹرویوز، کشمیری رہنماؤں کی تقاریر جو سننے کو ملیں۔ اِن سب کچھ کے سُننے کے بعد اور وڈیوز دیکھنے کے بعد آنکھیں بھیگ چکی تھیں۔اِیسا میرئے ساتھ ہی نہیں تھا۔روزنامہ جنگ کے کالم نگار جناب فاروق چوہان بھی درمندی کے ساتھ کشمیر میں ڈھائے جانے والے ظلم کے خلاف اپنے جذبات کا اظہار فرما رہے تھے۔جناب سردار مراد خان ایڈیٹر روزنامہ بیتاب بھی کشمیر کے حوالے سے دُکھی دیکھائی دئے رہے تھے۔جناب ناصر اقبال خان اور حافظ شفیق الرحمان جو کہ ورلڈکالمسٹ کلب کے قائدین ہیں اُن کی گفتگو سے بھی انتہا کا درد جھلک رہا تھا۔بندہ ناچیز کی وابستگی انجمن طلبہ ء اسلام کے ساتھ رہی ہے اور زمانہ طالب علمی میں تحریک آزادی کشمیر کے عظیم رہنماء جناب سید شبیر شاہ کی تگ وتاز میں بندہ ناچیز اور میرئے دوست جناب جاوید مصطفائی ہمرکاب رہے اور سید شبیرشاہ کے لٹریچر کی ترسیل اپنے طالب علم ساتھیوں میں کالج میں کرتے رہے۔برسوں سے کشمیریوں کے ساتھ یک جہتی کے لیے ہر سال پاکستان میں5 فروی کو دن منایا جاتا ہے۔پاکستانی حکمران اشرافیہ کو ہندوستان سے دوستی اور تجارت کی فکر لاحق رہتی ہے۔ اِس لیے اِس طرح کے ایام منانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوا ۔نہ تو عالمی برادری پر کوئی اِس کا اثر کروانے میں پاکستان کامیاب ہوا ہے اور نہ ہی پاکستان کے اندر کشمیر کی آزادی کے حوالے ے حکومت اپنا قبلہ درست کرسکی ہے۔کشمیر کی آزادی کے لیے جنگ لڑنے والے ایک مجاہد نے جب ہمیں موجودہ حالات کے حوالے سے اپنے جذبات کا اظہار کیا یقین جانیے بندہ ناچیز کو انتہائی دکھ ہوا کہ ہمارئے حکمران کشمیر کو آزاد کروانے کے لیے ستر سالوں سے کچھ بھی نہیں کر پائے۔ بریفنگ میں ایک مجاہد نے بتایا کہ حضرت قائد اعظم ؒ نے کشمیر کے حوالے سے کہا تھا کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔قائد اعظمؒ نے اُس وقت کے پاکستانی فوج کے چیف کو حکم دیا تھا کہ وہ کشمیر کو آزاد کروانے کے لیے پاکستانی فوج کو کشمیر میں لے جائے ۔لیکن وہ جرنیل جنرل گریسی انگریز تھا اُس نے اپنے ہی گورنر جنرل کا حکم ماننے سے انکار کردیا تھا۔کشمیر کی اندر حق خود ارادیت کے لیے کشمیری اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں اور بھارت ڈھٹائی کے ساتھ پوری دُنیا کی آنکھوں میں دھول جھونک رہا ہے۔حال ہی میں تحریک آزادی کشمیر میں تیزی کی لہر کو پس پشت ڈالنے کے لیے بھارتی را ء نے کوئٹہ میں بدترین قسم کی دہشت گردی کا ارتکاب کیا اور وہاں وکلاء صحافیوں ایک جج صاحب ایک ڈاکٹر اور دیگر لوگوں کو شہید کردیا گیا۔ملٹی میڈیا پر جس طرح کشمیری عوام کے جذبات کی عکاسی ہوئی اور پاکستان کے ساتھ الحاق کے حوالے سے اُن کی تڑپ دیکھنے کو نظر آئی۔ اِس کے بعد راقم مزید رنجیدہ ہوگیا کہ اے کاش ہم نے پاکستان کی قدر کی ہوتی۔ہندووں کے ظلم وستم سہتے سہتے کشمیریوں کی کئی نسلیں قبروں میں چلی گئی ہیں لیکن کشمیریوں کے پائے استقلال میں کوئی لغزش نہیں آئی۔ہر صبح طلوح ہونے والا سورج کشمیریوں کے جذبہ حریت میں اضافہ کرتا چلا جارہا ہے۔ناقدین کہتے ہیں کہ ہم مشرقی پاکستان گنوا بیٹھے ہیں کشمیر کیسے حاصل کر پائیں گے۔مشرقی پاکستان کا مغربی پاکستانی کے ساتھ جغرافیائی راستہ نہ تھا۔ اور ہندوستان پہلے دن سے سازش کر رہا تھا کہ مشرقی پاکستان کو علحیدہ کردیا جائے۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے بنگلہ دیشی وزیر اعظم حسینہ واجد کے ساتھ بیٹھ کر اعترافِ گناہ کیا تھا کہ ہاں پاکستان کو توڑنے والوں میں میں بھی شامل تھا۔کشمیر پاکستان کا اٹوٹ انگ ہے۔کشمیر پاکستان کے ساتھ جُڑا ہوا ہے۔ پاکستان مین دریا وں کا پانی کشمیر کے رستوں سے آتا ہے۔ کشمیریوں پرڈھائے جانے والے ظلم کے تذکرئے کے بعد محسوس ہو رہا تھا کہ آزادی کتنی بڑی نعمت ہے۔کشمیر میں معیشت تباہ ہوچکی ہے۔سہاگنوں کے سہاگ لٹ چکے ہیں ۔بچے یتیم ہے۔ ماؤں کے لال منوں مٹی میں جا سکے ہیں۔اِس لیے پاکستان کے اربابِ اقتدار یہ بات اپنے دماغ میں بٹھائیں کہ کشمیر کی آزادی کو اپنی ذات انا کی بھینت نہ چڑھائیں۔فوج بطور ایک ادارہ پاکستان کی سالمیت کا محافظ ہے۔ اِس لیے پاک فوج کے خلاف حکومتی حلیف سیاستدانوں کی جانب سے ہرزہ سرائی کا کیا مطلب ہے۔ اچکزئی اور فضل الرحمان کس کی زبان بول رہے ہیں۔ قومی اسمبلی کی کشمیر کمیٹی کی چےئرمین شپ سیاسی رشوت کے طور پر ایک ایسے شخص کو دی ہوئی ہے جس کا کہنا ہے کہ خدا کا شکر ہے کہ ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شریک نہ تھے۔کانگرسی علماء کے ہمنوا پیٹرو اسلام کے حامل نام نہاد پاکستانی مذہبی جماعتوں کے مُلاء جہاد کشمیر کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔انشا ء اللہ کشمیر بنے گا پاکستان۔ زمانہ طالب علمی سے میرئے قائد لاکھوں دلوں کی دھڑکن انجمن طلبہ ء اسلام کے سابق مرکزی صدر جناب ڈاکٹڑظفر اقبال نوری جو التجاء نبی پاکﷺ کی بارگا میں کرتے ہیں وہی الفاظ میں دھرانے لگا ہوں۔ یا رسولِ ہاشمیؒ ۔کرم کی ہو نگاہ۔ ہر محاذ پر کامران ہوں یہ سپاہ۔ 



نبی پاکﷺ کی بارگا میں ........................Written By Ashraf ASmi


Monday, 8 August 2016

بلوچستان کے وکلاء کے لہو کی پکار۔مودی اُوباما گٹھ جوڑ مردہ آباد .................written by صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ


بلوچستان کے وکلاء کے لہو کی پکار۔مودی اُوباما گٹھ جوڑ 

مردہ آباد

صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ 

سوموار 8اگست 2016 کی صبح وکلاء برادری کے لیے انتہائی دُکھ بھری خبر نے افسردہ کردیا۔ قلم کتاب کے حامل قانون دان دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید کر دئیے گئے۔ پاکستانی معاشرئے میں دہشت گردی نے جس طرح پھن پھیلائے ہیں۔ امریکی افغانی اور بھارتی گٹھ جوڑ نے پاکستان کو لہو لہو کردیا ہے۔ پاک فوج کی عظیم قیادت نے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی بے باک قیادت میں ملک میں سے 80% دہشت گردی کو جڑ سے اُکھاڑ دیا ہے۔ لیکن چین پاکستان دوستی اور ترکی کا اپنے پاکستانی بھائیوں سے والہانہ پیار یہ عاملین ایسے ہیں کہ امریکہ بھارت اسرائیل کو چین نہیں لینے دے رہے۔ پاک چین اکنامک کاریڈور کو جس طرح پاک فوج نے حفاظتی حصار میں تکمیل کے مراحل سے گزارا ہے اور پاک ترک اکنامک کاریڈور بھی امریکہ بھارت اسرائیل کے لیے سوہانِ روح بنا ہوا ہے۔ دو دن پہلے امریکی جاسوس کی گرفتاری، چند ماہ پہلے بھارتی جاسوس کی گرفتاری۔ یہ ہیں وہ سب محرکات جنکی وجہ سے ملک کے امن کو تباہ برباد کیا جارہا ہے۔ بلوچستان بار کے صدر جناب بلال کاسی کی دہشت گردوں کے ہاتھو ں شہادت کے بعد ہسپتال پہنچنے والے وکلاء پر جس طرح بم دھماکہ کیا گیا اور فائرنگ کی گئی اُس سے وہاں موجود وکلاء کی شہادتیں ہوئی ہیں۔ لاہور ہائی کورٹ بار میں عین اُسی وقت اِس واقعے کی مذمتی قرارداد منظور کی گئی اور سپریم کورٹ بار نے ایک ہفتے کے لیے سوگ منانے کا اعلان کیا ہے۔ جس وحشیانہ انداز میں وکلاء کی ٹارگٹ کلنگ ہوئی ہے ۔ اِس سے یہ حقیقت عیاں ہے کہ وکلاء کو کتنی بے دردی سے شہید کیا گیا ہے۔ آرمی سکو ل پشاور میں معصوم فرشتوں کی شہادت کے بعد کوئٹہ میں وکلاء کی شہادت نے دل کو اتنا زخمی کردیا ہے کہ خون کے آنسو رو رہا ہے۔ پاکستان جیسے معاشرئے میں جہاں انصاف نام کی کوئی چیز نہیں عدالتیں کرپشن کا گڑھ ہیں وہاں اپنی جان ہتھیلی پہ رکھ کر سائلین کے لیے آواز اُٹھانے والے نہتے وکلاء کو جس بُری طرح صبح کے وقت دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا ۔اُس سے انسانیت کی عزت و تکریم کی دھیجیاں اُڑا دی گئی ہیں۔ پاکستان میں جس طرح دہشت گردی مسلط کی گئی ہے اُس کی مثال موجودہ نام نہاد مہذب دُنیا میں نہیں ملتی۔راقم لاہور ہائی کورٹ بار روم میں بیٹھا جب سانحہ کوئٹہ کی فوٹیج ٹی وی پر دیکھ رہا تھا اور جس طرح سے وہاں وکلاء کے بوٹ اِدھر اُدھر بکھرئے پڑئے تھے۔ وکلاء کے کوٹ بجلی کی تاروں سے چمٹے ہوئے لٹک رہے تھے۔ اِن روح فرسا مناظر نے بار روم میں تشریف فرماء وکلاء کوخون کے آنسو رُلادیا۔ ہمارئے ساتھی عظیم شیخ ایڈووکیٹ بھی بہت مضطرب نظر آئے۔ صدر بار اور سیکرٹری بار انس غازی دکھی دل کے ساتھ اِس المناک سانحے کے حوالے سے تفصیلات بتارہے تھے۔ شہزاد عمران رانا ایڈووکیٹ، فرہاد شاہ ، عرفان تارڑ ایڈووکیٹس انتہائی غمزہ تھے اور اِس دکھ میں دیگر وکلاء کے ساتھ شریک تھے۔ پاکستان میں جس طرح وکلا کی ٹارگٹ کلنگ ہوئی اِس سے بارہ مئی کے سانحہ کراچی کے دل خراش واقعے کی یاد دل میں عود آئی جب مشرف ایم کیو ایم گٹھ جوڑ کی وجہ سے نہتے وکلاء کو کراچی میں زندہ جلادیا گیا۔ ہائے ماؤں کے لال کس ظلم کی بھینت چڑھا دیے گئے۔ اللہ پاک اِن دہشت گردوں کو نیست و نابود فرمائے۔ پاکستانی میڈیا نے اِس سانحے کے حوالے سے زمہ دارانہ رویہ اختیار کیے رکھا۔وزیر اعظم نواز شریف، صدر مملکت چاروں وزراء اعلیٰ، گورنرز، چیف آف آرمی سٹاف سیاستدانوں سماجی شخصیات نے اس سانحے پر گہرئے افسوس کا اظہار کیا ہے۔ جب سے مودی سرکار آئی ہے پاکستان میں دہشت گردی کو بہت زیادہ ہوا ملی ہے۔ مودی اوباما، اشرف غنی ۔ اِن کرداروں نے پاکستان میں دہشت گردی کو مسلسل ہوا دے رکھی ہے ۔رانا سجاد شیخ،احسان رندھاوا ایڈووکیٹس شہید وکلا کے غم میں مضطرب نظر آئے۔ راقم کو ہائی کورٹ لاہور کے در دیوار انتہائی دکھی محسوس ہورہے تھے ۔اے کاش یہ واقعہ نہ ہوا ہوتا۔ ماؤں سے اُن کے بیٹے ، بہنوں سے اُن کے بھائی، بچوں سے اُن کے باپ اور سہاگنوں کے سر سے اُن کے سرتاج چھن گئے۔پاکستانی سوسائٹی میں جس طرح دہشت پھیلائی گئی ہے اِس سے یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ پاکستان کے دُشمن پاکستان کی سالمیت کے خلاف جس طرح دن رات کیے ہوئے ہیں۔ پاک فوج کے جوان و افسران اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر رہے اور مادر وطن پہ قربان ہورہے ہیں۔ پاکستان کی آزادی کے لیے بے شمار قربانیاں دی گئیں اب استحکام پاکستان کے لیے سول سوسائٹی فوج وکلاء ڈاکٹرز طالب علم سب قربان ہو رہے ہیں۔ وکلاء جن کے ہاتھوں میں قلم کتاب ہے زندگی کو اتنا غنیمت نہیں مانتے کے عہد کم ظرف کے آگے جھک جائیں۔ انشا اللہ ایک دن آئے گا حالات بدل جائیں گے اور دہشت گردی کے یہ بت پگھل جائیں گے۔ 

Thursday, 4 August 2016

........... بچوں کا اغوا ایک قومی المیہ ۔ خادم اعلیٰ حوصلہ کر ہی لیں ۔خادم اعلیٰ کے نام کھلا خط..............ابو عمران صاحبزادہ اشرف عاصمی ایڈووکیٹ




بچوں کا اغوا ایک قومی المیہ ۔ خادم اعلیٰ حوصلہ کر ہی لیں ۔
خادم اعلیٰ کے نام کھلا خط

ابو عمران صاحبزادہ اشرف عاصمی ایڈووکیٹ

لاہور سمیت پنجاب بھر میں بچوں کے اغوا کے جو ہوش اُڑا دینے والے واقعات پیش آرہے ہیں اُس کا اگر جائزہ لیا جائے تو یہ سانحہ پاک آرمی سکول پشاور کے سانحے سے بھی بڑا سانحہ ہے۔دہشت گردی کے خلاف جنگ کی بھاری قیمت پہلے سے ہی پوری قوم نے ادا کی ہے ۔ اِس وطن کے بچے ، بوڑھے مرد خواتین سب اِس مادر وطن پر قربان کر دئیے گئے۔ لیکن پاک فوج کی جانب سے بھر پور جنگ عضب جو لڑی گئی اُس کے نمایاں اثرات قوم نے دیکھے۔نواز شریف کی حکومت میں لمبے عرصے کے معاشی منصوبہ جات کی وجہ سے ملک کی معاشی حالت کے اشاریے بہتر ہیں۔ اورنج ٹرین،لاہور کراچی موٹر وئے، آئی ایم ایف کے چنگل سے رہائی، پاک چینہ اکنامک کاریڈور، پاک ترکی اکنامک کاریڈور۔بجلی کی پیداوار کے منصوبے سب کچھ عوام کو نظر آرہا ہے۔ لیکن عام آدمی کی حالت بہت خراب ہے ۔ مہنگائی پر کنٹرول نہ ہونا اور امن و عامہ کی صورتحال کی مخدوش صورتحال نے عا م آدمی کے ہوش اُڑا کے رکھ دیے ہیں۔گو نواز حکومت نے سیاسی طور پر کشمیر میں حالیہ کلین سویپ کی ذریعہ سے ایک مثبت پیغام دیا ہے۔عمران خان کی سیاست کو اُس کے جاگیر دار حواریوں اور روایتی مسترد شدہ سیاستدان ساتھیوں نے شدید نقصان پہنچایا ہے عمران کی حالت اب یہ ہے کہ نہ تو ایماپئرنے اُنگلی اُٹھائی ہے اور نہ عمران کا جنون کارگر ثابت ہوا ہے۔بلکہ عمران خان کی بلدیاتی انتخابات میں سیاسی پوزیشن کو بھی شدید دھچکا لگا ہے۔کشمیر میں بھارتی ظلم و ستم کے شدید تر ہوتے ہی پاکستان میں خصوصی طور پر لاہور میں جس طرح معصوم بچوں کو اغوا کیا جارہا ہے یہ بہت بڑا قومی المیہ ہے۔ گلی کوچے میں کھیلنے والے معصوم بچے اب کھیلنے کی بجائے گھروں میں دُبکے پڑئے ہوئے ہیں۔جن ماؤں کے لال اغوا ہوئے ہیں اُن کا حال صر ف اللہ پاک کی ہستی ہی جانتی ہے۔ پنجاب پولیس سٹیٹ بنا ہو ا ہے ایسا اب سے نہیں بلکہ تین دہائیوں سے ایسا ہے۔افسوس شہباز شریف جیسے باہمت اور محنتی انسان کے ہوتے ہوئے بھی پولیس کلچر تبدیل نہیں ہوسکا۔شہباز شریف کی ایمانداری پر کوئی شک نہیں لیکن جس ایمانداری کا فائدہ عوام الناس کو نہ پہنچے اُس لیڈر کی ایمانداری عوام کے لیے زحمت بن جاتی ہے۔ تھانے بکتے ہیں ایس ایچ او کی تعنیاتیاں سیاسی طور پر ہوتی ہیں۔ اِن حالات میں خاک پولیس نے کارکردگی دیکھانی ہے ۔ سی ایس پی آفیسرز جو معاشرئے کی پڑھی لکھی ہستیاں ہوتے ہیں وہ بھی اِس پولیس کلچر میں آکر اُسی طرح کی ہو جاتی ہیں جیسا پہلے سے چلتا آرہا ہے۔خادم اعلیٰ صاحب اب یہ بُت توڑ ہی ڈالیں کیونکہ آپ ایسا کر سکتے ہیں ۔ پولیس کو سیاست سے آزاد کریں۔ پولیس میں سفارش اور رشوت کا کلچر ختم کروائیں۔ پولیس میں بھرتیاں اور ٹرانسفر میرٹ پر کروائیں دیکھیں تو سہی یہ ہی پولیس کتنا اچھا رزلٹ دئے گی۔ صرف ڈولفن فورس کے یونیفارم پہن کر نتائج حاصل نہیں ہوسکتے اِس کے لیے وردیوں کو جن لوگوں نے پہن رکھا ہے اُن کی تربیت بھی کرنی چاہیے اور اُن کو ایسا ماحول دیا جانا چاہیے جس کی وجہ سے وہ اِس قابل ہوسکیں کہ وہ بہتر کارکردگی دیکھا سکیں۔ انگریز دور میں پولیس نظام چوکیداری نظام اور مالیہ اکھٹا کرنے کا نظام جو تھا وہ بہت بہر تھا۔غلامی کے دور میں قانون کی حکمرانی قائم تھی۔ لیکن آزادی کے دور میں قانون کی حکمرانی کا یہ عالم کے سپریم کورٹ لاہو رجسٹری میں بچوں کے اغوا کے ازخود نوٹس کے دوران راولا کوٹ کے ایک سنئیر سول جج پھوٹ پھوٹ کر رو پڑئے کہ اُن کے بیٹے کو اغوا ہوئے دو سال گذر چکے ہیں تاحال برآمد نہیں کیا جاسکا۔ایک ملزم پولیس نے پکڑ بھی رکھا ہے۔ حالیہ چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ کے بیٹے کا واقعہ سب کے سامنے ہے۔پولیس کو واقعی ایک جانباز فورس بنا کر ہی اِس سے رزلٹ لیا جاسکتا ہے۔دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید ہونے والے بچوں کے لاشے دیکھ کر ماں باپ کو صبر تو آگیا کہ وہ اب نہیں رہے۔ لیکن جن ماؤں کے لاڈلے اغوا کیے جارہے ہیں اُن کو صبر کیسے آئے گا۔خادم اعلیٰ صاحب پولیس کا محکمہ صوبائی سبجیکٹ ہے اِس لیے آپ فوری طور پر پولیس کو سیاسی رنگ بازوں کے چنگل سے آزاد کروائیں ۔ 


Monday, 1 August 2016

طارق اسماعیل ساگر کی شخصیت کا اہم ترین پہلو۔ پاکستان سے محبت...Written by صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ

طارق اسماعیل ساگر کی شخصیت کا اہم ترین پہلو۔ پاکستان سے محبت

صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ










طاررق اسماعیل ساگر ایک محب وطن قلمکار اور مجاہد کا نام ہے۔پاکستان کی جانب سے وطن عزیز کی حفاظت کے لیے قلمی جہاد کرنے والے ساگر صاحب نے خود انڈین قید کاٹی اور ایک جاسوس کی حثیت سے پاکستان کے لیے خود کو پیش کیے رکھا۔ ساگر صاحب وہ واحد قلمکار ہیں جن کو نسیم حجازی ثانی کہا جاسکتا ہے۔پاکستان سے محبت اول و آخر ساگر صاحب کی زندگی کا مرکز ومحور ہے۔ گزشتہ چار دہائیوں سے زائد عرصے سے ارض وطن پاکستان کے دفاع کے لیے قلمی محاذ پر ہمہ وقت تیار ساگر صاحب کا دل پاکستان کے موجودہ سیاسی و سماجی ماحول کڑھتا ہے۔ساگر صاحب کی تحریریں پڑھ کر پاکستان آرمی میں بھرتی ہونے والوں کی بڑی تعداد ہے۔ حضرت اقبالؒ سے محبت کرنے والے، صوم و صلوۃ کے پابند، ساگر صاحب پوری دنیا میں مانے جانے ناول نگار صحافی ہیں۔ آپ نے بے شمار ڈارمے لکھے، فلم بھی لکھی۔گذشتہ دنوں اُن کی خدمت میں پیش ہو کر اکتساب فیض کا موقع ملا۔ راقم کا تعلق ساگر صاحب سے 1983 سے ہے۔یوں اُن کے ساتھ تعلق کی بنیاد پاکستان سے محبت ، نبیﷺ سے محبت ہے۔بے شمار کتابوں کا خالق ہونے کے ناطے اور دبنگ صحافی ہونے کی وجہ سے اُن کے سامنے کو ئی نہیں ٹھر سکتا۔اُن کالم قومی اخبارات کی زینت بنتے ہیں ۔ تیس سال تک نوائے وقت میں کام کیا، جنگ میں بھی کچھ عرصہ رہے۔نیا جہان انٹرنیشنل میگزین کے نام سے حالات حاضرہ پر ایک ماہنامہ لاہور سے شائع کرتے ہیں۔اُن سے ملاقات میں اِس بات کا شدت سے احساس ہوا کہ پاکستان سے محبت کرنے والے اِس مخلص قلمکار کا دل پاکستانی سیاست کے کھلاڑیوں کی مکاربازیوں کی وجہ سے دکھی ہے۔میری گزارش پر فرمانے لگے میاں صاحب: اِس ملک کے حکمران پاکستان کی عوام کو اچھوت خیال کرتے ہیں۔ یہاں پر قبضہ گروپ چھائے ہوئے ہیں۔حکمران پاکستان کو اِس طرح کھارہے ہیں جس طرح یہ مال غنیمت کا لوٹا ہو ا مال ہے۔ساگر صاحب نے کمال محبت سے قبلہ پیرو مُرشد حضرت حکیم میاں محمد عنائت خان قادری نوشاہیؒ کا تذکرہ فرمایا۔ساگر صاحب قبلہ حکیم عنایتصاحبؒ سے کئی مرتبہ ملاقات فرما چکے تھے۔ کستان کی سرزمین کو جہاں دہشت گردی اور انتہا پسندی کا سامنا ہے ۔یہ درست ہے کی بھانت بھانت کی بولیا ں بولنے والے اِس وطن کی جڑوں کو کھو کھلا کر رہے ہیں یہ بھی درست ہے کہ ہمارا ازلی دُشمن بھارت اتنا مکار ہے کہ اِس کیحوالے سے ایک لمحے کے لیے بھی بھروسہ کرنا بے وقوفی کی انتہا ہے۔اِس شاطر دُشمن کے ہوتے ہوئے پاکستان کو دولخت ہونا پڑا اور اِس سارئے معاملے میں بھارت کا سو فیصد کردار تھا۔ اِس بات کا اظہار بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے بنگلہ دیش کی وزیراعظم کے پہلو میں بیٹھ کر کیا ہے کہ وہ بھی پاکستان کو دولخت کرنے والے میں پیش پیش تھا۔ دیکھیں ایک وزیر اعظم کا بیان دوسرئے ملک کی سلامتی کے حوالے سے۔ کہاں ہیں آداب سفارت کاری، کہاں ہیں روشن خیال لبرل فاشسٹ جو دن رات امن کی آشا کو لیے گھوم پھر رہے ہیں۔ کہاں ہیں وہ لوگ جو بھارت کے ساتھ تجارت کرنے کے لیے بے چین ہیں۔ستر سال گزرنے کے بعد بھی بھارت اپنے سے کئی گُنا چھوٹے ملک کو ہڑپ کرنے کے لیے تیار بیٹھا ہے۔ چند فی صد برہمن کو چھوڑ کر بھاتی تو کسی بھی دوسرئے کو انسان ماننے کے لیے تیار ہی نہیں ۔ حالیہ دنوں میں بھارت کے سابق آرمی چیف وی پی سنگھ کا ایک دلت لڑکے کی موت پر یہ بیان کہ وہ تو کتا تھا مر گیا تو کیا ہوا۔ کیا مطلب ہے؟۔ بھارت کے لیے سافٹ کارنر رکھنے والوں کی آنکھیں کھل نہیں سکیں ابھی تک کیا۔ اِس سارئے کھیل میں ایک شخص تنہا کھڑا ہے جو مادرِ وطن کے لیے اپنا تن من قربان کیے ہوئے ہے۔ میری مراد صحافی میدان میں قلم کے ساتھ جہاد میں مصروف طارق اسماعیل ساگر سے ہے۔ ساگر صاحب سے میرا تعلق اُس وقت سے ہے جب میں ابھی سکول میں زیر تعلیم تھا۔کہ میں نے اِنکا ناول میں ایک جاسوس تھاپڑھا۔ اُس کے بعد اِن کو خط لکھا انھوں نے کمال محبت سے اُس کا جواب دیا۔ پھر میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد میں انھیں نوائے وقت کے دفتر میں ملنے گیا۔ یوں عقیدت و احترام کا رشتہ گذشتہ 31 سالوں سے قائم دائم ہے۔ یوں اُن کی تحریریں پڑھ کر راقم کے دل میں پاک فوج اور وطن سے محبت کا جذبہ اپنے کمال عروج کو ہپنچا کہ پاکستان سے محبت میرا ایمان ہے۔ ساگر صاحب نے اپنے زندگی کا سار عرصہ قلمی جہاد کرتے ہوئے گزارا۔ کچھ عرصہ پہلے اُنھوں نے اپنی ایک سرگزشت وہ مجھے کھا گئے کے نام سے لکھی جس کے کچھ اقتباس راقم نے بھی ساگر ڈائجسٹ میں پڑھے۔ یقینی طو ر پر ایک صاف سچے کھرئے انسان کو معاشرئے میں اپنا کام کرنے کے لیے بہت سے مسائل کا سامناکرنا پڑتا ہے۔ یہ سب کچھ جناب ساگر صاحب کے ساتھ بھی ہواکہ وہ لوگ جو صحافت کے ٹھیکیدار بنے ہوئے ہیں ساگر صاحب کی سرگزشت پڑھنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ اُن کا اصل چہرہ کیا ہے۔ لیکن ساگر صاحب امیدکے راہی ہیں اُن کے ہاں مایوسی نہیں ہے۔ ساگر صاحب کی کتابیں نوجوان نسل میں اتنی مقبول ہیں کہ اپنی مثال آپ ہیں۔پاک فوج کے ساتھ ساگر صاحب کی محبت پاکستان سے محبت ہے کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ پاک فوج کی قربانیوں کا ذکر ساگر صاحب کے ناولوں اور کالموں میں بجا طور پر ملتا ہے۔ساگر صاحب کو مجھے بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ہے انتہائی نیک انسان ہیں اللہ پاک سے ڈرنے والے ہیں اور روایتی صحافت سے بہت دور ہیں۔ صوم و صلوۃ کے پابند ہیں اور اُن کا معاشی سٹیٹس دیکھ کر اندازہ ہوجاتا ہے کہ اتنا بڑا رائٹر خود کو رزقِ حلال کے ساتھ جورئے ہوئے ہے۔ مجھے اِن کے ساتھ سفر پر جانے کا تفاق ہوا وہ یوں کہ میرئے ماموں جان قبلہ حکیم عنائت خان قادری نوشاہی ؒ سے ملنے کا اشتیاق انھیں سرگودہا لے گیا۔ یوں وہ سفر میرئے لیے یادگار بن گیا کہ ساگر صاحب سے مجھے اکتساب فیض کا موقع ملا۔ اور انھوں نے مجھے اپنی ذاتی زندگی کی کہانی سنائی۔ پاکستان کے جاسوس۔ بھارت کی جیل سے فرار۔ مادر وطن کے لیے اپنے زندگی کو ہر طرح کی مشکلات میں ڈالے رکھا۔ ساگر صاحب یوسف زئی پٹھان ہیں یوں ساگر صاحب نے پاک وطن کی حرمت کے لیے واقعی ہمیشہ ایک بہادر سپاہی کا کردار ادا کیا ہے۔ تقریباً دو سال تک میری روزانہ اِن سے ملاقات رہی کہ ساگر صاحب کی بڑی بیٹی میری شاگرد رہیں۔اُنھیں پک کرنے اور ڈراپ کرنے کے لیے تشریف لاتے رہے اور میری اُن سے ملاقات رہی۔ میری یہ خوش قسمتی رہی کہ مجھے اُن سے اتنا قریب ہونے کا شرف حاصل رہا۔ قبلہ ماموں جان حکیم صاحبؒ کے ہمراہ بھی ساگر صاحب کے دولت کدئے پرجانے کا اتفاق ہوا۔میرئے چھوٹے بھائی میاں اکرم کی شادی میں ساگر صاحب اپنی تمام فیملی کے ساتھ تشریف لائے۔حضرت میاں وڈا صاحبؒ کے دربار شریف پر بھی اُنھوں نے حاضری دی۔میری یادیں ساگر صاحب کے حوالے سے اتنی زیادہ ہیں کہ اُنھیں ایک کالم میں سمونا ممکن نہیں ہے۔ ساگر صاحب نے بے شمار کتابیں لکھیں ہیں اُن کے حوالے سے کوئی بات کرنا مجھ ناچیز کے لیے ممکن نہیں ہے۔ میں ایک جاسوس تھا۔ کمانڈو، وادی لہو رنگ، را، بے شمار ناول، کتابیں ہیں جو کہ ہمارئے نوجوانوں کے لیے مشعل راہ ہیں۔ ہماری حکومت کو چاہیے کہ جناب ساگر صاحب جیسی شخصیت کے مقام کو سراہے اور اُن کی لازوال خدمات پر اُنھیں صدارتی تمغہ دئے۔ کیونکہ ساگر صاحب کھرئے انسان ہیںِ اس لیے اُن سے چاپلوسی نہیں ہوتی اور حکمرانوں کے کان تو ایسی باتیں پسند کرتے ہیں جو اُن کے کانوں کو بھلی لگیں۔ ساگر صاحب کی کتابوں سے اقتباسات کو ہمارئے تعلیمی نصاب کا حصہ بنایا جانا چاہیے۔ ساگر صاحب کی خدمات کو بطور سٹریٹجک اِنالسٹ لینا چاہیے۔ میرئے دُعا ہے کہ پاکستانی قوم کے اِس عظیم سپوت کو اللہ پاک عمر خضر عطا فرمائے۔ آمین۔ 

طارق اسماعیل ساگر کی شخصیت کا اہم ترین پہلو۔ پاکستان سے محبت...Written by صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ

طارق اسماعیل ساگر کی شخصیت کا اہم ترین پہلو۔ پاکستان سے محبت

صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ









طاررق اسماعیل ساگر ایک محب وطن قلمکار اور مجاہد کا نام ہے۔پاکستان کی جانب سے وطن عزیز کی حفاظت کے لیے قلمی جہاد کرنے والے ساگر صاحب نے خود انڈین قید کاٹی اور ایک جاسوس کی حثیت سے پاکستان کے لیے خود کو پیش کیے رکھا۔ ساگر صاحب وہ واحد قلمکار ہیں جن کو نسیم حجازی ثانی کہا جاسکتا ہے۔پاکستان سے محبت اول و آخر ساگر صاحب کی زندگی کا مرکز ومحور ہے۔ گزشتہ چار دہائیوں سے زائد عرصے سے ارض وطن پاکستان کے دفاع کے لیے قلمی محاذ پر ہمہ وقت تیار ساگر صاحب کا دل پاکستان کے موجودہ سیاسی و سماجی ماحول کڑھتا ہے۔ساگر صاحب کی تحریریں پڑھ کر پاکستان آرمی میں بھرتی ہونے والوں کی بڑی تعداد ہے۔ حضرت اقبالؒ سے محبت کرنے والے، صوم و صلوۃ کے پابند، ساگر صاحب پوری دنیا میں مانے جانے ناول نگار صحافی ہیں۔ آپ نے بے شمار ڈارمے لکھے، فلم بھی لکھی۔گذشتہ دنوں اُن کی خدمت میں پیش ہو کر اکتساب فیض کا موقع ملا۔ راقم کا تعلق ساگر صاحب سے 1983 سے ہے۔یوں اُن کے ساتھ تعلق کی بنیاد پاکستان سے محبت ، نبیﷺ سے محبت ہے۔بے شمار کتابوں کا خالق ہونے کے ناطے اور دبنگ صحافی ہونے کی وجہ سے اُن کے سامنے کو ئی نہیں ٹھر سکتا۔اُن کالم قومی اخبارات کی زینت بنتے ہیں ۔ تیس سال تک نوائے وقت میں کام کیا، جنگ میں بھی کچھ عرصہ رہے۔نیا جہان انٹرنیشنل میگزین کے نام سے حالات حاضرہ پر ایک ماہنامہ لاہور سے شائع کرتے ہیں۔اُن سے ملاقات میں اِس بات کا شدت سے احساس ہوا کہ پاکستان سے محبت کرنے والے اِس مخلص قلمکار کا دل پاکستانی سیاست کے کھلاڑیوں کی مکاربازیوں کی وجہ سے دکھی ہے۔میری گزارش پر فرمانے لگے میاں صاحب: اِس ملک کے حکمران پاکستان کی عوام کو اچھوت خیال کرتے ہیں۔ یہاں پر قبضہ گروپ چھائے ہوئے ہیں۔حکمران پاکستان کو اِس طرح کھارہے ہیں جس طرح یہ مال غنیمت کا لوٹا ہو ا مال ہے۔ساگر صاحب نے کمال محبت سے قبلہ پیرو مُرشد حضرت حکیم میاں محمد عنائت خان قادری نوشاہیؒ کا تذکرہ فرمایا۔ساگر صاحب قبلہ حکیم عنایتصاحبؒ سے کئی مرتبہ ملاقات فرما چکے تھے۔ کستان کی سرزمین کو جہاں دہشت گردی اور انتہا پسندی کا سامنا ہے ۔یہ درست ہے کی بھانت بھانت کی بولیا ں بولنے والے اِس وطن کی جڑوں کو کھو کھلا کر رہے ہیں یہ بھی درست ہے کہ ہمارا ازلی دُشمن بھارت اتنا مکار ہے کہ اِس کیحوالے سے ایک لمحے کے لیے بھی بھروسہ کرنا بے وقوفی کی انتہا ہے۔اِس شاطر دُشمن کے ہوتے ہوئے پاکستان کو دولخت ہونا پڑا اور اِس سارئے معاملے میں بھارت کا سو فیصد کردار تھا۔ اِس بات کا اظہار بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے بنگلہ دیش کی وزیراعظم کے پہلو میں بیٹھ کر کیا ہے کہ وہ بھی پاکستان کو دولخت کرنے والے میں پیش پیش تھا۔ دیکھیں ایک وزیر اعظم کا بیان دوسرئے ملک کی سلامتی کے حوالے سے۔ کہاں ہیں آداب سفارت کاری، کہاں ہیں روشن خیال لبرل فاشسٹ جو دن رات امن کی آشا کو لیے گھوم پھر رہے ہیں۔ کہاں ہیں وہ لوگ جو بھارت کے ساتھ تجارت کرنے کے لیے بے چین ہیں۔ستر سال گزرنے کے بعد بھی بھارت اپنے سے کئی گُنا چھوٹے ملک کو ہڑپ کرنے کے لیے تیار بیٹھا ہے۔ چند فی صد برہمن کو چھوڑ کر بھاتی تو کسی بھی دوسرئے کو انسان ماننے کے لیے تیار ہی نہیں ۔ حالیہ دنوں میں بھارت کے سابق آرمی چیف وی پی سنگھ کا ایک دلت لڑکے کی موت پر یہ بیان کہ وہ تو کتا تھا مر گیا تو کیا ہوا۔ کیا مطلب ہے؟۔ بھارت کے لیے سافٹ کارنر رکھنے والوں کی آنکھیں کھل نہیں سکیں ابھی تک کیا۔ اِس سارئے کھیل میں ایک شخص تنہا کھڑا ہے جو مادرِ وطن کے لیے اپنا تن من قربان کیے ہوئے ہے۔ میری مراد صحافی میدان میں قلم کے ساتھ جہاد میں مصروف طارق اسماعیل ساگر سے ہے۔ ساگر صاحب سے میرا تعلق اُس وقت سے ہے جب میں ابھی سکول میں زیر تعلیم تھا۔کہ میں نے اِنکا ناول میں ایک جاسوس تھاپڑھا۔ اُس کے بعد اِن کو خط لکھا انھوں نے کمال محبت سے اُس کا جواب دیا۔ پھر میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد میں انھیں نوائے وقت کے دفتر میں ملنے گیا۔ یوں عقیدت و احترام کا رشتہ گذشتہ 31 سالوں سے قائم دائم ہے۔ یوں اُن کی تحریریں پڑھ کر راقم کے دل میں پاک فوج اور وطن سے محبت کا جذبہ اپنے کمال عروج کو ہپنچا کہ پاکستان سے محبت میرا ایمان ہے۔ ساگر صاحب نے اپنے زندگی کا سار عرصہ قلمی جہاد کرتے ہوئے گزارا۔ کچھ عرصہ پہلے اُنھوں نے اپنی ایک سرگزشت وہ مجھے کھا گئے کے نام سے لکھی جس کے کچھ اقتباس راقم نے بھی ساگر ڈائجسٹ میں پڑھے۔ یقینی طو ر پر ایک صاف سچے کھرئے انسان کو معاشرئے میں اپنا کام کرنے کے لیے بہت سے مسائل کا سامناکرنا پڑتا ہے۔ یہ سب کچھ جناب ساگر صاحب کے ساتھ بھی ہواکہ وہ لوگ جو صحافت کے ٹھیکیدار بنے ہوئے ہیں ساگر صاحب کی سرگزشت پڑھنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ اُن کا اصل چہرہ کیا ہے۔ لیکن ساگر صاحب امیدکے راہی ہیں اُن کے ہاں مایوسی نہیں ہے۔ ساگر صاحب کی کتابیں نوجوان نسل میں اتنی مقبول ہیں کہ اپنی مثال آپ ہیں۔پاک فوج کے ساتھ ساگر صاحب کی محبت پاکستان سے محبت ہے کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ پاک فوج کی قربانیوں کا ذکر ساگر صاحب کے ناولوں اور کالموں میں بجا طور پر ملتا ہے۔ساگر صاحب کو مجھے بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ہے انتہائی نیک انسان ہیں اللہ پاک سے ڈرنے والے ہیں اور روایتی صحافت سے بہت دور ہیں۔ صوم و صلوۃ کے پابند ہیں اور اُن کا معاشی سٹیٹس دیکھ کر اندازہ ہوجاتا ہے کہ اتنا بڑا رائٹر خود کو رزقِ حلال کے ساتھ جورئے ہوئے ہے۔ مجھے اِن کے ساتھ سفر پر جانے کا تفاق ہوا وہ یوں کہ میرئے ماموں جان قبلہ حکیم عنائت خان قادری نوشاہی ؒ سے ملنے کا اشتیاق انھیں سرگودہا لے گیا۔ یوں وہ سفر میرئے لیے یادگار بن گیا کہ ساگر صاحب سے مجھے اکتساب فیض کا موقع ملا۔ اور انھوں نے مجھے اپنی ذاتی زندگی کی کہانی سنائی۔ پاکستان کے جاسوس۔ بھارت کی جیل سے فرار۔ مادر وطن کے لیے اپنے زندگی کو ہر طرح کی مشکلات میں ڈالے رکھا۔ ساگر صاحب یوسف زئی پٹھان ہیں یوں ساگر صاحب نے پاک وطن کی حرمت کے لیے واقعی ہمیشہ ایک بہادر سپاہی کا کردار ادا کیا ہے۔ تقریباً دو سال تک میری روزانہ اِن سے ملاقات رہی کہ ساگر صاحب کی بڑی بیٹی میری شاگرد رہیں۔اُنھیں پک کرنے اور ڈراپ کرنے کے لیے تشریف لاتے رہے اور میری اُن سے ملاقات رہی۔ میری یہ خوش قسمتی رہی کہ مجھے اُن سے اتنا قریب ہونے کا شرف حاصل رہا۔ قبلہ ماموں جان حکیم صاحبؒ کے ہمراہ بھی ساگر صاحب کے دولت کدئے پرجانے کا اتفاق ہوا۔میرئے چھوٹے بھائی میاں اکرم کی شادی میں ساگر صاحب اپنی تمام فیملی کے ساتھ تشریف لائے۔حضرت میاں وڈا صاحبؒ کے دربار شریف پر بھی اُنھوں نے حاضری دی۔میری یادیں ساگر صاحب کے حوالے سے اتنی زیادہ ہیں کہ اُنھیں ایک کالم میں سمونا ممکن نہیں ہے۔ ساگر صاحب نے بے شمار کتابیں لکھیں ہیں اُن کے حوالے سے کوئی بات کرنا مجھ ناچیز کے لیے ممکن نہیں ہے۔ میں ایک جاسوس تھا۔ کمانڈو، وادی لہو رنگ، را، بے شمار ناول، کتابیں ہیں جو کہ ہمارئے نوجوانوں کے لیے مشعل راہ ہیں۔ ہماری حکومت کو چاہیے کہ جناب ساگر صاحب جیسی شخصیت کے مقام کو سراہے اور اُن کی لازوال خدمات پر اُنھیں صدارتی تمغہ دئے۔ کیونکہ ساگر صاحب کھرئے انسان ہیںِ اس لیے اُن سے چاپلوسی نہیں ہوتی اور حکمرانوں کے کان تو ایسی باتیں پسند کرتے ہیں جو اُن کے کانوں کو بھلی لگیں۔ ساگر صاحب کی کتابوں سے اقتباسات کو ہمارئے تعلیمی نصاب کا حصہ بنایا جانا چاہیے۔ ساگر صاحب کی خدمات کو بطور سٹریٹجک اِنالسٹ لینا چاہیے۔ میرئے دُعا ہے کہ پاکستانی قوم کے اِس عظیم سپوت کو اللہ پاک عمر خضر عطا فرمائے۔ آمین۔